بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen


5/5 - (28 votes)

بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین)
  Bazm-e-Sultan-ul-Ashiqeen

قسط نمبر 3                                                               مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

6  اپریل 2010 بروز منگل

مدرسہ اور خانقاہ

سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے فرمایا: مدرسے میں علم کے ذریعے اللہ کو جاناجاتاہے جبکہ خانقاہ میں اللہ کو پہچانا جاتا ہے۔ مدرسہ سے ملاُ تربیت پاتا ہے جبکہ خانقاہ سے عاشق تربیت پاتا ہے۔ مُلّا لاکھ کوشش کر لے تو بھی ایک انسان کا باطن نہیں بدل سکتا جبکہ عاشق ایک نگاہ سے لاکھوں کے دل بدل دیتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اگر توکلمہ طیب کو پڑھے تو تیری نگاہ میں وہ برکت آئے گی کہ اگر تو پتھر یادیوار یا خاک پرتوجہ کرے گا تو وہ سونا چاندی بن جائیں گے۔

اپنے اور اللہ کے کام

 جو اللہ کے راستے میں چل پڑتا ہے تو اس کی نگاہ میں دنیا کے کاموں کی اہمیت نہیں رہتی۔جو اللہ کے کام کرتا ہے، اللہ اس کے کام کرتا ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پوچھتے تھے کہ یہ کیا وجہ ہے کہ آپؓ دنیا کے کاموں میں بھی ہم سے آگے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کی بجاآوری میں بھی سبقت لے جاتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے جواب دیا ’’جب میں اللہ کے کام کرتا ہوں تو اللہ میرے کام کا ذمہ لے لیتا ہے۔‘‘ 

اس لیے سالک کو چاہیے کہ مرشد کے کام کو آگے رکھے۔ جب طالب مرشد کے کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو مرشد طالب کے کاموں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
جو شخص مخلوق سے منقطع ہو کر اللہ کا ہو رہتاہے، اللہ اس کی تکالیف کا خود ذمہ دار ہو جاتا ہے۔

تصوف کا آغاز

فرمایا: آجکل کے پڑھے لکھے جاہل کہتے ہیں کہ تصوف تو اسلام کے بہت بعد میں آیاحالانکہ ایسی بات نہیں، اس کا اصل نام فقر ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں لفظ تصوف کی بجائے فقر استعمال کریں تا کہ کوئی اعتراض ہی نہ کر سکے کہ بعد میں وجود میں آیا۔ قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ (سورۃالبقرۃ۔268)
ترجمہ: شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے۔

حدیثِ مبارکہ ہے:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ 
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ بھی اپنی تعلیمات کو فقر کا نام دیتے ہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ بھی فقر کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ 

حضرت امام حسن بصریؓ فرماتے ہیں :
میں نے ستر 70 اصحابِؓ بدر کو دیکھا ہے جو صفہ میں شامل تھے۔یہ حضراتِ صفہ شریعت و طریقت و حقیقت کے عرفان کو پہنچے ہوئے تھے اہلِ تقویٰ اور صاحبانِ احسان تھے۔ 

امام مالکؒ فرماتے ہیں:
جس نے فقہ کے بغیر تصوف حاصل کیا وہ زندیق ہوا اور جس نے تصوف کے بغیر فقہ کا علم حاصل کیا وہ فاسق ہوا۔ جس نے دونوں کو جمع کیا وہ محقق ہوا۔ (دلائل السلوک)

تصوف صرف علم نہیں

’’تصوف‘‘ کے لیے احادیث میں ’’احسان‘‘کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ حدیثِ جبرائیل ؑمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا گیا کہ احسان کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ (بخاری ۔50)

حدیثِ جبرائیل ؑسے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ علم حاصل کرنے والا نہیں بلکہ یہ باطن پر وارد ہونے والا حال ہے۔ یہ چلنے کی راہ ہے باتوں کی راہ نہیں۔ اب اسی حدیث کی مثال لے لیں۔ کیا جس کو اس حدیث  کا علم ہو وہ عارف بن جائے گا؟ نہیں! بلکہ وہی عارف بنے گا جس پر یہ حال وارد ہو گا۔

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں:

دِل دا کلمہ عاشق پڑھدے، کی جانن یار گلوئی ھوُ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فضیلت کی وجہ

فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام انبیاکرامؑ پر جو فضیلت حاصل ہے اس کی وجہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَاَفْتَخِرُّ عَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ 
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیاو مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔

 رضائے الٰہی

فرمایا: سروری قادری مرشد طالب کو تسلیم و رضا پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر وہ اس راستے پر نہیں آتا پھر مرشد کہتا ہے جا! جو کرنا ہے کر لے۔میرے مرشد پاک فرماتے تھے ’’اللہ پاک گوشت والے کو گوشت دیتا ہے، سبزی والے کو سبزی۔ مطلب یہ کہ اللہ پاک کسی کو بھوکا نہیں رکھتا۔‘‘

انسان جب رضا پر آ جاتا ہے تو پھر سب کچھ عطا کرتا ہے۔ غیر موسمی پھل تک میرے مرشد کریم کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ جو کھانے کو دل کرتا تھا اللہ پاک کسی نہ کسی کے ہاتھ وہ چیز بھجوا دیتا تھا۔ ایک بار میرے مرشد کریم نے فرمایا ’’ہم نے اللہ پاک کی رضا اور دیدار کے علاوہ کبھی کچھ طلب نہیں کیا۔‘‘

فقیر کی پہچان

کسی نے پوچھا فقیر کو پہچاننا مشکل کیوں ہوتا ہے؟

فرمایا: میرے حضور فرماتے تھے ’’جس طرح اللہ خود حجاب میں ہے اسی طرح اللہ چاہتا ہے کہ میرا محبوب بھی چھپا رہے، اسے میرے سوا اور کوئی نہ دیکھے۔‘‘ 

قوم کی اصلاح

کسی نے کہا کہ اگر حکمران ٹھیک ہو تبھی اسلام صحیح معنوں میں نافذ ہو سکتا ہے۔

فرمایا: اصل میں ہمارے علما کرام بہت ہی غلط راہ پر چل نکلے ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اسلام حکمرانوں سے نافذ نہیں ہوتا بلکہ اسلام تب نافذ ہوتا ہے جب قوم تیار ہو۔ جب تک قوم تیار نہ ہو گی اسلام نافذ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے نچلی سطح پر لوگوں کو تیار کرو پھر اُوپر بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ آجکل کے نام نہاد ملّا کوشش کرتے ہیں کہ اوپر سے ٹھیک ہو۔ یہ طریقہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نہیں ہے۔ بلکہ اس طریقہ سے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مزید دُوری آتی ہے۔ اب اگر کوئی قوم کو نچلی سطح سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ لوگ اس کے دَر پے ہو جاتے ہیں۔ قائد اعظمؒ اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہ اس چیز سے باہر نکل آئے تھے۔ جبکہ کچھ علما فساد پھیلاتے تھے کہ قائداعظمؒ اسماعیلی شیعہ تھے۔ مگر قائد اعظمؒ نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ ان کا تعلق کس فرقے سے ہے۔ کسی نے قائد اعظمؒ سے پوچھا آپ سنی ہیں یا شیعہ؟ انہوں نے کہا ’’میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پیروکار ہوں۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرقہ تھا، میرا وہی فرقہ ہے۔‘‘ جو پیسے کے لیے دین بیچتے ہیں ان کو پتا ہونا چاہیے کہ پیسہ اللہ نے دینا ہے۔ اگر تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے لیے کام کر رہے ہو تو پیسے کی بارش ہوگی۔ اگر تم نے پیسے کو آگے رکھ لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کو پیچھے کر دیا تو اس سے بڑی ناکامی کوئی نہیں۔ اگر پیسہ ہی سب کچھ ہوتا تو پھر حضرت ہارون علیہ السلام قارون کو ساتھ ملا لیتے۔

سیاستدان اور دین فروش

فرمایا: جو سیاستدان دنیا دار ہیں وہ بہترہیں ان مولویوں سے جو دین پیسے کے عوض بیچتے ہیں کیونکہ سیاستدان دین نہیں بیچتے جبکہ مولوی تو اللہ اور اسلام کا نام لے کرمعصوم لوگوں کو ٹھگتے ہیں۔ مولوی درس کے نام پر پیسے لیتے ہیں۔ پاکستان کو پڑھے لکھے مذہب والوں نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یہ لوگ قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں صرف اور صرف کمائی کے لئے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ یہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طریقہ ہے کہ پہلے نچلی سطح سے عوام کو ٹھیک کرو۔ اللہ اپنی مخلوق کی تنگی کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ تو بادشاہوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جیسی قوم ویسا حکمران۔ نیک قوم نیک حکمران۔‘‘ 

