سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تلاشِ حق اور بیعت–Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman ki Talash-e-Haq aur Bayat

Spread the love

Rate this post

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تلاشِ حق اور بیعت

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے حقیقی روحانی وارث اور آپؒ کے سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی شان ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ اذنِ الٰہی سے یہ بات بخوبی جانتے تھے آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مصطفی ثانی و مجتبیٰ آخرزمانی فرمایا ہے آخری زمانے میں جب گمراہی عام ہو گی تو میرے سلسلہ سروری قادری میں ایک بزرگ ہستی ظاہر ہو گی جس کی توسط سے ہدایت کا نور عام ہو گا۔ اس لیے اپنے آپؒ اس فرزند حقیقی کے ظہور کی تمنا کرتے ہوئے، فرماتے ہیں:
چڑھ چناں تے کر رشنائی، تارے ذِکر کریندے تیرا ھُو
تیرے جیہے چن کئی سَے چڑھدے، سانوں سجناں باجھ ہنیرا ھُو
جتھے چن اساڈا چڑھدا، اوتھے قدر نہیں کجھ تیرا ھُو
جس دے کارن اساں جنم گوایا، باھُوؒ یار ملے اک پھیرا ھُو
اللہ تعالیٰ جب بھی انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے کسی محبوب بندے کو ظاہر فرماتا ہے تو پہلے دنیا کے ماہ و سال میں رکھ کر شدید مشکلات و آزمائش سے گزارتا ہے۔ اسے زمانہ سازی کا ہنر سکھاتا ہے اور اس کے دل کو دنیا سے سیر کر دیتا ہے تا کہ وہ دنیا کی حقیقت سے اچھی طرح شناسائی حاصل کر لے۔
اقبالؒ فرماتے ہیں:
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق
انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا سلسلہ سروری قادری کے امام کے طور پر انتخاب ازلی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی دنیا کے ماہ و سال میں مشکلات اور آزمائش سے اس شدت سے گزار کہ عسرت و خوشحالی کی حالتیں اور دنیا کی حقیقت آپ مدظلہ الاقدس پر واضح ہو گئی۔
نومبر 1995 ء تک آپ مدظلہ الاقدس کا دل دنیا سے سیر ہو چکا تھااور باطنی طور پر آپ دنیا اور معاملاتِ دنیا سے بے زار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ روح کی بے چینی اور بے سکونی نے باطن میں ہلچل مچا رکھی تھی‘ جو اپنے محبوبِ حقیقی سے ملاقات کے لیے بے قرار تھی۔ فقر و فاقہ‘ تنگدستی میں بھی سکون نہ ملا‘ دنیا کی نعمتیں اور فراخی کا زمانہ بھی قلبی سکون کا باعث نہ بن سکا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نومبر 1995 ء تک آپ کی ظاہری باطنی تربیت کے ابتدائی دو ادوار کی تکمیل ہو چکی تھی اور اب آپ کامل یکسوئی کے ساتھ اس ذات کی تلاش میں تھے جو قلبی سکون کا باعث ہو۔ اسی سکون کی تلاش میں آپ مدظلہ الاقدس دنیاوی معاملات اور سرگرمیوں کو انتہائی محدود کر کے زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں گزارنے لگے۔دوستوں رشتہ داروں سے میل ملاپ میں کمی آنے لگی، ٹی وی دیکھنے یا سیرو تفریح جیسے مشاغل سے دِل اچاٹ ہو گیا۔ جس مقصد کے لیے آپ مدظلہ الاقدس اس دنیا میں تشریف لائے تھے یعنی مقامِ فنا فی اللہ بقاباللہ تک پہنچ کر طالبانِ مولیٰ کی حق تک رہنمائی کرنا، اس مقصد کے لیے آپ کی تربیت کا وقت اب آچکا تھا۔
نومبر 1995 ء کا ہی واقعہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس ڈرائی پورٹ مغل پورہ لاہور کی مسجد سے ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد نکلے اور نیشنل بنک کے راستے سے گزر کر پیدل ایڈمن برانچ ڈرائی پورٹ کی طرف جارہے تھے۔ جب آپ مدظلہ الاقدس نیشنل بنک کے سامنے والی کینٹین کے پاس سے گزرے تو کینٹین سے ایک عجیب حلیے والا ادھیڑ عمر شخص اچانک آپ مدظلہ الاقدس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور آپ سے کہنے لگا:
’’تم پر اللہ کے فضل کا دور شروع ہو چکا ہے۔ اپنی حالت پر اسی طرح قائم رہنا۔‘‘
آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو اس نے جواب دیا:
’’میں وہ ہوں جو لوگوں کو راستہ دکھاتا ہے اور ان کی راہنمائی کرتا ہے۔میں تو صرف تمہیں دیکھنے آیا ہوں۔‘‘
پہلے تو آپ نے یہ سمجھا کہ آج کل کے دور میں جس طرح لوگ اسی طرح کا روپ دھار کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں یہ شخص بھی انہی میں سے ہے اسی لیے آپ نے کہا ’’ شکریہ میں آپ کی ہدایت پر عمل کروں گا‘‘ اور آگے بڑھ گئے لیکن جب آپ مدظلہ الاقدس ایڈمن سیکشن کے دروازے کے قریب پہنچے تو آپ کے دل میں خیال کوندا کہ یہ شخص میری اندرونی حالت سے کیسے واقف ہے؟ آپ یکدم واپس پلٹے اور اس شخص کی تلاش میں کینٹین پہنچے تو وہ شخص غائب ہو چکا تھا۔ کینٹین کے ملازمین سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس حلیہ کا شخص تو انہوں نے دیکھا ہی نہیں۔
14۔ اگست 1996ء کا دن لاہور کی تاریخ میں اس لیے اہم ہے کہ اس دن لاہور میں تاریخی طوفانی بارش ہوئی تھی جس نے آدھے لاہور کو ڈبو دیا تھا۔ لیکن اسی دن آپ مدظلہ الاقدس کی لاڈلی اور پیاری بیٹی تابینہ کے سر میں درد شروع ہوا جس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 26 ستمبر 1996 کو گلبرگ ہسپتال گلبرگ لاہور میں مشہور نیوروسرجن محمد افتخار راجہ مرحوم نے اپریشن کیا لیکن وہ کومہ میں چلی گئی۔ فوراً جنرل ہسپتال لاہور کے ICU وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں 2 ۔اکتوبر 1996 (18 جمادی الاول 1417ھ) بروز بدھ ان کا انتقال ہوگیا۔
زندگی کے اتنے بڑے صدمے سے گزرنے کے بعد جو تبدیلیاں آپ مدظلہ الاقدس کے باطن میں کامل ہو چکی تھیں‘ ظاہر ہونے لگیں۔ مال و دولتِ دنیا بالکل بے وقعت ہو گیا ، دِل میں اس خیال نے گھر کر لیا کہ کیا فائدہ ایسے مال کا جس کی کثرت بھی پیاری صاحبزادی کو نہ بچا سکی۔ اس حقیقی دولت یعنی قربِ خدا وندی کی طلب بڑھ گئی جو دائمی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا زیادہ تر وقت عبادات و ریاضت میں گزرنے لگا۔ ان عبادات سے غرض اور طلب صرف قرب و معرفتِ حق تعالیٰ تھی۔ عبادات و ریاضت میں اتنا مجاہدہ کیا کہ ایک وقت یہ بھی آپہنچا کہ چوبیس گھنٹوں میں صرف چھ گھنٹے آرام فرماتے اوراوقاتِ ملازمت کے سوا مسلسل مصروفِ عبادت رہتے۔ زہد و ریاضت کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں درود شریف اور کلمہ شریف کا ورد فرماتے۔ اس مقصد کے لیے پانچ سو دانوں والی خصوصی تسبیح بنوائی ہوئی تھی۔ زہد و ریاضت کی کثرت سے آپ مدظلہ الاقدس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اور انگشتِ شہادت پر تسبیح کی وجہ سے گٹھا پڑ گیا۔ کبھی کبھی گھٹن انتہا کو پہنچتی تو بے اختیار گھنٹوں روتے رہتے۔ اہلیہ محترمہ خیال کرتیں کہ شاید بیٹی کی یاد میں رو رہے ہیں۔
اتنی زیادہ کثرت سے زہد و ریاضت کے باوجود منزلِ مراد نظر نہ آرہی تھی۔ مارچ 1997 کا واقعہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس ایک کتاب کا مطالعہ فرما رہے تھے، اس کتاب میں آپ نے یہ عبارت پڑھی ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتونِ جنت حضرت سیّدۃ النساء رضی اللہ عنہا کو کبھی انکار نہیں فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ جب امہات المومنینؓ میں سے کسی کو یہ خدشہ ہوتا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن کی کسی بات کو منظور نہ فرمائیں گے تو سیّدہ کائنات k کے وسیلہ سے وہ معاملہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش فرماتیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُسے منظور فرما لیتے۔‘‘ اس عبارت کو پڑھنے کے بعد آپ مدظلہ الاقدس روزانہ جتنی عبادت فرماتے اس کا ثواب سیّدہ کائنات سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی بارگاہ میں ہدیہ فرما دیتے اور یہ دعا فرماتے:
’’یا سیّدہ کائنات رضی اللہ عنہا آپ کا یہ گنہگار غلام آپؓ کی بارگاہ میں اپنی معمولی سی عبادت کا نذرانہ پیش کر رہا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ آپؓ کو ہماری عبادت کے ثواب کی حاجت نہیں ہے۔ ہم تو خود آپؓ کے گھرانہ کی شفاعت اور کرم کے محتاج ہیں۔ یہ ثواب تو صرف ایک گدا کی آپؓ کے در پر صدا ہے۔ جس طرح ظاہری حیات میں کوئی سوالی آپؓ کے در پر حاضر ہو کر صدا دیتا اور خالی ہاتھ نہ جاتا تھا‘ اسی طرح باطنی حیات میں بھی یہ گدا آپؓ کے در سے خالی نہ جائے گا۔ آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں میری سفارش فرمائیں کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اس غلام کو وہ راہ عطا فرمائیں جس راہ پر چلنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا اور مجھے یقینِ کامل ہے کہ یہ گدا آپؓ کے در سے خالی واپس نہیں جائے گا کیونکہ گدا کو خالی ہاتھ واپس جانے دینا آپؓ کے گھرانے کی رِیت ہی نہیں ہے۔‘‘
چند الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ یہی دعا آپ مد ظلہ الاقدس کی زندگی کا حصہ بن گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت نہ تو آپ کو فقر کے بارے میں کچھ معلوم تھا اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ فقر خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کے وسیلہ سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ جامع الاسرار میں فرماتے ہیں’’حضرت فاطمتہ الزہرا (رضی اللہ عنہا) فقر کی پَلی ہوئی ہیں اور انہیں فقر حاصل ہے۔ جو شخص فقر تک پہنچتا ہے انہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔‘‘یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور توفیق تھی جس نے آپ کے لبوں اور قلب پر یہ دعا اور طریقہ جاری کر دیا۔اور یوں آپ بغیر کسی علم کے ان کے در تک پہنچ گئے جن کے وسیلہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فقر عطا فرماتے ہیں۔

باطنی بیعت

صرف ایک ماہ بعد 12۔ اپریل 1997ء کی رات نمازِ تہجد کے بعد آپ مدظلہ الاقدس درود پاک پڑھ رہے تھے کہ باطن کا در کھل گیا اور خود کو باطنی طور پر مسجدِ نبوی میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پایا۔ نورِ ازل آقا و مولا سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام درمیان میں تشریف فرما تھے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دائیں جانب حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ ‘ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ اور چاروں سلاسل کے مشائخ کرام تشریف فرما تھے۔ اس محفل میں حاضر ہوتے ہی اور اہلِ محفل کی ہیبت و جلال کو دیکھ کر آپ گنگ رہ گئے اور قریب تھا کہ خوف سے بے جان ہوکر گر جاتے کہ مولائے کائنات(حضرت علی کرم اللہ وجہہ) نے آگے بڑھ کر آپ مد ظلہ الاقدس کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے پیش کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک قدموں میں بٹھا دیا اور عرض کی حضور ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) یہ نجیب الرحمن ہے اور آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا غلام ہے۔ یہ آپ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی نورِ نظر لختِ جگر (خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا) کا نوری فرزند ہے اور انہوں نے اس کو اپنا ورثہ عطا کرنے کے لیے منتخب فرمایا ہے اور اس مقصدکے لیے آپ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی بارگاہِ عالیہ میں بھیجا ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس نے جب یہ سنا تو جلدی سے اپنی پیشانی اُن مبارک قدموں پر رکھ دی جن پر دونوں جہان نثار ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’ہاں ہمیں سفارش پہنچ چکی ہے اور ہم نے اسے منظور بھی کر لیا ہے۔ اب یہ ہمارا بھی نوری حضوری فرزند ہے مگر ہم انہیں کس فرزندِ رسول( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ورثہ عطا فرمائیں۔‘‘ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہٗ نے عرض کی ’’نانا حضور( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اماں حضور(خاتونِ جنتؓ ) نے انہیں ہمارا ورثہ عطا کرنے کا فرمایا ہے‘‘ حضور( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )نے اپنے دونوں دستِ مبارک سے شانوں سے پکڑ کر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کو اپنے قدموں سے اٹھایا اور فرمایا’’ تو ہمارا نوری حضوری فرزند ہے، ہمارا وارث ہے۔ ایک زمانہ تجھ سے فیض پائے گا اور ہم تمہیں اپنی برہان بنائیں گے۔ تونے ہماری لختِ جگر نورِ نظر کو راضی کیا ہے ہم تجھ سے راضی ہوگئے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیعت کے لیے دونوں دستِ مبارک آگے بڑھائے توآپ مد ظلہ الاقدس نے اپنے دونوں ہاتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک میں دے دئیے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ مد ظلہ الاقدس کو بیعت فرمایا اور اس کے بعد چاروں سلاسل کے مشائخ کی طرف نظر کی اور پیرانِ پیر سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ سے فرمایا ’’اس کی وراثت آپؓ کے پاس ہے۔‘‘ پھر آپ مد ظلہ الاقدس کا ہاتھ غوث الاعظم h کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا ’’یہ ہماری لختِ جگرؓ کا نور ی حضوری فرزند ہے۔ اب ہمارا اور آپ کا نوری حضوری فرزند ہے۔ ہم اس کو آپؓکے سپرد فرماتے ہیں۔ اس کی باطنی تربیت آپؓ کے ذمہ ہے۔‘‘ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ یہ نعمتِ عظمیٰ پاکر میں نے محفل میں موجود اہلِ بیت اور چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی قدم بوسی کی۔ سب نے آپ کو مبارکباد دی اور سرپر دستِ شفقت رکھا۔ بعدازاں حضرت غوث الاعظمؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اجازت لے کر آپ مدظلہ الاقدس کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے واپس لے آئے اور آپ کی باطنی تربیت شروع ہوگئی۔آپ مد ظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ چند لمحوں میں وقوع پذیر ہو گیا۔
موجودہ دور کے مادیت پرست ذہنوں کے لیے شاید یہ بات قبول کرنے میں ان کی محدود اور عالمِ ناسوت میں قیدعقل مانع ہوگی لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ کیونکہ اصل سروری قادری ہوتے ہی وہی ہیں جن کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بیعت فرما کر سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے سپرد فرماتے ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* سروری قادری اسے کہتے ہیں جسے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بیعت فرماتے ہیں۔ اس کے وجود سے بدخلقی کی خوبو ختم ہو جاتی ہے اور اُسے شرع محمدی کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
* ایک اس (اعلیٰ) مرتبے کے سروری قادری ہوتے ہیں جنہیں خاتم النبیین رسولِ ربّ العالمین سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی مہربانی سے نواز کر باطن میں حضرت محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیزکے سپرد کر دیں اور حضرت پیر دستگیر رضی اللہ عنہٗ بھی اُنہیں اس طرح نوازتے ہیں کہ ایک لمحہ بھی خود سے جدا ہونے نہیں دیتے۔(محک الفقر کلاں)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ز ’’سلسلہ سروری قادری کو سروری قادری اس لیے کہا جاتا ہے کہ سروری کا مطلب ہے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت ہونا اور قادری کا مطلب ہے غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا باطنی تربیت فرمانا۔‘‘(مجتبیٰ آخرزمانی)
پیران پیر غوث الاعظم حضرت محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی مرحلہ وار تربیت کا آغاز فرمایا اور آپ مدظلہ الاقدس کو اسماء الحسنیٰ کا علم عطا فرمایا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے لاکھوں کی تعداد میں ہر اسمِ صفت کا ذکر فرمایا۔ دسمبر1997 ء میں سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے آپ مدظلہ الاقدس کو اسمِ اللہ ذات کے ذکر پر پہنچا دیا اور آپ کو روزانہ پانچ ہزار مرتبہ بعد نمازِ تہجد اسمِ اللہ کے ذکر کا حکم فرمایا۔ آپ روزانہ اسمِ اللہ کا ذکر فرماتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جیسے جیسے دن گزرتے جاتے آپ کے اندر اسمِ اللہ ذات کی طلب بڑھتی جاتی۔ پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ٗ نے آپ مدظلہ الاقدس کو علمِ دعوت بھی عطا فرما دیا۔

ظاہری بیعت

جنوری 1998 ء میں باطنی طور پر سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی طرف سے ظاہری مرشد کی تلاش کا حکم ہوا۔ اس حکم کے بعد آپ مدظلہ الاقدس ظاہری مرشد کی تلاش میں نہ صرف لاہور بلکہ لاہور سے باہر سارے ملک میں تشریف لے گئے۔ جہاں کہیں کسی مرشد کے موجود ہونے کے متعلق سنتے فوراً چل دیتے۔ اس کی محفل میں پہنچتے، دیکھتے،دل اس کی طرف بالکل مائل نہ ہوتا اور واپس آجاتے۔
وسط فروری 1998ء کی ایک رات خواب میں سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغرعلی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے اور فرمایا ’’بیٹا ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں چلے آؤ۔‘‘ بیدار ہونے پر آپ مدظلہ الاقدس ان انجانے بزرگ کی تلاش میں نکل پڑے لیکن وہ من موہنی صورت کہیں نظر نہ آتی تھی۔ یہ تلاش روز کا معمول بن گیا۔ بارگاہِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ اور حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے بھی کوئی اشارہ نہ مل رہا تھا۔
یکم مارچ 1998ء (2 ذیقعد 1418ھ) پیر کی شب پھر خواب میں سلطان الفقر ششم نظر آئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے قریب پڑے ہوئے ایک پرانے صندوق کو کھولا۔ اس میں سے سنہری رنگ کا اسمِ اللہ ذات نکل کر بلند ہوا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سر مبارک کے قریب سورج کی طرح چمکنے لگا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’بیٹا بڑی محنت کر لی اب چلے آؤ‘‘ اور اسمِ اللہ ذات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’ تمہاری یہ امانت کب سے ہمارے پاس تمہارا انتظار کر رہی ہے اور ہم خودبھی تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
لیکن صورتحال وہی کہ کہاں جائیں؟ تلاش پھر شروع کی لیکن نتیجہ ندارد۔ آپ مدظلہ الاقدس کا معمول تھا کہ جمعتہ المبارک کی نماز کی ادائیگی کے بعد گھر آکر نمازِ عصر تک درود شریف کا ورد فرمایا کرتے تھے۔ 10 اپریل 1998ء کو بھی آپ نے معمول کے مطابق نمازِ جمعہ ادا کی اور گھر آکر جائے نماز پر بیٹھ کر درود شریف کا ورد شروع کیا ہی تھا کہ گھٹن کی وجہ سے ہچکی بندھ گئی۔ رو رو کر اللہ پا ک کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے’’ اللہ پاک اب تو منزل پر پہنچا دے۔ اگر چند ہفتوں تک منزل نہ ملی تو پچھلی زندگی کی طرف لوٹ جاؤں گا۔ تیرا فرمان ہے کہ تو کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ روتے روتے آپ مدظلہ الاقدس جائے نماز پر گر کر ہی سو گئے۔ خواب میں سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ تشریف لائے اور فرمایا ’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو ہمارے سپرد فرمایا ہے اور ہم آپ کو خود سے جدا نہ ہونے دیں گے۔ ‘‘ اور حکم فرمایا’’ہم نے تمہیں سلطان باھُو(رحمتہ اللہ علیہ) کے سپرد فرما دیا ہے اب تمہاری آخری تربیت تو تمہارے مرشد ہی فرمائیں گے۔ دربار سلطان باھُو (رحمتہ اللہ علیہ) پر چلے جاؤ۔‘‘ اس کے بعد سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے آپ مدظلہ الاقدس کے دل پر دستِ مبارک رکھا۔ جب آپ سو کر اُٹھے تو پُرسکون ہوچکے تھے۔
12 اپریل 1998ء کو آپ مدظلہ الاقدس علی الصبح دربار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ پر تشریف لے گئے اور عرض کی’’ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے آپ کی بارگاہ میں بھیجا ہے۔‘‘ پھر سرہانے کی جانب بیٹھ کر دعوت پڑھی اور عرض کی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار کے باہر تحریر ہے:
ہر کہ طالب حق بود من حاضرم
ز ابتدا تا انتہا یک دم برم
طالب بیا! طالب بیا! طالب بیا
تا رسانم روزِ اوّل باخدا
ترجمہ: ہر وہ شخص جو حق تعالیٰ کا طالب ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ میں اسے ابتدا سے انتہا تک فوراً پہنچا دیتا ہوں۔ اے طالب آ۔ اے طالب آ۔ اے طالب آ۔ تاکہ میں تجھے پہلے دن ہی اللہ تعالیٰ تک پہنچا دوں۔‘‘
کافی دیر خاموشی رہی۔ وھم کے ذریعے کوئی جواب نہ آیا۔ کافی دیر بعد حکم ہوا ’’تم ہمارے بھی محبوب ہو۔ سلطان محمد عبد العزیز (رحمتہ اللہ علیہ) کے دربار پر سلطان محمد اصغر علی کے پاس چلے جاؤ وہی تمہارے مرشد ہیں۔ ‘‘پھر’’ فرمایا جاؤ تمہارے مرشد تمہارا انتظار کر رہے ہیں، اپنا ورثہ وہاں سے حاصل کر لو۔‘‘
جب آپ مدظلہ الاقدس آستانہ عالیہ سلطان محمد عبدالعزیز (جو کہ دربار سلطان باھُوؒ کے قریب ہی ہے) پر پہنچے تو سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے کمرہ مبارک کے باہر لوگوں کا بے انتہا ہجوم تھا۔کچھ دیر انتظار کے بعد آپ مدظلہ الاقدس کو ملاقات کی اجازت ملی۔ جب آپ سلطان الفقر ششمؒ کے کمرے میں داخل ہوئے تو سامنے پلنگ پر وہی خواب والا من موہنا اور خوبصورت چہرہ دکھائی دیا پس ’’اوّل آخر یکساں ہوگیا‘‘ اور دل میں کوئی سوال باقی نہ رہا۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو دیکھا تو فرمایا ’’آگئے ہو‘‘۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ اس بھری محفل میں ان الفاظ کو صرف میں نے سنا۔ فوراً آپؒ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ بیعت کی درخواست کی تو سلطان الفقر ششم ؒ نے فرمایا ’’ بیعت بھی کرتے ہیں اب اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘ یہ تقریباً ظہر کا وقت تھا۔ آپ ؒ نے اپنے محرم راز اور خادمِ خاص سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو بعد نمازِ مغرب بیعت فرمایا۔ تاریخ 12اپریل 1998ء (15 ذوالحجہ 1418ھ) تھی اور پیر کی شب شروع ہو چکی تھی۔ آپ پہلے دن سے ہی اپنے مرشد کے محبوب بن گئے اور اس دن سے آج تک آپ مدظلہ الاقدس مرتبۂ محبوبیت کے اعلیٰ ترین مقامات پر فائز ہیں جن میں روز بروز بلکہ لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون سلطان الفقر پبلیکیشنز کی کتاب ’’سلطان العاشقین‘‘ سے لیا گیا ہے۔


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں