شکوہ اورجوابِ شکوہ Shikwa aur Jawab-e-Shikwa
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور
علامہ اقبالؒ کی شہرہ آفاق نظمیں ’’شکوہ اور جوابِ شکوہ ‘‘ ایسی فکری اور انقلابی نظمیں ہیں جو اردو شاعری میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور علامہ اقبالؒ کی عظمتِ فکر، شدتِ احساس، یادِماضی اور قومی جذبات کی ترجمان ہیں۔ یہ محض ایک شاعری کا مجموعہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی زبوں حالی، انحطاط اور پھر سے عروج پانے اور کوشش کرنے کی داستان ہیں۔ یہ اللہ اور بندۂ خاص کے درمیان الہامی گفتگو ہے۔ نظم’’ شکوہ‘‘ اپریل 1911ء کے اجلاس انجمن حمایتِ اسلام لاہور میں پڑھ کر سنائی گئی۔ نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘1913 ء میں منظر ِعام پر آئی۔ نظم’’ شکوہ‘‘ جو امتِ مسلمہ کے دل کی آواز بن کر اللہ سے ان کی بے بسی اور زوال کے بارے میں سوال کرتی ہے اور ساتھ ساتھ ان کے عظمتِ رفتہ کی تاریخ کی بھی یاد دلاتی ہے۔ ’’ جوابِ شکوہ ‘‘اس شکوے کا جواب ہے جو اللہ کے حضور کیا گیا۔ یہ نظم مسلمانوں کو ان کی اپنی کوتاہیوں اور سستیوں کا آئینہ دکھاتی ہے۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اِن کے سیاسی، اخلاقی، معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی زوال کی وجوہات سے آگا ہ کیا گیا ہے۔ اقبال ؒ نے اس نظم کے ذریعہ یہ پیغام دیا ہے کہ مسلمانوں کا زوال کسی الٰہی فیصلہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت اوردین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں نظمیں محض شکوہ شکایت نہیں ہیں بلکہ ایک ایسا شاہکار ہیں جو مسلمانوں میں خود احتسابی، خود شناسی اور خود اعتمادی کی روح پیدا کرتی ہیں، مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگا کر ان کو اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کا راستہ دکھاتی ہیں۔دراصل’’ شکوہ ‘‘میں اقبالؒ نے مسلمانوں کی طرف سے خدا کو پکارا ہے اور اس پکار کا اَیزدی جواب ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی شکل میں دیا ہے۔
قارئین کے لیے یہاں شکوہ ، جوابِ شکوہ کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔ ذیل کے بندوں میں ان مشترک امور، شکایات اور جواباتِ شکایت کا موازنہ و مقابلہ دکھایا گیا ہے جو شکوہ اور جوابِ شکوہ میں واضح ترین دکھائی دیتا ہے ۔
شکوہ :
بند 1:
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تُو بھی تو دلدار نہیں
بند 2:
کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی؟
اور تیرے لیے زحمت کشِ پیکار ہوئی؟
کس کی شمشیرِ جہاں گیر جہاندار ہوئی؟
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی؟
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے؟
منہ کے بل گر کے ’ھُوَ اللّٰہُ اَحَد‘ کہتے تھے؟
بند 3:
یہ شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور!
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور!
اب وہ الطاف نہیں، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں؟
تشریح: 1۔ شاعرِمشرق اور حکیم الامت علامہ اقبالؒ اس بند میں اللہ کے حضور مسلمانوں کے شاندار ماضی کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسلمان تو وہ عظیم قوم ہیں جنہوں نے زمانے سے باطل تصورات کو مٹا یا ، جس وقت نوعِ انسانی ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی تھی اس وقت مسلمان قوت بن کر ابھرے تھے ، ظلم کا راج ختم کیا ، نعرۂ حق بلند کر کے پوری دنیا میں اپنی حکومت قائم کی اور ایک اللہ کے سامنے جھکا کر غیر اللہ کی غلامی سے آزادی دلائی۔ قوتِ ایمانی سے لبریز مسلمانوں نے تیرے کعبے کو اپنی جبینوں (سجدوں) سے آباد کیا۔ اے ربِ ذوالجلال! تیری آسمانی کتاب یعنی قرآنِ کریم کو اپنے سینوں سے لگا کر اس کی حفاظت کی۔ ہم نے دینِ حق کی خاطر جو عظیم کارنامے سر انجام دیئے ہیں پھر بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم وفادار نہیں۔(اے اللہ گستاخی معاف !)اگر ہم تیرے وفادار بندے نہیں تو تیری جانب سے بھی تو محبت و کرم کا معاملہ نہیں۔ دراصل اقبال ؒ نے اس بند میں موجودہ زمانے کے مسلمان کی شکوہ و شکایت کی ترجمانی کی ہے ۔
تشریح:2۔ اے اللہ ! مسلمانوں کے علاوہ کونسی قوم تھی جنہوں نے طلبِ مولیٰ کا جذبہ اپنے دلوں میں پیدا کیا اور اسی جذبہ کی خاطر جنگ و جدل کے مصائب برداشت کئے۔ مسلمانوں کے علاوہ کس کی تلوار نے دنیا کو فتح کر کے اس کا نظم و نسق سنبھالا ۔ کس قوم کی تکبیر کی آوازوں سے دنیا خوابِ غفلت سے بیدار ہوئی۔ مسلمانوں کے علاوہ کون سی قوم تھی جس کی ہیبت، رعب اور دبدبے سے بت پرست خوفزدہ رہتے تھے۔ جن کے سامنے بت منہ کے بل گر کر وحدتِ الٰہی کے ترانے گانے لگتے تھے۔
تشریح 3:اقبالؒ اس شعر میں مسلمانوں کے موجودہ حالات اور اقوامِ مغرب کے مابین موازنہ کرتے ہوے اللہ کے حضور مسلمانوں کا شکوہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے خدا ! ہم یہ شکایت نہیں کر رہے کہ آج غیر مسلموں (اقوامِ مغرب) کے مالی حالات ہم سے بہت بہتر ہیں، ان کے قومی خزانے بھرے ہوئے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ شعور (ایمانی قوت ) سے خالی ہیں۔ وہ کافر ہیں لیکن ان پر مہربانیاں نعمہائے بہشت والی ہیں۔ جبکہ ہم مسلمان جو مسلم گھرانہ میں پیدا ہوئے ہیں، جن کا ماضی درخشاں ہے، ان کے ساتھ صرف یہ وعدہ کہ انہیں اگلی دنیا میں نعمتِ بہشت ملیں گی۔ لطف و مہربانی کا معاملہ جو ماضی میں ہمارے ساتھ روا رکھا تھا اب حالات اس سے یکسر مختلف ہیں ۔
جوابِ شکوہ :
بند 1:
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو؟
بند 2:
کیا کہا؟ بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور
شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور!
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے، موسیٰؑ ہی نہیں
بند 3:
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نہ دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
تشریح1۔ اللہ کے حضور اقبالؒ نے جب مسلمانوں کاشکوہ پیش کیا تو اس کے نتیجہ میں اس شکوہ کا (الہامی) جواب دیتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے تم جس شاندار ماضی کا تذکرہ کر رہے ہو سب سے پہلے مجھے یہ بتائو کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے روئے زمین سے باطل کو مٹایا؟ کس نے نعرۂ حق بلند کیا اورظلم و جبر اور غلامی سے نجات دلائی؟ کعبہ کو کن لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے آباد کیا؟ میری پاکیزہ کتاب یعنی قرآن کی کن لوگوں نے عزت اور حفاظت کی تھی؟ بیشک یہ تمام کارنامے تمہارے اسلاف نے سر انجام دئیے تھے۔ تمہارے آباؤ اجداد میں وہ قوتِ ایمانی تھی کہ انہوں نے دینِ حق کی خاطر عظیم قربانیاں دیں۔ مگر تم کیا کر رہے ہو؟ تم نے دینِ حق کی سر بلندی کے لیے کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟ تم تو بس تعلیماتِ اسلام پر عمل کئے بغیر روشن مستقبل کی امید لگائے بیٹھے ہو ۔ خوابِ غفلت سے جاگنے کے بجا ئے معجزات کے رونما ہو جانے کی امید میں ہو۔
تشریح 2:اس شکوے کا الہامی جواب دیتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ مجھ سے جو شکوہ کیا جا رہا ہے کہ میں نے مسلمانوں سے صرف حور و قصور کے ’’وعدے‘‘ کیے ہیں، جو ماضی میں آباؤ اجداد پر مہربانیاں فرمائی ہیںاس سلسلہ کارک جانا میری وجہ سے ہے؟تو یہ سمجھ لو کہ یہ شکوہ انتہائی کم عقلی پر مبنی ہے اور درست نہیں۔ اے بشر! یاد رکھ ازل سے میرا یہی اصول جاری ہے کہ انصاف کیا جائے۔غیر مسلموں نے اگر اسلام کے آئین (اسلامی اصول اور اسلامی تعلیمات) پر عمل کیا ہے تو انہیں ہمارے عدل و انصاف کے ثمرات مل گئے اور انہیں حوریں اور محلات (دنیا کی نعمتیں اور مادی آسائشیں) نصیب ہو گئے۔ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ تم میں تو کوئی حوروں ( دنیاوی ترقی و عظمت ) کا خواہش مند ہی نہیں۔ جلوۂ طور ( خدائی فضل ) تو اب بھی موجود ہے تم میں موسیٰؑ کی طرح کوئی اس کا طلبگار نہیں (اگر طلب ہی نہیں ہے تو پھر تجلی نہ ہونے کا شکوہ کیسا؟)
تشریح 3: تم میں سے ہر شخص عیش و عشرت میں مبتلا ہے اور آرام طلب اور کاہل بن چکا ہے۔ تم خود ہی انصاف سے کہو کیا مسلمان ہونے کا حق ادا کر رہے ہو؟ تم میں حضرت علیؓ جیسی شانِ فقر ہے نہ حضرت عثمانِ غنیؓ جیسی سخاوت بلکہ تم میں تمہارے اسلاف جیسی کوئی صفات نہیں۔ وہ زمانہ بھر میں معزز اور باعزت اس لیے سمجھے جاتے تھے کہ وہ قوتِ ایمانی سے لبریز تھے۔ جبکہ موجودہ حالات یہ ہیں کہ آج کا نوجوان صرف نام کا ہی مسلمان رہ گیا ہے اور دنیا بھر میں اپنا مقام ومرتبہ کھو بیٹھا ہے ۔ آج کی نوجوان نسل نے تعلیماتِ قرآن کو فراموش کر دیا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے جہاں اپنی نظم ’’ شکوہ ‘‘ میں اللہ کے حضور مسلمانوں کے شکوہ کی ترجمانی کی ہے وہیں اللہ کی بارگاہ میں مدد کی آرزو بھی پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں :
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لبِ جوُ بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کوُکوُ بیٹھے
دورِ ہنگامۂ گلزار سے یک سوُ بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ’ھو‘ بیٹھے!
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے
تشریح: اس بند میں علامہ اقبال ؒ نے دو طرح کے گروہ کا ذکر کیاہے ۔ ایک گروہ تواغیار (غیر مسلموں) کا ہے جو ندی کے کنارے باغ میں بیٹھ کر عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور ہاتھ میں شراب لیے کوئل کا میٹھا میٹھا نغمہ سن رہے ہیں۔ دوسری طرف اللہ کے عاشق ہیں جو باغ کی چہل پہل سے دور خاموشی کے ساتھ ھوُ(جلوہ حق) کے منتظر ہیں۔ اے خدا! تو ایک بار پھر اپنے شیدائیوں کو خود آگاہی اور خود شناسی کی توفیق عطا کر۔ عشق کی وہ آگ جو ازل سے عاشقوں کے قلوب کو تڑپا رہی ہے اس کو حکم فرما کہ اپنے ان بندوں کو بھی سوزِ عشق عطا کرے۔
مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے
جنسِ نایابِ محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں می چکد از حسرتِ دیرینۂ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما!
تشریح:اس بند میں علامہ اقبالؒ حضورِ حق میں دعا پیش کرتے ہیں کہ آج امتِ مسلمہ ظاہری و روحانی تنزلی کا شکارہے توہماری ان مشکلات کو آسان کر دے۔ یہ وہی قوم ہے جس پر تو نے ماضی میں اپنی رحمت و فضل فرمایا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اگلے مصرعے میں حضرت سلیمان ؑکے اس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب حضرت سلیمانؑ کی فوج چیونٹیوں کی وادی سے گزری تو وہ گھبرا کر سوراخوں میں گھس گئیں۔ آج امتِ مسلمہ کی مثال ان چیونٹیوں کی سی ہے جو گھبرائی اور پریشان حال ہے۔ اللہ پاک سے دعا کہ ہمیں حضرت سلیمانؑ کی فوج جیسی شان و شوکت سے سرفراز فرمائے۔ اے الٰہی! محبتِ الٰہی کا وہ جذبہ جو نایاب ہو چکا ہے اسے ایک بار پھر عام کر دے تاکہ ہندوستان کے وہ مسلمان جو ہندوانہ رسومات اور نظریات کے پجاری بن گئے ہیں اور تعلیماتِ اسلام سے دور ہو گئے ہیں، انہیں جذبۂ ایمانی نصیب ہو جائے۔ ماضی میں جومسلمانوں کو عروجِ کمال حاصل ہوا تھا اب وہ پرانی حسرت بن گئی ہے اور ایسا درد بن گیا ہے جس کے باعث آنکھوں سے خون کے آنسو بہتے ہیں اور دل زخموں سے چورچور ہو کر نالہ و فریاد کر تا ہے۔
نظم شکوہ میں اقبالؒ نے جو شکوے پیش کیے ہیں وہ عوام کی آواز اور نظریات ہیں لیکن کچھ اشعار ایسے ہیں جو ان کی اللہ کے حضور اپنی دلی کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے درد و سوز کا اظہار کرتے ہیں۔
بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن
عہدِ گل ختم ہوا ٹوٹ گیا سازِ چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پروازِ چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
تشریح: علامہ اقبالؒ اس بند میں افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ آج مسلمان قوم کس قسم کے انتشار کا شکار ہے ۔وہ قوم جو باغ کی مثل ہے اور (فردِ ملت جس کو پھول سے تشبیہ دی ہے) خود باغ کو اجاڑ رہے ہیں۔ یعنی اپنے باغ میں ہی کچھ ایسے غدار اور بے وفا لو گ پیدا ہو گئے ہیں جو راز ِچمن( قوم کے راز) افشاں کر رہے ہیں ۔ یہ رازِ چمن باغ کی خوشبو تھی۔ ان بدفطرت لوگوں نے باغ سے یہ خوشبو ہی نکال دی جس سے باغ اجڑ گیا ہے۔ باغ سے بہار کا موسم ختم ہو گیا، نغمہ و ساز کا تار ٹوٹ گیا ہے۔ شاعر نے رمز و اشارہ سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کے عبرتناک زوال کا نقشہ کھینچا ہے۔ کوئی بھی محبِ وطن اور حساس شخص ان اشعار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ گلشنِ اسلام خزاں کا شکار ہو چکا ہے اور جن کے دم سے چہل پہل تھی وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو چکے ہیں (اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پروازِ چمن) تا ہم ایک بلبل اب تک موجود ہے جو عظمت ِرفتہ کے گیت سنا رہا ہے تاکہ اس کے زندگی بخش نغموں سے متاثر ہو کر مسلمان دوبارہ پرانی شان و شوکت حاصل کر لیں۔
علامہ اقبالؒ نے نظم جوابِ شکوہ میں مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ انہیں باور کروایا ہے کہ اگر آج امتِ مسلمہ دنیا کے ہر میدان میں پیچھے ہے تو اس کی کیا وجوہا ت ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں :
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
تشریح: مسلمان جس پستی اور تنزلی کا شکار ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے مسلمان قوم ختم ہو چکی ہے ۔ علامہ اقبالؒ اس بات پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے فرماتے ہیں جن لوگوں کے ختم ہونے کی بات کی جا رہی ہے کیاوہ مسلمان ہیں! کیونکہ مسلمان قوم تو کبھی صفحہ ہستی سے مٹ نہیں سکتی۔ دورِ حاضر کے مسلمانوں کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔ وہ تو شکل و صورت کے لحاظ سے عیسائی اور طرزِ معاشرت کی بنا پر ہندو بن چکے ہیں ( یعنی اپنی اصل پہچان کھو بیٹھے ہیں) یہاں تک کہ ان کے طور طریقہ ایسے ہو گئے کہ خود یہودی بھی شرماتے ہیں۔ یہودی وہ قوم ہے جس کو بد ترین قوم سمجھا جاتا ہے۔ امتِ مسلمہ کے موجودہ حالات یہ ہیں کہ وہ فر قوں میں بٹ چکی ہے کوئی اپنے آپ کو سید کہتا ہے، کوئی افغان، کوئی مرزا۔ ذات پات کی تفریق میں اتنا الجھ گئے ہیں لیکن کیاکبھی یہ سو چا ہے کہ ہم مسلمان بھی ہیں کہ نہیں۔
علامہ اقبالؒ عاشقِ رسولؐ تھے اور عشقِ رسولؐ آپؒ کی شاعری کا خاص جوہر ہے۔ آپؒ نے امتِ مسلمہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ مسلمان جب تک دینِ محمدیؐ سے اپنا رشتہ منسلک نہیں کرے گا، اپنے قلب میں اسمِ محمدؐ سے اجالا پیدا نہیں کرے گا تب تک اسے دنیاوی اور اُخروی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہی خاص پیغام ہے جو آپؒ نے اپنی نظم ’’جوابِ شکوہ ‘‘ میں امتِ محمدی کو دیا ہے۔
مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا
رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ، تو ذرّے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
تشریح: اس بند میں علامہ اقبالؒ مسلمانوں سے مخاطب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دنیا کی عظیم قوم بننے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ تجھ میں یہ صلاحیت اس طرح موجود ہے جس طرح پھول میں خوشبو ہوتی ہے۔ اپنے موجودہ حالات کا جائزہ لے اور بیدار ہو جا۔ تجھے اپنی خوشبو پھول میں چھپا کر نہیں رکھنی بلکہ یہ خوشبو پورے باغ میں پھیلانی ہے (یعنی تعلیماتِ اسلام کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے)۔ اگرچہ تو ابھی کمزور ہے لیکن تجھے خود کو مضبوط کرنا ہو گا۔ ایک ذرّہ سے بیابان جتنا وسیع ہونا ہو گا۔ لہروں کی آوا ز کوسمندر ی طوفان کے شور میں بدلنا ہو گا۔ اپنے اندر عشقِ حق تعالیٰ کا اتنا جذبہ پیدا کر کے کفر و باطل زیر ہو جائے۔ تو اسمِ محمدؐ کا نور پوری دنیا میں پھیلا دے۔
دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانرَفَعْنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے
تشریح:علامہ اقبالؒ نے اس بند میں بھی سرورِ کائنات ، فخرِ موجودات، سرورِ انبیا اور باعثِ تخلیقِ کائنات حضرت محمد مصطفیؐ کی رفعت و شان کو بیان کیا ہے۔ آپ ؒفرماتے ہیں حضورنبی اکرمؐ کا ذکر ساری دنیا میں کروڑوں انسانوں کی زبان پر جاری رہتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اذان اور نمازہے۔ دشت میں، پہاڑکے دامن میں، میدان میں، سمندروں میں، طوفانی موجوں میں، چین کے شہر میں، مراکش کے بیابانوں میں اور مسلمانوں کے دلوں میں ذکرِ محمدؐ جاری رہتا ہے۔ مسلمانوں کے ایمان کی تکمیل کی شرط ہی عشقِ محمدؐ ہے۔ انسان ہی کیا بلکہ چرند پرند، درخت، پھول، پودے، ملائکہ الغرض ہر شے آپ ؐ کے اسم کی تسبیح کرتی ہے۔ قیامت تک ساری دنیا یہ منظر دیکھتی رہے گی کہ آپؐ کی شان ہر لمحہ و ہر لحظہ بلند ہو رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوجب خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک (سورۃ الانشرح ۔ 4) ترجمہ:اور ہم نے آپؐ کا ذکر بلند فرما دیا۔
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری
ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
تشریح: اے میرے درویش صفت مسلمان! اسلامی حکومت پوری دنیا میں پھیل کر ایک عالمگیر طاقت بن سکتی ہے اگر تو عقل کو اپنی ڈھال اور عشقِ حقیقی کو اپنی تلوار بنا لے۔ تیرا نعرۂ حق بلند کرنا غیر اللہ (ظاہری و باطنی دشمنوں) کو جلا دے گا۔ اگر تو حقیقی معنوں میں مسلمان ہونے کا حق ادا کر لے تو پھر تیری تدبیر ہی تقدیر بن جائے گی۔ اگر تو اللہ کے محبوب نبیؐ اور ان کے دین کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دے گاتو پھر یہ جہاں تو درکنار تجھے لوح و قلم کا مالک بنا دیا جائے گا ( ساری دنیا تیرے سامنے جھک جائے گی)۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان نظموں میں علامہ اقبالؒ نے جو آفاقی سبق دیا ہے اس کو سمجھنے اور عمل کی توفیق عطاکرے۔ دراصل شکوہ، جوابِ شکوہ صرف نظمیں نہیں بلکہ امیدِ نو ہے جس کے ذریعہ ایک مسلمان موجودہ دور میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر کے دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔
استفادہ کتب:
شکوہ جوابِ شکوہ : مولف محمد شریف بقا، ناشر گل فراز احمد
شکوہ جوابِ شکوہ : لائن پبلیشر ز اردو بازار کراچی ، پاکستان