تعلیمات سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس–Talimat-Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman

Spread the love

Rate this post

تعلیمات
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس

(قرآن ، احادیث اور دیگر فقرا کاملین کی تعلیمات کی روشنی میں)

تحریر: محترمہ فائزہ سعید سروری قادری ۔ سوئٹزر لینڈ

مضمون کا آغاز کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب لارحمن مدظلہ الاقدس کی باکمال اور بے مثال شخصیت پر ایک نظر ڈالی جائے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی باکمال و بے مثال شخصیت کو الفاظ کے محدود دائرہ میں قید کرکے بیان کرنا نا ممکن ہے۔ وہ صرف اللہ ہی ہے جو اپنے محبوبین کی شان کو بہترین الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی شخصیت ان آیاتِ قرآنی اور احادیث کی عین عکاس ہے۔
* آپ کا وصف ۔ تقویٰ
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَکُمْ(الحجرات۔13)
ترجمہ: بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سے عزت والا وہ ہے جو تقویٰ رکھتا ہے۔
* آپ کا باطن۔ آئینہ حق
اَلْمُؤْمِنُ مِرْاٰۃُ الرَّحْمٰنِ ترجمہ: مومن رحمن کا آئینہ ہے۔
* آپ کا ظاہر ۔نور
نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط یَھْدِی اللّٰہ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ (النور۔35)
ترجمہ:نور پر نور ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
* آپ کا قلب مبارک۔ عرش الٰہی
قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالٰی ترجمہ: مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔
* آپ کا مبارک وجود۔ حدیثِ قدسی کے مصداق:
* میرا بندہ جب زائد نوافل کے ذریعے میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس میں اس کے کان بن جاتا ہوں وہ ان سے سنتا ہے ، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔(بخاری شریف۔963)
* آپ کا عمل ۔ صرف اللہ کے لیے
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام۔162)
ترجمہ: تم فرماؤ بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو تمام عالموں کا ربّ ہے۔
* آپ کا مقام ۔ لی مع اللّٰہ
* آپ کی شان۔ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ
* آپ کا شعار ۔ محبت فاتح عالم
* آپ کا اصول۔ عمل پیہم یقینِ کامل۔
* آپ کی تعلیم۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس
* آپ کا ذکر ۔ سلطان الاذکار ھُو
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَo (اعراف۔ 205)
ترجمہ: اور صبح و شام ذکر کرو اپنے ربّ کا، دِل میں، سانسوں کے ذریعہ، بغیر آواز نکالے، خوف اور عاجزی کے ساتھ اور غافلین میں سے مت بنو۔
آپ کا اخلاق ۔ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ ترجمہ: اللہ کے اخلاق سے متخلق ہو جاؤ۔
آپ کی تلقین۔فَفِرُّوْآ اِلَی اللّٰہ ‘‘ (الذٰرےٰت۔50) ترجمہ:پس دوڑو اللہ کی طرف۔
اب ہم اگر آپ مدظلہ الاقدس کو مجلسِ محمدی سے ملنے والے القابات پر غور کرتے ہیں ۔ آپ مدظلہ الاقدس کے القابات ہیں سلطان محمد ۔ اور سورۃ الرحمن کے مطابق یہ لقب انسانِ کامل کی شان کو ظاہر کرتا ہے۔
ےٰمَعْشَرِ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانٍ (الرحمن ۔33 )
ترجمہ: اے گروہ جن و اِنس ! اگر تم میں ہمت ہے تو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل کر دکھاؤ، ہر گز نہ نکل سکو گے بغیر سلطان (انسانِ کامل) کے۔
آپ مدظلہ الاقدس کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آپ مدظلہ الاقدس کے بے مثال عشقِ حقیقی کی وجہ سے سلطان العاشقین کا لقب عطا ہوا اور آپ مدظلہ الاقدس کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی میں آفتابِ فقر کے لقب سے نوازا گیا۔
تو یہ نا ممکن ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر پوری اترنے والی شخصیت کے حامل انسانِ کامل اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایسے نایاب القابات حاصل کرنے والے مرشدِ کامل اکمل کی تعلیمات قرآن و حدیث اور شریعت کے مطابق نہ ہوں۔ ذیل میں آپ مدظلہ الاقدس کے چند فرمودات قرآن و حدیث اور دیگر اولیا کرام کے فرمودات کی روشنی میں تحریر کیے جارہے ہیں۔

اسم اللہذات
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* انسانی روح کو رزق مل جاتاہے تو ان کو وہ نورِ بصیرت حاصل ہوتی ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت حاصل کرتی ہے۔
* اللہ تعالیٰ کے قرب، مشاہدہ، وصال اور لقا کا راستہ بغیر ذکرو تصورِ اسمِ اللہ ذات ہر گز نہیں کھلتا، اللہ تک پہنچنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
* اسمِ اللہ کا ذکر ایسا عمل ہے جو انسان کے دل میں نورِ ایمان پیدا کرتا ہے۔
* معرفتِ حق تعالیٰ کے لیے، روح کی ترق و بالیدگی کے لیے قلبِ سلیم اور اطمینانِ قلب کے لیے اپنے اندر نورِ بصیرت کی تکمیل کے لیے رضائے الٰہی اور معراج کے لیے اسمِ اللہ ذات کی طلب کرنا اور پھر اس کا ذکر اور تصور کرنا ہر مومن اور مسلمان کے لیے لازم ہے اس کے بغیر باطن میں کسی بھی منزل تک پہنچنا ممکن نہیں۔
* ذکراسمِ اللہ ذات سے دنیا دل سے نکل جاتی ہے۔
* اسمِ اللہ ذات کا ذکر ہی بتائے گا کہ اللہ کی ذات کہاں جلوہ گر ہے۔
* جو طالب ہر وقت ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کرتا رہے گا اس کے ذہن میں ہر وقت اسمِ اللہ ذات رہے گا وہی اس کی دلیل بنے گا۔
* جب انسان ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات سے اعراض کرتا ہے تو اس کے وجود پر نفس اور شیطان قبضہ جما لیتے ہیں اور دل و دماغ کو اپنے قبضے اور تصرف میں لے لیتے ہیں اور سارے وجود پر اس طرح چھا جاتے ہیں جس طرح آکاس بیل پودے درخت کو گھیر لیتی ہے ۔ انسان کے رگ و ریشے اور نس نس میں شیطان دھنس جاتا ہے اور اسے حق نظر نہیں آتا ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِی نَفَسِکَ تضَرُّعًا وَّ خِےْفَۃً وَ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِےْنَ (اعراف۔205 )
ترجمہ:اور صبح و شام ذکر کرو اپنے ربّ کا، دل میں سانسوں کے ذریعے، بغیر آواز نکالے، خوف اور عاجزی کے ساتھ اور غافلین میں سے مت بنو۔
ےٰٓاَیُّھَا الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ھُمْ اْلخٰسِرُوْنَ (المنافقون۔9 )
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے مال اور اولادیں تم کو ذکرِ اللہ سے غافل نہ کردیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارہ پانے والے ہیں۔
وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِےْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(الجمعہ۔90 )
ترجمہ: اور کثرت سے ’’ اسمِ اللہ‘‘ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ (البقرہ۔152)
ترجمہ: تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا ۔ اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِےْمٍ (آلِ عمران۔ 101 )
ترجمہ: اور جو کوئی اللہ (یعنی اسمِ اللہ ذات) کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے پس تحقیق وہ صراطِ مستقیم پر ہدایت پا جاتا ہے۔
وَالذّٰکِرِےْنَ اللّٰہَ کَثِےْرًا وَالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَ اَجْرًا عَظِےْمًا (الاحزاب۔35 )
ترجمہ: کثرت سے اسمِ اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑی مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ ےُرِدْ اِلَّا الْحَےٰوۃِ الدُّنْےَا O ذَالِکَ مَبْلَغُھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِےْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اھْتَدٰی۔ (النجم 29,30 )
ترجمہ: پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس شخص سے کنارہ کشی اختیار فرمالیں جو ہمارے ذکر سے روگردانی کرتا ہے اور محض دنیا کی زندگی کو ہی اپنا مقصود بناتا ہے۔ یہی اس نادان کے علم کی پہنچ ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ربّ راستہ بھٹکنے والوں اور سیدھا راستہ چلنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
حضورِ اکرم سرورِ کونین محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
’’ سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس ذکرِ اللہ کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے۔‘‘
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا گیا ’’کو ن سا بندہ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن افضل اور بلند مرتبہ ہو گا‘‘ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ذکرِ اللہ کثرت سے کرنے والے مرد اور عورتیں ‘‘ عرض کیا گیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا اس شخص سے بھی ان کا درجہ بڑھا ہوا ہے جو راہِ خدا میں جہاد کرے۔‘‘ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ہاں اگر کوئی اپنی تلوار کفار و مشرکین پر چلائے ۔ یہاں تک کہ اسکی تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خود خون سے رنگین ہو جائے پھر بھی ذکرِ اللہ کرنے والا اس سے مرتبہ میں افضل ہے۔‘‘(احمد ،ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا ’’کیا میں تم کو ایک ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں بہترین چیز ہے اورتمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ اور افضل ہے اور تمہارے درجوں کو بلند کرنے والی اور سونے چاندی کو (اللہ کے راستے میں) خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور اس بات سے بھی کہ جہاد میں تم دشمنوں کو قتل کرو اور وہ تم کو قتل کریں‘‘ صحابہ نے عرض کی ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ضرور ارشاد فرمائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ کا ذکر‘‘۔ (ترمذی شریف)
حدیثِ قدسی ہے ’’ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے اپنے ہونٹوں میں یاد کرتا ہے ۔ میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق پیش آتا ہوں ۔جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کا ہم مجلس ہوتا ہوں۔ جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں ۔ جب وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اُسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں‘‘۔
سیّدنا غوث الاعظمؓ ارشاد فرماتے ہیں:
* جب دل ذکرِ خداوندی میں مشغول رہتا ہے تو اس کو معرفتِ خداوندی اور علمِ خداوندی اور توحید اور توکل اور جملہ ماسویٰ سے اعراض نصیب ہوتا ہے۔ذکرِ خداوندی میں مشغول رہنا دنیا اور آخرت میں بھلائی حاصل کرنے کا سبب ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس59)
* اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو جانا دلوں کی موت ہے ۔پس جو کوئی اپنے دل کو زندہ کرنا چاہتا ہے، اس کو چاہیے کہ دل کو ذکرِ خداوندی کے لیے چھوڑ دے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 49 )
* طالبانِ مولیٰ پر ہر وقت ذکرِ اللہ میں مشغول رہنا فرض کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’پس اللہ کا ذکر کرو۔ چاہے تم بیٹھے ہو، کھڑے ہو یا لیٹے ہو۔‘‘ (سرِّ الاسرار۔فصل نمبر7 )
* سِرّ کی صفائی ماسویٰ اللہ سے اجتناب کرنے، اللہ سے محبت کرنے اور سرّی زبان کے ساتھ اسمائے توحید (اسمِ اللہ ذات) کا دائمی ذکر کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ ( سرِّ الاسرار۔ فصل نمبر6 )
* مردانِ خدا ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور ذکرِ الٰہی ان کے بوجھوں کو دور کر دیتا ہے اور یہ غیر اللہ کے ساتھ مفقود ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ موجود ہیں کیونکہ انہوں نے یہ فرمانِ خداوندی سن لیا ہے ’’ تم میرا ذکر کرو میں تمہار ذکر کروں گا اور میرا شکر کرو کفر نہ کرو‘‘ ( سورۃ البقرہ۔ 152)۔پس انہوں نے اس طمع کے ساتھ اس ذکر کو لازم پکڑ لیا ہے تاکہ اللہ ان کا ذکر کرے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 3 )
* اللہ کا ذکر کرنے والا ہمیشہ کے لیے زندہ ہے اور وہ ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ سوائے ایک لمحہ کے اس کے لیے موت نہیں۔ ( الفتح الربانی۔مجلس 16 )
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* جسے بھی تقویٰ نصیب ہوا ہے اسمِ اللہ ذات ہی سے ہوا۔ (محک الفقر کلاں)
جو دم غافل سو دم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھُو
سنیا سخن گیاں کھل اکھیں، اساں چت مولا ول لایا ھُو
کیتی جان حوالے ربّ دے، اساں ایسا عشق کمایا ھُو
مرن توں اگے مر گئے باھوؒ ، تاں مطلب نوں پایا ھُو
مفہوم: آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمیں مرشد نے یہ سبق پڑھایا ہے کہ جوسانس ’’اسمِ اللہ ذات ‘‘ کے تصور اور ذکر کے بغیر نکلتا ہے وہ کافر ہے اور جب سے ہم نے یہ ارشاد سنا ہے اپنا دل اسی طرف لگا لیا ہے ۔اور ہم نے عشق کا ایسا سودا کیا ہے کہ اپنی جان اور زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضا کے سپرد کر دیا ہے اور اپنی مرضی اور منشا سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ وصالِ الٰہی تو ان کو نصیب ہوتا ہو جو مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔
* وہ کون سا علم ہے کہ جس کے پڑھنے سے طالب ایک ہی دم میں بغیر کسی ریاضت و مجاہدہ کے اپنے نفس سے جدا ہوجائے ۔ وہ علم تصور اسمِ اللہ ذات ہے کہ جس سے طالبِ مولیٰ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہو کر نفس کی حقیقت جان لیتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
* تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے والا معشوق بے مشقت اور محبوب بے محنت ہوتا ہے۔ اسے عمدہ مراتب نصیب ہو تے ہیں اور وہ روشن ضمیر ہو جاتا ہے وہ تمام دلوں کا پیارہوجاتا ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے تصور اور تصرف سے طالبِ مولیٰ مخلوقِ خدا کے لیے فیض بخش ہوتا ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
* تصور اسمِ اللہ ذات تمام باطنی علوم کا منبع ہے اس کے ذکر اور تصور سے باطن میں سب سے اعلیٰ مراتب یا مقام دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتی ہے جو کسی دوسرے ذکر ، فکر یا عبادت سے حاصل نہیں ہوسکتی خواہ ساری زندگی دن کو روزے رکھے اور رات کو قیام کرے اور کمر کبڑی ہوجائے۔ (شمس الفقرا)
* انسان کو اپنی ذات کی پہچان صرف اسمِ اللہ ذات ہی سے حاصل ہوتی ہے کوئی دوسرا ذکر،فکر یا عبادت انسان کے باطن کے بند دروازے کے قفل کو نہیں کھول سکتا۔ (شمس الفقرا)
* اسمِ اللہ ذات سے دل کے آئینہ سے زنگ اُتر جاتا ہے اور وہ روشن اور صاف ہو جاتا ہے۔(شمس الفقرا)
* جس نے ذکر اسمِ اللہ ذات سے اپنی سانسوں کو اور تصوراسمِ اللہ ذات سے اپنے قلب (باطن) کو زندہ نہ کیا وہ دنیا سے بے مراد گیا۔ (شمس الفقرا)
* اسمِ اللہ ذات دل کی کنجی ہے ۔ (شمس الفقرا)

عشقِ الٰہی
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* انسان کو بہت سے رشتوں اور اشیا سے محبت ہوتی ہے اور محبت جس محبت میں شدت اور جنون پیدا ہوجائے اور وہ باقی تمام محبتوں پر غالب آجائے اسے عشق کہتے ہیں۔ عشق باقی تمام محبتوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور تمام محبتوں پر حاوی ہو جاتا ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا ارشاد مبارک ہے:
’’اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ مَیں تم کو تمہاری جانوں، بیوی بچوں، گھر بار اور ہر چیز میں سب سے زیادہ عزیز نہیں ہوجاتا۔ ‘‘(بخاری و مسلم)
* اللہ کا عاشق جتنی بھی تکلیف میں ہو لوگوں پر ظاہر نہیں کرتا بلکہ اس کا چہرہ ہمیشہ ہشاش بشاش رہتا ہے خواہ وہ باطنی یا جسمانی طور پر کتنی ہی اذیت سے کیوں نہ گزر رہا ہو وہ اپنی تکلیف اللہ سے بھی نہیں کہتا بلکہ اس کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتا ہے ۔
* عاشقِ الٰہی کو جہنم کی آگ کا کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ اس نے تمام عمر عشق کی آگ میں جلتے ہوئے گزاری ہوتی ہے۔ جو جہنم کی آگ سے تیز تر ہے عاشق عشق کی آگ میں جلتے جلتے خود آگ بن چکا ہوتا ہے اسکی ایک آہ جہنم کی آگ کو بجھا سکتی ہے۔
* عشقِ حقیقی ہی بارگاہِ ربّ العالمین میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
* عشق کی بدولت دل سے اعتراضات دور ہوتے ہیں او رعشق سے دل کے گوشے میں جو نور پیدا ہوتا ہے اسی سے فقیر فنا فی اللہ (انسانِ کامل )کی پہچان ہوتی ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِےْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ(البقرہ۔165 )
ترجمہ:اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔
ےُحِبُّھُمْ وَ ےُحِبُّوْنَہٗٓ (المائدہ۔54)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔
جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے :
اگر عاشقوں کو جنت اس کے جمال کے بغیر نصیب ہو تو سخت بدقسمتی ہے اور اگر مشتاقوں کو اس کے وصال سمیت دوزخ بھی نصیب ہوتو بھی نہایت ہی خوش قسمتی ہے ۔ (اسرارِ قادری)
یہ حدیثِ قدسی عاشق فقیر کے لیے ہے کہ
’’جو میرا طالب بنتا ہے بیشک مجھے پا لیتا ہے، جو مجھے پالیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے، جو مجھے پہچان لیتا ہے وہ مجھ سے محبت کرنے لگتا ہے، جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرا عاشق بن جاتا ہے، جو میرا عاشق بن جاتا ہے میں اسے مار ڈالتا ہوں، جسے میں مار ڈالتا ہوں اس کی دیت میرے ذمہ ہو جاتی ہے اور اسکی دیت میں خود ہوں۔‘‘
سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’ میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا پھر میں نے سوال کیا اے ربّ! عشق کے کیا معنی ہیں؟ فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! عشق میرے لیے کر، عشق مجھ سے کر اور میں خود عشق ہوں اور اپنے دل کو اپنی حرکات کو میرے ماسویٰ سے فارغ کر دے۔ اے غوث الاعظمؓ! جب تم نے ظاہری عشق کو جان لیا پس تم پر لازم ہو گیا کہ عشق سے فنا حاصل کرو کیونکہ عشق‘ عاشق اور معشوق کے درمیان پردہ ہے پس تم پر لازم ہے کہ عاشق اور معشوق کے درمیان پردہ کو ختم کرو ۔ (رسالۃ الغوثیہ)
* شرطِ محبت یہ ہے کہ محبوب کے ساتھ نہ تیرے لیے ارادہ باقی رہے اور نہ اس کو چھوڑ کر دنیا یا آخرت یا کسی مخلوق سے مشغولیت ہو ۔ اللہ کی محبت کوئی آسان بات نہیں جو ہر کوئی اس کا دعویٰ کرنے لگے اور کتنے ہی لوگ ہیں جو اس کو دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ محبت ان سے دور ہوتی ہے۔ اور کتنے ہی لوگ ہیں جو محبت کا دعویٰ نہیں کرتے حالانکہ محبت ان کے نزدیک موجود ہوتی ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 60 )
* اللہ کی محبت کو اپنے اوپر لازم کرلے تو اس کی (اللہ کی ) محبت کو تمام ضروری چیزوں سے جن کاتو حاجت مند ہے، سے زیادہ اہم مقصد بنا لے، اسی کی محبت تجھے نفع دے گی۔ تمام مخلوق اپنے فائدہ کے لیے تجھے چاہتی ہے اور اللہ تعالیٰ تجھے تیرے لیے ہی چاہتا ہے اور دوست رکھتا ہے۔ ( الفتح الربانی۔ مجلس 19 )
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ عشقِ حقیقی کے بارے میں فرماتے ہیں:
* عاشقانِ الٰہی ہرگز نہیں ڈرتے اور نہ ہی وہ کسی کی ملامت سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ ( محک الفقر کلاں)
* فقیرِ کامل عاشق اور فقیر اکمل جامع اللہ تعالیٰ کا معشوق ہوتا ہے فقیر کا انتہائی مرتبہ شرفِ دیدار ہے اور جو فقیرعاشقِ خدا ہے وہ معشوقِ محمد ہے۔ ( نور الہدیٰ کلاں)
* جان لو کہ فقیر دو قسم کے ہیں ’’ایک سالک دوسرا عاشق‘‘۔ سالک صاحبِ ریاضت و مجاہدہ ہوتا ہے اور عاشق صاحبِ رازو مشاہدہ۔ سالک کی انتہا عاشق کی ابتدا ہوتی ہے کیونکہ عاشق کی خوراک مجاہدہ اور اس کی نیند مشاہدہ ہوتی ہے عاشقوں کے جسم تو دنیا میں ہوتے ہیں لیکن دل آخرت میں ۔ ( محکم الفقرا)
* عشق بھی صراف کی مثل ہے جو کھوٹے سونے کو کھوٹا کرتا ہے اور کھرے کو کھرا۔( عین الفقر)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
* روح اور اللہ کا رشتہ ہی عشق کا ہے عشق ایک بیج کی صورت میں انسان کے اندر موجود ہے مگر سویا ہوا ہے جیسے جیسے ذکرو تصورِ اسمِ اللہ ذات اور مشقِ مرقومِ وجودیہ اور مرشد کی باطنی مہربانی سے یہ روح کے اندر بیدار ہوناشروع ہوتا ہے ویسے ویسے روح کی اللہ کے لیے تڑپ اور کشش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر یہی عشق ایک دن عشق (اللہ تعالیٰ) میں فنا ہوجاتا ہے۔
* عشق کی آگ جب بھڑک اٹھتی ہے تو باقی تمام محبتوں کو جلا کر خاک کر دیتی ہے اور پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
* عشقِ الٰہی کے بغیر عبادت کا کوئی فائدہ نہیں۔
* یہ عشق ہی تو ہے جو کائنات کا سب سے بڑا راز دیدارِ حق تعالیٰ عطا کرتا ہے، عقل تو اس کا انکار کرتی ہے۔
* فقر کا آخری مرتبہ ’’مرتبہ محبوبیت‘‘ ہی ہے اور یہاں پر معشوق کی رضا عاشق کی رضا بن جاتی ہے۔
* عشق کی وجہ سے ہی اصحابِ کہف کا کتا مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہوگیا۔ (شمس الفقرا)

لقائے الٰہی
لقا سے مراد ’دیدارِ چہرہ‘ ہے۔ قرآن کی جن آیات میں بھی ’’لقا‘‘ کا لفظ استعمال ہوا اس سے مراد دیدار ہی ہے۔
بہت سے علمائے دین کا کہنا ہے کہ دیدارِ الٰہی ممکن نہیں، میرے مرشد پاک آفتا بِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے ایک مثال کے ذریعے بہت شاندار طریقے سے وضاحت کی ہے کہ دیدارِ الٰہی ممکن ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ الاسلام سے دیدار کی خواہش پر کہا کہ لَنْ تَرَانِْی (تو نہیں دیکھ سکتا) تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا بلکہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی مخاطب تھے۔ ’’ تُو مجھے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا ‘‘ جب اللہ نے تجلی فرمائی تو حضرت موسیٰ علیہ الاسلام بے ہوش ہوگئے۔ آپ ؑ کا بے ہوش ہونا ہی اس بات کی گواہی ہے کہ آپ علیہ السلام نے کچھ دیکھا تبھی تو بے ہوش ہوگئے یعنی دیدارِ الٰہی کی تاب نہ لاسکے۔ ہوش میں آتے ہی آپ علیہ السلام نے فرمایا’’ مَیں پہلا مومن ہوں‘‘ مومن وہ ہوتا ہے جو اللہ کو دیکھ کر اس پر ایمان لائے۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کا دیدار کیا البتہ وہ اس کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہوگئے۔
* باطن میں لقائے الٰہی (دیدارِ الٰہی ) سب سے اعلیٰ مقام ہے یہ تصور اسمِ اللہ ذات اور مرشد کامل اکمل کی راہبری سے حاصل ہوتا ہے لیکن فقر میں یہ بھی کامل مرتبہ نہیں ہے اس میں بھی دوئی پائی جاتی ہے ۔ فقر کی انتہا تو یہ ہے کہ انسان ذاتِ حق میں فنا ہو کر بقا حاصل کرلے تب ہی انسان ‘ انسانِ کامل یا مردِ مومن بنتا ہے۔
* لذتِ دیدار سے بہتر کوئی لذت نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا دیدار نورِ بصارت سے نہیں نورِ بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔
* جو اللہ سے مل گیا وہ کامیاب ہوگیا، سکون صرف لقائے الٰہی میں ہے۔
* عبادت وہی کامل ہے جو اللہ کو دیکھ کر کی جائے خواہ کسی بھی انداز و طریقے سے کی جائے۔حضور علیہ الصلوٰۃوا لسلام اور صحابہ کرامؓ کی عبادت کا اصل طریقہ ’’معراج ‘‘ تھا یعنی اللہ کو دیکھ کر عبادت کرنا۔
* اللہ کی پہچان اور لقا (دیدار ) روحِ قدسی کو حاصل ہوتا ہے ۔ روحِ قدسی فطر تِ سلیمہ ہے جس پر ہر انسان پیدا ہوتا ہے۔
اسی بابت قرآنِ پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے:
فَاَےْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہ (البقرہ ۔115 )
ترجمہ:پس تم جدھر بھی دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ نظر آئے گا۔
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمیٰ(بنی اسرائیل۔72 )
ترجمہ: جو شخص اس دنیا میں (دیدارِ و لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔
یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ (مومن۔15 )
ترجمہ:وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح القا فرما دیتا ہے۔
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖٓ فَلْےَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا (الکہف۔110 )
ترجمہ: جو شخص اپنے ربّ کا لقا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ عملِ صالح کرے۔
قَدْ خَسِرَ الَّذِےْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰہِ (الانعام۔31 )
ترجمہ: بے شک وہ لوگ خسارے میں ہیں جنہوں نے لقائے الٰہی (دیدار) کو جھٹلایا۔
اُولٰٓءِکَ الَّذِےْنَ کَفَرُوْا بِاٰےٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِےْمُ لَھُمْ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ وَزْنًا (الکہف۔ 105 )
ترجمہ:جن لوگوں نے اپنے ربّ کی نشانیوں اور اس کے لقا (دیدارِ الٰہی ) کا انکار کیا ان کے اعمال ضائع ہوگئے ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی تول قائم نہ کریں گے۔ (یعنی بغیر حساب کے انہیں جہنم رسید کیا جائے گا)۔
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
حضرت جریر بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا قریب ہے وہ وقت جب تم اپنے ربّ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ (مشکوٰۃ)
صحابہ کرامؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چودھویں کے چاند کو دیکھ کر فرمایا ’’جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے اور خدا تعالیٰ کو دیکھنے میں تم کوئی اذیت اور تکلیف محسوس نہیں کرو گے۔‘‘ (الفتح الربانی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
سَتَّرُ وْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ
ترجمہ: عنقریب تم اپنے ربّ کو اس طرح دیکھو گے جیسا کہ تم سورج اور چاند کو دیکھتے ہو۔ ( الفتح الربانی مجلس۔33 )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
رَاَےْتُ رَبِّیْ عَلٰی صُوْرَۃِ شَبَابٍِ اَمْرَدٍ
ترجمہ:میں نے اپنے ربّ کو بے ریش نوجوان کی صورت میں دیکھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کا فرمان ہے:
رَایئ قَلْبِیْ رَبِّیْ بِنُوْرِ رَبِّیْ
ترجمہ:میں نے اپنے قلب میں اپنے ربّ کو نورِ ربی کے واسطہ سے دیکھا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے:
لَمْ اَعْبُدْ رَبَّا کَمْ اَرَاہُ
ترجمہ: میں نے اپنے ربّ کی عبادت تب تک نہیں کرتا جب تک میں اسے دیکھ نہ لوں۔
سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* جب اہلِ قرب جمالِ الٰہی کا دیدار کرلیتے ہیں تو پھر ان کی آنکھیں کسی غیر کو دیکھنا گوارا نہیں کرتیں اور وہ ذاتِ حق کے سوا کسی کو نگاہِ محبت سے نہیں دیکھتے کہ دونوں جہان میں ان کا محبوب و مطلوب صرف اللہ ہی ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اللہ کے سوا کسی چیز کا قصد کرتے ہیں۔ (سرّالاسرار۔ا فصل نمبر12 )
* صاحبِ یقین و معرفت مسلمان کے لیے دو ظاہری اور دو باطنی آنکھیں ہیں ۔ پس وہ ظاہری آنکھوں سے زمین پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے اور باطنی آنکھوں سے آسمان پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے اس کے بعد اس کے دل سے تمام پردے اُٹھا دئیے جاتے ہیں پس وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو بلاشبہ اور بلاکیف دیکھتا ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس3 )
* اگر کوئی سائل پوچھے کہ اللہ تعالیٰ کو کس طرح دیکھا جاسکتا ہے تو پس میں اس کا جواب یہ دوں گا کہ بندہ کے دل سے جب مخلوق نکل جاتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا تو اللہ تعالیٰ جس طرح بھی چاہتا ہے اپنا دیدار کرواتا ہے اور اس کے اور قریب آجاتا ہے ، جس طرح اس کو اور چیزیں ظاہراً دکھاتا ہے اسی طرح اپنی ذات کو باطناً دکھاتا ہے ۔ (الفتح الربانی مجلس۔59 )
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* طالبِ دیدار کو چونکہ دیدارِ الٰہی سے ہی غرض ہوتی ہے اور وہ اللہ کے سوا کسی اور چیز کو دیکھتا بھی نہیں اس لیے میں بھی ہر وقت مطالعۂ دل میں غرق رہتے ہوئے جدھر بھی دیکھتا ہوں حق ہی حق کو پاتا ہوں۔ (نورالہدیٰ کلاں)
* جو شخص اپنی جان کے بدلے اسمِ اللہ ذات خرید لیتا ہے وہ کھلی آنکھوں سے دیدارِ حق تعالیٰ کرتا ہے۔ (عین الفقر)
* دیدارِ حق کے سوا جو کچھ بھی ہے مردار ہے اس لیے عاشق ہمیشہ طالبِ دیدار ہوتا ہے۔ ( عین الفقر)
* اسمِ اللہ ذات تیری راہبری کے لیے ہر دم تیرے ساتھ ہے اس لیے لقائے حق کے علاوہ کسی اور چیز کی جستجو مت کر۔ (نورالہدیٰ کلاں)
* دل اگر بیدار نہ ہو تو دیدارِ الٰہی کیسے ہوسکتا ہے؟ سجدۂ دیوار سجدۂ دیدارتو نہیں ۔ (عین الفقر)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* دیدارِ الٰہی سے بڑی کوئی نعمت نہیں جو صرف عارفین کو عطا کی جاتی ہے۔
* دیدارِ الٰہی نورِ بصارت سے نہیں نورِ بصیرت سے حاصل ہوتا ہے اور نورِ بصیرت اسمِ اللہ ذات اور مرشد کامل اکمل کی نگاہ سے حاصل ہوتا ہے۔
* جو دیدار کا انکار کرتا ہے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی نہیں۔ اس کے نصیب میں خواری ہے اور اس خواری سے وہ خود بے خبر ہے۔
* جسے دیدارِ الٰہی حاصل ہوجاتا ہے وہ لوگوں میں اپنی بڑائی بیان نہیں کرتا پھرتا۔ وہ ہر چیز دیکھتا ہے لیکن خاموش رہتا ہے۔
* ہم نے اللہ تعالیٰ سے اس کے دیدار اور اس کی رضا کے سوا کچھ نہیں مانگا۔ (شمس الفقرا)

فقر
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
* فقر ایک خاص باطنی مرتبہ اور کمال ہے اس کے مقابلے میں باطن میں نہ کوئی مرتبہ ہے نہ کمال۔
* فقر وہ راہ ہے جو بندے کو اللہ سے ملا دیتی ہے۔
* فقر عشق ہے۔
* فقر دراصل ان لوگوں کا ازلی نصیبہ ہے جو روزِ الست دنیا اور عقبیٰ کی تمام نعمتوں کو ٹھکرا کر اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ رہے اور کائنات کی تمام لذتیں ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہ کرسکیں۔
* اللہ پاک فقر جمال میں نہیں جلال میں عطا فرماتا ہے یعنی رزق میں تنگی۔ بیماری یا ایسی ہی دوسری آزمائشوں کے ذریعے ۔
* اللہ پاک اگر بے حجاب ہے تو صرف فقر میں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلشَّےْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ ےَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ(البقرہ۔ 268)
ترجمہ:شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا اور فواحش کی تعلیم دیتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
* فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
* فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
* فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے دنیا اہلِ عقبیٰ پر حرام ہے اور عقبیٰ اہلِ دنیا پر حرام ہے اور دنیا و عقبیٰ طالبِ مولیٰ پر حرام ہیں جسے مولیٰ مل گیا وہ مالکِ کل ہوگیا۔ (کلید التوحید )
* میں منہ کے بل گرانے والے فقر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! اپنے اصحاب سے کہہ دو کہ اگروہ میرے صحبت چاہتے ہیں تو فقراختیار کریں‘‘۔ (رسالتہ الغوثیہ)
* میری زینت فقر ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے:
* فقر عین ذات ہے۔ (عین الفقر)
* فقر دیدارِ الٰہی کا علم ہے۔(عین الفقر)
* جو شخص اللہ اور اس کا دیدار چاہتا ہے وہ فقر اختیار کرے۔ ( عین الفقر)
* تمام ابنیا کرام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مرتبہ فقر کے حصول اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی ہونے کی التجا کرتے رہے‘ لیکن انہیں یہ مراتب حاصل نہ ہو سکے جسے بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ کی حضوری نصیب ہوئی اس نے فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اپنا رفیق بنایا کیونکہ مرتبہ فقر سے بڑھ کر بلند و قابلِ فخر مرتبہ نہ کوئی ہے اور نہ کوئی ہوگا، فقر دائمی زندگی ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
* فقر سرِ الٰہی ہے۔( عین الفقر)
سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی فرماتے ہیں :
* فقر راہِ عشق ہے۔
* فقر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی وراثت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حقیقت میں وہی حقیقی وارث ہے جو اس وراثت کا وارث ہے۔
* فقر دراصل اللہ تعالیٰ کے دیدار اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کا علم ہے۔
* راہِ فقر میں تمام منازل و مقامات مرشدِ کامل اکمل کی نگاہ، باطنی توجہ، ذکر تصور اور مشقِ مرقومِ وجودیہ اسمِ اللہ ذات سے طے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ فقر کی انتہا تک پہنچنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
* اصل صراطِ مستقیم حضور علیہ السلام ہیں اور جو فقر کی منازل کو طے کرتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں پہنچ گیا اس نے صراطِ مستقیم کو پا لیا۔ (شمس الفقرا)

منافق
* موجودہ دور منافقت کا دور ہے ۔ جو شخص جتنا بڑا منافق ہے اتنا ہی بڑا نیک و کار نظر آتا ہے۔
* منافق ظاہر میں بڑ امتقی ہے اور اندر سے کافر۔
* جس طرح مومن فنا فی الرسول ہوتا ہے اسی طرح منافق فنا فی الشیطان ہوتا ہے۔ وہ انسان شیطان ہے جس کا ذکر سورۃ الناس میں ہے ’’مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ‘‘ وہ جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے‘‘ یہ انسانی شیطان جن شیطان سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ انسانی شیطان ظاہراً حملہ کر کے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جن شیطان دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔
* منافق کا چہرہ بے نور ہوتا ہے خواہ کتنی ہی آرائش کیوں نہ کی ہو۔
* دنیادار منافقوں کو نہیں پہچان سکتے ۔ منافق کو وہی پہچان سکتا ہے جس کے اندر نورِاسمِ اللہ ذات ہو ۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی مذمت میں ایک مکمل سورۃ اتاری ہے جس کا نام سورۃ المنافقون ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِذَا جَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ ےَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُولُہٗ وَاللّٰہُ ےَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِےْنَ لَکٰذِبُوْنَ (سورۃ المنافقون۔1 )
ترجمہ: جب منافق آپ کے حضور حاضر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام بیشک اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں۔
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَےٰطِےْنِھِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُوْنَ۔ (البقرہ۔ 14 )
ترجمہ: اور جب (منافق) اہلِ ایمان سے ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بیشک تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم ان (مسلمانوں) کے ساتھ تو محض مذاق کرتے ہیں۔
* منافق لوگ دوزخ میں سب سے نیچے درجے میں ہوں گے۔ (النساء۔145 )
* منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے سے ہیں یہ برے کام کرنے کو کہتے ہیں اور نیک کام سے منع کرتے ہیں ۔ اور اپنے ہاتھوں کو (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) روکتے ہیں انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ بیشک یہ منافق بڑے ہی نافرمان ہیں ۔ ( سورۃ التوبہ۔67 )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
* منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری )
* منافق جب بیمار ہو کر صحت مند ہوجاتا ہے تو اس کی مثال اونٹ کی سی ہے وہ نہیں جانتا کہ اسے کیوں رسیوں سے باندھا گیا اور کیوں کھلا چھوڑ ا گیا۔( ابو داؤد)
* حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی ہے جو دو ریوڑ کے درمیان پھنس جائے اور وہ یہ نہیں جانتی کہ کس ریوڑ کے ساتھ ہے۔(سنن نسائی)
حضور سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں :
* ریاکار منافق دنیا کو دین کے عوض اختیار کرتا ہے اور بغیر قابلیت کے صالحین کا لباس پہن کر ان جیسا کلام کرتا ہے اور ان کا لباس پہنتا ہے مگر ان جیسے اعمال نہیں کرتا اور ان کی طرف اپنی نیت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ نیت صحیح نہیں بلکہ غلط ہے۔(الفتح الربانی ۔مجلس 22)
* منافق ریاکار شخص اپنے عمل پر مغرور ہوتا ہے اور ہمیشہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور راتوں کو شب بیداری کرتا ہے روکھا سوکھا کھاتا ہے اور موٹا لباس پہنتا ہے وہ درحقیقت ظاہر وباطن میں تاریکی میں ہے اور اپنے دل سے اللہ کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھاتا پس وہ عمل کرنے والوں اور غم اُٹھانے والوں میں سے ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 43 )
* مومن شخص زندہ اور منافق مردہ ہوتا ہے۔ مومن اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کرتا ہے اور منافق مخلوق کے لیے عمل کرتا ہے۔ (الفتح الربانی مجلس۔18 )
* منافق مسجد میں اسی طرح رہتا ہے جس طرح پرندہ پنجرے میں۔ ظاہر ی شریعت اس کا پنجرہ ہے اور ہر وقت اس سے آزاد ہونے کا طالب رہتا ہے۔(الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)

نفس
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* نفس اللہ اور بندے کے درمیان حجاب ہے اگر یہ حجاب درمیان سے ہٹ جائے تو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا۔
* شیطان بھی نفس ہی کو استعمال کر کے برائیوں کی طرف راغب کرتا ہے ۔ نفس کا تزکیہ ہوسکتا ہے لیکن شیطان کا تزکیہ ممکن نہیں ہے۔
* نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگنا نفس پرستی ہے اور یہ بھی بت پرستی کی ہی قسم ہے
* جو انسان نفس کے نت نئے فتنوں کو قابو میں لاتا ہے وہی ’’وصالِ الٰہی‘‘ کی منزل تک پہنچتا ہے۔
* نفس نورِ الٰہی میں غرق ہو کر نفسِ مطمئنہ بن جاتا ہے۔
* جب طالب محاسبہ نفس میں ماہر ہوجائے گا تو پھر اللہ کی رضا جان لے گا۔
* جو طالب نفسِ مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جائے اسے قلبِ سلیم حاصل ہوجاتا ہے۔
* نفس شیطان سے زیادہ طاقتور ہے لیکن نفس کا تزکیہ ہو جائے تو وہ خیر بن جاتاہے جبکہ شیطان کا تزکیہ نہیں ہوسکتا اس لیے وہ صرف شر ہے۔
قرآنِ پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
قَدْ افْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا( الشمس۔ 9 )
ترجمہ:بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے (نفس کو) پاک کیا۔
فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِےْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِےْنَ (سورۃ المائدہ ۔30 )
ترجمہ: تو اس کے نفس نے اس کے لیے اپنے بھائی کے قتل کو آسان کر دکھایا سو اس نے اسے قتل کر دیا اور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا۔
اَرَءَےْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰہٗ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَےْہِ وَکِےْلاً۔ (الفرقان۔ 43 )
ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا۔ تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لوگے۔
فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ گ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقآی۔ (النجم ۔32 )
ترجمہ: پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو وہی (اللہ بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:
سمجھدار انسان وہ ہے جو اپنے نفس کی نگرانی کرتا رہے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے۔ نا سمجھ انسان وہ ہے جو نفس کی خواہشوں پر چلے اوراللہ تعالیٰ سے امیدیں رکھے۔( ترمذی )
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ طاقتور وہ نہیں ہے جو پچھاڑ دے اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔‘‘ ( بخاری و مسلم)
رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’مالداری یہ نہیں کہ انسان کے پاس مال و دولت سے بھرے خزانے ہوں بلکہ ایک شخص اپنے نفس کو جتنا قابو میں رکھتا ہے وہ اتنا مالدار ہے۔‘‘ ( صحیح بخاری ۔ صحیح مسلم)
سیّدناغوث الاعظم حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* اگرچہ نفس بھی حقیقت میں اللہ ہی کی مخلوق اور ملکیت ہے تاہم اس کو لذت اور شہوت کی وجہ سے کئی دعوے ہیں۔ جب تو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے نفس کی سرکشیوں کی مخالفت کرے گا تو تُو اللہ کا ہو کر نفس کا دشمن ہو جائے گا۔ (فتوح الغیب ۔ مقالہ 10 )
* عبودیت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کا دشمن ہو جا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے تیری دوستی اور عبودیت صحیح معنو ں میں استوار ہو جائے گی۔( فتوح الغیب ۔مقالہ 10 )
* نفس مخلوق اوراللہ کے درمیان پردہ ہے جب وہ درمیان سے اُٹھ جائے گا حجاب زائل ہوجائے گا۔(الفتح الربانی مجلس49 )
* اے اللہ کے بندے! تو اس بات کی کوشش کر کہ تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں مرمٹے اور تیری یہ کوشش ہو کہ تیرے بدن سے روح نکلنے سے پہلے تیرا نفس مر جائے۔ نفس کی موت صبر کرنے اور اس کی مخالفت سے ہو سکتی ہے۔ (الفتح الربانی ۔ مجلس 43 )
* جس شخص کو اپنے نفس کو درست کرنے کی ضرورت ہو اس کو چاہیے کہ نفس کو سکوت اور حسنِ ادب کی لگام دے اور نفس کو تقویٰ کی زرہ پہنائے کہ یہی اس کے مطمئنہ بننے اوراللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ ( الفتح الربانی ۔ ملفوظاتِ غوثیہ)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
* نفس ایک سواری ہے جس کی رسائی رازِ الٰہی تک ہے اور یہ مشاہدۂ توحیدِ حق تک پہنچاتی ہے ۔ (کلید التوحید)
* اپنے نفس کے محاسبہ کے لیے خود قاضی بن اور اس کافر کو مارنے کے لیے مردِ غازی بن ۔ (عین الفقر)
* تابع نفس (نفسِ مطمئنہ) پیاری جان سے بہتر دوست ہے نفس کو احمق و بے تمیز لوگ کیا جانیں ۔ ( عین الفقر)
* طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ ہر دم اور ہر گھڑی رات دن نفس کی مخالفت کرتا رہے کسی وقت بھی اس سے غافل نہ رہے کیونکہ نفس کافر ہے۔ (عین الفقر)
جس شخص کا نفس ابتدا میں سرکش و امارہ ہوتا ہے تو تصورِ اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے سے پہلے لوامہ بنتا ہے پھر ملہمہ اور آخر میں مطمئنہ بن جاتا ہے ۔ ( کلید التوحید کلاں)
* نفس و شہوات اور ہواوہوس کا خاتمہ کرتاکہ تجھے خدائے وحدہٗ لاشریک کا قرب نصیب ہو ۔ (کلیدالتوحید کلاں)
* نفس مملکتِ وجود میں بادشاہ ہے اور شیطان اس کا وزیر اعظم‘ جو ہر وقت مصلحت اندیشی اور خود پرستی کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں :
* نفس بندے اور خدا کے درمیان حجابِ اکبر ہے۔ شیطان اسی کے ذریعے انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ انسانی بدن میں ایسا چور ہے جس کی پہچان بھی عام انسانوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ اس کو قابو میں لانا اور مارنا بہت مشکل ہے۔ اس کو اسمِ اللہ ذات کا تصور اور مرشد کامل اکمل کی نگاہ ہی مارسکتی ہے۔ ظاہری عبادات سے تو یہ اور بھی طاقتور ہو کر ریاکاری میں مبتلا کر دیتا ہے ۔
* نفس کی یہ چار حالتیں ہیں، امارہ جو ہر وقت برائی گناہ، بدی، انانیت ، ریاکاری اور تکبر میں مبتلا رہتا ہے اور اس حالت میں انسان کو احساس تک نہیں ہوتا ۔ پھر جب مرشدِ کامل اکمل کی نگرانی میں طالب اسمِ اللہ ذات کا تصور شروع کر دیتا ہے تو یہ امارہ سے لوامہ ہوجاتا ہے یعنی برائی کرنے کے بعد انسان پچھتاتا ہے اسکی تیسری حالت ملہمہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکو برائی کے قریب جانے ہی نہیں دیتا اور آخری اعلیٰ و ارفع حالت نفسِ مطمئنہ کی ہے۔ یہ حالت انبیا کرام‘ اولیا اور صدیقین کو حاصل ہے۔ یعنی نفس مکمل طور پر انسان کے قابو میں آجاتا ہے اور یہ انسان اور اللہ کے درمیان سے ہٹ جاتا ہے۔
حوالہ جات۔
1 ۔ سلطان العاشقین از سلطان الفقر پبلیکیشنز
2 ۔ حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ از سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس۔
3 ۔ شمس الفقرا از سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس۔
4 ۔ سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ حیات و تعلیمات از سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس۔


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں