کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


Rate this post

کلید التوحید (کلاں)

  Kaleed ul Tauheed Kalan

قسط نمبر25                                                                       مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

جو مرشد تصور اسمِ  اللہ ذات، تصور اسمِ محمد اور تصور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حاضرات سے طالبِ مولیٰ کو ان تین مقامات اور تین مراتب کا سبق نہیں دیتا اور نہ ہی یہ عطا کرتا ہے تو اسے مرشد کامل نہیں کہا جا سکتا اور اس کا طالب پریشان اور بے جمعیت رہتا ہے۔ جمعیت کسے کہتے ہیں؟ جان لو کہ جمعیت کی شرح کے لیے بیشمار دفاتر درکار ہیں۔ تاہم جمعیت کی اساس اور مغز کو اس طرح سمجھا جا سکتا کہ دودھ کے اندر تھوڑی لسی ڈال دی جائے تو دودھ جمعیت پکڑ لیتا ہے۔ دودھ کی اس جمعیت کو دہی کہتے ہیں اور جب دہی کو بلویا جاتا ہے تو اس میں سے مکھن نکلتا ہے اور جب مکھن کو آگ پر پکایا جاتا ہے تو دیسی گھی نکلتا ہے۔ پس عارفین کے وجود میں بھی اس لازوال ذات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ میں غلط نہیں کہتا جمعیت قدرتِ الٰہی کی لطافت اور التفات کا لطیف لباس ہے جو معرفتِ الٰہی اور نورِ توحید سے تیار ہوتا ہے۔ جمعیت کا یہ لباس وہی پہن سکتا ہے جو ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں منظور اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف رہتا ہو۔ یہ لطیف لباسِ جمعیت جو معرفت اور نورِ حضور سے بنا ہوتا ہے وجود کو مغفور کر دیتا ہے۔ جمعیت کا یہ لباس اس کو پہنایا جاتا ہے جو مردار دنیا کی گندگی سے پاک ہو کر دائمی بندگی اختیار کر لیتا ہے۔ بندگی ذکر کے ذریعے دل کو زندگی عطا کرتی ہے۔ مردہ دل جو خطرات کا شکار ہوتے ہیں ان کے لیے ذکر بندگی نہیں بلکہ شرمندگی ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا مقامِ خواہشِ نفس ہے اور عقبیٰ مقامِ ہوس ہے اس لیے صاحب ِ جمعیت کا ان دونوں مقامات سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ جمعیت کے مزید معنی یہ ہیں کہ اٹھارہ ہزار عالم اور اس کی تمام مخلوقات قفل کی مثل ہیں اور جمعیت کلید ِ کُل ہے۔ جیسے ہی جمعیت کی کلید ِ کُل جز کے قفل میں لگتی ہے تو تمام مراتب کو کھول دیتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جمعیت اسمِ اللہ ذات میں ہے۔ جو اسمِ اللہ ذات کی کنہ تک پہنچ جاتا ہے اسے مقاماتِ ذات و صفات کے مشاہدہ اور کشف و کرامات کی ضرورت نہیں رہتی۔ جمعیت ایک نادر نور ہے جو دونوں جہان پر قادر ہوتا ہے۔ فنا فی اللہ فقیر صاحبِ جمعیت ہوتا ہے اور اس کے مراتب یہ ہیں کہ وہ اپنے نفس پر امیر اور روشن ضمیر ہوتا ہے اور دونوں جہان فقیر کی قید اور غلامی میں ہوتے ہیں اور اس کی زبان پر ہمیشہ باتاثیر علمِ تفسیر ہوتا ہے۔ جمعیت ایک نور ہے جس کی اصل توفیقِ الٰہی کی بدولت مغزِ معرفت اور توحید کی تصدیق پر مبنی ہے۔ وہ نورِ جمعیت جو غیب الغیب ہے‘ قلب کے درمیان آفتاب کی مثل طلوع ہو کر روشنی کا فیض بخشتا ہے اور اس قدر واضح ہوتا ہے کہ دونوں جہان کا نظارہ ناخن کی پشت پر نظر آتا ہے۔ اسے بھی جمعیت کہتے ہیں۔ جان لو کہ جمعیت کے پانچ حروف ہیں۔ جمعیت کا ہر حرف ہر ایک مقام اور اس کے تصور، تصرف اور نظارہ کی نعمت بخشتا ہے اور ان پانچوں مقامات کو صاحبِ جمعیت اس طرح اپنے قبضہ اور تصرف میں لے آتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی افسوس باقی نہیں رہتا۔ وہ جو کچھ جانتا ہے اس کو اپنے تصرف میں لے آتا ہے۔ مقامِ جمعیت تمام علوم کا جامع ہے جو حیّ و قیوم ذات کا تحقیق شدہ علم عطا کرتا ہے۔ پانچ گنج اور پانچ مقام جس میں کامل نعمت اور تصرف ہے‘ یہ ہیں اوّل مقامِ ازل اور اس کی نعمتوں اور خزانوں کا تصرف، دوم مقامِ ابد اور اس کی نعمتوں اور خزانوں کا تصرف، سوم مقامِ دنیا اور اس کی نعمتوں اور خزانوں کا تصرف، چہارم مقامِ عقبیٰ اور اس کی نعمتوں اور خزانوں کا تصرف اور پنجم قربِ وحدانیت فنا فی اللہ بقا باللہ کے اعلیٰ مقام اور اس کی نعمتوں اور خزانوں کا تصرف۔ یہ جمعیت کی انتہا ہے۔ جو مرشد روزِ اوّل اسمِ اللہ ذات، اسمِ محمد اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حاضرات سے طالبِ مولیٰ کو جمعیت کے ہر مقام تک پہنچاتا ہے پس تحقیق وہی مرشد کامل ہے۔ خام و ناقص مرشد اہلِ زندیق ہے جو جھوٹا اور لافزن ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔

کیا تو جانتا ہے کہ کارِ رحمانی و شیطانی اور انسانی کی تاخیر اور مہلت میں تاثیر کے لحاظ سے کیا فرق ہے؟ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کے ہر خاص و عام کی زبان پر اللہ کے نام کا ورد ہوتا ہے یا وہ قرآن حفظ کر کے اس کی تلاوت کرتے اور مسائلِ فقہ کا علم پڑھتے ہیں لیکن ان کی زبان سے جھوٹ، دل سے نفاق اور وجود سے حرص، حسد اور تکبر کیوں نہیں جاتا؟ اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ اللہ کا نام اخلاص سے نہیں لیتے اور نہ ہی اللہ کی رضا کی خاطر اس کا کلام اور علم سیکھتے ہیں اور تند و تیز ہوا کی مثل رسماً اَللّٰہُ ھُوْ اَللّٰہُ ھُوْ  پڑھتے ہیں۔ جو کوئی اللہ کے نام اور اس کے کلام کی کنہ تک پہنچ جاتا ہے وہ اللہ سے آشنا ہو جاتا ہے۔ اس کا نفس فنا اور اس کا قلب باصفا ہو جاتا ہے اور اس کی روح بقا پا لیتی ہے جس کے بعد اسے مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری حاصل ہو جاتی ہے اور وہ دونوں جہان کا نظارہ ناخن کی پشت پر دیکھتا ہے۔ جو کوئی اللہ کے نام سے آشنا ہو جائے اور کامل اخلاص کے ساتھ اسے پڑھے تو وہ دونوں جہان میں صدق کی چوگان سے معرفت کی بازی لے جاتا ہے۔ اللہ کا نام اس قدر عظیم اور عظمت کا حامل ہے کہ مشاہدۂ نور حضور، کامل معرفت اور ہر شے کی ابتدا و انتہا اس کے اندر ہے۔ لیکن اخلاص سے اللہ کے نام کو پڑھنا اور ہمیشہ مطالعہ ٔ دل کے استغراق میں غرق رہنا جس طرح علما ہمیشہ ورق ورق کتاب کے مطالعہ میں غرق ہوتے ہیں‘ عارفین کے بال و پر ہیں۔ 

ابیات:

بر در درویش رو ہر صبح و شام
تا ترا حاصل شود مطلب تمام

ترجمہ: درویش کے در پر صبح و شام حاضری دے تاکہ تجھے تیرے سب مطالب حاصل ہو جائیں۔

گر ترا بر سر زند سر پیش نہ
آنچہ داری در ملک درویش دہ

ترجمہ: اگر وہ تیرا سر بھی اتارنا چاہیں تو اپنا سر ان کے سامنے رکھ دے اور جو کچھ تیرے پاس ہے اس درویش کے لیے وقف کر دے۔

دادۂ درویش یابی جاودان
از نظر درویش شد شاہِ جہان

ترجمہ: درویش کو تو جو کچھ دے گا اس کے بدلے جاودانی زندگی پائے گا اور درویش کی نظر سے تو جہان کا بادشاہ بن جائے گا۔

ہر کہ مقبول است درویش از نظر
شد مراتب او ز بالا عرش تر

ترجمہ: جو درویش کی نظر میں مقبول ہو اس کے مراتب عرش سے بھی بالاتر ہوتے ہیں۔

جان لو کہ درویش اور فقیر کے مراتب میں کیا فرق ہے؟ مراتب ِ درویش یہ ہیں کہ وہ ظاہری آنکھوں سے ہمیشہ لوحِ محفوظ کے مطالعہ میں مشغول رہتا ہے۔ فقیر ایسے مراتب کے حامل درویش کو نجومی کہتے ہیں یعنی وہ مراتب ِ نجومی کا حامل ہوتا ہے جبکہ فقیر فنا فی اللہ اور غرق فی التوحید کی بدولت حی ّ و قیوم کے مراتب کا حامل ہوتا ہے۔ مرتبۂ درویش مریض کی مثل ہے جبکہ مرتبہ ٔفقیر طبیب کی مثل ہے۔ درویش کی نظر سے وجود میں احمقانہ پن پیدا ہوتا ہے۔ احمقانہ پن کے مراتب کیا ہیں؟ کہ مفلس ماہی گیر کو مرتبہ بادشاہی پر پہنچا دینا۔ جبکہ فقیر کی نظر سے آدمی روشن ضمیر اور دونوں جہان پر امیر بنتا ہے اور وہ معرفتِ الٰہی اور نورِ ذات کی تجلیات کے مشاہدہ میں اس طرح مستغرق ہوتا ہے کہ اگر اسے سلطنتِ سلیمانیؑ کی بادشاہی بھی عطا کی جائے تو اسے قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ باطن میں مرد ہوتا ہے اور اس کا دل دنیا، اہلِ دنیا اور مال و دولت سے بیزار ہو تا ہے۔ کیا تو جانتا ہے کہ علما میں مرشد کے وسیلے کے بغیر علم کے کثیر مطالعہ سے جلال، جذب، غضب اور غصہ پیدا ہوتا ہے جبکہ فقیر میں تصور اسمِ اللہ ذات کی بدولت معرفتِ الٰہی اور نورِ بصیرت پیدا ہوتا ہے، صاحبِ جلال و غضب اور صاحبِ نظر و بصیرت کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ جو قہر اور غصے کو ترک کر دیتا ہے وہ معرفتِ الٰہی اور بصیرت کو پا لیتا ہے اسی طرح جو قیل و قال کو چھوڑ دیتا ہے وہ معرفتِ الٰہی اور وصال کو پا لیتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
 مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ  
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔

مطلب یہ کہ جو کوئی ایک ہی بار اخلاص، یقین، اعتقاد اور صدق سےیَا اَللّٰہُ  کہتا ہے تو اللہ کا نام لیتے ہی مقامِ ازل و ابد، مقامِ دنیا و عقبیٰ اور مقامِ معرفت ِ مولیٰ اس پر واضح ہو جاتے ہیں اور جو بھی جاودانی نعمتیں ہیں‘ سب اس کے تصرف میں آ جاتی ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو اتنے سنگ دل ہیں کہ رات دن ذکر ِ جہر سے  یَا اَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ  پڑھتے رہتے ہیں لیکن اسمِ اللہ ذات کی کنہ سے انجان ہوتے ہیں اور وہ رجعت خوردہ، اہلِ بدعت اور پریشان رہتے ہیں کہ ان کی لذت کا باعث خواہشاتِ نفسانی ہیں (نہ کہ ذکر)۔ پس معلوم ہوا کہ ان کی خلوت لوگوں کو پھنسانے کے لیے پھندہ ہے اور ان کا حجرہ طالب و مرید بنانے اور بادشاہ و امرا کو تسخیر کرنے کے لیے حجاب ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اسمِ اللہ ذات اعظم اور پاک ہے جو معظم وجود کے سوا کسی میں تاثیر نہیں کرتا اور نہ قرار پکڑ کر نفع دیتا ہے جب تک مرشد کامل کی عطا سے اخلاصِ خاص نہ اختیار کیا جائے۔ جان لے کہ مراتبِ فقیر یہ ہیں کہ عین العیان کے مراتب کا حامل ہوتا ہے اور دونوں جہان اس کے منتظر اور اس کے لیے پریشان رہتے ہیں اور دل و جان سے اس کے عاشق ہوتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو ایک دوسرے کو طالب اور مرشد کہتے ہیں لیکن مرشدی و طالبی کی حقیقت نہیں جانتے۔ وہ دونوں احمق اور نادان ہیں۔ مرشد کامل محبوبِ الٰہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثل اور طالب اصحابِ کبار کی مثل جانثار ہونا چاہیے جن کی غذا رات دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار تھا اور وہ کفر و شرک اور بدعت سے استغفار کرتے تھے۔ جو شخص شریعتِ محمدی اور اصحابِ کبارؓ کے (طریقے کے) خلاف کرتا ہے وہ ملعون ہے اور وہ مرشدی کے لائق کیسے ہو سکتا ہے؟ مرشدی کا سلک سلوک شریعت اور قرآن سے اخذ کیا گیا ہے اور یہ شریعت اور قرآن کی طرف ہی لے جاتا ہے۔ یہ مشاہدۂ حضوری کا طریق ہے جو اسمِ اللہ ذات اور آیاتِ قرآن سے حاصل ہوتا ہے اور اسے فنا فی اللہ کا طریق کہتے ہیں۔ ابیات:

ہر کہ فی اللہ گشت فانی باخدا
از جاں گزشتہ آنچہ بیند شد روا

ترجمہ: جو اپنی جان کو قربان کر دے اور اللہ کی ذات سے مل کر اس میں فنا ہو جائے وہ جو کچھ دیکھتا ہے درست ہوتا ہے۔ 

عقل و فکر کی رسد فی اللہ جمال
معرفت دیدار را گویند وصال

ترجمہ: عقل و فکر کی رسائی اللہ کے جمال تک نہیں ہے۔ معرفتِ دیدار کو وصال کہتے ہیں۔

جز لقائش معرفت منظور نیست
عارفان را جز خدا مذکور نیست

ترجمہ: اللہ کے دیدار اور اس کی معرفت کے علاوہ عارفین کو کچھ بھی منظور نہیں اور نہ ہی وہ اللہ کے سوا کسی کی بات کرتے ہیں۔

گرچہ عارف بستہ لب باشد مدام
باخدا ہم سخن مذکورش تمام

ترجمہـ: اگرچہ عارف ہمیشہ خاموش رہتا ہے لیکن وہ ہر لمحہ اللہ کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے۔

ہر کہ ایں جائی نہ بیند دل سیاہ
حب دنیا دل سیاہی سر گناہ

ترجمہ: جس نے اس دنیا میں اللہ کا دیدار نہ کیا اس کا دل سیاہ ہوتا ہے اور اس کے دل کی یہ سیاہی حب ِ دنیا کے باعث ہے جو کہ گناہوں کی جڑ ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ 
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سورۃ بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: جو اس (دنیا) میں (حق کے دیدار سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔

بیت:

آں چشم دل دیگر بود بیند روا
نہ کہ ایں چشمی بود با سر ہوا

ترجمہ: دل کی آنکھ سے ہی اللہ کا دیدار کیا جا سکتا ہے نہ کہ ان ظاہری آنکھو ں سے جو خواہشاتِ نفسانی میں مشغول رہتی ہیں۔

جو عارف باللہ اس مراقبہ اور مکاشفہ میں مشغول ہو گویا وہ اپنی جان سے آزاد ہو چکا ہوتا ہے۔ بیت:

آں زبان دیگر است باحق بیان
ایں زبانِ لافزن دیگر بیان

ترجمہ: حق بیان کرنے والی زبان یہ ظاہری زبان نہیں ہوتی کیونکہ یہ ظاہری زبان تو جھوٹ بولنے میں مصروف رہتی ہے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلسَّکُوْتُ تَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ رِضَآئُ الرَّبِّ 
ترجمہ: سکوت مومنین کا تاج اور حق تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے۔
مصنف کا فرمان ہے:
اَلسَّکُوْتُ مِفْتَاحُ الْعِبَادَۃِ۔ اَلسَّکُوْتُ مَکَانُ الْجَنَّۃِ۔ اَلسَّکُوْتُ مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ۔ اَلسَّکُوْتُ حِصَارٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ۔ اَلسَّکُوْتُ خَیْرُ الْبَشَرِ۔ اَلسَّکُوْتُ سُنَّتُ الْاَنْبِیَآئِ۔ اَلسَّکُوْتُ نَجَاۃٌ مِّنَ النَّارِ۔ اَلسَّکُوْتُ قُرْبُ الرَّبِّ۔ اَلسَّکُوْتُ غَرْقُ فِی التَّوْحِیْدِ النُّوْرِ۔ 
ترجمہ: سکوت عبادت کی چابی ہے۔ سکوت جنت کا مکان ہے۔ سکوت اللہ کی رحمت ہے۔ سکوت شیطان سے (بچاؤ کا) حصار ہے۔ سکوت انسان کے لیے بھلائی ہے۔ سکوت انبیا کی سنت ہے۔ سکوت آگ سے نجات کا باعث ہے۔ سکوت اللہ کے قرب کا باعث ہے۔ سکوت نورِ توحید میں استغراق ہے۔

سکوت اور خاموشی کے لائق وہی ہے جو دائمی مشاہدۂ حضوری میں رہتا ہو۔ ایسے صاحبِ سکوت کو لاھوُت کا مکین کہتے ہیں اور اصل سکوت یہ ہے کہ جسم و جان سے آزاد ہو کر لامکان میں غرق ہوا جائے۔ جو سکوت اس طریقے کا نہیں وہ محض مکاری ہے جو رجوعاتِ خلق کے لیے اختیار کیا گیا ہے کیونکہ اس طرح کا سکوت شیطان کا مکر اور نفسِ امارہ کا فریب ہے۔ شیطان عارف باللہ فقیر ولی اللہ کے ساتھ سات حربے استعمال کرتا ہے اوّل ایسے سکوت کے ذریعے جو اللہ کے اشتغال کے بغیر ہو۔ دوم خلوت کے ذریعے‘ کہ یہ بیابان میں اختیار کی جانی چاہیے اور اس طریقے سے سنت جماعت اور نماز سے باز رکھتا ہے۔ سوم حربہ یہ کہ دنیا کا مال کثرت سے جمع کرو اور اسے یہ فریب دیتا ہے کہ تیرا یہ مال جمع کرنا مستحقین، درویشوں، فقرا، بیواؤں، یتیموں، مسکینوں اور عاجزوں پر خرچ کرنے کے لیے ہے نہ کہ طمعٔ نفس کے سبب۔ پس یہ بھی سراسر حیلۂ شیطانی ہے۔ جو زیادہ مال جمع کرتا ہے وہ زکوٰۃ دینے سے منکر ہو جاتا ہے۔ چہارم شیطانی حربہ یہ ہے کہ اپنی تعریف کی خاطر کشف و کرامات پر مغرور بنا دیتا ہے جس کے باعث وہ انانیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پنجم شیطانی حربہ یہ ہے کہ علما اور علم کے مخالف کر دیتا ہے۔ ششم شیطانی حربہ یہ ہے کہ وہ طالب سے کہتا ہے کہ تیرا مرتبہ مرشد کے مرتبے سے بلند تر ہے اور اپنے مرتبے پر نظر کر جس پر شیطان اسے دیگر شیاطین کا تماشا دکھاتا ہے اور طالب اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے اور شیطان اسے مرشد سے دور اور مردود کر دیتا ہے۔ ہفتم شیطانی حربہ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ تم  ’’اَنْتَ اَنَا وَاَنَا اَنْتَ  (تو میں ہے اور میں تو ہوں)‘‘ کے مرتبہ پر ہو اس لیے ظاہری عبودیت اور اسمِ اللہ ذات کے تصور کی ضرورت نہیں کیونکہ اسمِ اللہ ذات محض نام ہے اور میرا دیدار ہی اصل کام ہے۔ پس اگر طالب صدیق ہو اور مرشد کامل کا دستِ بیعت ہو تو وہ یقینا جان لیتا ہے کہ یہ سب حربے ملعون و زندیق شیطان کے ہیں پس وہ  لاَ حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا باِللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ کا ورد کرتا ہے اور شیطان کو قتل کر کے خود کو اس سے دور کرتا ہے۔ اس راہ میں صاحبِ توفیق مرشد کامل کا ساتھ ہونا چاہیے جو ہمیشہ طالب کا رفیق بن کر اس کے ہمراہ رہے اور ہر ظاہری و باطنی حالت میں اس کے قال، افعال اور اعمال کی حفاظت فرمائے اور اپنے سارے امور خدا کے سپرد کر کے خود کو درمیان سے نکال دے۔ 

بیت:

کار جہان چنان کہ تو خواہی اگر شود
ایمان نیاوری بہ خدائے جہاں کہ ہست

ترجمہ: اس دنیا کے کام اگر ویسے ہونے لگیں جیسے تو چاہتا ہے تو تجھے یہ یقین نہ ہوگا کہ اس جہان میں خدا بھی ہے۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ (سورۃ ابراہیم۔27)
ترجمہ: اللہ جو چاہتا ہے کر ڈالتا ہے۔
یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ (سورۃ المائدہ۔1)
ترجمہ: وہ (اللہ) جو چاہتا ہے اسی کا حکم فرماتا ہے۔

 (جاری ہے)

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں