عاشقانِ مصطفیؐ Ashiqan-e-Mustafa


Rate this post

عاشقانِ مصطفیؐ

تحریر: مسز عظمیٰ شکیل سروری قادری۔اوکاڑہ

میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں:

جنہاں عشق خرید نہ کیتا عیویں آ بھگتے
عشقے باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتے

ترجمہ: جنہوں نے اس دنیا میں عشق کا سودا نہ کیا ان کی زندگی فضول اور بے کار گزری۔ عشق کے بغیر آدم اور کتے میں کوئی فرق نہیں۔

حرف عشق کی حقیقت یا ابتدا کیا ہے؟

سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی اور پوشیدہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو کائنات میں ظاہر کیا۔ اللہ تعالیٰ کے جلال کی وجہ سے ہر چیز جل کر خاک ہو گئی۔ اس پر اللہ نے میم احمدی کا نقاب پہنا اور صورتِ احمدی اختیار کر لی تو ہر چیز کو سکون آگیا۔جب اللہ تعالیٰ نے نورِ احمدی میں اپنے آپ کو دیکھا تونورِ احمدی کی صورت میں اپنے تعین پر خود اپنے آپ پر ہی عاشق ہو گیا۔(سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ۔ حیات و تعلیمات)

 پھر اسی عشق کو  اتنی وسعت بخشی کہ قرآنِ حکیم کی صورت میں اور کامل دین کی صورت میں تاقیامت جاری و ساری فرما دیا۔ اللہ پاک اپنے حبیب محمدِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان ازل سے واضح فرما تاآ رہاہے جس کے متعلق عاشقوں کا نکتۂ نظر کچھ یہ ہے کہ عاشق کو غرض ہے فقط ذکرِیار سے۔یہ تو اللہ خود بھی قرآن میں فرمارہا ہے:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ(سورۃ الم نشرح۔4)
ترجمہ:اورہم نے آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ ) بلندفرما دیا۔
اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو اس طرح سے بلند کیا کہ اپنے ذکر کے ساتھ ذکرِ مصطفیؐ کو فرض قرار دے دیا۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:
اے محمدؐ! جہاں میرا ذکر ہوتا ہے وہاں آپ کا ذکربھی ہوتاہے۔ جس نے میرا ذکرکیا مگر آپ کا نہیں کیاجنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر میں درود کو فضیلت بخشی۔ درودشریف وہ ذکر اور عبادت ہے جو ہر عبادت کو بارگاہِ الٰہی میں مقبول بناتی ہے۔ کیونکہ ہر فرقہ اور مسلک کے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے اگر دعا یا کسی عبادت کے اوّل و آخر درود پڑھ لیا جائے تو عبادت ہو یا دعا، ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ پس فرمایا کہ مجھ سے جو کچھ مانگنا ہے تو پہلے میرے محبوب پردورد بھیجو، میرے محبوب کا ذکرکرو پھر قبول کروں گا۔یہ ہے ایک اور طریقہ محبوب کے ذکر کو بلند کرنے کا۔ (حقیقتِ محمدیہ)

مالکِ کونین نے آقائے دوجہاں محمدِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو ازل سے بلندہی نہیں کیا بلکہ فیضیاب اس حد تک بنایا کہ سب سے پہلے اس فیض سے اللہ کے برگزیدہ بندے یعنی انبیااور رسل نے کمال حاصل کیا۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 جب آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ باری تعالیٰ میں عرض کی’’ اے پرودگار! میں تجھ سے بواسطہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم درخواست کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ اے آدم!ؑ تم نے محمدؐ کو کیسے پہچاناحالانکہ ابھی میں نے ان کو پیدا بھی نہیں کیا۔‘‘ حضرت آدمؑ نے عرض کیا’’ باری تعالیٰ! جب تونے اپنی طرف سے میرے اندر رُوح پھونکی تومیں نے سر اٹھایااور عرش کے پایوں پر میں نے یہ لکھا ہوا دیکھا لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  لہٰذامیں نے معلوم کر لیا تو نے اپنے نام کے ساتھ ایسے شخص کے نام کو ملایاہے جو تیرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہوگا۔‘‘اللہ ربّ العزت نے جواب دیا’’اے آدم! تم سچے ہو۔ واقعی محمدؐ میرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ نزدیک ہیں اور محبوب ہیں۔ اور جب تم نے ان کے واسطے سے مجھ سے درخواست کی ہے تو میں نے تمہاری مغفرت کی اور اگر محمدؐ نہ ہوتے تو میں تم کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

تحریر کی ابتدا میں یہ بات درج کی جاچکی ہے عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں گرفتار ہونے والی پہلی ذات، ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔پس سرکارِدوعالم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق کرناسنتِ الٰہی ہے۔ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوطرح کے ہوتے ہیں۔
اوّل: ازل سے منتخب شدہ عاشقانِ رسولؐ
دوم:عاشقانِ رسولؐ کی نسبت اور صحبت سے بننے والے عاشقانِ رسولؐ

ازل سے منتخب شدہ عاشقانِ رسولؐ کون ہیں؟

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیفِ لطیف ’رسالہ روحی شریف‘ میں لکھتے ہیں:
 جب اللہ نے میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی پھر جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی۔ جس سے سات ارواحِ فقراباصفا فنا فی اللہ، بقا باللہ تصورِ ذات میں محو، تمام مغز بے پوست ، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے، اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینۂ یقین کے شجرپر رونما ہوئیں۔۔۔۔۔ وہ سلطان الفقراور دونوں جہانوں کے سردارہیں۔ ان میں ایک خاتونِ قیامت(فاطمتہ الزہراؓ)کی روح مبارک ہے۔ ایک حضرت خواجہ حسن بصریؓ کی روح مبارک ہے۔ ایک ہمارے شیخ حقیقت ِ حق نورِ مطلق‘مشہود علی الحق حضرت سیدّ محی الدین عبدالقادر جیلانی محبوبِ سبحانی رضی اللہ عنہٗ کی روح مبارک ہے۔ اور ایک سلطانِ انوار سرّالسرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزند حضرت پیر دستگیر (قدس سرہُ العزیز) کی روح مبارک ہے۔ ایک ھاھویت کی آنکھوں کاچشمہ سرّاسرار ذاتِ یاھوُفنا فی ھوُ فقیرباھوُ (قدس سرہُ العزیز) کی روح مبارک ہے اور دو ارواح دیگر اولیا کی ہیں۔(رسالہ روحی شریف)

اس فرمان مبارک سے واضح ہے کہ ازل سے منتخب شدہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں آلِ رسولؐ، صحابہ کرامؓ، اہل ِبیت، تابعین وتبع تابعین، فقرائے کاملین اور اولیااللہ(جن کامعلوم ہویاجو پوشیدہ ہوں) کا شمار ہوتا ہے۔

اصحابِ کبارؓ اور عشقِ رسولؐ

صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے آپؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مرضِ وفات کے ایام میں علالت اس قدر بڑھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جسمِ اطہر کمزور ہو گیا اور نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف نہ لے جا سکے۔ اسی طرح تین دن گزر گئے اور پیر کا دن آ گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مرضِ وفات کے دنوں میں علالت کے باعث حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امامت کے لیے مقرر فرمایا تھا اور و ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے مطابق جماعت کرواتے تھے۔

چنانچہ پیرکے د ن جب حضرت ابوبکر صدیقؓ ایک نماز کی امامت فرما رہے تھے اور صحابہ کرامؓ صف در صف کھڑے ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا تو بسترِ علالت سے اٹھے اور اپنے حجرۂ انور کے دروازے پر تشریف لے آئے۔ اپنے غلاموں کو ابوبکرصدیقؓ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہوئے ملاحظہ فرمانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دروازے پر آکر پردہ ہٹایا۔ صحابہ کرامؓ بیان فرماتے ہیں:
’’پس نبی اکرمؐ نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسکرا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ مبارک مصحف کا ورق لگتا تھا۔‘‘
یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دروازے کا پردہ ہٹایا تو ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ مبارک پر تبسم مچل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خوشی سے مسکرا رہے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ اس وقت آپؐ کا چہرہ اقدس ایسے لگ رہا تھا جیسے کھلا ہوا قرآن ہو۔

آپ میں سے بہت سے لوگوں نے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی ہو گی۔ ذرا مسجد نبویؐ اور ریاض الجنۃ کا نقشہ اپنی آنکھوں کے سامنے لائیے۔ اگر آپ مسجدِ نبوی میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہوں تو حضور اکرمؐ کا حجرہ مبارک بائیں کندھے کی طرف پڑتا ہے اور اگر آپ محراب کی طرف دیکھیں تو وہ خاصی آگے پڑتی ہے۔

صحابہ کرامؓ نماز پڑھ رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حجرہ مبارک بائیں طرف ہو۔ ادھر دروازہ کھلے، پردہ ہلے اور مسکراتا ہوا چہرہ نمودار ہو تویہ کیسے ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ اقدس نظر آجائے کیونکہ حالتِ نماز میں آنکھیں سجدہ گاہ پر ہوتی ہیں نہ کہ کسی اور جانب، پھر نماز کے دوران قبلہ رخ کھڑے صحابہ کرامؓ کو حضورؐ کا مسکراتا ہوا چہرہ کیسے نظر آیا؟

بات دراصل یہ ہے کہ صحابہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھنے کے لیے قبلہ چھوڑ کر اپنے چہروں کودرِ یار کی جانب موڑ لیا تھا۔کعبے کی سمت سے نگاہ ہٹا کر کعبے کے کعبہ کی جانب اپنے چہروں کو متوجہ کر لیا تھا اور اس طرح محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مسکراتے ہوئے چہرے کا نظارہ کیا تھا۔

حضرت انسؓ مزیدفرماتے ہیں :
 ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ اقدس کو دیکھا تو اس سے اتنی خوشی و مسرت حاصل ہوئی ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں اپنی نمازیں ہی نہ توڑ بیٹھیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الجمامۃ والامامہ)

شارحین نے اس روایت کی شرح میں لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ کو گمان ہونے لگا کہ وہ نمازیں توڑ بیٹھیں گے اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرہ کے دیدار میں مستغرق ہو جائیں گے۔ اس وقت صحابہ پر عجیب کیفیت طاری تھی۔ تین دن کے ہجر کے بعد دیدار کی لذت حاصل ہو رہی تھی۔ عقل کہتی تھی کہ نماز پوری ہو لینے دو پھر دیکھ لینا۔ عشق کہتا تھا کعبہ اِدھر ہے توکیا؟ اُدھر دیکھو کہ کعبے کا کعبہ ہے۔عقل کہتی تھی چہرہ قبلہ کی طرف سے نہ موڑنا نماز ٹوٹ جائے گی۔ عشق دامن کھینچ کر کہتا تھا دیوانو!

نمازیں جو قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں

عقل یہ مسئلہ سمجھاتی تھی کہ کعبہ کی طرف سے چہرہ ہٹا لینے سے نماز باقی نہیں رہتی۔ عشق یہ مسئلہ سمجھاتا تھا کہ چہرہ کعبے سے ہٹ کر اور جانب پھر جائے تو بے شک نماز ٹوٹ جاتی ہے لیکن اگر چہرہ کعبے سے ہٹ کر چہرۂ مصطفیؐ کی طرف پلٹ جائے تو نماز اپنی معراج پا لیتی ہے۔
 اس کشمکش میں عشق غالب آیا، عقل مغلوب ہو گئی، عشق کا سکہ چل گیا، عقل کا فتویٰ نہ چل سکا۔ صحابہ کرامؓ نے نماز کی حالت میں قبلہ رخ چہروں کو موڑ کر حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے چہرۂ انور کو دیکھنا شروع کر دیا۔ ان پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ نماز ٹوٹنے کا اندیشہ ہو گیا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ جو اس وقت امامت کروا رہے تھے ذرا ان کی حالت دیکھئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے محسوس کیا جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باہر تشریف لے آئے ہوں۔ جب ساری کایا پلٹنے لگی اور سارا سماں بدلنے لگا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی مصلیٰ چھوڑ کرپہلی صف میں آنے لگے ۔روایت کے الفاظ ہیں:
حضرت ابوبکرصدیقؓ ایڑھیوں کے بل پیچھے ہٹے تاکہ صف میں مل جائیں۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لارہے ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الجمامۃ والامامہ)

حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے قدموں پر پیچھے ہٹے، مصلیٰ چھوڑ کر صف میں آنے لگے ان کا خیال تھا کہ شاید آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نما زکے لیے تشریف لا رہے ہیں اس لیے کہ بدلا ہوا سماں یہ بتارہا تھا کہ محبوب آگئے۔ لہٰذا مصلیٰ چھوڑ دیا تاکہ مصلیٰ پر آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہو سکیں اور خود پچھلی صف میں آنے لگے۔ جب آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیکھا کہ نمازی نماز بھول گئے ہیں اور امام امامت کو بھول گیا ہے ،ہر کوئی سمت قبلہ کو چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہے اور میرے دیدار میں منہمک ہونے لگا ہے تو اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’اتموا صلوٰتکم اپنی نمازیں پوری کر لو۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرے کا تبسم گویا زبانِ حال سے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے یہ کہہ رہا تھا کہ میرے پیارے صحابیو! تمہیں مبارک ہو جو امتحان میں تمہارا لینا چاہتاتھا تم اس میں کامیاب ہو گئے ہو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پردہ گِرا دیا اور اندر تشریف لے گئے۔ (حقیقتِ محمدیہ)

درج شدہ حدیث مبارکہ ثابت کرتی ہے کہ تمام ا صحابؓ کو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس قدر عشق تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشبو ہی پالینے سے وہ آپؐ کی جانب کھنچنے لگتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کے اس قدر مشتاق تھے کہ آپؐ  کی موجودگی انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار کے علاوہ ہر چیزبھلا دیتی۔

قارئین کرام!آپ کے گوش گزار کردوں کہ عشق کی کیفیت نہ تو اصلی معنوں میں درج کی جا سکتی ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان بیان کی جا سکتی ہے بجز اس کے کہ عاشقوں کی کیفیت و بیانات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی جائے وگرنہ یہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس غرض سے صحابہ کرامؓ کے عشق ِ مصطفی ؐکی مثالوں سے ہم عشق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔تمام صحابہ کرامؓ سرکارِ دوعالمؐ سے اس قدر عشق کرتے ہیں کہ بخاری شریف میں کئی احادیث درج ہیں۔

عروہ بن مسعود جب صلح حدیبیہ کے لیے قریش کی طرف سے سفیر بن کر حضور اکرمؐ کی بارگاہ میں آیا تو اس نے صحابہ کرام کے عشق کو یوں بیان کیا :
عروہ بن مسعودا صحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غور سے دیکھنے لگا۔ راوی کا بیان ہے وہ دیکھتا رہا کہ’’ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھوکتے تو لعابِ دہن کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ میں آتا جس کو وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی بات کا حکم دیتے تو اس کی فوراًتعمیل کی جاتی۔جب آپؐ وضو فرماتے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا استعمال شدہ پانی لینے کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ وہ پانی میں حاصل کروں۔جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں گفتگو کرتے تو اپنی آوازوں کو پست رکھتے تھے اور غایت تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف نظر جما کر نہیں دیکھتے تھے۔‘‘ (حقیقتِ محمدیہ)

امام طبرانیؒ نے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ اقدس کو اس طرح ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا کہ نہ تو آنکھیں جھپکتا تھا اور نہ ہی کسی طرف نگاہ پھیرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا ’’تمہارے اس طرح دیکھنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘ اس نے دست بستہ عرض کیا’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپؐ کے چہرۂ اقدس کی زیارت سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔‘‘(حقیقتِ محمدیہ)

عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت بلال حبشیؓ کے وصال کا وقت آیا تو ان کی زوجہ محترمہ نے کہا ہائے غم! حضرت بلالؓ نے اسی وقت فرمایا واہ خوشی! کل محبوب سے ملوں گا اور اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے محبوبوں کا دیدار کروں گا۔ (زرقانی علی المواہب جلد 6۔شفا جلد2)

 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ سیدّنا صدیقِ اکبرؓ کی والہانہ محبت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے سیدّہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
’’میرے والد گرامی سارا دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے۔ جب عشا کی نماز سے فارغ ہو کر گھر آتے تو ان کے لیے جدائی کے یہ چند لمحے کاٹنا بھی دشوار ہو جاتا۔ وہ ساری  رات ماہی بے آب کی طرح بیتاب رہتے۔ ہجر و فراق میں جلنے کی وجہ سے ان کے جگر سوختہ سے اس طرح آہ اٹھتی جس طرح کوئی چیز جل رہی ہو۔ اور یہ کیفیت اس وقت تک رہتی تھی جب تک حضور کے چہرۂ اقدس کو نہ دیکھ لیتے۔‘‘

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن ہشامؓ سے مروی ہے کہ  ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمرؓ بن خطاب کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپؐ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے۔‘‘حضرت عمر ؓ نے عرض کیا’’ اللہ ربّ العزت کی قسم! اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا ’’عمر اب تمہارا ایمان کامل ہے۔‘‘ (حقیقتِ محمدیہ)

حضرت عثمان غنیؓ کو صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سفیر بنا کر مکہ مکرمہ بھیجاکہ یہ کفارِ مکہ سے مذاکرات کریں۔ کفار بضد تھے کہ اس سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو مکہ نہیں آنے دیں گے نہ ہی حج کرنے دیں گے۔ جب حضرت عثمان غنیؓ اس سلسلہ میں مذاکرات کرنے مکہ پہنچے تو قریش نے کہا کہ آپ پہلے بیت اللہ کا طواف کر لیں تو اس عاشقِ رسولؐ نے جواب دیا:
 ’’اللہ کی قسم میں اس وقت تک طوافِ کعبہ نہیں کروں گا جب تک حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم طوافِ کعبہ نہ کر لیں۔‘‘(الشفا)

 سیدّنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا گیا ’’آپؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیسی محبت تھی؟‘‘سیدّنا علی المرتضیٰ شیرِ خدا نے فرمایا ’’اللہ کی قسم حضور ہمیں اپنی جانوں ، اپنے اموال، اولاد، باپ اور ماں سے بھی زیادہ محبوب ہیں اور کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے ہمیں اپنے آقا اس سے بھی زیادہ پیارے اور محبوب ہیں۔‘‘ (شفاجلد2)

 سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عاشقوں کی جب بھی کہیں بات ہو وہاں حضرت اویس قرنیؓ کا ذکر ضرور ہو تاہے۔ حضرت اویس قرنیؓ کا شمار تابعین کبار میں ہوتاہے۔ آپؓ نے رسالت ماب کا زمانہ پایا۔ غائبانہ اسلام قبول کیا مگر ظاہری ملاقات سے محروم رہے۔ دیدارِجمالِ مصطفیؐ کے شوق اور عشقِ حبیبِؐ خدانے حضرت اویس قرنیؓ کو انتہائی بے قرار رکھا۔ روایات میں آتاہے کہ حضرت اویس قرنیؓ نے غزوۂ احد میں آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دانت مبارک کی شہادت کی خبر سنی تو تفصیل معلوم نہ کر سکے کہ کون سا دانت شہید ہوا ہے اور غلبۂ محبت میں اپنے سارے دانت توڑ ڈالے۔(خواجہ اویس قرنی صفحہ 5 )

صحابہ کرامؓ کے بعد جس بھی زمانہ میں جس شخص نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاقرب حاصل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا محبوب بنایااورخود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات میں فنا کر دیاتو وہ اللہ کا ولی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا محبوب ہو گیا۔ اگر ہم تمام ولیوں اور فقرائے کاملین کا عشقِ رسول بیان کریں تو قلم کو یارا نہیں کہ عاشقانِ رسولؐ کی کیفیات کو بیان کر سکیں۔واصف علی واصف ؒاس کیفیت کو بڑے احسن اور جامع الفاظ میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
جب آپ لوگوں کا وجود نہیں تھا تو آپ کی روح حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محفل میں زیرِتربیت تھی۔ 

اس قول میں ازل سے منتخب شدہ عاشقان کی مکمل کہانی جامع الفاظ میں بیان کی جاچکی ہے جس کی وضاحت ملاحظہ ہو۔شبِ معراج جب حضرت جبرائیل امینؑ براق لے کر حاضرہوئے تو براق نے عرض کی ’’میں چاہتا ہوں کہ حضورؐ میری گردن پر دست مبارک لگا دیں کہ وہ روزِ قیامت میرے لیے علامت ہو۔‘‘ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرض قبول فرما لی۔ دستِ اقدس لگتے ہی براق کو وہ فرحت و شادمانی ہوئی کہ روح اس مقدار جسم میں نہ سمائی اور طرب سے پھول کر چالیس ہاتھ اونچا ہو گیا۔ حضور پر نور کو ایک حکمت نہائی ازلی کے باعث ایک لحظہ سواری میں توقف ہوا۔حضور سیدّنا غوث الاعظمؓ کی روحِ مطہر نے حاضر ہو کر عرض کی ’’اے میرے آقاؐ!آپ میری گردن پرقدم رکھ کر سوار ہوں۔‘‘ سرکارِ دو عالم سیدّنا غوث الاعظمؓ کی گردن مبارک پر قدم رکھ کر سوار ہوئے اور ارشاد فرمایا:
’’میرا قدم تیری گردن پر اور تیرا قدم تمام اولیا اللہ کی گردنوں پر۔‘‘ (قتادی رضویہ، جلد28)

اس واقعے سے یہ ثابت ہوا کہ سیدّنا غوث پاکؓ ازل سے ہی عاشقِ رسولؐ ہیں اور تمام اولیا کو آپؓ کی بدولت فیضِ عشق عطا ہوا اور ہوتا رہے گا۔ پس جس نے سیدّناغوث پاکؓ کی مکمل اتباع کی وہ فلاح پا گیا اور عشقِ مصطفیؐ کی نعمت پائی۔
سلطان الفقر پبلیکیشنز کی شائع کردہ کتاب’ سلطان العاشقین‘ میں درج ہے کہ حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو ان کی دینِ محمدی کوحیاتِ نو عطا کرنے اور فقر حقیقی کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کاوشوں کے اعتراف کے طور پر شبیہ غوث الاعظم کا لقب مجلسِ محمدی سے عطا کیا گیا۔ امتِ مسلمہ کی ہدایت اور احیائے دین کے لیے یہ لقب آپ مدظلہ الاقدس کی جدوجہد اور کاوشوں کا اجمالی تعارف پیش کرتا ہے۔ فرمانِ باھوؒ ہے:
تیرا مرشد وہ ہے جو تجھے حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی مجلس میں پہنچا دے ۔وہی تجھے وصالِ وحدت بخش سکتا ہے۔

درج بالا فرمانِ عالیشان کے مطابق مرشد کی مہربانی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس اوروصالِ وحدت حاصل ہو سکتا ہے اور سلطان الفقر پبلیکیشنز سے لی گئی تحریر اس بات کی چشم دید گواہ ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس مخلوقِ خدا کی روحانی تربیت کر کے انہیں عاشقانِ رسول ہونے کا شرف بحیثیت شبیہ غوث الاعظم اور مرشد کامل کے عطافرما رہے ہیں۔ یہی درجہ دوم کے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (جن کو عاشقانِ رسول کی محبت میں رہنے اور ان کی روحانی صحبت اختیارکرنے سے عشق کی نعمت حاصل ہو)ہیں جو اپنے زمانہ کے مرشد کامل سے بذریعہ بیعت، محبت اور صحبت سے مستفید ہو کر پل بھر میں عاشقانِ مصطفیؐ کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:

