شانِ باھوؒ بزبانِ باھوؒ
Shan-e-Bahoo Bazaman-e-Bahoo
تحریرو تحقیق: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
ھاھویتِ حق تعالیٰ(احدیت) لاتعین مرتبہ اور وہ مقام ہے جہاں ذاتِ حق تعالیٰ کی ماہیت کو بے حد سوچ بچار کے باوجود بھی سمجھا نہیں جا سکتا۔ یہاں ذاتِ حق تعالیٰ کے سوا کچھ موجود نہیں اور لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شیئٍ کوئی شے اس کی مثل نہیں۔ اس مقام پر ذاتِ حق تعالیٰ بے عین، صرف بذاتِ خود موجود ہے۔ اس مقام تک رسائی کائنات کے صرف چند چنیدہ خاص الخاص محبوبینِ الٰہی کو حاصل ہے جو اس مقام پر پہنچ کر ذاتِ حق تعالیٰ کے ساتھ ’’بے عین‘‘، بے مثل اور یکتا ہو جاتے ہیں۔ سلطان الفقر سید الکونین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اپنے اس مقام کے متعلق رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں:
اس کتاب کا مصنف جو ’ھاھویتِ حق‘ کے جلال و جمال کے احاطہ میں معتکف ہے، ذاتِ حق کے دیدار میں محو، معبودِ برحق، ذاتِ مشہود کی عنایت کی آنکھ میں منظور، جو سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمُ شَانِیْ کے گہوارۂ ناز میں ہے اور عزت کے مقام پر وحدتِ مطلق کی معرفت کا تاج سر پر رکھے ہوئے اور اَنْتَ اَنَا وَ اَنَا اَنْتَ (توُ میں ہے اور میں توُہے) کے تصفیہ اور تزکیہ کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔
اس بلند ترین شان کے حامل محبوبِ الٰہی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے مقام و مرتبے کو سمجھنا نہ انسانوں کے لیے ممکن ہے، خواہ وہ خواص میں سے ہی کیوں نہ ہوں، اور نہ ہی کسی اور کے لیے ممکن ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شان کو زیب دینے والے الفاظ تخلیق کر سکے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زبان حق کی ترجمان ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ جو بھی فرماتے ہیں وہ کلامِ حق ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں:
جان لے (اے طالبِ حق) اس کتاب پاک کا مصنف، فقیر نورِ مطلق تمام حجاب اور پردوں کو سامنے سے ہٹا کر سراپا وحدت ہوگیا ہے۔ سبحان اللہ! اس فقیر کا جسم ایک ضعیف پردے کی طرح درمیان میں حائل ہے مگر وہ (ذاتِ باری تعالیٰ) اس کے درمیان عجیب راز اور نادر نکتے ظاہر فرما رہا ہے۔ خود کلام کرنے والا اور خود ہی کلام ہے، خود لکھنے والا اور خود کتاب ہے، خود اپنی دلیل اور خود دلالت کیا گیا ہے۔ خود عاشق اور خود ہی معشوق ہے۔ اگر اس کتاب کو قدرتِ ربانی کی نشانیاں سمجھا جائے تو بجا ہے، اگر اسے نازل شدہ وحی کہیے تو بھی جائز ہے۔ اللہ کی پناہ! اگر کوئی اس لطیف عہدنامہ کو بندہ کی زبان خیال کرے، یہ تو زبانِ حق ہے۔
چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصانیف میں جو کچھ بیان کیا وہ صرف حق کی زبان ہے۔
کسی انسان کے لیے تو ممکن نہ تھا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شان بیان کرپاتا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے قلم کے ذریعے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف میں خود آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شان بیان فرمائی ہے۔ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید آپ رحمتہ اللہ علیہ خود اپنی تعریف بیان فرما رہے ہیں لیکن جیسا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے خود فرمایا کہ آپ کی کتب زبانِ حق ہیں اس لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شان بیان کرنے والا بھی خود حق تعالیٰ ہے۔ ذیل میں ہم زبانِ حق تعالیٰ سے بیان کیے جانے والے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شان کے متعلق آپؒ کی تصانیف کے چند حصے درج کر رہے ہیں جو اللہ کے ہاں آپؒ کے مقام و مرتبے کا بیان ہیں:
در لامکانم روح قالب زیر خاک
احتیاجی نیست روضہ جان پاک
ترجمہ: میری روح لامکان میں جبکہ وجود زیرِ خاک ہے لہٰذا میری پاک روح کو کسی روضہ یا مزار کی ضرورت نہیں۔
گم قبر گم جثہ گم نام و نشان
جثہ را با خود برم در لامکان
ترجمہ: میں گم قبر، گم جثہ اور گم نام و نشان ہوں کیونکہ میں اپنے وجود کو بھی خود لامکان میں لے گیا ہوں۔
باھوُ بہ ’’ھُو‘‘ ا سمِ ا عظم متصل
اہل اعظم چون بماند زیر گل
ترجمہ: باھوؒ اسمِ اعظم ھوُ کے ساتھ متصل ہے۔ صاحبِ اسمِ اعظم مٹی کے نیچے کیسے رہ سکتا ہے!
بے حجابم در صوابم غرق نور
احتیاجی نیست مارا باظہور
ترجمہ: میں نور میں بہت اچھی طرح سے غرق ہوں اس لیے بے حجاب ہر شے دیکھتا ہوں مجھے ظاہر ہونے کی کیا ضرورت؟
ہر یکی داند مرا باطن تمام
با انبیا و اولیا حق ہم کلام
ترجمہ: جس کا باطن تکمیل پا چکا ہو وہ مجھے جانتا ہے کہ میں انبیا اور اولیا سے ہم کلام رہتا ہوں۔
گر ندانند مردمانِ اہل زشت
کے ببیند جاہلان روئی بہشت
ترجمہ: اگر بدکار لوگ مجھے نہ بھی جانیں تو کوئی بات نہیں کہ جاہل لوگ جنت کا نظارہ کیسے کرسکتے ہیں! (کلید التوحید کلاں)
در تجلی ذات سوزم سر بسر سرِّ اِلہٰ
ایں تجلی ذات رہبر باخدا راہنما
ترجمہ: میں تجلیٔ ذات میں جل کر مکمل طور پر اسرارِ الٰہی میں ڈھل چکا ہوں۔ یہی تجلیٔ ذات راہبر بن کر اللہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
از ازل تا ابد بودم غرق نور
از ازل تا ابد باشم باحضور
ترجمہ: میں ازل سے نورِ ذات میں غرق صاحبِ حضور ہوں اور ابد تک ایسے ہی رہوں گا۔
از ازل تا ابد بودم مست حال
از ازل تا ابد دائم باوصال
ترجمہ: میں ازل سے مست حال ہوں اور دائمی وصالِ الٰہی سے مشرف ہوں اور ابد تک مست حال اور باوصال رہوں گا۔
از ازل تا ابد از خود شد جدا
از ازل تا ابد بودم باخدا
ترجمہ: میں ازل سے خود سے جدا اور اللہ کے ساتھ وابستہ ہوں اور ابد تک اللہ کے ساتھ رہوں گا۔ (کلید التوحید کلاں)
ہم عارفم ہم کاملم روشن ضمیر
بہترم از بادشاہِ اہلِ سریر
ترجمہ: میں عارف بھی ہوں اور کامل و روشن ضمیر بھی، اس لیے تخت و تاج کے مالک بادشاہ سے بہت بہتر ہوں۔ (کلید التوحید کلاں)
بس خطا داریم عشرت بیشمار
کز برائی وصل طلبیدہ است یار
ترجمہ: میں بہت خطاکار تھا لیکن اب خوش ہوں کہ یار نے اپنے وصال کے لیے مجھے طلب کیا۔
از مرگ من پیشتر حق یافتم
شوق حق باخود رفیقی ساختم
ترجمہ: میں نے موت سے پہلے ہی حق کو پالیا اور حق تعالیٰ کی ذات کے لیے شوق کو اپنا رفیق بنایا۔ (کلید التوحید کلاں)
لاتخف لاتحزن چو ما را شد مقام
بانظر ہر یک شناسم خاص و عام
ترجمہ: چونکہ میں لاتخف و لاحزن (اولیا اللہ کو نہ کوئی غم ہوتا ہے نہ خوف) کے مقام پر ہوں اس لیے ہر ایک خاص و عام کو ایک نگاہ میں پہچان سکتا ہوں۔(کلید التوحید کلاں)
جائی کہ من رسیدم امکان نہ ہیچ کس را
شہباز لامکانم آنجا کجا مگس را
لوح و قلم و عرش و کرسی کونین راہ نیابد
فرشتگان نہ گنجد آنجا نہ جائے ہوس را
ترجمہ: میں جس جگہ پہنچا ہوں وہاں کسی کے پہنچنے کا امکان نہیں۔ میں لامکان کا شہباز ہوں، وہاں مکھیوں کی گنجائش نہیں۔ لوح و قلم، عرش و کرسی اور دونوں جہان کو بھی وہاں پہنچنے کی راہ نہیں ملتی۔ نہ فرشتے وہاں تک رسائی پا سکتے ہیں اور نہ ہی اہل ِہوس کے لیے وہاں کوئی جگہ ہے۔
فنا فی اللہ عارف باوصالم
ز ہستی خویش رفتم لازوالم
مقامِ خویش را من پیش دیدم
حضور مصطفیؐ مجلس رسیدم
ترجمہ: میں فنا فی اللہ اور با وصال عارف ہوں۔ میں نے اپنی ہستی سے فنا حاصل کر لی، اس لیے لازال ہو چکا ہوں۔ میں اپنے مرتبہ کو اپنے سامنے دیکھتا ہوں کیونکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری میں پہنچ چکا ہوں۔ (کلید التوحید کلاں)
ہر مقامی را بدیدم در حیات
و از مماتی یافتم مطلق نجات
ترجمہ: ہر مقام کا مشاہدہ زندگی میں ہی حاصل کر کے میں نے موت سے مکمل رہائی پا لی ہے۔(نور الہدیٰ کلاں)
ہر طرف بینم بیابم حق ز حق
با مطالعہ دائمی دل دم غرق
ترجمہ: میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں حق ہی حق پاتا ہوں۔ دل کے دائمی مطالعہ میں میں ہر وقت غرق رہتا ہوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
قادری کامل مرا باھوؒ خطاب
باھوؒ در ھوُ گم شود شد بی حجاب
ترجمہ: میں کامل قادری فقیر ہوں اور باھوؒ میرا خطاب ہے۔ باھوؒ ’ھوُ‘ میں گم ہو کر بے حجاب دیدارِ الٰہی کرتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
آنچہ می گویم نہ گویم از ہوا
در حضوری معرفت قرب از خدا
ترجمہ:میں جو کچھ بھی کہتا ہوں نفسانی خواہشات سے نہیں بلکہ معرفت اور قربِ الٰہی کی حضوری سے کہتا ہوں۔
با عیانی عین بینم بی مثل را ہر دم دوام
غرق فی التوحید گشتم ایں بود فقرش تمام
ترجمہ: میں ہر وقت اس بے مثل و بے مثال ذات کے جلوؤں کو عین دیکھتا ہوں اور غرق فی التوحید ہو کر فقر کی تمامیت پر پہنچ گیا ہوں۔
نیست آنجا قلب و روح نیست نفس و نی ہوا
نیست آنجا جسم و جانم نور من بیند خدا
ترجمہ: میں اس انتہا پر پہنچ گیا ہوں جہاں پرنہ قلب و روح ہے نہ نفس و ہوا اورنہ ہی جسم و جان۔ بس نوری وجود کے ساتھ مشاہدۂ دیدار میں محو رہتا ہوں۔
نی آوازش نی بصوتش نی عقل نی علم قال
این مراتب یافتم از قربِ اللہ لازوال
ترجمہ:وہاں پر نہ آواز ہے،نہ عقل اور نہ ہی علم و قال۔ یہ لازوال مراتب مجھے قربِ الٰہی سے حاصل ہوئے ہیں۔
ہر کہ برسد لامکانش آن بداند حالِ من
مرشد بیقرب وحدت طالبان را راہزن
ترجمہ: میرے حال سے وہی واقف ہے جس کی رسائی لامکان تک ہو۔ جو مرشد قربِ وحدت سے محروم ہو وہ طالبوں کے لیے راہزن ہوتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
فقر را برداشتم نظر از نبیؐ
ہر کہ بیند روئی من گردد ولی
ترجمہ :میں نے فقر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کرم سے پایا ہے اس لیے جو بھی میرے چہرے کو دیکھ لیتاہے وہ ولی اللہ بن جاتا ہے۔
نور بیند نور گوید نورِ حق
نیست آنجا جسم اسم و نی خلق
ترجمہ: وہ نورِ حق دیکھتا ہے ،نورِ حق بیان کرتا ہے اور انوارِ الٰہی میں غرق ہو جاتا ہے جہاں نہ جسم کی گنجائش ہوتی ہے نہ اسم کی اور نہ ہی مخلوق کی۔
من بگویم آنچہ گوید مصطفیؐ
در وجودم نور شد قدرت خدا
ترجمہ: میرا وجود قدرتِ خدا سے نور بن چکا ہے لہٰذا میں وہی کہتا ہوں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں۔
باھوؒ در ھو گم شدہ باھوؒ نماند
نور باھوؒ روز و شب یاھو بخواند
ترجمہ: باھوؒ جب ھوُ میں گم ہو گیا تو اس کی اپنی ہستی باقی نہ رہی۔ اب وہ نوری صورت اختیار کر کے صبح و شام یاھو کا ورد کرتا رہتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
اوّل و آخر مرا دیدار شد
و از اسم اللہ ذات دل بیدار شد
ترجمہ: میری ابتدا و انتہا دیدارِ الٰہی ہے اور میرا دل اسمِ اللہ ذات سے بیدار ہو چکا ہے۔
من بزادم زان بدیدار از نظر
قوت من دیدار قسمت سر بسر
ترجمہ: میں صرف دیدارِ الٰہی کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ میری قسمت اور میری قوت صرف اور صرف دیدارِ الٰہی ہے۔
نور دیدارش بیابم دم ز دم
منکر از دیدار شد اہل از صنم
ترجمہ: اس کے دیدار کا نور ہر دم مجھ پر برستا رہتا ہے۔ جو بھی دیدارِ الٰہی کا انکار کر تاہے وہ بت پرست ہے۔
توحید دریائی است من شد آبجو
آبجو در آب گم شد آب گو
ترجمہ:توحید دریا ہے اور میری مثال ندی کی سی ہے۔ ندی جب دریا سے مل جاتی ہے تو خود دریا بن جاتی ہے ۔ (نور الہدیٰ کلاں)
اسمِ اعظم را ز اسمِ ھوُ بیاب
اسمِ باھوُ چیست یعنی کج وھاب
ترجمہ: اسمِ ’ھوُ‘سے اسمِ اعظم حاصل کر۔ اسمِ باھوؒ کیا ہے؟ اسے الٹا پڑھا جائے تو وھاب ہے یعنی بن مانگے عطا کرنے والا۔ (محک الفقر کلاں)
از شہرگ نزدیک شد رحمان مرا
چون زنم نعرہ بفریادم چرا
ترجمہ: رحمن تو میری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے میں کیوں بلند و بالا نعرے لگاتے ہوئے فریاد کروں!
دم بدم ہمسخن الہام صحیح
غرق فی اللہ گشت راحت روح ریح
ترجمہ: میں ہر لمحہ بذریعہ الہام اللہ کے ساتھ ہمسخن رہتا ہوں اور غرق فی اللہ ہونے کے باعث میری روح اس کی معطر خوشبو سے راحت پاتی ہے۔
این بود تعلیم و تلقین از خدا
با دلیلش ہادی حق راہنما
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے تعلیم و تلقین دی ہے اور اس ہادی نے بذریعہ دلیل حق کی طرف رہنمائی کی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
شہسوارم شہسوارم شہسوارم
غوث قطب مرکب است در زیر بار
ترجمہ: میں شہسواروں کا شہسوار ہوں۔ تمام غوث و قطب میرے زیر بار سواری ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
باھوؒ بیک نقطہ یاھوُ می شود
ورد باھوؒ روز و شب یاھوُ بود
ترجمہ:باھوؒ ایک نقطہ سے یاھوُ بن جاتا ہے، پس باھوؒ شب و روز ذکر ِ یاھو میں مشغول رہتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
چو اوھام گردد یقین گیر من
جہان جملہ آید بتدبیر من
ترجمہ: جب میرا وھم یقینِ کامل کو پہنچ گیا تو مجھے تمام جہان پر تصرف حاصل ہو گیا۔ (محک الفقر کلاں)
امیر الکونین میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اللہ کی عزت کی قسم! فقیر جو کچھ بولتا ہے حکمِ الٰہی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرامین کی اتباع میں بولتا ہے نہ کہ خواہشاتِ نفس سے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اور ارواح کو قدرتِ ازلی سے نور سے پیدا فرمایا اسی وقت کرم اور فیض و فضل سے نوازا، اسی روز دیدارِ ربّ العالمین سے مشرف فرمایا۔ تب سے میں ذاتِ الٰہی کے لقا کی طرف متوجہ و مشغول اور نور میں مستغرق ہوں۔ ہر لمحہ اور ہر ساعت اس کے دیدار میں غرق رہتا ہوں، ایک دم کے لیے بھی اس سے جدا نہیں ہوتا۔ ازل میں اللہ تعالیٰ کے دائمی لقا سے مشرف ہوا اور دنیا میں بھی عمر بھر دائمی لقا سے مشرف رہوں گا اگرچہ ظاہر میں لوگوں سے ہم کلام رہوں لیکن باطن میں دائمی دیدار سے مشرف رہتا ہوں۔ نہ صرف قبر میں بلکہ حشرگاہِ قیامت اور جنت میں بھی دیدار میں مشغول رہوں گا۔ (امیر الکونین)
ہر طرف بینم مشرف شد لقا
آوردم رو بسوی قبلہ چو او قبلہ نما
از لقا اللہ رو نگردانم گر جان بود
اگرچہ ز تن سر جدا جان میشود
ترجمہ: میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوتا ہوں۔ چونکہ اس کا دیدار ہی قبلہ ہے اس لیے میں نے اپنا رُخ اس قبلہ کی جانب کر دیا ہے۔ جب تک جان میں جان ہے میں لقائے الٰہی سے روگردانی نہیں کروں گا اگرچہ سر تن سے جدا کر دیا جائے۔ (امیر الکونین)
نظر باھوؒ بر نظر نظرش نبیؐ
ہر کرا باور نہ اہل از شقی
ترجمہ: باھوؒ کی نظر کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہ کی توجہ حاصل ہے۔ جسے اس بات کا یقین نہیں وہ بدبخت ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
باھوؒ از سرتاپا تجلی گشت نوری
من ازان نورم کہ نور از من ظہوری
ترجمہ: باھوؒ سر سے پائوں تک نوری تجلی بن چکا ہے۔ میں اسی کے نور سے ہوں کہ جس کا نور مجھ سے ظاہر ہے۔ (عین الفقر)
باھوؒ را ھوُ برد با آورد برد
ہر کہ بہ آن عین بیند او نمرد
ترجمہ: باھوؒ کو ’ھوُ‘اپنے ساتھ لے گیا اور ’با‘ یہیں رہ گیا۔ جو اس کا ساتھ اختیار کر کے عین ذات کو دیکھ لیتا ہے وہ کبھی نہیں مرتا۔ (عین الفقر)
فقر را باخوش رسیدم خوش بدیدم در کنار
فقر بودم فقر ہستم عاقبت با فقر یار
ترجمہ: میں آسانی سے مراتبِ فقر پر پہنچا، فقر کا اچھی طرح مشاہدہ کیا اور فقر کو پا لیا۔ میں صاحبِ فقر تھا، صاحبِ فقر ہوں اور صاحبِ فقر رہوں گا۔ (عین الفقر)
چراغی را چہ حاجت آفتابم
چراغش را ز تابش کشتہ سازم
ترجمہ: مجھے چراغ کی کیا حاجت کہ میں تو خود آفتاب ہوں جس کی تپش سے چراغ بجھا سکتا ہوں۔ (محک الفقر کلاں)
پیکر من از توحیدش شد توحیدش در توحید
عین ازان توحید مطلق ماسویٰ دیگر ندید
برد بالا عرش و کرسی باشریعت شاہراہ
ہر مقامش خوش بدیدم سرّ وحدت از الہٰ
ترجمہ:میرا وجود توحید میں غرق ہو کر سراسر توحید ہوگیا ہے اور میں اس توحیدِ مطلق کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ شریعت کی راہ پر چلتے ہوئے میں عرش اور کرسی سے بھی بلند مقامات پر جاپہنچا اور تمام مقامات کا مشاہدہ کرتے ہوئے وحدت کے راز کو اپنے معبود سے بلاواسطہ پا لیا۔ (عین الفقر)
پنجابی ابیات میں آپؒ فرماتے ہیں:
میں شہباز کراں پروازاں، وِچ دریائے کرم دے ھوُ
زبان تاں میری کُن برابر، موڑاں کم قلم دے ھوُ
افلاطون ارسطو وَرگے، میرے اَگے کس کم دے ھوُ
حاتم جیہے کئی لکھ کروڑاں، در باھوؒ دے منگدے ھوُ
مفہوم:میں شہبازِ معرفت ہوں اور سمندرِ رحمتِ باری تعالیٰ میرے اندر موجزن ہے۔ انسانِ کامل کے مرتبہ پر پہنچ کر مجھے زبانِ کن (زبانِ قدرت) حاصل ہو گئی ہے اور میں لوحِ محفوظ پر رقم شدہ نوشتۂ تقدیر تبدیل کر سکتا ہوں۔ میرے علم کے سامنے ارسطو اور افلاطون کے علم کی کوئی حیثیت نہیں اور حاتم طائی جیسے کروڑوں سخی تو خود میرے دَر پربھکاری بن کر کھڑے رہتے ہیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے اعلیٰ ترین مراتب کا فیض اُمتِ محمدی کے لیے ہر زمانے میں جاری و ساری ہے۔ اپنی ظاہری و باطنی زندگی میں آپ رحمتہ اللہ علیہ تمام زمانوں کے طالبانِ مولیٰ کے راہنما اور باطنی مرشد کامل کے مقام پر فائز ہیں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عطا کردہ تصرف و اختیار کے باعث تمام امت کے طالبانِ حق کو اپنی توجہ سے آج بھی کامل درجات تک رسائی عطا کر رہے ہیں۔
باھوؒ خضر امت مصطفیؐ فی اللہ فنا
دست بیعت کرد نبوی مصطفیؐ
ترجمہ:باھوؒ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کا خضر ہے جو فنا فی اللہ کے مرتبہ پر ہے اور اُسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود دستِ بیعت فرمایا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
در دعوتش من عاملم کامل فقیر
ہر روحانی در حکم حاکم امیر
ترجمہ:میں علمِ دعوت میں عامل و کامل فقیر ہوں۔ تمام روحانی میرے حکم کے تابع ہیں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
شہسوارم دست دارم ذوالفقار
قتل موذی را کنم اہل الکفار
ترجمہ:میں عارف شہسوار ہوں اور موذی کافروں کو قتل کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں میں ذوالفقار رکھتا ہوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
این توجہ تیغ سر را میبرید
بہ از توجہ رابعہؒ و از بایزیدؒ
ترجمہ: میری توجہ رابعہ بصریؒ اور بایزید بسطامیؒ کی توجہ سے بہتر اور تیز تلوار کی مانند ہے جو دشمنوں کی گردنیں اڑا دیتی ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
سر بنہ بر کف بیا طالبا بی سر
تا ترا حاضر کنم با یک نظر
ترجمہ: اے بے سر طالب اپنا سر ہتھیلی پر رکھ اور میرے پاس آتاکہ میں تجھے ایک ہی نگاہ سے حضوریٔ حق تک پہنچا دوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
من ناظرم ہم حاضرم راہبر خدا
کس نیابم طالب لائق لقا
گر بیابم طالبی توفیق تر
مرتبہ بخشم باو بہ از خضرؑ
گر بیابم طالبی صادق صدیق
ہر دمی راہبر شوم باحق رفیق
ترجمہ: میں حاضر و ناظر رہبرِخدا ہوں لیکن مجھے ایسا کوئی طالب نہ مل سکا جو دیدارِ الٰہی کے لائق ہو۔ اگر مجھے کوئی صاحبِ توفیق صادق و صدیق طالبِ مولیٰ مل جائے تو میں اس کی رہنمائی کر کے اسے حضرت خضر علیہ السلام سے بہتر مرتبہ عطا کر دوں گا اور ہر دم اس کا رہبر بن کر رفیقِ حق بنا دوں گا۔ (نور الہدیٰ کلاں)
غالبم درویش ہم عارف فقیر
والیم صاحبِ ولایت ملک گیر
طالبا از من طلب از من بخواہ
از خود دہم یا میدہانم از الہٰ
ترجمہ: میں غالب درویش اور عارف فقیر ہوں۔ ہر ملک و اقلیم کی ولایت مجھے حاصل ہے۔اے طالب! تو جو چاہتا ہے مجھ سے طلب کر۔ میں تجھے تیرے ہر مقصد سے نواز دوں گا یا بارگاہِ الٰہی سے عطا کروا دوں گا۔ (نور الہدیٰ کلاں)
گر ترا چشم است سوئے من نگر
نظر من بہتر بود از سیم و زر
ترجمہ: اگر تو چشمِ بینا رکھتا ہے تو میری جانب دیکھ کہ میری نظر سونے اور چاندی سے بہتر ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
کعبہ در دل من کہ کعبہ خدا
من باحضوری حاضرم اہل از لقا
زود تر طالب ز من مطلب طلب
با نظر تو را کنم روشن قلب
ترجمہ: کعبہ میرے دل میں ہے کیونکہ میرا دل اللہ کا گھر ہے جہاں میں باحضور رہ کر دیدارِ الٰہی میں محو رہتا ہوں۔ اے طالب! مجھ سے جلد اپنے تمام مقصود طلب کر لے تاکہ میں تیرا قلب اپنی نظر سے روشن کر دوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
درعمل من تخت قبر اختیار
مرشدی و طالبی دشوار کار
ترجمہ: اگرچہ مرشدی اور طالبی دشوار کام ہے لیکن طالب کو قبر میں تخت ِ بادشاہی سے نوازنا میرے اختیار میں ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
ہر کہ طالب حق بود من حاضرم
ز ابتدا تا انتہا یک دم برم
طالب بیا! طالب بیا! طالب بیا
تا رسانم روز اوّل باخدا
ترجمہ: جو شخص حق تعالیٰ کا طالب ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں، میں اسے ابتدا سے انتہا تک فوراً پہنچا دوں گا۔ اے طالب آ، اے طالب آ، اے طالب آ! تاکہ میں تجھے پہلے ہی دن خدا تعالیٰ تک پہنچا دوں۔ (رسالہ روحی شریف)
باھوؒ نحس را سعد گرداند
نظر ناظر را بود روح الامر
ترجمہ:باھوؒ نظر سے نحس کو سعد بنا دیتا ہے کیونکہ اس کی نظر اللہ کا دیدار کرنے کی بدولت روح الامر ہوتی ہے۔ (امیر الکونین)
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہی روحانی شان اور نورانی تاثیر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف میں بھی پائی جاتی ہے۔ جو طالب آپ رحمتہ اللہ علیہ سے بلا واسطہ ذاتی فیض حاصل کرنے کے مقام پر ابھی نہ پہنچا ہو، وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف کے وسیلے سے آپؒ کا روحانی فیض حاصل کر سکتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا تمام کلام الہامی ہے جیسا کہ آپؒ خود فرماتے ہیں:
ہیچ تالیفی نہ در تصنیف ما
ہر سخن تصنیف ما را از خدا
علم از قرآن گرفتم و از حدیث
ہر کہ منکر میشود اہل از خبیث
ترجمہ: میری تصانیف میں کسی بھی قسم کی کوئی تالیف نہیں ہے۔ میری تصنیف کا ہر سخن اللہ کی طرف سے ہے۔ میرے تمام علم کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہے۔ جو قرآن و حدیث کا منکر ہے وہ خبیث ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
اس فقیر کی تصنیف میں اللہ حییّ و قیوم کی حضوری کا علم مندرج ہے،نہ تو میں نے کسی کی تصنیف سے کوئی نکتہ ٔ سلوک چرایا ہے اور نہ کسی چور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بلکہ میں حق تک پہنچا ہوں،حق سے معلوم کیاہے،حق لایا ہوں اور حضورِ حق سے لذت لقاء کا مزہ چکھا ہے اور ماسویٰ اللہ ہر چیز سے لاتعلق ہوں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف کو عقیدت،احترام اور اعتقاد کے ساتھ پڑھنے والا سالک ابتدائی روحانی مراتب انہی کتب کے طفیل طے کر لیتا ہے حتیٰ کہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اسے ظاہری مرشد کامل کے حوالے کیا جا سکے۔ یعنی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب باطنی مرشد کامل کا کام دیتے ہوئے طالب کو سلوک کی ابتدائی راہ پر گامزن کر دیتی ہیں اور بطور پیشوا اس کی رہنمائی کرتی ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی ہر تصنیف میں اس کی روحانی تاثیر اور شان کو خود بیان فرماتے ہیں تاکہ صدق اور یقین سے پڑھنے والا طالب اس سے وہ فیض حاصل کر سکے جو اس تصنیف کا مقصود ہے۔
رسالہ روحی شریف
رسالہ روحی شریف کی شان حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
اگر کوئی ولیٔ واصل عالمِ روحانی (کے مراتبِ سلوک) یا عالمِ قدس (ملکوت) کے مراتب میں رجعت کھا کر اپنے مقام سے گر جائے تو اس پاک کتاب کو وسیلہ بنا لے تو یہ اس کے لیے مرشد کامل ہے۔ اگروہ اسے وسیلہ نہ بنائے تو اسے قسم ہے اور اگر ہم اسے اس کے درجہ تک نہ پہنچائیں تو ہمیں قسم ہے۔ اگر راہِ سلوک کا طالب اس پر بھروسہ کرے اور اسے مضبوطی سے تھام لے تو میں اس کتاب کے ہاتھ میں لیتے ہی اسے زندہ دل اور روشن ضمیر بنا دوں گا۔
محک الفقر کلاں
اس تصنیف کے متعلق آپ رحمتہ اللہ علیہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
ہر کہ خواند محک را بہر از خدا
مجلس حاصل شود با مصطفیؐ
ترجمہ:جو اس کتاب ’’محک الفقر‘‘ کو اللہ کی خاطر پڑھے گا اسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس حاصل ہو جائے گی۔
صورت دیگر بود سیرت دگر
عارف باللہ شود صاحب نظر
ترجمہ: اس کتاب کا ظاہر کچھ اور ہے، باطن کچھ اور۔ جو اس کتاب کو (اس کی کنہ سے) پڑھے گا وہ صاحب ِنظر عارف باللہ بن جائے گا۔
این کتابی مرشد حق راہبر
ہر مقامی میدہد از حق خبر
ترجمہ:یہ کتاب بطور مرشد حق تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور راہِ حق کے ہر مقام کی خبر دیتی ہے۔
می شناسد نکتہ حرفی راز را
اولیا اللہ چشم واز را
ترجمہ: اولیا اللہ کو چشم ِبینا حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ اس کتاب میں پوشیدہ اسرار اور نکات پا لیتے ہیں۔
ہر کتابی را جوابی میدہد
ہر ولی را خطابی میدہد
ترجمہ: اس کتاب میں (راہِ معرفت کے) ہر سوال کا جواب موجود ہے اور اس کا خطاب ہر (مقام و مرتبہ کے) ولی سے ہے (یعنی ہر ایک کے لیے مددگار ہے)۔
اولیا را می نماید ہر مقام
میکند تحقیق ہر یک پختہ خام
ترجمہ: یہ کتاب اولیا اللہ کو ہر مقام کا مشاہدہ کراتی ہے اور خام و پختہ کی تحقیق کرتی ہے۔
اس کتاب کے ہر حرف میں معرفتِ سبحانی اور ہر سطر میں سرِّ ربانی کے اسرار پوشیدہ ہیں۔ یہ کتاب دریائے توحید کے دُرّ معانی اور وحدانیتِ الٰہی کے حامل عارفین کے احوال کا معما ہے اور یہ طریقِ محمدیؐ کے عین مطابق ہے۔ اس دریائے توحید کا غواص فنا فی اللہ صاحبِ مسمّٰی عارف باللہ اسمِ اللہ ذات کی کلید سے اس معما کا قفل کھولتا ہے جس کے کھلتے ہی راہِ سلوک کے تمام علوم اور ان سے وابستہ مقاماتِ حیّ و قیوم ظاہر و باطن میں روشن ہو جاتے ہیں اور عارف باللہ مطلق بے حجاب اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے۔
یہ کتاب اسمِ اللہ ذات کی کامل تاثیر اور قرآن و حدیث کی تفسیر کے مصداق ہے۔جو اس کا مطالعہ کرے گا وہ عارف باللہ ہو جائے گا۔جو اس کے حقیقی معنی سمجھے گا وہ صاحبِ روشن ضمیر فنا فی اللہ فقیر بن جائے گا، جو علم کا باعمل عالم اور معرفتِ الٰہی میں کامل فقیر ہو گا۔ اس کتاب میں بیان کردہ دقیق نکات اور باتحقیق حقائق کو ہمیشہ آیاتِ ناسخ میں مستغرق رہنے والے محققین ہی سمجھ سکیں گے۔ یہ نسخہ قدرے مشکل ہے کہ اس میں اللہ کی ہدایت کی بدولت رموز، اشارات اور عبارات تحریر کی گئی ہیں۔
شد کتابی محک بہر از راز حق
ہر سطر سرّی است اسرارش ورق
ترجمہ: یہ کتاب اسرارِ حق کی ایک کسوٹی ہے جس کی ہر سطر اور ہر ورق میں اسرار بیان کیے گئے ہیں۔
در مطالعہ دار ذکر از فکر کن
بر زبان اللہ بگو با ہر سخن
ترجمہ: اس کتاب کو اپنے مطالعہ میں رکھو، تفکر کے ساتھ ذکر کرو اور ہر بات میں اپنی زبان سے اللہ کو یاد کرو۔
عین الفقر
سلطان العارافینؒ عین الفقر کے متعلق فرماتے ہیں:
جان لے یہ کتاب جس کا نام ’’عین الفقر‘‘ رکھا ہے طالبانِ مولیٰ اور فقرا فنا فی اللہ کی ہر خاص وعام مقام پر، خواہ وہ ابتدائی، متوسط یا انتہائی مقام ہو، رہنمائی کرتی ہے اور انہیں صراطِ مستقیم پر گامزن کر کے اللہ کے رازوں کے راز، مشاہدات، عین ذاتِ توحیدکے انوار و تجلیات ، علم الیقین، عین الیقین،حق الیقین اور ذاتِ حق تعالیٰ سے محبت کے اعلیٰ مراتب تک لے جاتی ہے۔
حدیثِ قدسی :
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ ُاعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ
ترجمہ:میں ایک چھپاہوا خزانہ تھا میں نے چاہاکہ میں پہچانا جائوں پس میں نے اپنی پہچان کے لیے مخلو ق کو پیدا کیا۔
اللہ تعالیٰ کی پہچان صرف وہ طالبانِ مولیٰ حاصل کرتے ہیں جو راہِ حق پر ثابت قدم رہتے ہیں اور کبھی شریعتِ محمدی کے خلاف عمل نہیں کرتے اور نہ ہی بدعت و استدراج کی گمراہ کن راہ اختیار کرتے ہیں۔
ہر حرف توحید بینی ہر سطر توحید بین
باش دائم در مطالعہ تا شوی حق الیقین
ترجمہ:ہر حرف اور ہر سطر میں توحید کو دیکھ اور ہمیشہ توحید کے مطالعہ میں مصروف رہ یہاں تک کہ تجھے حق الیقین حاصل ہوجائے۔
نور الہدیٰ کلاں
آپؒ نور الہدیٰ کے متعلق فرماتے ہیں:
جان لے کہ علمِ تصوف کی یہ کتا ب کلماتِ ربانی پر مبنی ہے۔ اس کا قاری بلاشبہ مرتبۂ فنا فی اللہ اوررازِ کن تک پہنچ جاتا ہے۔ اس تصنیف میں گویائی کی تاثیر ہے جس سے اہلِ مطالعہ کو روشن ضمیری و بینائی، صفائے قلب، سرِ الٰہی تک رہنمائی اور اس کی روح کو یکتائی نصیب ہو تی ہے۔ یہ کتاب اپنے قاری سے کلام کرتی ہے اور اسے تماشائے کونین کے احوال سے واقف کر کے حضوری، مشاہدۂ معرفت ، قربِ معراج اور وصالِ الٰہی سے مشرف کر دیتی ہے ۔
یہ کتاب ’’اسرار الوحی ‘‘ ہے۔ اگر کوئی ناقص اس کو پڑھتا ہے تو وہ مرتبہ ٔکامل پر پہنچ جاتا ہے، اگر کامل پڑھتا ہے تو عاملِ کل بن جاتا ہے، اگر کوئی عاملِ کل پڑھتا ہے تو وہ مکمل ہو جاتا ہے ، اگر کوئی فقیر مکمل پڑھتا ہے تو وہ اکمل بن جاتا ہے۔ اگر کوئی اکمل پڑھتا ہے تو صاحبِ جمعیت جامع مرشد بن جاتا ہے۔ اگر کوئی جامع مرشد پڑھتا ہے تو مرتبۂ نو رالہدیٰ پر پہنچ کر سلطان الوھم فقیر اور دونوں جہاں کا حاکم امیر بن جاتا ہے۔ اس کے مراتب وہم و فہم و شمار سے باہر ہوتے ہیں۔ ان مراتب تک اہلِ بدعت مردود کہاں پہنچ سکتے ہیں! یہ کتاب مجموع الجمعیت اور کل الکلید ہے ۔ طالبِ مولیٰ اس کلید کو جس قفل میں بھی ڈالتا ہے اسے کھول لیتا ہے اور اپنا ہر مطلب اور ہر طرح کی دولت و نعمت پا لیتا ہے۔
تصوف حضوری کی توفیق سے حاصل ہونے والے اللہ کے کلام اور سخن کو، جو کہ نور کی صورت میں ہوتا ہے، حروف کی شکل دینے کا نام ہے۔ یہ اللہ کی عطا ہے اور اس میںوہ تمام اسرارِ الٰہی شامل ہوتے ہیں جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو پائے تھے۔ یہ تصنیف بھی انہی باقی ماندہ معجزات اور اسرارِ الٰہی میں سے ہے۔ فقیر باھوؒ کو یہ تمام علمِ معجزات باطن میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے حاصل ہوا ہے ۔ یہ تصنیف علمِ معجزات سے منور اور اسرارِ الٰہی کا پُریقین اور بااعتبار اظہار ہے۔ اکثر بزرگوںاور مصنفین کی تصانیف الہامی ہوتی ہیں لیکن اس فقیر کی تصا نیف قربِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو کر لکھی گئی ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ کم بخت اور بدقسمت کو نیک بخت اور خوش قسمت بنا دیتا ہے۔ جو طالب شب و روز اس کا مطالعہ کرتا ہے وہ اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے۔
اس تصنیف کا تعلق نہ علمِ واردات سے ہے اور نہ ابتدائے نفی اثبات سے بلکہ ذات سے ہے۔ ذات سے تعلق ہونے کی وجہ سے یہ کتاب باحیات ہے اور باحیات ہونے کی بنا پر یہ حیات بخش اور وسیلۂ نجات ہے کہ اس میں آیاتِ قرآنی کا تمام علم ہے۔ قرآن کی آیات کے اس علم سے ابتدا میں ہی قربِ حق تعالیٰ کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ نعمت و سعادت فنا فی اللہ عاشقوں اور واصلوں کو نصیب ہوتی ہے۔
اس کتاب کو میں نے عین نما کی صورت دی ہے۔ جس نے اس کے مطالعہ سے عین دیدار پایا وہ عارفِ خدا کا رتبہ پا کر واصل ہو گیا۔ جس نے اس کتاب سے دیدار اور وصالِ الٰہی حاصل نہ کیا وہ مردہ دل منافق و بے حیاہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
کَفٰی عِلْمِہٖ بِحَالِیْ لَا زَوَالِیْ
ترجمہ: میرے حال کے لیے اللہ کا علمِ لازوال ہی کافی ہے۔
کلید التوحید کلاں
سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں:
یہ کتاب علما، فقرا، فقہا، اہلِ توحید اور اہلِ تقلید سب کے لیے کسوٹی ہے۔ جو شخص اس کتاب کو رات دن اپنے مطالعہ میں رکھے گا اور اخلاص سے اس کو پڑھتا رہے گا وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہوگا اور اسرارِ الٰہی اس پر منکشف ہوں گے۔ اس سے آسمانوں اور زمین کی کوئی بھی چیز مخفی اور پوشیدہ نہیں رہے گی کیونکہ اس کتاب کو پڑھنے والا سچا عارف ہوتا ہے اور وہ مخلوق کی رہنمائی کرتا ہے کیونکہ عارف باللہ صاحبِ بصیرت ہوتا ہے اور اس کی نگاہ دیدار سے محروم نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے اسرارِ ربانی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جو محتاج اس کتاب کا مطالعہ کرے گا وہ لایحتاج ولی اللہ بن جائے گا۔ اگر مفلس پڑھے تو غنی ہو جائے گا اور اگر پریشان حال پڑھے تو وہ صاحبِ جمعیت ہو جائے گا اور اگر اہلِ حیرت پڑھے تو صاحبِ عزت ہو جائے گا اور اگر مردہ دل پڑھے تو ذکرِاللہ سے اس کا دل زندہ ہو جائے گا اور اگر جاہل پڑھے تو صاحبِ علم ہو جائے گا اور حیّ و قیوم ذات کے احوال اس پر کھل جائیں گے اور ماضی، حال اور مستقبل کے احوال کی حقیقت اسے معلوم ہو جائے گی کیونکہ جب کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے ذکر کی ضرب دل پر پڑتی ہے تو دل کو صاف کر تی ہے اور وہ ذاکر صاحب ِ بصیرت عارف بن جاتا ہے۔ اگر عالم فاضل اس کتاب کو پڑھے تو فیض بخش بن جائے گا۔ اگر صاحبِ عبودیت اس کتاب کو پڑھے تو وہ مراتبِ ربوبیت پر پہنچ جائے گا اور اگر صاحبِ مجاہدہ اس کتاب کو پڑھے تو مراتبِ مشاہدہ پر پہنچ جائے گا اور اگر صاحبِ ریاضت پڑھے تو وہ مراتبِ اسرار پر پہنچ جائے گا اور اگر صاحبِ فقہ پڑھے تو اس کا نفس فنا ہو جائے گا اور وہ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کے مراتب پر پہنچ جائے گا۔ اگر صاحبِ حدیث اس کتاب کو پڑھے تو فنا فی اللہ ہو کر اللہ کا ہم نشین ہو جائے گا اور خطراتِ ابلیس سے نجات پالے گا۔ اگر ناقص پڑھے تو وہ کامل ہو جائے گا اور اگر کامل پڑھے تو مکمل ہو جائے گا اور اگر مکمل پڑھے تو اکمل ہو جائے گا اور اگر اکمل اس کتاب کو پڑھے تو سلطان الفقر کے مراتب پر پہنچ جائے گا اور اگر بادشاہ اس کتاب کو پڑھے تو اسے وزیر کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ مؤکلات اسے دینی و دنیوی اور ظاہری و باطنی معاملات کی خبر دیں گے۔ اگر کیمیا گری کا طالب عامل اس کتاب کو پڑھے گا تو اسے کیمیا گری کا علم بخش دیا جائے گا۔ جو اس کتاب کو ابتدا سے انتہا تک (خلوص سے) پڑھے گا اسے ظاہری مرشد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر رجعت خوردہ اس کتاب کو پڑھے تو وہ رجعت سے نجات پالے گا۔ اگر بیمار پڑھے تو شفایاب ہو جائے گا۔ غافل پڑھے تو ہوشیار ہو جائے گا۔ اگر محجوب پڑھے تو محبوب ہو جائے گا۔ یہ کتاب روشن اور فیض بخش آئینہ ہے جو دونوں جہان کی نعمتیں دکھاتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے (مندرجہ بالا) مراتب تصور اسمِاللہ ذات کے حاضرات، تصور اسمِمحمدؐاور تصور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی بدولت حاصل ہوتے ہیں۔
یہ کتاب صدیق مریدین، صاحبِ تصدیق طالبان، صاحبِ تحقیق عارفین، حق کے رفیق واصلین، باتوفیق علما اور فنا فی اللہ فقرا جو وحدانیت کے عمیق سمندر میں مستغرق ہوں، سب کے لیے ایک کسوٹی ہے۔ اس کتاب سے اگر کوئی اسمِ اعظم اور بغیر کسی تکلیف کے گنج نہیں حاصل کر پاتا تو اس کا وبال اس کی اپنی گردن پر ہو گا۔ تصرفِ دینی و دنیوی یا ایسا کوئی عظیم و کامل تصرف کسی نے بھی کسی دوسری جگہ سے نہیں پایاکیونکہ اس کی خاطر لوگ جان بلب ہو کر مردہ ہو گئے لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ یہ عوام کا تصرف ہے۔ جسے عقل و شعور اور دانشمندی حاصل ہو وہ اس کتاب سے ان تصرفات کو پا سکتا ہے کیونکہ یہ کتاب اللہ کے حکم و منظوری، اس کی نظر ِ رحمت اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے حضوری میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا ہر حرف حضوری اور مشاہدئہ حق عطا کرتا ہے اور اس کتاب کی ہر سطر اسمِاللہذات، آیاتِ قرآن و حدیث، تفسیر اور شریعتِ محمدی ؐکی برکت سے اسرار اور نورِ ذاتِ حق کی تجلیات کا مشاہدہ کھولتی ہے اور اس کتاب کو پڑھنے والا باطل سے دور ہو جاتا ہے اور عین بعین ذات کو پا لیتا ہے اور پھر غرق فنا فی اللہ ہو کر حق سے واصل ہو جاتا ہے۔
امیر الکونین
اس تصنیف کے متعلق سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں:
اس کتاب کا مصنف چند ایسے کلمات بیان فرماتا ہے جو مہمات کو فتح کرنے والے اور ہر مشکل کے قفل کو کھولنے والے ہیں۔ اس کتاب کا نام امیر الکونین رکھا گیا ہے اور اس کے قاری کو حاکم، اولی الامر اور فنا فی اللہ کا خطاب دیا گیا ہے جو اللہ کو اپنی آنکھوں سے عین بعین اور بے حجاب دیکھتا ہے۔ یہ کتابِ تصوف قرآن کی باتاثیر تفسیر ہے جس کے مطالعہ سے صاحبِ مطالعہ روشن ضمیر ہو جاتا ہے، اُسے ظاہری طور پر تمام دنیاوی خزانوں کا تصرف عنایت کیا جاتا ہے جبکہ باطنی طور پر معرفتِ الٰہی اور ہدایت کے خزانوں کا تصرف عطا کیا جاتا ہے۔ جو طالب اس کتاب سے نکتہ حاصل نہیں کرتا اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے واصل نہیں ہوتا تو اس کے لیے ہلاکت ہے اور اس کے احوال کا وبال اس کی اپنی گردن پر ہوگا۔
در یک تصرف ہر تصرف یافت گنج
با عطا مرشد در روز پنج
ہر ورق گنج است اکسیر و کرم
ہر کہ خواند بالیقین آنرا چہ غم
از مطالعہ باخدا بامصطفیؐ
واقف اسرار گردد از الہٰ
ترجمہ: مرشد کامل اس کتاب کے فیض کے ذریعے ایک تصرف میں ہی ہر خزانہ پر تصرف صرف پانچ روز میں عطا کر دیتا ہے۔
اس کتاب کا ہر ورق اکسیر و کرم کا خزانہ ہے۔ جو کوئی اسے یقین سے پڑھتا ہے اُسے کیا پریشانی!
اس کتاب کے مطالعہ سے طالبِ مولیٰ اللہ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچ کر حق تعالیٰ کے اسرار سے واقف ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
غرضیکہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ کی ذات اور ان کی ہر تصنیف فیض کا بے کراں سمندر اور اسرارِ الٰہی کا لازوال گنجِ بے بہا ہے جس سے فیض اور روحانی زندگی حاصل کرنے کا ہر خواہشمند فیض یاب ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی مقام و مرتبے کا حامل ہو۔ کم سے کمتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ تر مرتبے کا شخص اس دریائے کرم سے اپنا اپنا حصہ وصول کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ باادب اور نیک نیت ہو۔ البتہ منافق، مردود اور مراتبِ اولیا پر زبانِ طعن دراز کرنے والے اور ان کے روحانی فیض کے ہر زمانے میں ہر لمحے جاری رہنے پر شک و شبہ کرنے والے بدنصیبوں کو یہاں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اس کا ذمہ دار اُن کا اپنا بدباطن ہے۔
استفادہ کتب:
۱۔ نور الہدیٰ کلاں: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔ محک الفقر کلاں: ایضاً
۳۔کلید التوحید کلاں: ایضاً
۴۔ امیر الکونین:ایضاً
۵۔ عین الفقر:سایضاً