بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

Rate this post

بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین)
    Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

قسط نمبر : 12                                                          مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

14اپریل 2010

بت پرستی کا آغاز

فرمایا: جب نبی اس دنیا سے تشریف لے کر گئے توان کے ماننے والوں نے نبی کا بت بنا لیا۔ اس طرح بت پرستی شروع ہو ئی۔

محبوب کی آزمائش

فرمایا: اللہ پاک جتنا زیادہ کسی کو اپنے قریب کرتا ہے، اتنا زیادہ آزماتا ہے۔ حضرت امام حسنؓ کو زہر دیا گیا، حضرت امام حسینؓ کی شہادت آپ کے سامنے ہے اور یہ سب محبوب ہونے کی وجہ سے ہوا۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا  (سورۃ فصلت ۔30)
ترجمہ: بیشک جنہوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے اور پھر قائم رہے۔

آزمائش سے ہی پتہ چلتاہے کہ کون قائم رہا۔ حضرت ابراہیم ؑکو آزمائش میں ڈالا کہ اپنا بیٹا قربان کر دو لیکن پھر قربانی نہیں لی۔ اللہ کی مرضی ہے کبھی قربانی لے لیتا ہے جیسے حضرت امام حسینؓ کی قربانی لے لی اور کبھی نہیں لیتا جیسے حضرت اسماعیل ؑکی قربانی نہیں لی۔ اس کی مرضی ہے، وہ مالک ہے۔

فقر

فرمایا: جامع الاسرار میں حضرت سخی سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب معراج پر تشریف لے گئے تو وہاں اللہ کی بارگاہ میں سلطان الفقر سے ملاقات کی، اس سے بغلگیر ہوئے اور سر سے پاؤں تک رُوبرو ہو کر فقر سے لپٹ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود فقر میں بدل گیا۔

  فقر کے نظام میں تبدیلی

جب حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت ہوئی تو فقر والے ایک سائیڈ پر ہو گئے اور دوسرے ایک سائیڈ پر۔ حضرت امیر معاویہؓ ایک طرف ہو گئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک طرف۔ 

سالک کے خواب

فرمایا: اگر مرشد کامل ہو اور وہ چاہے توظاہر میں جو مشکلات مقدر میں لکھی جا چکی ہیں، خواب میں گزار دیتا ہے۔ 

دنیا کے لیے کوشش

کسی نے پوچھا کہ کیا دنیا کے لیے کوشش کرنی چاہیے؟

فرمایا: دنیا جب آتی ہے تب بھی جھگڑے ڈلواتی ہے، جب زیادہ ہو جائے پھر بھی فتنہ کا باعث ہے اور جب جائے تب بھی جھگڑے ڈلواتی ہے۔ جتنوں نے بھی خدائی کے دعوے کیے وہ سب دولت و دنیا والے تھے، فرعون کوہی دیکھ لیں۔۔۔ ابوجہل کے پاس دنیا نہ ہوتی تو وہ ابوجہل نہ ہوتا۔ دنیا پاس ہونے کی ہی وجہ سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف اس حد تک چلا گیا کہ ابوجہل کہلایا۔ 

 حکومت کا طریقہ

بات چل نکلی کہ حکومتی اہل کاروں کو حکومت کیسے چلانی چاہیے؟ تو فرمایا: حکومت تب کامیاب ہوتی ہے جب اسکا دبدبہ ہو۔ اگر دبدبہ ختم ہو جائے تو حکومت کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ دبدبہ ہی اصل چیز ہے۔ ہر جگہ قانون کا استعمال کرنے کی بجائے ڈرا دینا بہتر ہے۔ عوام اپنے حکمران کے نقش ِقدم پر چلتی ہے۔ اگر حکمران Role Model بنے گا تو عوام بھی اس کو فالو کرے گی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے میں چوری کی تو آپؐ نے فرمایا ’’بنی اسرائیل انہی جیسی چیزوں سے ہلاک ہوئے، جب ان میں کوئی اونچے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر ان میں کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔‘‘

پاکستان میں بھی یہ ہوتا ہے، کوئی امیر جرم کرتا ہے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے اور اگر کوئی غریب جرم کرتا ہے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ 

