حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے دور میں اٹھنے والے فتنے
حصہ پنجم تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
سرزمینِ عرب کے جنوبی قبائل اور ارتداد کی لہر
حضرت ابوبکر صدیقؓ Abu Bakr Siddique جب شمالی قبائل میں امن وامان اوربغاوت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تو اپنی توجہ جنوبی قبائل کی طرف کی۔ عرب کا جنوبی علاقہ آدھے عرب پرمشتمل تھااس میں یمن،بحرین ، کندہ، حضرموت اور عمان شامل تھے۔
جنوبی قبائل مدینہ سے دور تھے جبکہ شمالی اور شمال مشرقی قبائل نزدیک تھے۔ منطقی طور پر بھی یہ ضروری تھا کہ پہلے قریب کے قبائل کو راہِ راست پر لایا جائے تا کہ ان کے ساتھ مل کر جنوبی قبائل پر حملہ کر کے ان کو ریاستِ مدینہ کے ساتھ ملایا جائے۔
جنوبی علاقہ ایران کی سرحدوں کے ساتھ منسلک تھااور ایران کی حکومت کا ایک حد تک ان پر تسلط بھی قائم تھا۔ تاہم ان علاقوں کی طرف لشکر روانہ کرنا کسریٰ کو چیلنج بھی ہو سکتا تھا۔ اس لیے مناسب یہی تھا کہ قرب و جوار کے قبائل کو ہمنوا بنا کر یہ قدم اٹھایا جائے۔
مدینہ اور جنوبی عرب کا راستہ نہایت کٹھن تھا،شمالی علاقے سے جنوبی علاقے میں سفر کرنے کے لیے لق و دق صحرا سے گزرنا پڑتا تھا جو کہ ایک دشوار گزار راستہ تھا۔بنا برین شمالی اور جنوبی علاقوں کی ایک دوسرے کی طرف نقل و حرکت محدود تھی۔ محدود نقل و حرکت کے باعث جنوبی علاقوں کی بغاوت کا ریاستِ مدینہ پراتنا زیادہ اثر نہیں تھا اس لیے لازم جانا گیاکہ پہلے شمالی عرب کی بغاوت کو حتمی انجام تک پہنچایا جائے۔
ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شمالی قبائل نے بہ نسبت جنوبی قبائل کے اسلام کو قریب سے دیکھاتھا اس لیے انہیں ساتھ ملانا قدرے آسان تھا۔ جنوبی عرب میں ارتداد کی لہر شدید تھی اس لیے شمالی علاقوں کی طرف نقل و حرکت کو پہلے گردانا گیا۔
جنوبی عرب میں بسنے والے قبائل ضدی شمار ہوتے تھے۔
بعض مؤرخین کے مطابق جنوبی قبائل کے ساتھ جو جنگیں لڑی گئیں وہ 11 ہجری میں لڑی گئیں جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ 12 ہجری میں لڑی گئیں۔ بہرحال جو بھی ہو سب کی اتفاقِ رائے ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں شروع ہوئیں اور آپؓ کے دورِ خلافت میں ہی ختم ہوئیں۔
بحرین میں ارتدار کی لہر
9 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے علاء بن حضرمیؓ کے ذریعے بحرین کے حکمران کو دعوتِ اسلام دی۔ اس نے چند اہم سوالوں کے بعد اسلام قبول کر لیااورخود قبولِ اسلام کے بعد اپنی عوام کو بھی اسلام کی طرف راغب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے حاکمِ بحرین بحال رکھا۔ اس نے اپنے ایک ذہین و فطین ساتھی، جس کانام جارود تھا،کو دینی تعلیم کے لیے مدینہ بھیجا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آیا اور اپنے لوگوں کو دعوتِ اسلام دی جس کی بدولت کافی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔11 ہجری میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہوا تو چند ماہ بعد گیارہ ہجری میں ہی بحرین کے حاکم کا بھی وصال ہو گیا۔ اس کی وفات کے ساتھ ہی ارتداد کی لہر کھڑی ہو گئی۔ یہ فتنہ ارتداد اتنا شدید تھا کہ حضرت علاء بن حضرمیؓ کو بحرین چھوڑنا پڑا اور وہ مدینہ تشریف لے آئے۔
اس ارتداد کی لہر کا سرغنہ حطم بن ضبیعہ تھا۔ اس نے مسلمانوں کو ارتداد پر ابھارا۔ جس نے اس سے ہاتھ ملایا، اس کو اس نے کچھ نہ کہا اور جس نے انکار کیا اس کو وہاں سے نکال دیا۔
اس ساری صورتحال نے حضرت جارودؓ کے لیے کافی پریشانیاں پیدا کیں لیکن وہ اسلام پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ ان کا قبیلہ بنو عبدالقیس بھی اسلام سے پھر گیا اور ارتداد پر اتر آیا۔محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
جارود نے اپنے قبیلے سے مرتد ہونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا: ’’اگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نبی ہوتے تو وہ بھی وفات نہ پاتے۔‘‘جارودؓ نے کہا’’تمہیں معلوم ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے بھی اللہ مختلف اوقات میں دنیا ہی میں نبی مبعوث فرماتا رہا ،وہ تمام نبی کہاں گئے؟‘‘ جواب دیا وفات پا گئے۔ جارودؓ نے کہا’’جس طرح دوسرے انبیا کرام وفات پا گئے اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی وفات پا گئے۔ دوسرے انبیاکی وفات سے اگر ان کی نبوت برقرار ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت کیونکرختم ہو سکتی ہے! میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
لوگ جارودؓ کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی وقت انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور ارتداد سے توبہ کر لی۔
حطم کو جب پتہ چلا کہ جارودؓ اور ان کے قبیلہ کے لوگ ارتداد کی راہ سے علیحدگی اختیار کر کے اسلام پر ڈٹ گئے ہیں تو اس نے قعبہ جواثی میں ان کا محاصرہ کر لیا۔ چند ہی روز میں پورے قبیلہ میں غذائی قلت پیدا ہو گئی لیکن اس کے باوجود وہ اسلام پر ڈٹے رہے۔
جب حالات کے متعلق حضرت ابوبکر صدیقؓ کو آگاہ کیا گیا توآپؓ نے حضرت علاء بن حضرمیؓ کی سرکردگی میں لشکر بھیجا کہ بحرین سے ارتداد کو ختم کر کے امن و امان قائم کیا جائے۔ یہ لشکر جدھر سے گزرتا اس قبیلے کے لوگ لشکرکے ساتھ مل جاتے۔ جب یہ لشکر قصبہ جواثی کے قریب پہنچا توپتہ چلا کہ حطم نے کافی تعداد میں اسلحہ اور فوج جمع کر لی ہے۔
حضرت علاء بن حضرمیؓ نے کچھ فاصلے پر پڑاؤ کیا اور اپنے لشکر کے اردگرد خندق کھود دی اور موقع کی تلاش میں رہے کہ حملہ کریں۔ بے موقع حملہ شکست کے مترادف تھا کیونکہ حطم کی فوج تعداد میں کئی گنا زیادہ اور اسلحے سے لیس تھی۔ آخر ایک رات موقع مل گیا۔ دشمن کے لشکرمیں شوروغل بپا تھا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ دشمن فوج نے شراب پی رکھی ہے۔ حضرت جارودؓ نے حملہ کر دیا اوردشمن کو منہ کی کھانی پڑی، بہت سے لوگ قتل کر دیئے گئے۔ کافی تعداد خندق میں گر کر جان کھو بیٹھی اور کچھ بھاگ کر کشتیوں کے ذریعے قریبی جزیرے دارین میں رُوپوش ہو گئے۔ حطم بھی قتل کر دیا گیا۔حضرت علاء بن حضرمیؓ نے مناسب سمجھا کہ ابھی باغیوں کا پیچھا نہ کیا جائے بلکہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے بحرین کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور امن وامان قائم کیا جائے اس طرح بحرین میں بھی ارتداد کو ختم کر دیا گیا۔
دارین میں ارتداد
دارین کا جزیرہ بحرین سے کچھ میل کی مسافت پر تھا۔ حطم کی فوج کو جب شکست ہوئی تو وہ دارین بھاگ گئے اور وہاں پر آباد قبائل سے گٹھ جوڑ کرنے لگے جبکہ حضرت علاء بن حضرمیؓ بحرین میں امن و امان قائم کرنے میں مصروف رہے۔ جب بحرین میں مکمل طور پر امان وامان کی صورتحال قائم ہو گئی تو حضرت علاء بن حضرمیؓ نے دارین کوچ کرنے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کے پاس جزیرے پر جانے کے لیے کشتیاں نہ تھیں۔ اس سلسلے میں محمد حسین ہیکل اپنی کتاب میں ایک ایمان افروز واقعہ لکھتے ہیں:
حضرت علاء بن حضرمیؓ نے ساحل پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو بلند آواز سے پکارا:
’’لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر خشکی میں اپنے نشانات ظاہر کئے ہیں کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ سمندر میں بھی تمہیں اپنے نشانات دکھا دے۔ خشکی میں نشانات ظاہر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کی موجوں میں بھی تمہارے حوصلے قائم رہیں۔ اٹھو، دشمن کا مقابلہ کرنے کا عزم کر لو اور بے جھجک سمندر میں کود پڑو۔ اللہ ہر حال میں تمہیں اپنی نصرت و حمایت سے نوازے گا۔ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ اللہ نے اس نواح کے مرتدین کو صرف اس لیے ایک مقام پر اکٹھا کر دیا ہے کہ تم آسانی سے ان پر غلبہ پانے میں کامیاب ہو جاؤ۔ یہ بہترین موقع ہے جو تمہیں ملاہے اسے ہرگز ضائع مت کرو، اٹھو، کمر باندھ کر سمندر کی موجوں میں لڑنے کا عزم کر لو۔‘‘ (حضرت ابوبکرؓ)
یہ خطاب سن کر سب نے اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں۔ پیدل چلنے والے ویسے ہی سمندر میں کود پڑے اور اس جزیرے پر پہنچ کر ارتداد کا مکمل قلع قمع کر دیا۔ اس طرح دارین کے جزیرے پر بھی امن و امان قائم ہو گیا۔
مہرہ میں ارتداد
مہرہ کی صورتحال ارتداد کے لحاظ سے باقی جنوبی قبائل سے مختلف نہ تھی کہ یہاں پرتقریباً سب قبائل ریاستِ مدینہ کے خلاف ہو چکے تھے۔ البتہ ایک لحاظ سے یہ باقی قبائل سے مختلف تھے کہ مہرہ کے باسی دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے تھے اور دونوں گروہ مسلمانوں کے خلاف تھے۔
حضرت عکرمہؓ نے اسی تقسیم کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا کہ اسی بات کو استعمال کرتے ہوئے مہرہ کے لوگوں کو راہِ راست پر لایا جائے۔ حضرت عکرمہؓ جب مہرہ پہنچے تو ان قبائل میں بھی یہ باتیں ہونے لگیں کہ دونوں گروہ آپس میں مل جائیں اور مسلمانوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے۔ حضرت عکرمہؓ بہت زِیرک جرنیل تھے ۔اس سے پہلے کہ دونوں گروہوں کی بات آگے بڑھے، آپ نے کمزور جماعت کو اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کے ارتداد کی وجہ یہ تھی کہ یہ نو مسلم تھے اور اسلامی تعلیمات سے درست طور پر آگاہ نہ تھے۔ حضرت عکرمہؓ نے اسلام کی تعلیمات سامنے رکھیں تو وہ فوراً تائب ہو کر مسلمانوں کے ساتھ مل گئے۔
حضرت عکرمہؓ نے کمزور جماعت اپنے ساتھ ملانے کے بعد طاقتور جماعت کو شکست دی اور وہاں بھی ارتداد کی لہر کو ختم کر کے پورے مہرہ میں امن و امان کی فضا قائم کر دی۔
یمن میں بغاوت کی جڑیں کافی مضبوط تھیں۔ اسودعنسی جس نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا قتل کیا جا چکا تھا۔لیکن ا سکے باجود ارتداد کے جو بیج اسودعنسی نے بوئے تھے وہ تناور درخت کی صورت اختیار کر چکے تھے۔اسودعنسی کو اس کے سپہ سالار اور وزیروں نے منصوبہ بنا کر قتل کیاتھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس کے وزیر کو فیروز کی حکومت دے دی۔ اسود عنسی کو فیروز، حشبنس، داذویہ اور قیس نے قتل کیا۔ فیروز فارسی تھا جبکہ قیس یمنی تھا۔ یمن میں اس وقت جو لوگ کسی اور علاقے سے آکر آباد ہوئے انہیں ابناکہا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے فیروز انبا تھا۔ انباخاصی تعداد میں یمن میں آباد تھے۔
اسود عنسی نے جب ارتداد کو ہوا دی تھی تو اسی علاقائی تعصب کا نعرہ لگایا کہ جو ابنا ہیں وہ یمن پر حکومت کرنے کے اہل نہیں ۔ جب فیروز نے انتظام سنبھالاتو قیس علاقائی تعصب کی بنیاد پر ساز ش کے تانے بانے بننے میں مصروف ہو گیا۔ اس سلسلے میں اس نے درج ذیل اقدامات کئے:
۱۔یمن کے مشہور جنگجو اور شاعر عمرو بن معدی کرب کو ساتھ ملایا کیونکہ یمن کے کافی قبائل اس کے زیر اثر تھے۔
۲۔یمن کے چھوٹے بڑے قبائل کو خطوط لکھے کہ اس کا ساتھ دیں تاکہ ابنا کی حکومت ختم کی جائے۔
۳۔یمن کے جنگجو قبیلوں کے دورے کئے اور ارتداد پر ابھارا۔
۴۔چونکہ بازان کی وفات کے بعد (بازان یمن کا عامل تھا جس نے اسلام قبول کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو عاملِ یمن برقرار رکھا) یمن کو مختلف عمال میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ قیس نے عمرو بن معدی کرب کے ساتھ مل کر ان سرداران علاقہ سے ملاقات کی اور فیروز کے خلاف ابھارا۔
۵۔قیس نے اپنی تحریک کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان لوگوں سے رابطہ کیاجنہوں نے اسود عنسی کا ساتھ دیا تھا۔ اس میں اس کو خاطر خواہ کامیابی ملی۔
ان تمام اقدامات کے بعد قیس نے فیزوز حشبنس اور داذویہ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ یہاں تک کہ اسود عنسی کا ساتھ دینے والے قبائل فوج لیکر صنعا پہنچ گئے ۔ اس سلسلے میں محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
خط و کتابت کی اس رابطہ مہم کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور فوجیوں کی نقل و حرکت میں نہایت رازداری سے کام لیا گیا تھا۔ اس لیے باشندگانِ صنعا میں سے کسی کو پتا نہیں چل سکا۔ فوجیں جب اچانک صنعا شہر کے قریب پہنچ گئیں تو لوگ اس سے نہایت حیران ہوئے۔
اس طرح قیس نے صنعا پر قبضہ کر لیا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ صرف صنعا کے اقتدار کی جنگ تھی یمن کے باقی صوبوں میں صورتحال بتدریج بد سے بدتر ہوتی جارہی تھی۔ جو راستہ مدینہ اور یمن کو آپس میں ملاتا تھا وہ ساحلی علاقے پر مشتمل تھا۔ قیس نے وہاں کے قبائل کو ارتداد پر اکسا کر مسلمانوں کا راستہ بند کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ Abu Bakr Siddique نے طائف کے عامل طاہر بن ابوہالہ کو لشکر کشی کا حکم دیا۔ اس ساحلی علاقے میں بنو عک اور اشعر یوں کے قبائل آباد تھے۔طاہر بن ابوہالہ نے ان کو شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ میں ارتداد کی راہ اختیار کرنے والوں کا اتنا قتال ہوا کہ لاشوں کی وجہ سے کئی دن راستہ بندرہا۔
دوسری طرف قیس صنعا پر قابض تھا۔ فیروز نے حضرت ابوبکرصدیقؓ سے مدد طلب کی۔ مزید برآں فیروزنے یمن کے ان قبائل سے رابطہ کیا جو ابھی تک اسلام پر قائم تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان قبائل کو پیغام بھیجا کہ فیروز کا ساتھ دیں اور قیس کو شکست دیں۔
اس طرح فیروز فوج اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے صنعا پر حملہ کر دیا اور قیس کو شکست ہوئی۔ قیس اور عمرو بن معدی کرب وہاں سے فرار ہو کر یمن کے دوسرے صوبے میں چلے گئے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ Abu Bakr Siddique نے حضرت عکرمہؓ کو یمن روانگی کا حکم دیا۔ وہ یمن کے مشرقی علاقے میں پہنچ گئے اور ارتداد کی راہ اختیار کر نے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا شروع کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت مہاجر بن ابوامیہؓ کے لشکر کو جنوبی یمن کی طرف روانہ کر دیا۔ اس لشکر کو دیکھ کر قیس اور عمرو بن معدی کرب میں تنازعہ پیدا ہو گیا۔ عمرو بن معدی کرب نے قیس کو قید کر کے حضرت مہاجر بن ابوامیہؓ کے حوالے کر دیا۔حضرت مہاجرؓ نے قیس اور عمر و بن معدی کرب کو حضرت ابوبکرصدیقؓ Abu Bakr Siddique کے حضور پیش کر دیا۔اس سلسلہ میں محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
دونوں کو حضرت ابوبکرصدیقؓ Abu Bakr Siddique کے سامنے پیش کیا گیا انہوں نے داذویہ کے قصاص میں قیس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اس سے فرمایا ’’تو اللہ کے بندوں اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرتا ہے اور مسلمانوں سے قطع علائق کر کے مرتدین و مشرکین کے ساتھ تعلقات استوار کرتا اور ان کی پناہ میں جاتا ہے۔‘‘
قیس نے داذویہ کے قتل سے انکار کیا۔ اس قتل کا چونکہ کوئی واضح ثبوت نہ تھا اور نہ شہادت میسر آ سکتی تھی کہ واقعی اس نے قتل کرایا ہے کیونکہ یہ سارا معاملہ انتہائی خفیہ طریقے سے ہوا تھاجس کی اصل حقیقت کا کسی کو علم نہ تھا اس لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسے معاف کر دیا اور قتل کا مقدمہ ختم ہو گیا۔
بعد ازاں حضرت ابوبکر صدیقؓ Abu Bakr Siddique نے عمرو بن معدی کرب کی طرف توجہ فرمائی۔ آغاز کلام میں اس سے کہا’’تمہیں شرم آنی چاہیے ہر روز کسی نہ کسی ذلت میں پھنس جاتے ہو لیکن اس کا تمہیں کوئی احساس نہیں ہوتا۔ تو اگر اللہ کے دین کی سربلندی اور تبلیغ و اشاعت کے لیے سرگرمِ عمل ہوتا تو اللہ آخرت میں بھی تمہیں سربلندی سے نوازتا اور دنیا میں بھی تیرامرتبہ بڑھاتا۔‘‘
عمرو بن معدی کرب اس وقت بے حد لاچارگی کے عالم میں تھا ۔ اس نے نہایت نرم لہجے میں جواب دیا:
’’بے شک میں قصور وار اور گنہگار ہوں۔ میں آپ سے بہ صدقِ دل عہد کرتا ہوں کہ آئندہ اس قسم کی کسی حرکت کا ارتکاب نہیں کروں گا اور اسلامی سلطنت کے ایک شریف النفس شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کروں گا۔ ‘‘
اس اقرار و عہد کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسے بھی معاف کر دیا اور ان دونوں کو عزت واحترام کے ساتھ اپنے قبیلوں میں واپس جانے کی اجازت دی۔اس طرح پورے یمن میں امن کی فضا قائم ہو گئی۔
کندہ اور حضرموت میں ارتداد
کندہ اور حضرموت میں خطر ناک قسم کی ارتداد کی لہر اٹھی۔ اس کی چند ایک وجوہ ہیں:
۱۔کندہ کا زمینی علاقہ یمن سے ملحق تھا۔دونوں علاقوں کی بودوباش بھی تقریباً ایک جیسی تھی۔ جب یمن میں اسود عنسی نے بغاوت اور جھوٹی نبوت کا علم بلند کیا تو کندہ اور حضر موت بھی اس فتنے کی لپیٹ میں آ گئے۔
۲۔کندہ اور حضر موت کے لوگوں کی رشتہ داریاں یمن کے لوگوں کے ساتھ کافی گہری تھیں۔ بنابرین یمن میں سر اٹھانے والی بغاوت نے کندہ اور حضر موت پر گہرا اثر ڈالا۔
۳۔چونکہ کندہ یمن سے ملحق تھا اس لیے کچھ قبائل ایسے بھی تھے جو دونوں علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ جب اسود عنسی نے مختلف قبائل کو ساتھ ملایا تو کندہ کے قبائل بھی ساتھ مل گئے کیونکہ ان قبائل کی شاخیں جو یمن میں موجود تھیں انہوں نے اسودعنسی سے ہاتھ ملالیا تھا۔
۴۔اسود عنسی کے قتل کے بعد قیس نے جب قبائل کو خطوط لکھے اور مسلمانوں کے خلاف ابھارا تو کندہ اور حضر موت بھی اس کے ساتھ مل گئے ۔
اسود عنسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ہی نبوت کا جھوٹادعویٰ کر دیا تھا، کندہ کے لوگ بھی اس کے زیر اثر آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کندہ اور حضر موت کے صدقات اور زکوٰۃ کے بارے میں احکامات صادر فرمائے۔ کندہ کے عامل نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا تو کندہ اورحضرموت کے لوگ مسلمانوں کے خلاف ڈٹ گئے۔ بغاوت کی شدت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جب حضرت ذیاد بن لبیدؓ نے اسلام پر قائم قبائل کو خط لکھا کہ اس بغاوت کے خلاف ساتھ دیں تو انہوں نے انکار کر دیا۔ ان واقعات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کی خبر پھیل گئی۔ اس طرح کندہ اور حضر موت میں بغاوت نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ تک جب ان حالات کی خبر پہنچی تو آپ ؓ کو اندازہ ہو گیا کہ اتنی شدید بغاوت کو صرف کندہ اور حضر موت کے عامل ختم نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں کے مسلمان قبائل بھی ساتھ نہیں دے رہے۔اسی دوران حضرت عکرمہؓ اور حضرت مہاجرؓنے یمن میں مکمل بغاوت کا خاتمہ کر دیا۔ ان دونوں جرنیلوں کو ریاستِ مدینہ سے حکم صادر ہوا کہ کندہ اور حضر موت جائیں اور ذیادؓ کاساتھ دیں۔ اس طرح تین لشکروں نے مل کر کندہ اور حضرموت کی بغاوت کا قلع قمع کر دیا۔ ہزاروں باغی مارے گئے اور لاتعداد قیدی ہوئے۔
محمد حسین ہیکل اس بارے میں لکھتے ہیں:
کندہ اور حضرموت کی جنگوں کے بعد صورتحال بالکل بدل گئی اور وہاں امن و امان کی فضا پیدا ہو گئی۔ اس علاقے میں حضرت عکرمہؓ اور مہاجرؓبن ابوامیہ نے اس وقت تک قیام کئے رکھا جب تک حالات پوری طرح سدھر نہیں گئے اور اسلامی حکومت میں استحکام نہیں پیدا ہو گیا۔
خطہ عرب میں یہ آخری جنگیں تھیں جو مرتدین کے ساتھ لڑی گئیں۔ اس سے بغاوت کے تمام آثار ختم ہو گئے اور قبائل عرب نے مدینے کی اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر لی۔
بغاوتیں ختم
اب جزیرۃ العرب کی تمام بغاوتیں ختم ہو چکی تھیں اور مرتدین کا پورے عرب میں کہیں نام و نشان باقی نہ رہا تھا۔ اللہ نے اپنے دین کو بے پناہ عزت اور غلبے سے نواز دیا تھا اور تمام اسلامی قلم رو میں اسلام کی حکومت قائم اور مستحکم ہو چکی تھی۔ (جاری ہے)
Bht hoob
❤❤
تاجدار ختم نبوت ذندہ باد ❤❤❤❤❤❤❤❤
تاجدار ختم نبوت زندہ باد
سبحان اللہ
ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین 💯❤❤❤
ماشائ اللہ
بہترین مضمون
بہترین مضمون ہے
Behtareen ❤️
صدیقین کے امام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ❤️❤️❤️❤️❤️
بہت معلوماتی آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین۔
بہت اچھا مضمون ہے
Behtareen 👍🏻👍🏻👍🏻
I just loved this blog👍🏻👍🏻
بہت خوب
بہت خوب ہے
بہت پیارا مضمون ہے ماشاءاللہ
Bhr behttareen andaz m tehreer kia h …
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کے بارے میں معلوماتی آرٹیکل
👌🏻
👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻
Nice
بہت معلوماتی اور دلچسپ مضمون ہے ۔۔۔❤️👍🏻
بہترین مضمون ہے
ماشاءاللہ بہت خوب صورت مضمون ھے
حضرت ابوبکر صدیقؓ جب شمالی قبائل میں امن وامان اوربغاوت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تو اپنی توجہ جنوبی قبائل کی طرف کی۔ عرب کا جنوبی علاقہ آدھے عرب پرمشتمل تھااس میں یمن،بحرین ، کندہ، حضرموت اور عمان شامل تھے۔
Behtreen mazmoon
بہترین
بہت ہی معلوماتی آرٹیکل ہے
💖💖
اس مضمون میں بڑی خو بصورتی سے تاریخ رقم کی گئی ہے۔
بہترین ارٹیکل ہے
ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین 💯❤❤❤
بہترین مضمون ہے باقاعدہ تحقیق کے ساتھ۔ ماشااللّہ۔ بہت خوب۔
اس مضمون کو لکھنے کے لئے کافی تحقیق کی گئی ہے۔
Very nice
بہت بہترین مضمون ہے