قسط 14 سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
مولانا مودودی کی رائے میں قصاص کی حقیقت
مولانا مودودی لکھتے ہیں:
اس سے بدرجہا غیر آئینی طرزِ عمل دوسرے فریق یعنی حضرت معاویہؓ کا تھا جو معاویہ بن ابی سفیان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شام کے گورنر کی حیثیت سے خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے اُٹھے، مرکزی حکومت کی اطاعت سے انکار کیا، گورنری کی طاقت اپنے مقصد کے لیے استعمال کی اور مطالبہ یہ بھی نہیں کیا کہ حضرت علیؓ قاتلینِ عثمانؓ پر مقدمہ چلا کر انہیں سزا دیں بلکہ یہ کہا کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ خود انہیں قتل کریں۔ یہ سب کچھ دورِ اسلام کی نظامی حکومت کی بجائے زمانہ قبل از اسلام کی قبائلی بدنظمی سے مشابہ ہے۔ خونِ عثمانؓ کے مطالبے کا حقِ اوّل تو حضرت معاویہؓ کی بجائے حضرت عثمانؓ کے شرعی وارثوں کوپہنچتا ہے۔ تاہم اگر رشتہ داری کی بنا پر حضرت معاویہؓ اس مطالبے کے مجاز ہو بھی سکتے تھے تو اپنی ذات میں نہ کہ شام کے گورنر کی حیثیت سے۔ حضرت عثمانؓ کا رشتہ جو کچھ بھی تھا معاویہ ابن ابی سفیان سے تھا، شام کی گورنری سے ان کی رشتہ داری نہ تھی۔ اپنی ذاتی حیثیت میں خلیفہ کے پاس مستغیث بن کر جا سکتے تھے اور مجرمین کو گرفتار کرنے اور ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر سکتے تھے۔ گورنر کی حیثیت سے انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ جس خلیفہ کے ہاتھ پر باقاعدہ آئینی طریقے سے بیعت ہو چکی تھی، جس کی خلافت کو ان کے زیرِانتظام صوبے کے سوا باقی پوری مملکت تسلیم کر چکی تھی، اسکی اطاعت سے انکار کر دیتے۔ اپنے زیرِانتظام علاقے کی فوجی طاقت کو مرکزی حکومت کے مقابلے میں استعمال کرتے اور ٹھیٹھ جاہلیتِ قدیمہ کے طریقہ پر یہ مطالبہ کرتے کہ قتل کے ملزموں کو عدالتی کارروائی کے بجائے مدعی قصاص کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ خود اُن سے بدلہ لے لے۔ (خلافت و ملوکیت۔ ص 125،126)
حضرت شبث بن ربعی نے حضرت امیر معاویہؓ سے فرمایا:
ہم یہ خوب جانتے ہیں کہ آپ نے بھی حضرت عثمانؓ کی مدد میں تاخیر کی اور آپ دل سے یہ چاہتے تھے کہ وہ قتل ہو جائیں تا کہ آپ ان کے خون کا مطالبہ کر کے یہ مقام حاصل کر سکیں۔ (تاریخ طبری۔جلد۳، حصہ ۲، ص 159)
حضرت علیؓ نے قصاصِ حضرت عثمانؓ کے لیے جو کوششیں کیں ان کے بارے میں ارمان سرحدی لکھتے ہیں:
بیعتِ خلافت کے بعد حضرت علیؓ کے پیشِ نظر سب سے اہم کام حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کا پتہ لگانااور ان سے قصاص لینا تھا۔ چنانچہ آپؓ نے اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی۔ آپؓ نے واقعات کی چھان بین کی، مگر مشکل یہ تھی کہ کسی خاص شخص کے متعلق شہادت موجود نہ تھی۔ اس دلدوز واقعہ کے وقت صرف حضرت نائلہؓ موجود تھیں اور وہ بھی محض اتنا بتا سکیں کہ محمد بن ابی بکرؓ دو آدمیوں کے ہمراہ آئے جنہیں وہ نہیں جانتی تھیں۔۔۔ حضرت نائلہؓ نے بھی یہی کہا کہ محمد بن ابی بکرؓ قتل میں شریک نہ تھے۔ (حضرت سیدّنا علی المرتضیٰؓ، صفحہ 71)
طبریؒ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی کوششوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ کی بیعت ہو جانے کے بعد حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ دیگر صحابہ کے ساتھ حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے:
’’اے علیؓ! ہم نے آپ کی بیعت کے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ آپؓ حدود اللہ قائم فرمائیں گے اور آپؓ کو یہ معلوم ہے کہ باغیوں کی یہ تمام جماعت قتلِ عثمانؓ میں شریک ہے اور اسطرح انہوں نے مسلمانوں کے خون کو حلال کیا ہے اس لیے آپؓ پر ان سب لوگوں سے قصاص لینا فرض ہے۔‘‘
حضرت علیؓ نے فرمایا:
’’اے میرے بھائیو! میں تمہاری طرح ان امور سے ناواقف نہیں لیکن ہم اس قوم کا کیا کر سکتے ہیں جو ہماری مالک بنی ہوئی ہے اور ہم ان کے مالک نہیں اور پھر اس قتل میں تم لوگوں کے غلام بھی شریک ہیں اور ان کے ساتھ کچھ دیہاتی بھی مل گئے ہیں اور وہ تمہارے دوست ہیں اور جس بات پر چاہتے ہیں تمہیں مجبور کر دیتے ہیں تو کیا ان حالات میں تم قصاص لینے پر کچھ قدرت رکھتے ہو۔‘‘
صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں!
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
’’خدا کی قسم! تم جو کچھ دیکھ رہے ہو میں بھی ان حالات کو دیکھ رہا ہوں اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حالات بعینہٖ زمانۂ جاہلیت کے حالات ہیں اور اس قوم میں ابھی جاہلیت کا مادہ پایا جاتاہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کی کوئی ایک معینہ راہ اور طریقہ نہیں کہ جو اس طریقہ پر چل کر ہمیشہ خوش رہے۔‘‘ (تاریخ طبری۔جلد سوم، حصہ دوم، ص 29, 30)
حضرت علیؓ کے ساتھ بدری صحابی
جنگِ جمل کے بعد حضرت علیؓ نے شام کی طرف کوچ کیا۔ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے ساتھ بدری صحابہؓ شامل تھے:
آپ کے لشکر میں اَسّی (80) بدری اور ایک سو پچاس (150) بیعت ِشجرہ کے صحابہ کرامؓ شامل تھے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد۴، حصہ ہفتم، ص ۴۵۲)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ کے ہمراہ 70 بدری صحابہؓ اور سات سو وہ صحابہؓ تھے جنہوں نے بیعتِ رضوان کا اعزاز پایا۔ (خلفائے راشدین، صفحہ 204)
ایک راہب کا واقعہ
ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں:
جب حضرت علیؓ رقہ پہنچے تو فرات کے کنارے بلبخ نامی جگہ پر فروکش ہوئے۔ وہاں ایک راہب اپنے گرجا سے نکل کر آپؓ کے پاس پہنچا اور کہا کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس کے ہم آباؤ اجداد سے وارث ہوئے ہیں اور اسے حضرت عیسٰیؑ کے اصحاب نے لکھا ہے، کیا میں اسے آپؓ کے سامنے پیش کروں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ہاں۔ اس راہب نے کتاب پڑھنا شروع کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ نے جو فیصلہ کرنا تھا وہ کیا اور جو لکھنا تھا وہ لکھا اور اس نے لکھ دیاکہ وہ انہی میں سے ایک رسول بھیجے گا جو انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، ان کا تزکیہ کرے اور اللہ کے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرے۔ وہ رسول نہ تو بدخلق ہو گا اور نہ سخت کلام، نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والا ہو گا اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے لینے والابلکہ معاف اور درگزر کرنے والا ہو گا، ان کی امت حمادون (بہت زیادہ حمدوثناکرنے والی) ہو گی جو ہر بلندی پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے گی اور ان کی زبانیں ہر نشیب و فراز میں تکبیر کے لیے جاری ہوں گی۔ اللہ اس رسول کو اس کے دشمنوں پر فتح عطا فرمائے گا۔ پھر جب اس رسول کی وفات ہو جائیگی تو اس امت میں اختلاف پیدا ہو جائے گا لیکن جب تک اللہ چاہے گا مجتمع رہے گی، اس کے بعد اختلاف پیدا ہو گا۔ پھر ان کی امت کا ایک آدمی اس دریائے فرات کے کنارے سے گزرے گا وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتا ہو گا اور حق کے ساتھ فیصلے کیا کرے گا اور اپنے فیصلوں کے نفاذ میں عاجز نہ ہو گا۔ دنیا اس کے نزدیک راکھ سے بھی زیادہ حقیر ہو گی، یا اس طرح کہا کہ ہوا میں اڑنے والی مٹی سے بھی زیادہ حقیر ہو گی اور موت اس کے نزدیک پانی پینے سے بھی زیادہ آسان ہو گی۔ وہ خلوت و تنہائی میں اللہ سے ڈرتا ہو گا اور مجمع میں نصیحت کرتا ہو گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی کی ملامت کی کچھ پرواہ نہیں کرے گا، پس اہلِ بلاد میں سے جو شخص اس رسول کو پائے تو وہ اس پر ایمان لائے، اس کا بدلہ میری رضامندی اور جنت ہے اور جو شخص اس صالح آدمی کو پائے تو اس کی مدد کرے اس کے ساتھ قتل ہونا شہادت ہے۔
پھر اس راہب نے حضرت علیؓ کو کہا کہ میں آپ کی مصاحبت اختیار کروں گا اور آپ سے جدا نہ ہوں گا یہاں تک کہ مجھے وہ مصیبت پہنچے جو آپ کو پہنچی ہے۔ حضرت علیؓ اس کی بات سن کر رو پڑے اور فرمایا کہ تمام تر تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے یہاں بھولا بسرا نہیں بنایااور تمام تر تعریف اور حمد و ثنا اس اللہ کے لیے جس نے اپنے یہاں ابرار کی کتب میں میرا تذکرہ کیا۔
پھر وہ راہب مسلمان ہو گیا اور آپؓ کے ساتھ چل پڑا اور حضرت علیؓ کے ساتھ ہی رہا یہاں تک کہ معرکہ صفین میں شہید ہو گیا۔ جب لوگ اپنے مقتولین کو تلاش کرنے کے لیے نکلے تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس راہب کو بھی تلاش کرو۔ لوگوں نے اس کو تلاش کیا تو اسے مقتول پایا۔ حضرت علیؓ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی، تدفین کی اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ (تاریخ ابنِ کثیر۔جلد۴، حصہ ہفتم، ص 254-255)
حضرت علیؓ جنگ نہ چاہتے تھے
حضرت علیؓ جنگ و جدل کے قائل نہ تھے، ان کا مقصد اتحادِ امت کو قائم رکھنا تھا جو کہ بیعتِ خلافت سے ممکن تھا۔ اس لیے آپؓ نے لڑائی سے حددرجہ بچنے کی کوشش کی۔ آپؓ نے اپنے ایک امیر کو حکم دیا کہ جنگ میں شروعات نہ کرنا۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے امیر لشکر کو حکم دیا:
خبردار !جنگ نہ کرنا سوائے اس کے کہ وہ پہل کریں، ذاتی رنجش کے پیچھے نہ جانا۔ انہیں بار بار صلح کی دعوت دینا۔(خلفائے راشدین۔ صفحہ 204)
جب تک اہلِ شام قتال کی ابتدا نہ کریں ان کے ساتھ قتال میں پہل نہ کی جائے اور انہیں وقفہ وقفہ سے بیعت کی طرف بلاتے رہیں۔ اگر وہ انکار کریں تو ان سے قتال نہ کریں یہاں تک کہ وہ ازخود قتال کی ابتدا کریں اور نہ جنگ کے خواہشمند کی طرح ان کے قریب ہوں اور نہ خوفزدہ ڈرنے والوں کی طرح ان سے دور رہیں بلکہ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہیں حتیٰ کہ وہ تمہارے پاس آ جائیں۔ (تاریخ ابنِ کثیر۔جلد ۴، حصہ ہفتم، ص 255)
حضرت علیؓ نے اپنے سپہ سالاروں کو خط لکھا ’’خبردار! اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک ان لوگوں کو اطاعت کی دعوت نہ دے لو اور اصلاح کی کوششیں ختم نہ ہو جائیں۔‘‘ (تاریخ طبری۔جلد 3، حصہ دوم، ص 188)
حضرت علیؓ نے بارہا اپنے لشکر سے لوگ بطور سفارت بھیجے تاکہ جنگ نہ ہو اور اتحادِ امت باقی رہے لیکن جنگ ہو کر رہی۔
ابومخنف نے عبدالرحمٰن ابن جندب الازدی کے واسطہ سے ان کے والد سے نقل کیا ہے کہ جب بھی ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی تو ہمیں یہ نصیحت فرماتے:
’’اس وقت تک ہرگز جنگ نہ کرو جب تک دشمن تم سے پہل نہ کرے۔ اللہ کا شکر ہے تم حق پر ہو اور تمہاری طرف سے جنگ کی ابتدا نہ ہونا یہ تمہارے حق پر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔‘‘ (تاریخ طبری۔ جلد 3، حصہ 2 ص204)
حضرت علیؓ نے صعصہ بن صوحان کو طلب فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ آپ امیر معاویہؓ کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ اگرچہ ہم آپ کے مقابلے پر آئے ہیں لیکن ہم حجت پیش کیے بغیر آپ سے جنگ نہیں کرناچاہتے۔آپ نے اپنے سوار اور پیدل ہمارے مقابلے پر بھیجے جنہوں نے ہم سے جنگ کی ابتدا کی حالانکہ ہم حجت پیش کیے بغیر آپ سے جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ (تاریخ طبری۔ جلد 3، حصہ2، ص 190
دریائے فرات کا پانی
حضرت امیر معاویہؓ نے دریائے فرات پر پانی پینے کی جگہ پر قبضہ کر لیا اور حضرت علیؓ کے لشکر کو پانی پینے سے روک دیا۔ حضرت علیؓ نے پیغام بھجوایا کہ پانی کو دونوں لشکروں کے لیے کھول دیا جائے۔ حضرت امیر معاویہؓ مان گئے لیکن ان کے ساتھیوں نے انکار کیا۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
جب حضرت امیر معاویہؓ پانی کی فراہمی پر رضامند ہوئے تو ولید بن عقبہ اور ابنِ ابی سرح نے مخالفت کرتے ہوئے کہا:
ان پر پانی بند کر کے اسی طرح تڑپایا جائے جس طرح انہوں نے حضرت عثمانؓ کو پیاسا رکھ کر تڑپایا۔ (خلفائے راشدین۔صفحہ 205)
طبریؒ لکھتے ہیں:
جندب بن عبداللہ کا بیان ہے کہ جب ہم حضرت معاویہ کے لشکر کے بالمقابل پہنچے تو حضرت معاویہ نے پہلے ہی کشادہ اور عمدہ میدان پر قبضہ کر لیا تھا اور گھاٹ کی طرف کا حصہ اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔اس میدان میں پانی لینے کے لیے دریا پر صرف ایک ہی گھاٹ تھا۔ اس گھاٹ پرحضرت معاویہ نے حضرت ابو الاعور السلمی کو متعین کیا تھا کہ وہ اس کی حفاظت کریں اور دشمن کو پانی نہ لینے دیں۔ (تاریخ طبری۔ جلد 3، حصہ 2، ص 190)
ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت معاویہؓ نے پانی کے گھاٹ پر قبضہ کر لیا تھا اور وسیع و ہموار جگہ پر اپنی فوج کو اتار دیا تھا۔ اہلِ عراق (یعنی حضرت علیؓ کے لشکر) میں سے کچھ لوگ جلدی سے پانی کی طرف آئے تا کہ اس میں سے کچھ پانی لے کر لوٹ جائیں لیکن اہلِ شام نے انہیں اس سے روک دیا۔ (تاریخ ابنِ کثیر۔ جلد 4، حصہ ہفتم، ص 255)
ابنِ خلدون لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کے پاس کہلا بھیجا:
آپ نے فرات پر قبضہ کر کے پانی روک دیا ہے۔ لوگوں کا پیاس سے برا حال ہو رہا ہے۔ آپ اپنے ہمراہیوں کو حکم دیں کہ جب تک امورِ تنازعہ کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک پانی لینے سے ہم کو نہ روکیں اور آپ کا مقصد یہ ہو کہ جس غرض سے ہم آئے ہیں اس کو چھوڑ کر پانی ہی پر لڑیں اور جو شخص غالب ہو وہ پانی اپنے تصرف میں لائے تو ہم اس پر بھی تیار ہیں۔ حضرت معاویہؓ نے اپنے رفیقوں سے رائے طلب کی۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے پانی سے قبضہ اٹھا لینے کی رائے دی۔ ابن ابی سرح اور ولید بن عقبہ بولے پانی سے قبضہ نہ اٹھایا جائے اور ان کو پانی نہ دیا جائے جس طرح ان لوگوں نے امیرالمومنین حضرت عثمانؓ کو پانی نہیں دیا اور حالتِ تشنگی میں شہید کیا ہے ویسے ہی ان لوگوں کو پیاسا مارنا چاہیے۔ (تاریخ ابنِ خلدون، جلد 2، حصہ اول، صفحہ 410)
حضرت علیؓ نے اس معاملے پر بھی جنگ کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ آپ نے اپنے لشکر میں سے لوگ اردگرد دوڑائے کہ دیکھیں کوئی اور جگہ ہو جہاں پانی مل سکے مگر کوئی ایسی جگہ میسر نہ آئی۔ حضرت علیؓ نے پھر بھی جنگ کرنا ٹھیک نہ جانا اور اپنا ایک قاصد حضرت امیر معاویہؓ کی جانب بھیجا کہ پانی والی جگہ سے ہمیں بھی پانی پینے دیں۔
طبری لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اپنے قاصد کے ذریعے پیغام بھجوایا:
آپ اپنے لشکریوں کو حکم دیں کہ وہ پانی کا راستہ چھوڑ دیں۔ (تاریخ طبری۔ جلد 3، حصہ2، ص 193)
حضرت امیر معاویہ تو مان گئے لیکن ان کے امیروں نے مخالفت کی اور پانی بند کیے رکھا۔ حضرت علیؓ کے ساتھیوں کا پیاس سے برا حال تھا۔ لوگ بیہوش ہونے لگے۔ پھر حضرت علیؓ کے لشکر نے حملہ کر کے پانی والی جگہ قبضہ میں لے لی۔ حضرت معاویہ کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے۔ لوگ حضرت علیؓ کے پاس آئے کہ اب پانی حضرت معاویہ کے لشکر کے لیے بند کر دیا جائے لیکن حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ دونوں لشکروں کے لیے کھول دیا جائے۔
طبریؒ لکھتے ہیں کہ حضرت صعصہ جو کہ حضرت علیؓ کے لشکر میں تھے فرماتے ہیں:
پہلے تیر اندازی ہوئی، پھر نیزے چلے اور آخر میں تلواریں نکل آئیں۔ ہم ان پر غالب آئے اور پانی ہمارے قبضہ میں آ گیا۔ ہم نے سوچا کہ شامیوں کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہ دیا جائے لیکن حضرت علیؓ نے ہمارے پاس کہلا بھیجا کہ اپنی ضرورت کا پانی لے کر اپنے لشکر کے ساتھ لوٹ آؤ اور پانی پر روک ٹوک نہ کروکیونکہ اللہ عزّوجل نے ان کے ظلم اور سرکشی کے باعث ہی تمہاری امداد فرمائی ہے۔ (تاریخ طبری۔ جلد 3، حصہ 2، صفحہ 194)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
جب شامی پانی دینے پر آمادہ نہ ہوئے تو پانی کے گھاٹ پر قبضہ کے لیے شامی اور عراقی دستوں میں جھڑپ ہو گئی۔ شامیوں کو شکست ہوئی اور حضرت علیؓ نے پانی کے گھاٹ پر قبضہ کر لیا اور اسے دونوں لشکروں کے لیے کھلا قرار دے دیا۔ شامی اور عراقی یکساں طور پر اس سے سیراب ہوتے رہے۔ (خلفائے راشدین۔ صفحہ 205)
جنگِ صفین میں حضرت اویس قرنیؓ کی شرکت
سعید بن المسیبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے منیٰ میں منبر پر اہلِ قرن کو فرمایا: اے اہلِ قرن! چنانچہ کچھ بزرگ لوگ اُٹھے اور بولے: اے امیر المومنین! ہم ہیں اہلِ قرن۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: کیا قرن میں کوئی اویس نامی آدمی ہے؟ ایک بوڑھے نے عرض کیا:اے امیر المومنین! ہمارے اندر اویس نامی صرف ایک پاگل آدمی ہے اور تو کوئی نہیں۔ وہ ویرانوں اور جنگلوں میں رہتا ہے جو نہ کسی سے دوستی رکھتا ہے اور نہ کوئی تعلق۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا:ہاں یہی وہ شخص ہے، جس کی مجھے تلاش تھی۔ جب تم واپس (اپنے قبیلے) قرن میں جاؤ تو اس کو تلاش کرکے میرا سلام پہنچانا اور اس کو کہنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖٖ وسلم نے مجھے تمہاری خوش خبری سنائی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ میں تمہیں حضورؐ کا سلام پہنچاؤں۔
چنانچہ وہ لوگ (اپنے قبیلے) قرن پہنچے اور ان کو تلاش کیا تو ریتلے ٹیلوں میں پایا۔انہوں نے حضرت اویسؓ کو امیر المومنین حضرت عمرؓ کا سلام پہنچایا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سلام پہنچایا۔ حضرت اویس قرنیؓ نے پوچھا: کیا امیر المومنین مجھے پہچانتے ہیں اور انہوں نے میرا نام لیا ہے؟ پھر انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سلام بھیجا کہ سلام ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر۔اے اللہ! ان پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور ان کی آل پر رحمتیں نازل فرما۔
پھر حضرت اویسؓ وہاں سے اِدھر اُدھر آوارہ پھرنے لگے اور زمانے کو پھر ان کا نام و نشان کچھ نہ ملا۔ پھر حضرت علیؓ کے زمانۂ خلافت میں واپس ظاہر ہوگئے اور حضرت علیؓ کی معیت میں جنگِ صفین میں شرکت کی اور شہید ہوگئے۔ (کنزالعمال۔ 37829)
(جاری ہے)
استفادہ کتب:
۱۔خلفائے راشدینؓ: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس، ناشر : سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔ تاریخ ابنِ کثیر: تصنیف حافظ عمادالدین ابوالفدا اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی
۳۔ تاریخ طبری، مصنف:علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
۴۔خلافت و ملوکیت، مصنف: سید ابوالاعلی مودودی، اشاعت چھبیسویں، ادارہ ترجمان القرآن پرائیویٹ لمیٹڈ، اردو بازار لاہور
This is very informative research 👌
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️🌹🌹🌹🌹🌹🌹
Bohot khoob Behtareen
Bohat alla
I really liked reading this blog!
بہت اچھا آرٹیکل ہے۔
Very informative article
پھر حضرت اویسؓ وہاں سے اِدھر اُدھر آوارہ پھرنے لگے اور زمانے کو پھر ان کا نام و نشان کچھ نہ ملا۔ پھر حضرت علیؓ کے زمانۂ خلافت میں واپس ظاہر ہوگئے اور حضرت علیؓ کی معیت میں جنگِ صفین میں شرکت کی اور شہید ہوگئے۔ (کنزالعمال۔ 37829)
آسمانِ ولایت کا رہبر علیؓ❤️
علم کا گھر علیؓ، علم کا در علیؓ❤️
یا علیؓ، یا علیؓ، یا علیؓ❤️
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
بہترین
Behtareen
Great 👍
بہترین مضمون
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ کے ہمراہ 70 بدری صحابہؓ اور سات سو وہ صحابہؓ تھے جنہوں نے بیعتِ رضوان کا اعزاز پایا۔ (خلفائے راشدین، صفحہ 204)
بہترین آرٹیکل ہے
بہت بہترین لکھا ہے ✨
بہت بہترین
بہترین
بہت بہترین مضمون ہے. انتطار رہے گا اگلی قسط کا۔
بہترین مضمون 👌🏻👌🏻👌🏻
پھر حضرت اویسؓ وہاں سے اِدھر اُدھر آوارہ پھرنے لگے اور زمانے کو پھر ان کا نام و نشان کچھ نہ ملا۔ پھر حضرت علیؓ کے زمانۂ خلافت میں واپس ظاہر ہوگئے اور حضرت علیؓ کی معیت میں جنگِ صفین میں شرکت کی اور شہید ہوگئے۔ (کنزالعمال۔ 37829)
(جاری ہے
حضرت شبث بن ربعی نے حضرت امیر معاویہؓ سے فرمایا:
ہم یہ خوب جانتے ہیں کہ آپ نے بھی حضرت عثمانؓ کی مدد میں تاخیر کی اور آپ دل سے یہ چاہتے تھے کہ وہ قتل ہو جائیں تا کہ آپ ان کے خون کا مطالبہ کر کے یہ مقام حاصل کر سکیں۔ (تاریخ طبری۔جلد۳، حصہ ۲، ص 159)
حضرت علیؓ نے قصاصِ حضرت عثمانؓ