Sultan-ul-Sabrieen

سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفورشاہ ہاشمی قریشی ؒ –Sultan-ul-Sabireen Hazrat Sakhi Sultan Pir Mohammad Abdul Ghafoor Shah

Spread the love

Rate this post

سلطان التارکین حضر ت سخی سلطان سید محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کے بعد سلسلہ سروری قادری کے شیخِ کامل

سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفورشاہ ہاشمی قریشیؒ 

تحریر:انیلا یٰسین سروری قادری۔ لاہور

عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات

ائنات کا معرضِ وجود میں آنا عشق کی ابتدا ہے۔ حدیثِ قدسی کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا  فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِیْ اُعْرَفَ (ترجمہ: میں ایک چھپاہوا خزانہ تھا میں نے چاہا پہچانا جاؤں میں نے مخلوق کو تخلیق کیا تاکہ میری پہچان ہو) یہی ظاہر کرتی ہے کہ چاہے جانے کا جذبہ اس قدر شدت کا حامل تھا کہ اسے عشق کے نام سے تعبیر کیا گیا جس کے نتیجے میں نورِ محمدی کا اظہار ہوا جس کے آئینہ میں اپنے ہی جمال کا مشاہدہ کر کے اللہ پاک نے اسے محبوبِ ربّ العالمین کا خطاب دیا۔ عشق کا یہ خاص طریق فقرِ محمدی کا خاصہ ہے کہ دیدار کا یہ راستہ امتِ محمدیہ کے لیے فقر کی صورت میں ہی عطا ہوا۔ فقر کی اس امانت کے پاسدار باغِ نبوت کے پھول یعنی اہل بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور فقرا کاملین ہیں جو تا قیامت امانتِ فقر کے اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ یہ احسانِ الٰہی ہے جو اس نے بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا نظام فقرِ محمدی کی صورت میں قائم کیاہے۔
فقر کے مختارِ کُل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پاک ہے اور آپ کی اجازت سے ہی سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اس پاک نعمت کواس دل پر نازل فرماتے ہیں جنہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس نعمتِ عظمیٰ (امانتِ فقر) کے لیے چُن لیتے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ سروری قادری کے بانی اور امانتِ فقر کے حامل فقیر ہیں۔ آپ کے بعد یہ امانت سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل ہوئی جنہوں نے اس امانتِ فقر کو اپنے فرزندِ حقیقی سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ہاشمی قریشی رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل فرمایا۔ آپ سلسلہ سروری قادری کے ستائیسویں (27) امام ہیں۔

ولادت باسعادت

حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہؒ 14 ذوالحجہ 1242ھ (9۔جولائی 1827ء) بروز سوموار نمازِ مغرب کے وقت چوٹی ضلع ڈیرہ غازی خاں میں فضل شاہ ؒ کے گھر پیدا ہوئے۔

سلسلہ نسب

سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ قریشی ہاشمی ؒ ہیں۔ 26 واسطوں سے آپؒ کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چچا سیّد ا لشہدا حضرت امیر حمزہؓ سے جا ملتا ہے۔
آپؒ کے والد محترم پیر فضل شاہؒ سلسلہ چشتیہ کے عظیم المرتبت بزرگ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے اور اکثرو بیشتر بڑی محبت و عقیدت سے آپؒ کی محافل میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ایک بار تشریف لے گئے تو خواجہ صاحب ؒ نے پوچھا فضل شاہ صاحب ’’گھر میں کوئی امید ہے۔‘‘ عرض کیا ’’یا حضرت اہلیہ امید سے ہیں‘‘ حضرت خواجہ سلیمان تونسویؒ نے فرمایا ’’تیرے گھر میں ایک ولیِ کامل پیدا ہونے والا ہے تجھے مبارک ہو۔‘‘

تلاشِ حق اور بیعت

آپؒ بچپن ہی سے حسین و جمیل تھے ۔نورِ حق ازل سے ہی آپؒ کی پیشانی مبارک سے جھلکتا تھا۔ جو بھی آپ ؒ کے چہرۂ اقدس کو دیکھتا محبت سے دیکھتا رہ جاتا۔ جب آپؒ کی عمر مبارک 8 برس ہوئی تو شفیق والد محترم کا وصال ہو گیا ۔ والدہ محترمہ نے آپؒ کی تربیت پر بہت توجہ دی یہی وجہ تھی کہ آپؒ 18 سال کی عمر مبارک میں تمام دینی علوم حاصل کر چکے تھے ۔ جس قدر دینی علم بڑھتا جاتا تلاشِ حق کی تڑپ میں اسی قدر اضافہ ہوتا جاتا۔20 سال کی عمر مبارک میں والدہ ماجدہ کے وصال کے بعد آپؒ کی بے چینی و بے قر اری مزید بڑھ گئی ۔جب طبیعت میں تلاشِ حق کا غلبہ ہوتا تو آپؒ بے چینی کے عالم میں جنگلوں اور ویرانوں میں دور تک نکل جاتے۔یہاں تک کہ آپؒ کے پاؤں مبارک ز خمی ہو جاتے مگر بے چینی میں کمی نہ آتی۔اسی حالت میں ایک روز دِن کے وقت آپؒ ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے کہ خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان با ھُوؒ کے دیدار سے مشرف ہوئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم فرمایا کہ احمد پور شرقیہ چلے جاؤ وہاں سیّد محمد عبداللہ شاہ جیلانیؒ تمہارا انتظار کر رہے ہیں تم فقر کی امانت کے لیے منتخب ہو چکے ہو۔ اس وقت آپؒ کی عمر مبارک تقریباً 25سال تھی۔ جیسے ہی نیندسے بیدار ہوئے تکمیلِ حکم کے لیے ریاست بہاولپور کے شہر احمد پور شرقیہ روانہ ہو گئے ۔ اس دِن جو چوٹی سے نکلے تو دوبارہ کبھی اس طرف کا رخ نہ کیا اور ساری عمر اللہ تعالیٰ کی راہ میں گزار دی۔ آپؒ طویل مسافت طے کرنے کے بعد 8شوال 1267ھ (5۔اگست 1851ء) بروز منگل احمد پور شرقیہ پہنچے ۔ حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کو دیکھتے ہی دل میں جو بے چینی اور بے سکونی عرصہ دراز سے بسیرا کیے ہوئے تھی ختم ہوگئی اور دِل نے گواہی دی کہ یہی وہ صورت ہے جس کی تلاش میں دربدر پھر رہا ہوں۔ آپؒ نے آگے بڑھ کر قدم بوسی کی اور ادب سے زمین پر بیٹھ گئے۔ حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ صاحبؒ نے تمام احوال دریافت فرمایا آپؒ نے عرض کردیا۔نہ چاہتے ہوئے بھی آپؒ قدموں میں گر کر رونے لگے۔ حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ ؒ نے آپ کو اٹھایا اور سینے سے لگا کر فرمایا کہ آج آرام کر لو کل صبح بات کریں گے۔
صبح جب آپؒ حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ ؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حویلی کے کنویں پر پڑی مٹی ہموار کرنے کو کہا۔ مٹی ہموار کرتے کرتے آپؒ کے ہاتھ لہولہان ہوگئے اور خون جاری ہوگیا۔ مگر آپؒ زخمی ہونے کے باوجود کام کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد سیّد محمد عبداللہ شاہؒ نے آپ کو بلایا اور ہاتھ دیکھنے کے بعد کہا ’’تمہارے ہاتھ تو بہت نرم و نازک ہیں۔ تم نے انہیں اتنی تکلیف کیوں دی؟‘‘ آپؒ نے عرض کیا ’’حضور! اللہ تعالیٰ کی تلاش میں نکلا ہوں اگر اس دوران ہاتھ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں تو بھی کوئی پرواہ نہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ ؒ نے فرمایا ’’تو صحیح انتخاب ہے اور جو انتخاب کرتے ہیں وہ ایسے ہی نہیں کرلیتے۔‘‘ اس کے بعد فوراً مرہم منگوایا۔ سیّد محمد عبداللہ شاہؒ مرہم ہاتھوں پر لگاتے جاتے اور فرماتے جاتے ’’بڑے نازک ہاتھ ہیں، بڑے نازک ہاتھ ہیں، بڑے نازک ہاتھ ہیں۔ یہی تو ہمیں چاہئیں۔‘‘ مرہم کر کے پٹی باندھی اور تین روز بعد 11شوال 1267ھ (8۔ اگست 1851 ) بروز جمعتہ المبارک بیعت فرما کر اسمِ اللہ ذات عطا فرمایا جو سونے کا بنا ہوا تھا۔ اس کے بعد آپؒ تمام تعلیم و تدریس، گھر بار بھول گئے اور مرشد کے در کے ہی ہو کر رہ گئے۔ آپؒ نے 8 سال‘ گیارہ ماہ اور تقریباً 21 دن مرشد کے ساتھ گزارے۔
کچھ نادان پیرمحمد عبدالغفور شاہؒ کو سلسلہ چشتیہ سے منسوب کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بات بغیر کسی تحقیق اور عقلی دلائل کے کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے حضرات آپ رحمتہ اللہ علیہ کو چشتیہ سلسلہ کے بزرگ خواجہ سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب کرتے ہیں۔ مگر اس کا تذکرہ ان کے نسب یا خلفا کی کسی فہرست میں نہیں ملتا۔ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ایک سے زیادہ سلاسل سے خلافت کے قائل نہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس جو سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغرعلی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد امانتِ فقر کے حقیقی وراث ہیں، نے آپؒ پر لگی اس تہمت کو دور کیا۔ اس منسوب غلط روایت کو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے بڑی تحقیق اور واضح ظاہری و روحانی دلائل سے مجتبیٰ آخرزمانی میں مرتب کیا ہے۔آپ مدظلہ الاقدس کے اس تحفہ پر پیر محمد عبدالغفور شاہؒ نے دربار سے روحانی فیض کو دوبارہ جاری فرمایا۔

عشقِ مرشد

مولانا روم ؒ فرماتے ہیں:
عشق آں شعلہ است کہ جوں بر فروخت
ہر کہ جز معشوق باشد جملہ سوخت
ترجمہ: عشق ایسا شعلہ ہے جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق (مرشد) کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔
سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ہاشمی قریشیؒ کا عشقِ مرشد بھی بے مثال تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ تمام تعلیم و تدریس گھر بار بھول گئے اور مرشد کے در کے ہی ہو کر رہ گئے۔ آپؒ نے اپنے مرشد کی شان میں کئی منقبتیں تحریر فرمائی ہیں جن سے آپؒ کا اپنے پیارے مر شد سلطان التارکین حضرت سخی سلطان محمد عبداللہ شاہ ؒ مدنی جیلانی سے بے پناہ عشق و محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
ذیل میں آپ ؒ کی ایک منقبت کی شرح تحریر کی جا رہی ہے جو آپؒ نے اپنے مرشدسلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کی شان میں تحریر فرمائی ہے:
نور اللہ کر آیا تجلّٰی جوڑ شکل شاہانی
پیر عبداللہؒ شاہ گُل کِھڑیا باغوں شاہ جیلانیؓ
شاہِ خوباں محبوباں دا ہادی ہے لاثانی
شمس قمر تے لیل قدر سبھ ویکھ رہن حیرانی
عارف کامل خاص مکمل صاحب عین عیانی
سَے مشتاق جمال اللہ تے جان کرن قربانی
نور اللہ کر آیا تجلّٰی جوڑ شکل شاہانی
پیر عبداللہؒ شاہ گُل کِھڑیا باغوں شاہ جیلانیؓ
مفہوم:سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ہاشمی قریشیؒ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان محمد عبداللہ شاہ ؒ مدنی جیلانی کی شان اور اعلیٰ مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے مرشد کی ذات پاک نورِ حق تعالیٰ کی آماجگاہ ہے اور آپؒ کے اعلیٰ حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرا محبوب غوث الاعظم محبوبِ سبحانی سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی پاکیزہ اولاد پاک ہے۔ میرے مرشد کریم نورِ حق تعالیٰ کی تمام تر خوبیوں اور خوبصورتیوں کے پیکر ہیں اور صادق طالبانِ مولیٰ کو اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت کی راہ دکھانے والے ہادی ہیں۔میرے مرشد کی ذات پاک میں نورِ حق تعالیٰ اس قدر ظاہر ہے کہ سورج،چاند، ستارے اور تمام مخلوقات حیرانی سے اس نور کو دیکھ رہی ہیں اور آپؒ اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا صاحبِ تصرف فنا فی اللہ بقا باللہ فقیرِ کامل ہیں اور ھُو کے عین مظہر ہیں۔ میرے مرشد کی شان یہ ہے کہ آپؒ کی نگاہِ کامل عالمِ امر اور عالمِ خلق کی ہر شے سے واقف ہے اور سینکڑوں عشاق اور طالبانِ حق اس جمالِ الٰہی پر اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
سلک سلوک دے کھولے ہادی جانت دُرمعانی
کر کے جوش و خروش اوچھلے وجد دی طغیانی
ہِن شہباز ہدایت دے کیا چال چلن مستانی
مارن جوڑ اناالحق نعرہ ذات اللہ وچ فانی
نور اللہ کر آیا تجلّٰی جوڑ شکل شاہانی
پیر عبداللہؒ شاہ گُل کِھڑیا باغوں شاہ جیلانیؓ
مفہوم:آپ ؒ فرماتے ہیں میرامحبوب معرفتِ حقیقی کی تمام راہوں سے واقف ہے اس لیے آپؒ طالبانِ مولیٰ پر راہِ فقر کے نایاب رازوں (رازِ حقیقی ) کو کھول کر ان کی حق کی طرف ہدایت فرمانے والے ہادی ہیں۔آپؒ کی نگاہِ کامل جس خوش نصیب پر پڑتی ہے وہ عرفانِ نفس کے ذریعے عرفانِ حق کو پالیتا ہے اور دیدارِ الٰہی کی منزل پر پہنچ کر عشقِ الٰہی کے جوش و خروش سے فیض یاب ہو جاتا ہے۔ یہ حالت اس قدر شدید ہوتی ہے کہ طالبِ مولیٰ دیدارِ حق تعالیٰ کے بعد بے خود ہو جاتا ہے یعنی وہ اپنی ذات سے بیگانہ اور اللہ سے یگانہ ہو جاتا ہے ۔میرے مرشد جو آسمانِ ہدایت کے شہباز ہیں‘ سے فیض پانے کے بعد اس طالبِ مولیٰ کا طور طریق اور اندازِ زندگی ہی بدل جاتا ہے اور وہ ہر دم فنا فی ذاتِ حق تعالیٰ میں ہی غرق رہتا ہے اور اسی حالت میں فنا ہو کر انا الحق کا نعرہ بلند کرتا رہتا ہے۔
واہ واہ سیّد پاک مکرم وجہہ،اللہ نورانی
وچہ ادراک قدیم کیا پوہچن وہم خیال گمانی
کھولے لطفوں عارف کامل سبھے راز نہانی
سد حضور چا کشف کرائی اسمِ اعظم قرآنی
نور اللہ کر آیا تجلّٰی جوڑ شکل شاہانی
پیر عبداللہؒ شاہ گُل کِھڑیا باغوں شاہ جیلانیؓ
مفہوم:واہ میرے محبوب محترم و معزز سیّد محمد عبداللہ شاہؒ جو مکمل طور پر نورِ حق تعالیٰ کے مظہر ہیں یعنی میرے محبوب کا چہرہ اللہ کا چہرہ ہے ۔ آپؒ کا مرتبہ و مقام جو حقیقتاً ذاتِ حق تعالیٰ کا مقام ہے ہر کسی کی طاقت یا دسترس میں نہیں آپؒ چاہیں تو اپنے کرم سے طالبانِ حق کو ایک ہی نگاہِ کرم سے معرفت و دیدارِ الٰہی کے تمام پو شیدہ رازوں سے آشنا فرما دیں۔میرے محبوب نے مجھ پر بھی مہربانی فرمائی ،آپؒ کی بابرکت صحبت نے میرے باطن کو روشن و منور کیا ،میرے ہادی نے اسمِ اللہ ذات کے ذریعے مجھے حضوریٔ حق کی نعمت عطا کی جس سے حجابات کے تمام پردے ہٹ گئے اور ہر دم دائمی مشاہدۂ حق حاصل ہوا۔
ہک طرفے وچ جس نوں چاہے سیر کھولے طبقانی
جے چاہے جھمکار اندر پہنچائے لامکانی
منزل اُس مقام پہنچائے نہیں جو وچ بیانی
کر گلزار دیدار کنوں سب راز جانا عرفانی
نور اللہ کر آیا تجلّٰی جوڑ شکل شاہانی
پیر عبداللہؒ شاہ گُل کِھڑیا باغوں شاہ جیلانیؓ
مفہوم:میرے مرشد اس شان کی ولیٔ کامل ہیں کہ آپؒ جسے چا ہیں اور جب چاہیں ایک ہی لمحہ میں زمین و آسمان کے چودہ طبقات کی سیر کرواسکتے ہیں۔ آپ ؒ چاہیں تو ایک پلک جھپکنے کی دیر بھی نہ ہو اور طالبانِ مولیٰ اپنی مراد لامکان یعنی عالمِ لاھوت تک پہنچ جائیں۔ میرا محبوب طالبانِ حق کو اس مقام (مقامِ ھاھویت) پر پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے جس کو بیا ن نہیں کیا جا سکتا ۔اے میرے پیارے مرشد کریم! مجھ پر بھی اپنی رحمت فرمائیں مجھے بھی اللہ کے دیدارو معرفت کے رازوں سے آگاہی عطا فرمائیں۔
خادم روز ازل تے کرو خاصہ گنج ارزانی
ہر دم دم وچ قدم قدم تے کرو فیض رسانی
قلب سقیم سلیم کرو ذرہ فیضوں دے درمانی
ظاہر باطن پہنچو ہادی کر امداد روحانی
نور اللہ کر آیا تجلّٰی جوڑ شکل شاہانی
پیر عبداللہؒ شاہ گُل کِھڑیا باغوں شاہ جیلانیؓ
مفہوم:اے میرے مہربان، میرے مرشد پاک، میرے محبوب یہ عاجز روزِ ازل سے آپؒ کا خادم ہے اور آپؒ سے التجا کرتا ہے کہ اس کو اپنی خاص الخاص عنایت یعنی اسرارِ الٰہی کے خزانو ں کے راز کثرت سے عطا فرمائیں ۔اس خادم کو ہر سانس کے ساتھ قدم قدم پر فیضِ الٰہی سے نوازیں ۔ اس غلام کے دِل کو جو کہ نفسانی خواہشات میں ڈوبا ہوا ہے‘ اپنی نگاہِ کرم کی دوا سے ایک ذرہ ہی عطا فرما کر ایسے قلبِ سلیم سے نوازا دیجئے جو ہر وقت دیدارِ الٰہی و معرفت میں غرق رہے۔ اے میرے ہادی!میری ظاہر و باطن میں ہر دم مدد فرمائیں اور مجھے اپنی نورانی و روحانی مدد سے ہمیشہ نوازیں۔
شاد آباد کرو ایہہ دل سبھ فوج نَسّے شیطانی
بخش تصرف کامل ہادی نور وِیکھا جسمانی
نور اللہ کر آیا تجلّٰی جوڑ شکل شاہانی
پیر عبداللہؒ شاہ گُل کِھڑیا باغوں شاہ جیلانیؓ
مفہوم:اے میرے محبوب! میرے دل سے تمام نفسانی و شیطانی خرافات اور وسوسوں کے انبار کو دور فرما کر میرے دل کو اللہ تعالیٰ کے دیدار و معرفت سے شادوآباد فرمائیں ۔اے میرے محبوب مجھے ظاہرو باطن کا کامل تصرف‘ جس سے مجھے ہر دم دیدارِ الٰہی کی نعمت ملے‘ سے نواز یں۔ اے میرے پیارے مہربان و ہادی آپؒ مجھے نورِ الٰہی کو اپنی پیاری مجسم صورت میں دکھائیں اور نورِ حقیقی کے دیدار سے بہرہ مند فرمائیں۔ بیشک آپؒ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ نور ہیں اورسیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی پاکیزہ اولاد مبارک ہیں۔

آپؒ کے القاب

آپؒ کو حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی بارگاہِ اقدس سے ’’سلطان الصابرین‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ آپؒ کو باطن میں ’’پیر محمد‘‘ کے لقب سے مخاطب فرمایا کرتے تھے۔آپؒ کے محرمِ راز شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ ؒ نے بھی آپؒ کی شان میں لکھے گئے کئی اشعا ر میں اس لقب کا ذکر فرمایا ہے۔
ہے مظہر انوار‘ ’’پیر محمد‘‘ سائیں
ہے مخزن اسرار ’’پیر محمد‘‘ سائیں
سلطان العارفینؒ سے امانتِ فقر کے حصول اور ان کے سلسلہ سے تعلق کی وجہ سے آپؒ کو سخی سلطان اور قبیلہ ہاشم اور قریش سے نسبت کی وجہ سے آپؒ کو ہاشمی قریشی کہا جاتا ہے۔

آپؒ کا فقہی مسلک

آپؒ اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے تھے اور فقہ میں حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے پیروکار تھے۔

ازواج اور اولاد

آپؒ نے مڈرجبانہ میں دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی سے پیر محکم الدینؒ کی ولادت ہوئی جو آپؒ کی حیات میں ہی لاولد فوت ہوئے۔ ان کا مزار دربارحضرت سخی سلطان پیر محمد عبد الغفور شاہ ؒ کے ساتھ ہی باہر مغرب کی جانب ایک کمرے میں واقع ہے ۔ دوسری شادی سے پیر عبدالحق ؒ اور پیر عبدالرزاق ؒ کی پیدائش ہوئی جن سے اولاد کا سلسلہ چلا۔

منتقلی امانتِ فقر

وصال سے دو روز قبل 8 صفر 1328ھ (بمطابق 19 فروری 1910ء) بروز ہفتہ آپؒ اپنے محرم راز سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی ؒ کو ہمراہ لے کر سلطان العارفینؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورسلطان العارفینؒ کی اجازت سے امانتِ فقرسیّد محمد بہادر علی شاہ ؒ کو منتقل فرمائی۔

وصال مبارک

آپؒ 10 صفر 1328ھ بمطابق 21 فروری 1910ء بروز سوموار صبح کے وقت عالمِ فنا سے عالمِ بقا میں تشریف لے گئے۔آپؒ کا مزار مبارک گڑھ مہاراجہ (ضلع جھنگ) سے مشرق کی جانب 13 کلومیٹر کے فاصلے پر مڈ شریف میں ہے۔ آپؒ کا عرس مبارک ہر سال 9 اور 10 صفر کو منعقد ہوتاہے۔
میرے مرشد،ہادی، مجدد دین امامِ مبین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سروری قادری کی انتھک محنت اور کوشش کی بدولت نہ صرف سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ؒ ہاشمی قریشی بلکہ تمام مشائخ سروری قادری کے متعلق صحیح حقائق قارئین تک پہنچے۔ تفصیلی معلومات کے لیے مجدد دورِ حاضر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیف مبارکہ ’’مجتبیٰ آخر زمانی ‘‘ کا مطالعہ کریں اور فیض و برکتیں پائیں۔
استفادہ:
مجتبیٰ آخرزمانی (سلطان الفقر پبلیکیشنزرجسٹرڈلاہور)
کلام مشائخ سروری قادری (سلطان الفقر پبلیکیشنز رجسٹرڈ لاہور)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں