شرح سورۃ کوثر Sharah Surah-e-Kausar


4.6/5 - (25 votes)

شرح سورۃ کوثر
 Sharah Surah-e-Kausar 

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ.

ترجمہ:بیشک ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو (ہر خیر و فضیلت میں ) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔پس آپؐ اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں(یہ ہدیۂ تشکر ہے)۔ بیشک آپؐ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گا۔

قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سب سے مختصر سورۃ مقدسہ ’’سورۃ کوثر‘‘ ہے۔ یہ سورۃ قرآنِ مجید کی موجودہ ترتیب کے مطابق 108ویں سورۃ ہے اور قرآن کے آخری پارہ میں موجود ہے۔یہ 3آیات 10الفاظ اور 43 حروف پر مشتمل ہے۔الفاظ وحروف کے اعتبار سے یہ سورۃ مختصر ہونے کے باوجودمعانی و مفاہیم اور موضوعات کے لحاظ سے بڑی اہم اور جامع ہے۔

شانِ نزول:

شانِ نزول یاسببِ نزول سے مراد وہ واقعہ اور پسِ منظر ہے جو کسی سورۃ یاآیت کے نزول کی وجہ اور باعث ہوتی ہے۔جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صاحبزادے بچپن میں ہی فوت ہوگئے تو مشرکینِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر تنقید کی: 
نعوذ باللّٰہ  آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسل کٹ گئی اور آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔ اس لیے جب تک آپ زندہ ہیں تب تک آپ کا نام اور دعوت وتبلیغ کا کام جاری رہے گا۔ آپ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

تفسیر ابنِ کثیر میں اس آیت کے متعلق بیان ہوا ہے:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو سردارانِ مکہ عاص بن وائل، عقبہ بن ابی معیط اور دیگر لوگ یہ کہنے لگے کہ آج کی رات (نعوذباللہ) محمدؐ کی نسل کٹ گئی لہٰذااس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی۔یہ ابنِ عباسؓ سے بھی منقول ہے۔

اس آیت کے شانِ نزول کو سامنے رکھتے ہوئے صوفیا کرام ’’کوثر‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں:
یہاں کوثر سے مراد حضرت فاطمہ الزہراؓ ہیں۔ کوثرکثرت سے ہے اورحضرت فاطمہؓ کے بطنِ مبارک سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل، ذکر اور شان و رفعت میں جو کثرت نصیب ہوئی اس کا فیض تا قیامت جاری وساری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے جبکہ نامِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے سادات بکثرت ہیں۔

دراصل قرآن کی ہر آیت میں بے شمارمعنی واسرار پنہاں ہیں جو جس باطنی مقام پر ہوتا ہے وہ اپنی باطنی استعداد کی بنا پر معنی اخذ کرتا ہے۔ شریعت، طریقت، حقیقت، معرفت یہ چار مقاماتِ تصوف ہیں۔ فقہا اور عالم آیات واحادیث کی شرح علمِ شریعت کو بنیاد بنا کر کرتے ہیں اور صوفیا کرام کو اللہ علمِ لدنیّ عطا کرتا ہے اور وہ ہر علم وہیں  سے اخذکرتے ہیں۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
قرآن کے معنی ولی کے قلب پر اترتے ہیں جبکہ عالم کے دماغ پر۔ دماغ کے بہت سارے زاویے ہیں جبکہ قلب (روح) ایک ہی ہے جو اللہ سے ہے۔ اسی لیے اولیاکرام قرآن کے ایک ہی معنی اخذ کرتے ہیں اور علما اپنے اپنے دماغ کے مطابق مختلف معنی اخذ کرتے ہیں۔

امام احمدرضا خان بریلویؒ نے سورۃ کو ثرکی پہلی آیت کا ترجمہ فرمایا ہے: ’’ہم نے آپ کو بے شما ر خوبیاں عطا فرمائیں۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں سید محمد نعیم الدین مرا دآبادیؒ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فضائلِ کثیرہ عنایت کرکے تمام خلق پر افضل کیا۔ حسنِ ظاہر بھی دیا، حسنِ باطن بھی، نسبِ عالی بھی، نبوت بھی، کتاب بھی، حکمت بھی، علم بھی، شفاعت بھی، حوضِ کوثر بھی، مقامِ محمود بھی، کثرتِ امت بھی، اعدائے دین پر غلبہ بھی، کثرتِ فتوح اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں جن کی نہایت نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متبعین سے دنیا بھر جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر منبروں پر بلند ہو گا۔

سورۃ کوثر کے متعلق حدیث شریف میں بیا ن ہوا ہے:ِ
علی بن حجر سعدی اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے (الفاظ انہیں کے ہیں) علی بن مسہر سے روایت کی، انہوں نے مختار بن فلفل سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی، کہا:
ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے درمیان تھے جب اِسی اثنا میں آپؐ کچھ دیر کے لیے نیندکی کیفیت میں چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم !آپؐ کس بات پر مسکرائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل کی گئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پڑھا :

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ۔

ترجمہ: بلا شبہ ہم نے آپؐ کو کوثر عطا کی۔ پس آپؐ اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں، یقینا آپ کا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’وہ ایک نہرہے جس کا میرے ربّ عزّوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، اس پر بہت بھلائی ہے اور وہ ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری اُمت پا نی پینے کے لیے آئے گی، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہیں۔ ان میں سے ایک شخص کو کھینچ لیا جا ئے گا تو میں عرض کروں گا اے میرے ربّ! یہ میری امت سے ہے۔ تو وہ فرمائے گا : آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آ پ کے بعد نئی باتیں نکال لیں۔(صحیح مسلم، حدیث 894 )

سورۃکوثر کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے تمام امت کو نماز پڑ ھنے اور قربانی دینے کا حکم فرمایا ہے۔ جب ایک مومن حقیقی معنوں میں نماز اور قربانی کی حقیقت کو جان لیتا ہے تو ہی کوثر جیسی عظیم نعمت کو پا سکتا ہے۔ قربِ الٰہی کے لیے مسلمان کا سب سے پہلا اور نمایاں عمل نما ز ہے جسے دین کی بنیاد اور دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں سب سے زیادہ تاکید نماز کے قیام کی فرمائی گئی ہے۔ تصنیفِ مبارکہ ’’حقیقتِ نماز‘‘ میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
قرآنِ کریم میں جہاں بھی نماز پڑھنے کا حکم آیا ہے وہاں صرف نماز پڑھنے کا نہیں بلکہ نماز کو قائم کرنے کا حکم ہے۔دین کی روح سے نا واقفیت کی وجہ سے عام مسلمانوں نے مقررہ اوقات میں ایک خا ص ترتیب سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جانے، مخصو ص حالت میں جھک جانے، زمین پر ماتھا ٹیک دینے اور ان حالتوں میں مخصوص تسبیحات اور دعائیں پڑھ لینے کو ہی کامل نماز سمجھ لیا ہے اور اسی کے اہتمام میں کوشاں ہوگئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نمازاللہ تعالیٰ کی بندگی کا وہ قرینہ ہے جو بندے کو دائمی طور پر اطاعتِ الٰہی میں مشغول رہنا سکھاتا ہے۔(حقیقتِ نماز)

اگر نماز کو اس کی روح کے ساتھ قائم رکھا جائے تو ہی وہ دائمی طور پر اطاعتِ الٰہی کا سبق سکھاتی ہے۔ نماز کی روح کیا ہے؟ نماز کی روح خشوع یعنی حضورِقلب ہے۔ حدیث مبارکہ ہے:
لَا صَلوٰ ۃَ اِلَّابِحُضُوْرِ الْقَلْبِ 
ترجمہ :حضورِقلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

امام قشیریؒ فرماتے ہیں حقیقت کے غلبہ (حضوریٔ حق تعالیٰ)کے وقت دل کاپگھلنا اور پیچھے ہٹنا خشوع ہے۔(رسالۃالقشیریہ)

سورۃ کوثر کی دوسری آیت میں نماز کے بعد قربانی دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں اگر قربانی کو وسیع معنوں میں سمجھا جائے تو اس سے مرادمحض جانوروں کی قربانی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد نفس کی قربا نی ہے یا ہر اس چیز کی قربا نی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل رکھتی ہے۔ حقیقی بندگی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک بندہ ہر شے کو راہ ِحق میں قربان نہیں کردیتا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
تم اس وقت تک اللہ کو نہیں پاسکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کر دو۔ (سورۃ آل عمران۔92)

’’تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین‘‘ میں آپ مدظلہ الاقدس کا وفا اور قربانی کے متعلق فرمان درج ہے:
حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے صحابہ کرامؓ کی تربیت اس انداز میں فرمائی کہ ان کے دلوں سے محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا ہر محبت کو ختم کر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو بھی چیز حائل ہوئی صحابہ کرامؓ نے کمال بے نیازی سے اسے اللہ کی راہ میں قربان کرڈالا۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ کوثر میں فرمایا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے دشمن ہی ابتر ہیں۔ یہ حقیقت آج سب کے سامنے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؐ کا نام اور شان ہرگزرتے لمحہ اور زمانے کے ساتھ ترقی پذیر ہے۔

سورۃ کوثر کی تیسری اور آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں کے متعلق فرمایا کہ وہی بے نشان و بے نسل ہوں گے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر تا قیا مت بلند رہے گا۔ تفسیر ابنِ کثیر میں اس کے متعلق بیان ہوا ہے :
ابتر کے معنی ہیں تنہا۔ عرب کا یہ محاورہ ہے کہ جب کسی کی نرینہ اولاد مرجائے توکہتے ہیں بتر۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ کوثر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن کے متعلق فرمایا وہ ابتر ہیں یعنی ان کا نام ونشان مٹ جائے اور وہی بے نسل ہیں ۔(تفسیر ابنِ کثیر)

اللہ تعالیٰ نے سورۃ کوثر میں جو فرمایا تھاکہ آپؐ کے دشمن ہی ابتر ہیں یہ حقیقت آج سب کے سامنے ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپؐ کا نام و شان ہر گزرتے لمحہ اورزمانے کے ساتھ ترقی پذیر ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں قرآنِ کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگیاں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

استفادہ کتب:
۱۔حقیقتِ نماز: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین: ترتیب و تدوین مسز عنبرین مغیث سروری قادری
۳۔تفسیر ابنِ کثیر: امام المفسرین حافظ عماد الدین ابو الفدا اسمعٰیل بن عمر بن کثیر الدمشقیؒ

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں