Ghous ul Azam

مجددِ دین محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانیؓ خاتم البدعات–Mujaddid e Deen Mahayyo Deen Shaikh Abdul Qadir Jilani

Spread the love

4/5 - (1 vote)

مجددِ دین محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانیؓ خاتم البدعات

تحریر: یوسف اکبر سروری قادری۔ لاہور

ولادتِ با سعادت

سیّدنا غوث الاعظم شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی پیدائش یکم رمضان (چاند رات) 470 ہجری بمطابق17 مارچ 1078 عیسوی بروز جمعتہ المبارک ایران کے صوبہ جیلان میں ہوئی اسی نسبت سے آپؓ کو شیخ عبدالقادر جیلانی بھی کہا جاتا ہے۔
تمام اولیا کرام اس بات پر متفق ہیں کہ سیّدنا عبدالقادر جیلانیؓ مادر زاد یعنی پیدائشی ولی اللہ ہیں۔
آپؓ کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ آپؓ ماہِ رمضان المبارک میں طلوعِ فجر یعنی ’’سحری ‘‘ سے غروبِ آفتاب یعنی ’’افطار‘‘ تک کبھی بھی شیرِ مادر نہیں پیتے تھے اور یہ بات سارے جیلان میں بہت مشہور تھی کہ سادات گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن بھر دودھ نہیں پیتا۔

شجرہ نسب

آپؓ حسنی و حسینی سیّد ہیں۔ آپؓ کا شجرہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مندرجہ ذیل واسطوں سے ملتا ہے:
سیّدنا عبدالقادر جیلانیؓ بن ابو صالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّد عبداللہ بن سیّد یحییٰ زاہد ؒ بن سیّد محمدؒ بن سیّد داؤدؓ بن سیّد موسیٰ ثانیؒ بن سیّد عبداللہ ثانی بن سیّد موسیٰ الجونؒ بن سیّد عبداللہ المحضؓ بن سیّد حسن المثنیٰؓ بن سیّدنا امام حسن المجتبیٰؓ بن سیّد نا حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ۔

اکابرین اسلام کی آپؓ کے بارے پیش گوئیاں

1 ۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی پیدائش سے چھ سال پہلے حضرت شیخ ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ نے پیش گوئی فرمائی کہ میں گواہی دیتا ہوں عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے جسکا فرمان ہوگا کہ
قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ۔
ترجمہ: میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔
2 ۔ حضرت شیخ عقیل سنجی ؒ سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی نسبت پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کو ن ہیں؟ شیخ عقیل سنجیؒ نے جواب میں فرمایا ’’اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے۔ سوائے اولیا اللہ کے اُسکو کوئی نہیں جانتا‘‘ اور پھر عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس جانب سے ایک عجمی نوجوان ظاہر ہو گا، وہ عراق کے شہر بغداد میں وعظ کرے گا اور اُس کی کرامات کو ہر خاص و عام جان جائے گا۔اور وہ فرمائے گا کہ
قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ۔
ترجمہ: میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔
(بحوالہ قلائد الجواہر، بہجتہ الاسرار)

مرتبہ غوثیت و مقام محبوبیت

سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کو جب مرتبہ غوثیت و مقامِ محبوبیت سے سرفراز کیا گیا تو آپؓ پر ایک روز نمازِ جمعہ کا خطبہ دیتے وقت اچانک کیفیتِ استغراق طاری ہوگئی ، اسی حالتِ استغراق میں زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے:
قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ۔
ترجمہ: میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔
معاًمنادیِ غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ تمام اولیااللہ سیّدنا غوث الاعظمؓ کی اطاعت کریں۔یہ منادی سنتے ہی تمام اولیا جو زندہ تھے یا واصلِ حق پردہ کر چکے تھے سب نے گردنیں جھکا دیں۔ (بحوالہ بہجۃ الاسرار)

پیدائش سے قبل عالمِ اسلام کی حالتِ زار

سیّدنا غوث الاعظمؓ کی اس دنیا میں تشریف آوری سے قبل عالمِ اسلام کی حالت نہایت مخدوش تھی۔اسلام انتشار اور خلفشار کا شکار تھا۔ بہت سی اسلامی حکومتیں زوال پذیر ہو چکی تھیں اور جو باقی بچی تھیں وہ اندرونی خلفشار اور اغیار کی ستم زدگی کانشانہ بنی ہوئی تھیں۔ مسلمان مذہبی طور پر دس مسالک میں بٹ چکے تھے اور ان مسالک کی تعداد بھی تقسیم در تقسیم ہو کر تہتر تک پہنچ چکی تھی۔
آپؓ نے اپنی تصنیف غنیتہ الطالبین میں ان فرقوں کا تفصیل سے تذکرہ فرمایا ہے اور وہ دس فرقے مندرجہ ذیل تھے:
1 ۔ اہلِ سنت والجماعت ۔2 ۔ خوارج۔3 ۔ شیعہ۔4 ۔ معتزلہ۔5 ۔ مرجیہ۔6 ۔ مشبہہ۔ 7 ۔جہمیہ۔8 ضراریہ۔9 ۔نجاریہ۔10 ۔ کلابیہ۔
ان تمام میں اہلِ سنت کا ایک ہی فرقہ تھا جبکہ خوارج کے پندرہ، مرجیہ کے بارہ، معتزلہ کے چھ، شیعہ کے بتیس، مشبہہ کے تین، ضراریہ، کلابیہ، نجاریہ اور جہمیہ کا ایک ایک فرقہ تھا۔ ان سب کی تعداد ملاکر کُل تہتر فرقے بنتے تھے۔ان فرقوں کی وجہ سے مسلمان بے معنی مباحثوں اور مناظروں میں الجھے رہتے تھے اور دوسری جانب اہلِ باطن اور صوفیا کرام کی مسندوں پر جعل ساز اور گمراہ لوگ قابض ہوئے بیٹھے تھے اور عوام کو گمراہ کر کے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔

بڑے بڑے گمراہ سلاسل کا رائج ہونا

اسلام میں بڑے بڑے گمراہ سلاسل رائج ہوچکے تھے جو خود کو اہلِ تصوف کہلاتے تھے لیکن لوگوں میں گمراہی پھیلانے کا سبب بن رہے تھے۔ یہ اہلِ تصوف ہونے کا دعویٰ کرنے والے بارہ اقسام کے لوگ تھے۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ نے اپنی تصنیف ’’سِر الاسرار‘‘ میں اہلِ سنت والجماعت کے سوا اہلِ تصوف ہونے کا دعویٰ کرنے والے باقی تمام گیارہ فرقوں کو گمراہ، بددین، بدعتی اور منافق قرار دیا۔ گویا سیاسی مذہبی اور روحانی طور پر مسلمانوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور گمراہی عام ہوچکی تھی۔ حق اتنا دب چکا تھا کہ لوگ اس کی جانب متوجہ ہی نہ ہوتے تھے۔آپؓ نے حق کی ترویج کے لئے جدوجہد کی اور عوام پر باطل فرقوں کی حقیقت واضح کی۔ اس کے ساتھ اپنی کامل نگاہ اور تصرف کی بدولت لوگوں کے دلوں پر فسق و فجور کی جمی میل اور زنگ کو بھی اتارا۔ اسطرح آپؓ نے اسلام کو حیاتِ نو عطا کر کے تمام عالم میں غالب فرمایا۔ اسی نسبت سے آپ کو ’’محی الدین‘‘ کا لقب عطا ہوا کہ آپؓ نے حق کو باطل فرقوں پر نہ صرف فوقیت اور غلبہ عطا کیا بلکہ ایک نئی روح بخشی۔ اور آپؓ محی الدین یعنی دین کو زندہ کرنے والے کہلائے۔ (بحوالہ سرالاسرار)

سلاسلِ باطل کا تعارف اور ان کا خاتمہ

سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا اہم کارنامہ اپنے زمانے میں رائج بدعات کا جڑ سے خاتمہ کرنا اور دینِ اسلام کو حیاتِ نو عطا کرنا ہے۔ آپؓ اپنی کتاب سِرّالاسرار میں اہلِ تصوف ہونے کا دعویٰ کرنے والے باطل فرقوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
* اہلِ تصوف کہلانے والے لوگ بارہ اقسام کے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ سنّی ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے تمام اقوال اور افعال شریعت اور طریقت کی موافقت میں ہوتے ہیں اور وہ اہلِ سنت والجماعت ہیں جن میں سے بعض بغیر کسی حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے، اور ان میں سے بعض سے آسان سا حساب اور انہیں تھوڑا سا عذاب ہوگا اور وہ جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوں گے اور وہ کافروں اور منافقوں کی طرح ہمیشہ آگ میں نہیں رہیں گے۔ (اہلِ سنت والجماعت کے علاوہ) باقی سب بدعتی ہیں جن میں خلولیہ، حالیہ، اولیائیہ، شمرانیہ، حبّیہ، حوریہ، اباحیہ، متکاسلہ، متجاہلہ، وافقیہ اور الہامیہ شامل ہیں۔
* خلولیہ مذہب کے لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ خوبصورت عورت اور امرد (بے ریش نوعمر لڑکے) کے بدن کی طرف دیکھنا حلال ہے۔ یہ لوگ رقص کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ (ان کے مذہب میں) بوسہ لینا اور گلے لگنا جائز ہے اور یہ (عقیدہ) سراسر کفر ہے۔
* حالیہ (مذہب) کے لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ رقص اور تالیاں بجانا حلال ہے اور کہتے ہیں کہ مرشد کے لیے ایک حال ایسا بھی ہے کہ اس کے لیے شرع تعبیر نہیں کرتی۔ لیکن یہ بدعت ہے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف ہے۔
* اولیائیہ (مذہب) کے لوگ کہتے ہیں کہ جب بندہ ولایت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے تکالیفِ شرع ساقط ہو جاتی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ولی نبی سے افضل ہوتا ہے کیونکہ نبی کا علم جبرائیل ؑ کے واسطہ سے ہوتا ہے اور ولی کا علم بغیر کسی واسطہ کے۔ یہ تاویل ان کی خطا ہے اور اس اعتقاد کے باعث وہ ہلاک ہو گئے اور یہ عقیدہ بھی (سراسر) کفر ہے۔
* شمرانیہ (مذہب) کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ صحبت قدیم ہے جس کے باعث اوامر و نواہی ساقط ہو جاتے ہیں۔ (یہ لوگ) دف، طنبورا اور دوسرے آلات کو حلال سمجھتے ہیں اور عورتوں سے کسی قسم کا فائدہ جائز نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ کافر ہیں اور ان کا خون جائزہے۔
* حبّیہ (مذہب) کے لوگ کہتے ہیں کہ جب بندہ محبت کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو ان سے تکالیفِ شرعی ساقط ہو جاتی ہیں اور یہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو نہیں ڈھانپتے۔
* حوریہ (مذہب) کے لوگ حالیہ کی مانند ہیں لیکن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب ان پر حال وارد ہوتا ہے تو یہ حور سے جماع کرتے ہیں اور جب ہوش میں آتے ہیں تو غسل کرتے ہیں۔ پس یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور اس (عقیدہ) کے باعث ہلاکت میں ہیں۔
* اباحیہ (مذہب) کے لوگ وہ ہیں جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو ترک کرتے ہیں۔ حرام کو حلال اور عورتوں کو (اپنے لیے) ہرطرح سے جائز سمجھتے ہیں۔
* متکاسلہ مذہب کے لوگ کسب کو ترک کرتے اور ہر دروازے پر جا کر سوال کرتے ہیں۔ ظاہری طور پر تو یہ ترکِ دنیا کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اپنے اسی دعویٰ کے باعث یہ لوگ ہلاکت کے گڑھے میں ہیں۔
* متجاہلہ (مذہب کے لوگ) وہ ہیں جو فاسقوں والا لباس پہنتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
 وَلاَ تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۔ (سورہ ھود۔113)
ترجمہ: ظالموں کی طرف میل جول نہ رکھو ورنہ آگ تمہیں چھوئے گی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
 مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْہُمْ ۔
ترجمہ:جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔
* وافقیہ (مذہب) والے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ غیر اللہ، اللہ کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا اسی لیے انہوں نے معرفت کی طلب ترک کر دی اور اسی جہالت کی بنا پر وہ ہلاک ہو گئے۔
* الہامیہ (مذہب کے لوگ) وہ ہیں جو علم کو ترک کرتے ہیں اور تدریس سے منع کرتے ہیں۔ حکما کی متابعت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن حجاب ہے اور اشعار طریقت کا قرآن ہیں۔ اسی عقیدے کے باعث وہ قرآن ترک کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی (یہی) سکھاتے ہیں اور یہ لوگ ورد (وظائف) ترک کرتے ہیں اور اس کے باعث ہلاک ہو گئے۔
فقہ باطن میں اہلِ سنت والجماعت کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت کے باعث اہلِ جذبہ (اہلِ محبت) تھے اور وہ جذبے بعد میں منتشر ہو کر طریقت کے مشائخ تک پہنچے جو کثیر سلاسل میں تقسیم ہو گئے۔ یہاں تک کہ اکثر سلاسل کمزور ہو کر ختم ہو گئے اور باقی رسمی طور پر بے معنی مشائخ کی صورت میں رہ گئے جن سے اہلِ بدعت کے گروہ پیدا ہو گئے جن میں سے بعض نے خود کو قلندریہ، بعض نے حیدریہ اور بعض نے خود کو ادھمیہ سلسلہ سے اور بعض نے دیگر دوسرے سلسلوں سے منسوب کر لیا جن کی شرح طویل ہے۔ اہلِ فقہ اور صاحبِ ارشاد اس زمانے میں قلیل سے بھی کم ہیں۔ شاہدین‘ فقہا کو ان کے ظاہری عملِ حق سے اور صاحبِ ارشاد کو ان کے باطن سے جانتے ہیں۔ اہلِ ظاہر شریعت اور امر و نہی پر مستحکم ہوتے ہیں جو کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اہلِ باطن کو سلوک کا مشاہدہ بصیرت سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ مقتدی (امام) یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھتے ہیں۔ پس ان کا سلوک (ان کے اور) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطہ بن جاتا ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روحانیت ہے، چاہے وہ روحانیت محل کے اعتبار سے جسمانی ہو یا روحانی کہ شیطان ان (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت) کی مثل نہیں بن سکتا۔ اور اس میں مریدین کے لیے ایک اشارہ ہے کہ وہ راہِ سلوک پر اندھے بن کر نہ چلیں اور یہ (اشارات) ان(حق و باطل) میں تمیز کرنے کے لیے دقیق علامات ہیں جن کا ادراک ان کے اہل کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ (سرّالاسرار)
یہ وہ عقائدِ باطل تھے جو اہل تصوف کہلانے والوں کے تھے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے ان سب کو بدعتی گروہ قرار دیا اور عوام الناس کو باطل کی پہچان کرائی اور ان باطل گروہوں کے مقابلے میں حق کی تبلیغ و ترویج کی۔ سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے حق کو باطل سے جدا کیا اور بتایا کہ اہلِ سنت لوگ وہ ہیں جن کے تمام اقوال و افعال شریعت اور طریقت کے موافق ہوتے ہیں اور وہ اہلِ سنت و الجماعت کہلاتے ہیں۔ اسطرح آپؓ نے حق کو باطل سے الگ کیا اور باطل فرقوں اور بدعات کا خاتمہ کیا۔ آپؓ نے ثابت کر دیا کہ آپؓ واقعی محی الدین اور خاتم البدعات ہیں۔

وصال

آپؓ کا انتقال 11 ربیع الثانی561 ہجری بمطابق 12 ۔فروری 1166 عیسوی ہفتہ کی شب کو ہوا ۔ آپؓ کی عمر مبارک بوقتِ وصال اکیانوے (91)برس تھی۔ آپؓ کو آپکے مدرسہ کے احاطے میں دفن کیا گیا اور آپکا دربارِ پُرانوار بغداد (عراق) میں مرجع خلائق ہے۔
استفادہ کتب:
حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ۔ تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
سرّ الاسرار۔ تصنیف سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ۔ مترجم احسن علی سروری قادری


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں