فیض ِسلطان العاشقین (Faiz-e-Sultan-ul-Ashiqeen)
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کو اپنے مرشد سے فیض ملتاہے؟ اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ فیض ہوتا کیا ہے اور حاصل کیسے ہوتا ہے۔ عمومی طور پر لوگ فیض سے مراد یہ لیتے ہیں کہ ہر مشکل میں مرشد سے دعا کروا لی جائے اور وہ مشکل آسان ہو جائے۔اکثریت کے نزدیک مشکل بھی کسی دنیاوی کام ہی سے متعلق ہوتی ہے نہ کہ روحانی یا باطنی مثلاً ظاہری رزق میں تنگی سے فراوانی، بے اولاد کے ہاں اولاد، بے روزگار کی نوکری، کاروبار میں برکت و کشادگی وغیرہ۔ بہت ہی قلیل تعداد ایسی ہے جو مشکل سے مراد باطنی یا روحانی مشکل سمجھیں۔
درحقیقت فیض سے مرادہے دل میں عشقِ حقیقی کی شمع روشن کر دینا، فیض سے مراد ہے اللہ سے ملا دینا، فیض سے مراد ہے نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کرنا، فیض سے مراد ہے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دینا، فیض سے مراد ہے راہِ حق کی منازل طے کروانا۔ اور یہ سب فیض اسمِ یاھوُ کے ذکر، اسمِ اللہ ذات کے تصور اور مرشد کامل اکمل کی نگاہ سے حاصل ہوتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سے قبل عوام الناس اسمِ اللہ ذات کے فیوض و برکات سے ناواقف تھے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ اپنی تصانیف میں اسمِ ھوُ کے ذکر، اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کے تصور اور ان کے فیوض و برکات کو کھول کر بیان فرمایا اور نہ صرف بیان فرمایا بلکہ گائوں گائوں شہر شہر چل پھر کر عوام الناس میں اسمِ اللہ ذات کا فیض عام فرمایا۔ تاہم اُس دور میں ذرائع ابلاغ تیز رفتار نہ تھے اس لیے عوام الناس سے ملاقات کر کے جس قدر فیض عام ہو سکتا تھا اس کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
دورِ حاضر میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس وہ ہستی ہیں جنہوں نے اسمِ اللہ ذات کا فیض دنیا بھر میں ہر کسی کے لیے عام فرما دیا۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے حقیقی و روحانی وارث ہونے کے ناتے آپ مدظلہ الاقدس نے اس مقصد کے لیے نہ صرف ملک گیر تبلیغی دورہ جات فرمائے بلکہ دنیا بھر میں تعلیماتِ فقر اور فیضِ اسمِ اللہ ذات کو عام فرمانے کے لیے تحریک دعوتِ فقر کی بنیاد رکھی جس کے تحت مختلف شعبہ جات کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے سلطان الفقر پبلیکیشنز اورماہنامہ سلطان الفقر لاہور کے تحت شائع ہونے والی منفرد کتب و رسائل، سوشل میڈیا، ویب سائٹ ڈویلپمنٹ، اطلاعات و نشریات، ڈیجیٹل پروڈکشن اور دیگر شعبہ جات کے ذریعے دنیا بھر میں اسمِ اللہ ذات کا فیض عام کر دیا ہے۔ مختلف ممالک سے آن لائن بیعت ہونے والے مرد و خواتین اس بات کامنہ بولتاثبوت ہیں کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا فیض زمان و مکان کی حدود سے بالاتر ہے اور دنیا کے کونے کونے سے طالبانِ مولیٰ اس فیض سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ یہ فیض مذہب و فرقہ سے بالاتر ہر خاص و عام کے لیے کھول دیا گیا ہے یعنی کسی بھی مذہب، قوم اور فرقہ سے تعلق رکھنے والا ریاضت و مجاہدہ کے بغیر بیعت کے پہلے ہی دن اسمِ اللہ ذات حاصل کر سکتا ہے اور نہ صرف اسمِ اللہ ذات حاصل کر سکتا ہے بلکہ خلوص اور محبت سے ذکر و تصور کی مشق کرنے پر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نگاہ و توجہ کی تاثیر سے وہ تمام فیوض و برکات بھی حاصل کر سکتا ہے جن کا حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں تذکرہ فرمایا ہے اور ان میں سب سے بڑا فیض لقائے الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہے۔ نہ صرف اسمِ اللہ ذات بلکہ اسمِ محمدؐ کا فیض بھی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے ہی پہلی مرتبہ عام فرمایا ہے، وگرنہ اس سے قبل مشائخ سروری قادری نے محض خاص الخاص طالبانِ مولیٰ کو ہی اسمِ محمدؐ عطا فرمایا وہ بھی کڑی ریاضت و مجاہدہ کے بعد۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے تو اپنی کتب میں اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کے فیوض و برکات کا تذکرہ کھول کر بیان کیا ہے لیکن دورِ حاضر میں صحیح معنوں میں اس کا فیض اگر کسی نے عام کیا ہے تو وہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں۔بلاشبہ!
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے فیض کی ایک کڑی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب ہیں۔ آپؒ نے طالبانِ مولیٰ کی راہِ حق پر رہنمائی کے لیے 140 کتب تصنیف فرمائیں جن میں صرف ایک پنجابی زبان میں ہے جبکہ باقی تمام کتب فارسی زبان میں ہیں۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں چونکہ پرنٹنگ کا جدید انتظام موجود نہیں تھا اس لیے نسخہ جات قلم سے تحریر کیے جاتے تھے اور انہی نسخوں سے مزید نسخہ جات نقل کر لیے جاتے۔اس لیے اُس دور میں لوگوں کی کثیر تعداد تعلیماتِ فقر سے مستفید نہ ہو سکی۔ درحقیقت دورِ حاضر میں حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب سے استفادہ کا اگر کوئی ذریعہ بناہے تو وہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں۔ اس کی زندہ مثال ابیاتِ باھوُ کامل ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے یہ پنجابی ابیات قرآن و حدیث کی خوبصورت ترجمانی کرتے ہیں لیکن چونکہ یہ پنجابی زبان میں ہیں اور اس میں نہایت ہی مشکل الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں اس لیے اس عارفانہ کلام کو سمجھنا ہر کسی کے لیے آسان نہ تھا۔ دوسری طرف فقر و تصوف سے ناواقف بہت سے لوگوں نے ابیات میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں بھی کر دی تھیں، کچھ لوگوں نے توحد کر دی تھی کہ بہت سے ایسے ابیات بھی خود سے گھڑ لیے جو شریعت اور قرآن و حدیث کے منافی تھے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے مکمل تحقیق اور عرق ریزی سے ابیات کے متن کو درست کیا، مشکل الفاظ کو سمجھنے کے لیے لغت درج کی اور جامع شرح بھی بیان کی، اس کے ساتھ ساتھ حضرت سلطان باھوؒ کے ابیات پر تحقیق اور تعلیمات کا جائزہ بھی تحریر کیا تاکہ لوگ حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات سے مستفید ہو سکیں اور خود جان سکیں کہ یہ ابیات قرآن و حدیث کے عین مطابق ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنی اس تحقیق کو نہ صرف کتابی صورت میں شائع کیا بلکہ خود ان ابیات کی مفصل اور جامع شرح بھی فرمائی جسے یوٹیوب پر سنا جا سکتا ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ جو لوگ اُردو بھی نہیں سمجھ سکتے وہ اس خوبصورت عارفانہ کلام سے کس طرح مستفید ہوتے؟ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے انہیں بھی فراموش نہیں کیابلکہ اپنی نگرانی و رہنمائی میں اس خوبصورت کلام کا انگلش ترجمہ کرایا اور پانچ سال کی انتھک محنت کے بعد یہ کتاب Sultan Bahoo Punjabi Poetry کے نام سے شائع کی گئی جس کا ترجمہ کرنے کی سعادت صاحبزادی منیزہ نجیب صاحبہ نے حاصل کی۔
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلے شاہ مکھی میں ابیات لکھے گئے ہیں جو کہ پاکستان میں پڑھا جانے والا رسم الخط ہے اور حضرت سلطان باھوؒ نے بھی اسی رسم الخط میں ابیات تحریر فرمائے ہیں، شاہ مکھی کے بعد گرمکھی میں ابیات لکھے گئے ہیں جو کہ دنیا بھر کے سکھوں کا پنجابی و مذہبی رسم الخط ہے، اس کے نیچے رومن میں اور اس کے بعد فری انگلش ورس (Free English Verse) یعنی منظوم ترجمہ۔ اس کے بعد اس کی شرح اور آخر میں گلوسری یعنی لغت۔ اس میں بھی تینوں رسم الخط میں الفاظ لکھے گئے ہیں یعنی شاہ مکھی، گرمکھی اور رومن۔ اس کتاب کی تیاری کے لیے صاحبزادی منیزہ نجیب صاحبہ نے خصوصی طور پر گرمکھی سیکھی اور یوں یہ شاہکار کتاب سلطان الفقر پبلیکیشنز کے تحت شائع کی گئی۔ اس طرح سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بدولت حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی پنجابی شاعری کو سمجھنا ہر کسی کے لیے آسان ہو گیا ہے۔
چونکہ حضرت سلطان باھوؒ کی دیگر کتب فارسی زبان میں ہیں اور لوگوں کی کثیر تعداد فارسی زبان سے ناواقف ہے اسی بنا پرسلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنی نگرانی میں فارسی کتب کا بامحاورہ اُردو ترجمہ کروایا اور نہ صرف اُردو میں بلکہ دنیا بھر میں ان تعلیمات کو عام فرمانے کے لیے انگلش میں بھی تراجم کروائے۔
اب تک حضرت سلطان باھوؒ کی بیس فارسی کتب کے انگلش اور اردو تراجم سلطان الفقر پبلیکیشنز کے تحت شائع کیے جا چکے ہیں اور بہت سے تراجم تیاری کے مراحل میں ہیں۔ شائع شدہ کتب میں رسالہ روحی شریف، نور الہدیٰ کلاں، نور الہدیٰ خورد، کلید التوحید کلاں، کلید التوحید خورد، عین الفقر، امیر الکونین، تلمیذ الرحمن، عین العارفین، سلطان الوھم، شمس العارفین، گنج الاسرار، کشف الاسرار، قربِ دیدار، اسرارِ قادری، محکم الفقرا، تیغِ برہنہ، عقلِ بیدار، محبت الاسرار، گنجِ دین شامل ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی تصنیف مبارکہ مرآۃ العارفین کا ترجمہ و شرح، سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی تصنیف مبارکہ سرّالاسرار کا ترجمہ اور الرسالۃ الغوثیہ کا ترجمہ و شرح بھی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نگرانی میں شائع ہو چکے ہیں۔
دورِ حاضر میں اگر حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کا فیض جاری ہے تو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بدولت۔ آپ نے اپنی نگرانی میں کتب شائع توکروائی ہی ہیں لیکن دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے آپ کی نگرانی میں ویب سائٹس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ اِن ویب سائٹس پر فی سبیل للہ یہ تمام تر کتب آن لائن مطالعہ اور ڈاؤن لوڈ کے لیے دستیاب ہیں۔اس کے علاوہ ’’سلطان العاشقین‘‘ اور ’’سلطان العاشقین بکس‘‘ کے نام سے موبائل اپلیکیشنز بھی تیار کی گئی ہیں جو کہ گوگل پلے سٹور پر فری ڈاؤنلوڈ کے لیے دستیاب ہیں۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مختلف کتب میں مختلف موضوعات پر تعلیمات بیان کی ہیں، مثال کے طور پر مراقبہ کے متعلق، علمِ دعوت کے متعلق، فقر کے متعلق، طالبانِ مولیٰ کی صفات و خصوصیات کے متعلق، دیدارِ الٰہی کے متعلق، فقیرِکامل کے متعلق، اسمِ اللہ ذات کے متعلق، مرشد کامل کے تصرفات کے متعلق، توحید کے متعلق، فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے مراتب کے متعلق، راہِ سلوک کے مختلف مقامات و احوال کے متعلق اور دیگر بے شمار موضوعات پر حضرت سخی سلطان باھوؒ نے ہر کتاب میں کچھ نہ کچھ بیان فرمایا ہے۔ اگر دیدارِ الٰہی کے متعلق جاننا چاہتے ہیں یا طالبِ ِمولیٰ کی صفات و خصوصیات معلوم کرنا چاہتے ہیں تو حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی تمام کتب کا مطالعہ کرنا ہوگا جس کے لیے طویل وقت درکار ہے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے طالبانِ مولیٰ پر احسانِ عظیم کیا کہ ان کی کامل رہنمائی کے لیے’’ شمس الفقرا‘‘ تصنیف فرمائی جو کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کا انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں مکمل تحقیق سے نہ صرف حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی مکمل سوانح حیات تحریر کی گئی ہے بلکہ راہِ فقر کی مختلف منازل کے اعتبار سے مختلف ابواب کی صورت میں حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کی خوبصورت انداز میں وضاحت کی گئی ہے اس کے علاوہ دیگر اولیا و فقرا، محدثین و فقہا اور شعرا کے فرامین و اقوال اور شاعری کو بھی درج کیا گیا ہے تاکہ طالبانِ مولیٰ کے لیے ان تعلیمات کو سمجھنا مزید آسان ہو جائے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے شمس الفقرا کے علاوہ دیگر بیشمار موضوعات پرکتب تصنیف فرمائی ہیں جیسا کہ حقیقتِ محمدیہ، خلفائے راشدین، فضائل اہلِ بیتؓ و صحابہ کرامؓ، حقیقتِ عید میلاد النبیؐ، نفس کے ناسور، سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ اور یزیدیت، مجتبیٰ آخرزمانی، فقرِاقبالؒ، کلام مشائخ سروری قادری، ابیاتِ باھوؒ کامل اور دیگر بہت سی کتب ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نگرانی میں ہی ان کتب کے انگلش تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی یہ تمام تر کاوشیں فیضِ اسمِ اللہ ذات اور تعلیماتِ فقر کو عام کرنے کی کڑی ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے دیگر بیشمار ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی بدولت یہ فیض دنیا بھر میں عام ہو چکا ہے اور آ پ مدظلہ الاقدس کی یہ تمام کاوشیں ثابت کرتی ہیں کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے حقیقی و روحانی وارث، مجددِ دین، سلسلہ کے امام اور فقر کے عظیم سلطان ہیں۔
تمام قارئین سے درخواست ہے کہ فیضِ فقر و اسمِ اللہ ذات حاصل کرنے کے لیے، راہِ فقر پر آگے بڑھنے کے لیے، تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت میں حاضر ہوں اور سلطان الفقر پبلیکیشنز کے تحت شائع ہونے والی کتب و رسائل کا باقاعدگی سے مطالعہ کریں۔