اب جس چیز کی وجہ سے بنی اسرائیل ہلاک ہوئی وہ اگر کوئی بھی کرے گا تو ہلاک ہی ہو گا۔ قدرت کے اصول تو نہیں بدلتے۔ قدرت کے اصول سب کے لیے ہیں۔ جو قوم ان اصولوں کو توڑے گی اس کے ساتھ یہود والا سلوک ہی ہو گا۔ مسلمانوں سے دنیا کی امامت اسی لیے واپس لے لی گئی کیونکہ یہ بھی وہ کام کرنے لگ گئے جن کی وجہ سے یہود تباہ و برباد ہوئے۔ 

قوم کیسے ترقی کرتی ہے؟

کسی نے پوچھا کہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ فرمایا: اگر ایک دکاندار ٹھیک نہ ہو تو پورا بازار ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ بازار دکانداروں سے ہی بنتا ہے۔ اب اگر اکائی ہی ٹھیک نہیں تو اس اکائی سے جو بھی بنایا جائے گا ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس لیے جب تک قوم نیچے سے ٹھیک نہیں ہوتی تب تک اوپر سے قوم ٹھیک نہیں ہو گی۔  

دل کیسے بدلے جا سکتے ہیں؟

فرمایا: زبردستی کر کے دل نہیں بدلے جا سکتے، ڈر اور خوف سے دل نہیں بدلے جا سکتے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ    (سورۃ الرعد۔ 11)
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔

علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

پیسوں کے لیے دین بیچنا

فرمایا:یہودی علما پیسوں کے لیے دین کو بیچتے تھے۔ جو ان کو پیسے دیتا وہ دین کو اس کے مطابق کر دیتے۔ اللہ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْہُدٰی (سورۃ البقرۃ۔ 159)
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جو حق کو چھپائے وہ گونگا شیطان ہے۔ 

جو یہودی مدینہ میں تھے ان کے آباؤاجداد اس لیے وہاں آباد ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ادھر تشریف لائیں گے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے تو یہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف کھڑے ہو گئے اور اپنی کتاب سے یہ چیزیں چھپانے لگے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہٗ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تشریف آوری کے متعلق سنا تو وہ اس وقت پھل توڑ رہے تھے، وہ فوراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’میں آپؐ سے تین سوال کرتا ہوں جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے، (بتائیں) علامات ِقیامت میں سے سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ اہلِ جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہو گا؟ بچہ کب اپنے والد کے مشابہ ہوتا ہے اور کب اپنی والدہ کے مشابہ ہوتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جبرائیل ؑنے ابھی ابھی ان کے متعلق مجھے بتایا ہے، جہاں تک علاماتِ قیامت کا تعلق ہے تو پہلی علامت ایک آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر دے گی، رہا جنتیوں کا پہلا کھانا تو وہ مچھلی کے جگر کا ایک کنارہ ہو گا، اور جب آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جاتاہے تو بچہ والد کے مشابہ ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی غالب آ جاتا ہے تو بچہ عورت کے مشابہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (یہ جواب سن کر) انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔

پھر عرض کی ’’اے اللہ کے رسولؐ! یہودی بڑے بہتان طراز ہیں، اگر انہیں، اس سے پہلے کہ آپ ان سے میرے متعلق پوچھیں، میرے اسلام قبول کرنے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر بہتان لگائیں گے۔‘‘ چنانچہ اتنے میں یہودی آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’عبداللہ کا تمہارے ہاں کیا مقام ہے؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ وہ ہم میں سب سے بہتر، ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے، ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے بتاؤ  اگر عبداللہ بن سلام اسلام قبول کر لیں (تو پھر)؟‘‘

 انہوں نے کہا، اللہ انہیں اس سے پناہ میں رکھے۔ عبداللہؓ اسی دوران باہر تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ِبرحق نہیں، اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔
 پھر یہ (یہودی ان کے بارے میں) کہنے لگے: ’’وہ ہم میں سب سے برا ہے اور ہم میں سے سب سے برے کا بیٹا ہے۔‘‘ اور وہ ان کی تنقیص و توہین کرنے لگے۔
 عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! یہی وہ چیز تھی جس کا مجھے اندیشہ تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اُمّ المومنین حضرت صفیہؓ(یہودی قبیلہ بنی نضیر کے سردار کی بیٹی جو بعد میں مسلمان ہوئیں) کے والد (حییّ بن اخطب) صبح سویرے آپؐ کو دیکھنے گئے۔ شام کو واپس لوٹے تو انہوں نے اپنے چچا کو اپنے والد سے پوچھتے سنا: کیا واقعی وہی (آخری نبی) ہیں؟

 والد نے کہا: ہاں بخدا، وہی ہیں!
چچا نے کہا: آپ کو ان کے اوصاف اور علامات کا پورا یقین ہے؟
والد نے کہا: جی ہاں! بالکل وہی نقشہ ہے جو ہماری کتابوں میں آیا ہے۔
چچا پھر بولا: پھر اب کیا ارادہ ہے؟
اس پر ان کے والد نے سخت غصے اور حسد سے کہا: جب تک جیوں گا دشمنی کرتا رہوں گا۔

اللہ فرماتا ہے:
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ    (سورۃ البقرۃ ۔42)
ترجمہ: اورحق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اورنہ ہی حق کوجان بوجھ کر چھپاؤ۔
وَ لَمَّا جَآئَہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ لا وَ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ج صلے فَلَمَّا جَآئَہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ (سورۃالبقرۃ۔89)
ترجمہ: اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب(قرآن) آئی جواس کتاب(تورات) کی (اصلاً)تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود(نبی آخر الزماں حضرت محمد ؐاور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلہ سے) کفار پر فتح یابی (کی دعا )مانگا کرتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہی نبی(حضرت محمدؐ اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ) تشریف لے آیاجسے وہ (پہلے ہی سے )پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَہُمْ ط وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ (سورۃالبقرۃ۔ 146)
ترجمہ: اورجن لوگوں کو ہم نے کتاب عطافرمائی ہے وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد ؐاوران کی شان و عظمت)کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اور یقینا انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپارہا ہے۔

یہی کام اب کچھ علما حضرات اسلام میں بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا  لا اُولٰٓئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیْہِمْ (سورۃالبقرۃ ۔ 174)

ترجمہ:بے شک جو لوگ کتاب(تورات کی ان آیتوں)کو جواللہ نے نازل فرمائی، چھپاتے ہیں اوراس کے بدلے حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، وہ لوگ سوائے اپنے پیٹوں میں آگ بھرنے کے کچھ نہیں کھاتے اور اللہ قیامت کے روز ان سے کلام تک نہیں فرمائے گا اورنہ ہی ان کو پاک کرے گا۔

تنظیم العارفین کا مقصد

فرمایا:کچھ لوگ مجبوری کی حالت میں دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے کسی صاحبِ فقر کی بارگاہ میں پہنچ کر فقیری کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ ان کا مقصد اللہ کی ذات نہیں ہوتا۔یہ فقر اضطراری ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

میں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دَولتی و رنجوری

جبکہ اصل فقر ’’فقرِاختیاری‘‘ہے۔ میرے مرشد کریم نے تنظیم العارفین فقر اضطراری اور اختیاری کو علیحدہ کرنے کے لیے بنائی۔   آپؒ جب طالب کو آزماتے تو فقرِ اختیاری اور فقرِ اضطراری والوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیتے۔ 

میرے حضور (مرشد کریم)کی ذات ہی جماعت تھی۔ اس لیے جب آپؒ دنیا سے تشریف لے گئے تو جماعت سے بھی روح نکل گئی۔  میرے حضور نے سجادہ نشین سلطان محمد علی صاحب کوبنایا ہے۔ 

فقیر کی نشانی

بات’’فقیر‘‘کی طرف چل نکلی تو فرمایا: یہ ہر چوک پر مانگنے والے فقیر نہیں۔ فقیر تو’’صاحبِ فقر‘‘کو کہتے ہیں۔ فقیر کو نہ عزت سے غرض ہوتی ہے نہ ذلت سے، کوئی اُسے مانے یا نہ مانے، اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔

  پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ

کسی نے پوچھا کہ پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ پر کیوں الزام لگایا جاتا ہے کہ چشتی سلسلے میں خواجہ سلیمان تونسویؒ کے بیعت تھے؟ 

فرمایا: اپنا کاروبار چلانے کے لیے ان پر یہ الزام لگایا جاتاہے کہ وہ خواجہ سلیمان تونسوی ؒ کے خلیفہ تھے۔ یہ الزام ان پر اس وقت لگایا گیا جب ان کی تیسری نسل یعنی ان کے پوتے اور سجادہ نشین پیر محمد یوسف نے کتاب لکھی۔ اس نے پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ کی سوانح عمری لکھی تو اس میں لکھا ’’آپؒ کو خواجہ سلیمان تونسویؒ نے بیعت کیا۔‘‘ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میںاس کا ذکر نہیں ملتا۔ بہت سی کتب میں خواجہ سلیمان تونسویؒ کے خلفا کا ذکر ہے لیکن کہیں بھی پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ کا ذکر نہیں۔ پیر محمد یوسف نے لکھا ہے ’’جب خواجہ سلیمان تونسویؒ کا وصال ہوا تو انہوں نے خواب میں پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ کو سلسلہ قادری میں پیر عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کے ہاتھ پر بیعت ہونے کا کہا۔‘‘ 

حقیقت یہ ہے کہ تصوف میں تو خلیفہ ہوتا ہی وہ ہے جو مرشد کے وصال کے بعد اس سے فیض پا سکے۔ اس لیے خلیفہ کو کسی اور جگہ بیعت ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر خواجہ سلیمان تونسویؒ کے اتنے زیادہ خلفا ہیں تو باقی خلفا میں سے کسی کو یہ حکم کیوں نہیں دیا گیا؟

ڈاکٹر محمد حسین للہی نے خواجہ سلیمان تونسویؒ پر ایک کتاب لکھی جو انتہائی authentic  (مستند)ہے۔ اس میں بھی تفصیل کے ساتھ خواجہ سلیمان تونسویؒ کے خلفا کا ذکر ہے لیکن پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ 

جہاں تک بات ہے کہ یہ الزام کیوں لگا تو بات یہ ہے کہ پیر سید محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ جب ان کا وصال مبارک ہوا تو پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ نے اپنا بڑا بیٹا پیر عبداللہ شاہ صاحبؒ کے دربار پاک پر بھیج دیا اور حکم فرمایا کہ لنگر نہ بند ہونے دینا۔ وہ پوری عمر یہی ڈیوٹی سر انجام دیتے رہے۔ لیکن جب پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ کا وصال مبارک ہوا تو چونکہ بڑے بیٹے کی ڈیوٹی اُدھر کی تھی اس لیے چھوٹے بیٹے ’’پیر عبدالرزاقؒ‘‘ نے مزار کا انتظام سنبھال لیا۔ ان کو پیر عبدالغفور شاہ صاحبؒ نے بیعت نہ کیا تھا۔ پیر عبدالرزاق ؒ اپنے والد ِمحترمؒ کے وصال کے بعد چشتی سلسلے میں بیعت ہوئے۔ پھر ان کے بعد ان کے بیٹے پیر محمد یوسف سجادہ نشین ہوئے۔ یوں جب انہوں نے کتاب لکھی تو اپنے سے ہی یہ بات گھڑ لی۔ 

عہدِالست کا یاد آنا

کسی نے پوچھا کہ انسان کو عہدِالست یاد آ جاتا ہے؟ فرمایا: حضرت سخی سلطان باھوؒ تو فرماتے ہیں:

اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ  سنیا دِل میرے،جند قَالُوْا بَلٰی  کوکیندی ھوُ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بھی فرمان ہے کہ روز ِالست مجھے یاد ہے اور اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں والوں کو پہچانتا ہوں۔
اہلِ بیتؓ سے محبت فرض ہے
بات اہلِ بیتؓ کی طرف چل نکلی تو فرمایا: اہلِ بیتؓ سے محبت کرنا دین کا حصہ ہے، اس کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
  قُلْ لَّآاَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی (سورۃالشوریٰ۔ 23)
ترجمہ: آپؐ فرمائیں میں اس (تبلیغ ِ رسالت) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر(میری) قرابت (اور اللہ کی قرابت) سے محبت(چاہتا ہوں)۔
قرابت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہلِ بیتؓ ہیں۔

فقر کسے عطا ہوتا ہے؟

کسی نے پوچھا کہ فقر کسے عطا ہوتا ہے تو فرمایا: جس کے دل میں عشقِ مصطفیؐ ہو یا وہ اہلِ بیتؓ سے محبت کرتا ہو تو اللہ اسے فقر ضرور عطا کرتا ہے۔

دنیا کی حقیقت

بات دنیا کی طرف چل نکلی تو فرمایا: دنیا بہت ظالم ہے، بھائی کو بھائی سے لڑا دیتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

پیوواں کولوں پتر کوہاوے، بھٹھ دُنیا مکاراں ہو

یعنی یہ دنیا ایسی ظالم ہے کہ باپ سے بیٹے کو ذبح کروا دیتی ہے۔ 

نماز میں خیالات

کسی نے کہا کہ اس کی نماز میں خیالات بہت آتے ہیں، فرمایا: یہ تو سجدۂ دیوار کی نشانی ہے، جب تک اندھیرے میں نامعلوم خیال کو سجدہ کریں گے توشیطان بہکاتا رہے گا۔ اگر سجدۂ دیدار ہو توشیطان نہیں بہکا سکتا۔ مولا علیؓ شیرِخدا کوجنگ کے دوران تیر لگا جو نکل نہیں رہا تھا۔ آپؓ نے فرمایا ’’میں جب نماز پڑھنا شروع کردوں تو تیر نکال لینا۔‘‘ یہ ہے سجدۂ دیدار والی نماز۔ 

مسلمان کی عبادات کا مقصد

بات چل نکلی کہ آج کل مساجد بہت بنائی جا رہی ہیں، فرمایا: ایک سچے مسلمان کی تمام عبادات کا مقصد کیا ہے؟ یقینا اللہ کی خوشنودی اور اس کا قرب و وصال حاصل کرنا۔ لیکن ہر مسلمان کو اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیامیری عبادات سے مجھے قرب و وصال حاصل ہو رہا ہے؟ عبادات اس لیے اثر نہیں دکھا رہیں کیونکہ ان میں روح نہیں رہی۔ جیسے روح کے بغیر جسم مردہ ہو جاتاہے اسی طرح روح کے بغیر عبادات بے فائدہ اور بے اثر ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کی نماز کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: بہت سی نمازیں ایسی ہیں کہ وہ پڑھنے والے کے منہ پر مار دی جاتی ہیں۔ 

ظاہری علوم حاصل کرو

فرمایا: فقر کا ظاہری علم بھی حاصل کرو تاکہ طالب جب کسی مقام سے گزرتا ہے تو اسے پتہ چل جاتا ہے اور اس کے لیے آسانی ہو جاتی ہے۔ سروری قادری نے جو جو فقر کے متعلق پڑھا ہوتا ہے ایک مقام پر اللہ اس کی نظر کے سامنے ہر چیز گزار دیتا ہے۔  

راہِ سلوک میں شادی

کسی نے دریافت کیا کہ فقر میں شادی کرنی چاہیے کہ نہیں؟ فرمایا: فقر تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک انسان شادی نہ کرے۔ یہ سلوکِ محمدیؐ ہے نہ کہ سلوکِ عیسویؑ۔ ہاںطالب کو محتاط رہنا چاہیے، تھوڑا  اس راہ پر چل لے پھر شادی کرے۔

اللہ کی راہ پر قربانی

اس راہ پرہر چیز کی قربانی دینی پڑتی ہے، ہر چیز کو شاپر میں ڈال کر محبوب کے قدموں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
فَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ  (سورۃ النسا۔ 89) 
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان میں سے کسی کو اپنا ولی (دوست) نہ بنائیں جب تک کہ وہ راہِ خدا میں اپنا گھر بار نہ چھوڑ دیں۔

اب انسان تو گھر بار سب سے آخر میں قربان کرتا ہے۔مثال کے طور پر کسی کے پاس دولت، جائیداد، گاڑی اور گھر ہو اور اسے سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنا پڑ جائے تو وہ سب کچھ قربان کر کے آخر میں گھر کو بھی قربان کر دے گا۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سب سے بڑی سنت

فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سب سے بڑی سنت اللہ کی راہ میں قربانی دیناہے۔اسی وجہ سے اس سنت پر صحابہ کرامؓ کو بڑھ چڑھ کر عمل کرتا ہوا پائیں گے۔

سب سے محبوب چیز کی قربانی

فرمایا: اصل قربانی یہ ہے کہ اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں قربان کی جائے۔ اللہ فرماتا ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۃ آل عمران۔ 92)
ترجمہ: تم اس وقت تک بِرُّ (اللہ تعالیٰ) کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی سب سے پیاری چیز خدا کی راہ میں قربان نہ کرو۔

ہر روح ذکر کرتی ہے

کسی نے ذکرِخفی کے متعلق پوچھا توفرمایا: حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ ہر روح ذکر کرتی ہے، جس کو پتہ چل جائے وہ ذاکر بن جاتا ہے۔ 

(جاری ہے)

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں