جشن عیدمیلاد النبی – Jashan e Eid Milad un Nabi

Spread the love

Rate this post

جشن عیدمیلاد النبیؐ

ڈاکٹر محمد حامد جمیل سروری قادری۔لاہور

محمد سیّدالکونین و ثقلین

والفریقینِ من عرب و من عجم

آپ ہیں حضرت محمدؐ سرورِ ہر دو سرا
آپؐ ہیں عرب و عجم، جن وبشر کے پیشوا

لاکھوں کروڑوں درودو سلام سرورِ کائنات آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جو وجۂ تخلیقِ کائنات ہیں۔ یہ صدقۂ رحمتہ اللعالمین ہی ہے کہ تمام جن و انس چرند پرند اور دیگر بے شمار مخلوقات سے دنیا کو رنگینیاں اور اس کائنات کو رونق بخشی گئی۔ یہ حسن و جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی صدقہ ہے جو ہم پر رحمتِ الٰہی کی بہاریں ہے۔ اگرچہ اس جہان کے سارے درختوں کو قلم اور سمندروں کو سیاہی بنا دیا جائے تب بھی یہ ممکن نہیں کہ حسن و جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک باب بھی مکمل ہو سکے۔ اس ناچیز نے آج اس موضوع پر قلم اٹھائی ہے جو عرصۂ دراز سے مسلمانوں میں زیرِ بحث ہے کہ عید میلاد النبیؐ منانا برحق اور موجبِ رضائے الٰہی ہے یا بدعت۔ یہ مختصر سا مضمون نذرانۂ عقیدت ہے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں بفیضانِ مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الااقدس، اور ساتھ ہی ایک پُر دلائل جواب بھی ہے ان لوگوں کے اعتراضات کا جو فخرِ موجودات رحمتِ دو جہان سیّدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یومِ ولادت کو خوشی یا عید منانے کا سبب نہیں سمجھتے ۔
جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمسنتِ الٰہی ہے اور اسی سنت کو عاشقانِ الٰہی خوب جوش و خروش سے مناتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ ازل سے ابد تک اسی جوش و جذبے سے جاری رہے گا۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
لَآ اَقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ۔ وَاَنْتَ حِلٌّم بِھٰذَا الْبَلَدِ۔ وَوَالِدٍ وَمَاوَلَدَ۔ (سورۃ البلد1-3)
ترجمہ: میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں (اے حبیب مکرمؐ)اسلئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیب مکرمؐ آپکے) والد (آدم ؑ یا ابراہیم ؑ ) کی قسم اور (ان کی) قسم جن کی ولادت ہوئی۔
تحریر بالا قرآنِ کریم کی مکی سورۃ البلد کی پہلی تین آیات ہیں جن میں اللہ پاک شہر مکہ کی قسم کھا رہا ہے اور غور طلب بات یہ ہے کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس شہر معظم میں تشریف فرما ہیں۔ نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس شہر کو یہ مقام اور عزت بخشی کہ ربِّ دو جہان اپنے محبوب کی نسبت کی وجہ سے اس شہر کی قسم اٹھا رہا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ جو چیز رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منسلک ہے خواہ وہ ایک شہرہی کیوں نہ ہو‘ بارگاہِ خداوندی میں بزرگ و برتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب کی شان اور محبوبیت اس قدر عزیز ہے کہ وہ محض نسبتِ احمد مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بدولت اس شہر کو بھی وہ عزت بخش رہا ہے کہ اپنے کلام میں اسکی قسم اٹھا رہا ہے۔ اگر ایک شہر کو نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بدولت عزت و عظمت بخشی گئی تو محبوبِ ربّ جن کی وجہ سے تمام عالم کو رونق بخشی گئی ان کا یومِ ولادت ایک عام دن تو نہ ہوگا بلکہ وہ دن، تاریخ اور اس نسبت سے منسلک ہر چیز معززو مکرم ہے۔ لہٰذا اُمت کا بھی اس چیز کو عزت دینا اور یومِ ولادت کی خوشی منانا اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے۔
لفظ میلاد’’ولادت‘‘ سے ہے اور عید سے مراد خوشی ہے چنانچہ جشن عید میلاد النبیؐ سے مراد ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشی منانا ہے۔ لیکن آج کے دور میں کچھ مفلوج ذہنوں کو یہ مغالطہ ہے کہ اسلام میں کسی چیز کی خوشی منانا بدعتِ زمانہ ہے۔ اگر علمی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو منانے سے مراد یاد تازہ کرنا ہے اور کسی خوشی کی یاد تازہ کرنا بھی عین اسلام ہے جیسا کہ نماز پنجگانہ کے اوقات بھی کسی نہ کسی پیغمبر کی یاد کے طور پر طے کئے گئے جس کا ذکر کئی کتب احادیث میں آتاہے۔ امام جلال الدین سیوطی ؒ نے الخصائص الکبریٰ میں روایت کی ہے کہ نمازِ فجر کا وقت حضرت آدم ؑ کی توبہ کی یاد میں مقرر کیا گیا کہ جب حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی تو فجر کا وقت تھا۔ اسی طرح دیگر نمازوں کا وقت بھی کسی نہ کسی نبی یا رسول کے اللہ سے کسی خاص معاملے کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح حج جو ارکانِ اسلام میں ایک اہم رُکن ہے اسکے تمام مناسک انبیا علیہم السلام کی کسی نہ کسی ادا کی یادگار ہیں اور اس یاد کو تازہ رکھنے کیلئے وہ مناسک ادا کر کے انہیں منایا جاتاہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام کی محبوب اداؤں کی یاد کو منانا باعثِ ثواب اور فرض قرار دیا۔ اسی طرح آقائے دوجہانصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی پیغمبروں کی یاد میں دن منائے جیسا کہ صحیح مسلم کی کتاب الصیام میں حدیث موجود ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ یومِ عاشورہ یہود حضرت موسیٰ ؑ کی یاد میں عید مناتے تھے جب انہیں فرعون سے نجات ملی۔ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی روزہ رکھ کر اس دن کو منایا۔ اسی طرح جب پیغمبروں کی ولادت ہوئی تو اللہ پاک نے خود ان کے یومِ ولادت پر سلام بھیج کر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ترغیب دی۔
حضرت یحیےٰ علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے سورۃ المریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَسَلَامٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وَلِدَ  (المریم ۔15 )
ترجمہ: (اللہ کی طرف سے) ان (حضرت یحیےٰ ؑ ) پر سلام ہو ان کے میلاد کے دن۔
حضرت عیسی ؑ کے بارے میں ایسے ہی الفاظ بیان فرمائے:
*وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ۔ (المریم۔33 )
ترجمہ: مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن۔
جب اللہ اپنے انبیا علیہم السلام کے یومِ ولادت پرا ن پر سلام بھیج رہا ہے اور اس دن کی اہمیت کو باقی دن سے منفرد کر دیا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ ولادت کی خوشی منانا بھی عین اسلام ہے اور تو کیا وہ شخصیت جو محبوبِ ربّ اللعالمین ہے ان کی ولادت کی خوشی منانا سب سے بڑھ کر نہ ہو گا؟ وہ محبوب جن کے متعلق فرمایا گیا:
لولاک لما اظھرت الربوبیۃ
ترجمہ: اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ ہوتے تو میں اپنا ربّ ہوناظاہر نہ کرتا ۔
*لولاک لما خلقت الافلاک
ترجمہ: اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ ہوتے تو میں کائنات کو پید ا نہ کرتا ۔
جس محبوب کی خاطر اللہ نے کائنات تخلیق کی ان کی ولادت کی خوشی بھی اللہ نے سب سے بڑھ کر منائی۔ ولادتِ مصطفی ؐ کے موقع پر خود اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات میں جشن کا سماں پیدا فرما دیا تاکہ میلادِ مصطفیؐ کی خوشی اور جشن منانا سنتِ الٰہیہ قرار پا جائے۔ مصدقہ و متفقہ احادیث کے مطابق ولادتِ مصطفی ؐ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو معطر و منور کر دیا۔ ستاروں کو دنیا کے قریب کر دیا اور پوری دنیا میں چراغاں کر دیا، آسمان اور جنت کے سب دروازے کھول کر عالمِ بالا کو خوشبوؤں سے مہکا دیا گیا، مشرق و مغرب کو نور سے منور کر دیا گیا، حورانِ بہشت کو سردارِ دو جہان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے استقبال کیلئے فضا میں نیچے اتار ا گیااور ان میں سے کئی کو حضرت آمنہؓ کے گھر پر مامور کر دیا گیا نیز پوری کائنات میں جشنِ ولادت کا چرچا کیا گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کی خوشی میں اس سا ل عرب کی تمام عورتوں کو بیٹوں سے نوازا گیا تاکہ اس سال عرب کے ظالمانہ دستور کے مطابق کوئی بیٹی ناحق قتل نہ ہو ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے جشنِ ولادت کو منانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔

جب کہ سرکارؐ تشریف لانے لگے
حور و غلماں بھی خوشیاں منانے لگے
ہر طرف نور کی روشنی چھا گئی
مصطفیؐ کیا ملے زندگی مل گئی
اے حلیمہؓ تیری گود میں آگئے
دونوں عالم کے رسولؐ اللہ ہی اللہ

سبحان اللہ! مہتابِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت اس کائنات کی سب سے بڑی خوشی اور نعمت ہے۔ اس خوشی کو خود اللہ تعالیٰ نے منایا اور اس خوشی کو منانے والوں کو نوازا بھی۔ ذیل میں کچھ احادیث کا ذکر ہے جن میں تذکرۂ میلاد ہے:
* صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کی خوشخبری ابولہب کو سنائی تو اس نے انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے لونڈی سے کہا ’’جاؤ آج سے تم آزاد ہو۔‘‘ پھر جب وہ حالتِ کفر میں مر گیا تو ایک مرتبہ حضرت عباسؓ کے خواب میں آیا اور کہنے لگا ’’تم سے جدا ہو کر میں سخت عذاب سے دوچار ہوں بس سوموار کے دن انگلی سے سیراب کیا جاتاہوں (جس کے اشارے سے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا)۔‘‘ اس سے یہ واضح ہوا کہ اگر ابو لہب حالتِ کفر میں حقیقتِ محمدیہ سے انجان ولادتِ مصطفیؐ کی خوشی میں اپنی غلام کو آزاد کر کے یومِ ولاد ت مناتا ہے او ر اس کے صدقے اس کے عذاب میں کمی آتی ہے تو کیا وہ اُمتی جو شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آگاہ بھی ہے اوراس کو مزید بلند کرنے کیلئے محافل کا انعقاد کرتا ہے اور اپنے نبی کی ولادت کی خوشی مناتا ہے، تو کیا اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کے اس اظہار پر اللہ اس سے راضی ہو کر اس کے گناہ معاف نہ کرتا ہو گا اور اس کے درجات نہ بڑھاتا ہوگا؟
* حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’بے شک میرے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ اپنے میلاد کا ذکر کر تے رہے۔‘‘ (مجمع الزوائد۔ طبرانی۔ کبیر)
اگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جشن منانا مناسب نہیں توآقائے دوجہان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود اپنے میلاد کا تذکرہ کیوں کرتے۔ یہ طریق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اپنایا اور اپنے ربّ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے یومِ ولادتِ مصطفی ؐ کی خوشی منائی۔ طبرانی ، کبیر اور مسند احمد میں حدیث موجود ہے کہ ایک دن صحابہ کرامؓ کا جمِ غفیر موجود تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے غلاموں کو اسطرح اکٹھا دیکھا تو فرمایا یہ جلسہ کس لیے ہے؟ صحابہ کرامؓ نے کہا’’ ہم اللہ تعالیٰ کے ذکر اور حمد کیلئے بیٹھے ہیں کیونکہ اس نے ہمیں اپنے دین کی ہدایت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تمہارے اس عمل پر ملائکہ میں خوشی کا اظہار فرما رہا ہے۔‘‘ (طبرانی ، مسند احمد)
کیا یہ حدیث میلادِ مصطفیؐ کی خوشی منانے کیلئے کافی نہیں کہ اس دن اللہ نے ہمیں اپنا محبوب عطا کیا۔
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ ایک بار امام ابن حجر عسقلانی سے پوچھا گیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا میلاد منانے کے متعلق آپ کا فتویٰ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا میلاد مناناحدیث سے ثابت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ پہنچ کر یومِ موسیٰ ؑ منارہے ہیں تو ہم یومِ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیوں نہ منائیں۔‘‘
ایک عمل جو سنتِ الٰہیہ، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، سنتِ صحابہ کرامؓ، سنتِ تابعین، سنت تبع تابعین سے ثابت ہے وہ بدعت کیسے ہوسکتا ہے! ایسا سوچنے والوں کی مفلوج ذہنیت یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو ہستی وجۂ اسبابِ کائنات ہے، جن کا ظہور ہی مقصدِ کائنات ہے اور جن کے ذریعے ہمیں یہ دینِ اسلام عطا ہوا اور جن کی بدولت ہم پر اتنی رحمتیں اور نعمتیں نازل کی گئیں ان مولائے کُل سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا میلاد منانا، ان کے ظہور کا جشن کرنا، ان کی یاد میں ذکرِ الٰہی اور محافلِ نعت سجانا کیونکر ٹھیک نہ ہوگا بلکہ یہ تو اللہ اورا سکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، درحقیقت یہی رضائے الٰہی ہے۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔(سورۃ یونس ۔58 )
ترجمہ: فرما دیجئے (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں۔ یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔
مطلب قرآنِ پاک میں اللہ پاک یہ حکم دے رہا ہے کہ جہاں پر اسکا فضل اور اسکی رحمت کا نزول ہو وہاں پر خوشیاں مناؤ اور دھوم دھام سے مناؤ اور اس خوشی پر صَرف ہونے والا مال جو رحمتِ الٰہی کی خوشی منانے کے باعث خرچ ہوا وہ مال تمہارے جمع کیے ہوئے مال سے کہیں بہتر ہے اور اس کائنات پر سب سے بڑی نعمت اور رحمتِ الٰہی ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ۔(آل عمران۔ 164)
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھیجا۔
یعنی خود اللہ پاک نے ہی قرآن میں اپنے احسانِ اعلیٰ کا ذکر کرتے ہوئے یہ اعلان فرما دیا کہ مسلمانوں پر اللہ کا سب سے بڑا فضل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دنیا میں بھیجنا ہے۔ بے شک بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ہم پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل ہے کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہی طفیل ہے کہ اہلِ عرب جہالت و ظلمت کے اندھیروں سے نکل کر پوری دنیا میں ایک کامیاب ریاست بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کا صدقہ ہے کہ ہمیں یہ دینِ اسلام ملا، قرآنِ مجید ملا، ایمان ملا، ہدایت ملی نیز ہمیں زندگی کا مقصد ملا جبکہ ہم بھٹکے ہوئے تھے۔ اگر پھر بھی کوئی یہ سمجھے کہ ولادتِ مصطفیؐ کی عید منانا بدعت ہے تو یہ اس کی عقل کی معذوری ہے۔
اور تم پر میرے آقاؐ کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
سلسلہ سروری قادری کے تمام مشائخ کا یہ فخر رہا ہے کہ انہوں نے جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہایت جوش و خروش سے منایا ہے اور یومِ ولادت کی خوشی میں محافل منعقد فرمائیں جن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان بیان کی جاتی۔ سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس بھی نہایت جو ش وخروش سے اس عید العظیم ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مناتے ہیں۔ ماہِ ربیع الاوّل کے آغاز پر ہی خانقاہ سروری قادری اور سلطان العاشقین ہاؤس کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور 12 ربیع الاوّل کے روز ایک عظیم الشان محفل کا انعقاد ہوتا ہے جس میں ملک بھر سے لوگ شرکت کرتے ہیں اور اس میں عظمت و شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تذکرہ ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں نعتوں اور منقبتوں کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس پُرمسرت موقع پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس پُرخلوص طالبانِ مولیٰ کو اسمِ محمد سے بھی نوازتے ہیں۔
اس مبارک موقع پر محفل کے اختتام پر اہلِ محفل اور علاقہ میں مٹھائی بھی بانٹی جاتی ہے کیونکہ یہی عید ہماری اصل عید ہے اور اسی عید کے طفیل ہی ہمیں عید الفطر اور عید الاضحٰی نصیب ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقت محمدیہ اور حقیقتِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سمجھ عطا فرمائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یومِ ولادت پر خوشیاں منانے اور حضور کی مدح سرائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ :
حقیقتِ عیدمیلاد النبیؐ۔ از سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
حقیقتِ محمدیہؐ۔ از سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں