zikr-e-habib

ذکرِ حبیبؐ Zikr-E-Habib


Rate this post

ذکرِ حبیبؐ (Zikr-e-Habib)

تحریر: محترمہ امامہ رشید سروری قادری۔لاہور

Zikr.ذکر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں یاد کرنا، بات کرنا، کسی شے کو بار بار ذہن میں لانا۔اصطلاح میں ذکر سے مراد زبان یا دل سے مختلف انداز میں محبوبِ حقیقی کو یاد کرنا اور اس کی تعریف بیان کرناہے۔ذکرِاللہ کے ساتھ اگر اس کے حبیبؐ کا ذکر کیا جائے تو اس سے مراد محبوبِ حقیقی کے محبوب کو یاد کرناہے کیونکہ حبیب کا لفظ محبوب سے نکلاہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ اپنے محبوب کا ذکر(Zikr) اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ (سورۃ الم نشرح۔4)
ترجمہ:اورہم نے آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ ) بلندفرما دیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار فضائل و خصائص سے نوازا۔ اُن میں ایک فضیلت حضور سیدّالمرسلینؐ کے ذکرِمبارک کی بلندی ہے کہ ہر لمحہ ذکرِ خدا کے ساتھ ذکرِ مصطفیؐ کیا جاتاہے جیسے اللہ تعالیٰ نے کلمہ میں ، اذان میں ،اقامت میں ،نماز میں ، تشہد میں ، حتیٰ کہ ہر عبادت میں اپنے محبوب خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر  (Zikr)شامل کیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان و عظمت بہت ہی بلند و بالا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ اے محبوب اگر آپ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )نہ ہوتے تو میں یہ کائنات تخلیق نہ کرتا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باعثِ تخلیقِ کائنات بھی ہیں، ابتدائے کائنات بھی ہیں اور منتہائے کائنات بھی۔ لہٰذا کائنات کے اختتام تک اور اس کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حسین اور بلند ذکر کا زمزمہ کسی نہ کسی پیرایہ میں جاری ہے اور جاری رہے گا۔ 

جہاں ذکرِ حبیبؐ ہوتا ہے
وہاں خدا بھی قریب ہوتا ہے
ایسی مجلس میں بیٹھنے والا
بڑا ہی خوش نصیب ہوتا ہے

یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنا ذکر (Zikr) نہیں کرتا اور نہ ہی اپنی تسبیح بیان کرتاہے بلکہ وہ صرف ایک ہی ذکر کرتا ہے جس کے بارے میں قرآنِ پاک میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر لحظہ اپنے محبوب کا ذکر کرتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ وَ  مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُ تَسْلِیْمَا
ترجمہ:بیشک اللہ اور اس کے(سب) فرشتے نبی(مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں ،اس لیے اے ایمان والو ! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اورخوب سلام بھیجاکرو۔(سورۃ احزاب۔56)

 حدیثِ مبارکہ ہے :
تم اپنی مجلسوں کو مجھ پر درود پاک پڑھ کر آراستہ کرو کیونکہ تمہارا درود پاک پڑھنا قیامت کے روز تمہارے لیے نور ہو گا۔‘‘ (جامع الصغیر)

 اسی سلسلہ میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
مجلسوں کی زینت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود و سلام پڑھنا ہے لہٰذا مجالس کو درود پاک سے مزین کرو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارک اس کائنات میں وہ واحد ذات ہے جن کے بغیر حق تعالیٰ کی ذات تک رسائی، اس کی معرفت اور اس کی خوشنودی کا حصول ناممکنات میں سے ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشی اللہ تعالیٰ کی خوشی کا سبب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ناراضی حق تعالیٰ کی خفگی اور ناراضی کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا ایک مومن کو ذاتِ مصطفیؐ کے تصور اور ان کے ذکر و تذکرے سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی چیز مرغوب و محبوب اور لطیف محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ ذکرِحبیبؐ اللہ تعالیٰ خود بھی کرتا ہے اور اپنے بندوں کو بھی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ خود ربّ العالمین ہے تو اس نے اپنے محبوب کو رحمتہ اللعالمین بنایا ہے اور رحمتہ اللعالمین کے ذکر کو بلند کرنے اور ان کا ذکر کرنے کے لیے بہت سی صورتیں عطا کی ہیں۔ قرآن پاک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاص ذکر ہے۔
 درود و سلام ایک ایسی منفرد اور بے مثل عبادت ہے جو رضائے الٰہی اور قربتِ مصطفیؐ کا مؤثر ذریعہ ہے اور اس مقبول ترین عبادت کے ذریعے ہم بارگاہِ ایزدی سے فوری برکات کے حصول اور قبولیت دعا کی نعمت سے سرفراز ہو سکتے ہیں۔

درود شریف کی اہمیت بیان کرتے ہوئے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر (Zikr)اور تعریف عبادت ہے اور درود شریف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کا دوسرا نام ہے۔ (حقیقتِ محمدیہ)

ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ بھی ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنتوں پر عمل کریں۔ محبت و عقیدت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کریں اور انہیں آگے پھیلائیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انہی سنتوں کے ذریعے نہ صرف اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب پایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی معطر سانسوں سے اپنی روحوں کو مہکایا اور گرمایا۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی سوچوں کو آقا پاک کے لیے پاک کریں، اپنے دل کو ان کی یاد سے بے قرارر کھیں اور دن رات ان کی یاد میں گزاریں ، اپنا کھانا پینا ، سونا جاگنا سب ان کے نام کر دیں۔

اسمِ محمداتنا پیارا اور حسین ہے کہ سنتے ہی ہر نگاہ فرطِ تعظیم و ادب سے جھک جاتی ہے اور زبان پر درودو سلام کے زمزمے جاری ہو جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی اسمِ محمدچار مقامات پر آیا ہے۔

موجودہ دور کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اسمِ محمد کے بارے میں فرماتے ہیں :
اسمِ محمد جمال ہی جمال ہے۔

اسمِ محمدکی شان بیان کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس مزید فرماتے ہیں :
راہِ فقر میں جو اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تصور کرے گا وہ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھے گا۔

مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری طلب کرنا ہر طالبِ مولیٰ کی خواہش ہے کیونکہ راہِ حق میں یہ ایک ایسا مقام ہے جس میں طالبِ مولیٰ باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری سے مشرف ہو جاتا ہے ، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کی تربیت فرماتے ہیں اور باطن میں اسے معرفتِ الٰہیہ کے مراتب طے کراتے ہیں۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 

شد مطالب دیدن روئے مصطفیؐ
شد حضوری غرق فی اللہ باخدا

ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرۂ مبارک کے دیدار سے تمام مطالب حاصل ہوتے ہیں اور غرق فنا فی اللہ کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

 شفاعت بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر کاایک طریقہ ہے۔ اور شفاعت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بلند اور عظیم الشان مرتبہ ہے جو روزِ محشر اللہ ربّ العزت کی جانب سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔

وسعتیں  دی  ہیں  خدا  نے  دامنِ محبوب  کو
جرم کھلتے جائیں گے اور وہ چھپاتے جائیں گے
جو محشر میں پکاریں گےاَغِثنِی یَارَسْولَ اللّٰہ
تو ان کی دِست گیری کے لیے سرکار آئیں گے

اگر کسی سے محبت کی جائے اور یہ محبت شدت پکڑ لے تو وہ عشق بن جاتاہے اور یہ عشق ہی ہے جو سب کچھ قربان کرنامانگتاہے۔ ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب ذکر روح اورجسم کا حصہ بن جاتاہے۔ہر وقت صرف آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں اور یادیں ہوتی ہیں اور ان کے دیدار کی آرزو رہتی ہے یہ شدت عشقِ مصطفیؐ ہی ہے جس میں فنا ہو کر صحابہ کرامؓ نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور کسی چیز کی پرواہ نہ کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحیح بخاری)
اسی عشق کے بارے میں علامہ اقبالؒفرماتے ہیں کہ:

 کافر ہندی ہوں میں، دیکھ میرا ذوق و شوق
لب پہ درود و سلام دل میں درود و سلام

حضرت واصف علی واصفؒ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں’’ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاص بات یہ ہے کہ اگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت میں آنسو نکلیں تو انسان خود بخود قربِ الٰہی کی طرف جاتا رہتا ہے۔‘‘

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس  عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ذکر ِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں :
صراطِ مستقیم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے اور زمانہ جتنی ترقی کرے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک اتنی بلند تر ہوتی چلی جائے گی۔(حقیقتِ محمدیہ)

اللہ پاک ہمیں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسی عظیم نعمت سے سرفرازفرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
حقیقتِ محمدیہ :تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
علامہ اقبال اور عشق ِرسولؐ
ذکرِ مصطفیؐ: تصنیف علامہ سید محمد اشرف مدنی
گفتگو والیم 7 :تصنیف واصف علی واصفؒ
 درود و وظائف ، مقام محمود:تصنیف ڈاکٹر طاہر القادری

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں