سلطان العارفین حضر ت سخی سلطان باھوؒ کے بعد سلسلہ سروری قادری کے شیخِ کامل
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سید محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ
تحریر: ناصر مجید سروری قادری۔اسلام آباد
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت امانتِ فقر یعنی امانتِ الٰہیہ ہے۔ صوفیا کرام کے مطابق امانتِ الٰہیہ سے مراد خود اللہ پاک کی ذات ہے جس نے اپنے آپ کو سب سے پہلے اسم اللہ ذات کی صورت میں ظاہر کیا اور اپنی تمام تر قوتیں، تصرفات و تجلیات اور امرِ کُن کو فقط اسم اللہ ذات کی کنہ میں جمع فرمایا۔ اسی امانت کو اٹھانے سے تمام مخلوقات نے عاجزی ظاہر کی اور انسان ہی اس امانت کے بوجھ کو اٹھانے کا اہل ثابت ہوا۔ انسانِ کامل ہی اس امانت کا حامل ہوتا ہے جو اپنے جیسے صادق طالبِ مولیٰ کی تلاش میں ہوتا ہے جسے وہ امانت منتقل کی جا سکے۔ سلسلہ سروری قادری کے امام سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی حیاتِ مبارکہ میں تیس سال ایسے ہی گوہر نایاب کے متلاشی رہے لیکن اپنی زندگی میں ایسا طالب نہ پا سکے۔ امانتِ الٰہیہ کے حقدار سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے ایک سو انتالیس (139) سال بعد دربار سلطان باھُوؒ پر پہنچے اور اپنا ورثہ امانتِ فقر کی صورت میں حاصل کیا۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی ؒ کی ولادت مبارک 29 رمضان المبارک 1186 ھ (24 دسمبر 1772 ) جمعتہ المبارک کی شب مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؒ کا شجرہ نسب انیس(19 ) واسطوں سے سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے جا ملتا ہے۔آپؒ سیّدنا غوث پاکؓ کی آل ہونے کے ساتھ ساتھ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے مرشد سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ کے پڑپوتے بھی ہیں۔
سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کے والد محترم کا اسمِ گرامی سیّد عبدالرحیمؒ اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی سیّدہ مومنہؒ ہے۔ آپؒ کا سلسلہ نسب ستائیس (27 ) واسطوں سے حضرت امام سیّد تقی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ گویا سیّد محمد عبداللہ شاہؒ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ ؒ نے فقط بارہ سال کی عمر میں مکمل قرآنِ پاک حفظ کر لیا۔ بچپن سے ہی آپؒ کی طبیعت میں بے چینی تھی جب تک قرآنِ پاک کی تلاوت یا عبادت میں مصروف رہتے‘ سکون محسوس کرتے لیکن جیسے ہی فارغ ہوتے بے چینی اور بے سکونی میں اضافہ ہو جاتا۔ آپؒ کے نانا سیّد زکی الدینؒ درویش صفت انسان تھے اور آپؒ سے خاص محبت رکھتے تھے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت و سیرت سے آپؒ کو نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ہر وہ جگہ دکھائی جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا گزر ہوا۔ اپنے وصال سے ایک رات قبل بھی وہ آپؒ کو جنت البقیع میں لے کر گئے اور آپؒ کو سیّدہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہراؓ اور سیّدنا حضرت امام حسنؓ کے سپرد فرمایا اور عرض کی ’’آپؓ کی آل ہے اور اس غریب الوطن کا نواسہ ہے میرے بعد اس کا خیال رکھنا۔‘‘ پھر آپؒ کو لے کر بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہوئے اور رو رو کر عرض کی ’’اے آقا! یہ آپ کا نواسہ ہے اور اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حوالے کر رہا ہوں اس کو اپنی وراثت سے محروم نہ رکھنا۔‘‘
یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کونسی ایسی وراثت تھی جس کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نانا محترم سیّد زکی الدین رحمتہ اللہ علیہ نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں گڑ گڑا کر دعا کی کہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے نواسے کو اس وراثت سے محروم نہ رکھنا۔ وہ وراثت امانتِ فقر ہی تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فخر فرمایا اور جس کے حصول کے لیے انبیا علیہم السلام نے اُمتِ محمدیہ میں شامل ہونے کی اللہ تعالیٰ سے عرض کی۔ فقر دراصل معرفت، دیدار اور وصالِ الٰہی کی راہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ امانت سیّدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اور وہاں سے امام حسن بصری رضی اللہ عنہٗ سے ہوتی ہوئی سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچی۔ فقرا کاملین کے نزدیک اصل حقیقت اور کامیابی فقرِ محمدی کا حصول ہے جس سے ایک طالبِ مولیٰ اپنے آپ کو مجلسِ محمدی کی حضوری میں پہنچاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ سے منظور ہو کر کامیابی یعنی وصالِ الٰہی تک پہنچتا ہے۔ جیسا کہ اقبالؒ نے فرمایا:
بہ مصطفیؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی‘ تمام بولہبی است
ترجمہ:توخود کو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ تک پہنچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی مکمل دین ہیں جو خود کو ان تک نہیں پہنچاتا اس کا دین ابولہب کا دین ہے۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نانا کی دعا قبول ہوئی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں منظور ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نانا نے آپ کو گھر چھوڑا اور فجر کی نماز کے وقت اطلاع ملی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نانا وفات پا گئے ہیں۔ نانا کی وفات کے بعد سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بہت صدمہ پہنچا کیونکہ سکون کی جو کیفیت ان کی صحبت سے حاصل ہوتی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ تلاشِ حق میں ویرانوں میں نکل جاتے، دیوانہ وار مدینہ منورہ کی گلی کوچوں سے دور نکل جاتے اور کئی بار اس سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاؤں مبارک زخمی بھی ہو جاتے اور ایسی کیفیت میں لوگ آپ کو دیوانہ سمجھنے لگے کیونکہ وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی باطنی کیفیت سے ناآشنا تھے۔ والدین نے 25 برس کی عمر میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نکاح آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ماموں کی بیٹی سے کروا دیا۔ شادی کے بعد بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کیفیات میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ 26 سال کی عمر میں 1212ھ (1798ء) میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دل دنیا سے بالکل اچاٹ ہو گیا اسی وجہ سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ازدواجی زندگی بھی برقرار نہ رہ سکی۔ اصل وجہ تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کا باطنی اضطراب تھا جو معرفتِ الٰہی کیلئے تڑپ رہا تھا۔ والد اور والدہ کے انتقال کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کاروبار میں دلچسپی نہ لی جس پر آپؒ کے ماموں محمد یعقوب قابض ہو گئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ بے چینی کی حالت میں عبادت اور تلاوتِ قرآنِ پاک میں مشغول رہتے مگر دلی سکون حاصل نہ ہوتا۔ اس بڑھتی دیوانگی میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کئی دن بھوکے پیاسے معتکف رہنے لگے۔ اسی بے چینی و اضطرابی کی حالت میں نو (9) سال گزر گئے۔ ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ جنت البقیع میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف عشق و دیوانگی کے عالم میں دیکھ رہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کیسے ہو عبداللہ؟ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔ جنہوں نے فرمایا کہ جا کر نانا (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے قدموں میں بیٹھ جاؤ اور جب تک وراثتِ فقر عطا نہ کریں مسجدِ نبویؐ سے باہر نہ نکلنا خواہ موت آ جائے۔ اسی وراثتِ فقر کے حصول کیلئے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مسجدِ نبوی میں خدمت شروع کر دی اور صرف اس غرض کے حصول کو اپنا مقصدِ حیات بناتے ہوئے خود کو وقف کر دیا۔ چھ سال کی عبادت گزاری کے بعد ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خواب میں دیدار کی نعمت عطا کی اور خدمت گزاری کا حاصل دریافت کیا جس کے جواب میں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے امانتِ فقر کی التجا کی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہند میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی طرف جانے کا اشارہ فرمایا۔ نیند سے بیدار ہونے کے بعد سیّد محمد عبداللہ شاہؒ شش و پنج میں مبتلا رہے کہ رشد و ہدایت کا منبع تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارکہ ہے تو پھر ہند جانے کا کیوں فرمایا؟ یہی سوچ کر خدمت و غلامی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔ مزید چھ سال کی خدمت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دوبارہ دیدار کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور دریافت کیا کہ غلام کیا چاہتا ہے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پھر وہی عرض پیشِ خدمت کی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا فقر سلطان باھُو سے ہی ملے گا اور تربیت کے لیے سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے سپرد کر دیا۔
یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ رشد و ہدایت کا منبع آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل ذاتِ اطہر ہی ہے پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے سے دور ہند کے علاقے میں کیوں بھیجا؟ دراصل راہِ فقر و سلوک میں ظاہری بیعت بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ بشرطیکہ وہ بیعت مرشد کامل اکمل حاملِ امانتِ الٰہیہ کے دستِ اقدس پر ہو جیسا کہ آقا پاک علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا اَلرَّفِیْقُ ثُمَ الطَّرِیْقُ ترجمہ: پہلے رفیق تلاش کرو پھر راستہ چلو۔ ایک اور جگہ فرمایا ’ترجمہ: جس کا مرشد نہیں اس کا مرشد شیطان ہے۔‘‘ اسی مقصد کے حصول کے لیے آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اس وقت کے حاملِ امانتِ فقر، مرشد کامل اکمل سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھیجا جو طالبِ حق کے منتظر تھے۔ جن کی محرمِ راز کی دیرینہ تلاش کو تشنگی بخشنے کے لیے درِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر کے درخشاں ستارے نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے ہند کے سفر کا آغاز شاہِ بغداد امیر الاولیا سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے وسیلہ سے کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دو سال بغداد میں گزار کر شاہِ بغداد سے باطنی تربیت حاصل کی۔ جس کے بعد آپ رضی اللہ عنہٗ نے سیّد محمد عبداللہ شاہؒ کو اپنے فرزند پیر سیّد عبدالرزاق جیلانیؒ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آپ کا فرزند ہے اور انہیں آگے پہنچانا اب آپ کی ذمہ داری ہے اور سیّد محمد عبداللہ شاہؒ سے فرمایا کہ سروری قادری سلسلہ کے ہر شیخ سے ترتیب سے ملتے ہوئے ہمارے محبوب سلطان باھُوؒ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ وہی تمہاری منزل ہے اور وہیں سے تمہیں فقر ملے گا۔ اسی ترتیب کے تحت آپ رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ سروری قادری کے تمام مشائخ کی باطنی تربیت سے سیراب ہوتے ہوئے اپنے مرشد کی حقیقت سے پہلے ہی روشناس ہو چکے تھے۔ اور اسی اسرارِ محبت کو تپتی آگ کی طرح اپنے دل میں لئے آپ حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے دربارِ عالیہ میں 12 ربیع الاوّل 1241ھ بمطابق 24 اکتوبر 1825ء کو حاضر ہوئے جہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد اپنے طالبِ خاص اور مریدِ حق کی تلاش میں مزارِ اطہر سے باہر منتظر تھے اور فرمایا ’’آئیے عبداللہ شاہ صاحب ہم تو آپ کاہی انتظار کر رہے تھے۔‘‘ جب عاشق معشوق ہم نظر ہوئے تو اس منظر کا تصور عقل کے دائرہ سے باہر ہے۔ جب معشوق نے صورت مبارک کا دیدار کیا اور جلوۂ حق کی معرفت حاصل ہوئی تو مجذوبیت و دیوانگی کے عالم میں سلطان العارفینؒ کے گرد طواف کرنے لگے۔ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے اس شدت و دیوانگی کو دیکھ کر سیّد عبداللہ شاہؒ کو بیٹھنے کا حکم فرمایا۔ جب سیّد محمد عبداللہ شاہؒ نہ رکے تو حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنے دست اقدس ان کے گھٹنے پر مارے جس سے سیّد عبداللہ شاہؒ بیٹھ گئے اور ان ہاتھوں کے نشان نہ صرف ان کے گھٹنوں پر پڑ گئے بلکہ ان کی اولاد میں بھی یہ نشان گھٹنوں پر ظاہر ہوئے۔
منتقلی امانتِ الٰہیہ کے حصول کے بعد سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو نکاح کا حکم دیا اور ریاست بہاولپور کے شہر احمد پور شرقیہ تشریف لے جانے کا فرمایا۔ حضرت سلطان باھُوؒ کے حکم پر سیّد محمد عبداللہ شاہؒ نے احمد پور شرقیہ میں ڈیرہ لگایا اور اپنے وصال تک وہیں رہے۔
سیّد محمد عبداللہ شاہؒ کو مجلسِ محمدی سے سلطان التارکین کا لقب عطا ہوا کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا سب کچھ ترک کر کے اپنے آپ کو بارگاہِ اقدس کے لیے وقف کر دیا تھا اورآپ رحمتہ اللہ علیہ نے تلاشِ حق کے لیے جن مشکلات کا سامنا کیا اور جس تڑپ، خلوص اور عشق سے عرصہ دراز تک حکمِ نبویؐ کے تحت مرشد کامل اکمل تک رسائی کا سفر کیا اور حصولِ فقرکے بعد اتباعِ مرشد میں عالمِ دنیاسے بے نیاز خلوت نشینی و ترکِ دنیا میں جو وقت گزارا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ چونکہ امانتِ الٰہیہ کے حامل اور امانتِ فقر کے وارث کے طور پر ازل سے منتخب شدہ تھے اس کے باوجود تلاشِ حق اور طلبِ مولیٰ میں آپؒ کی حیاتِ مبارکہ میں ایسے طوفان آتے رہے جو چند لمحات میں پہاڑوں کو بھی خس وخاشاک بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ لیکن کسی بڑی سے بڑی مصیبت و آزمائش چاہے وہ ظاہری ہو یا باطنی‘ نے آپؒ کو بال برابر بھی پیچھے نہیں سرکایا، بلکہ آپؒ کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی اندھیری اور طوفانی رات جس سے ہر چیز اللہ کی امان مانگے‘ کو بڑی ہمت اور حوصلے سے چیرتے ہوئے اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
درد منداں دیاں آہیں کولُوں، پہاڑ پتھر دے جھڑ دے ھُو
درد منداں دیاں آہیں کولوں، بَھج نانگ زمین وِچ ورڈے ھُو
درد منداں دیاں آہیں کولوں، آسمانوں تارے جھڑ دے ھُو
درد منداں دیاں آہیں کولوں باھوؒ ، عاشق مول نہ ڈر دے ھُو
مفہوم:حق تعالیٰ کے عاشق نے عشق کی امانت کو قبول کر لیا ہے جس کو زمین اور آسمان کی کوئی شے بھی اٹھانے کو تیار نہ تھی۔ اُس امانت نے ان کی یہ حالت کردی ہے کہ ان عاشقانِ حقیقی کی آہ سے پتھر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں، سانپ دوڑ کر زمین میں گھس جاتے ہیں اور آسمان سے تارے ریزہ ریزہ ہو کر گر جاتے ہیں لیکن اس عاشقانہ آہ و زاری سے صرف عاشقِ ذات نہیں ڈرتے کیونکہ وہ خود دیدارِ ذات کے انوار و تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف ہیں اور ہر لمحہ ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کا نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمدنجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ جس آزمائش سے گزر کر ایک مرشد کامل اکمل تلقین و ارشاد کی مسند سنبھالتا ہے وہ ہر طالبِ حق کو اسی طریقے سے آزماتا ہے۔ اور جس شدت سے سلطان التارکین نے تلاشِ حق کی آپ رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی طرح اپنے طالبِ حق کے لیے منتظر تھے۔ جو تلاش جلد ہی ختم ہوئی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیرمحمد عبد الغفور شاہ صاحب کو امانتِ فقرعطا کرنے کے بعد اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے۔ آپؒ نے نو سال اپنے فرزند حقیقی کی باطنی تربیت کی۔ سیّد محمد عبداللہ شاہؒ کے وصال سے قبل پیر محمد عبدالغفور شاہؒ اپنے مرشد کی صحت یابی کی عرض کے لیے دربارِ عالیہ حضرت سخی سلطان باھُوؒ میں حاضر ہوئے۔ ابھی حاضری دی ہی تھی کہ کسی نے عقب سے السلام علیکم کہا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مڑ کر دیکھا تو وہ آپ کے مرشد تھے جنہوں نے آپ کو پکڑ کر سینے سے لگایا اور امانتِ فقر منتقل فرمائی۔ دراصل ظاہری طور پر سیّد محمد عبداللہ شاہؒ احمد پور شرقیہ میں موجود تھے لیکن امانتِ الٰہیہ کو منتقل کرنے کے لیے روحانی طور پر دربار سلطان باھُو پر حاضر ہوئے اور اس کے بعد ان کا وصال ہو گیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا وصال 29 رمضان المبارک 1276ھ بمطابق 20 اپریل 1860ء بروز جمعتہ المبارک ہوا۔
سلطان التارکین رحمتہ اللہ علیہ کو ظاہری دنیامیں زیادہ شہرت حاصل نہ ہوئی کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے خود کو مخفی رکھا۔ مگر وقت کے ساتھ جب سلسلہ سروری قادری کو ظاہری طور پر سجادہ نشینی اور گدی نشینی کا برقعہ پہنایا گیا اور سلسلہ کے مشائخ کو مختلف سلاسل سے ظاہر کر کے بگاڑ کا شکار بنایا گیا تو عہدِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اس سلسلہ کی حقیقت اور مشائخ سروری قادری کے مقام و مرتبہ سے سب کو آگاہ کیا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اس ڈیوٹی کو اس خوبصورتی اور لگن سے نبھایا کہ اب رہتی دنیا تک سلسلہ سروری قادری اور ان کے مشائخ کی حقیقت سب پر واضح رہے گی۔ آپ مدظلہ الاقدس نے نہ صرف دربار سلطان التارکین کو نئے سرے سے تعمیر کروایا بلکہ پوری دنیا کو آپؒ کی شان سے آگاہ کرنے کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی سوانحِ حیات پر تحقیق کر کے اسے اردو اور انگریزی زبان میں شائع کروایا۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کا ہی کارنامہ ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دربار جو سجادہ نشینوں اور نگرانوں کی عدم دلچسپی کا شکار تھا، اب لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے دربار پاک پر عرس مبارک کی عظیم الشان محافل منعقد کروا کر اہلِ علاقہ اور عوام الناس کو سیّد محمد عبداللہ شاہؒ کی شان اور مرتبہ سے روشناس کروایا۔
اس لیے ہمیں اس چیز کی شدت سے ضرورت ہے کہ آپؒ کی سیرت کے پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اپنا سب کچھ خاص طورپر مال و دولت اور اپنی ذات مرشد کامل کے توسط سے اللہ کی بارگاہ میں پیش کر دیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مرشد کے وسیلہ سے اپنی ذات میں فنا و بقا عطا فرمائے۔ (آمین)