اخلاقی پستی کے اسباب اور ان کا حل
( Ikhlaqi Pasti Kay Asbab Aur Un Ka Hll)
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
کسی بھی معاشرے ، ملک یا قوم کی ترقی کا انحصار اس ملک یا قوم کے نوجوان طبقہ پر ہوتا ہے جو جتنا زیادہ پرُجوش، مہذب، متحد اور اصلاح یافتہ ہوگا معاشرہ یا قوم اتنی ہی زیادہ تیزی سے ترقی کرے گی۔ تاہم آج ہم اپنے معاشرے یا ملک میں نظر دوڑائیں اور اپنی نوجوان نسل کو دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم کس ڈگر پر چل پڑے ہیں۔۔۔ آج کا مسلم معاشرہ اخلاقی پستی کی انتہا پرہے۔عبادات کی کثرت ہے لیکن اخلاقی طور پر حیوانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ برائیاں جو سابقہ تمام انبیا کی اُمتوں میں الگ الگ موجود تھیں وہ سب آج کی امتِ مسلمہ و معاشرے میں مجموعی طور پر موجود ہیں۔ ہم اشیا میں ملاوٹ کرتے ہیں، ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، بے راہ روی کا شکار ہیں، حلال و حرام کی تمیز کھو چکے ہیں۔ فرقہ پرستی کی دلدل میں سر سے پاؤں تک دھنسے ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر نفسانی بیماریاں مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی،بہتان، غرور و تکبر، خود پسندی، بے حیائی وغیرہ معاشرے میں بکثرت موجود ہیں۔ نوجوان نسل کے مشاغل سیر و تفریح کے علاوہ کچھ نہیں۔ خواتین کو غیبت اور چغل خوری سے فرصت نہیں۔ بچوں کی اصلاح و تربیت کی جانب کسی کی توجہ نہیں بلکہ بچوں کو خود ایسی چیزیں سکھائی جا رہی ہیں جو آگے جا کر ان کی شخصیت کو مسخ کر دیتی ہیں۔ پھر والدین شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہو رہے ہیں۔جبکہ ان سب کے پیچھے اصل محرک وہ خود ہی ہیں کیونکہ بچے کی اوّلین درسگاہ اس کا گھر اور خاص طور پر ماں کی گود ہے۔
ذیل میں کچھ ایسے عناصر بیان کیے جا رہے ہیں جوآج ہماری اخلاقی پستی کا سبب ہیں اور جن کی روک تھام اور ان سے بچاؤ کے ذریعے ہی ہم اخلاقی طور پر بہتر ہو سکتے ہیں اور ایک فلاح یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
اللہ سے دوری
اخلاقی پستی کا سب سے بنیادی سبب اللہ سے دوری، اس کے قرب کی لذت اور اہمیت سے ناآشنائی ہے۔ ہماری عبادات کھوکھلی اور روح سے یکسر عاری ہیں۔ بکثرت عبادات کرتے ہیں لیکن ان عبادات کی فرضیت کے مقصد سے مکمل طور پر غافل ہیں اور نہ ہی نئی نسل کی اس جانب کوئی توجہ اور رجحان ہے۔ دین ہمارے لیے ایک اضافی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ اللہ سے قلبی و روحانی تعلق نہ ہونے کے برابر ہے اور دین کے احکامات کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ جب توجہ ہی نہ ہوگی تو ان پر عمل کرنا تو دور اِن کو سیکھنا ہی محال ہوگا۔
احکاماتِ الٰہی سے غفلت
اخلاقی پستی کی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دینِ اسلام کی تعلیمات سے غافل اور قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ اگر قرآن و حدیث کے فرامین و احکامات یاد بھی آتے ہیں تو محض اپنے دنیوی مفادات کے حصول کی خاطر نہ کہ اپنی اور ظاہری و باطنی اصلاح و درستی کے لیے۔ اس لیے صرف برائے نام مسلمان ہیں جس کی دنیا میں کوئی عزت و وقار نہیں۔ بقول اقبالؒ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
ہم اگر کتابیں پڑھتے بھی ہیں تو محض مطالعہ کی عادت سے مجبور ہو کر۔ کیونکہ عمل کی طرف توجہ تو ہے ہی نہیں۔ قرآن میں ان کی مثال یوں بیان کی گئی ہے:
کَمِثْلِ الْحِمَار یَحْمِلُ اَسْفَارًا (سورۃالجمعہ۔5)
ترجمہ: وہ گدھے کی مثل ہیں جو اپنی پیٹھ پر بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو۔
مال و دولت کی محبت
اخلاقی پستی کی ایک اہم وجہ مال و دولت کی محبت ہے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں طرح طرح کی آسائشات اور سہولیات کی فراوانی ہو چکی ہے جن کے حصول کے لیے ہر شخص دیوانہ ہو رہا ہے اور ان آسائشات اور آرزوؤں کی تکمیل کے لیے ہر شخص جائز و ناجائز اور حرام و حلال ہر طریقے سے مال و دولت کمانے پر کمربستہ ہے۔ اللہ پاک کی ذات پر توکل برائے نام ہی ہے۔توجہ مسبب الاسباب کی بجائے اسباب پر ہے۔
دوسری جانب امیر لوگ امیر تراور غریب لوگ غریب ترہوتے چلے جا رہے ہیں۔ امرا کے پاس مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر غربامیں احساسِ کمتری پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ کی ذات پر نہ یقین ہے نہ توکل۔ اگر یقین و توکل ہو تو انسان اللہ کی تقسیم پر بھی راضی ہو کیونکہ اللہ پاک نے واضح طور پر قرآن میں ارشاد فرما دیا ہے:
ترجمہ: فرما دیجئے کہ میرا ربّ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگ فرما دیتا ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے۔ (سورۃالسبا۔37)
ترجمہ: اور زمین پر چلنے والے ہر جاندار کی ذمہ داری اللہ پر ہے۔ (سورۃ ھود۔6)
بے راہ روی
اخلاقی پستی کا ایک سبب بے راہ روی ہے۔ ہم خود کو ہر قید و پابندی سے آزاد کر چکے ہیں۔ جو ذرا سا بھی مذہبی دکھائی دیتا ہے اس کے اوپر دقیانوسی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ماڈرن اِزم کے نام پر فحاشی و عریانی عام ہو چکی ہے۔ مرد و خواتین اپنی حدود و قیود کو بھول چکے ہیں۔ ماڈرن زمانہ اور ماڈرن سوچ کے نام پر آزادانہ خیالات اور ماحول کو ترویج دی جا رہی ہے۔بچے اور نوجوان نسل جب یہ کھلا اور مخلوط ماحول دیکھتے ہیں تو اسی کو اپنا لیتے ہیں ۔یہ بچے اور نوجوان ہی ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اگر بنیاد ہی خراب ہو گی تو عمارت کا معیار کیا ہوگا انسان خود اندازہ لگا لے۔
ظاہری نمود و نمائش
اخلاقی پستی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ظاہری نمود و نمائش اور آرائش پر ہماری توجہ بڑھتی جا رہی ہے جبکہ تزکیۂ نفس اور قلب کی پاکیزگی کی طرف توجہ بالکل نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بظاہر تو انسان بہت مہذب اور سلجھا ہوا نظر آتاہے لیکن اخلاقی اور روحانی طور پر ہر برائی اس میں موجود ہوتی ہے۔ طرح طرح کی منفی سوچیں اس کا احاطہ کیے رکھتی ہیں۔اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ انسان نے بظاہر توصاف اور پاکیزہ لباس پہن رکھا ہو لیکن اس کا وجود غسل واجب ہونے کی بنا پر ناپاک ہو۔
دوسروں کی عزت بھی کرتے ہیں تو محض اپنے مفادات کے حصول کی خاطر یا دوسروں کی امارت سے مرعوب ہو کر۔ عزت و ادب کا معیار بزرگی و تقویٰ کی بجائے مال و دولت بن چکا ہے۔جو جتنا زیادہ امیر اس کی معاشرے میں اتنی ہی عزت اور و قار۔
تحقیق کی عدم موجودگی
دنیا ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ ہر شعبہ میں نئی نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں۔ سائنسدان خلا کو فتح کرنے کی جستجو میں ہیں جبکہ مسلمانوں نے خود کو تحقیق سے دور کر لیا ہے۔ کسی بھی شعبہ میں تحقیق کا رحجان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسلاف کی جدوجہد کا ڈھنڈورا ہی پیٹا جا رہا ہے خود سے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف اس کائنات میں بلکہ خود میں بھی غور و فکر کیا جائے، تحقیق کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد ہی پیدا نہیں کی۔
خود کو ہر برائی سے مبرا سمجھنا
اخلاقی پستی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج انسان کسی بھی غلط کام یا غلطی یا برائی کاذمہ دار خود کو نہیں ٹھہراتا بلکہ دوسروں کو ہی اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے کیونکہ اسے اپنی کوئی خامی اور کوتاہی نظر نہیں آتی۔ وہ خود کو کامل اور مکمل جبکہ دوسروں کو خام و ناقص سمجھتا ہے۔ دھیان دوسروں کی کمزوریوں اور غلطیوں کی جانب ہے اپنی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کم ہے۔ بے جا تنقید اور بحث مباحثہ کی وجہ سے آپس کے تعلقات اور رشتے بھی خراب کر لیتا ہے۔
اس کے علاوہ انسان کو صرف اپنے حقوق یاد رہتے ہیں، اس کے ذمہ جو فرائض ہیں ان کی انجام دہی سے یکسر غافل ہے۔ بطور باپ، بیٹا، بھائی یا بطور ایک عام شہری اس کے ذمہ جو فرائض ہیں ان سے انسان مکمل طور پر غافل اور انجان ہو چکا ہے۔ امیر و غریب کے لیے علیحدہ علیحدہ قوانین ہیں۔ امیر جرم کرے تو اسے کوئی سزا نہیں اور اگر وہی جرم کسی غریب سے سرزد ہو جائے تو اسے نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ عدل و انصاف کی یکسر کمی ہے۔امیر لوگ مال و دولت کی وجہ سے غرور و تکبر میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اسی تکبر کے نشے میں وہ کوئی بھی گناہ یا جرم کرنے سے نہیں چوکتے۔
اتحاد کا نہ ہونا
اخلاقی پستی کی ایک بہت ہی اہم وجہ اتحاد کا نہ ہونا ہے۔ بطور امت ہماری قوم بالکل بھی متحد نہیں ہے اور نہ ہی وہ ملک و قوم کی فلاح و ترقی کے لیے متحد ہو کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہر شخص اپنی ضروریات اور اپنے مفادات کی خاطر سرگردان ہے پس کسی دوسرے شخص یا معاشرے کی فلاح و بہبود سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ جب قوم ہی متحد نہ ہوگی اور ان کا ایک مقصد نہ ہوگا تو وہ پستی کا شکار ہی ہوں گے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
فرسودہ رسومات کو اپنانا
اخلاقی پستی کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے فرسودہ رسومات کو اپنا لیا ہے اور اکثر اوقات اس حد سے بھی گزر جاتے ہیں کہ غیر شرعی و غیر اخلاقی طور طریقے بھی اپناتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے۔ بعض اوقات غیر مسلموں کی روایات و رسومات کو بھی اپنا لیتے ہیں۔
ادب و احترام سے عاری
دورِ حاضر میں لوگ ادب و احترام کو یکسر فراموش کر چکے ہیں۔ اگر بظاہر کسی کے لیے ادب و احترام اختیار کیا بھی جاتا ہے تو دل پھر بھی بغض و عناد سے بھرا ہوتا ہے۔ بزرگوں کا ادب کرنا تو درکنار دوست احباب بھی آپس میں ادب و احترام کے جذبہ سے عاری ہیں۔ بزرگانِ دین اور اولیا کاملین کے تعلیمات اور سیرت کی پیروی کرنا تو دور کی بات ان کی بے ادبی کی جاتی ہے۔ فقرا کاملین کا ادب و احترام کرنے والے عقیدتمندوں کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا تمام عوامل اور عناصر جو اخلاقی پستی کا سبب بنتے ہیں، ان سب کا ایک ہی علاج اور حل ہے اور وہ یہ کہ بطور امت اور بطور معاشرہ ہمیں اخلاقی طور پر ٹھیک ہونا چاہیے۔ ہمارا بحران معاشی نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔ ہمیں قلبی و روحانی پاکیزگی کی ضرورت ہے جو کہ فقرا کاملین کی صحبت سے میسر آتی ہے۔ فقرا کاملین کی صحبت کی نورانی تاثیر سے زنگ آلود نفوس اور قلوب کو تزکیہ نفس کی دولت عطا ہوتی ہے۔ انسان روحانی ترقی حاصل کرتا ہے اور اخلاقی طور پر اصلاح پا لیتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ
ترجمہ: اللہ کے اخلاق سے متخلق ہو جاؤ۔
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ نفسانی برائیوں اور بیماریوں سے نجات حاصل کر کے اللہ کی صفات کو اپنایا جائے اور اللہ کے رنگ میں خود کو رنگا جائے۔
معاشرے کے افراد برے نہیں بلکہ مختلف برائیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں اور یقینا اس معاشرے میں اچھے انسان بھی موجود ہیں۔ آج اگر یہ دنیا قائم ہے تو انہی اللہ کے محبوب بندوں اور اچھے لوگوں کی بدولت۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد، فقیرِکامل مکمل اکمل اور جامع نور الہدیٰ ہیں جنہوں نے اپنی نگاہِ کامل سے زنگ آلود قلوب کو پاکیزہ کر کے حیاتِ نو بخشی ہے۔ آپ کے فیضِ لامحدود نے دنیا بھر میں لاکھوں طالبانِ دنیا کو معرفتِ الٰہی سے روشناس فرما کر طالبانِ مولیٰ بنا دیا ہے۔ نفسی و قلبی صفائی سے عشقِ حقیقی کی دولت سے سرفراز فرما دیا ہے۔ ظاہر و نفس پرستی سے دھیان و توجہ ہٹا کر قلبی و باطنی اصلاح و درستی کی جانب توجہ مبذول کرا دی ہے اور یہ سلسلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید جوش و جذبے سے دنیا بھر میں جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔ اسی لیے ہر خاص و عام مرد و عورت کے لیے دعوت ہے کہ وہ جس بھی فرقہ و مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کسی بھی عمر کا ہو، اپنی اخلاقی اصلاح اور تزکیہ نفس کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذات سے وابستہ ہو۔ آپ کی ظاہری و باطنی تربیت اور راہنمائی میں نہ صرف ایک اچھا مسلمان بن کر قربِ حق میں بھی ترقی کرے بلکہ ایک اچھا انسان بھی بنے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاقی پستی سے نکال کر وہ عروج و کمال عطا فرمائے جو اللہ کے انعام یافتہ بندوں کو عطا ہوا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاقی پستی سے نکال کر وہ عروج و کمال عطا فرمائے جو اللہ کے انعام یافتہ بندوں کو عطا ہوا۔
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
بیسٹ آرٹیکل
بےشک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس دور کے فقیرِ کامل ہیں اور اپنی نگاہِ کامل سے زنگ آلود قلوب کو نورِ حق سے منور فرماتے ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد، فقیرِکامل مکمل اکمل اور جامع نور الہدیٰ ہیں جنہوں نے اپنی نگاہِ کامل سے زنگ آلود قلوب کو پاکیزہ کر کے حیاتِ نو بخشی ہے۔
میں نے اس مضمون کو پڑھا ہے بہت بہترین لکھا ہے ماشاءاللہ
Allah meri hifazat kare
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
Great
فقرا کاملین کی صحبت کی نورانی تاثیر سے زنگ آلود نفوس اور قلوب کو تزکیہ نفس کی دولت عطا ہوتی ہے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
بہت عمدہ تحریر ۔۔ اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔۔
Behtreen
Behtareen
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اللہ پاک ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاقی پستی سے نکال کر وہ عروج و کمال عطا فرمائے جو اللہ کے انعام یافتہ بندوں کو عطا ہوا۔
کسی بھی معاشرے ، ملک یا قوم کی ترقی کا انحصار اس ملک یا قوم کے نوجوان طبقہ پر ہوتا ہے جو جتنا زیادہ پرُجوش، مہذب، متحد اور اصلاح یافتہ ہوگا معاشرہ یا قوم اتنی ہی زیادہ تیزی سے ترقی کرے گی۔ تاہم آج ہم اپنے معاشرے یا ملک میں نظر دوڑائیں اور اپنی نوجوان نسل کو دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم کس ڈگر پر چل پڑے ہیں۔۔۔ آج کا مسلم معاشرہ اخلاقی پستی کی انتہا پرہے۔عبادات کی کثرت ہے لیکن اخلاقی طور پر حیوانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