اُمتی ہونے کی شرائط Ummati Hoony ki Sharayet


Rate this post

اُمتی ہونے کی شرائط

تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب محسن ِانسانیت، رحمتِ دوجہاں، نورِ کون ومکاں ، راحتِ قلب و جان خاتم النبیین جناب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی معرفت کے حصول کا ضابطۂ حیات دے کر مبعوث فرمایا۔ اسلام انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے مکمل دین،جامع ضابطۂ حیات اور عالمگیر مذہب ہے۔ فردِ واحدہویا جماعت، جب تک اس کے تمام قواعد و ضوابط کو مکمل (ظاہر و باطنی طورپر ) اپنا نہ لے،اسے دائرہ اسلام سے خارج تسلیم کیا جاتاہے۔اورخارجِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی کیسے ہو سکتا ہے؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(سورۃالبقرہ۔ 208 )

دین میں پورے پورے داخل ہونے سے مراد ہے ظاہری و باطنی تمام احکاماتِ الٰہی کو مانتے ہوئے اسلام قبول کرناکیونکہ دین ظاہری و باطنی یکسوئی سے احکامِ الٰہی کی بجاآوری کا نام ہے۔ ظاہر کا تعلق عالمِ ناسوت اورباطن کا تعلق عالم ِلاھوت سے ہے۔ یاد رہے عالمِ ناسوت مقصدِحیات (عالمِ لاھوت میں قرب ودیدار ِ حق تعالیٰ ) کے حصول کا ذریعہ ہے منزل ہر گز نہیں۔ لہٰذا عالم ِناسوت (اس ظاہری جسم کا جہان) میں انسان پر کچھ قواعد و ضوابط (قانونِ شریعت) لاگو ہیں جو کہ عالمِ لاھوت میں بارگاہِ الٰہی کے حضور سرخروہونے کی ضمانت ہیں۔ مقصدِحیات پانے والا ہی حقیقی اُمتی کہلاتا ہے۔یہی وہ وجہ تھی کہ آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے قبل تشریف لانے والے تمام پیغمبروں نے آپؐ کے اُمتی ہونے کی دعا مانگی تھی تاکہ لقائے الٰہی پا سکیں۔ اس کا ذکر قرآنِ پاک میں حضرت موسیٰؑ کے واقعہ سے ملتا ہے۔ جب حضرت موسیٰؑ نے دیدارِ الٰہی کی خواہش کی اور مناجات میں عرض کی ’’اے اللہ ! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کر لوں۔‘‘ (سورۃالاعراف۔143) 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ  اپنی کتاب ’’عین الفقر‘‘ میں اس واقعہ کو عارفانہ اور الہامی اندازمیں تحریر فرماتے ہیں:
جب موسیٰؑ نے فرمایا ’’اے اللہ ! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کر لوں۔‘‘  تواللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے موسیٰؑ!میں اپنی تجلی آپ پر کرتودوں مگر آپ میں اتنی طاقت نہیں کہ اسے برداشت کر سکیں۔‘‘ حضرت موسیٰؑ نے عرض کی ’’یااللہ! میں برداشت کر لوں گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے موسیٰؑ! کوہِ طور پر آجائیں اور عاجزانہ دو رکعت نماز ادا کر کے ادب سے دوذانوہو کر بیٹھ جائیں۔‘‘ جب موسیٰؑ نے ایسا ہی کیا تواللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی نازل فرمائی جس سے کوہِ طور ریزہ ریزہ ہو گیااور حضرت موسیٰؑ بیہوش ہو کر گر گئے۔ تین دن اور تین راتیں اسی بیہوشی کی حالت میں خود سے بے خبر پڑے رہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔‘‘ (الاعراف۔143) اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اے موسیٰؑ! میں نے نہ کہا تھا کہ آپ میں برداشت کی طاقت نہیں ؟ـ‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے موسیٰؑ! آپ پر نور کی تجلی ہوئی مگر آپ بے خود ہوکر بے ہوش ہوگئے اور میرا راز بھی فاش کر دیا۔ مگر آخری زمانہ میں میرے محبوب محمدؐ کی اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دلوں پر میں ایسی تجلیات کا نور ہر روز ہزار بارنازل کرو ں گامگر وہ ذرّہ بھر بھی حدسے تجاوز نہیں کریں گے۔ ‘‘ (عین الفقر)

حضرت عبداللہؓ ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں ’’ کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خلت(دوستی) ابراہیمؑ کے لیے ہو، کلام موسیٰؑ کے لیے اوردیدار محمد مصطفیؐ کے لیے۔‘‘ (المستدرک216)

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تم اپنے ربّ کا دیدار ضرور کروگے ۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ؐ !کیاواقعی ہم اپنے ربّ کا دیدار کر سکیں گے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’کیا تم نصف النہار کے وقت سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری محسوس کرتے ہو؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’نہیں ‘‘ فرمایا’’کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں دشواری محسوس کرتے ہو؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا’’نہیں ‘‘ فرمایا’’اسی طرح پروردگار کو دیکھنے میں بھی تمہیں کوئی دشواری نہ ہوگی۔‘‘ (مسند احمد11137)

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ قرب و دیدارِالٰہی ہی وہ خاصہ ہے جس کے لیے انبیا نے اپنی نبوت چھوڑ کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں شامل ہونے کی دعا کی۔جس شخص نے بھی اللہ ربّ العزت کی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتے ہوئے کلمہ طیب پڑھا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی شمار ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر کلمہ گوکو لقائے الٰہی کی نعمت نصیب ہو گی؟

امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’کلمہ طیب پڑھنے کے تین درجے ہیں: مبتدی کا زبان سے کلمہ پڑھنا، متوسط کا تصدیق دِل سے کلمہ طیب کا اقرار اور منتہی کا فنا فی اللہ بقا باللہ ہوجاناہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)

کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ    میں مسلمان اس بات کااقرار کرتا ہے کہ اللہ جل جلالہٗ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسولِ برحق ہیں۔کلمہ طیب انسانی وجود کو جہالت و تاریکی سے پاک کرنے والا، نفس کا تزکیہ کرنے والا، قلب کا تصفیہ کرنے والااور روح کو تجلیاتِ انوارِ حق تعالیٰ سے منور کرکے قربِ الٰہی سے ہمکنار کرنے والاہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: 
(رسمی اور رواجی طور پر) کلمہ طیب پڑھنے والے کثیر ہیں مگر اخلاص سے کلمہ طیب پڑھنے والے بہت قلیل ہیں۔  
جس شخص نے صدقِ دل(تصدیق ِقلب) سے کلمہ طیبہ پڑھا، اللہ اس پر دوزخ کی آگ حرام قرار دے دے گا۔ (بخاری 128)

میرے ہادی میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں’’جو شخص کلمہ طیب کے لَآ اِلٰہَ یعنی نفی کی حقیقت کو جان لیتاہے اس سے دنیا اور آخرت کی کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتی۔ جو شخص لَآ اِلٰہَ  کی کنہ اور حقیقت کو پالیتاہے اس پر اثبات اِلَّا اللّٰہُ  کے کلُ درجات کھل جاتے ہیں اور  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا محرمِ راز ہو جاتا ہے۔ جس شخص کے وجود میں کلمہ طیب تاثیر کرتا ہے وہ توحید و رسالت کی کنہ اور حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔ ‘‘(شمس الفقرا)

آج امتِ مسلمہ کی زبوںحالی کی اصل وجہ بھی یہی ہے ۔ہم زبان سے تو کلمہ پڑھ لیتے ہیں اور اسے اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں جبکہ تصدیق بالقلب سے کلمہ پڑھنے سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ آج کا مسلمان اللہ معبودِ برحق پر بھروسانہیں کرتابلکہ اپنے دِل میں ہزاروں معبودوں کو بسائے ہوئے ہے اور انہی سے اپنی امیدیں جوڑے رکھتاہے۔ کہیں کسی کے لیے اس کی اولاد معبود ہے تو کسی کے لیے اس کی بیوی، عزت و شہرت،مال ودولت،کاروبار، والدین ،عزیزواقارب اس کے معبود ہیں۔جبکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حکم ہے کہ’’زبان سے اقرارکرو اور دل سے تصدیق کرو۔‘‘ 

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں ’’اگر کسی کو تصدیقِ دل حاصل نہیں تو اس کا محض زبان سے لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  کا اقرار کر لینا اسے (دنیا و آخرت میں) کوئی فائدہ نہ دے گا۔‘‘ (عین الفقر)

پس کلمہ طیب اللہ ربّ العزت کے حضور عبودیت و غلامی کا اقرار نامہ ہے۔ جس کی کنہ حاصل کیے بغیرحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اُمتی ہونے کاعرفان حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ زبانی کلمہ طیب پڑھ کر انسان مسلمان ہوجاتا ہے اور امتِ محمدیہ میں شامل ہو جاتا ہے لیکن جب تک اس کلمے کی تصدیق ادارکِ قلبی سے نہیں کرتا اس وقت تک اپنی ذات کا عرفان ، کلمے کی حقیقت اور اس میں پنہاں معرفتِ الٰہی کے اسرار و رموزحاصل نہیں کر پاتا۔اس کے علاوہ بھی چند اہم عقائد اور عوامل ہیں جن کے انکار سے انسان دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔ آئیے ان پر نظر ڈالتے ہیں۔

حیات النبیؐ کا منکر

 حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا’’اے جابرؓ بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں سے پہلے تیرے نبیؐ کے نور کو پیدا فرمایا۔‘‘ (حقیقتِ محمدیہ)
مزید ارشادِ نبویؐ ہے’’میں اللہ پاک کے نوُر سے ہوں اور تمام مخلوقات میرے نوُر سے ہیں۔‘‘ (حقیقتِ محمدیہ)
حدیثِ قدسی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کو بتایا ’’اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں کائنات ہی تخلیق نہ کرتا۔‘‘

جب تخلیقِ کائنات نورِ محمدسے ہی ہوئی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپؐ کے وصال کے بعد وہ نور ہی ختم ہو گیا ہو۔ یاد رکھیں کہ یہ تمام کائنات اور اس کی موجودات نورِ محمد سے ہی قائم ہیںاور جب ربّ تعالیٰ اس نور کو اٹھالے گا تو کائنات اور تمام موجودات ختم کر دی جائیں گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کاایک گروہ ایسا بھی ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بشری لحاظ سے خاتم النبیین تو تسلیم کرتاہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے باطنی وجود کی حقیقت سے انکار کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ السلام بحیثیت نبی آخرالزماں مبعوث ہوئے اورانسان کو ظاہری ضابطۂ حیات دے کر اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے دیگر انبیا اور رسول ہوا کرتے تھے۔ ایسا گروہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باطنی حیات مبارکہ کو سرے سے ہی ماننے سے انکار کر دیتاہے۔

 حضرت ابودرداؓ روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیا کے جسموں کو کھائے اللہ تعالیٰ کا ہر نبی قبر میں زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے۔ ‘‘  (ابنِ ماجہ۔ مشکوٰۃ )

آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ صرف حیات ہیں بلکہ آج بھی آپ کی مجلس اُسی طرح موجود ہے جس طرح ظاہری حیات میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ موجود تھی۔ عاشق اور عارف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں اور فیض حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (حقیقتِ محمدیہ) 

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
جان لے اُمت پیروکار کو کہتے ہیں اور پیروکار وہ ہے جو قدم بقدم حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو ان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں پہنچائے۔ مجھے تعجب ہے ان لوگوں پر جو راہِ حضوری نہیں جانتے لیکن نفس پرستی، خود نمائی اور کبر و ہوا کے باعث عرفانِ اللہ طلب نہیں کرتے۔بھلا جو شخص نظرِنبویؐ میں منظور و حضورہی نہیں وہ مومن،مسلمان،فقیر،درویش،عالم،فقیہ، پیروکاراور اُمتی کیسے ہو سکتا ہے!(کلید التوحید کلاں)

پس جو شخص حیات النبیؐ کا منکر ہے وہ کس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی ہو سکتا ہے وہ جو بھی ہے جھوٹا ہے، وہ بے دین و منافق ہے اور حضور ؐ کا فرمان ہے ’’جھوٹا آدمی میرا اُمتی نہیں ہے۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)

(1 کلمہ طیب میں حیات النبیؐ کا ثبوت

اگرکلمہ طیب کے ترجمہ پر غور کیا جائے تواس میں بھی اللہ پاک نے واضح فرما دیاہے کہ ’’محمدؐاللہ کے رسول ہیں‘‘ یہ نہیں فرمایا’’محمدؐ رسول تھے‘‘۔۔۔ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر زمانہ کے رسول ہیں، جوگزرگیا،جوگزررہاہے اورجوآنے والاہے۔ پس آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کائنات میں باطنی طور پر نہ صرف حیات ہیں بلکہ اپنی اُمت کے حاجت روا بھی ہیں اور جو اس بات سے انکار کرتا ہے وہ عقیدہ ختمِ نبوت کا منکر ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرمایا’’اے محمدؐ! جہاں میرا ذکر ہوتا ہے وہاں آپؐ کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ جس نے میرا ذکر کیا مگر آپؐ کا ذکر نہ کیا ، جنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ ‘‘ (درمنثور، جلد6)

(2نماز میں حیات النبیؐ کا ثبوت

میرے ہادی آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس حیات النبیؐ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہم نماز میں ، تشہد میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سلام بھیجتے ہیں تو ’اَلسّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ‘ کہتے ہیں اور عربی میں ’’عَلَیْکَ‘‘ کا صیغہ سامنے موجود یعنی حاضر شخص کے لیے اور ’’عَلَیْہِ‘‘ کا صیغہ غیر حاضر شخص کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔جب ہم تشہد میں سلام پڑھتے ہیں تو اس عقیدہ کے ساتھ کہ آپؐ حیات ہیں اور موجود ہیں بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ کائنات کے ذرّے ذرّے میں موجود ہیں۔ اب جو لوگ حیات النبی ؐ کے منکر ہیں وہ ہمت اور کوشش کریں اور نماز میں صیغہ ’’عَلَیْکَ‘ ‘ کو ’’عَلَیْہِ‘‘میں بدل دیں پھر دیکھیں تماشا کیا ہوتاہے ۔ان کو مرزائیوں کی طرح غیر مسلم قرار دلوانے کے لیے لوگ اُٹھ کھڑے ہوںگے۔(حقیقتِ محمدیہ) 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں ’’جسے حیات النبیؐ پر اعتبار نہیں وہ دونوں جہان میں خوار ہوتا ہے ۔ حضورؐ کو ہر وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو اور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ ‘‘ (کلید التوحید کلاں)

(3واقعۂ معراج میں حیات النبیؐ کا ثبوت

واقعۂ معراج بھی حیات النبیؐ کی روشن مثال ہے ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عرشِ معلی پر بلایا گیا یعنی آپؐ اپنے ظاہری و باطنی وجود مبارک سے اس کائنات سے کچھ وقت کے لیے تشریف لے گئے تو نظامِ کائنات ساکن ہو گیا جیسے جسم سے روح نکل جائے تو جسم ساکن (بے جان) ہو جاتاہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کائنات اور اس کی موجودات کی حقیقت (روح) ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لے جائیں اور کائنات اور اس کا نظام چلتا رہے؟ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ صرف اپنے پاکیزہ باطنی وجود کے ساتھ موجود ہیں بلکہ تمام حاجت مندوں کی حاجت روائی فرماتے ہیں اور جو اس پر بھروسا نہیں رکھتا وہ آپؐ کا اُمتی کیسے ہو سکتا ہے!

اہلِ بیتؓ اطہار اور صحابہ کرامؓ کی تعظیم و تکریم

اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرام ؓ کے معاملے میں حسنِ ادب تکمیلِ ایمان کی معراج ہے۔لہٰذاان پاکیزہ نفوس کے معاملے میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حیا کرنی چاہیے۔ اہلِ بیتؓ کے اعلیٰ مراتب اور ان کی پاکیزگی کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے’رِجس‘ کو دور رکھے اور تمہیں پاک و طاہر کر دے۔ ‘‘ (سورۃ الاحزاب۔33)

اللہ پاک نے اُمتِ محمدیہ پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ اہلِ بیت ؓ سے محبت کریں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 فرمادیجئے اے لوگو! میں تم سے اس (ہدایت و تبلیغ) پر کوئی اُجرت نہیں مانگتا سوائے قرابت کی محبت کے۔(سورۃ الشوریٰ۔23)

حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایاـ ’’تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں(یعنی ایسا شخص میرا اُمتی نہیں اور نہ ہی اس کی میرے ساتھ کوئی نسبت ہے) علیؓ سے بغض رکھنا، میرے اہلِ بیتؓ سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام (یعنی اقرار باللسان) کا نام ہے۔‘‘ (امام دیلمی)

صحابہ کرامؓ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے بہترین لوگ ہیں۔ انہوں نے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے براہِ راست فیضِ فقر پایااور بعد از حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُمت کو اطاعتِ حق تعالیٰ اوراطاعت رسول کریمؐ پر متحد رکھنے والے ہدایت کے چراغ ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’میرے صحابہ ستاروں کی مانندہیں۔جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح) 

حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میرے صحابہؓ کے بارے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری اُمت کے بہترین لوگ ہیں۔‘‘ (امام ابو نعیم)

 ان پاکیزہ نفوس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے۔(سورۃ المائدہ۔119)
 لہٰذا اصحابِ کبارؓ کو نعوذ باللہ برا بھلا کہنا، کوئی بہتان باندھنا،ان کے ساتھ کسی لغو بات کو منسوب کرنایا غلیظ زبان استعمال کرناسراسر کفر، سرکشی اور نفاق کی علامات ہیں اور سر کش (حد سے بڑھ جانے والے) کو اللہ بھی پسند نہیں فرماتا تو اللہ کے محبوبؐ کیسے اس پر اپنی نگاہِ رحمت فرمائیں گے؟

حضرت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
جب تم کسی شخص کو اصحابِ رسولؐ کے بارے میں بدگوئی کرتے دیکھوتو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھ لو۔  (فضائلِ صحابہؓ)

حضرت اسماعیل الصابونی نیشاپوریؒ فرماتے ہیں:
جس نے صحابہ کرامؓ سے بغض رکھا، ان کو برُا بھلا کہا اور ان کی طرف وہ من گھڑت باتیں منسوب کیں جو اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق رافضی اور خارجی لوگ منسوب کرتے ہیں ، وہ ہلاک ہو گیا۔(فضائل صحابہؓ)

محبت وشفقت

اسلام میں اخلاقی اقداراور انسانیت کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ کوئی انسان کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو،مسلمان پر اس کے حقوق لازم ہیں۔ اسی طرح کسی بھی عمر(خواہ چھوٹا ہو ،جوان یا بوڑھا) سے تعلق رکھتے ہوں آپس میں ادب و احترام اور محبت و شفقت کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی بڑوں کو تاکید کی گئی ہے کہ بچوں سے ملو تو شفقت سے پیش آؤ ، انہیں کوئی بات سمجھانی ہو تو نرمی سے آہستہ آواز میں سمجھاؤ۔ بچوں اورجوانوں کو اپنے بزرگوں کی عزت و تکریم کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے قوت و طبیعت میں واپس (بچپن یا کمزوری کی طرف) پلٹا دیتے ہیں، پھر کیا وہ عقل نہیں رکھتے۔‘‘ (سورۃ یٰسین ۔ 68)

احادیثِ نبویؐ ہیں

 بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے۔(ابو داؤد)
جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔ (ترمذی)

روایات میں واقعہ درج ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت زید بن ثابتؓ نے طویل عمر پائی۔ حضرت زید بن ثابتؓ اپنے زمانہ بزرگی میں ایک بار کسی صحابی کے جنازہ میں شریک ہوئے۔ جنازہ پڑھانے کے بعد جب آپؓ تشریف لے جانے لگے تو سیدّنا عبداللہ بن عباسؓ جو کہ حضوراکرمؐ کے چچا کے بیٹے تھے، جلدی سے آگے بڑھے اور اپنے دستِ مبارک حضرت زید بن ثابتؓ کے پاؤں کے نیچے رکھ دیئے تاکہ آپؓ کوسواری پر سوار ہونے میں مشکل پیش نہ آئے۔ جب حضرت زید بن ثابتؓ نے پوچھا ’’آپؓ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ ‘‘ توفرمایا ’’ہمارے نبیؐ نے فرمایا ہے کہ بزرگوں کا یوں احترام کرو۔‘‘یہ سنتے ہی حضرت زید بن ثابتؓ نے بزرگ ہونے کے باوجود نہایت شفقت سے سیدّنا عبداللہ بن عباسؓ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ جب استفسار کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا ’’ہمارے نبیؐ نے ہمیں اپنے اہلِ بیتؓ کا یوں احترام کرنے کاحکم دیا ہے۔ ‘‘ 

چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی عزت و تکریم نہ کرنے والا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت کا حقدار کیسے ہو سکتا ہے؟ حدیث مبارکہ میں واضح ارشادہے ’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘ (ترمذی)

دھوکا دہی اور ملاوٹ

دین اسلام میں دھوکا دہی اور ملاوٹ سے کی گئی خرید و فروخت کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ الترمذی میں درج ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے تو آپؐ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا، آپؐ کی انگلیاں تر ہوگئیں تو آپؐ نے فرمایاـ’’غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا ’’ اللہ کے رسولؐ! بارش سے بھیگ گیا ہے۔‘‘آپؐ نے فرمایا ’’اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں، پھر آپؐ نے فرمایا ’’جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘  (الترمذی۔1315) 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
مکر، دھوکا اور خیانت کرنے والے دوزخ میں جائیں گے۔ (مکاشفۃ القلوب)
دھوکا دہی ، وعدہ خلافی اور بد دیانتی سب جہنم کے عذاب کا سبب ہیں۔ (حاکم)

امام غزالیؒ فرماتے ہیں ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ مستجاب الدعوات ہو جائیں تو حرام کا ایک لقمہ بھی اپنے پیٹ میں نہ ڈالیں۔‘‘

غرورا ور تکبر

حدیثِ قدسی ہے’’ کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہمد ہے ، ان دونوں کے بارے میں جو کوئی مجھ سے نزاع کرے گا تو میں اسے توڑ دوں گا۔ ‘‘ تکبر ایسی مذموم خصلت ہے جو بندے کو اللہ سے دور کر دیتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگاجس کے دل میں ذرّہ برابر تکبرپایا جائے گا۔‘‘ (کیمیائے سعادت) 

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’تکبر ایسی بیماری ہے کہ اگر یہ رائی کے دانے کے برابر بھی قلب میں جاگزیں ہو تو کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی۔‘‘ (سلطان العاشقین)

پس یہ جاننا چاہیے کہ تکبر شیطان کی صفت ہے اور اسی صفت کے باعث وہ ملعون کہلایا۔ تکبر چاہے علم پر ہو، مال و دولت پر، حسب نسب پر یا شکل و صورت پر یہ مسلمان کی دنیا و آخرت برباد کر دیتا ہے کیونکہ متکبر انسان خود کو اللہ کا شریک بنا کر اللہ سے دشمنی کرتا ہے پھر ایسا انسان کیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی ہو سکتاہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے مجھے تواضع ،انکساری اور فروتنی کا حکم فرمایا ہے۔‘‘ (کیمیائے سعادت)

جھوٹ، منافقت اور ناشکری

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اللہ تعالیٰ جھوٹے اور ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (سورۃ الزمر۔3)
جھوٹ ہی تمام روحانی بیماریوں کی جڑہے، اسی سے منافقت، غیبت اور چغلی جیسی روحانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جھوٹ انسان کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کو بھی اس قدر سیاہ کر دیتا ہے کہ جھوٹا شخص حق کو ہی جھٹلادیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے اللہ پرجھوٹا بہتان باندھا اور اس کی آیتوں کو جھٹلایا؟ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘ (سورۃالانعام۔21 )
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’مومن ہر طرح کی خصلت پر پیدا ہو سکتا ہے مگر جھوٹ اور خیانت پر پیدا نہیں ہوسکتا۔‘‘ (مسند احمد)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں’’جھوٹ اُم الخبائث ہے۔جھوٹ بولنے سے اللہ کی رحمت سے دوری ہوتی ہے اور جھوٹا اللہ تعالیٰ کی لعنت کا شکار ہو جاتا ہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’جھوٹ دراصل منافقت کا ہی ایک حصہ ہے۔‘‘(احیاء العلوم،جلد۔3)
 بیشک منافق جہنم کا ایندھن ہے اور یہ جہنم کے پست درجے میں پھینکا جائے گا۔ اللہ پاک کی صفت ’’الرحمن‘‘ اور ’’الغفار‘‘ بھی ہے جس سے وہ اپنے بندوں کی خطاؤں کو بخشتا ہے اور سرکارِ دوعالمؐ رحمت اللعالمین ہیں ایسا ہر گز نہیں کہ بندۂ مومن چھوٹا سا بھی جھوٹ بولے تو وہ فوراً جہنمی ہو جائے گا۔ اللہ پاک اور حضورؐ کیسے جھوٹ کو پسند نہیں فرماتے ؟ اس کے متعلق حدیثِ نبویؐ ہے’’ جھوٹ سے بچوکیونکہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اورفسق فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے۔ آدمی برابر جھوٹ بولتارہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (مسلم)

یعنی جو مسلسل جھوٹ بولتا رہے ،جھوٹ اس کے رگ و نس اور وجود میں اس قدر سرایت کر گیا ہوکہ وہ حق بات کو قبول کرنے کے قابل نہ رہے ایسا شخص للہ تعالیٰ کے ہاں کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔کذّاب اور منافق حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی کیسے ہو سکتا ہے!

ہوائے نفس اورحبّ ِ دنیا

 امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے’’مجھے اپنی اُمت سے دو چیزوں کازیادہ خطرہ ہے ’’ایک ہوائے نفس کی پیروی اور دوسری طویل آرزوئیں کہ ہوائے نفس انہیں راہِ حق سے دور کر دے گی اور طویل آرزوئیں اُن کے دِل سے خوفِ آخرت نکال دیں گی۔‘‘  (محک الفقرکلاں)

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں’’جو آدمی حق پرستی چھوڑ کر ہوائے نفس کا غلام بن جاتا ہے وہ فرمانِ خداوندی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی کس طرح ہو سکتا ہے؟ (محک الفقرکلاں)

طویل آرزوئیں حبِ دنیا کی وجہ سے جنم لیتی ہیں اور حب دنیا نفس امارہ کی خصلت ہے جو کہ تمام برائیوں کی جڑہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’دنیا کو دنیا داروں کے لیے چھوڑ دو، جس نے دنیا میں بقدرِ کفایت سے زیادہ لیا اس نے اپنی موت لی اور وہ سمجھتا نہیں۔‘‘ (مکاشفہ القلوب)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا گیا ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ کی اُمت میں خرابی کی کیا چیزہے ؟ فرمایا ’’مال دار لوگ‘‘ (مکاشفہ القلوب)

ایک طویل حدیث میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں ’’مردار سے زیادہ گندے و بدبودار وہ لوگ ہوں گے جو دنیا سے تمتع و لذّات اُٹھاتے رہتے ہیں لیکن راہِ خدا میں اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔‘‘  (محک الفقرکلاں) 

مال و دولت کی فراوانی ، حسب و نسب پر تکبر شیطان کے ہتھیار ہیں اور یہ انسان کو اس قدر اندھا کر دیتے ہیں کہ اسے حق ہی نظر نہیں آتا، واقعۂ کربلا حبّ دنیا کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ جو سیدّنا امام عالی مقامؓ کے ناحق خون کے پیاسے تھے وہ سب کلمہ گو تھے مگر باطنی اندھے تھے۔دنیا کی محبت نے ان کی بصیرت ختم کر دی تھی وہ مردِکامل کو نہ پہچان سکے۔ ان کے اس اندھے پن کی وجہ ان کا اس فانی دنیا سے لگاؤ، اسکا لالچ اور انا و تکبر تھا جس کی وجہ سے ان ملعونوں نے سیدّنا امام عالی مقامؓ کی بیعت نہ کی بلکہ متاعِ شیطان(دنیا) کو قبول کر کے اپنی عاقبت خراب کر نا منظور کر لیا۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی ہونابہت مشکل و دشوار مرتبہ ہے کہ اُمتی وہ ہے جو خالص مومن مسلمان ہے۔ اُمتی وہ نہیں جو طلبِ دنیا و حرص و ہوا اور بغض و نفاق میں مبتلا شیطان کا پیروکار ہے۔‘‘ (محک الفقرکلاں)

جہالت

بحیثیت اُمتِ محمدیہ ہمیں اس بات پر غور کرناہو گا کہ کہیں جانے انجانے میں ہم بھی دنیا میں اس قدر غرق تو نہیں ہو رہے کہ ہم نے امامِ زمانہ کو ہی فراموش کر دیا ہو کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ وہ جہالت کی موت مرا جس کے گلے میں کسی مردِ کامل کی غلامی کا طوق نہیں ہوگا۔‘‘ انسانی وجود ظاہر (جسم) اور باطن (روح) کامجموعہ ہے اور آخرت کی کامیابی کے لیے دونوں کی درستی نہایت ضروری ہے۔ اگر کوئی یہ خیال کر ے کہ صرف ظاہری درستی ہی کافی ہے تویہ غلط نظریہ ہے کیونکہ نفس آپ کے قلب میں چھپا ایسا چور ہے جو اُمتِ محمدیہ کو ہر دم گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور کوئی بھی انسان خود کو اس سے محفوظ نہیں رکھ سکتا ۔اسی طرح شیطان نے بھی اللہ پاک کے سامنے انسان کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی تھی۔ صرف مرشد کامل اکمل ہی بحکم اللہ و رسولؐ ان سے محفوظ رکھ سکتاہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے مردِ کامل کے متعلق شیطان کو واضح فرمادیا ہے ’’بیشک جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا تسلط نہیں ہو سکے گا، اور تیرا ربّ ان (اللہ والوں) کی کارسازی کے لیے کافی ہے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل۔65)

حدیثِ نبویؐ ہے’’شیخ (مرشد کامل اکمل ) اپنی قوم (مریدوں) میں ایسے ہوتا ہے جیسے ایک نبی اپنی اُمت میں۔‘‘ 

موجودہ دور کے ولیٔ کامل، مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی مبارک ذات ہے ، آپ مدظلہ الاقدس قدمِ محمد ؐ پر فائز فقیر مالک الملکی ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدوں کو ہوائے نفس کی غلامی سے نجات دلوانے کے لیے اسمِ اعظم اسمِ اللہ ذات کا تصور اور سلطان الاذکار’’یاھو‘‘کا ذکر عطا فرماتے ہیں۔یوں آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت میں ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کرنے والا ہر مرید ہوائے نفس اور حبّ دنیا و شیطان سے خلاصی پالیتا ہے اور اپنے اصل یعنی نورِ محمدی کی طرف لوٹ جاتا ہے جو کہ حقیقی اُمتی کا وطن ہے۔ 

بے شک اللہ سے بڑھ کر کوئی رحمن و رحیم نہیں اور آقاپا ک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام جہانوں کے لیے رحمت اللعالمین ہیں، اس لیے اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے لیے اپنی طرف آنے کا راستہ توبہ کی صورت میں ہمیشہ کھلا رکھتا ہے۔ اس تحریر کا مقصد ہر گز یہ تنقیدکرنا نہیں کہ کون حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی ہے اور کون نہیں؟ بلکہ یہ مقصد ضرور ہے کہ اُمتِ محمدیہ کو فقرِ محمدیؐ کے حصول کے لیے غور وفکر کی دعوت دی جائے اور ان میں مقصدِ حیات کی آگاہی کا شعور اُجاگر کیا جائے تاکہ یومِ حشر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں۔ 

یاد رکھیے! اللہ تعالیٰ کے نزدیک جہالت کوئی عذر نہیں۔ اگر کوئی شخص اس گمان میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حضور یہ عذر پیش کردے گا کہ میں تیری ہدایت سے لاعلم تھا اور امامِ زمانہ کو ادراکِ قلبی سے نہ پہچان سکا اس لیے دین میں پورا پورا داخل ہونے سے قاصر رہا۔ اللہ ربّ العزت ایسے عذر کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے امام الوقت اور امامِ زمانہ ہونے کی حیثیت سے عوام الناس کو راہِ حق کی طرف بلانے کے لیے کسی ذریعۂ ابلاغ کو نہیں چھوڑا۔ دورِ حاضرکے جدید تقاضوں کے عین مطابق ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے سوشل میڈیا ، ڈیجیٹل میڈیا، ویب سائٹس، کتب اور رسائل کے ذریعے خلقِ خدا تک دعوتِ حق پہنچانے کی حجت تمام کردی ہے۔ اب اگر کوئی شخص نفس پرستی، حبِّ دنیا اور شیطانی وسوسوں کے باعث ہدایت کو قبول نہ کرے اور سرکشی اختیار کرے تو اللہ بھی بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح اندازمیں فرمادیا ہے:
’’جوہماری طرف آنے کی جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔‘‘ (سورۃ العنکبوت۔69)

آئیے ! آج ہی دین و دنیا کی کامیابی سمیٹنے کے لیے دور ِ حاضر کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہوکر ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات یعنی اسمِ اعظم کی نعمت حاصل کریں۔

استفادہ کتب:
شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
فضائلِ صحابہؓ : تصنیف امام عبداللہ احمد بن حنبلؒ
مکاشفۃ القلوب: امام غزالیؒ
کیمیائے سعادت: امام غزالیؒ
کلید التوحید کلاں : تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
محک الفقرکلاں : ایضاً

’’امتی ہونے کی شرائط‘‘  بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒   پر کلک کریں


33 تبصرے “اُمتی ہونے کی شرائط Ummati Hoony ki Sharayet

  1. میرے ہادی میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں’’جو شخص کلمہ طیب کے لَآ اِلٰہَ یعنی نفی کی حقیقت کو جان لیتاہے اس سے دنیا اور آخرت کی کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتی۔ جو شخص لَآ اِلٰہَ کی کنہ اور حقیقت کو پالیتاہے اس پر اثبات اِلَّا اللّٰہُ کے کلُ درجات کھل جاتے ہیں اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا محرمِ راز ہو جاتا ہے۔ جس شخص کے وجود میں کلمہ طیب تاثیر کرتا ہے وہ توحید و رسالت کی کنہ اور حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔ ‘‘(شمس الفقرا)

  2. اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(سورۃالبقرہ۔ 208 )

  3. عشقِ الہی میں کمال حاصل کرنا امتی ہونے کی شرطِ اول ہے

  4. حدیث مبارکہ میں واضح ارشادہے ’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘ (ترمذی)

  5. مومنوں خوشیاں مناؤ کملی والا آ گیا ❤️❤️❤️❤️❤️

  6. امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’کلمہ طیب پڑھنے کے تین درجے ہیں: مبتدی کا زبان سے کلمہ پڑھنا، متوسط کا تصدیق دِل سے کلمہ طیب کا اقرار اور منتہی کا فنا فی اللہ بقا باللہ ہوجاناہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)

  7. حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں ’’اگر کسی کو تصدیقِ دل حاصل نہیں تو اس کا محض زبان سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا اقرار کر لینا اسے (دنیا و آخرت میں) کوئی فائدہ نہ دے گا۔‘‘ (عین الفقر)

  8. یہ تمام کائنات اور اس کی موجودات نورِ محمد سے ہی قائم ہیںاور جب ربّ تعالیٰ اس نور کو اٹھالے گا تو کائنات اور تمام موجودات ختم کر دی جائیں گی۔ 

  9. امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’کلمہ طیب پڑھنے کے تین درجے ہیں: مبتدی کا زبان سے کلمہ پڑھنا، متوسط کا تصدیق دِل سے کلمہ طیب کا اقرار اور منتہی کا فنا فی اللہ بقا باللہ ہوجاناہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)

  10. ماشااللہ بہترین مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ❤❤❤❤

  11. سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں ’’جسے حیات النبیؐ پر اعتبار نہیں وہ دونوں جہان میں خوار ہوتا ہے ۔ حضورؐ کو ہر وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو اور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ ‘‘ (کلید التوحید کلاں)

  12. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے امام الوقت اور امامِ زمانہ ہونے کی حیثیت سے عوام الناس کو راہِ حق کی طرف بلانے کے لیے کسی ذریعۂ ابلاغ کو نہیں چھوڑا۔ دورِ حاضرکے جدید تقاضوں کے عین مطابق ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے سوشل میڈیا ، ڈیجیٹل میڈیا، ویب سائٹس، کتب اور رسائل کے ذریعے خلقِ خدا تک دعوتِ حق پہنچانے کی حجت تمام کردی ہے۔

  13. دین میں پورے پورے داخل ہونے سے مراد ہے ظاہری و باطنی تمام احکاماتِ الٰہی کو مانتے ہوئے اسلام قبول کرناکیونکہ دین ظاہری و باطنی یکسوئی سے احکامِ الٰہی کی بجاآوری کا نام ہے۔

  14. امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’کلمہ طیب پڑھنے کے تین درجے ہیں: مبتدی کا زبان سے کلمہ پڑھنا، متوسط کا تصدیق دِل سے کلمہ طیب کا اقرار اور منتہی کا فنا فی اللہ بقا باللہ ہوجاناہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)

  15. حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں ’’اگر کسی کو تصدیقِ دل حاصل نہیں تو اس کا محض زبان سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا اقرار کر لینا اسے (دنیا و آخرت میں) کوئی فائدہ نہ دے گا۔‘‘ (عین الفقر)

اپنا تبصرہ بھیجیں