ندامت کے آنسو۔ Nadamat Ky Ansu
تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری (رائیونڈ)
نفسِ انسانی میں خیر و شر دونوں کی استعداد رکھی گئی ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
اور انسانی جان کی قسم! اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قسم! پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کی (تمیز) سمجھا دی۔ بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس نفس کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)۔ اور بے شک وہ شخص نامراد ہو گیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا۔(اور نیکی کو دبا دیا)۔ (سورۃ الشمس۔ آیت 7-10)
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کی تخلیق کی تو اس میں خیر اور شر دونوں شامل کر دیے یہی وجہ ہے کہ انسان جب اپنے نفس میں موجود شر پر قابو پا کر خیر کے کام کرتا ہے تو فرشتوں سے افضل ہو کر مسجودِ ملائک بن جاتا ہے اور اگر خیر کو چھوڑ کر شر پر عمل پیرا ہو تو شیطان بن جاتا ہے۔ انسان کے اندر خیر اور شر کی جنگ مرنے تک جاری رہتی ہے اور یہی دونوں عوامل انسان کو جنتی یا جہنمی بناتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے خاک سے پیدا کیا ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور بدی ڈال دی ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ دنیا میں آ کر انسان خطا کرنے سے باز رہے ماسوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے شر سے محفوظ فرما دیا جیساکہ انبیا علیہم السلام۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں ان خیرو شرکے مادوں کے ساتھ تیسری چیز کو شامل کیاہے جسے ’’ضمیر‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ضمیر ہی ہے جو انسان کو اس کے انجام کردہ ہر فعلِ بدپر کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ ضمیر کی اس خلش سے ہی پریشان ہو کر بندہ اپنے ربّ سے توبہ کرتا اور معافی طلب کرتا ہے۔ ضمیر کی موجودگی سے انسان ہر گناہ کے بعد ندامت محسوس کرتاہے اور یہ ندامت ہی توبہ ہے۔
ہمارے پیارے آقا خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
ندامت ہی توبہ ہے۔
جب بندہ برائی کرنے کے بعد نادم ہو کر اللہ کے حضور توبہ کرتاہے اور آنسو بہاتا ہے توخود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ گویا اسے یہ کامل یقین ہوتا ہے کہ میرا ربّ توبہ ضرور قبول فرماتا ہے اور یہی کامل یقین ربّ سے اپنے بندے کا تعلق مضبوط کر دیتا ہے۔ حدیثِ پاک ہے:
اللہ کو دو قطرے بہت پسند ہیں: ایک اُس خون کا قطرہ جو اللہ کی راہ میں اس زمین پر بہایا جائے اور دوسرا اُس آنسو کا قطرہ جو بندہ اپنے ربّ کے خوف سے بہائے۔ (ترمذی 1669)
بقول شاعر:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
عرقِ انفعال سے مراد وہ پسینہ ہے جو شرمندگی کے باعث آئے۔ یعنی جب انسان کوتاہی اور بے عملی کی وجہ سے شرمسار ہو کر تقصیر کے باعث اللہ کے حضور تائب ہوتا ہے تو کسرِ نفسی کی وجہ سے آنسو یا احساسِ ندامت کی وجہ سے جسم سے جو پسینہ نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی یہ ہے کہ ان آنسوؤں اور پسینے کے قطروں کو موتی اور قیمتی پتھر کی طرح اہمیت دی جاتی ہے۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قطرۂ اشکِ ندامت در سجود
ہمسری خونِ شہادت می نمود
ترجمہ: ندامت کے آنسوؤں کے وہ قطرے جو سجدہ میں گنہگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شہیدوں کے خون کے برابر شمار کرتی ہے۔
علامہ الوسی نے تفسیر روح المعانی میں سورۃ القدر کے ذیل میں ایک روایت نقل کی ہے جس سے گنہگاروں کی ندامت اور شرمندگی کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ خاتم النبیین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گنہگاروں کا رونا، آہ کرنا، گڑگڑانا مجھے تسبیح پڑھنے والوں کی سبحان اللہ کی آوازوں سے زیادہ محبوب ہے۔ (تفسیر روح المعانی)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کی ندامت اور ان آنسوؤں کے اہم ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے مولانا محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت ِشان کی جو بارگاہ ہے وہاں آنسو نہیں ہیں کیونکہ آنسو تو گنہگار بندوں کے نکلتے ہیں۔ فرشتے رونا نہیں جانتے کیو نکہ ان کے پاس ندامت نہیں ہے، ان کو قربِ عبادت حاصل ہے قربِ ندامت نہیں۔قربِ ندامت تو ہم گنہگاروں کو حاصل ہے۔
اس لیے مولانا شاہ محمد احمد الٰہ آبادی فرماتے ہیں:
کبھی اطاعتوں کا سرور ہے کبھی اعترافِ قصور ہے
ہے مَلک کو جس کی نہیں خبروہ حضور میرا قصور ہے
اللہ کا کوئی بندہ ایسا نہیں جس کا دل و دماغ دنیا کی چمک دمک اور رنگینیوں سے متاثر نہ ہوتا ہو۔ نفسانی خواہشات ،دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطان کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہوتے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہو کر گناہ اور قصور کر بیٹھتا ہے لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جوابدہی کا احساس پیدا کرتاہے اور خود کو مجرم وخطا وار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا ہے اور آئندہ کے لیے توبہ کرتاہے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا ہو جاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو۔
ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔ (سورۃ البقرہ۔222)
بندے کوجب احساسِ ندامت ہوتا ہے اور وہ مالکِ حقیقی کی بارگاہ میں تائب ہوتا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اللہ کی عظمت کا اعتراف کر لیا اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔
ایک دن خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دریافت کیا ’’کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص پانی پر چلے اور اس کے پیر گیلے نہ ہوں؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے جواب دیا: ایسا نا ممکن ہے۔ جس پر آپؐ نے فرمایا ’’پس جو شخص دنیا میں آئے گا خطا بھی ضرور کرے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح 5205)
گناہ پر اصرار یعنی بے فکری اور بے خوفی کے ساتھ گناہ کرتے رہنا اور اس پر قائم و دائم رہنا بڑی بدبختی اور بہت برے انجام کی نشانی ہے۔ ایسا عادی مجرم اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں۔ اگر کوئی بندہ گناہ کے بعد رجوع الی اللہ یعنی توبہ نہیں کرتا تو اس کے لیے ارشادِ ربانی ہے:
ترجمہ: اور جس نے توبہ نہیں کی وہی لوگ ظالم ہیں۔ (سورۃالحجرات۔ 11)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندے نے گناہ کیا مگر اللہ نے اس کو ظالم نہ کہا، انتظار میں رہا کہ شاید توبہ کر لے لیکن جب وقت گزر گیااور اس نے توبہ نہ کی تو فرمایا: اے انسان! گناہ کرنے پر تجھے ظالم نہیں کہا تھا مگر توبہ نہ کر کے تو نے ظلم کیا۔ معلوم ہوا کہ گناہ تو ایک درجے کا ظلم اور نافرمانی ہے مگر اصل ظلم جس کو اللہ نے شمار کیا وہ گناہ کے بعد توبہ نہ کرنا ہے۔
اس ضمن میں حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں:
ایک شخص نے گناہ سے توبہ کی، پھر اس گناہ کا مرتکب ہوا اور پھر نادم ہوا۔ ایک روز اس نے اپنے دل میں کہا کہ اگر میں پھر توبہ کر گناہ کروں تو میرا کیا حال ہوگا؟
تو اس کے کان میں ہاتفِ غیبی کی آواز آئی!
’’تو نے ہماری اطاعت کی ہم نے تجھے پسند کیا۔پھر تو نے بے وفائی کی اور ہمیں چھوڑ دیا۔ ہم نے تجھے مہلت دی اگر پھر توبہ کرے تو ہم تجھے قبول کریں گے۔‘‘(کشف المحجوب)
بندہ اپنے احوال پر غور کرے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس کا بیشتر وقت معصیت میں بسر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قلبِ سلیم عطا فرمائے تو بندہ معافی مانگنے کی طرف راغب ہوتا ہے اور عزم کرتا ہے کہ آئندہ ان گناہوں سے باز رہے گا۔ البتہ بحیثیتِ بشر پھر انہی غلط کاموں میں ملوث ہو جاتا ہے اور توبہ پر قائم رہنے کو محال جانتے ہوئے دوبارہ توبہ کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کا ربّ توبہ پر قائم نہ رہنے کے باوجود اس کا منتظر رہتا ہے کہ کب بندہ معافی مانگنے کے لیے اس کے حضور رجوع کرے گا۔۔۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔اگر بندہ کوئی خطا کر بیٹھے اور اس پر نادم بھی ہو تو اسے چاہیے کہ فوراً اپنے ربّ کی رحمت کی طرف رجوع کرے اور اس سے معافی طلب کرے۔بار بار گناہ سرزد ہونے پر بار بار توبہ کرے کیونکہ اللہ کی رحمت بڑی وسیع اور اس کی ذات بڑی بے نیاز ہے۔حضرت امام غزالیؒ کی تصنیف ’’مکاشفۃ القلوب‘‘ میں ایک واقعہ درج ہے:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ایک شخص توبہ کرتا لیکن ثابت قدم نہ رہتا۔ اسی طرح 20 سال گزر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کی طرف وحی کی اور فرمایا کہ میرے اس بندے سے کہہ دو کہ میں تجھ سے سخت ناراض ہوں۔ حضرت موسیٰؑ نے اس بندے کو اللہ تعالیٰ کا پیغام دیا تو وہ بہت پریشان ہو گیا، جنگل بیابان کا رُخ کیا اور وہاں جا کر ربّ العزت کے حضور عرض کیا:
’’اے ربِ ذولجلال! تیری رحمت جاتی رہی یا میرے گناہ نے تجھے دکھ دیا، تیری بخشش کے خزانے ختم ہو گئے یا بندوں پر تیری نظرِکرم نہیں رہی؟ تو کریم ہے، میں بخیل ہوں۔ کیا میرا بخل تیرے کرم پر غالب آ گیا ہے؟ اگر تو نے اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے مایوس کر دیا تو وہ کس کے دَرپر جائیں گے؟ اگر تو نے انہیں راندۂ درگاہ کر دیا تو وہ کہاں جائیں گے؟اے ربّ قادر و قہاّر! اگر تیری بخشش جاتی رہی اور میرے لیے عذاب ہی رہ گیا ہے تو تمام گنہگاروں کا عذاب مجھے دے دے۔میں ان پر اپنی جان قربان کرتا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا: میرے بندے سے کہہ دو تم نے میری کمال قدرت اور عفو و درگزر کی حقیقت کو سمجھ لیا ہے، اگر تیرے گناہ زمین کے برابر ہوں میں تب بھی بخش دوں گا۔ (مکاشفۃ القلوب)
توبہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گناہ کی وجہ سے روح کو تکلیف محسوس ہو اور دل میں نفرت و ناگواری کے جذبات پیدا ہوں کیونکہ اگر گناہوں کے ارتکاب کی عادت پڑ جانے کی وجہ سے کسی کو گناہ پر دکھ نہ ہو اور وہ صرف زبان سے توبہ کرتا رہے تو اس کا یہ عمل توبہ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ خودکار حرکات اور بے فائدہ عبارات کا مجموعہ تصور ہوگا۔ درحقیقت ندامت ہی توبہ ہے۔ ’’توبہ‘‘ ندامت اور درد کے اظہار کا نام ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں:
جس گناہ کے بعد ندامت نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ وہ گناہ اسلام سے باہر نہ کردے۔
دراصل ندامت تو ایک احساس ہے اپنے ربّ کے روٹھ جانے کا اور جب دل سے یہ احساس ہی مٹ جائے تو ایسی توبہ صرف الفاظ تک محدود ہوتی ہے۔
در دِل ہوسِ گناہ و بر لب توبہ
در صحت مے خوری و در تب توبہ
ہر روز شکستن است، ہر شب توبہ
زیں توبہ نادُرست، یا ربّ توبہ
ترجمہ: دل میں تو گناہوں کی ہوس ہے اور ہونٹوں پر توبہ ہے۔ تندرستی میں تو شراب نوشی ہے اور بیماری میں توبہ۔ ہر روز توبہ توڑی جاتی ہے اور ہر رات توبہ۔ ایسی نا درست توبہ سے یا ربّ توبہ۔
بنواُمیہ کے پانچویں خلیفہ عبدالملک نے ایک دفعہ مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبؓ سے کہا ’’ابو محمد! اب میری یہ حالت ہے کہ اچھا کام کرتا ہوں تو اس سے کوئی خوشی نہیں ہوتی اور اگر برُا کام کرتا ہوں تو ندامت نہیں ہوتی۔‘‘ اس پر حضرت سعید بن مسیبؓ نے فرمایا ’’اب تمہارا دل مکمل طور پر مرچکا ہے۔‘‘
جب دل ہی مردہ ہوجائے تو اپنے گناہوں پر ندامت کیسی؟ایسے میں اپنے ربّ کے روٹھ جانے کا احساس کیونکر پیدا ہو سکتا ہے اور جب احساس ہی نہیں تو توبہ کیسی! یہ درحقیقت ڈھٹائی کی انتہائی منزل ہے۔ انسان جب گناہ کا ارتکاب کرکے نادم ہوتا ہے اور توبہ کے لیے آنسو بہاتا ہے تو گویا وہ نیکی کی طرف لوٹ آتا ہے اور ایسے میں اللہ تعالیٰ بھی اپنی ناراضی دور کرکے اپنے بندے کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
ترجمہ: بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا رحم فرمانے والا ہے۔ (سورۃالبقرہ۔37)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک مرتبہ ایک بدو کو جلدی جلدی توبہ کرتے دیکھا یعنی توبہ و استغفار کے کلمات زبان سے جلدی جلدی ادا کرتے دیکھا تو فرمایا ’’توبۃ الکذّابین‘‘ یعنی بہت جھوٹوں کی توبہ ہے۔ تو اس شخص نے پوچھا کہ پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس کے لیے چھ شرائط ہیں:
(1) جو کچھ ہوچکا اس پر نادم ہو۔
(2) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کرے۔
(3) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کرے۔
(4) جس کو تکلیف پہنچائی ہو، اس سے معافی مانگے۔
(5) آئندہ کے لیے اس گناہ سے بچنے کا عزم کرے۔
(6) اپنے نفس کو اللہ پاک کی اطاعت میں گھلا دے۔
سورۃ النور میں اہلِ ایمان کو توبہ کی تاکید کی گئی ہے:
ترجمہ: اے مومنو! تم سب مل کر اس کے حضور میں توبہ کرو، توقع ہے تم فلاح پاؤگے۔(سورۃ النور۔31)
اپنی بری عادتوں اور گناہوں پر قائم رہتے ہوئے توبہ کی جانب مائل نہ ہونے کا ایک سبب نفس کا یہ فریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہت غفورالرّحیم ہے، ہم جو کچھ بھی سیاہ و سفید کریں وہ اپنی رحمت سے کام لیتے ہوئے معاف کر ہی دے گا۔حالانکہ حدیث میں آیا ہے :
دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور بے وقوف و بدنصیب وہ ہے جو نفس کی خواہشات کے پیچھے لگارہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے امیدیں باندھے۔ (ترمذی 2459)
گناہ پر شرمندگی اور اپنے ربّ کے روٹھ جانے کا احساس تب ہوتا ہے جب اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھا جائے کیونکہ اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنے سے ذکرِالٰہی نصیب ہوتاہے اور ذکرِالٰہی ایسی عبادت ہے جو فکر سے ہمکنار کرتی ہے ۔اسی فکر سے بندے کے قلب میں خوف اور امید کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جس کے باعث وہ برے اعمال سے تائب ہو کر اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ قربِ الٰہی کے لیے احساسِ ندامت اور تائب ہونا بہت ضروری ہے۔ ابو القاسم القشیریؒ توبہ کے متعلق فرماتے ہیں :
ہر مقام کی ابتدا توبہ ہے اور ہر حال کی کنجی توبہ ہے۔
جب تک نفس کا تزکیہ نہیں ہوتا بندہ توبہ کی حقیقت سے نا آشنا رہتا ہے۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت بہت ضروری ہے۔ آج کے اس پرُفتن دور میں جہاں نفسانفسی کا عالم ہے وہیں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ایسی بارگاہ ہے جن کی صحبت سے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب حاصل ہوتا ہے اور بندہ قربِ الٰہی کی منازل طے کرتا ہے۔
آئیے!سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت سے فیض یاب ہو کر توبہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کریں۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔(آمین)
استفادہ کتب:
۱۔ مکاشفۃ القلوب: حضرت امام غزالیؒ
۲۔ مثنوی: مولانا رومؒ
۳۔ کشف المحجوب: حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ
۴۔ ندامت: مولانا محمد قاسم
۵۔ منہاج السوّی: ڈاکٹر طاہر القادری
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
اللہ پاک ہمیں حقیقی ندامت عطا فرماۓ آمین 🌷 🌷
Great article ❤️❤️❤️❤️❤️❤️ Masha Allah
بہترین مضمون تحریر کیا ہے ۔
آج کے اس پرُفتن دور میں جہاں نفسانفسی کا عالم ہے وہیں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ایسی بارگاہ ہے جن کی صحبت سے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب حاصل ہوتا ہے اور بندہ قربِ الٰہی کی منازل طے کرتا ہے۔
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔ (سورۃ البقرہ۔222)
دل میں تو گناہوں کی ہوس ہے اور ہونٹوں پر توبہ ہے۔ تندرستی میں تو شراب نوشی ہے اور بیماری میں توبہ۔ ہر روز توبہ توڑی جاتی ہے اور ہر رات توبہ۔ ایسی نا درست توبہ سے یا ربّ توبہ۔
جب تک نفس کا تزکیہ نہیں ہوتا بندہ توبہ کی حقیقت سے نا آشنا رہتا ہے۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت بہت ضروری ہے۔ آج کے اس پرُفتن دور میں جہاں نفسانفسی کا عالم ہے وہیں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ایسی بارگاہ ہے جن کی صحبت سے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب حاصل ہوتا ہے اور بندہ قربِ الٰہی کی منازل طے کرتا ہے۔
بہترین مضمون ہے
Behtareen
Great
Very good blog
ہمارے پیارے آقا خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
ندامت ہی توبہ ہے۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
آئیے!سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت سے فیض یاب ہو کر توبہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کریں۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔(آمین)
قرآن و احادیث اور اولیا کرام کے فرامین کی روشنی میں بہترین مضمون لکھا گیا ہے
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے