شانِ فقرا (Shan-e-Fuqara)
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (سورۃ المومن۔60)
ترجمہ:اور تمہارے ربّ نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا۔
دعا ہر عبادت کا حاصل ہے۔ ایک مسلمان جب اللہ کی عبادت سے فارغ ہوتا ہے تو وہ اپنی عرضیاں اور التجائیں اللہ کے حضور پیش کرتا ہے جو کہ ایک طرح سے اس مسلمان کی بطور مخلوق عاجزی کا اظہار بھی ہے اور اللہ کی قدرت کا اقرار بھی۔ بطور مخلوق انسان بے بس اور لاچار ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر اور مہربان ہے اور ہر ضرورت اور طلب پوری کرنے والا ہے۔ جس طرح دنیاوی زندگی میں بھی کسی معروف شخصیت تک رسائی کے لیے کوئی نسبت یا تعلق تلاش کیا جاتا ہے تاکہ اس سے ملاقات ہو سکے اسی طرح اللہ سے دعا کے دوران بھی اس کے نیک بندوں یعنی انبیااور فقرا کا وسیلہ استعمال کرنا چاہیے کیونکہ وہ اللہ کے محبوب بندے ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث ِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَحَبَّتِیْ مَحَبَّۃُ الْفَقَرَآئِ
ترجمہ: مجھ سے محبت فقرا سے محبت رکھنا ہے۔
یعنی فقرا سے محبت رکھنا گویا اللہ سے محبت رکھنا ہے اور فقرا سے دشمنی اور عداوت اللہ سے دشمنی ہے۔
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اپنی تصنیف مبارکہ ’’سرّ الاسرار‘‘ میں فقرا کے متعلق فرماتے ہیں:
جو (اللہ تبارک و تعالیٰ کے) محبین یعنی فقرا سے محبت کرتے ہیں وہ آخرت میں ان کے ساتھ ہوںگے اور اُن کی محبت کی علامت یہ ہے کہ انہیں اہلِ اللہ فقرا کی صحبت (میں رہنے) کی طلب اور لقائے حق تعالیٰ کا اشتیاق ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حدیثِ قدسی میں فرمایا:
طَالَ شَوْقُ الْاَبْرَارِ اِلٰی لِقَآئِیْ وَ اِنِّیْ لَاَشَدُّ شَوْقًا اِلَیْہِمْ
ترجمہ:نیکوکار میرے دیدار کے مشتاق ہوتے ہیں اور میں اُن (نیکوکاروں) سے بڑھ کر ان کا مشتاق ہوتا ہوں۔ (سرّ الاسرار)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف مبارکہ’’ کلید التوحید کلاں‘‘ میں فقرا کی شان میں بیان کردہ چالیس احادیث تحریر فرمائی ہیں۔ فقرا کی شان اور مرتبہ کو واضح کرنے کے لیے ان احادیث میں سے چند تحریر کی جا رہی ہیں:
ہر شے کی ایک چابی ہے اور جنت کی چابی فقرا اور مساکین کی محبت ہے اور ان کے لیے کوئی گناہ نہیں کیونکہ یہ روزِ قیامت اللہ کے ساتھ بیٹھے ہوں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابوذرؓ سے فرمایا ’’اے ابوذرؓ! فقرا وہ ہیں جن کا ہنسنا عبادت، جن کا مزاح تسبیح اور جن کی نیند صدقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف ایک دن میں تین سو مرتبہ دیکھتا ہے۔ جو کسی فقیر کے پاس ستر قدم چل کر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے ستر مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے اور جنہوں نے ان فقرا کو مصیبت میں کھانا کھلایا تو وہ کھانا قیامت کے دن ان کی دولت (اجر و ثواب) میں نور کی مانند ہوگا۔‘‘
جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فقرااور مساکین کو جمع فرمائے گا تو ان سے کہا جائے گا کہ ان لوگوں کی بخشش کرا لو جنہوں نے دنیا میں آپ کو کھانا کھلایا یا پانی پلایا یا لباس پہنایا یا آپ سے کوئی مصیبت دور کی۔ پس ان کے ہاتھ پکڑو اور جنت میں داخل ہو جاؤ۔
فقرا اور مساکین کی محبت رسولوں کے اخلاق میں سے ہے اور ان کی مجالس اخلاقِ متقین میں سے ہیں اور ان سے فرار منافقین کی عادات میں سے ہے۔
میری امت کے فقرااغنیاسے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ آدھا دن پانچ سو سال کے برابر ہوگا۔
فقرا کی خدمت کیا کرو، بے شک ان کے لیے اللہ پاک کے پاس خزانے ہیں۔
فقرا کا کلام اللہ کا کلام ہے۔ جس نے ان کے کلام کی اہانت کی گویا اس نے اللہ کے کلام کی اہانت کی اور جو فقرا سے دشمنی رکھے گا اللہ تعالیٰ ان (دشمنوں سے نبٹنے) کے لیے کافی ہوگا۔
فقرا کی اغنیا پر فضیلت ایسے ہے جیسے میری فضیلت تمام مخلوقِ خدا پر ہے اور فقیر وہ ہے جو اپنی بھوک اور بیماری کے باوجود لوگوں سے واقف نہ ہو (یعنی کسی بھی حالت میں مخلوق کی طرف متوجہ نہ ہو)۔
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو زمین کی مٹی سے پیدا کیا اور انبیا و فقرا کو جنت کی مٹی سے پیدا کیا۔ پس جو یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ کا حقیقی بندہ بن جائے وہ فقرا کی عزت کرے۔
فقرا کی اغنیا کے ساتھ مثال ایسے ہی ہے جیسے لاٹھی کی اندھے کے ساتھ۔
ان پر اللہ کی لعنت ہے جو اغنیا کی عزت ان کی غنایت (توانگری) کے باعث کرتے ہیں اور ان پر بھی اللہ کی لعنت ہے جو فقرا کی اہانت ان کے فقر کے باعث کرتے ہیں۔ ایسے شخص کو آسمانوں میں اللہ اور انبیا کا دشمن سمجھا جاتا ہے جس کی نہ کوئی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی حاجت پوری کی جاتی ہے۔
بے شک ملائکہ فقرا کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں اور ان کے لیے قیامت کے روز شفاعت کریں گے اور جس کے لیے ملائکہ شفاعت کریں اس کا کیا ہی عمدہ حال ہوگا۔
بے شک اللہ تعالیٰ فقرا کی طرف ایک دن میں پانچ مرتبہ (رحمت کی نگاہ سے) دیکھتا ہے اور ہر نظر میں ان کی سات خطائیں معاف فرماتا ہے۔
جس نے کسی مومن فقیر کو ناحق اذیت دی تو گویا اس نے کعبہ کو منہدم کیا اور ایک ہزار مقرب ملائکہ کو قتل کیا۔
مومن فقیر کی حرمت اللہ کے نزدیک سات آسمانوں اور سات زمینوں، پہاڑوں اور ان کے مابین جو کچھ ہے،ان سب سے اور مقرب ملائکہ سے بڑھ کر ہے۔
بے شک اللہ علما اور فقرا کی بدولت میری اُمت پر (خاص) نظر کرتا ہے پس علما میرے وارث اور فقرا میرے احباب ہیں۔
فقرا کی محبت دنیا اور آخرت میں اغنیا کے لیے چراغ کی مانند ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قیامت کے روز جب تمام مخلوقات حساب گاہ میں جمع ہوں گی تو دنیا میں جس جگہ پر علما نے عبادت کی ہوگی یا رضائے الٰہی کی خاطر علم سیکھا ہو گا اور وہ جگہ جہاں فقرا اللہ کی ذات میں مشغول بیٹھے ہوں گے تو زمین کی اس جگہ کو باب المساکین کا شرف حاصل ہوگا اور وہ آفتاب کی مثل روشن ہوگی۔ وہ جگہ کامل انسان، علما اور فقرا کو بجلی کی طرح پل صراط سے گزار کر جنت میں لے جائے گی۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ یَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا۔ (سورۃ النبا۔40)
ترجمہ: اور (ہر) کافر کہے گا کہ اے کاش! میں خاک ہوتا۔
یعنی کافر کہیں گے کاش ہم علما اور فقرا کے قدموں کی خاک ہوتے اور ان کے قدموں کی خاک ہونے کے سبب جنت میں داخل ہو جاتے اور دوزخ کے عذاب سے خلاصی پاتے۔ علما عامل اور فقرا کامل کی قدر تجھے اس روز معلوم ہوگی۔ علما عامل اور فقرا کامل یہ دونوں بزرگ ہستیاں ہیں جو کوئی ان کا دامن تھام لیتا ہے وہ دنیا و آخرت میں کبھی پریشان نہیں ہوتا۔ (کلید التوحید کلاں)
مندرجہ بالا تمام احادیث اور حضرت سخی سلطان باھوؒ کے فرمان سے فقرا کی شان، ان کا بلند مرتبہ اور اللہ کے نزدیک ان کی فضیلت خوب معلوم ہو جاتی ہے۔ انہی مقرب و بزرگ ہستیوں کی دعا یا ان کے وسیلہ سے اللہ کے حضور اپنی التجا پیش کی جا سکتی ہے۔ انہی فقرا کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کو تاکید فرمائی :
قُلْ لِاَصْحَابِکَ اِغْتَنِمُوْا دَعْوَۃَ الْفُقَرَآئِ فَاِنَّھُمْ عِنْدِیْ وَ اَنَا عِنْدَھُمْ
ترجمہ: اپنے اصحاب سے کہہ دو کہ فقرا کی دعا کو غنیمت جانو کیونکہ وہ میرے نزدیک ہیں اور میں ان کے نزدیک ہوں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی انہی فقرا کے متعلق فرمایا:
اہلِ تصوف کی دعا کے متمنیّ رہو کہ یہ لوگ بھوک اور پیاس برداشت کرنے والے ہوتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ ان پر نظر فرماتا ہے اور ان کی دعائیں جلد قبول فرماتا ہے۔
فقرا کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر کامل تصرف بھی عطا کیا ہوتا ہے کہ ان کی زبان کنُ کی زبان بن چکی ہوتی ہے اور ان کی زبان سے نکلی ہر بات پوری ہو جاتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
فقیر وہ ہوتا ہے جو اگر کسی کام کا حکم دے دے تو وہ امرِ الٰہی سے جلد یا بدیر ہو کر ہی رہتا ہے چاہے آج ہو یا روزِ قیامت، ایک لمحے کے لیے ہو یا ہمیشہ کے لیے، ایک ساعت میں ہو جائے یا سالہا سال میں، لیکن اس کا کہا کبھی ردّ نہیں ہوتا۔ ایسا فقیر قربِ الٰہی اور کنہ فنا فی اللہ کے لاحد و لاعد مراتب تک پہنچ چکا ہوتاہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لِسَانُ الْفُقَرَآئِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ
ترجمہ:فقرا کی زبان رحمن کی تلوار ہے۔
ایسے فقیر صرف طریقہ قادری میں پائے جاتے ہیں جن کا ظاہر محبوب اورہوشیار ہوتا ہے اورباطن دیدار ِ الٰہی میں مست مجذوب ہوتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں اپنے متعلق فرماتے ہیں:
میں شہباز کراں پروازاں، وِچ دریائے کرم دے ھوُ
زبان تاں میری کنُ برابر، موڑاں کم قلم دے ھوُ
افلاطون ارسطو وَرگے، میرے اَگے کِس کم دے ھوُ
حاتم جیہے کئی لکھ کروڑاں، در باھوؒ دے منگدے ھوُ
مفہوم: میں شہبازِ معرفت ہوں اور سمندرِ رحمتِ الٰہی میرے اندر موجزن ہے۔ سلطان الفقر کے مرتبہ پر پہنچ کر میری زبان کنُ (زبانِ قدرت) کی ہو گئی ہے اور میں لوحِ محفوظ پر رقم شدہ نوشۂ تقدیر تبدیل کرسکتا ہوں۔ میرے علم کے سامنے ارسطو اور افلاطون کے علم کی کوئی حیثیت نہیں اور حاتم طائی جیسے کروڑوں سخی تو خود میرے دَر پر بھکاری بن کر کھڑے رہتے ہیں۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
جائی کہ من رسیدم اِمکان نہ ہیچ کس را
شہبازِ لامکانم آنجا کجا مگس را
لوح و قلم و کرسی کونین راہ نیابد
فرشتگان نگنجد آنجا نہ جائے ہوس را
ترجمہ: میں جس جگہ پہنچا ہوں وہاں کسی کے پہنچنے کا امکان نہیں۔ میں لامکان کا شہباز ہوں وہاں مکھیوں کی گنجائش نہیں۔ لوح و قلم، عرش و کرسی اور دونوں جہان کو بھی وہاں پہنچنے کی راہ نہیں ملتی۔ نہ فرشتے وہاں تک رسائی پا سکتے ہیں اور نہ ہی اہلِ ہوس کے لیے وہاں کوئی جگہ ہے۔(کلید التوحید کلاں)
پس طالبانِ مولیٰ اور فقرا سے عقیدت رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ فقرا کی خوب خدمت کریں اور ان کی خوشی اور رضا کے طالب ہوں اور حتیٰ الامکان کوشش کریں کہ ان کی ناراضی اور جلال سے بچیں کیونکہ ان کی ناراضی اللہ کی ناراضی ہے اور ان کی خوشی اللہ کی خوشی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
اگر مشرق سے لیکر مغرب تک ہر ملک قیامت تک آفات سے محفوظ ہے تو یہ صرف فقرا کے قدموں کی برکت سے ہے۔ اس لیے خلقِ خدا پر فقرا کا یہ حق ہے کہ اس کا ہرخاص و عام فرد ان کی خدمت کرتا رہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُ الْفُقَرَآئِ
ترجمہ: قوم کا سردار فقرا کا خادم ہوتا ہے۔
لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فقر کو اس لیے عزت دے کر اپنا فخر قرار دیا کہ فقر کے سر پر اللہ کا نام ہے یعنی فقر اللہ سے ہے۔ فقر کا دشمن تین چیزوں سے خالی نہ ہوگا یا وہ حاسد ہوگا یا منافق یا نفس سے مغلوب غیبت کرنے والا۔ (کلید التوحید کلاں)
خندہ بر سینہ صافان می کنی ہشیار باش
ہر کہ بر آئینہ خندد رویش خندی خود کند
ترجمہ: تو باطن صفا فقرا پر ہنستا ہے۔ ہوشیار رہ کیونکہ جو آئینہ پر ہنستا ہے وہ اپنا مذاق خود اڑاتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
اللہ تعالیٰ ہمیں فقرا کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے اور ان کی خدمت کر کے ان کے وسیلہ اور ان کی دعا سے اللہ کا قرب پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب:
۱۔ ابیاتِ باھوؒ کامل: تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ کلید التوحید کلاں:تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔ نور الہدیٰ کلاں: ایضاً