Dawat-e-Faqr-ka-liye-Jadojahad

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی دعوتِ فقر کے لیے جدوجہد– Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman ki Dawat-e-Faqr ka liye Jadojahad

Spread the love

Rate this post

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی دعوتِ فقر کے لیے جدوجہد

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ عصرِ حاضر کے مذہبی علما اور نام نہاد مرشد دین کے ظاہری پہلوؤں اور ظاہری عبادات پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ ان کے پاس وہ باطنی علم اور علمِ معرفتِ الٰہی ہی نہیں جس کے ذریعے وہ اللہ کے ساتھ روحانی تعلق قائم کرنا سکھا سکیں۔ دین کی روح کو نظر انداز کرکے انہوں نے امتِ مسلمہ کو ظاہری جماعتوں اور فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے جس کے باعث بحیثیت ایک قوم کے‘ وہ اپنی طاقت کھو بیٹھے ہیں۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ امتِ مسلمہ کو اسلام کی حقیقی روح اور اصل عبادات کی طرف دعوت دی جائے تاکہ وہ باطنی بیماریوں حرص، حسد، تکبر، غرور، کینہ اور بغض وغیرہ سے نجات حاصل کر کے اپنے باطن کو پاک کریں اور اپنی روحانی ترقی کے ذریعے اللہ کا قرب پائیں جس کے لیے ضروری ہے کہ راہِ فقر اختیار کی جائے۔
سلسلہ سروری قادری کی مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالنے کے بعد آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے روحانی و ظاہری تمام وسائل اور طاقت اُمتِ مسلمہ کی باطنی اصلاح کی خاطر صرف کر دئیے تاکہ انہیں دنیا کی مضبوط اور بہترین قوم بنایا جا سکے۔ دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ کو طالبانِ مولیٰ کے لیے آسان بنانے اور تمام امتِ مسلمہ کو اس کی طرف راغب کرنے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے جو باطنی و ظاہری اقدامات اٹھائے ان کی تفصیل پیشِ خدمت ہے:

روحانی و باطنی اقدامات اور کمالات

راہِ فقر باطن کی راہ ہے اور باطن ہی حقیقت ہے۔ جب تک باطن درست نہیں ہوتا ظاہر کبھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ باطنی درستی کے بغیر جو ظاہر آراستہ اور نیک نظر آئے وہ محض فریب اور ریاکاری ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* کُلُّ بَاطِنٍ مُخَالِفٌ لِّلظَّاھِرٍفَھُوَ بَاطِلٌ
ترجمہ: ہر وہ باطن جو ظاہر کے مخالف ہو ، باطل ہے۔
ایک انسان کی بھلائی مقصود ہو یا پورے معاشرے کی‘ جب تک اندر سے درستی نہیں ہوگی ظاہری درستی ممکن ہی نہیں اور اگر اتفاقاً ہو بھی جائے تو وقتی اور عارضی ہوگی کیونکہ بہرحال ہر ایک کے باطن کو ہی ظاہر ہونا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرب معاشرے کی اصلاح کے لیے پہلے اپنی نگاہِ کرم سے ان کا تزکیہ نفس کر کے ان کے باطن سنوارے اور پھر ان کے ظاہر میں انقلاب لے آئے۔ کسی بھی معاشرے کو فلاحی ریاست (welfare state) بنانے کا نبویؐ طریق یہی ہے اور یہی بہترین راستہ بھی ہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ابتدائی تیرہ چودہ سالوں میں زیادہ عبادات فرض نہ فرمائیں بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ تمام مکی سورتوں میں اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے صحابہؓ کو اپنے اسم ’’اللہ‘‘ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کا حکم دے رہا ہے۔
* اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(العلق۔1)
ترجمہ: ( اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنے ربّ کے اسم (اسم اللہذات)سے پڑھیں جس نے (ہر شے کو) پیدا کیا۔
* سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی(الاعلیٰ۔1 )
ترجمہ: اپنے ربّ کے اسم (اسمِ اللہ ذات) کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے۔
* وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا (مزمل۔8 )
ترجمہ: اور اپنے ربّ کے اسم (اسمِ اللہ ذات) کا ذکر کرتے رہیں اور ہر ایک سے ٹوٹ کر اسی کی طرف متوجہ رہیں۔
انسانِ کامل کی روحانی طاقت کی حامل نگاہ کے ساتھ ساتھ ذکراسمِ اللہ ہر انسان کے باطن کو درست کرنے کا اصل طریقہ ہے اور باطنی درستی‘ ظاہری بہتری کی آئینہ دار ہے۔ جب معاشرے کا ہر شخص باطنی اور ظاہری طور پر بہتر ہو جائے گا تو پورا معاشرہ فلاح کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
تمام سروری قادری مشائخ طالبانِ مولیٰ کے باطن کی درستی اور تزکیۂ نفس کے لیے نبویؐ طریق ہی استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ تمام ادوار میں، سوائے سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے دور کے، یہ راستہ صرف چنے ہوئے خاص طالبانِ مولیٰ کے لیے مخصوص تھا اور عام مسلمانوں سے مخفی رکھا جاتا تھا۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر یہی ہے کہ مسلمان حبِ دنیا، مادہ پرستی اور فرقہ پرستی میں اس قدر گم ہو گئے کہ کوئی اس راہ کا طالب رہ ہی نہیں گیا۔ جب حق کو تلاش کرنے والے ہی نہ رہے تو حق نے بھی خود کو چھپا لیا۔ اولیا اللہ باطنی نعمتیں چھپانے نہیں‘ بانٹنے کے لیے دنیا میں آتے ہیں لیکن کوئی طلبگار ہی نہ ہو تو کس کو دیں۔ اقبالؒ بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جلوۂ طور تو موجود ہے کوئی موسیٰ ؑ ہی نہیں
البتہ روحانی سلاسل مخفی طور پر ہمیشہ جاری و ساری رہے ہیں اور صادق طالبانِ مولیٰ اپنی روح کی پیاس بجھانے اور باطن کی آراستگی کے لیے ہمیشہ اولیا کرام کی بارگاہوں کا رخ کرتے رہے اور ان سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کا فقر و تصوف کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا کارنامہ (contribution ) ہے کہ آپؒ نے اسمِ اللہ ذات کے فیض کو خاص طالبانِ مولیٰ تک محدود رکھنے کی بجائے اسے عوام الناس پر کھول دیا ہے۔ آپؒ سے پہلے اولیا کا اصول تھا ’’اسمِ اعظم کو بتانا حرام ہے‘‘ لیکن آپؒ نے یہ اصول الٹ دیا اور تعلیم دی ’’اسمِ اعظم کو چھپانا حرام ہے‘‘۔ یعنی اب ہر مسلمان کو کھلے عام اسمِ اعظم اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کے ذریعے لقائے الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اقبالؒ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
چھپایا حسن کو اپنے کلیم ؑ اللہ سے جس نے
وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ترتیب اور طریقہ یہ رہا کہ آپ پہلے عام انسان کو اپنی توجہ سے طالبِ مولیٰ بناتے اور پھر قرب و دیدارِ الٰہی عطا فرماتے۔ آپ ؒ کی اسی ترتیب کو آپ کے محبوب اور آپؒ کے روحانی و حقیقی وارث آفتابِ فقر شبیہِ غوث الاعظم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس آگے بڑھا رہے اور طالبانِ مولیٰ کے لیے مزید آسانیاں پیدا کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس راہ کی طرف مائل ہوں اور اپنا مقصدِ حیات پاکر بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہو سکیں۔ بے شک آپ مدظلہ الاقدس کا وجود مومنوں پر اللہ کا احسان ہے۔ ذیل میں آپ مدظلہ الاقدس کی ان روحانی و باطنی کاوشوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو آپ نے راہِ فقر کو عام مسلمانوں کے لیے آسان بنانے کے لیے کیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس راہ کی طرف مائل ہوں، عام مسلمان تزکیہ نفس کے بعد مومن کے درجے تک پہنچے، تمام اُمتِ مسلمہ کو دینِ حنیف کی حقیقت معلوم ہو اور وہ اس حقیقی دین کی پیروی کر کے نہ صرف آخرت میں سرخرو ہو بلکہ اس دنیا میں بھی ایک مضبوط قوم اور خیر الامم بن کر ظاہر ہو۔

فیض اسمِ اللہ ذات

اس مادہ پرستی کے دور میں طالبانِ مولیٰ کی نایابی کے باعث آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے مرشد پاک کی اس ترتیب کو جاری کیا ہے کہ پہلے عام انسان کو طالبِ مولیٰ بنایا جائے پھر قرب و دیدارِ الٰہی عطا کیا جائے۔ بظاہر تو یہ آسان سی بات لگتی ہے لیکن اس کے لیے کس قدر جدوجہد درکار ہے اس کا اندازہ مرشد کامل ہی کو ہو سکتا ہے۔ عوام الناس پر اسمِ اللہ ذات کا فیض عام کر کے ان پر تو آپ مدظلہ الاقدس نے احسان کیا لیکن ہر طرح کے طالب کو صراطِ مستقیم پر چلانا اور سیدھی راہ پر رکھنا اتنا آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانے میں صرف اصل اور ازلی طالبانِ مولیٰ کو ہی اسمِ اللہ ذات عطا کیا جاتا تھا۔ یہ صرف آپ مدظلہ الاقدس کا ہی فیض اور کمال ہے کہ ہر طرح کا نفس اور فطرت رکھنے والا انسان آپ کی بارگاہ میں آتے ہی باادب طالبِ مولیٰ بن جاتا ہے اور پھر آپ اسے اپنی شفیق ذات کے زیرِ سایہ اسمِ اللہ ذات کی حقیقت تک پہنچاتے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس نے اسمِ اللہ ذات کی حقیقت اپنی تصنیف ’’حقیقت اسمِ اللہ ذات ‘‘ میں انتہائی تفصیل کے ساتھ بیان فرما دی ہے تاکہ طالبانِ مولیٰ اس کے کمالات اور فیوض و برکات سے واقف ہوں اور اس کے ذکر و تصور کے ذریعے قرب ولقائے الٰہی حاصل کر سکیں۔آپ مدظلہ الاقدس فقر و تصوف کی تعلیمات پر مبنی اپنی شاہکار تصنیفِ لطیف ’’شمس الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں:
* جب انسان اﷲ تعالیٰ کو اس کے ذاتی نام یعنی اسمِ اللہ ذات سے یاد کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ اپنی ذات (جو اسکی تمام صفات واسماء کی جامع ہے) سے اس کی طرف تجلّی فرماتا ہے جس سے ذاکر اﷲ تعالیٰ کے ذاتی اَنوار کا اپنے اندر مشاہدہ کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ کے ذاتی جلوے‘ مشاہدے اور دیدار سے مشرف ہوتا ہے اور ذاکر کا وجود اﷲ تعالیٰ کے ذاتی اَنوار (جو تمام صفات کے جامع ہیں) سے منور ہوجاتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
* جب روزِ محشر لوگوں کی نیکی اور بدی کا حساب ہو گا تو جس کے دل پر اسمِ اللہ نقش ہو گا یا جس نے ایک مرتبہ بھی سچے دل سے اسمِ اللہ کا ذکر کیا ہو گا، اگراس کے گناہ آسمانوں اور زمین کے چودہ طبقات کے برابر بھی ہوئے تو اسمِ اللہ کی برکت سے ترازو کا نیکیوں والا پلڑہ وزنی ہو جائے گا۔ یہ دیکھ کر فرشتے پکاریں گے کہ اے اللہ! اس شخص کی کونسی نیکی کی وجہ سے ترازو کا پلڑہ بھاری ہو گیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ بندہ میرا طالب ہے اور یہ ہمیشہاسمِ اللہ میں غرق رہتا تھا۔ اے فرشتو!تم اہلِ حجاب ہو کیونکہ تم عبادتِ حق اوراسمِ اللہ کی حقیقت سے ناواقف ہو۔ میں ان کے ساتھ ہوں (جو ذکرِ اسمِ اللہ کرتے ہیں) اور وہ میرے ساتھ ہیں جبکہ تم (اسمِ اللہ سے) بیگانے ہو۔اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (عین الفقر)
* اسمِ اللہ کی شان یہ ہے کہ اگر کوئی تمام عمر روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ، تلاوتِ قرآنِ پاک اور دیگر عبادات میں مصروف رہے یا عالم و معلم بن کر اہلِ فضیلت میں سے ہو جائے مگر اسمِ اللہ اور اسمِ محمد سے بے خبر رہے اور ان اسما ء مبارک کا ذکر نہ کرے تو اس کی زندگی بھر کی عبادت ضائع اور برباد ہو گئی اور اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ (عین الفقر)
اس جدید دور میں عام مسلمانوں کے پاس طویل مجاہدوں اور ریاضت کے لیے وقت نہیں اور اللہ کے عاشق بھی جلد از جلد اللہ تک پہنچنا چاہتے ہیں لہٰذا سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اسمِ اللہ ذات کے فیض کی اس راہ کو طالبانِ مولیٰ کے لیے آسان ترین بنانے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں طالبوں اور مریدوں کو اسمِ اللہ ذات چار منازل میں ترتیب وار عطا کیا جاتا تھا یعنی اَللّٰہُ ، لِلّٰہ ، لَہٗ ، ھو۔ طالب درجہ بدرجہ ان منازل سے گزرتا اور ساتھ ساتھ قربِ الٰہی میں بھی ترقی کرتا۔ اس عمل میں کافی عرصہ بھی لگ جاتا تھا اور جو طالب پہلی منزل پار نہ کر پاتا وہ اگلی منزل پر بھی پہنچ نہ پاتا تھا۔ اس طرح بہت سے طالب اپنی طلب میں ناقص ہونے کی وجہ سے ابتدائی منازل پارنہ کر سکتے اور ’ھو‘ تک کبھی پہنچ ہی نہ پاتے تھے۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف چند خاص الخاص طالبانِ مولیٰ کو ذکر ’’ھو‘‘ عطا فرمایا اور اپنی زندگی میں ہی اپنے محرمِ راز اور روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کوطالبانِ مولیٰ کو ذکرِ ھو عطا کرنے کی اجازت دے دی۔ مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالتے ہی آپ مدظلہ الاقدس نے راہِ فقر میں یہ انقلاب پیدا کیا کہ ذکر اسم اللہ ذات کی چار منازل سے گزارنے کی بجائے آپ مدظلہ الاقدس اپنے ہر مرید کو بیعت کرتے ہی ذکرِ ’یاھُو‘ عنایت کر کے اسے یک دم بارگاہِ الٰہی کی حاضری کے لائق بنا دیتے ہیں۔ بیشک یہ آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہِ ربوبیت میں انتہائی قرب اور اعلیٰ مقام کی نشانی اور دلیل ہے کیونکہ جو ذات جتنی قربِ الٰہی کے مقام پر ہوگی وہ اتنا ہی جلد اپنے طالبوں کو قربِ خداوندی دلانے کی استطاعت رکھتی ہوگی۔
’ھُو‘ سلطان الاذکار ہے۔ اس کی تجلیات سب سے تیز اثر رکھتی ہیں۔ ایک نو وارد طالب کے لیے انہیں سہنا قطعاً آسان نہیں ہے۔ یہ صرف اس کے کامل مرشد کا کمال ہے جو خود اس کو یہ تجلیات برداشت کرنے کے لائق بناتا ہے۔ ہر پل خود اس کے گرد حصار کی طرح رہ کر ھُو کی ان تجلیات کو اس پر سہل اور لطیف بنا دیتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ابتدا ’ھُو‘ انتہا ’ھُو‘ ہر کہ با ھُو می رسد
عارف عرفاں شود ہر کہ با ھُو‘ ’ھُو‘ شود
ترجمہ:ابتدا بھی ھو ہے اور انتہا بھی ھو ہے، جو کوئی ھو تک پہنچ جاتا ہے وہ عارف ہو جاتا ہے اورھو میں فنا ہو کر ھو بن جاتا ہے۔
* جس کے وجود میں ذکرِ اسمِ ھو کی تاثیر جاری ہو جاتی ہے اسے ھو (ذاتِ حق) سے محبت ہو جاتی ہے اور وہ غیر ماسویٰ اللہ سے وحشت کھاتا ہے۔ (عین الفقر)
’ھو ‘ تک پہنچنا ہی درحقیقت اللہ تک پہنچنا ہے۔ ذکر ھو‘ کی تجلیات میں نفس فنا ہو جائے تو انسان کی ذات میں ’ھو‘ ظاہر ہو جاتا ہے۔ھُو تک پہنچنا ہی اصل کمال ہے اور طالب کو اس کمال تک پہنچانا ہمارے مرشدِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا کمال ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مرشد پاک کی وصیت اور حکم کے مطابق طالبوں کو براہِ راست آخری اور انتہائی ذکر ’یاھو‘ عطا کرتے ہیں جو یقیناًآپ مدظلہ الاقدس کی قابلیت اور اس صلاحیت کی دلیل ہے کہ آپ اپنے طالبوں کو اس انتہائی مقام پر باآسانی پہنچا سکتے ہیں۔
اسمِ اللہ ذات کے فیض کو عام کرنے کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی جدوجہد طویل، صبر آزما اور لائقِ صد تحسین ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے کئی بار پورے پاکستان میں سفر کیا اور ہر شہر میں طالبانِ مولیٰ کو بیعت فرما کر اور بغیر بیعت کے بھی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرمایا۔ پاکستان سے باہر بھی ساری دنیا سے طالبانِ مولیٰ آن لائن بیعت اور بغیر بیعت کے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات آپ مدظلہ الاقدس سے حاصل کر رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اسمِ اللہ ذات کے فیض کو عام کرنے کے لیے پندرہ ہزار سے زائد کتب ’’حقیقت اسمِ اللہ ذات‘‘ اور ’’مرشد کامل اکمل‘‘ چھپوا کر مفت تقسیم کیں اور ان گنت سونے کے اسمِ اللہ ذات اور سنہرے پرنٹڈ (Printed) اسمِ اللہ ذات طالبانِ مولیٰ کو عطا کیے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زیرِ نگرانی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی دنیا بھر میں تمام مسلمانوں کو ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات حاصل کرنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے فیض کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس کی یہ خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے ’’سخی وہ ہے جو چل پھر کر اسمِ اللہ ذات اور دیدارِ الٰہی کا فیض تقسیم کرے۔‘‘ اور آپ مدظلہ الاقدس کی سخاوت بے انتہا ہے کہ آپ کم استعداد کے طالب کی استطاعت کو بھی اپنے فیض سے بڑھاتے اور اسے اس کی استعداد سے بڑھ کر فیضِ اسم اللہ ذات عطا فرماتے ہیں۔

ؐفیض اسمِ محمد

سلطان الاذکار ھُو‘ کے فیض کو عوام الناس میں عام کرنے کے ساتھ ساتھ اسمِ محمد کے فیض کو عام کرنے کا سہرا بھی صرف اور صرف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے سرہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے مرشد پاک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ہزاروں لاکھوں مریدوں میں سے اسمِ محمد کا تصور صرف آپ مدظلہ الاقدس کو ہی عطا فرمایا اور دنیا سے ظاہری طور پر پردہ فرمانے سے قبل آپ مدظلہ الاقدس سے فرمایا:
* ’’اب اسمِ اللہ ذات اور اسم محمد تمہارے حوالے ہیں۔ ان کے فیض کو عام کرنا اب تمہاری ذمہ داری ہے۔‘‘ (سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ حیات و تعلیمات)
اپنے مرشد پاک کی اسی وصیت پر عمل کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے طالبوں پر اسم محمد کا فیض بھی کھول دیا ہے۔ اسم محمد کے اسرار و رموز، فیوض و برکات اور اثرات بیان کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس اپنی حقائق و تعلیماتِ فقر پر مبنی تصنیفِ مبارکہ’’ شمس الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں:
* حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری حیاتِ مبارک میں صحابہ کرامؓ نے معرفتِ الٰہی کی تمام منازل اور مراتب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرہ مبارک کے دیدار اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرب و نگاہِ کامل کی توجہ سے حاصل کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے وصال کے بعد آنے والے طالبانِ مولیٰ آپ کے اسمِ مبارک کے توسط اور برکت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس تک باطنی طور پر رسائی حاصل کر کے آپ کے کرم و تاثیر سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مہربانی اور ساتھ کے بغیر آج تک نہ کوئی اللہ تک پہنچ پایا ہے نہ پہنچ پائے گا۔ جب تک آپ کی نگاہ کی توجہ حاصل نہ ہو‘ روح نہ زندگی پاتی ہے اور نہ وصال و معرفتِ الٰہی۔ موجودہ زمانے میں آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کامل سے فیض یاب ہونے کا ذریعہ ذکر و تصور اسمِ اللہاور اسمِ محمد ہے جو طالب کو آپؐ کی مجلس میں لے جاتا ہے اور آپؐ اور آپؐ کے اصحاب کا ساتھ نصیب کرتا ہے۔ اس مجلس میں صبر و استقامت‘ ادب و حیااور مکمل اطاعت و پیروی کے ساتھ دنیاوی تعلقات کو قطع کر کے مستقل حاضری کے بعد ہی ایک طالب اس لائق بنتا ہے کہ اسے محبوبیت کے مراتب حاصل ہوں اور اللہ کی معرفت و وصال نصیب ہو۔
اللہ کے بے شمار صفاتی نام ہیں لیکن اسم اللہ اس کا ذاتی نام ہے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بھی بے شمار صفاتی نام ہیں لیکن اسم ’محمد‘ آپؐ کا ذاتی نام ہے۔ جس طرح اسم ’’اللہ‘ ‘ اللہ کے تمام ناموں میں سب سے زیادہ قوت والا اسم ہے اسی طرح اسم ’’محمد‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام ناموں میں سب سے زیادہ اثر اور قوت رکھنے والا اسم ہے۔
اسممحمد کا اس وقت ظہور ہوا جس وقت انوارِ الٰہیہ اور تجلیاتِ نورِ محمدی کے سوا کسی شے کا ظہور نہ ہوا تھا۔ اس لیے اسم محمد خود بھی منبع انوار و تجلیات ہے اور معجزانہ شان کا حامل ہے۔ ظہورِ ذاتِ حق تعالیٰ کی ترتیب کو مدِ نظر رکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نورِ الٰہی‘ صورتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ظاہر ہوا۔ اولیا کرام فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ازل میں خود کو ’’اسم اللہذات‘‘ کی صورت میں ظاہر فرمایا تو اس میں ’ذات‘ سے مراد نورِ محمدی یا ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے جو اللہ کی اوّل تخلیق اور ’’نور‘‘ سے ’’ذات‘‘ کا پہلا اظہار ہے۔ چنانچہ اسممحمد،اسم اللہذات سے جدا یا علیحدہ نہیں بلکہ اسم اللہ ذات،اسم محمدمیں اور اسممحمد،اسم اللہذات میں گم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا اور آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام کو اپنا کلام قرار دیا۔ (شمس الفقرا)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اسم اللہذات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اسم محمدکو اسم اللہذات کا ہی حصہ قرار دیتے ہیں۔ محک الفقر کلاں میں آپؒ فرماتے ہیں:
* اسم محمد کا ہر حرف ایک خاص تاثیر اور قوت رکھتا ہے۔ جب سالک مرشد کی اجازت سے اسم محمد کا تصور کرتا ہے تو ان حروف کی تجلیات کے زیر اثر اپنے نفس و باطن میں واضح تبدیلیاں محسوس کرتا ہے اور ان صفات کا حامل ہوتا جاتا ہے جن کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام محبوبِ الٰہی ہیں۔ اس کا نفس مردہ اور قلب زندہ ہوتا ہے۔ وہ جسم و مکان کی قید سے آزاد ہو کر روحانی طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس تک رسائی حاصل کرتا ہے جہاں اُن کی زیرتربیت وہ تمام صفاتِ محمدی سے متصف ہو کر اللہ کے ہاں محبوبیت کا مرتبہ پالیتا ہے۔ سالک کی شخصیت پر اسم’’ محمد‘‘کے تصور کے اثرات بیان کرتے ہوئے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* جب طالبِ مولیٰ اسم اللہ ذات‘ اسم محمداور کلمہ طیبہ کے تصور میں محو ہوتا ہے تو اس کے گناہ نورِاسمِ اللہ ذات کے لباس میں چھپ جاتے ہیں۔ (محبت الاسرار)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ترتیب یہ ہے کہ ہر سال عید میلاد النبی کے بابرکت موقع پر ان تمام طالبانِ مولیٰ کو اسمِ محمد عطا فرماتے ہیں جن پراسمِ اللہ ذات کی حقیقت کھل چکی ہو اور جو روحانی ترقی کے ابتدائی مدارج طے کر چکے ہوں۔ چنانچہ ہر سال عید میلاد النبی پر سینکڑوں طالبانِ مولیٰ (مرد و خواتین) کو آپ مدظلہ الاقدس کی جانب سے اسمِ محمد کا فیض جاری کیا جاتا ہے۔یہ طالبانِ مولیٰ کی انتہائی خوش نصیبی ہے کہ وہ آپ مدظلہ الاقدس کی بابرکت پُرنور ذات کے فیض کی بدولت اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کی وہ تاثیر حاصل کر رہے جو پہلے صرف خاص الخاص لوگوں تک محدود تھی اور جس تک رسائی عام انسان کی سوچ سے بھی باہر تھی۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ہر عمل اقبالؒ کے اس شعر کی تفسیر ہے:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے

قوتِ وھم

وھم ایک باطنی قوت ہے۔ اس سے مراد باطنی حواس اور قویٰ کا بیدار ہو جانا ہے۔ یہ حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ظاہری جسم کے اندر ہمارا ایک روحانی وجود بھی ہے جو ہمارا اصل وجود ہے۔ اربع عناصر سے بنا ہمارا جسم اس روح کا لباس ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ہماری روح اس مادی دنیا میں محفوظ رہے اور یہ لباس ہماری شناخت کا ذریعہ بھی بنے۔ اللہ نے جس طرح اس ظاہری وجود کو سننے، بولنے، دیکھنے اور محسوس کرنے کی قوت عطا فرمائی اسی طرح ہماری روح کو بھی تمام قوتیں عطا فرمائیں۔ البتہ اس دنیا میں آنے کے بعد جب ہمارا ظاہری جسم ہمارے روحانی وجود پر غالب آ جاتا ہے اور ہماری پوری توجہ جسم کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے پر صرف ہونے لگتی ہے تو ہماری روح ہماری بے توجہی کے باعث پژمردہ ہو جاتی ہے اور اس کے تمام حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔ مرشد کامل اکمل کی توجہ اور ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات سے ملنے والی روحانی قوت سے روح کو حیاتِ نو حاصل ہوتی ہے، اس کے تمام حواس بیدار ہو جاتے ہیں، وہ قوت حاصل کر کے عالمِ لاھوت لامکان تک پرواز کرتی ہے اور اللہ کو دیکھتی اور اس سے ہم کلام ہوتی ہے۔ اسی روحانی خاصیت کو اصطلاحِ فقر میں وھم کہا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث سے ہمیں ’وھم‘ کے متعلق واضح دلائل ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَ حْیًا اَوْمِنْ وَّرَآیئ حِجَابٍ اَوْیُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیْ بِاِذْنِہٖ مَایَشَآءُ ط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ۔(الشوریٰ۔51)
ترجمہ:اور ہر بشر کی مجال نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے۔ بیشک وہ بلند مرتبہ اور حکمت والا ہے۔
وحی اور فرشتوں کے نازل ہونے کا سلسلہ تو خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے ساتھ ہی ختم ہو گیا لیکن ’’پردے کے پیچھے‘‘ سے اللہ آج بھی فقرا اور عارفین سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس آیت میں ’’پردے‘‘ سے مراد انسانی جسم کا پردہ ہے کہ بظاہر تو عارف دنیا کے کاموں میں مشغول نظر آتا ہے لیکن باطن میں اللہ سے گفتگو میں محو ہوتا ہے جیسا کہ حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں ’’میں تیس سال سے اللہ سے ہمکلام ہوں لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ان سے بات کر رہا ہوں۔‘‘
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قوتِ وھم کے متعلق فرمانِ عالیشان ہے:
* مَا مِنْ عَبْدٍ اِلَّا وَسَیُکَلِّمُہٗ رَبُّہٗ لَیْسَ بَیْنَ الْعَبْدِ وَالرَّبِّ تَرْجُمَانٌ وَلَا وَاسِطَۃٌ (بخاری و مسلم)
ترجمہ: ہر مومن بندہ اللہ تعالیٰ سے (بلاواسطہ) کلام فرمائے گا اور اس وقت اللہ اور بندے کے درمیان نہ کوئی ترجمان ہوگا نہ واسطہ۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس وھم کے متعلق اپنی مبارک تصنیف ’’شمس الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں:
* اصطلاحِ فقر میں وھم سے مراد طالبِ مولیٰ کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ ظاہر و باطن میں اس کے دل میں جو بھی سوال پیدا ہوتا ہے اس کا جواب بارگاہِ ربّ العزت سے وصول پاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وھم سے مراد اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی ہے۔
* حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ تھے، ایک مقررہ وقت پر کوہِ طور پر تشریف لے جاتے، باوضو ہو کر دو نفل پڑھتے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں متوجہ ہوتے۔ استغراق کا ایک پردہ سا چھا جاتا اور آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو جاتے۔ آج بھی فقرا اور عارفین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں متوجہ ہو کر ہم کلام ہوتے ہیں۔
* سیرِ اوھام راہِ فقر میں بڑا اعلیٰ مرتبہ ہے۔ یہ حضورِ قلب کے بعد حاصل ہوتا ہے اور فنا فی اللہ تک یہی مرتبہ سیرِ اوھام ہی پہنچاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی اور وھم کی یہ قوت تب تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک مرشد کامل اکمل طالبِ صادق کے قلب کا تزکیہ و تصفیہ کر کے اسے روحانی زندگی اور اس کے باطنی حواس کو قوت عطا نہیں کر دیتا۔ مرشد کامل اکمل کے بغیر وھم کی صلاحیت حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اسی لیے مرشد کامل اکمل کو ’’سلطان الوھم‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس ظاہری دنیا میں جہاں سائنس اور الیکٹرانک میڈیا کا ہر شعبہ انتہائی تیزی سے دن رات ترقی کر رہا ہے وہیں باطنی و روحانی دنیا میں بھی اس سے زیادہ تیزی سے انقلاب آ رہے ہیں۔ اگر ظاہر پرست لوگ یہ سمجھیں کہ روحانی دنیا کوئی جامد دنیا ہے جہاں ترقی و تبدیلی نہیں آتی تو یہ محض ان کی جہالت ہے۔ باطنی روحانی دنیا ظاہری دنیا سے زیادہ تیز رفتار اور سائینٹفک(Scientific) ہے۔ بلکہ اس قدر تیز رفتار اور سائینٹفک ہے کہ عام لوگوں کے لیے اس کا ادراک ہی ممکن نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر وحی کا نزول اور واقعۂ معراج اس کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ’’اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘نماز مومنین کی معراج ہے‘ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر مومن کو اللہ کے قرب، دیدار اور ہم کلامی کا شرف حاصل ہو سکتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معراج پر حاصل ہوا۔ یہی قوت اور سعادت ’’وھم‘‘ ہے جو مرشد کامل اکمل کی وساطت سے مومنین کو حاصل ہوتی ہے۔ البتہ ناقص مرشد اس صلاحیت سے خود بھی محروم ہوتے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی محروم رکھتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس یہ قوت ہوتی ہی نہیں لہٰذا وہ اس کے وجود کا ہی انکار کر دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ ایسا ممکن ہی نہیں حالانکہ یہ قرآن و حدیث اور اقوالِ اولیا کرام سے ثابت ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ آج سے پہلے تصوف کی تاریخ میں کبھی بھی اس قوت کی موجودگی کا ذکر اس طرح برملا کرنے کی اجازت نہ تھی جس طرح اب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دور میں ان کے روحانی عروج اور کمال کی بدولت انہیں بارگاہِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حاصل ہے۔ انہوں نے یہ اجازت صرف اُمتِ مسلمہ کی فلاح کی خاطر بہت ظاہری و باطنی تردد کے بعد مجلسِ محمدی سے حاصل کی ہے تاکہ اس زبوں حال اُمت کو ظاہری و باطنی عروج کی طرف کشش دلائی جا سکے کہ مرشد کامل اکمل کے وسیلے سے اللہ کا ایسا قرب بھی ممکن ہے جہاں باطنی آنکھوں سے اسے دیکھا جا سکتا ہے، باطنی کانوں سے اسے سنا جا سکتا ہے اور باطنی زبان سے اس سے بات کی جا سکتی ہے۔ جب طالب اللہ سے ہم کلام ہو کر یہ جاننے لگ جاتا ہے کہ اللہ اس سے کیا چاہتا ہے تو اس کے لیے اپنے ہر عمل کو اللہ کے حکم کے مطابق کر لینا مشکل نہیں رہتا اور یہی صراطِ مستقیم پر کامیابی سے چلنے کی کلید ہے۔
ہمیں یہ دعویٰ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس پُرفریب دور میں سوائے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے نہ ہی کسی مرشد کے پاس وھم کی یہ صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی ایسی روحانی قوت موجود ہے کہ وہ اسے اپنے مریدین کو عطا کر سکے۔ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے تو بے شک وہ جھوٹا اور لاف زن ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اپنی کمال قوتِ وھم کی بدولت بے شمار طالبانِ مولیٰ کو علمِ لدّنی کی نعمت سے بھی مالا مال کیا جنہوں نے اس علمِ لدّنی کو معرفتِ الٰہی کی دعوت و تبلیغ میں استعمال کیا اور بے شمار کتب و مضامین تحریر فرمائے جو متلاشیانِ معرفتِ الٰہی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بے شمار طالبانِ مولیٰ پر علمِ دعوت کھول کر عالمِ باطن میں بھی اپنی قوتِ وھم سے ان کو سنبھالا کہ وہ اس روحانی لطیف اور حقیقی عالم میں مقدس ہستیوں کی بارگاہ میں بھی باادب اور صراطِ مستقیم پر قائم رہیں۔

علمِ دعوت

جس طرح ظاہری دنیا میں رابطے کے بہت سے ذرائع ہیں مثلاً ٹیلی فون، موبائل فون، انٹرنیٹ وغیرہ جن کے ذریعے ہم اپنے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں اسی طرح باطنی دنیا میں بھی ہمارے تمام بزرگ اولیاؒ ، صحابہ کرامؓ اور انبیا ؑ سے رابطہ کا ذریعہ علمِ دعوت ہے۔ علمِ دعوت ایک خاص باطنی عمل ہے جس میں اولیا اللہ کے مزارات پر مرشد کامل کی اجازت سے ایک خاص ترتیب سے قرآن پڑھ کر اولیا، صحابہؓ و انبیا علیہم السلام سے روحانی طور پر رابطہ و ملاقات کی جاسکتی ہے۔ ہمارے بزرگ اولیاؒ ، صحابہ کرامؓ اور انبیا ؑ ہمارے حقیقی و باطنی مددگار بھی ہیں اور ہمارے فیض رساں بھی ہیں۔ دعوت کے ذریعے ان سے رابطہ کر کے ان سے محبت کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے،باطنی فیض کے لیے درخواست بھی کی جا سکتی ہے اور مشکلات کے حل کے لیے بھی عرض پیش کی جا سکتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث مبارکہ ہے:
* اِذَا تَحَیَّرْتُم فِی الْاُمُوْرِ فَاسْتَعِنُوْا مِنْ اَھْلِ الْقُبُورِ
ترجمہ: جب تم اپنے معاملات میں پریشان ہو جایا کرو تو اہلِ قبور سے مدد مانگ لیا کرو۔
یعنی اگر کوئی حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم، امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم یا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ یا حضرت سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سے بہت محبت رکھتا ہے اور ان سے روحانی ملاقات کرنا چاہتا ہے تو مرشد کامل اکمل کے وسیلے اور ان کے عطا کیے ہوئے علمِ دعوت (جسے دعوت القبور بھی کہا جاتا ہے) کے ذریعے کر سکتا اور ان سے مدد و فیض مانگ سکتا ہے۔ لیکن جب تک مرشد کامل اکمل یہ علم عطا نہ کرے اور خود ان اولیا و صحابہؓ کی بارگاہ تک نہ پہنچائے، کوئی طالب مرید خود سے یہ جرات نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا بھی تو کچھ نہ پائے گا۔ سلطان الفقر پنجم حضرت سخی سلطان باھوؒ نے پہلی بار علمِ دعوت کو کھول کر اپنی کتب میں بیان کر دیا اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اسے سچے طالبوں پر پہلی بار کھول کر عطا کر دیا۔
حضرت سلطان باھُوؒ علمِ دعوت کے متعلق فرماتے ہیں:
* جب کوئی توجہ‘ تصور اور تصّرف کے ساتھ روحی زبان سے دعوت پڑھتا ہے تمام انبیا و اولیا اللہ اور تمام مومن مسلمانوں کی ارواح جمع ہو کر اُس کے گرد حلقہ بنا لیتی ہیں ا ور اُس کی مدد کے لیے اُس کے ساتھ وہ بھی علمِ دعوت پڑھنے لگتی ہیں۔ ایسی دعوت ایک ہی دم میں اور ایک قدم پر توفیق و تحقیق کے ساتھ مستجاب ہوجاتی ہے‘ چاہے مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلی ہوئی ملکِ سلیمانی جیسی حکومت کو اپنے قبضہ و تصرف میں لانے کے لیے پڑھی جائے۔ جو کوئی سِرّی زبان کے ساتھ کُنہِ تصوراسمِ اللہ ذات سے دعوت پڑھتاہے تو بے شک وہ اللہ تعالیٰ کا منظورِ نظر ہوجاتا ہے اور پل بھر میں اُس کا باطن نور ہو جاتا ہے۔ ایسے اہلِ دعوت کو حضور القلب کہتے ہیں۔ جو کوئی نوری زبان کے ساتھ تصور اسم محمد سے دعوت پڑھتا ہے تو بے شک حضرت محمد رسول اللہ کی مقدس و معظم و مکرم روح مبارک اور چھوٹے بڑے تمام صحابہ کرامؓ بمع اصحابِ بدرؓ کی ارواحِ مبارکہ اُس کے گرد گھیرا ڈال کر اُس کی امداد میں اُس کے ساتھ بار بار آیاتِ قرآن کے ذریعے دعوت پڑھتی ہیں۔ ایسی دعوت اگر ایک بار پڑھ لی جائے تو قیامت تک اُس کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ وہ مرتبہ ہے کہ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ : لِسَانُ الْفُقَرَآءِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ۔ (فقرا کی زبان اللہ کی تلوار ہے) اور کسی کی زبان اللہ کی تلوار اُس وقت بنتی ہے جب باطن میں حضرت محمد رسول اللہ ؐ اُسے دستِ بیعت فرما کر اُس کے منہ میں اپنا لعابِ دہن ڈال دیں۔ مندرجہ بالا تمام دعو ات کی چابی حضرت شیخ محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیز کے ہاتھ میں ہے۔ (نور الہدی کلاں)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس علمِ دعوت کے متعلق فرماتے ہیں:
* علمِ دعوت ایک دینی و روحانی عمل ہے جس میں کسی عارف، فقیر یا ولی کے مزار پر ایک خاص ترتیب سے قرآنِ پاک پڑھا جاتا ہے جس سے اہلِ مزار کی روح حاضر ہوجاتی ہے اور صاحبِ دعوت کی مدد کرتی ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ علمِ دعوت اور کشف القبور میں بہت فرق ہے۔ کشف القبور میں عام مسلمانوں کی قبروں پر دعوت پڑھ کر اہلِ قبر کے حالات معلوم کیے جاتے ہیں کہ وہ برزخ میں کس حالت میں ہیں لیکن دعوت صرف فقرا یا اولیا کرام کے مزارات پر پڑھی جاتی ہے۔ (شمس الفقرا)
* علمِ دعوت راہِ فقر میں اہم حیثیت رکھتی ہے جو مرشد کامل طالب کو اس وقت عطا کرتا ہے جب وہ تصور اسمِ اللہ ذات سے حضورِ حق میں پہنچ جاتا ہے لیکن طالب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی طلب صرف دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہونی چاہیے۔ (شمس الفقرا)
یعنی جب مرشد کی مہربانی سے طالب دعوت پڑھ کر کسی نبی، صحابی یا ولی کی بارگاہ میں حاضری دے تو ان سے دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہی طلب کرے نہ کہ مردار دنیا کے فانی فوائد مانگے۔ اسی لیے علمِ دعوت انہی خالص طالبوں پر کھلتا ہے جن کی طلب اللہ کے دیدار و رضا کے لیے خالص ہو نہ کہ دنیاوی خواہشوں سے آلودہ ہو۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دور سے قبل عام مسلمان علمِ دعوت کے تصور تک سے آگاہ نہ تھے لیکن آپ مدظلہ الاقدس نے کمال مہربانی سے یہ انتہائی اعلیٰ باطنی علم سینکڑوں صادق و مخلص طالبانِ مولیٰ کو عطا فرمایا اور ان کا روحانی تعلق ان کے بزرگ اور محبوب اولیا و صحابہ سے جوڑا۔ آپ مدظلہ الاقدس کے کمالِ روحانیت اور اولیا کے ہاں آپ کی محبوبیت کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب سے پہلے علمِ دعوت صرف مرد طالبانِ مولیٰ کو عطا کیا جاتا تھا اور اسے کسی ولی کے مزار پر حاضر ہو کر پڑھنا لازم تھا لیکن آپ مدظلہ الاقدس نے اولیا اللہ سے اس بات کی اجازت حاصل کی کہ خواتین طالبانِ مولیٰ کو بھی علمِ دعوت کے اس اعلیٰ ترین روحانی فیض سے محروم نہ رکھا جائے اور اس پابندی کو اٹھا لیا جائے کہ دعوت کسی ولی کے مزار پر جا کر ہی پڑھی جائے۔ آپ غوث الاعظمؓ کے لاڈلے، سلطان باھُوؒ کے محبوب اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کا روپ ہیں۔ لہٰذا آپ کی اس درخواست کو شرفِ قبولیت حاصل ہوا اور آپ مدظلہ الاقدس نے مرد طالبوں کے ساتھ ساتھ خواتین طالبوں کو بھی گھر بیٹھے دعوت پڑھنے کی اجازت عطا فرمائی اور خصوصاً تمام کی تمام خواتین طالبانِ مولیٰ پر علمِ دعوت کھول دیا۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ اس دور میں ایسا باکمال، مہربان اور اعلیٰ ترین درجات کا حامل کوئی اور مرشد کامل اکمل موجود نہیں ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی بارگاہ کا فیض تمام اُمتِ مسلمہ کے لیے بغیر فرقہ و جماعت کی تفریق کے سب کے لیے کھول دیا ہے۔ ہر مسلمان کو، خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو‘ عام دعوت ہے کہ وہ آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں نیک نیت اور نیک طلب لے کر آئے اور دین و دنیا کی فلاح پائے۔

حضوریٔ مجلسِ محمدی

یہ ہر مومن مسلمان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ کاش وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور میں پیدا ہوتا اور ان کا فیض بلاواسطہ ویسے ہی حاصل کرتا جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حاصل کرتے تھے۔ سورۃ احزاب میں اللہ فرماتا ہے:
* اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ (الاحزاب۔6)
ترجمہ: اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ (ان کے) قریب ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر دور کے مومنوں کو اپنی جان سے بھی عزیز اور قریب رکھتے ہیں اور اپنے فیض اور قرب کے کسی بھی طالب کو خود سے دور نہیں رکھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رحمتہ اللعالمین ہیں اور دو جہانوں کے سردار ہیں لہٰذا ہر دور میں کامل حیات کے ساتھ موجود ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیض کے چشمے آج بھی اسی طرح جاری ہیں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیات میں تھے۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
* پس جو شخص حیات النبی کا منکر ہے وہ کس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی ہو سکتا ہے وہ جو بھی ہے جھوٹا ہے‘ بے دین و منافق ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’جھوٹا آدمی میرا اُمتی نہیں ہے۔‘‘(کلید التوحید کلاں)
* جسے حیات النبی کا اعتبار نہیں وہ ہر دو جہان میں ذلیل و خوار ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دِل مردہ ہوا ور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔(کلید التوحید کلاں)
علامہ اقبالؒ حیات النبیؐ کے بارے میں فرماتے ہیں:
* میرا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرامؓ ہوا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں پر ناگوار ہوگا اس واسطے خاموش رہتا ہوں۔ (خط بنام نیازالدین خاں۔فتراکِ رسول۔7)
اس زمانے میں عاشقانِ رسول کے لیے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت اور فیض سے مستفید ہونے کا بہترین ذریعہ روحانی طور پر ان کی مجلسِ محمد ی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہونا ہے جو کسی مرشد کامل اکمل کے توسط سے ہی ممکن ہے جو خود اس مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں کامل ہو اور اپنے طالبوں کو بھی یہاں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی ہر کتاب میں مجلسِ محمد ی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی موجودگی کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی حضوری پانے کی راہ بتائی ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کے تصور سے حاصل ہوتی ہے۔
اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* اس عبارت کی شرح اس طرح ہے کہ صحابہ کرامؓ کے لئے اسمِ اللہ ذات حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظاہری چہرہ مبارک تھا اور اسمِ محمد آپ ؐ کی ذات مبارک تھی۔اب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ صرف اسمِ اللہذات اور اسمِ M کا تصور ہے بشرطیکہ یہ وہاں سے حاصل ہو اہو جہاں پر اسے عطا کرنے کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے باطنی طور پر اجازت ہو اور یہ بات طالب کواسمِ اللہ ذات کے تصور کے پہلے دن ہی معلوم ہو جاتی ہے کہ اس نے جہاں سے اسمِ اللہ ذات یا اسم محمد حاصل کیا ہے وہ مرشدِ کامل ہی کی بارگاہ ہے۔ (شمس الفقرا)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے متعلق فرماتے ہیں:
* راہِ حق میں یہ ایک ایسا مقام ہے جس میں طالبِ مولیٰ باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضور ی سے مشرف ہو جاتا ہے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کی تربیت فرماتے ہیں اور باطن میں اسے معرفتِ الٰہیہ کے مراتب طے کراتے ہیں ۔ (شمس الفقرا)
* مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری باطن کا اہم مقام ہے جس کو مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو حق الیقین کی منزل ہے، اس کی حقیقت سے وہی واقف ہوتا ہے جو اسے پا لیتا ہے۔ (شمس الفقرا)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
روز و شب در طلبِ نبویؐ با حضور
مرد مرشد میرساند خاص نور
ہرکہ منکر میشود زیں خاص راہ
عاقبت کافر شود با روسیاہ
ترجمہ: دِن رات مجلسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی حضوری کی طلب کر لیکن یاد رکھ اس خاص نور تک مرد مرشد ہی پہنچا سکتا ہے۔ جو اس خاص راہ کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہو کر روسیاہ ہوجاتا ہے۔ (مجالستہ النبی خورد)
حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کے مطابق جو مرشد مجلسِ محمدی کی حضوری اپنے طالبوں کو نہیں دلوا سکتا وہ مرشد ہی نہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے صادق طالبوں اور مخلص مریدوں کی گواہیاں موجود ہیں کہ آپ مدظلہ الاقدس نے انہیں تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے بعد مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے لائق بنایا اور اپنی باطنی نگرانی میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے مقام تک پہنچایا جہاں وہ کھلی آنکھوں سے اس بابرکت روحانی مجلس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیض سے مالا مال ہوتے ہیں۔

لقائے الٰہی

اقبالؒ فرماتے ہیں:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا‘ عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا‘ وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہُ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ‘ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
لقائے الٰہی اس کائنات کی سب سے بڑی نعمت اور اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِےًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ
ترجمہ:میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو تخلیق کیا۔
اللہ کی پہچان اللہ کی دیدار کے بغیر ممکن نہیں اور سیّدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں ’’جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کے بغیر اس کی عبادت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ریاکار ہے۔‘‘ (سرّ الاسرار)
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے عشقِ الٰہی، باطنی مجاہدے اور مرشد کامل کی مہربانی سے لقائے الٰہی کی منزل تک پہنچنے والوں کو نوید سنائی ہے:
* فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہ (البقرہ۔115)
ترجمہ: پس تم جدھر بھی دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ نظر آئے گا۔
اور اس سے محروم رہ جانے والوں کو وعید سنائی:
* وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (بنی اسرائیل۔72 )
ترجمہ: جو شخص اس دنیا میں (دیدارِ و لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔
روزِ قیامت اس سے بڑی محرومی اور کیا ہوگی کہ باطنی آنکھوں سے محروم لوگ اللہ کو سامنے ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھ سکیں گے نہ پہچان سکیں گے۔ چونکہ یہ دنیا ہی آخرت کی کھیتی ہے اس لیے قربِ و لقائے الٰہی کی منزل تک اسی دنیا میں پہنچنا ہوگا۔ جس کی باطنی آنکھیں اس دنیا میں نہ کھلیں وہ آخرت میں بھی نہ کھلیں گی۔ اللہ کا دیدار احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے:
* حضرت جریر بن عبد اللہؓ فر ماتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فر مایا قریب ہے وہ وقت جب تم اپنے پر وردِگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
* صحابہ کرامؓ سے روایت ہے ’’ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چودھویں تاریخ کے چاند کو دیکھ کر فر مایا ’’جس طرح تم اس چاند کودیکھ رہے ہو اسی طرح تم اپنے پر وردِ گار کودیکھو گے اور خدا تعالیٰ کو دیکھنے میں تم کوئی اذیت اور تکلیف محسوس نہیں کر و گے۔‘‘ (الفتح الربانی)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لقائے الٰہی کے متعلق فرماتے ہیں:
* انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے۔ پہچان ہی دراصل لقائے الٰہی ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو عارفین یعنی فقرا کو عطا کی جاتی ہے۔ لذتِ لقا سے بہتر کوئی لذت نہیں اور اللہ تعالیٰ کالقا نورِ بصارت سے نہیں نورِ بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔ (شمس الفقرا)
حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
بہ ز ہر لذت بود لذتِ لقا
لذتِ دنیا چہ باشد بے بقا
ترجمہ: تمام لذات سے بہتر لذت ’’لذتِ لقا‘‘ہے۔ اس کے مقابلے میں لذتِ دنیا کی کیا وقعت کہ وہ بے بقا ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
شانِ فقر آفتابِ فقر شبیہِ غوث الاعظم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنے باطنی کمال اور ذکر و تصور اسم j ذات کے ذریعے طالبانِ مولیٰ کو لقائے الٰہی کے عالیشان مرتبہ تک پہنچا رہے ہیں۔ جو نیک نیتی کے ساتھ تعصب کو دل سے نکال کر خالص طلبِ مولیٰ دل میں لے کر آئے گا آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے اس نعمت سے ضرور فیض یاب ہوگا۔ انشاء اللہ

مشائخ سروری قادری کا فیض اور تعلیمات عام کرنا

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے بہت سے کارناموں میں سے ایک بڑا کارنامہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے بعد آنے والے تمام سروری قادری مشائخ کے اعلیٰ درجات سے دنیا کو آگاہ کرنا اور ان کی تعلیمات کو ہر ذریعہ ابلاغ کو استعمال میں لاتے ہوئے عام کرنا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بذاتِ خود کئی سال اس ضمن میں تحقیقات کیں، قلمی مسودات اکٹھے کیے جن سے ان مشائخ کی مکمل اور مصدق سوانح حیات کے متعلق معلومات اکٹھی کیں اور انہیں اپنی تصنیف ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ میں محفوظ کیا۔ اس دور میں سروری قادری مشائخ کی حیات و تعلیمات پر ایسی مستند کوئی اور تصنیف موجود نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ان مشائخ کا تمام عارفانہ کلام بھی جمع فرمایا جو آج تک کبھی منظرِ عام پر نہ آیا تھا اور قلمی مسودات کی صورت میں موجود تھا۔ اس عارفانہ کلام میں تصوف کا خزانہ چھپا ہے اور طالبانِ مولیٰ کے لیے انتہائی دلکش انداز میں رہنمائی موجود ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اس کلام کو ’’کلام مشائخ سروری قادری‘‘ کی صورت میں مدوّن کر کے شائع کروایا۔ کلام میں موجود مشکل الفاظ اور اصطلاحات کے معنی بھی ساتھ دئیے گئے ہیں۔اس تصنیف کے پائے کی بھی کوئی تصنیف اس زمانہ میں موجود نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ابیاتِ باھُوؒ پر بھی مکمل تحقیق کی۔ جو ابیات غلط طور پر حضرت سلطان باھُوؒ سے منسوب تھے ان کی بھی نشاندہی کی اور جن ابیات میں غلط الفاظ شامل کر کے مشہور کر دئیے گئے تھے ان کی بھی تصحیح کی۔ ابیات کے ساتھ ساتھ مشکل الفاظ کے معنی اور ابیات کی شرح بھی کی گئی ہے جن سے طالبانِ مولیٰ کو راہِ فقر کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ یہ تمام تحقیقی مواد انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے اور سوشل میڈیا پر سلائیڈز (Slides) کے ذریعے بھی عام کیا جا رہا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس کی شہرہ آفاق تصنیف ’’شمس الفقرا‘‘ ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا لازوال خزانہ موجود ہے۔ راہِ فقر و تصوف سے متعلق حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات پیش کرنے سے قبل ہر موضوع اور ہر شعبے کے بارے میں تمام مکاتبِ فکر اور روحانی سلاسل سے تعلق رکھنے والے اولیا و علما کے افکار و تعلیمات کا تقابلی جائزہ دیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ تمام صوفی اصطلاحات کی شرح بھی کی گئی ہے۔ یہ کتاب حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تمام کتب کا نچوڑ اور ان کی تمام تعلیمات کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔
فقر و تصوف کا جو خزانہ ہمارے اولیا اللہ کی کتب میں موجود ہے اسے دنیا بھر میں ہر رنگ و نسل و قومیت کے مسلمان تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ اس خزانے کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زیرِ نگرانی آپ مدظلہ الاقدس کے باطنی طور پر تزکیہ شدہ اور تربیت یافتہ مریدین‘ جو روحانی طور پر اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اولیا اللہ کی بات کی روح کو سمجھ کر ان کا بہترین ترجمہ کر سکیں، مختلف اولیا کی کتابوں کا اُردو اور انگریزی میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ خصوصاً سلطان باھُوؒ کی تمام فارسی کتب کا فارسی سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ یہ کتب آن لائن بھی پڑھی جا رہی ہیں اور دنیا بھر میں حضرت سلطان باھُوؒ کے معتقدین ان سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس کی ایک اور عظیم روحانی خدمت سلسلہ سروری قادری کی درست ترتیب سے دنیا بھر کو آگاہ کرنا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے بعد سے مختلف فریب کار لوگوں نے غلط طور پر خود کو حضرت سلطان باھُوؒ کا روحانی وارث قرار دے کر سلسلہ سروری قادری کو خود سے منسوب کر دیا تھا۔ اصل سلسلہ سروری قادری تو بہرحال مخفی طور پر اپنی جگہ قائم و جاری تھا لیکن سروری قادری مشائخ کے شہرت و دنیا سے دور رہنے کے اصول کی وجہ سے ان جعلی لوگوں نے اپنی جھوٹی مشہوری کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ صادق طالبانِ مولیٰ تو کبھی ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے لیکن ظاہر پرست دنیادار لوگ کثرت سے ان کی طرف راغب ہونے لگے۔ ایسے ظاہر پرست مریدین کی کثرت بھی ان کی سستی شہرت کا باعث بن گئی۔ لیکن اب وہ وقت آگیا تھا کہ مسلم اُمہ کو سلسلہ سروری قادری کے حقیقی مشائخ سے روشناس کروایا جاتا جس کی ذمہ داری مجلسِ محمدی سے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو سونپی گئی۔ آپ مدظلہ الاقدس نے مکمل تحقیق اور حوالہ جات کے ذریعے یہ بات زمانے پر ظاہر کی کہ حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے اصل روحانی وارث اور ان کے بعد سلسلہ سروری قادری کے شیخِ کامل حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ ہیں جنہیں حضرت سلطان باھُوؒ کے وصال کے 139سال بعد بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باطنی تربیت کر کے بھیجا گیا تھا۔ ان کے بعد آنے والے حقیقی مشائخ سروری قادری کی درست ترتیب سے بھی آپ مدظلہ الاقدس نے تحقیقی حوالہ جات کی بنیاد پر زمانے کو روشناس کروایا۔
آپ مدظلہ الاقدس کی انہی خدمات سے راضی ہو کر تمام مشائخ سروری قادری نے متفقہ طور پر آپ مدظلہ الاقدس کو ’’شانِ فقر‘‘ کا لقب عطا کیااور فرمایا ’’تمام سروری قادری اولیا کو آپ کی شان بہت پیاری ہے کیونکہ حضرت سلطان باھُوؒ کے بعد کسی سروری قادری مرشد کی شان اور ان کی پہچان لوگوں پر واضح نہ تھی۔ آپ نے نہ صرف اس سلسلے کو صحیح پہچان عطا کی بلکہ ہر سروری قادری مرشد کے ذکر کو لوگوں میں عام کیا‘‘۔

طالبانِ مولیٰ کے روحانی ارتقا کوآسان بنانا

حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* مرشد وہ ہے جو طالبِ اللہ کو ایک ہی قدم پر اور ایک ہی دم میں باطن کے جملہ مقامات طے کرا کے لاھوت لامکان میں پہنچا دے۔ (امیر الکونین)
رسالہ روحی شریف میں سلطان الفقر کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* ان کی نظر نورِ وحدت اور کیمیائے عزت ہے۔ جس طالب پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے وہ مشاہدۂ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کرنے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نور بن گیا ہو۔ انہیں طالبوں کو ظاہری ورد وظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے۔
شبیہِ غوث الاعظم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو کسی ورد وظیفے کی مشقت میں ڈالے بغیر محض اپنی نگاہِ کامل اور ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کے ذریعے فنا فی الشیخ، فنا فی اسم محمد اور فنا فی اللہ کی تمام منازل طے کرواتے ہیں۔ طالب کے لیے صرف صادق ہونا لازم ہے۔ منافق، ریاکار اور جاسوس طالب پر تو اللہ بھی مہربانی نہیں کرتا، مرشد کیونکر کرے۔ اگر طالب صادق ہے تو خواہ وہ پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ، مرد ہے یا عورت، بوڑھا ہے یا جوان یا کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے، آپ مدظلہ الاقدس اسے روحانی ارتقا کی تمام منازل طے کروا کر لاھوت لامکان تک پہنچا دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ جلال کی منازل سے بھی اپنے جمال کے حصار میں لے کر باآسانی گزار دیتے ہیں بشرطیکہ طالب مرشد پر یقین کرے اور خود کو مکمل طور پر ان کے حوالے کر دے اور ہر حال میں استقامت اختیار کرے۔
مزید برآں آپ مدظلہ الاقدس نے حیران کن طور پر صادق طالبانِ مولیٰ کو ایسے باطنی کمالات اور ہنر عطا کیے جن سے وہ بالکل ناواقف تھے جیسا کہ احسن علی سروری قادری عربی اور فارسی سے تقریباً نابلد تھے لیکن آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی عربی کتاب ’’سرّالاسرار‘‘ کا بہترین اُردو ترجمہ کیا اور حضرت سلطان باھُوؒ کی فارسی کتب کا بھی اُردو ترجمہ کر رہے ہیں۔ مسز عنبرین مغیث سروری قادری بھی بغیر کسی تجربہ و مہارت کے محض آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے حضرت سلطان باھُوؒ کی کتب کے انگریزی تراجم کر رہی ہیں اور حضرت امام حسینؓ کی انتہائی پیچیدہ عربی کتاب ’’مرآۃ العارفین‘‘ کا ترجمہ و شرح کر چکی ہیں جس کو آج تک کوئی ٹھیک سے نہ سمجھ پایا تھا نہ بیان کر سکا تھا۔ اسی طرح آپ مدظلہ الاقدس نے باطنی مہربانی سے مسز عنبرین مغیث سروری قادری سے رسالہ روحی شریف کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر بھی کروا لی جس کی مکمل شرح کرنے کی ہمت تصوف کی دنیا میں آج تک کسی کو نہ ہوئی تھی۔ آپ مدظلہ الاقدس کا کمال یہ ہے کہ پہلے آپ طالب کو اس روحانی مقام تک پہنچاتے ہیں جہاں وہ ولی کی بات کو سمجھ سکے اور پھر بیان کرے ورنہ اولیا کی بات کی گہرائی کو سمجھنا عام انسان کے لیے ممکن نہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے کئی طالبوں کو حقیقی شاعری کی ایسی صلاحیت عطا کی جو ان میں پہلے سے ہرگز موجود نہ تھی۔ان میں محمد اسد خان سروری قاری(لاہور)، ناصر حمید سروری قادری (لاہور)، محمد ساجد سروری قادری(لاہور)، احمد علی سروری قادری(اوچ شریف) اور سلیمان مرزا سروری قادری(لاہور) کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
یہ محض چند مثالیں ہیں ورنہ آپ مدظلہ الاقدس کا ہر صادق مرید گواہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے ان کے باطن کے ساتھ ساتھ ان کا ظاہر بھی سنوار دیا، انہیں گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر صراطِ مستقیم پر گامزن کر دیا، انہیں وہ روحانی بلندی عطا کی جس کا انہیں گمان بھی نہ تھا۔
نوٹ: یہ مضمون سلطان الفقر پبلیکیشنز کی شائع کردہ کتاب ’’سلطان العاشقین‘‘ میں سے اخذ کیا گیا ہے۔


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں