اخلاص ۔۔۔ایمان کی اساس Ikhlas Iman ki Asaas

Rate this post

اخلاص ۔۔۔ایمان کی اساس Ikhlas Iman ki Asaas

تحریر:  فقیہہ صابر سروری قادری

اسلام دینِ فطرت اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، دیگر تہذیبوں کی بنیاد مفاد اور جذبات پر جبکہ اسلام کی بنیاد اخلاص اور حکمت پر قائم ہے۔ اسلام جذبات کی بجائے اخلاص کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ اسی لیے ’’اخلاص‘‘ ایمان کی اساس ہے۔

اخلاص کیا ہے؟

اخلاص یہ ہے کہ ارادے کے ساتھ صرف اللہ کے لیے عبادت کی جائے یعنی عبادت کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے کوئی اور مقصد نہ ہو، نہ تو مخلوق کے لیے بناوٹ ہو نہ لوگوں سے تعریف کی خواہش ہو بلکہ اللہ کے قرب کے علاوہ کوئی دوسری بات پیشِ نظر نہ ہو۔ یعنی مخلوق کی نگاہوں سے اپنے فعل کو پاک رکھنے کا نام ’اخلاص‘ ہے۔ 

اخلاص ایمان کی روح اور بنیاد ہے۔ جیسے جسم میں روح نہ ہو تو وہ مردہ ہو جاتا ہے، ویسے ہی ایمان بغیر اخلاص کے بے جان ہو جاتا ہے کیونکہ ایمان کی سچائی اور قبولیت کا دارومدار اخلاص پر ہے۔ اگر انسان کے دل میں اخلاص نہ ہو یعنی وہ صرف اللہ کے لیے عمل نہ کرے تو اس کا ایمان محض ظاہری دعویٰ بن کر رہ جاتا ہے۔ قرآن و احادیث کی روشنی میں اخلاص کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: بے شک ہم نے آپ کی طرف (یہ) کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تو آپ اللہ کی عبادت اس کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کریں۔(سورۃالزمر۔2)

ایک اور جگہ ارشادِ ربانی ہے:
ترجمہ: حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کریں۔ (سورۃ البینۃ۔ 5)

ان آیات میں تلقین کی گئی ہے کہ اپنی عبادات کو اخلاص سے مزین کرو۔

اخلاص کی ضد 

اخلاص کی ضد ریا اور دکھلاوا ہے۔ آقا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دکھلاوے اور ریا کاری سے متعلق فرمایا ’’لوگو! جُبُّ الْحَزْنِ  سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہو‘‘ لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہؐ!جُبُّ الْحَزْنِ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم خود روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اپنے اعمال میں ریاکاری کرتے ہوں گے۔ (کنز العمال۔ 7515)

جتنے مرضی اعمالِ صالح کر لیے جائیں لیکن اگر ان میں اخلاص نہیں تو وہ سب ضائع ہیں۔ اخلاص دنیا و آخرت دونوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔

حضرت محمود بن لبیدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’مجھے تمہارے اوپر سب سے زیادہ شرکِ اصغر کا خوف ہے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا ’’یا رسول اللہؐ! شرکِ اصغر سے کیا مراد ہے؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ریاکاری‘‘۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ریاکاروں سے فرمائے گا جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا کہ جنہیں دکھانے کے لئے دنیا میں تم اعمال کرتے تھے ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ کیا ان کے پاس اس کا کوئی بدلہ ہے؟‘‘ (مسند احمد۔ 22527)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں کچھ ایسے مکار لوگ پیدا ہوں گے جو دین کی آڑ میں دنیا کا شکار کریں گے، وہ لوگوں پر اپنی درویشی اور مسکینی ظاہر کرنے اور ان کو متاثر کرنے کے لیے بھیڑوں کی کھال کا لباس پہنیں گے، ان کی زبانیں شکر سے زیادہ میٹھی ہوں گی، مگر ان کے سینوں میں بھیڑیوں کے سے دل ہوں گے، (ان کے بارے میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، کیا یہ لوگ میرے ڈھیل دینے سے دھوکہ کھا رہے ہیں، یا مجھ سے نڈر ہو کر میرے مقابلے کی جرأت کر رہے ہیں، پس مجھے اپنی قسم ہے کہ میں ان مکاروں پر انہی میں سے ایسا فتنہ کھڑا کروں گا جو اُن کے عقلمندوں اور داناؤں کو بھی حیران بنا کے چھوڑے گا۔ (جامع ترمذی۔ 2404)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ریاکاری کی یہ خاص قسم کہ عابدوں اور زاہدوں کی صورت بنا کر اور اپنے اندرونی حال کے بالکل برعکس اُن خاصانِ خدا کی سی نرم و شیریں باتیں کر کے اللہ کے سادہ لوح بندوں کو اپنی عقیدت کے جال میں پھانسا جائے اور ان سے دنیا کمائی جائے، بدترین قسم کی ریاکاری ہے اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی تنبیہ ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اس دنیا میں بھی سخت فتنوں میں مبتلا کئے جائیں گے۔(معارف الحدیث: 400)

حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں’’اخلاص یہ ہے کہ بندہ اپنے اعمال کا عوض نہ چاہے۔‘‘
حضرت سیدنا سہل تستری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخلاص یہ کہ بندے کا ٹھہرنا اور حرکت کرنا بھی خالصتاً اللہ ربّ العزت کیلئے ہو جائے۔
حضرت سیدنا ابو عثمان نیشاپوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخلاص یہ ہے کہ بندہ فقط خالق کی طرف ہمہ وقت متوجہ رہنے سے مخلوق کو دیکھنا بھول جائے۔
حضرت سیدنا جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اِخلاص اللہ اوراس کے بندے کے درمیان ایک راز ہے، اسے فرشتہ نہ جانے کہ لکھ لے اور شیطان بھی نہ جانے کہ خرابی پیدا کرے اور خواہشِ نفس کو بھی اس کا علم نہ ہو کہ اسے اپنی طرف مائل کرے۔

اخلاص اگر اعلیٰ ہو اور عمل قلیل بھی ہو تو وہ کثیر بن جاتا ہے اور اس کے برعکس اگر صدق و اخلاص کمزور ہو تو عمل جس قدر بھی ہو وہ قلیل ہو جاتا ہے۔
ایک دفعہ اللہ کے برگزیدہ نبی سیدنا دائود علیہ السلام نے بارگاہ ِالٰہی میں عرض کیا کہ وہ اُس ترازوکو دیکھنا چاہتے ہیں جس میں قیامت کے دن لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے۔ ان کی خواہش پوری ہوئی، مگر جب انہیں وہ ترازو دکھایا گیا تو آپؑ اسے دیکھ کر بیہوش ہو گئے اور ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا کہ اتنا بڑا ترازو! عرض کیا یا اللہ! ہمارے چھوٹے چھوٹے اعمال اتنے بڑے ترازو میں تولے جائیں گے؟جواب ملا ہاں! ہم اعمال کا چھوٹا بڑا ہونا نہیں بلکہ یہ دیکھیں گے کہ یہ کتنے اخلاص سے کیے گئے تھے یا ان میں دکھاوے اور ریاکاری کو کتنا دخل تھا، ہم اخلاص کے ساتھ کیے گئے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بدلہ پہاڑوں کے بقدر دیتے ہیں اور پہاڑ اتنے ہی بڑے ترازو میں تولے جا سکتے ہیں۔

گویا اخلاص سے کیا جانے والا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بارگاہ ِربّ العزت میں شرف ِقبولیت حاصل کرکے اپنے کرنے والے کی نجات اور بخشش کا ذریعہ بن سکتاہے جبکہ دکھاوے کے لیے اور ریاکاری سے کیا گیا بڑے سے بڑا عمل بھی بے کار ہے۔

آقا علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا:
مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہے اور ہر ایک اپنی نیت پر عمل کرتا ہے۔پس مومن جب کوئی عمل کرتا ہے تو اسکے دل میں نور پھوٹ پڑتا ہے۔ (طبرانی، بیہقی)

اخلاص کے درجات

اخلاص کے دو درجے ہیں:

مخلِص
مخلص

جو کیفیتِ اخلاص کی ابتدا میں ہو اُس کو مخلِص کہتے ہیں اور جس نے اخلاص کا سارا راستہ طے کر کے منزل حاصل کر لی اُس کو مخلص کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ ربّ العزت نے عامۃ الناس مسلمانوں کو قرآنِ مجید میں حکم دیا کہ مخلِص ہو جاؤ۔
فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ  (سورۃ مومن۔ 14)
ترجمہ: پس تم اللہ کی عبادت اس کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو۔

یہ قرآنِ مجید میں درجۂ مخلِصین ہے۔

جو نفس کے برے اثرات سے بچنے کی کوشش کرے وہ مخلِص ہوتا ہے۔اور جو مسلمان راہِ اخلاص کو طے کر لیتے ہیں اور کمال تک پہنچ جاتے ہیںیعنی جو نفس کے برے اثرات سے بچ کر خالص ہو چکا ہو، اللہ کے دامن ِقرب میں آ چکا ہو، وہ مخلص کہلاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید میں مخلصین کا لفظ استعمال کرکے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ جب شیطان نے کہا کہ میں تیرے سب بندوں کو گمراہ کروں گا تو اسے بھی امر ِالٰہی سے حفاظتِ الٰہی کے تحت استثنیٰ کرنا پڑا۔
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔  (سورۃ ص۔ 82-83)
ترجمہ: اس نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا۔سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و مخلصین ہیں۔

مخلصین اللہ ربّ العزت کی پناہ میں آجاتے ہیں اور محفوظ ہو جاتے ہیں۔ شیطان کے حملے مخلِصین پر ہوتے رہتے ہیں شیطان ان کو بہلاتا پھسلاتا رہتا ہے۔ وہ لوگ جو مخلص نہیں ہوتے شیطان ان پر حملہ نہیں کرتاکیونکہ وہ پہلے ہی ریاکاری کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ شیطان ریاکاروں پر اپنی طاقت نہیں لگاتا کیونکہ وہ پہلے ہی اس کی پیروی کررہے ہوتے ہیں، اخلاص سے خالی ہوتے ہیں اور شیطان کے دوست ہوتے ہیں اور شیطان اپنے دوستوں پر حملہ نہیں کرتا۔ 

چونکہ شیطان کا مخلصین پر بس نہیں چلتا کیونکہ وہ محفوظین ہوچکے ہوتے ہیں تو وہ اپنے تمام تر وار مخلِصین پر آزماتا ہے۔ مخلِصین میں علما  کرام، صالحین، قراء و نعت خواں اور دیگر عام مسلمان شامل ہیں۔ چونکہ یہ لوگ نیکی کی راہ پر چلتے ہیں اور شیطان نیکی کی راہ پہ چلنے والوں کا ہی دشمن ہوتا ہے۔ انہی پر حملے کرتا ہے اور انہیں بہلاتا پھسلاتا ہے۔ (از ڈاکٹرطاہرالقادری)

اخلاص اس کیفیت کا نام ہے جس میں بندہ جو کرتا ہے اللہ کی محبت، رضا، قرب جوئی، دیدار اور حکم کی تعمیل کے لیے کرتا ہے، اس کے سوا کوئی شے اُس کی نیت و خیال میں داخل نہیں ہوتی۔ اِخلاص کے ساتھ عمل مومن کی نشانی ہے یہ اخلاص تھوڑے عمل میں بھی شامل ہو تو اُسے بہت بڑا اور طاقتور بنا دیتا ہے۔عمل مقدار کا نام ہے اوراخلاص معیار کا نام ہے۔

کسی دانا سے پوچھا گیا کہ مخلص کون ہوتا ہے؟ فرمایا مخلص وہ ہے جو اپنی بھلائیوں کو یوں چھپاتا ہے جیسے اپنی برائیوں کو۔جسے لوگوں سے اپنی تعریف اچھی نہ لگے۔

حضرت یحییٰ بن معاذؒ فرماتے ہیں کہ:
عمل کو عیوب سے اس طرح پاک صاف نکال لینا اخلاص ہے جس طرح گوبر اور خون سے دودھ کھینچ کر نکال لیا جاتا ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ اخلاصِ نیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
اخلاص بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ جس نے اخلاص کو پا لیا اس نے گویا نفس کو قابو کر لیا اور جس نے نفس کو قابو کر لیا اُس نے اللہ کو راضی کر لیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اخلاص دوستی بلکہ ہر تعلق کی بنیاد ہوتا ہے اور خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے اخلاص لازم ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ نہیں بنے گا وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکے گا۔ راہِ فقر میں ہر مقام اور منزل پر اخلاص کا ہونا لازم ہے ورنہ کوئی عمل بھی فائدہ نہ دے گا۔ اخلاص کا تو مطلب ہی خالص ہونا ہے اور خالص صرف طالبِ مولیٰ ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی منزل پر اخلاص میں معمولی سی کمی آ جائے تو سالک یا طالب کا سفر وہیں رک جاتا ہے۔ بڑے بڑے طالب اپنے اعمال اور مرتبے کی نمود و نمائش کی وجہ سے اپنے مقام سے گر جاتے ہیں اور پھر زندگی بھر منزل حاصل نہیں ہوتی کیونکہ یہ ریاکاری کے زمرے میں آتا ہے۔ اخلاص کی کسوٹی یہ ہے کہ جو بھی عمل کرنے لگے دل میں یہ نیت موجود ہو کہ اس عمل کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔

صدق و اخلاص کیسے حاصل ہو؟

اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں اس کا طریقہ کار بھی ارشاد فرما دیاہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔  (سورۃالتوبۃ۔ 119)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔

مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے بہت اہم بات ارشاد فرمائی ہے وہ یہ کہ اللہ سے ڈرو اور صدق والوں کی صحبت میں شامل رہو۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ صدق کرو بلکہ یہ فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اہلِ صدق کے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ یعنی اگر اہلِ صدق و اہل اخلاص کے ساتھ وقت گزارو گے تو تمہیں بھی صدق و اخلاص کی دولت نصیب ہوگی۔ صدق و اخلاص محنت و مشقت سے نہیں ملتا بلکہ  صدیقین و مخلصین کی صحبت سے ملتا ہے۔یہی صحبت قربِ الٰہی کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوراس راہنمائی کرنے والے کو مرشد کامل اکمل کہتے ہیں۔

جو دل غفلت، ریا اور نفس کے دھوکے سے میلا ہو مرشد کامل کی صحبت اسے صاف کر کے اخلاص کا آئینہ بنا دیتی ہے۔صحبتِ مرشد میں بندہ وہ سب کچھ سیکھ لیتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتا۔کیونکہ مرشد وہ نہیں جو ظاہری باتیں سکھائے بلکہ مرشد وہ ہے جو نیت یعنی باطن کو بدل دے۔

حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں:
اخلاص ایک راز ہے جو اللہ اپنے محبوب بندوں کے دل میں ودیعت کرتا ہے۔

یہ راز مرشد کامل کی صحبت میں ہی کھلتا ہے کیونکہ جو شخص خود کو جاننا چاہے اسے چاہیے کہ وہ کسی جاننے والے کے پاس جائے۔ اور وہ مرشد کامل اکمل کی ہستی ہے جس کے بغیر دل کے اندرونی امراض جیسا کہ ریاکاری، تکبر، شہرت کی طلب اور نیت کی خرابی کا علاج مشکل ہے۔

حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں:
جب تک کسی مرشد کامل کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا جائے اخلاص کی خوشبو بھی نصیب نہیں ہوتی۔

مرشد کامل اکمل کی ہی شان ہے کہ وہ انسان کو ریاکاری سے نکال کر اخلاص میں داخل کرتا ہے، نفس کی پیروی سے نکال کر اللہ کی رضا کی طرف لے جاتا ہے، اور ظاہر پرستی سے نکال کر باطن کی حقیقت سے آشنا کر دیتا ہے۔

 آج کے اس پرفتن دور میں جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے صرف سلطان الفقر ہفتم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہی وہ واحد ہستی ہیں جو مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ کی صحبت میں دل کا زنگ دور ہوتا ہے اور بندہ اخلاص کی حقیقت کو سمجھنے لگتا ہے۔

محترم قارئین! اگر آپ روح کو روشنی اور نفس کو شکست دینا چاہتے ہیں تو آئیے 

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت حاصل کریںجہاں سے اخلاص نصیب ہوتا ہے اور اللہ کی رضا و معرفت کا سفر شروع ہوتا ہے۔بقول اقبالؒ:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

استفادہ کتب:
شمس الفقرا:تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
خطاب: ڈاکٹر طاہر القادری 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں