Hazoor

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے خزانوں کے قاسم | Hazoor s.a.w.w Allah Ke Khazano Ke Qasim


Rate this post

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے خزانوں کے قاسم

تحریر:فائزہ سعید سروری قادری۔ سوئٹزر لینڈ

قاسم کے لغوی معنی بانٹنے والا ہیں۔ قاسم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوصافِ حمیدہ میں سے ایک وصف ہے جس کا مطلب ہے اللہ کے پیدا کردہ خزانوں کو مخلوقِ خدا میں تقسیم کرنے والا۔
بخاری شریف میں حدیثِ پاک ہے:
وَ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَ
اللّٰہُ یُعْطِیْ

ترجمہ: اور میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ عطا کرنے والا ہے۔
کائنات میں موجود ہر شے کو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہی تخلیق کیا ہے اور اللہ ہی زمین و آسمان کے خزانوں کا پیدا کرنے والا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تمام خزانوں پر اختیار دے دیا کہ جسے چاہیں اور جس قدر چاہیں تقسیم کریں۔

بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کیوں اللہ کے خزانوں کے قاسم ہیں باقی انبیا بھی تو ہیں کیا تمام انبیا اپنی اپنی اُمتوں کو خود عطا نہیں کر سکتے۔ اسکا جواب درج ذیل حدیث ِ قدسی سے مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے محبوب اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان (کائنات) کو پیدا ہی نہ فرماتا‘‘۔
یعنی یہ کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے بنائی گئی ہے اور جو چیز جس کے لیے بنائی جاتی ہے وہی اس کا مالک و مختار ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنی ملکیت میں سے جسے جو چاہے عطا کرے اسکے اختیار میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اگر خود کو ربّ اللعالمین کہا ہے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رحمت اللعالمین کہا ہے یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت، چاہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش سے پہلے کا زمانہ تھا یا پیدائش سے بعد کا یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد کا زمانہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمتیں روزِ ازل سے (جب سے کائنات تخلیق ہوئی) جاری وساری ہیں اور ہمیشہ جاری رہیں گی۔
قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَغْنٰھُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ (سورۃ التوبہ آیت 74 )
ترجمہ: اللہ اور اس کے ’’رسول‘‘ نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا۔
اس آیت ِ مبارکہ میں اللہ پاک یہ بھی فرما سکتا تھا کہ اللہ نے اپنے فضل سے غنی کردیا لیکن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تذکرہ کر کے اللہ پاک نے خود یہ بات واضح کر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فضل بھی اللہ کے فضل کے ساتھ شامل ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ (سورۃ التوبہ آیت 59 )
ترجمہ: اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ ا س پر راضی ہوتے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ان کو عطا کیا۔
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِ (سورۃ الاحزاب۔ آیت 37 )
ترجمہ: اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!) یاد کریں جب آپ نے اس شخص سے فرمایا جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) انعام فرمایا۔
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ(سورۃ الحشر آیت 7)
ترجمہ: اور جو کچھ تمہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) عطا فرمائیں وہ لے لو۔

مندرجہ بالا آیاتِ قرآن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اللہ کے پیدا کردہ خزانوں کے مالک و مختار ہیں اور وہی اللہ کی مخلوق میں اللہ کے خزانے تقسیم کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیثیت صر ف پیغام رساں کی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اگر مختارِ کائنات کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاــ ’’اللہ نے مجھے دو جہان کا جاننے والا بنا کر بھیجا ہے اور ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ مجھے دنیا کے تمام خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں ۔‘‘
تو ثابت ہوا کہ زمین و آسمان میں موجود تمام خزانوں کے مختارِ کُل نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور انہیں اختیار حاصل ہے کہ جسے جو چاہیں عطا کر دیں، چاہے وہ خزانہ ظاہری ہو یا باطنی، جس کو جو بھی ملتا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلے سے ہی ملتا ہے۔ ظاہری خزانوں سے مراد دنیاوی مال و زر، رزق، اولاد، علم اور اللہ کی تخلیق کردہ تمام نعمتیں ہیں۔ بے شک تمام نعمتوں کو تخلیق کرنے والا خود ربّ تعالیٰ ہے لیکن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جسے جو عطا کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ 

حضرت سخی سلطان باھُوؒ کا فرمانِ عالی شان ہے:
جو شخص اخلاص اور یقین کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں فریاد کرے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مع لشکر ِ صحابہؓ، امام حسنؓ و امام حسینؓ تشریف لا کر ظاہری آنکھوں سے زیارت کراتے اور مدد فرماتے ہیں۔(عقل ِ بیدار)
یہی وجہ ہے کہ تمام مومنین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلے سے مانگنا پسند کرتے ہیں ۔
باطنی خزانوں سے مراد فقر ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کَنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی 
ترجمہ: فقر اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَ الْفَقْرُ مِنِّیْ 
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
حضرت سخی سلطان باھُوؒ فقر کے متعلق فرماتے ہیں:
جان لے کہ تمام پیغمبروں نے مرتبہ فقر کی التجا کی لیکن نہ پا سکے۔ وہ فقر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اسے امت کے سپرد کیا۔ (امیر الکونین)
حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:

نظر ِ فقرش گنج قدمش گنج بر

ترجمہ: فقر کی نظر بھی خزانہ ہوتی ہے اور اسکے قدموں میں بھی خزانہ ہوتا ہے۔ پھر وہ نظر جس پر بھی پڑ جائے مالا مال ہو جاتا ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
فقر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی وراثت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حقیقت میں وہی حقیقی وارث ہے جو اس وراثت کا وارث ہے۔
 آپؒ مزید فرماتے ہیں:
فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے سب سے اعلیٰ خزانہ ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تقسیم فرماتے ہیں۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)
علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں۔ 

فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم ایں متاعِ مصطفیؐ است

ترجمہ: فقر ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کی کیفیت کا نام ہے یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی میراث ہے اور ہم اس کے امانت دار ہیں۔
یعنی فقر کے حقیقی وارث حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور وہ اس ورثہ میں سے جسے چاہیں جتنا عطا فرما دیں۔
ہمارے کثیر نام نہاد علمائے دین جو کہ امت ِ محمدی کو اصل دین ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دور کرنے کا باعث بن رہے ہیں انہیں اس بات سے اختلاف ہے کہ محمد مصطفیؐ تمام عالموں میں بسنے والی مخلوقات کو اللہ کی نعمتیں بانٹ رہے ہیں۔اس معاملے میں کچھ لوگ اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔

1 ۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ تمام خزانے اللہ نے پیدا کئے ہیں اور ہر نبی یا رسول کو اللہ نے بھیجا ہے تو تمام انبیا اپنی اپنی امت کو خود ہی عطا کرتے ہوں گے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کو کیسے عطا کر سکتے ہیں!

2 ۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو عطا کرتے ہیں وہ خزانہ یا نعمت ایمان و علم ہے۔ باقی ہر نعمت اللہ کی مرضی سے ا للہ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔

3 ۔ کچھ نافہم اور نہایت کم عقل لوگوں کا کہنا ہے کہ تمام فیض جو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے ملا وہ صرف اورصرف آپ ؐ کی حیاتِ مبارکہ تک محدود ہے ۔ نعوذ باللہ ظاہری وصالِ محمدیؐ کے بعد فیض ملنا بند ہوگیا ہے۔

4 ۔ بہت سے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عام انسانوں کی طرح انسان تھے اور نعمتیں یا خزانے اللہ کی ملکیت ہیں کسی انسان کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ دوسرے انسان کو نوازے۔ یہ کم عقل اسکو شرک کے مترادف سمجھتے ہیں۔ (نعوذباللہ) ان اعتراضات کا جواب قرآن و حدیث اور کامل اولیا اللہ کی کتب میں موجود ہے۔

پہلے اعتراض کا جواب:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنِّیْ
ترجمہ: میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مومنین مجھ سے ہیں۔
 سب سے پہلے اللہ نے حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کو تخلیق کیا اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔
امام قسطلانی ؒ نے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی کو حکم دیا کہ انوارِ انبیا پر توجہ کریں پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نورِ مبارک نے دیگر انبیا کرا م کی ارواح اورانوار پر توجہ فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور نے ان سب کے انوار کو ڈھانپ لیا۔ انہوں نے عرض کی باری تعالیٰ! ہمیں کس نے ڈھانپ لیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’یہ محمدؐ کا نور ہے اگر تم ان پر ایمان لاؤ گے تو تمہیں شرفِ نبوت سے بہرہ ور کیا جائے گا۔‘‘ اس پر سب ارواحِ انبیا نے عرض کیا ’’باری تعالیٰ ہم ان پر ایمان لائے۔‘‘ یعنی تمام انبیا کرام کو نبوت ہی اس شرط پر عطا ہوئی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ’ایمان‘ لائیں اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے نوری وجود کے ساتھ ہر نبی کے دور میں موجود تھے اور ہر اُمت کو ان کا نوری وجود ہی نوازتا تھا یعنی جس کو جو ملا نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلے سے ہی ملا۔

دوسرے اعتراض کا جواب:

یہ بات قطعی ناقابل ِ قبول ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام صرف اور صرف پیغمبر تھے اور لوگوں کو اللہ کا پیغام دینے آئے تھے۔ مضمون کے آغاز میں آیت اور حدیث بیان کی گئی ہے جس کو اس اعتراض کے جواب کے لیے دوبارہ تحریر کیا جا رہا ہے۔
آیت مبارکہ: ’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ ا س پر راضی ہوتے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ان کو عطا کیا۔‘‘ (التوبہ۔59 )
حدیث مبارکہ: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا میں بانٹنے والا خزانچی ہوں اور اللہ تعالیٰ عطافرمانے والا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)

مندرجہ بالا آیت مبارکہ اور حدیث ِ پاک میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ یا نبی پاک نے کسی خاص خزانے یا نعمت کا ذکر نہیں کیا۔نہ علم نہ تعلیم اورنہ ہی ایمان کا بلکہ خزانے اور نعمت عطا کرنے کا ذکر ہے اگر ہم اس کو علم یا ایمان سے مخصوص کر دیتے ہیں تو اسکا مطلب ہو ا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے خزانے ایمان اور علم تک محدود ہیں، باقی کائنات اور اس کی نعمتیں اللہ کے خزانوں میں شامل نہیں (نعوذ باللہ) ۔ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے فرما دیا ’’مجھے تمام خزانوں کی کنجیاں دے دی گئیں ‘‘ تو ا س سے مراد اللہ کی کائنات میں موجود ہر شے ہے۔

تیسرے اعتراض کا جواب:

کم عقل کہتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد فیض ملنا بھی بند ہو گیا۔ ایسے ہی کم فہم مفکرین کے لیے حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
بس جو شخص حیات النبیؐ کا منکر ہے وہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی ہو سکتا ہے! وہ جو بھی ہے جھوٹا ہے وہ بے دین و منافق ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’ جھوٹا آدمی میرا امتی نہیں۔‘‘ (کلید توحید کلاں)
جسے حیاتِ النبی کا اعتبار نہیں وہ ہر دو جہاں میں ذلیل و خوار ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہر وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو اور اس کا سرمایہ ٔایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ (کلید التوحید کلاں)
 اور اللہ پاک نے خود بھی فرمایا ہے:
لَوْلَاکَ لَمَا اَظْھَرْتُ الرَّبُوْبِیَّۃَ
ترجمہ: اے محبوبؐ! اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں اپنا ربّ ہونا ظاہر نہ کرتا۔
مزید فرمایا:
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ
ترجمہ: اے محبوبؐ اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں کائنات کو پیدا نہ کرتا۔
سیّدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں مرادِ ’حقیقت ِ محمدیہ‘ یہ ہے کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ (سرّالاسرار)
کائنات بھی قائم ہے اور نظامِ کائنات بھی چل رہا ہے جس کے ذریعے اللہ ہم سب کو اپنے ہونے کا احساس بھی دلا رہا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس کے لیے یہ سب کچھ ظہور پذیر ہوا وہی موجود نہیں۔ نعوذباللہ، ایسا سوچنا بھی کفر ہے اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم موجود ہیں تو پھر وہ دنیا میں حکم ِالٰہی کے تحت خزانے بھی بانٹ رہے ہیں۔ 

علامہ ابن ِعربی ؒ فرماتے ہیں:
چونکہ حق تعالیٰ انسانِ کامل (محمدؐ) کی صورت پر جلوہ نما ہے لہٰذا ہر شے اس کی تابع ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ (سورۃ الجاثیہ۔13) ترجمہ: اے حبیب! اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے‘ سارے کا سارا آپؐ کے لیے مسخرکر دیا ہے۔‘‘ پس جو کچھ عالم میں ہے وہ سب انسانِ کامل (محمدؐ) کی تسخیر کے تحت ہے ۔ (فصوص الحکم)

تمام علمائے دین معرفت ِ الٰہی کے قائل ہیں چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ اللہ نے انسان کو اپنی معرفت کے لیے ہی پیدا فرمایا ہے تو کیا اس سے بڑھ کر مومنین کے لیے اور کوئی خزانہ ہوگا۔
حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں ’’معرفت خدائی بھیدوں میں سے ایک بھید ہے جو عارفوں کو محمد مصطفیؐ کی بارگاہ سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘ اب اگر کوئی یہ کہے کہ نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حیات نہیں اور خزانے نہیں بانٹ رہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے وصال کے بعد کوئی بھی انسان معرفت جیسا خزانہ حاصل نہیں کر سکا پھر تو تخلیق ِانسان کا مقصد ہی فوت ہوگیا اور اگر انسان موجود ہے اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق معرفت الٰہی بھی حاصل کر رہا ہے تو مان لیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی حیات ہیں اور خزانے تقسیم کر رہے ہیں۔

چوتھے اعتراض کا جواب:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عام انسان کہنے والے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بابرکت ذات وہ ہستی ہے جس کے عشق میں مبتلا ہو کر ربّ تعالیٰ نے دوعالم بنائے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں پر نثار کر دیے۔ قرآن سراسر اللہ کا کلام ہے جو کہ اس نے اپنے محبوب سے کیا اورپھر خود ہی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقام و مرتبے سے آگاہ بھی کردیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
  ( اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے۔( سورۃ الفتح۔ 10)
(اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!) یہ کنکریاں آپ نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہیں۔ (الانفال۔17 )
حدیث ِ مبارکہ ہے ’’ جس نے مجھے دیکھا اس نے حقیقت میں حق تعالیٰ کو دیکھا ۔‘‘
حدیث ِ قدسی ہے’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ یَا مُحَمَّد  اَنْتَ اَنَاوَاَنَا اَنتَ (اے محمد تو میں ہے اور میں تو ہے)‘‘۔

 حضرت عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ فرماتے ہیں:
اللہ اپنے محبوب انسانِ کامل سے فرماتا ہے ’’میرے حبیب تیری انیت میری ہویت ہے یعنی وہ میں ہی ہوں۔ انت ھو کا عین ہے اور ’’ھو‘‘ ہی انت ہے۔ میرے دوست تیری بساطت میری ترکیب ہے اور تیری کثرت میری واحدیت بلکہ تیری ترکیب میری بساطت ہے تجھ سے میں ہی مراد ہوں۔ میں تیرے لیے ہوں نہ کہ اپنے لیے۔ مجھ سے تو ہی مراد ہے۔ تو میرے لیے ہے نہ کہ اپنے لیے۔ میرے حبیبؐ تو ایک نقطہ ہے جس پر وجود کا دائرہ ہے پھر اس دائرے میں تو ہی عابد ہے تو ہی معبود۔ (انسانِ کامل)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
وہ وجود (نبیؐ)جو ہر شے کی تخلیق کا باعث ہے وہ ایک جہت سے خود ذاتِ حق تعالیٰ ہے اور ایک جہت سے ذاتِ محمدؐ ہے اگر حقیقتاً جھانکا جائے تو یہ وجود دو نہیں ایک ہے لیکن اگر ظاہر اً دیکھا جائے تو وجود دو ہو کر بھی ایک دوسرے کے عین اور مشابہ ہیں۔

فصوص الحکم میں علامہ ابن ِ عربی ؒ فرماتے ہیں:
پس ازل سے ابد تک انسانِ کامل ایک ہی ہے اور وہ ذات صاحب ِلولاک سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے جوآدمؑ سے لے کر عیسیٰؑ تک کے تمام رسولوں ، نبیوں، خلیفوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور ختم ِ نبوت کے بعد غوث ، قطب، ابدال، اولیا اللہ کی صور ت میں اعلیٰ قدر مراتب ظاہر ہوتی رہے گی۔
ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔ (فصوص الحکم)

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں گمراہ کن سوچوں اور نظریات کی پیروی سے محفوظ رکھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بلند اور عظیم شان اور آپ کی حقیقت کی معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 استفادہ کتب:
امیر الکونین تصنیف حضرت سخی سلطان باھُوؒ
عقل ِ بیدار   ایضاً
مجتبیٰ آخر زمانی تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
انسانِ کامل تصنیف سیّد عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ
فصوص الحکم تصنیف محی الدین ابن عربیؒ

 
 

48 تبصرے “حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے خزانوں کے قاسم | Hazoor s.a.w.w Allah Ke Khazano Ke Qasim

    1. بے شک خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی’ اللہ کے خزانوں کو تقسیم کرنے والے ہیں

      1. Bilashuba Hazoor alihi salatu wasalam mukhtar e kainat aur Allah paak k tmara paida krda khazo k bantnay walay hain

        1. اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں گمراہ کن سوچوں اور نظریات کی پیروی سے محفوظ رکھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بلند اور عظیم شان اور آپ کی حقیقت کی معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

      2. بے شک خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اللہ پاک کے تمام خزانوں کے قاسم ہیں۔ مضمون بہت اچھا ہے۔ ماشاءاللہ

      1. بہت خوب… بےشک آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم مختار کل ہیں

  1. بے شک حضور سرورِ کائنات ہی تمام نعمتوں کے بانٹنے والے ہیں۔

  2. بے شک خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی’ اللہ کے خزانوں کو تقسیم کرنے والے ہیں

  3. بیشک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کائنات کے مختار کل ہیں.

  4. ہست شان رحمت گیتی نواز
    آرزو دارم کہ میرم در حجاز

  5. مرحبا مرحبا۔رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)
    خاتم الانبیا۔رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)

  6. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #faqr #prophetmohammadpbuh

  7. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #faqr #prophetmohammadpbuh

  8. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #faqr #prophetmohammadpbuh

    1. سبحان اللہ
      #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #islam #faqr #prophetmohammadpbuh

    1. بیشک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کائنات کے مختار کل ہیں.

  9. بے شک آپ صل اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی خاتم النبیی٘ن اور قاسم ہیں۔

  10. بے شک حضور علیہ الصلوۃ السلام کی ذات مبارکہ ہر دور میں جلوہ گر رہی

اپنا تبصرہ بھیجیں