بشکلِ شیخ دیدم مصطفیؐ را
نہ دیدم مصطفیؐ را بل خدا را

ترجمہ: میں نے اپنے شیخ کی شکل میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دیدار کیا۔ نہ صرف مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دیدار کیا بلکہ اللہ کادیدار کیا۔

عشق ایک سمندر کے مترادف ہے جس کی گہرائی تک پہنچنا اور اس کو بیان کرنا محال ہے اسی لیے حضرت مولانا رومؒ کے درج بالا فرمان کو واصف علی واصفؒ کے اس قول سے سمجھتے ہیں ۔ آپؒ فرماتے ہیں:
آج کا انسان اگر درود بھیج رہا ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی حال کا انسان ماضی پر درود بھیجے۔ درود بھیجنے اور درود وصول کرنے والے کا زمانہ ایک ہونا چاہیے۔ یا تم ماضی میں جاؤ یاآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے زمانہ میں پاؤ، تب درود بھیجا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ایسا کوئی حل نہیں کہ آپ حال سے چٹھی بھیج کے ماضی میں پہنچا دیں۔ آپ ماضی میں چٹھی بھیج رہے ہیں وہ حال میں ہے یا آپ ماضی میں ہیں۔زمانہ ایک ہی زمانہ ہے ۔جب تک زمانہ ایک نہ ہو خطاب نہیں ہو سکتا، گفتگو نہیں ہو سکتی۔ مثلاً آپ کچھ بھیج رہے ہیں کوئی وصول کرنے والا ہوگا تو ہی بھیج رہے ہیں۔

 اس حقیقت کو مزید وضاحت سے حضرت علامہ ابن ِ عربیؒ اپنی تصنیف فصوص الحکم میں بیان کرتے ہیں:
ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے ابد تک اپنا لباس بدل رہے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر حضورؐ جلوہ نما ہوتے ہیں۔

حاصلِ تحریر:

عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سنتِ الٰہی ہے اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق میں گرفتار اس چاہت کے سبب ساری مخلوقات کی تخلیق ہوئی کہ تمام کائنات بھی اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق کرے۔ اس غرض کے تحت اللہ نے کچھ برگزیدہ بندے انبیا ، صحابہ، اولیا اور فقرا کو ازل سے عشقِ مصطفیؐ کے لیے منتخب فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان کو مزید وسعت عنایت کرتے ہوئے ہر زمانہ میں انسانِ کامل کے روپ میں ظاہر فرمایا  تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت سے فیضیاب اور عشق کی نعمت حاصل کر سکیں۔ یاد رہے کہ انسانِ کامل زمانہ کے اعتبار سے ایک ہی ہوتا ہے جو کہ سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہوتا ہے۔ جسے یہ شرف ازل سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کو اپنی نگاہِ فیض سے عشقِ مصطفیؐ کی نعمت عطا کر سکے اور ایسے مرشد کامل کوانسانِ کامل کہا جاتا ہے۔

دورِ حاضر کے انسانِ کامل مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام کی حیثیت سے مسندِ تلقین و ارشاد پر فائز لاکھوں نفوس کا تزکیۂ نفس فرما کر انہیں نفسِ مطمئنہ عطا فرماچکے ہیں۔ نفسِ مطمئنہ کی بدولت ہی مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری اور قرب و معرفتِ الٰہی جیسے اعلیٰ ترین باطنی مقامات تک رسائی ممکن ہے۔بلاشبہ یہ باطنی مقامات عشقِ الٰہی اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بغیر ممکن نہیں جو محض مرشد کامل اکمل کے فیض سے حاصل ہوتے ہیں۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
انسانِ کامل اصل میں مرشد کامل ہے۔

پس تحقیق عشق مرشد سے عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حاصل ہوتاہے اور جس نے عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حاصل کیا وہ فلاح پا گیا۔

استفادہ کتب:
شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
حقیقتِ محمدیہ: ایضاً
رسالہ روحی شریف: تصنیفِ لطیف حضرت سخی سلطان باھوؒ
سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز

’’عاشقانِ مصطفیؐ‘‘  بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒   پر کلک کریں

 

اپنا تبصرہ بھیجیں