قوم پیسہ اکٹھا کرنے پر لگی ہوئی ہے تو حکمران بھی۔ سارے علما کرام ایک طرف تھے اور قائد اعظمؒ ایک طرف۔ مگر قائداعظمؒ نے ان سب کے ارادے ملیامیٹ کر دیے اور پاکستان بنا کر دکھایا۔ اللہ پاک کسی مشائخ الہند سے بھی پاکستان بنوا سکتا تھا لیکن نہیں۔ قرآن میں اللہ پاک نے فرمایا ’’میں بندے کو چن لیتا ہوں۔‘‘ اصل میں اللہ نے قائداعظمؒ کو چن لیا تھا۔ حالانکہ علما تو حدیث اور عربی وغیرہ ہر چیز کا علم جانتے تھے۔ بنی اسرائیل کے علما کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا تھا کہ یہ عالم بنے پھرتے تھے اور اللہ کسی اور میں سے نبی چن لیتا اور پھر یہ اس نبی کے خلاف کھڑے ہو جاتے۔ پاکستان بننے سے پہلے سب علما و مشائخ مخالف تھے مگر جب بن گیا تو سب ہجرت کر کے پاکستان میں آگئے۔ یہی علما، مشرک جواہر لال نہرو کے ساتھ جا کر کھانا کھاتے تھے مگر قائد اعظم کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے۔۔۔

اسلام تب طاقت بنے گا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طریقہ اپنایا جائے گا کہ پہلے نچلی سطح سے قوم کو ٹھیک کرنا شروع کرو۔ جب قوم ٹھیک ہو جائے گی تو قوم بادشاہوں کو خود اٹھا کر نیچے پھینک دے گی۔

خوفِ الٰہی

فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ خلفائے راشدین میں سے ہیں، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، غزو ئہ بدر میں شریک تھے، غزوئہ اُحد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ تھے، فتح مکہ کے وقت بھی ساتھ تھے، اوّلین میں سے ہیں، استقامت سے اسلام پر چلتے رہے مگر خوفِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ سے دریافت فرماتے کہ میرا نام منافقوں میں تو شامل نہیں۔ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو منافقین کے نام بتائے تھے۔

 حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ زمین پر چلتے تو چلنے کی آواز آسمانوں پر سنائی دیتی۔ ان کو خوفِ الٰہی اتنا تھا کہ خواہش کرتے تھے کہ اللہ ہمیں جلدی اس دنیا سے لے جائے تا کہ ہم سے کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس بہت سی گارنٹیاںموجود تھیں لیکن پھر بھی خوف کا عالم طاری رہتا۔ مگر یہاں ہمارے علما کے پاس کوئی گارنٹی بھی نہیں اور چودھری بنے ہوئے ہیں۔ جس کی نظر میں سونا اور مٹی برابر ہو جائے وہی کامیاب ہے۔ اُنہی کے گھوڑے پانی پر دوڑتے ہیں۔ ایسی ہدایت حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ہدایت ہیں۔ اسی لیے حضور سلطان صاحب (حضرت سلطان باھوؒ) فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچو۔ حضرت علامہ اقبالؒ بھی یہی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچو کہ وہی اصل دین ہیں۔ 

بہ مصطفیؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است

(ارمغانِ حجاز)

ترجمہ: تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تک خود کو پہنچا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مکمل دین ہیں۔ اگر تو اُن (مجلس محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تک نہیں پہنچتا تو تیرا سارا دین ابو لہب کا دین ہے۔

انسان کا ایمان

فرمایا: انسا ن کا ایمان دیکھنا ہو تو دیکھ لیں اس کے دوست کیسے ہیں۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ (ابوداؤد 4833)

جہاد بالنفس

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا  (سورۃالعنکبوت۔ 69)
ترجمہ: جولوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہداور کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔
اس آیت میں ’’جاھدوا‘‘ سے مراد نفس کے خلاف جہاد ہے۔ کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی تھی جبکہ جہاد ہجرتِ مدینہ کے بعد فرض ہوا۔ 

اسلام کی امن پسندی

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے ایک عمر رسیدہ غیر مسلم کو بھیک مانگتے دیکھا ۔آپؓ نے اس سے سوال کیا’’ تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’جزیہ ادا کرنے کے لیے۔‘‘
 امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ اسے اپنے گھر لے آئے۔ کچھ رقم عطا کی اور ایک عام حکم کے ذریعے سے اس جیسے تمام  غیر مسلموں کو جزیہ معاف کر دیا۔
اسی طرح جب یروشلم فتح ہوا اور عصر کی نماز کا وقت ہواتو حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ ان کے گرجا گھر میں تھے۔ پادری نے کہا ادھر نماز پڑھ لیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے انکار کیا تو اس نے کہا کیا آپ اس جگہ کو ناپاک سمجھتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’اسلام میں اللہ نے ہر جگہ کو سجدہ گاہ بنا دیا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر میں نے ادھر نماز پڑھ لی تو لوگوں نے اس گرجا کو گرا کر مسجد تعمیر کر لینی ہے۔‘‘

 پھر جو امان کا معاہدہ کیا اس میں تھا:
یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المومنین عمر ؓنے ادھرکے لوگوں کو دی۔یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے ۔اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی،نہ وہ ڈھائے جائیں گے نہ ان کو اورنہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا،نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی،مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا،نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ 

جب جہاد کے لیے صحابہ کرامؓ کہیں جاتے تو ان کو حکم تھا کہ حملہ سے پہلے اسلام کی دعوت دینی ہے کہ اسلام قبول کر لو۔ اگر اسلام قبول نہ کریں تو کہنا کہ اطاعت قبول کر لو اور جزیہ دو۔ اگر وہ ہتھیار پھینک دیں توان کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی۔پانی کے ذخیرے تباہ نہیں کرنے۔بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہیں کرنا۔ قرآن میں ہے:
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالاان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (سورۃ الممتحنہ ۔8)

اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (سورۃ البقرۃ۔190)

فقیر کے ستر ہزار بدن

فرمایا: فقیر کامل مالک الملکی کے سترہزار جسم ہوتے ہیں۔ وہ ان اجسام کے ساتھ ستر ہزار مختلف جگہوں پر بیک وقت جا سکتا ہے۔ ایک بار 40 لوگوں نے سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی افطار پر دعوت کی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ سب لوگوں کے ہاں موجود تھے۔

فقیر کے خالی ہاتھ

فرمایا: ہمارے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کی جیب بھی ہر وقت خالی ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود اللہ ان کو قیمتی ترین کپڑے پہناتا، اعلیٰ قسم کے کھانے کھلاتا۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہماری بھی جیب خالی ہوتی ہے یہ دیکھیں (اپنی قمیض مبارک کی جیب دکھائی) لیکن اللہ نے کبھی ہماری ضرورت نہیں روکی۔ ہمیں بہترین کھانے کھلاتا ہے۔ ہمارا ایسے خیال رکھتا ہے کہ پیسے سے ایسا ممکن نہیں۔ لیکن یہ سب تب ہوتا ہے جب انسان اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر خالی ہاتھ ہو جائے۔ پھر انسان کا سب کچھ اللہ کے ذمہ آ جاتا ہے۔ اور اگر انسا ن ایسا نہ کرے تواللہ اسکو اسی دولت میں اور اس کے کاموں میں الجھائے رکھتا ہے۔ 

کار ساز ما بہ فکرِ کار ما
فکر ما در کار ما آزار ما 

یعنی ہمارے کام بنانے والا تو اوپر بیٹھا ہے لیکن ہم نے اپنے کام کی فکر میں اپنے آپ کو دکھ میں ڈال رکھا ہے۔

آزمائش

فرمایا: ایک بار سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کو ایک مشکل پیش آئی  توآپ رضی اللہ عنہٗ نے اللہ سے دعا کی۔ وہ فوراً ٹل گئی۔ لیکن کچھ دن بعد اس سے بڑی مشکل آگئی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ اے اللہ! اگر یہی تیری رضا ہے تو پھر ایسے ہی ٹھیک ہے۔ پھر دوبارہ مشکل ٹلنے کی دعا نہ کی۔

اللہ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ میری رضا پر قائم رہتا ہے یا نہیں۔ بہت سے حالات پیدا کرتا ہے کہ اب مجھ سے کچھ مانگ لے۔ اگر وہ نہ مانگے تو نواز دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ ڈگمگا جائے تو پھر آزماتا ہے۔ ایک خاص وقت تک آزماتا رہتا ہے۔ اگر انسان رضا پر راضی نہ ہو تو پھر ہمیشہ کے لیے اس مقام سے گر جاتا ہے۔ 

 (جاری ہے)

 
 

بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen” ایک تبصرہ

  1. دِل دا کلمہ عاشق پڑھدے، کی جانن یار گلوئی ھُو

اپنا تبصرہ بھیجیں