mumlikat-e-khudadad

مملکتِ خداداد–Mumlikat-e-Khudadad

Spread the love

Rate this post

مملکتِ خداداد

تحریر: ڈاکٹر حامد جمیل سروری قادری (گوجرانوالہ)

آزادیِ افکار سے ہے ان کی تباہی 
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

14 اگست 1947 ء دنیا کی تاریخ میں وہ خاص دن ہے جس نے روئے زمین پر ایک تہلکہ مچا دیا اور دنیا میں ایک نئی مملکت ابھر کر سامنے آئی جو نہ صرف ایک معجزہ بلکہ اولیائے کاملین کی طرف سے امتِ مسلمہ کے لیے اِک تحفہ اور ان کی قوت کا مرکز اور طاقت تھی۔ وہ ریاست جو بے شمار دعاؤں، قربانیوں اور اولیائے کاملین کی دعاؤں کا ثمر تھی اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔ ’پاکستان‘ سے مراد پاک زمین ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔
27 رمضان المبارک جمعتہ المبارک کے بابرکت دن حاصل کی جانے والی اس اسلامی مملکت پاکستان کو امتِ مسلمہ کے مرکز و محور کے طور پر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا اور کفر و باطل کی شیطانی قوتوں سے آزادی حاصل کی گئی۔ جس کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ مگر افسوس آج ہم اپنے اس مقصد کو‘ جو اس آزاد ملک کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے دن رات جدوجہد کر کے حاصل کیاا سکو بھول کر فرقہ پرستی اور مذہب پرستی میں الجھے ہوئے ہیں اور اخلاقی اقدار کو بھول کر دشمن کی سازشوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ آج ہم اس آزاد مملکت کو حاصل کرنے اور اس ریاست کے اصل مقاصد پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان کا مقصدِ حیات کیا ہے؟ اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اس حدیثِ قدسی میں کی ہے:

کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ

ترجمہ: میں ایک مخفی خزانہ تھا میں نے چاہا میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو تخلیق کیا تاکہ میری پہچان ہو۔
لہٰذا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی پہچان کے لیے تخلیق کیا اور اس مقصد کیلئے دنیا میں بھیجا کہ کہیں ہم اس دنیا کی آسائشوں اور لذتوں میں مشغول ہو کر اپنے ربّ کو تو نہیں بھول گئے جس نے اس کائنات کو عشق کی بنیاد پر بنایا اور جو اپنے سوا کسی شریک کو برداشت نہیں کرتا۔ مگر پھر بھی ہم شیطان اور نفس کے چنگل میں پھنس کر اپنے خالق سے دور ہو کر اس دنیا میں کھو گئے۔ اسی وجہ سے ہدایت کا نظام شروع ہوا اور انبیا کرام کا سلسلہ جاری ہوا جو انسانیت کی ہدایت کیلئے انہیں اپنے ربّ کی طرف رجوع کی خاص الخاص تلقین کرتے رہے۔ اور حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آکر نبوت کا یہ سلسلہ ختم ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا یہ فریضہ فقر اکاملین کے سپرد فرمایا جو رشد و ہدایت کے اس مشن کو تاقیامت سنبھالتے رہیں گے۔ ان فقرا کاملین کا مقصد صرف لوگوں تک ہدایت کا پیغام اور خاص الخاص اپنے ربّ کی طرف توجہ دلا نا ہے مگر شر پسند عناصر اور شیطانی قوتوں نے ہمیشہ اس میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی۔ اس ساری بات کا مقصد اس موضوع میں صرف اسلئے ضروری تھا کہ جب تک اُمت مسلمہ کو عروج حاصل رہا اسلامی اقدار پھلتی پھولتی رہیں مگر پھر شیطانی اور نفسانی قوتوں نے اس عروج کو نظر لگاتے ہوئے مسلمانوں کو ان کا حقیقی مقصد بھلا دیا۔ مسلمان آپس میں فرقہ پرستی میں بٹ گئے اور اپنا دھیا ن اللہ پاک سے ہٹا کر دنیا و عقبیٰ میں لگا دیا جو ان کی تنزلی کا باعث بنا اور اسی وجہ سے ہی اُمت مسلمہ غلامی کا شکار ہوئی۔ ان کی غفلت اور سستی کے باعث ہی انگریز اس خطہ میں آکر قابض ہوگئے جنہوں نے مسلمانوں پر بے بہا ظلم ڈھائے۔ چونکہ ہندوؤں نے انکی غلامی اور موافقت اختیار کی تاہم انہیں ستایا نہ گیا۔ مسلمانوں پر غفلت اور ظلمت کے بادل چھائے ہوئے تھے اس لیے وہ نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی زوال کا شکار ہوئے اور انکی عبادت گاہوں کو بھی شہید کیا جانے لگا۔ اور ایسے میں کچھ نام نہاد علما نے مسلمانوں کو دنیاوی مفاد کی خاطر تعلیم و تربیت سے دور کر کے مزید تنزلی کا شکار کیا ایسے میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوئی اور سرسیّد احمد خان نے مسلمانوں کیلئے آواز بلند کی اور انہیں جدید تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی تلقین کی اور نام نہاد مذہبی علما کی شدید مخالفت کے باوجود اپنے مشن کو جاری رکھا۔ اس کے بعد علامہ اقبالؒ نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور مسلمانوں پر یہ بات واضح کردی کہ مسلم اور غیر مسلم ایک جگہ رہ کر غلامی کے پرچم تلے اپنی روایا ت اور دین کو کھل کر فروغ نہیں دے سکتے ۔ جسکی تصدیق تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خود کی ہے ’’یہود و نصاریٰ تمہارے دوست ہرگز نہیں ہوسکتے‘‘۔ اقبال نے اپنی آواز کو لوگوں تک پہنچانے کیلئے شاعری کو ذریعہ بنایا جو اس زمانہ میں بہت عام تھی:

بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

اور اسکی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی طلب چھوڑ کر اور دنیا کی محبت میں مبتلا ہو کر خود اپنا نقصان کر رہے تھے ایسے میں انہیں یکجا کر کے ان کو انکے حقیقی مقصد سے روشناس کروا کر اپنے خالقِ حقیقی کی طرف رجوع کروانے کی اشد ضرورت تھی۔ایسی صورت میں علامہ محمد اقبال ؒ کی انقلابی شاعری نے اہم کردار ادا کیا جس کا اصل مقصد اُمت مسلمہ اور اسکے نوجوانوں کو فقر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پیغام دینا تھا جس سے اصل کامیابی تھی کیونکہ انہی روایات و اقدار پر چل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کامیابیاں حاصل کی۔
آخر کار قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور دیگر مسلم اُمہ کے ولی صفت راہنماوں کی کوششوں کی وجہ سے برصغیر کی سر زمین پر پاکستان جیسی مملکت معرضِ وجود میں آئی جس کو لاالٰہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تاکہ مسلمان آزادانہ طور پر اپنی روایات کو برقرار رکھ سکیں اور اپنے اصل مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اس تک پہنچ سکیں۔ جہاں ان کی مقصد کی تکمیل میں کوئی غیر مسلم قوم اور شیطانی طاقت رکاوٹ نہ بن سکے۔ اسلئے اقبال اپنے اشعار میں نوجوان نسل سے مخاطب ہیں کہ جو لوگ اپنے اندر غور و فکر نہیں کرتے اور اپنی اصل حقیقت تک نہیں پہنچتے انکے لیے یہ زندگی بے معنی ہے اور وہ تباہی کے دہانے پر ہیں کیونکہ اصل آزادی اپنے اندر غورو فکر حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر نے میں ہے لہٰذا بے بہا قربانیوں اور کاوشوں کے بعد پاکستان اس کرۂ ارض پر معرضِ وجود میں آیا۔
14 اگست 1947 کے دن کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس دن وحدت کے گوشہ تنہائی سے ایک پاک اور مبارک روح سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ اس دنیا فانی میں ظاہر ہوئی۔ ان کی پاک روح کا اس دنیا میں آنا اس خطے کیلئے اتنا بابرکت ثابت ہوا کہ اللہ پاک نے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کے روپ میں پاکستان کا تحفہ دیا۔ آپ پیدائشی نور تھے اور آپ کی بابرکت پیدائش ضلع جھنگ میں ہوئی۔ کسی کو کیا خبر تھی جھنگ کے نواحی علاقہ میں پیدا ہونے والا یہ نومولود فقیر گوشۂ وحدت سے کثرت میں نکل کر آیا ہے جسکے صدقے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد مملکت عطا کی ہے تاکہ ہم اپنی حقیقت کو آزادانہ طور پر غور و فکر کر کے پہچانیں اور اپنے ربّ کی معرفت حاصل کر کے اپنا مقصدِ حیات پورا کریں۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ازلی فقیر تھے آپؒ نے مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالتے ہی سروری قادری سلسلہ کی روایت کو تبدیل کر دیا اور جو ذکر لوگوں کو ظاہری طور پر کھلے عام عطا نہیں ہوتا تھا اور صرف طالبانِ مولیٰ کو پرکھنے کے بعد عطا کیا جاتا تھا آپؒ نے اس ذکر اسمِ اللہ ذات کو عام کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ معرفتِ الٰہی تک پہنچ سکیں اور جس مقصد کے لیے انسان کو تخلیق کیا گیا اور جس کے لیے یہ آزاد ریاست امتِ مسلمہ کا مرکز و محور بن کر سامنے آئی‘ اس مقصد کو پورا کیا جا سکے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے آپؒ کے سلسلہ فقر کے حقیقی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے طالبانِ مولیٰ کیلئے مزید آسانیاں پیدا کیں اور اسم اللہ ذات کی آخری منزل سلطان الاذکار ھُو کے ذکر کو عام کر دیا کیونکہ اس جدید اور تیز رفتار دور میں جہاں مصروفیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگوں کے پاس ریاضت و مجاہدہ کی فرصت نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے طالبانِ مولیٰ کو بیعت کے پہلے ہی روز اسم اللہ ذات کی آخری منزل کا ذکر عطا کیا جاتا ہے جس سے طالبان مولیٰ اپنی روح اور قلب کو منور کر کے اور آپ مدظلہ الاقدس کی نظرِ کرم سے تزکیہ نفس کے ساتھ معرفت الٰہی کی منازل طے کرتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اس وقت لاہور سے فیضِ فقر کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔ تمام قارئین سے بھی گزارش ہے کہ آئیں اور اپنے حقیقی مقصد کو پہچانیں اور مرشد کامل اکمل کے زیر سایہ معرفتِ الٰہی حاصل کر کے اپنے دلوں کو منور کریں اورفلاح پائیں۔ ہمیں یہ آزاد ریاست بلاوجہ عطا نہیں کی گئی بلکہ اس لیے دی گئی تاکہ ہم بنا کسی رکاوٹ کے اللہ کے دن کے فروغ کے لیے کام کر سکیں۔ اللہ ہم سب کو اس مقصد کو سمجھنے اور اسے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں