اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سرمایہ ایمان-Ahle Bait ki Mohabbat sarmaya iman


2/5 - (1 vote)

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سرمایہ ایمان

محترمہ فائزہ سعید سروری قادری (زیورچ سوئٹزرلینڈ)

اہلِ بیت کے لفظی معنی ہیں گھر کے لوگ۔ اسلامی روایت کے مطابق یہ اصطلاح محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر والوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
عالمِ اسلام کا کونسا باشعور مسلمان ہوگا جو ’’اہلِ بیت‘‘ کی اصطلاح سے باخبر نہ ہو گا۔ قرآنِ مجید نے اس اصطلاح کو بار بار استعمال کیا ہے اور ہر مرتبہ عظمت اور جلالیت کو بیان کرنے کے لیے ہوا ہے۔ پہلے ’’اہلِ بیت‘‘ کی اصطلاح حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ کے لیے استعمال ہوئی اور ان پر رحمت اور برکت کا تذکرہ ہوا، بعد میں یہ اصطلاح نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ’’مخصوص‘‘ اہلِ خانہ کے لیے استعمال ہوئی اور یہاں مقصد اعلانِ طہارت کرنا ہے۔ اہلِ بیتؓ مرکز طہارت بھی ہیں اور محافظِ رسالت و نبوت بھی، ان کی زندگی میں رحمت و برکت بھی ہے اور انہیں ربّ کائنات نے مستحقِ درودو سلام بھی قرار دیا ہے جس کا واضح ثبوت نمار میں ملتا ہے۔ نماز درود پاک کے بغیر نا مکمل ہے اور درود بھی مخصوص اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ۔ اللہ پاک نے تو اپنی نماز بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے اہلِ بیتؓ پر سلام بھیجے بغیر منظور نہیں کی۔ سب سے پہلے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح کر دیں کہ حقیقتاً اہلِ بیتؓ میں کون لوگ شامل ہیں۔
* اُم المومنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے آپ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم تھے ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہٗ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو قریب کیا اور اپنے سامنے بٹھایا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو ایک ران پر بٹھایا پھر اِن پر چادر مبارک لپیٹی اور قرآنِ مجید کی یہ آیت مبارکہ تلاوت کی:
اِنَّمَا یُرِیْدُ ُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔ (الا حزاب 33)
ترجمہ:اے اہلِ بیتؓ! اﷲ تعالیٰ ارادہ فرماتاہے کہ تم سے ’’رِجس‘‘ کو دور رکھے اور تمہیں پاک و طاہر کر دے۔
حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے پردہ اٹھا کر سر داخل کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تم بھلائی پر ہو، تم بھلائی پر ہو۔‘‘
 امام احمدؒ اور امام طبرانیؒ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت فرمائی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’یہ آیت میرے بارے میں، علیؓ، فاطمہؓ اور حسنین کریمینؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد چالیس صبح تک حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے دروازے پرتشریف لاتے اور فرماتے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اَلصَّلٰوۃَ رَحِمَکُمُ اللّٰہ (اے اہلِ بیت تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی ، رحمت اور برکت ہو نماز پڑھو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے)پھر آیت مبارکہ (اِنَّمَا یُرِیْدُ ُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا)تلاوت فرماتے۔

ان احادیث سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اہلِ بیتؓ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت بی بی فاطمہ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں انہیں پنجتن پاک کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

* میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’دنیائے اسلام میں کئی گروہ یا فرقے ہیں ان فرقوں میں ایک گروہ یافرقہ وہ ہے جو صحابہ کرامؓ کا مخالف ہے اور ایک وہ ہے جو اہلِ بیتؓ اطہار کا مخالف ہے صحابہ کرام کے مخالفین اور ان سے بغض رکھنے والوں کو رافضی کہتے ہیں اور اہلِ بیت اطہارؓ کے مخالفین اور ان سے بغض رکھنے والوں کو خارجی کہتے ہیں اور جو لوگ صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت اطہارؓ سے یکساں محبت و عقیدت رکھتے ہیں وہی لوگ راہِ حق اور صراطِ مستقیم پر ہیں ۔‘‘ (شمس الفقرا)
اب تذکرہ کریں گے اہلِ بیت اطہارؓ کی شان کا۔ یوں تو ان کی شان بیان کرنا ہمارے بس میں نہیں لیکن قرآن و سنت سے مدد لی جاسکتی ہے۔ سب سے بڑی اور اہم بات ان کی شانِ نصیب ہے کہ ان کا نصیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہے۔ اتنا اعلیٰ نصیب کائنات میں کسی کو نصیب نہ ہوگا۔ پھر قرآن میں اللہ پاک نے خود اہلِ بیتؓ سے محبت کااظہار کرتے ہوئے آیتِ تطہیر نازل فرمائی ’’اے اہلِ بیتؓ ! اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ’’رجس ‘‘ کو دور رکھے اور تمہیں پاک و طاہر کردے۔‘‘ (الاحزاب۔ 33) اب اللہ پاک جس کام کا ارادہ فرمائے وہ پورا نہ ہو‘ کیا یہ ممکن ہے؟ حضرت ابنِ عطیہؓ فرماتے ہیں ’’ رجس کاا طلاق گناہ، عذاب، نجاستوں اور نقائص پر ہوتاہے اللہ تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں اہلِ بیتؓ سے دور فرما دی ہیں دوسرے لفظوں میں اللہ نے شیطان مرد ود کو اہلِ بیتؓ اطہار سے دور کر دیا ہے ایسی فضیلت کسی اور کے نصیب میں کہاں؟ اُمت کے لیے تو فرمانِ الٰہی ہے:
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِیْعُوْا تَھْتَدُوْا وَمَا عَلَی الرَّسُولَ اِلاَّ الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ۔ (سورۃ النور۔ 54 )
ترجمہ:فرما دیجئے تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کرو، پھر اگرتم نے (اطاعت سے) روگردانی کی تو (جان لو) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے۔
اس آیتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ جب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پیغام پہنچ گیا اور کسی امتی نے اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نیک کام شروع کر دیے لیکن پھر آگے چل کر عمر کے کسی بھی حصے میں دوبارہ شیطان کے بہکاوے میں آگئے تو پھر ذمہ دار وہ خود ہوگا۔ یعنی ہر کسی کو اسکے عمل کے مطابق ہی طہارت حاصل ہوگی، جتنی اطاعت اتنی پاکیزگی لیکن اہلِ بیتؓ سے تو اللہ پاک نے خود ہی نجاست اور شیطان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور کر دیا، مقصد انہیں تمام اُمت پر فضیلت دینا اور ان کی شان اور اہمیت کو واضح کرنا تھا۔ یہاں کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ اہلِ بیتؓ اطہار نے اطاعت میں کمی کی بلکہ اگر ان کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو اسوۂ حسنہ کا ایسا کامل نمونہ پائیں گے جو کسی مومن کی زندگی کا حصہ نہ ہو گا۔ صبرو سخاوت سے لے کر عشقِ الٰہی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ ان کا کوئی ثانی نہیں۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
* عشق کی حقیقت حاصل کرنی ہو تو امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے کربلا میں کردار سے حاصل کرو۔ اگر حضرت اسماعیل ؑ کے ایڑیاں رگڑنے سے چشمہ جاری ہوسکتا ہے تو آپؓ سے یہ بعید نہ تھا کہ آپ کے ایک اشارے سے کربلا میں چشمے جاری ہوجاتے اور فرات اپنا رخ بدل کر آپؓ کے قدموں میں آجاتا اور یزیدی لشکر ریت میں دھنس جاتا لیکن آپؓ نے کسی لمحہ بھی اس انجام سے بچنے کی دعا نہ کی بلکہ صبرو استقلال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور سارا خاندان راہِ حق میں قربان کر دیا۔ اسے کہتے ہیں سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے۔ عشق اور تسلیم ورضا کا ایسا اعلیٰ مرتبہ اولادِ نبیؐ کا ہی خاصہ ہے اور امام عالی مقامؓ نے اس امتحان میں پورا اتر کر اس کو عملی طور پر ثابت بھی کیا۔ طالبِ مولیٰ جب بھی عشق کے میدان میں آزمائشوں اور تکالیف کی وجہ سے ڈگمگانے لگے تو ذرا سا کربلا کے میدان میں آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے اصحاب کے کردار کو دیکھ لے تو یہی اس کے لیے مشعلِ راہ ہوگا۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اہلِ بیتؓ کی فضیلت کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
* میرے اہلِ بیتؓ کشتئ نوح کی مانند ہیں جو اس میں سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا۔ (امام طبرانی)
* حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (متفقہ علیہ)
* آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرمایا ’’بے شک اللہ تمہاری ناراضگی پر ناراض ہوتا ہے اور تمہاری رضا پر راضی ہوتا ہے۔‘‘ (حاکم۔طبرانی)
حضرت ابو رافعؒ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا:
* اے علیؓ! تم اور تمہارے چاہنے والے میرے پاس حوضِ کوثر پر چہرے کی شادابی کے سا تھ اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور بیشک تمہارے دشمن حوضِ کوثر پر میرے پاس بدنما چہروں کے ساتھ اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے۔ (امام طبرانی)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
* ’’ اے علیؓ میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالتِ جنابت میں اس مسجد میں رہے۔‘‘
امام علی بن منذرکہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اسکا معنی پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے علیؓ! میرے اور تمہارے علاوہ حالتِ جنابت میں کوئی اس مسجد کو بطور راستہ استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘ (ترمذی)
* حضرت شعبہؓ سلمہ بن کبیل سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’بے شک علیؓ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہوگا۔‘‘ (امام ترمذی۔احمد)
* حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں ’’میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں اکثر اوقات حاضر ہوتا اور دیکھتا کہ حسن و حسینؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شکم مبارک پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما رہے ہوتے یہ دونوں تو میری اُمت کے پھول ہیں۔‘‘ (امام نسائی)
* ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’خبردار! یہ مسجد کسی جنبی اور حائضہ کے لیے حلال نہیں سوائے رسول اللہؐ، علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ اور حسینؓ کے۔ آگاہ ہوجاؤ میں نے تمہیں نام بتا دئیے ہیں تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ۔‘‘ (بیہقی)
* آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں جو اس سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا‘‘۔ (رواہ ابن ماجہ)
* فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے ’’ہمارے یہ دونوں بیٹے (حضرت امام حسنؓ ، حضرت امام حسینؓ) جوانانِ جنت کے سردار ہیں ان کا دوست ہمارا دوست اور ان کا دشمن ہمارا دشمن ہے۔‘‘ (سنن الترمذی)
* سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیتؓ کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں جو اہلِ بیتؓ کا منکر اور بے ادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (مجتبیٰ آخر زمانی)
* میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’اہلِ بیتؓ کے بارے میں ہلکی سی ’’قلبی بدگمانی‘‘ بڑے بڑوں کو اعلیٰ ترین روحانی درجات سے گرا دیتی ہے۔‘‘
اب سوچنے کی بات ہے کہ تمام اہلِ بیتؓ کو اتنی اہمیت و فضیلت کیوں حاصل ہے؟ اس لیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عبدِ خاص ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہلِ بیتؓ بھی اس نسبت سے خاص ترین ہوئے اور اللہ پاک کو ان سب سے محبت بھی خاص ہے۔ اللہ اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی فضیلت ہم پر واضح کرنے کے بعد یہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی تمام دنیا سے بڑھ کر ان سے محبت کریں اور پھر اس کا برملا اظہار بھی کر دیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما دیجئے میں اس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا سوائے قرابت کی محبت کے۔ (الشوریٰ۔ 23)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت ’فرما دیجئے میں اس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت کے‘ نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟‘‘ توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’علیؓ، فاطمہؓ،اور ان کے دو بیٹے۔‘‘ (طبرانی)
اس کے بعد جا بجا حکمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ملتا ہے اہلِ بیتؓ سے محبت کے بارے میں اور اہلِ بیتؓ کی محبت کو ایمان کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میرے اہلِ بیتؓ کے لیے بہترین ہے۔‘‘ (امام حاکم۔ ابویعلیٰ)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاجس نے مجھ سے محبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں (حسنین کریمینؓ) سے بھی محبت کرے‘‘۔ (نسائی۔ ابن خزیمہ)
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰؓ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اہلِ بیتؓ اسے اس کے اہلِ خانہ سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘ (طبرانی۔ بیہقی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہ صرف اہلِ بیتؓ سے محبت کا حکم دیا بلکہ خود بھی بے تحاشا محبت فرمائی ہے اور بعض احادیثِ مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خود اللہ پاک کو بھی ان سے خاص محبت تھی۔
حضرت مسور بن مخرمہؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بے شک فاطمہؓ میری شاخ ہے جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے اور جس سے اسے تکلیف ہوتی ہے اس چیز سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘ (امام احمد۔ حاکم)
* حضرت ابنِ بریدہؓ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے تھی اور مردوں میں حضرت علی المرتضیٰؓ سب سے زیادہ محبوب تھے۔‘‘ (ترمذی۔ نسائی۔حاکم)
* حضرت اُمِ عطیہؓ فرماتی ہیں ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تھے۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے دیکھا کہ یا اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علیؓ کو (خیروعافیت سے واپس) نہ دیکھ لوں‘‘۔ (ترمذی۔طبرانی)
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔ اے اللہ! جو حسینؓ سے محبت رکھے اسے محبوب رکھ۔ حسینؓ نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے(ایک روایت میں ہے کہ جنتی نوجوانوں کے سردار کو دیکھے) وہ حسینؓ بن علیؓ کو دیکھے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے؟‘‘ حضرت امام حسینؓ چلتے ہوئے آئے اور آغوشِ رسالت میں گر گئے اور اپنی انگلیاں داڑھی مبارک میں داخل کر دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کا منہ کھول کر بوسہ لیا اور پھر فرمایا ’’اے اللہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ’’ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کا لعابِ دہن چوستے ہوئے دیکھا جس طرح آدمی کھجور چوستا ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے‘ جب سجدہ میں تشریف لے گئے تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے‘ جب لوگوں نے انہیں روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لوگوں کو اشارہ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو ‘ پھر جب نماز ادا فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔‘‘ (امام نسائی)
* حضرت اُسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا ’’میں ایک رات کسی کام کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس حالت میں تشریف لائے کہ کسی چیز کو اپنے جسم کے ساتھ چمٹائے ہوئے تھے جسے میں نہ جان سکا۔ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا ’’یا رسول اللہ آپ نے کیا چیزجما رکھی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کپڑااُٹھایا تو وہ حسنؓ اور حسینؓ تھے، فرمایا ’’یہ میرے بیٹے ہیں۔ اے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والے سے محبت کر۔‘‘ (ترمذی۔ ابنِ حبان)
اب یہاں تو محبت کا یہ معاملہ ایک نیا روپ اختیار کر گیا کہ پہلے تو امتِ مسلمہ کو حکم ہوا اہلِ بیتؓ سے محبت کا اور پھر محبت کی شدت اتنی بڑھی کہ اللہ پاک سے ہی التجا کر ڈالی کہ تو بھی ان سے محبت فرما اور نہ صرف ان سے بلکہ ان کے چاہنے والوں سے بھی اور اللہ پاک تو پہلے ہی محبت کا اظہار کر چکا آیت تطہیر کے ذریعے کہ اہلِ بیتؓ سے رجس کو دور کرنا چاہتا ہے اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرابت داروں کی محبت امت پر واجب کر کے لیکن پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم محبت کی التجا کر رہے ہیں ۔ سبحان اللہ ایسی شان پر۔
اب ذرا یہاں ذکر کرتے چلیں ان بدفعال، منافق اور بھیڑ یا صفت جاہل عالموں کی جنہوں نے اس آیت کے بارے میں الٹے سیدھے سوالات کا انبار لگا دیا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ پاک فرماتا ہے’’وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں۔ (سورۃ آلِ عمران۔7 )
اصل میں ان لوگوں کا اصل مقصد دین میں فتنہ پیدا کرنا ہے اور غورو تفکر کرنے کی بجائے درمیان سے چند الفاظ کو اچک لیا اور لگے دلائل دینے کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ اپنی تبلیغ کا بدلہ مانگیں یا پھر مختلف آیاتِ قرآنی کا حوالہ دیتے ہیں کہ حضرات نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب علیہم السلام نے تو کچھ یوں بیان کیا ہے ’’ میں تم سے اس تبلیغ (رسالت) پر اجرت کا طلبگار نہیں ہوں میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے ‘‘ سو ہم یہ کیسے تصور کر لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے دعوتِ حق مشن کا کوئی مادی اجر طلب کریں گے یعنی وہ آیتِ الٰہی کے صحیح ہونے پر ہی شک کر رہے ہیں۔ ایسے صاحبان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام انبیا کا سردار قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام انبیا پر فضیلت حاصل ہے جس کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہلِ بیت کو بھی تمام انبیا کے اہلِ بیتؓ پر فضیلت حاصل ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذاتی حکم۔ اگر اس آیت کا بغور مطالعہ کریں تو بہت سی حکمتیں کھل کر سامنے آتی ہے مکمل آیت کریمہ ملاحظہ کریں اور اس آیت سے پہلی آیت بھی تاکہ اللہ کی مکمل بات سمجھ آسکے۔
*تَرَی الظّٰلِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا کَسَبُوْاوَھُوَ وَاقِعُ بِھْم ط وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنَّتِصلے لَھُمْ مَّایَشَآؤُنَ عِنْدَ رَبِّھِمْج ذٰلِکَ ھُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ۔ ذٰلِکَ الَّذِیْ یُبَشِّرُ اللّٰہُ عِبَادَہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰت ِط قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ ط وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًاج اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ۔(سورۃ الشوریٰ۔ 22-23 )
ترجمہ: آپ دیکھیں گے کہ ظالم اپنے اعمال سے ڈر رہے ہوں گے اور جو انہوں نے کما رکھے ہیں اور وہ (عذاب) ان پر واقع ہو کر رہے گا اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس (موجود) ہوگا۔یہی بڑا فضل ہے۔ یہی وہ (انعام) ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو بشارت دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے کہ میں اس (تبلیغِ رسالت) کا تم سے صلہ نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت کے سوا اور جو کوئی نیکی کرے گا ہم اس کے لیے اس میں ثواب بڑھائیں گے بیشک اللہ بخشنے والا قدردان ہے۔
اللہ کا اُمتِ مسلمہ پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انبیا کے سردار کو اس قوم کی تربیت کرنے کے لیے بھیجا اور پھر جب یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان ہوگئے اور نیک عمل کرنے شروع کر دیے تو ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے۔ اب اگلی بات کی طرف آتے ہیں کہ ایسی کیا ضرورت پیش آگئی اللہ اور اللہ کے محبوب کو کہ قرابت کی محبت کا تقاضا کرنا پڑا تو اللہ نے فرما دیا کہ جو کوئی یہ نیکی کرے گا یعنی قرابت داروں سے محبت کا حکم مانے گا اس کے لیے مزید ثواب بڑھا دیا جائے گا۔ اس محبت کی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم او ر اہلِ بیتؓ کو ضرورت نہیں کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے اہلِ بیتؓ تو دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوچکے بلکہ اس میں تو ہماری ہی بھلائی چھپی ہوئی ہے۔ لہٰذا ایک حکمت تو یہ ہوئی کہ نیک عمل کی وجہ سے جو صلہ ملنا ہے وہ دوگنا ہو جائے گا اہلِ بیتؓ سے محبت کر کے۔
دوسرا یہ کہ شیطان گھات لگائے بیٹھا ہے کہ کسی طرح امتِ مسلمہ کو بہکا کر اور اللہ کے راستے سے ہٹا کر اپنی طرف مشغول کرلے لیکن اللہ نے تو اہلِ بیتؓ سے رجس و شیطان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور کر دیا ہے تو جو امتی اہل بیتؓ سے خالص ہو کر محبت کریں گے وہ ان کے قرب میں رہنے کی بھی کوشش کریں گے اور اسی محبت کے تحت ان کے جیسے اعمال کرنے کی تگ و دو بھی کریں گے اور جب شیطان اہلِ بیتؓ کے قریب نہیں آسکتا تو ان کے قرب میں رہنے والوں کو کیسے بہکائے گا۔
ایک مرتبہ ایک اعرابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں جتنی بھی کوشش کر لوں صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ جتنی نیکیاں نہیں کما سکتا جبکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے، صحابہ کرامؓ سے اور اہلِ بیتؓ سے بے تحاشا محبت کرتا ہوں تو کیا میں آخرت میں ان سب سے جدا کر دیا جاؤں گا (یعنی آپ سب جنت کے اعلیٰ درجے پر ہوں گے اور میرے پاس اتنے اچھے اعمال نہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’انسان قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ دنیا میں محبت رکھے گا۔‘‘ (صحیح بخاری ومسلم)
تو ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اہلِ بیتؓ کی محبت کے بدلے ہم بھی جنت میں ان کا قرب حاصل کر لیں گے۔ سب سے بڑی اور اہم حکمت جو اس حکم میں چھپی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی امت سے بے پناہ محبت تھی انہیں ہر وقت یہ فکر تھی کہ کہیں میرے بعد یہ لوگ بکھر نہ جائیں ۔ شیطان ان پر غالب نہ آجائے لہٰذا اپنی بے شمار احادیث کے ذریعے اپنی اُمت پر یہ واضح کر دیا کہ میں تم لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر نہیں جارہا بلکہ تمہاری رہنمائی کے لیے قرآن اور اپنے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: بیشک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جارہا ہوں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی میرے اہلِ بیتؓ اور یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔‘‘ (امام احمد)
 حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ دو چیزیں کتابِ اللہ اور میرے اہلِ بیتؓ ہیں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم جانتے ہو میں مومنین کی جانوں سے بڑھ کر انہیں عزیز ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’ہاں‘ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! ’’تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علیؓ بھی اس کا مولیٰ ہے۔‘‘ (امام حاکم)
 حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہٗ ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں ’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: پس یہ دیکھو کہ تم دو بھاری چیزوں میں مجھے کیسے باقی رکھتے ہو۔ پس ایک ندا دینے والے نے ندا دی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! وہ دو بھاری چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کتاب جس کا ایک کنارا اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارا تمہارے ہاتھوں میں ہے پس اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے اور دوسری چیز میری عترت ہے اور بے شک اس لطیف خبیر ربّ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں چیزیں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گی‘ یہاں تک کہ یہ میرے پاس حوض پر حاضر ہوں گی اور ایسا ان کے لیے میں نے اپنے ربّ سے مانگا ہے۔ پس تم لوگ ان پر پیش قدمی نہ کرو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ہی ان سے پیچھے رہو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ان کو سکھاؤ کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا ’’ پس میں جس کی جان سے بڑھ کر اسے عزیز ہوں تو یہ علیؓ اس کا مولیٰ ہے‘ اے اللہ! جو علیؓ کو اپنا ولی رکھتا ہے تو بھی اسے اپنا ولی رکھ اور جو علیؓ سے عداوت رکھتا ہے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔‘‘ (طبرانی)
 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما رہے تھے ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری چیز میرے اہلِ بیتؓ ہیں۔‘‘ (ترمذی)
اہلِ بیتؓ سے محبت کا تقاضا صرف اور صرف ہماری بھلائی کے لیے تھا ورنہ ہماری کیا مجال کہ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احسانات کا بدلہ دے سکیں۔ اہلِ بیتؓ سے محبت نہ کرنے والے خارج الاسلام ہیں انہیں مسلمان کہلانے کا کوئی حق نہیں کیونکہ مسلمان کے لیے اللہ اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سچا اور بے لوث عاشق ہونا ضروری ہے اور عشق بغیر چوں وچرا کے اطاعت کرتا ہے اور جو لوگ اہلِ بیتؓ سے محبت نہیں کرتے وہ تو حکمِ الٰہی اور حکمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
اور پھر سچے مسلمان کے دل میں بغض جیسی بیماری کیسے ہوسکتی ہے اور پھر بغض بھی ان سے جن سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود محبت فرما رہے ہیں۔
جہاں اہلِ بیتؓ سے محبت ایک باعمل مسلمان کے لیے اجرو ثواب اور درجات میں اضافے کا باعث ہے وہیں ان سے بغض ایک ظاہری عبادات کرنے والے نام نہاد مسلمان کے لیے تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہے۔
 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم سے مخاطب ہوئے پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ’’اے لوگو! جو ہمارے اہلِ بیتؓ سے بغض رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت یہودیوں کے ساتھ اُٹھائے گا‘‘ تو میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگرچہ وہ نماز‘ روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو اور اپنے آپ کو مسلمان گمان ہی کیوں نہ کرتا ہو؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگرچہ وہ روزہ اور نماز کا پابند ہی کیوں نہ ہو اور خود کو مسلمان تصور کرتا ہو‘ اے لوگو! یہ لبادہ اوڑھ کر ایسے لوگوں نے اپنے خون کو مباح ہونے سے بچایا اور یہ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں حالانکہ وہ گھٹیا اور کمینے ہوں۔ پس میری اُمت مجھے میری ماں کے پیٹ میں دکھائی گئی۔ میرے پاس سے جھنڈوں والے گزرے تو میں نے علی(رضی اللہ عنہٗ) اور اس کے مددگاروں کے لیے مغفرت طلب کی۔‘‘ (طبرانی)
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے فرمایا ’’ا ے معاویہ بن خدیج! ہمارے ساتھ بغض سے بچو کیونکہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ہم سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوضِ کوثر سے دھتکار دیا جائے گا۔‘‘ (طبرانی)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان فرماتے ہیں ’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص میرے اہلِ بیتؓ اور انصار اور عرب کا حق نہیں پہچانتا تو اس میں تین چیزوں میں سے ایک پائی جاتی ہے یا تو وہ منافق ہے یا وہ حرامی ہے یا وہ ایسا آدمی ہے جس کی ماں بغیر طہر کے حاملہ ہوئی ہو۔‘‘ (بیہقی۔ دیلمی)
 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! جو مجھ سے اور میرے اہلِ بیتؓ سے بغض رکھتا ہے اسے کثرتِ مال اور کثرتِ اولاد سے نواز‘ یہ ان کی گمراہی کے لیے کافی ہے کہ ان کا مال کثیر ہو جائے پس ان کا حساب طویل ہو جائے اور یہ کہ ان کی وجدانیات کثیر ہو جائیں تاکہ ان کے شیاطین کثرت سے ہو جائیں۔‘‘ (امام دیلمی)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی نہ وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں علیؓ سے بغض رکھنا‘ میرے اہلِ بیتؓ سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام (یعنی اقرار باللسان) کا نام ہے۔‘‘ (امام دیلمی)
اب جن لوگوں کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خوداپنی زبان مبارک سے ایسے الفاظ ادا کر رہے ہیں کیا ان کو دائرہ اسلام میں شامل کرنا مناسب ہے؟ بالکل نہیں۔ ایسے بد نیت لوگ منافقین کے گروہ میں شامل ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔ اور جن لوگوں نے اہلِ بیتؓ کی محبت کے بارے میں دیے گئے حکم کی اطاعت کی اور باطن کی گہرائیوں سے اہلِ بیتؓ سے محبت کی تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے ان کے لیے جنت کی بشارتیں ہیں۔
اللہ پاک نے تو سورۃ الشوریٰ میں فرما دیا کہ اس نیکی کے بدلے ان کے اعمال کے اجر کو دگنا کر دے گا۔ حضرت عبدا للہ بن عباسؓ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں درخت ہوں اور فاطمہؓ اسکے پھل کی ابتدائی حالت ہے اور علیؓ اسکے پھول کو منتقل کرنے والاہے اور حسنؓ اور حسینؓ اس کے درخت کا پھل ہیں اور اہلِ بیتؓ سے محبت کرنے والے اس درخت کے پتے ہیں۔ وہ یقیناًجنت میں ہیں۔‘‘ (امام دیلمیؒ )
حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ستارے اہلِ آسمان کے لیے امان ہیں پس جب ستارے ختم ہو جائیں گے تو اہلِ آسمان بھی ختم ہو جائیں گے اور میرے اہلِ بیتؓ زمین والوں کے لیے امان ہیں پس جب میرے اہلِ بیتؓ ختم ہو جائیں گے تو اہلِ زمین بھی ختم ہو جائیں گے۔‘‘ (امام دیلمیؓ)
ستاروں کی موجودگی اہلِ آسمان کی زندگیوں کے ہونے کا ثبوت ہے تو پھر اس حدیث کے مطابق اگر اہلِ زمین زندہ ہیں تو اہلِ بیتؓ اطہار بھی موجود ہیں ۔اسی لیے تو دن میں پانچ مرتبہ نماز کے دوران آلِ محمدؐ پر درودو سلام بھیجا جاتا ہے کہ سلام تو زندہ اور موجود کو ہی کیا جاتا ہے اور ویسے بھی اسلام تو رہتی دنیا تک کے لوگوں کا مذہب ہے تو کیا ان کے قرب کی سعادت آج کے زمانہ والوں کے لیے نہ ہوگی اور پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
*اَلْاٰ نَ کَمَاکَانَ۔
ترجمہ:’’ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔‘‘
اور جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی احادیثِ مبارکہ رہتی دنیا کے لیے ہیں تو یہ حدیث کیوں نہیں ۔
حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
فَھِمَ مَنْ فَھِمَ ترجمہ: جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا۔
اللہ ہمیں بہتر بات کو سمجھنے کی توفیق دے اور اہلِ بیتؓ کی سچی محبت عطا فرمائے۔ (آمین)
استفادہ کتب۔
1 ۔ مجتبیٰ آخرزمانی
2 ۔ فضائل اہلِ بیت و صحابہؓ کرام (قرآن و حدیث کی روشنی میں)


اپنا تبصرہ بھیجیں