سلطان الاولیاحضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒکے بعد سلسلہ سروری قادری کے شیخِ کامل
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغرعلی رحمتہ اللہ علیہ
تحریر :عرشیہ خان سروری قادری۔لاہور
حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ سلطان الفقر ششم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ سلطان الفقر ارواح کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* جان لے جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلی سے رونق بخشی، اس کے حسنِ بے مثال اور شمؤ جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اُٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی۔ پھر جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا باصفا فنا فی اللہ، بقا باللہ تصور ذات میں محو، تمام مغز بے پوست حضرت آدمؑ کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینہ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں۔ انہوں نے ازل سے ابد تک ذاتِ حق کے سوا کسی چیز کی طرف نہ دیکھا اور نہ غیر حق کو سنا۔ وہ حریمِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بند کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں۔ کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہہ میں کوشاں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں، اوراِذَا تَمَّ الفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہے) کے فیض کی چادر ان پر ہے اپس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہ اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَ لَا اِلٰی غَیْرِہٖ کی جاودانی عزت کے تاج سے معزز و مکرم ہیں۔ انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور قیامِ قیامت کی کچھ خبر نہیں۔ ان کا قدم تمام اولیا اور غوث و قطب کے سر پر ہے۔ اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے۔ (رسالہ روحی شریف)
یہ وہ سات ارواح فقرا تھیں جو ذاتِ حق کے دیدار میں محو تھیں جنہیں ازل سے ابد تک سوائے حق تعالیٰ کے کسی شے کی ہوش نہیں ہے یہ ارواح فقرا دونوں جہان کی سلطان ہیں۔ انہی ارواح میں سے ایک روح مبارک حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے ۔ یہ ہستیاں نہ صرف روحانی طورپر زندہ و تابندہ اور فیض رساں ہیں بلکہ اپنے پیروکاروں اور عقیدتمندوں کے لیے باعثِ ہدایت ہیں۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ کی تعلیمات اور حیاتِ طیبہ موجودہ زمانے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ورثۂ فقر کی بنیاد ہے۔
آپؒ کی روحِ معظم عالمِ وحدت سے 14 اگست 1947ء کو عالمِ ناسوت میں جلوہ فگن ہوئی اور 26 دسمبر 2003 تک عالم بشریت میں جلوہ گر رہی۔ اس دوران آپؒ نے لوگوں کی کثیر تعداد کو نورِ حق سے منور فرمایا۔ حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ دورِ حاضر کے مسلمانوں پرا للہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کی ایک صورت ہیں جن کی حقیقت اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے:
ترجمہ: اور نکالے تم کو اندھیروں سے اجالوں کی طرف۔(سورۃ الاحزاب۔ 43 )
حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ اس بد اعتقادی کے ظلمت کدے میں معرفت کی روشن شمع بن کر ظاہر ہوئے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپؒ کے در سے جس طرح اسمِ اللہ ذات کا فیض عام ہوا پہلے کبھی نہ ہوا۔
آپؒ کو ازل سے سلطان فقر مرتبہ حاصل ہے اس لیے بچپن ہی میں آپؒ کا چہرہ مبارک نورِ حق سے منور تھا اور آپؒ حُسن و جمال کا منبع تھے۔
طالبِ مولیٰ اور عشقِ مرشد
اگر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کو طالبِ مولیٰ کی حیثیت سے دیکھا جائے تو حضرت سلطان باھوؒ نے ایک طالبِ مولیٰ کی جو خصوصیات بیان کی ہیں آپؒ ان کے عین مطابق ہیں۔ حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ آپؒ کے والد تو تھے ہی مگر آپؒ کے مرشد بھی تھے اور آپ ؒ نے اپنے والد کو والد سے زیادہ مرشد سمجھ کر محبوب رکھا۔ سلطان محمد عبدالعزیزؒ بھی آپؒ کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ آپؒ کو اپنے مرشد سے بے پناہ عشق تھا۔ عموماً مرشد کامل اکمل مریدِ صادق کو آزمائشوں سے گزار کر ان کو پرکھتا ہے جس سے صادق طالب کی پہچان بھی ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ طالب کی تربیت بھی ہو جاتی ہے۔ سچا عاشق ہونے کے ناطے آپؒ نے راہِ خداوندی میں آنے والی آزمائشوں کا سامنا کر کے یہ ثابت کر دکھایا کہ آپ ہی امانتِ الٰہیہ کے اصل حقدار ہیں۔ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اپنے مرشد پر اپنی تحریر کردہ کتاب’’سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ حیات و تعلیمات‘‘ میں آپؒ کے عشقِ مرشد کے چند واقعات کو بیان فرمایا جو مختصراً درج ذیل ہیں:
* سلطان محمد عبدالعزیزؒ کو فجر کی نماز کے بعد فوراً گرم چائے پینے کی عادت تھی جو طالب چائے بنانے کی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے وہ چائے آپؒ کی خدمت میں پیش کرنے میں تاخیر کر دیتے اور سلطان محمد عبدالعزیزؒ تاخیر ہونے کی بنا پر چائے نوش نہ فرماتے۔ سلطان محمد اصغر علیؒ نے اس ڈیوٹی کو خود سرانجام دینے کی ٹھانی اور اپنے مرشد کریم کی بارگاہ میں التجا کی جو منظور ہوئی۔ آپؒ ساری رات جاگ کر گزارتے کہ کہیں آنکھ نہ لگ جائے اور چائے تیار کرنے میں دیر نہ ہو جائے جیسے ہی سلطان محمد عبدالعزیزؒ نماز کی ادائیگی کے بعد تشریف لاتے آپؒ فوراً گرم چائے ان کی بارگاہ میں پیش فرما دیتے۔ یہ ڈیوٹی آپؒ نے کچھ دن نہیں بلکہ سالہا سال ادا کی۔
* سلطان محمد عبدالعزیزؒ اپنے مریدین کے لیے بہت عالیشان اور وسیع لنگر کا انتظام فرماتے (اس سنت کی پیروی میرے مرشد کریم سلطان العاشقین بھی فرماتے ہیں)۔ حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ لنگر کو نہ صرف خود اپنی نگرانی میں تیار کرواتے بلکہ خود تقسیم بھی فرماتے اور خود ہی برتنوں کی صفائی بھی فرماتے ۔
* آپؒ کی ڈیوٹی سلطان محمد عبدالعزیزؒ نے گھوڑوں کی دیکھ بھال پر لگائی۔ آپؒ نے یہ ڈیوٹی بھی احسن طریقے سے ادا کی۔ آپؒ نے گھوڑوں کی تمام بیماریاں‘ ان کا علاج غرضیکہ ان کے متعلق تمام معلومات حاصل کیں یہاں تک کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ گھوڑوں کی لید خود اپنے ہاتھوں سے صاف فرماتے تھے۔
* ایک بار سلطان محمد عبدالعزیزؒ میانوالی کے نزدیک تھل کے علاقہ میں سفر فرما رہے تھے۔ ایک گاؤں میں آپؒ نے دیکھا کہ سلطان محمد عبدالعزیزؒ پسینہ میں شرابور ہیں۔ یہ دیکھ کر آپؒ اپنے مرشد سے دو دن کی رخصت لے کر لاہور تشریف لائے اور اپنی گاڑی بیچ کر ایک پیڈسٹل فین اور ایک جنریٹر خرید کر بذریعہ بس واپس پہنچے۔ اس موقع کے بارے میں آپؒ فرمایا کرتے تھے ’’ جب اس پنکھے سے ہوا میرے مرشد پاک کو پہنچی تو سکون میرے دل کو ملا ۔‘‘ یہ سنت میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے بھی ادا کی۔ اپنے مرشد پاک کو دربار پاک پر گرمی سے پسینہ میں شرابور دیکھا تو آپ مدظلہ الاقدس نے فوراً ائیر کنڈیشنر (A.C ) خرید کر دربار شریف پر سلطان الفقر ششم کے کمرہ میں لگوایا۔
* سلطان محمد عبدالعزیزؒ نے حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہؒ کا مزار مبارک اور ملحقہ مسجد تعمیر کرائی۔ دوڈھائی لاکھ کی کمی پیش آئی تو آپؒ نے اپنی گاڑی بیچ کر رقم ادا کی۔ سلطان محمد عبدالعزیزؒ نے پوچھا ’’چن اصغر گاڑی کے بغیر کیا کروگے؟‘‘ آپؒ نے فرمایا ’’حضور گزارا ہو جائے گا۔‘‘ یہ سنت میرے مرشد کریم کو بھی ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جب 2001 ء میں حج کے موقع پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اپنی گاڑی فروخت کر کے حج کے اخراجات کا انتظام کیا ۔
* یہ مارچ 1979 ء کا واقعہ ہے کہ سلطان محمد عبدالعزیزؒ کو گردوں کی شدید تکلیف ہوئی اور ڈاکٹر نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا۔ سلطان محمد عبدالعزیزؒ نے سلطان محمد اصغر علیؒ کو اپنے پاس بلایااور فرمایا ’’آپ مایوس نہ ہوں بلکہ فوراً میرے مرشد پاک کے مزارِ عالیہ پر حاضر ہوں اور ان کے مزار پاک پر ہاتھ رکھ کر ان کی بارگاہ میں صحت یابی کی دعا فرمائیں اور پھر وہ ہاتھ کسی چیز کو لگائے بغیر میرے پاس واپس آجائیں۔ آپؒ فوراً حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ ؒ کے مزار پاک پر حاضر ہوئے اور ویسا ہی کیا جیسا مرشد پاک کا حکم تھا۔ سلطان محمد عبدالعزیزؒ نے سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے ہاتھوں کو اپنے چہرے مبارک پر لگایا اور پھر گردوں کے مقام پر پھیرا تو وہ فوراً صحت مند ہو گئے۔ یہ سنت میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے بھی ادا کی۔ اپنے مرشد پاک سلطان محمد اصغر علیؒ کو پیشاب کی تکلیف بڑھنے پر آپ مدظلہ الاقدس نے شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہؒ کے مزار پاک پر حاضری دی اور آپؒ کی صحت یابی کی درخواست پیش کی۔
یہ توسلطان محمد اصغرعلی رحمتہ اللہ علیہ کے عشقِ مرشد کے چند واقعات ہیں اصل میں حق تو یہ ہے کہ آپؒ نے جتنا عرصہ بھی اپنے مرشد پاک کی بارگاہ میں گزارا طالبِ مولیٰ بن کر گزارا یہ الگ بات ہے کہ آپ اپنے مرشد پاک کے محب تھے یعنی طالب بھی مطلوب بھی۔ آپؒ سیرت اور صورت میں مرشد کی ذات میں اس طرح فنا ہوگئے تھے کہ انہی کی تصویر بن گئے تھے۔
منتقلی امانتِ الٰہیہ اور مسندِ تلقین و ارشاد
13۔ اپریل 1979 (16 ۔جمادی الاوّل 1399 ھ) بروز جمعتہ المبارک آپؒ کے مرشد سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ نے آپؒ کو اپنے مرشد شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدیؒ کے مزار مبارک پر ہاتھ رکھ کر بیعت فرما یا اور امانتِ الٰہیہ منتقل فرمائی۔ آپؒ کے مرشد 12 اپریل 1981ء بمطابق 7 جمادی الثانی 1401ھ بروز اتوار بعد نمازِ ظہر وصال فرما گئے۔ جس کے بعد آپؒ نے سلسلہ سروری قادری کے تیسویں (30) امام کے مرتبہ پر فائز ہو کر مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالی اور دعوتِ فقر کے مشن کا آغاز فرمایا۔
مرشد کامل اکمل نورالہدیٰ
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ تھے۔ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں ’’مرشد کامل دنیا میں بہت پائے جاتے ہیں اور مرشد کامل طالب کو سات دن کی توجہ سے واصل باللہ کرتا ہے۔ مرشدانِ مکمل دنیامیں چند پائے جاتے ہیں اور مرشد مکمل طالب کو لگاتار چوبیس گھنٹے کی توجہ سے واصل باللہ کرتا ہے اور مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ دنیا میں صرف ایک وقت میں ایک ہوتا ہے جو مظہر ذاتِ الٰہی، امام الوقت اور خلیفہ وقت ہوتا ہے۔‘‘ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ مندرجہ بالا بیان کردہ صفات کی مکمل اور جامع تصویر تھے۔ آپؒ جس زمانہ میں مسندِ ارشاد پر فائز ہوئے لوگ حبِ دنیا اور تصورِ مادیت میں غرق تھے۔ آپ نے ظلمت و گمراہی کے دور میں اسمِ اللہ ذات کا تصور عطا کر کے مشاہدہ سے کمال بخشا ۔ بحیثیت مرشدہر دور میں مرشدانِ اکمل اپنے طالبان کو کئی سال تک چلہ وریاضت میں مشغول رکھتے اور پھر ان کی استطاعت کے مطابق نوازتے ہیں۔ آپؒ نے اس قدر اسمِ اللہ ذات کے فیض کو عام فرمایا کہ طالبانِ مولیٰ کو پہلے ہی دن اسمِ اللہ ذات عطا فرما دیا کرتے اور اپنی صحبت اور نگاہِ کامل کی تاثیر سے لوگوں کے زنگ آلود قلوب کو نورِ الٰہی سے منور فرماتے۔ آپؒ طالبانِ مولیٰ کو ظاہری وباطنی طور پر بھرپور محبت سے تلقین فرماتے۔ آپؒ کے مہربان اور شفیق انداز سے محسوس ہوتا کہ طالب طالب نہیں بلکہ مطلوب ہے ،میرے مرشد کریم نے سلطان الفقر ششم کی شان میں لکھی ایک منقبت میں اسکا اظہار یوں کیا ہے:
آپ کی نگاہِ کامل سے ناقصوں کو کمال ملا
ملا سب کو عشق مگر خواص کو مانندِ بلالؓ ملا
وہ محفلِ عشاق میں آپؒ کا دبے پاؤں آنا
عاشقوں سے نگاہیں ملا کے وہ نگاہوں کا جھکانا
ہلکے سے تبسم سے وہ دلوں کو گرمانا
دید میں تڑپتی روحوں کو ایک نظر سے دیوانہ بنانا
نجیبؔ ہوا انہی اداؤں سے گھائل دلبر جانی
سلطان محمد اصغر علیؒ مظہر ذاتِ ربانی
شخصیت
سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کی پُر کشش اور اعلیٰ وارفع شخصیت کو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے حسنِ بیان نے دوبالا کر دیا۔ آپ مدظلہ الاقدس سلطان الفقر کی سحر انگیز شخصیت کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں :
* آپؒ اللہ تعالیٰ کا راز ہیں اورآپؒ کی حقیقت سے وہی آگاہ ہوتا ہے جس پر آپ ؒ اصل میں اپنی حقیقت کو کھولتے اور اسکو محرم راز بنا لیتے ہیں۔ جو آپؒ کا محرم راز ہوگا وہ ہر قسم کے خوف اور غم سے بے نیاز ہو گا۔
* آپؒ اہلِ تقویٰ کے امام ہیں۔
* آپ ؒ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی محبت ایمان اور جن سے بغض کفر ہے۔
* آپؒ کی شخصیت اتنی پُر کشش اور مسحور کن تھی کہ اسکو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔آپؒ کے چہرہ مبارک کی زیارت سے اللہ تعالیٰ کی یاد آتی تھی۔اِذَ رَاہٰ ذَکَرَ اللّٰہ۔ آپؒ کی زیارت کرنے والے کو نور ہی نور محسوس ہوتا گویا آپؒ کی صورت پر اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھا ہوا ہے فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ترجمہ ’’اللہ کا رنگ ہے بھلا اللہ کے رنگ سے کس کا رنگ بہتر ہے۔‘‘
* آپؒ کے جلوؤں کے نور سے ظلمت اس طرح بھاگی جیسے سورج طلوع ہونے سے سارے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔
* جو ایک بار آپؒ کو دیکھ لیتا وہ دوبارہ دید کی تمنا کرتا۔ جو آپؒ کے پاس بیٹھ جاتا اسکا آپؒ کے پاس سے اٹھنے کو دل ہی نہ کرتا۔ طالب کی یہی تمنا ہوتی کہ زندگی یہیں بیٹھے بیٹھے تمام ہوجائے ۔
محاسن و اخلاق
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
ترجمہ:’’ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔‘‘ حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ بے حد شفیق، رقیق القلب، شگفتہ رو، فراخ دست، وسیع العلم، بلند اخلاق اور عالی نسب تھے۔
فیض اسم اللہ ذات
سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے بارے میں آپؒ کے والد اور مرشد حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحبؒ کا فرمان مبارک ہے:
’’ جس طرح میرا بیٹا محمد اصغر علیؒ فقر کو سنبھالے گا اسطرح فقر کو تاقیامت کوئی نہیں سنبھال سکے گا۔‘‘
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس بھی اپنی کتب میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* یہ بات سچ ہے کہ جس طرح ’’ فقر‘‘ کی امانت کی حفاظت و نگہبانی آپؒ نے فرمائی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپؒ کا سب سے بڑا فیض یہ ہے کہ آپؒ نے صوفیا کرام کی اس بات کہ ’’اسم اعظم(اسم اللہ ذات) کا چھپانا لازم اور ظاہر کرنا حرام‘‘ کو الٹ دیا کہ گلی کوچوں میں اسکی دعوت دی جانے لگی ۔
* آپؒ نے لوگوں کو اسم اللہ ذات کی تلقین فرمائی اور ذکر اور تصور اسم اللہ ذات کو زنگ آلود قلوب کو منور کرنے کا نسخہ اور باطن کی کنجی قرار دیا۔
* آپؒ کا امتیاز یہ ہے کہ آپؒ نے خود لوگوں کے دلوں میں اسم اللہ ذات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب و وصال کی تڑپ پیدا کی اور انہیں طالب مولیٰ بنا کر دیدارِ الٰہی عطا فرمایا۔
* وہ لوگ جنہیں انکے گھر والے قبول کرنے کو تیار نہ تھے آپؒ کی بارگاہ میں پہنچے تو عارف بنے۔
دعوت فقر کیلئے جدوجہد اور مساعی
1 ۔ اصلاحی جماعت کا قیام:
یہ جماعت اسمِ اللہ ذات کے فیض کو عام کرنے کیلئے تشکیل دی گئی اور اسکا مقصد طالبانِ مولیٰ کی باطنی تربیت اور تزکیہ نفس کرنا تھا ۔ یہ جماعت 27 فروری 1989 کو قائم کی گئی۔ اسکا اپنا منشور اور پرچم تھا۔ آپؒ نے محسوس کیا کہ مسلمان ظاہر پر توجہ کی شدت سے مختلف فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہوچکے ہیں لہٰذا ایک جماعت ہو جو ظاہر کے ساتھ لوگوں کی باطنی تربیت کرے۔ آپؒ نے اس سلسلے میں لاکھوں لوگوں کو ’’اسمِ اللہ ذات‘‘ عطا فرمایا اور بھولے بھٹکے لوگوں کو حق کی راہ دکھائی اور نگاہِ کامل سے انہیں صراطِ مستقیم کا مبلغ بنا دیا۔ آپؒ کے وصال کے ساتھ ہی اصلاحی جماعت کے جسد سے بھی روح نکل گئی۔ اسی سلسلے میں آپؒ کے محرم راز سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے آپؒ کے مشن اور تعلیمات کو فروغ دینے اور آگے بڑھانے کیلئے تحریک دعوتِ فقر کی بنیاد رکھی۔
2 ۔ ماہنامہ مرآۃ العارفین کا اجرا:
دسمبر 1999 میں سلطان الفقر ششم ؒ نے میرے ہادی میرے مرشد سلطان العاشقین کو فقر کی تعلیمات اور اسمِ اللہ ذات کے فیض کو عام کرنے کیلئے ایک ماہانہ رسالہ جاری کرنے کا حکم دیا اور اس رسالے کا چیف ایڈیٹر مقرر فرمایا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے 2000 ء میں ماہنامہ مرآۃ العارفین کا دفتر داروغہ والا کے دفتر سے اپنے ملکیتی گھر 4/A ۔ایکسٹینشن ایجوکیشن ٹاؤن لاہور منتقل کر لیا جس کا افتتاح سلطان الفقر ششم ؒ نے اپنے دستِ مبارک سے 18 نومبر 1998 (28 رجب 1419 ھ ( بروز بدھ شام 4بجے پرچم لہرا کر فرمایا تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زیرِ نگرانی ماہنامہ مرآۃ العارفین کاکام سلطان الفقر ششم ؒ کے وصال تک بڑے احسن طریقے سے جاری و ساری رہا۔ اب یہی جگہ سلسلہ سروری قادری کی خانقاہ ہے اور یہیں پر تحریک دعوتِ فقر ،ماہنامہ سلطان الفقر اور سلطان الفقر پبلکیشنز کے دفاتر ہیں یعنی حق اپنے مقام پر واپس آچکا ہے۔
3 ۔مکتبہ العارفین کا قیام:
اسمِ اللہ ذات کے فیض کو عام کرنے کیلئے سلطان محمد اصغر علیؒ نے مکتبہ العارفین قائم فرمایا اور اس کی نگرانی کا کام میرے مرشد کریم سلطان العاشقین کے سپرد کر دیا اور اسکا دفتر ماہنامہ مرآۃ العارفین کے دفتر 4/A ۔ایکسٹینشن ایجوکیشن ٹاؤن لاہور میں ہی قائم کیا۔ اس شعبہ کے تحت سلطان الفقر ؒ کے وصال تک بہت سی کتب منظرِ عام پر آئیں۔ آپؒ کے وصال کے بعد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے سلطان الفقر پبلیکیشنز کی بنیاد رکھی اور آپ مدظلہ الاقدس نے بہت سی کتب تصنیف فرما کر اپنے مرشد کریم کے حقیقی فیض کو عام فرمایا۔ یہ کام اللہ پاک کے فضل و کرم اور آپ کے مرشد کی باطنی توفیق اور مہربانی سے عروج پر پہنچ چکا ہے اور ابھی بھی جاری و ساری ہے۔
اس کے علاوہ سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ پورا سال ملک بھر میں محافل میلاد مصطفی کا انعقاد فرماتے تاکہ لوگوں میں عشقِ مصطفی پیدا ہو۔ آپؒ فرمایا کرتے ’’ہماری خواہش ہے کہ ساری زندگی اپنے آقا و مولیٰ کی تعریف و نعت سنتے رہیں اور یہی ہماری زندگی ہے عشقِ مصطفی کے بغیر زندگی فضول ہے۔’’ آپؒ نے اسمِ اللہ ذات کو پورے ملک میں تبلیغی دورے کرکے ہر جگہ عام فرمایا اور آپؒ کے دستِ مبارک پرلاکھوں لوگ بیعت ہوئے اور اسمِ اللہ ذات کی نعمت حاصل کی۔
تلاشِ محرم راز اور منتقلی امانت الٰہیہ
آپؒ بھی سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی طرح بیس سال (اپریل 1981ء ۔2001 ء) تک محرم راز اور اس طالبِ مولیٰ کی تلاش میں رہے جو امانتِ الٰہیہ کا حامل بننے کے لائق ہوتا کہ امانتِ الٰہیہ اس کے سپرد کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں اس سلسلہ میں آپؒ نے ایک ایک طالب پر شدید محنت کی۔ آپؒ اپنی نگاہِ کامل سے زنگ آلود قلوب کو نورِ الٰہی سے منور کرتے رہے اور منتخب شدہ سالکین کو فقر کے مختارِ کُل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں ایک ایک کر کے پیش کرنا شروع کیا۔ آپ ؒ نے اس سلسلے میں منتخب طالبانِ مولیٰ کو تین بار مدینہ شریف میں روضہ مبارک پر پیش فرمایا لیکن ان میں سے کوئی بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معیار پر پورا نہ اتر سکا ۔ اسی دوران 12 اپریل 1998 (14 ذوالحجہ 1418 ھ) کو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس آپؒ کی بارگاہ میں پہنچے یار نے یار کو پہچان لیا ۔آپؒ نے بہت سی آزمائشوں سے گزار کر یار کو پرکھ لیا اور حج کا قصد فرمایا اور 28 فروری 2001 کو منتخب طالبانِ مولیٰ کے ہمراہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ آخر کار 21 مارچ 2001 آگیا جس کا آپؒ بیس سال سے انتظار فرما رہے تھے کیونکہ امانت کی منتقلی کیلئے جس محرم راز کو منتخب کر کے آپؒ بارگاہِ نبویؐ میں تشریف لائے وہ مقبول اور منظور ہوگیا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے آپؒ کی بارگاہ میں عرض کی:
’’ حضور عالمِ اسلام مختلف فرقوں میں بٹ چکا ہے تمام لوگوں اور خاص کر ماڈرن تعلیم یافتہ لوگوں کی نظر حق کی طرف نہیں ہے ،عالمِ اسلام کو عالمِ کفر نے متحد ہو کر گھیر رکھا ہے آپؒ مہربانی فرمائیں کہ اسلام کا بول بالا ہو اور شیطانی گروہ مغلوب ہو‘‘۔ آپؒ نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور فرمایا:
’’ہمیں تو دل کا محرم مل گیا ہے‘‘
یعنی ہمارا معاملہ تو حل ہو گیا اور کام بھی ختم ہوگیا۔ آپؒ نے اسی وقت آپ مدظلہ الاقدس پر کرم اور مہربانی فرما دی اور باطنی طور پر سیراب کر دیا اور ساتھ ہی باطنی طور پراس راز کو راز رکھنے کیلئے طاقت بھی عطا فرما دی۔(سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ حیات و تعلیمات)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو پہچاننے والے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ آپ مدظلہ الاقدس اور سلطان الفقر ششم ؒ ایک ہی حقیقت کے دو روپ اور حدیث قدسی ’’مومن مومن کا آئینہ ہے‘‘ کے مصداق ہیں جن میں نظر آنے والا عکس ایک ہی ہے پس ہم نے سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کو ان کے ظاہری وصال کے بعد کھویا نہیں بلکہ ان کے فنا فی الذات محبوب طالب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے روپ میں پایا ہے۔ آپؒ لازوال حقیقت کے مالک اور حیاتِ جاودانی سے سرفراز ہیں اور اب اس حیات کی صورت کا نام ’’سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس‘‘ ہے اس حقیقت کو آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی ایک رباعی میں بھی بیان کیا ہے:
جھکا جب مزارِ یار پر اَنْتَ اَنَا وَاَنَا اَنتَ کی آئی صدا
کی عرض کہ اس قابل نہیں ہوں، فرمایا یہی تو ہے ہماری عطا
دیکھ ذرا قلب کے اندر کہ یہ تو ہے کہ ’’میں‘‘
دنیا اور وجود اپنا چھوڑ کر میں قلب میں تیرے آبسا
السلام و علیکم ۔
بہت خوب۔۔ سلطان اصغر علی صاحب کی اولاد کے بارےمجھے تفصیل چاہیے سن کے ساتھ۔۔۔ شکریہ