Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool

اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool


Rate this post

اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ(Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool)

تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری(رایئونڈ)

Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool.
اللہ تعالیٰ نے جن ہستیوں کے ذریعے سے بنی آدم کے لیے ہدایت کا اہتمام کیا ہے انہیں انبیا و رُسل کہتے ہیں۔

اللہ ربّ العزت نے جب انسان کو دنیا میں بھیجا تو خاتم الانبیاتک اِس کی ہدایت کے لیے ہدایت کے دو سلسلے جاری رکھے، ایک آسمانی کتابوں اور صحائف کا اوردوسرااس کی تعلیم دینے والے انبیا و رُسل کا۔حضرت آدمؑ سے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے جن میں تین سو تیرہ (۳۱۳)رسول ہیں۔ رسول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولادِ آدم کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجے گئے۔ نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ رسول پر کوئی آسمانی صحیفہ یاکتاب نازل ہوتی ہے اور وہ اپنی شریعت لے کر آتا ہے جبکہ نبی اُسی شریعت کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ انسان کی تعلیم و تربیت کے لئے جہاں ایک طرف آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے وہیں مربیّ و معلم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک انسان کا اصلی معلم انسان ہی ہوسکتا ہے، کتاب معلم اور مربیّ ہرگز نہیں ہو سکتی۔انبیا ورسل کو مبعوث کرنے میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔

۱)انبیا ورسل کو دنیا میں لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دینے کے لیے بھیجا گیاکہ وہ انسانوں کو ایمان کی طرف بلائیں اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کا حکم دیں تاکہ لوگوں پر حجت پوری ہو جائے، پھر کوئی یہ نہ کہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا۔ جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ مِنْ اُمِّۃٍ اِلاَّ خَلَا فِیْھَا نَذِیْرَا (سورۃ فاطر۔ 24)
ترجمہ: اور کوئی امت نہیں گزری مگر اس میں ایک ڈرانے والا گزر چکا ہے۔  

ایک اور جگہ بھی اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے:
(ہم نے بھیجے) پیغمبر خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تاکہ ان لوگوں کا پیغمبروں کے بعد اللہ پر الزام نہ رہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (سورۃ النسائ۔ 165)

۲) ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر انسانوں کومحض ان کی عقل کی حد تک چھوڑ دیا جاتا تو پورے طور پر سعادت و نجات کاکامل راستہ معلوم نہیں کر سکتے تھے۔ دنیا کے اہل ِ عقل کاحال دیکھا جا سکتاہے ،رات دن مشاہدے میں آنے والی چیزوں میں بھی ایک بات پر متفق نہیں تو عالم ِآخرت کے بارے میں کیسے صحیح بات معلوم کر سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات ماننا پڑے گی کہ بغیر واسطۂ پیغمبر تنہا عقلِ انسانی سعادت و نجات کا راستہ معلوم نہیں کر سکتی تھی۔

۳)  اللہ تعالیٰ کی معرفت تمام مخلوق پر واجب ہے اور انبیا کے بغیر یہ معرفت حاصل ہونا ناممکن تھا۔ آج اقوامِ عالم پر نظر ڈالنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو قوم بھی نبوت و رسالت کی منکر ہوئی اس کو پھر اللہ تعالیٰ کی معرفت میں سے کچھ حصہ نصیب نہیں ہوا۔

امام رازیؒ فرماتے ہیں:
جس نے نبوت و رسالت کا انکار کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے بے نصیب رہا۔ (تفسیر کبیر)  

۴) اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے روبرو گفتگو نہیں فرماتا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اوران پر وحی نازل کر کے اپنے بندوں کو نیک و بد اعمال سے آگاہ فرمایا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور کسی انسان کا حق نہیں کہ وہ اللہ سے کلام کرے مگر بذریعہ وحی یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے کہ وہ اس کے حکم سے القا کر لے جوچاہے،بے شک وہ بڑاعالیشان حکمت والاہے۔ (سورۃ الشوریٰ۔51)

۵) حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں’’مخلوق کو دین و دنیا میں جس چیز کی ضرورت زیادہ تھی اللہ تعالیٰ نے اتنی ہی زیادہ تعداد میں اس کو پیدا فرمایا۔دینی پہلو سے اللہ کی معرفت کے بعد سب سے زیادہ ضرورت نبوت کی تھی۔ ایک انسان جب اپنے جیسے دوسرے انسان کی خوشی اور ناراضی کے اسباب بغیر بتائے نہیں جان سکتا تو خالق کی خوشی اور ناراضی کے اسباب بغیر بتائے کیسے جان سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے انبیا بھیجے تاکہ ان کے ذریعے اپنی خوشی و نا خوشی کے اسباب کے ساتھ اپنی ذات و صفات کا اشرف علم بخشے، حشر،جنت،دوزخ اور انسان کی ابدی زندگی اور عالمِ غیب کے بیشمار حقائق سے پردہ اٹھائے۔‘‘

۶)اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی حکمت اور رحمت ہے کہ اس نے اپنے نبی اور رسول بنی نوع انسان سے منتخب فرمائے۔ اگر اللہ تعالیٰ فرشتوں یا کسی دوسری مخلوق سے ہمارے لیے رسول بھیجتا تو وہ ہماری عادات وخصائل سے واقف نہ ہوتے اور نہ ان کو ہم سے وہ شفقت ہوتی جو ایک ہم جنس کو دوسرے ہم جنس سے ہوتی ہے۔ نہ ہمارے لیے ان کی پیروی کرناآسان ہوتا اور نہ ہی انہیں ہماری کمزوریوں کا احساس ہوتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے ہی انبیا و رسل مبعوث کیے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: 
 کہہ دو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوتے تو ہم آسمان سے ان پر فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجتے۔(سورۃ الاسرا۔95)

نبی ہر قوم کی طرف بھیجے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی ذُرّیت کی رہنمائی کے لیے وہ خود اپنی طرف سے ہدایت نازل کرے گا۔ یہ ہدایت انہی نبیوں کے ذریعہ سے بنی آدم کو دی گئی ۔وہ وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا پیغام پا کر لوگوں کو حق بتاتے، اس کے ماننے والوں کو اچھے انجام کی خوشخبری دیتے اور انکار کرنے والوں کو برے انجام سے خبردار کرتے تھے۔چنانچہ خاتم النبیین حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مخاطب کرکے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا:
بے شک ہم نے آپ کو سچا دین دے کر خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (سورۃ فاطر۔24)

لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ہر قوم پر اپنے نبی کی اطاعت کو فرض کر دیا اور جن قوموں نے اطاعت سے انحراف کیاان کے انجام کا ذکر اللہ نے قرآن میں بارہا فرما یاہے۔دراصل اطاعت ہی صراطِ مستقیم ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر صدیقین، شہدا، صالحین انعام یافتہ لوگ کہلائے۔تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ جب نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور بظاہر ہمارے درمیان کوئی نبی موجود نہیں تو اطاعت کس کی کی جائے؟سورۃ النساکی آیت نمبر 59میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اطاعت کرنے کا حکم دے رہا ہے: 
 اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں اولی الامر ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے تین قسم کی اطاعت کا ذکر کیا ہے جبکہ حقیقت میں اطاعت ایک ہی ہے۔

اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ(Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool)

 جس کی اطاعت یا پیروی کرنی ہو اس کاسامنے ہونا ضروری ہے اوراس کو مخلوق میں سے ہی ہونا چاہیے۔ اب اللہ تعالیٰ تو بظاہر دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی وہ مخلوق ہے تو پھر  اَطِیْعُوا اللّٰہ  پر عمل پیرا کیسے ہوا جائے؟اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔چونکہ انسانوں تک اللہ کا حکم براہ ِراست نازل نہیں ہوتا لہٰذا ’’اَطِیْعُوا اللّٰہ ‘‘ پر عمل ’’اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘ کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے اور رسول کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی۔(سورۃ النسا۔80)Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool
کسی رسول کی اطاعت اس کی ذاتی اطاعت نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت اللہ کے رسول کی حیثیت سے کی جاتی ہے۔ یعنی اصل اطاعت اللہ کی اور عملاً رسولؐ کی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر حکم اللہ کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا تمام امتِ مسلمہ کا فرضِ عین ہے۔حضرت ابو موسی اشعریؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’’میری اور اس چیز کی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہنے لگا:’’اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے میں واضح طور پر تمہیں اس سے ڈرا رہا ہوں، اپنی نجات کی راہ تلاش کر لو۔‘‘ اب ایک گروہ اس کی بات مان کر فائدہ اٹھاتے ہوئے راتوں رات وہاں سے چلا گیا تو وہ نجات پا گیا اور ایک گروہ نے اس کی بات نہ مانی اور وہیں رکا رہا تو صبح کے وقت لشکر نے ان پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔ تو جس نے میری اطاعت کی اور جو میں لایا اس پر عمل پیرا ہوا وہ اس گروہ جیسا ہے جو نجات پا گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اورجو میں لایا اسے جھٹلایا تو وہ اس گروہ کی طرح ہے جو نہ مان کر ہلاکت میں پڑا۔‘‘(مسلم،کتاب الفضائل)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کو رَد کر دینا اور آپؐ کی نافرمانی کرنا تو بہت دور کی بات ہے( جو کہ کھلم کھلی بغاوت ہے) اگر حکمِ رسولؐ مان لیا اور اس پر عمل بھی کر لیا لیکن طبیعت میں نا گواری اور تنگی کا احساس ہوا تو یہ کیفیت بھی ایمان کے منافی ہے۔ اس ضمن میں بخاری شریف میں ایک حدیث ہے:
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’میری امت پوری کی پوری جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو خود انکار کردے۔‘‘ عرض کیا گیااے اللہ کے رسولؐ ایسا کون ہے جو جنت میں جانے سے انکار کرے؟فرمایا’’ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا (جنت میں جانے سے) خود انکار کر دیا۔‘‘
Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool۔اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کے ساتھ اولی الامر کا ذکر بھی آیا ہے۔

اولی الامر 

’’اولی الامر‘‘ سے مراد فقرائے کاملین ہیں جن کی اطاعت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت اللہ رب العزت کی اطاعت ہے۔ یہ صاحبِ امر آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نائب ہیں اورقرآن کی رُو سے ان کی پیروی فرض ہے۔ کچھ لوگ ’’اُولی الامر‘‘ سے مراد دنیاوی حکمران لیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اتباع کرنے والے نہیں ہیں۔ ان کی اطاعت نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت کے خلاف ہو گی۔اولی الامر وہی ولیٔ کامل ہے جو خود نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کامل اتباع کرنے والا ہے۔ اس کی راہ وہی ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے۔ اس کی اتباع نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ فرماتے ہیں:
’’تمہارے درمیان صورتاًکوئی نبی موجود نہیں ہے تاکہ تم اس کی اتباع کرو۔ پس جب تم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متبعین کی اتباع کرو گے جو کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی اتباع کرنے والے اور اتباع میں ثابت قدم ہیں تو گویا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کی۔ جب تم ان کی زیارت کرو گے تو گویا تم نے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی زیارت کی۔‘‘(الفتح الربانی۔مجلس ۴۱)

اکثر لوگ اولیا اللہ کے مقام اور ان کی اطاعت کا انکار کرتے ہوئے صرف نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیروی اور اتباع کو جائز اور اولیا کی اتباع کو ناجائز قرار دیتے ہیں حالانکہ اولیا کی راہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہ سے جدانہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ کی اتباع کرکے ہی تو وہ اللہ کے قرب کے لائق بنے۔

مرآۃ العارفین میں درج ہے:
’’یہی وہ لوگ ہیں جن کی اپنی ذات عشقِ الٰہی اور عشقِ رسولؐ کی تپش سے فنا ہو چکی ہے اور جو اپنی اصل حقیقت، حقیقتِ محمدیہ یعنی وحدت تک پہنچ چکے ہیں اور اب نورِمحمدی ان کی حقیقت ہے۔ ان کے ظاہری اجسام کے لباس میں اصل وجود خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہے۔‘‘ 

 علامہ ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔‘‘ (فصوص الحکم)

اب جب کہ خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری نبوت اختتام پذیر ہو گئی ہے تو ان اولیا کی اتباع ہم پر واجب ہے جن میں یہ باطنی نبوت پائی جاتی ہے یہی ’’اولی ا لامر‘‘ ہیں۔ انہی کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘ (بخاری شریف)

یہاں امیر سے مراد دولت مند یا مالدار نہیں بلکہ امام الوقت، مرشد کامل اکمل، انسانِ کامل ولی اللہ ہے۔

قرآن و حدیث میں جہاں جہاں اطاعت کا حکم آیا ہے وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کا بھی کہا گیاہے کیوں کہ محبت کے بغیر اطاعت نہیں ہو سکتی۔ انسان جس سے محبت کرتا ہے وہ ہر وقت اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے۔عربی کا مقولہ ہے ’’ان المحب لمن یحب مطیع ترجمہ: محب اپنے محبوب کا مطیع ہوتا ہے۔‘‘ اسے ہر آن یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ میری کسی ادا اور حرکت سے میرے محبوب کو تکلیف نہ ہو اور میرا کوئی عمل میرے محبوب کی ناراضی کا سبب نہ بنے۔ انسان سے انسان کا خالق اطاعت سے پہلے محبت طلب کرتاہے تاکہ محبت کے ساتھ اس کے محبوبؐ کی اطاعت کی جائے۔ 

محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے 
 اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
(اسمٰعیل میرٹھیؔ)

آج کل صرف ظاہری اعمال نماز، روزہ،حج، زکوٰۃ جو کہ محبت اور عشق سے خالی ہوتے ہیں، کو اتباع کہا جاتاہے ۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
دینِ اسلام کی اصل بنیاد اللہ تعالیٰ اور آقاپاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سچا عشق، اخلاص،وفاداری اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کامل ظاہری وباطنی اتباع ہے۔ (سلطان العاشقین)

گویا محبتِ رسولؐ ہی ایمان کی کسوٹی ہے جس کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت نہیں اس کا ایمان کا دعویٰ جھوٹاہے اور ایسا ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں۔ پھر ایسے شخص کی اطاعت کیسی؟ 

حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے:
اتباع اطاعت اور محبت کا امتزاج ہے، یہ دل ہے جو تابع ہوتا ہے۔ محبت کے بغیر اتباع ممکن نہیں۔

مزید فرماتے ہیں :
طریقت شریعت بالمحبت ہے یعنی’’اطاعت میں محبت شامل کر دو یہی طریقت ہے۔یہی طریق صراطِ مستقیم ہے۔انعام یافتہ لوگوں کا راستہ۔‘‘

محبت اور اطاعت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اطاعتِ رسولؐ کو ہی عشقِ حقیقی تصور کرتے تھے۔ ان کے خیال میں جس عشق میں اطاعت نہ ہو وہ عشق نا مکمل ہوتا ہے۔ آپ ؒفرماتے ہیں: 

کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
 یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

حاصلِ تحریر: 

حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ظاہری اور باطنی اتباع ہی کامل اتباع ہے۔در اصل یہی شریعت ہے۔حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’’نور الہدیٰ کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’شریعت کی پیروی سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ پر دن رات مسلسل چل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدم پر قدم رکھتے ہوئے خود کو مجلسِ محمدیؐ تک پہنچایا جائے اور قرآن وحدیث کا ہر علم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو دونوں جہانوں میں حیات ہیں ،کی مجلس کی حضوری سے حاصل کیا جائے۔‘‘ 

 ’’اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘(Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool) کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے کسی ’’صاحبِ امر‘‘ کی ضرورت ہے جو ہمارے دل میں محبتِ رسول پیدا کرے اور پھر اطاعتِ رسول یعنی ’’صراطِ مستقیم‘‘ پر چلائے۔

بیشک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہی وہ مبارک شخصیت ہیں جوآج کے اس پر فتن دور میں تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ذاتِ مبارکہ اس حدیث کے عین مطابق ہے:
یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ (صحیح مسلم) 

عوام الناس کو دعوتِ عام ہے کہ وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ صحبت اختیار کرکے اپنے دلوں میں عشقِ رسول کی شمع روشن کریں کیونکہ

تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا 
 (اقبالؔ)

محبوب کی اطاعت کرنا اوراس کا ہر حکم بجا لانا انسان کا شیوہ ہے۔ یہ عشق اور اطاعت ہی ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے۔دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں اطاعت گزار بنائے۔آمین

استفادہ کتب:
مرآۃ العارفین: تصنیف سیدّالشہداحضرت امام حسینؓ، ترجمہ و شرح مسز عنبرین مغیث
الفتح الربانی:تصنیف سیدّنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
فصوص الحکم: تصنیف محیّ الدین ابنِ عربیؒ
نورالہدیٰ کلاں: تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
اقوالِ واصف
رسالہ: سائلہ امتہ اللہ 

’’اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘  بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒   پر کلک کریں

 

30 تبصرے “اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ Ati Ullah Wa Ati Ur Rasool

  1. یا اللہ پاک
    تو اپنی رحمت سے  ہمیں صحیح معنوں میں اپنا اطاعت گزار بنا دے۔آمین

    1. بیشک اس دور میں مرشدِ کامل کی اطاعت بہت ضروری ہے

  2. کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
    قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
    دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

  3. قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
    دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

  4. تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
    آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
    (اقبالؔ)

    1. محبتِ رسولؐ ہی ایمان کی کسوٹی ہے جس کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت نہیں اس کا ایمان کا دعویٰ جھوٹاہے اور ایسا ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں۔ پھر ایسے شخص کی اطاعت کیسی؟

  5. جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی۔(سورۃ النسا۔80)

  6. سورت النسا آیت 59 میں ہے
    اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں اولی الامر ہیں

  7. امام رازیؒ فرماتے ہیں:
    جس نے نبوت و رسالت کا انکار کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے بے نصیب رہا۔ (تفسیر کبیر)

    1. حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ظاہری اور باطنی اتباع ہی کامل اتباع ہے۔در اصل یہی شریعت ہے۔حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’’نور الہدیٰ کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:

  8. کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

  9. قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
    دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

  10. تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
    آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

  11. اللہ ربّ العزت نے جب انسان کو دنیا میں بھیجا تو خاتم الانبیاتک اِس کی ہدایت کے لیے ہدایت کے دو سلسلے جاری رکھے، ایک آسمانی کتابوں اور صحائف کا اوردوسرااس کی تعلیم دینے والے انبیا و رُسل کا

  12. کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے 
     اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

  13. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ❤❤❤❤💯

  14. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس عصر حاضر کے انسان کامل اور امام الوقت ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں