حجابِ محبت (Hijab-e-Mohabbat )
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
لفظ محبت ’حب‘سے ماخوذ ہے جو اس گڑھے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں بہت زیادہ پانی ہو اور وہ اس طرح پھیلا ہوا ہو کہ نگاہ کو اس میں گزر نہ ہو۔ محب محبت کرنے والے کو کہتے ہیں اور محبوب وہ ہستی ہوتی ہے جس سے محبت کی جاتی ہے اور محبت اس پاکیزہ جذبے اور تعلق کا نام ہے جو محب اور محبوب کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ محبوبِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور محب طالبِ مولیٰ۔ اللہ کی محبت جب کسی طالب کے دل میں جمع ہو جاتی ہے اور اس کے دل کو اپنے وجود سے بھر دیتی ہے تو پھر محبوب کی بات کے علاوہ اس کے دل میں کسی بھی چیز کے لیے گنجائش نہیں رہتی۔ صادق و عاشق طالبِ مولیٰ کی صرف ایک ہی طلب ہوتی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات۔ طالب اس ذات کے دیدار اور وصال کے لیے ہر وقت بیقرار رہتا ہے اور یہی تڑپ اور بیقراری اسے راہِ فقر پر آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے اور بالآخر صادق طالبِ مولیٰ فقر کی انتہا پر پہنچ کر اللہ سے واصل ہو جاتا ہے اور اللہ کا مظہرِ اُتم بن کر اس کی نمائندگی کرتا ہے۔
محبت کا عنصر محب کے اندر غالب ہوتا ہے۔ وہ اپنی محبت کی بنا پر اپنے محبوب کے لیے ہر وقت بے چین رہتا ہے اور جب تک وہ اپنے محبوب کو دیکھ نہ لے اسے سکون نہیں ملتا۔ محب اپنی جگہ تڑپ رہا ہے کیونکہ اسے اپنے محبوب کا قرب میسر نہیں ہوتا۔ اس محبت کے تعلق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو ہستیاں ایسی ہیں جن میں سے ایک دوسرے کو چاہتاہے یعنی دوئی موجود ہے جبکہ راہِ فقر میں جب تک محب اور محبوب ایک نہیں ہو جاتے تب تک محبت کامل نہیں ہوتی اور اس کامل محبت کو عشق کہتے ہیں۔ البتہ محبت کا جذبہ محب اور محبوب کے درمیان حجاب ہے۔ عشق وہ جذبہ ہے جو محبوب کی محبت کے علاوہ ہر دوسری محبت سے بے نیاز کر دے۔ اگر یوں کہا جائے کہ عشق ہر دوسری محبت کو جلا دیتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْعِشْقُ نَارٌ یَحْرِقُ مَاسِوَی الْمَحْبُوْبِ
ترجمہ: عشق ایسی آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر شے کو جلادیتی ہے۔
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عشق آں شعلہ است کہ چوں بر افروخت
ہر چہ جز معشوق باشد باقی جملہ سوخت
ترجمہ: عشق ایک شعلہ ہے جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔
راہِ فقر پر ایک طالب تب تک کامیاب نہیں ہوتا جب تک وہ مرشد کامل اکمل کی راہنمائی میں اپنا باطنی سفر مکمل نہیں کرتا اور نہ ہی مرشد کی توجہ اور نگاہِ کرم کے بغیر عشقِ حقیقی کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ مرشد کامل اکمل کی راہنمائی کے بغیر راہِ باطن کے نشیب و فراز کو طے کرنا اور اس راہ میں درپیش مشکلات و آزمائشوں کو پار کرنا ممکن نہیں کیونکہ مرشد کامل اس راہ کی ہر اُونچ نیچ کو جانتا ہے اس کے علاوہ مرشد کامل اکمل صاحبِ اسمِ اللہ ذات ہوتاہے جو ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے من میں عشق کی چنگاری پیدا کرتا ہے اور اپنی نگاہِ کامل سے اس چنگاری کو عشق کی دہکتی ہوئی آگ میں بدل دیتا ہے جس کے سوز میں طالبِ مولیٰ ہر لمحہ اپنے محبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ بھی مرشد اور اسمِ اللہ ذات کو عشقِ حقیقی کے حصول کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ آپؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
الف اللہ صحی کیتوسے، چمکیا عشق اگوہاں ھوُ
رات دیہاں دیوے تاہ تکھیرے، نِت کرے اگوہاں سوُہاں ھوُ
اندر بھائیں اندر بالن، اندر دے وچ دُھوہاں ھوُ
باھوؒ شوَہ تداں لدھیوسے، جداں عشق کیتوسے سوُہاں ھوُ
مفہوم: جب ہم نے اسم اللہ ذات کی حقیقت کو پہچان لیا اور اس کا راز ہم پر فاش ہو گیا تو عشق کی آگ ہمارے اندر بھڑک اُٹھی اور اس کی تپش سے محبوبِ حقیقی سے ملنے کے لیے ہماری بے چینی و بیقراری بڑھتی جا رہی ہے اور عشق کی تپش ہمیں راہِ فقر میں اگلی منزل کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور کر رہی ہے اور اللہ تعالیٰ سے قرب و وصال کی بیقراری کے درد اور تڑپ نے من میں طوفان برپا کر رکھا ہے۔ جب عشق نے راہِ فقر کی رسومات سے ہمیں واقف کرا دیا تو ہم نے محبوبِ حقیقی (اللہ تعالیٰ) کو پا لیا۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
محبت است کہ دل را نمیدہد آرام
وگرنہ کیست کہ آسودگی نمی خواہد
ترجمہ: یہ محبت ہی ہے جو دل کو سکون نہیں لینے دیتی وگرنہ کون ہے جو سکون کی زندگی نہیں چاہتا۔ (نور الہدیٰ خورد)
جب محبت عشق میں بدل جاتی ہے تو عشق کامل ہو جاتا ہے اور محب محبوب کے سوا ہر چیز بھول جاتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب محب اپنی ہستی کو بھی فراموش کر کے فنا ہو جاتا ہے پس اس وقت کیا باقی رہ جاتا ہے؟ صرف محبوب۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَوْنُ الْمُحِبِّ لَوْنُ الْمَحْبُوْبِ
ترجمہ: محب کا رنگ وہی ہوتا ہے جو اس کے محبوب کا رنگ ہوتا ہے۔ (بحوالہ سلطان الوھم)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
غرق بہ دریائے محبت را چہ آرائی خطاب
چوں حباب از خود تہی شد گشت آب
ترجمہ: محبت کے سمندر میں غرق ہونے والے کو کیا خطاب دیا جائے گا کیونکہ جب بلبلہ ختم ہو جاتا ہے تو وہ پانی ہی بن جاتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
اے جانِ عزیز! محب (طالب) جب محبوب (اللہ) کے لیے اپنا آپ گم (فنا) کر دیتا ہے تو محبوب اس کے گھر (وجود) میں قدم رکھتا ہے اور اسے اپنے جمال و زیبائی اور اپنے اسما کی لطافت سے منور کر دیتا ہے۔ محبوب اپنے محب کو اپنا لباس عطاکرتا ہے اور اس لباس کے اندر خود جلوہ گر ہوتا ہے۔ محب کو اپنے خصائل سے مزید سنوارتا ہے تاکہ محب محبوب کی صحبت اور ہمنشینی کے لائق ہو سکے۔ پھر ان کے درمیان دوئی بھی ختم ہو جاتی ہے اور محب عین محبوب ہو جاتا ہے۔ اس جگہ ’’میں اور تو‘‘ کا معاملہ تشویش کا باعث بنتا ہے اور میں اور توُ کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ (سلطان الوھم)
بقول بلھے شاہؒ:
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
آکھو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نہ آکھے کوئی
مفہوم: رانجھا یعنی اپنے محبوب کو پکارتے پکارتے میں نے اپنی ہستی فراموش کر دی اب مجھے کوئی ہیر نہ کہے بلکہ رانجھا ہی کہے۔
جب عشق سے ایسی حالت حاصل ہو جائے تب ہی محب اور محبوب کے درمیان سے حجاب ختم ہوتا ہے۔ ایسی حالت کو وصال کہتے ہیں کیونکہ محب تو باقی رہتا ہی نہیں وہ تو محبوب بن جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق فرمایا ’’اے محبوب توُ میں ہے اور میں توُ ہوں‘‘۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی (سورۃ النجم۔3)
ترجمہ: اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنی مرضی سے کچھ کلام نہیں کرتے۔
اور جب بدر کے مقام پر جنگ کے دوران حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ہاتھ سے کنکریاں پھینکیں تو ان کنکریوں کا مارنا اللہ تعالیٰ نے خود سے منسوب فرمایا اور بیعتِ رضوان کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب صحابہ کرامؓ سے بیعت لی تو اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے دستِ مبارک کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی درج ذیل حدیثِ مبارکہ بھی اس بات کی وضاحت کرتی ہے:
لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِیْ فِیْ مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌّ مُّرْسَلٌ
ترجمہ: میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے جس تک کسی مقرب فرشتے اور کسی نبی و مرسل کی رسائی نہیں۔
چونکہ عشقِ حقیقی کی بدولت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے مظہرِ اُتم بن چکے تھے پس ان کے وجود میں حق کے سوا کچھ باقی نہ رہا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا اور ان کے عمل کو اپنا عمل قرار دیا۔
محبت اور عشق کے اس سفر کا آغاز اللہ کی بندے سے محبت سے ہوتا ہے۔ جب اللہ بندے سے محبت کرتا ہے تو بندے کے دل میں بھی اپنی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔ اللہ اپنی عظمت و شان کے مطابق بندے سے محبت کرتا ہے لہٰذا اس کی محبت بندے کی محبت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ محبت تب کامل ہوتی ہے جب بندہ اللہ کی طرف عروج کرتے ہوئے وصال پا لیتا ہے۔ وصال کے سفر میں بندہ اللہ کی طرف عروج کرتا ہے اور اللہ بندے کی طرف نزول۔ تب ہی وصال ممکن ہو پاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے:
جب میرا بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے برابر اس کے قریب آ جاتا ہوں۔ اگر وہ میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس جاتا ہوں۔ (صحیح مسلم۔6805)
لہٰذا محبوب سے وصال پا کر محب عین محبوب بن جاتا ہے تب ان کے درمیان کوئی حجاب باقی نہیں رہتا۔ محبوب سے عشق کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ عشق کے اس سفر میں محب یعنی عاشق کو اپنا سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ جب تک محب اپنا سب کچھ لٹا نہیں دیتا تب تک محبوب اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ زلیخا نے جب تک اپنا جاہ و جلال اور مال و متاع یوسفؑ کے دیدار کے لیے قربان نہیں کر دیا دیدارِ یوسفؑ کی خواہش پوری نہیں ہوئی حتیٰ کہ اپنا حسن و جمال تک زائل کر دیا تب جا کر محبوب یعنی یوسفؑ کو پایا۔ لیکن تب تک وہ اپنے محبوب کے عشق میں اس قدر فنا ہو چکی تھی کہ اس کو اپنا احساس ہی نہیں تھا۔ احساس تھا تو صرف یوسفؑ کا۔اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ سے فرمایا:
یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ اَلْمَحَبَّۃِ حِجَابٌ بَیْنَ الْمُحِبِّ وَ الْمَحْبُوْبِ فَاِذَا فَنِی الْمُحِبُّ عَنِ الْمَحَبَّۃِ وَصَلَ بِالْمَحْبُوْبِ (الرسالۃ الغوثیہ)
ترجمہ: ’’اے غوث الاعظمؓ! محبت محب اور محبوب کے درمیان حجاب ہے۔ پس جب محب محبت سے فنا حاصل کر لیتا ہے تب وہ محبوب سے وصال پا لیتا ہے۔‘‘
اللہ پاک کے اس فرمان کے مطابق محبت محب اور محبوب کے درمیان حجاب ہے اور جب محب محبت سے فنا حاصل کر لے تو وہ وصال پا لیتا ہے اور جب تک محب اور محبوب ایک نہیں ہو جاتے دوئی باقی رہتی ہے اور دوئی حجاب ہے۔ بقول حضرت سخی سلطان باھوؒ:
باجھ وصال اللہ دے باھوؒ، سب کہانیاں قصے ھوُ
مفہوم: اللہ کے وصال کے بغیر دوسرے سب مقامات و مراتب اور احوال کہانیاں اور قصے ہیں۔
استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا: تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔الرسالۃ الغوثیہ تصنیف لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
۳۔نور الہدیٰ خورد: تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ
۴۔ سلطان الوھم: تصنیفِ لطیف ایضاً
عشق ایک شعلہ ہے جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔
Behtareen
بقول بلھے شاہؒ:
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
آکھو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نہ آکھے کوئی
مفہوم: رانجھا یعنی اپنے محبوب کو پکارتے پکارتے میں نے اپنی ہستی فراموش کر دی اب مجھے کوئی ہیر نہ کہے بلکہ رانجھا ہی کہے۔
محبت کے سمندر میں غرق ہونے والے کو کیا خطاب دیا جائے گا کیونکہ جب بلبلہ ختم ہو جاتا ہے تو وہ پانی ہی بن جاتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
Bohat behtreen
مرشد کامل اکمل صاحبِ اسمِ اللہ ذات ہوتاہے جو ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے من میں عشق کی چنگاری پیدا کرتا ہے اور اپنی نگاہِ کامل سے اس چنگاری کو عشق کی دہکتی ہوئی آگ میں بدل دیتا ہے جس کے سوز میں طالبِ مولیٰ ہر لمحہ اپنے محبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔
Very interesting article
Accha likha, interesting topic
Bohot khoob ♥️♥️
باجھ وصال اللہ دے باھوؒ، سب کہانیاں قصے ھوُ
مفہوم: اللہ کے وصال کے بغیر دوسرے سب مقامات و مراتب اور احوال کہانیاں اور قصے ہیں
باجھ وصال اللہ دے باھوؒ، سب کہانیاں قصے ھوُ
مفہوم: اللہ کے وصال کے بغیر دوسرے سب مقامات و مراتب اور احوال کہانیاں اور قصے ہیں۔
عشق ایسی آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر شے کو جلادیتی ہے۔🌹🌹🌹🌹🌹🌹❤️❤️❤️❤️❤️
باجھ وصال اللہ دے باھوؒ، سب کہانیاں قصے ھوُ
محبوب سے وصال پا کر محب عین محبوب بن جاتا ہے تب ان کے درمیان کوئی حجاب باقی نہیں رہتا۔
بہترین آرٹیکل ہے
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
آکھو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نہ آکھے کوئی
بہت اعلیٰ تحریر ہے
بیسٹ آرٹیکل
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عشق آں شعلہ است کہ چوں بر افروخت
ہر چہ جز معشوق باشد باقی جملہ سوخت
ترجمہ: عشق ایک شعلہ ہے جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَوْنُ الْمُحِبِّ لَوْنُ الْمَحْبُوْبِ
ترجمہ: محب کا رنگ وہی ہوتا ہے جو اس کے محبوب کا رنگ ہوتا ہے