شان سلطان الفقر–Shan Sultan-ul-Faqr

Spread the love

Rate this post

شان سلطان الفقر

تحریر: انیلا یٰسین سروری قادری (لاہور)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد رشدو ہدایت کا سلسلہ صحابہ کرامؓ ، تابعین ،تابع تابعین، اولیا کرامؒ اور غوث وقطب کے ذریعے ہر دور میں اُس دور کے حالات کے مطابق انسانوں کو پہنچا۔ لیکن ہر دور میں ایک ہستی ایسی بھی ہوتی ہے جو امام الوقت یا انسانِ کامل کی صورت میں ظہور پذیر ہو تی ہے۔ جو ظاہر اور باطن میں مظہر ذاتِ الٰہی اور مظہر ذاتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہو تی ہے ۔ اُ سے ’سلطان الفقر‘ کہتے ہیں ۔حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے :

مَنْ سَلَکَ عَلٰی طَرِیْقِیْ فَھُوَ آلِی

ترجمہ : جو میرا راستہ ( فقر) پر چلا وہی میری آل ہے ۔
سلطان الفقر کی شان اور حقیقت جو پہلے دنیا سے مخفی تھی اسے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تصنیفِ مبارک رسالہ روحی شریف میں بحکمِ الٰہی ظاہر فرمایا۔
آپ ؒ ان پاکیزہ ارواح ( سلطان الفقر) کی تخلیق کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ جان لے جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشہءِ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلّی سے رونق بخشی۔ اس کے حسنِ بے مثال اور شمع ِ جمال پر دونوں جہاں پروانہ وارجل اُٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی پھر جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا باصفا فنا فی اللہ، بقا باللہ تصورِ ذات میں محو، تمام مغز بے پوست حضرت آدم ؑ کی پیدائش سے ستر ہزار سال قبل، اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینہِ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
آ پؒ ان ( سلطان الفقر) کی شان ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
* ’’ انہوں ( سلطان الفقر ہستیوں) نے ازل سے ابد تک ذاتِ حق کے سوا کسی چیز کی طرف نہ دیکھا اور نہ غیر حق کبھی سنا۔ حریمِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں۔ کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہہ میں کوشاں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں اور

اِذَا تَمَّ الفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ

کے فیض کی چادر ان پر ہے۔ پس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہ

اَلْفَقْرُ لاَ یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلَا اِلٰی غَیْرِہٖ 

کی جاودانی عزت کے تاج سے معززومکرم ہیں۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
ان مبارک ہستیوں کے ناموں کا انکشاف کرتے ہوئے سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں:
* ’’ان میں ایک خاتونِ قیامتؓ (حضرت فاطمہ الزہراؓ) کی روحِ مبارک ہے، ایک خواجہ حسن بصری ؒ کی روحِ مبارک ہے، ایک ہمارے شیخ حقیقت حق‘ نورِ مطلق، مشہور علی الحق حضرت سیّد محی الدین عبدالقادر جیلانی محبوبِ سبحانی قدس سرہُ العزیز کی روحِ مبارک ہے اور ایک سلطان انوار سرّالسرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزندِ حضرت پیر دستگیر (قدس سرہُ العزیز) کی روحِ مبارک ہے، ایک ھاھویت کی آنکھوں کا سر چشمہ سِرّ اسرارِ ذاتِ یاھو فنافی ھو فقیر باھوؒ ( قدس سرہُ العزیز ) کی روحِ مبارک ہے اور دو ارواح دیگر اولیا کی ہیں ۔‘‘
(رسالہ روحی شریف)

سیّدۃ النساء حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا

حضر ت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پہلی وارث اور سلطان ہیں۔ آ پؓ کو یہ مرتبہ ومقام آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آپؓ کے والد محترم ہونے پر، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہم سے نسبت کی وجہ سے نہیں ملا بلکہ آپؓ کا اللہ تعالیٰ پر توکل، حبِّ دنیا سے لاتعلقی اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق اور کاملِ اتباع نے آپؓ کو اللہ اور اس کے محبوب کی نظر میں جابجا طور پر فقر کی پہلی سلطان اور وارث بنا دیا۔
سلطان الفقر ہستیاں چونکہ ازل سے ہی منتخب ہوتی ہیں لیکن دنیا میں آکر انہیں فقر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے موت وحیات کے کٹھن مراحل، دنیا، نفس اور شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے
آپؓ نے بظاہر دنیا کی تمام ذمہ داریاں بحیثیت بیٹی، بیوی، ماں اور بہو کے بہت خوش اسلوبی سے نبھائیں، لیکن باطن میں اپنا تعلق ہمیشہ اللہ سے ہی جوڑے رکھا۔ آپؓ کی تمام تر زندگی رضائے الٰہی کا نمونہ رہی ۔ آپؓ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (اپنے والد گرامی مرشد پاک) کے عشق میں اس قدر محو رہتیں کہ کبھی بھی دنیا کی آسائشوں اور لذتوں کے طرف آپؓ کا دھیان نہ گیا۔ آپؓ کو بچپن ہی سے نمودونمائش سخت نا پسند تھی ہمیشہ سادہ زندگی بسر فرمائی۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت خدیجہؓ نے کسی عزیز کی شادی میں جانے کے لیے اپنی بچیوں کے لیے اچھے اچھے نئے کپڑے بنوائے۔ جب گھر سے چلنے کا وقت آیا تو حضرت فاطمہؓ نے ان کپڑوں کی بجائے سادہ کپڑے پہننے کو ترجیح دی اور سادہ کپڑوں میں ہی محفلِ شادی میں شریک ہوئیں، اللہ تعالیٰ کے قرب ودیدار کی طلب بچپن ہی سے آپؓ میں موجود تھی۔ اسی طلب کی وجہ سے آپؓ کمسنی میں ہی اپنے والد و مرشد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علمِ معرفتِ الٰہی حاصل کرنے لگیں۔ آپؓ کے شوق وطلب کو دیکھتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؓ کو معرفتِ الٰہی کی باتیں بتاتے جنہیں آپؓ ذہن نشین فرما لیتیں۔ رضائے الٰہی کی طلب کا یہ عالم تھا جب بھی کوئی سوالی اللہ کے نام پر آپؓ کے حضور سوال کرتا تو آپؓ اُسے کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتیں۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت علیؓ نے ساری رات ایک باغ سینچا اور اجرت میں تھوڑے سے جَو حاصل کیے۔ حضرت فاطمہؓ نے ان کا ایک حصہ لیکر آٹا پیسا اور کھانا پکایا ، ابھی کھانا پک کر تیار ہی ہوا تھا کہ ایک مسکین نے دروازہ کھٹکھٹا یا اور کہا ’’میں بھوکا ہوں‘‘ سیّدہ فاطمتہ الزہراؓ نے وہ سارا کھانا اسے دے دیا پھر کچھ حصہ لے کر آٹا پیسا اور کھانا پکایا عین کھانے کے وقت ایک یتیم نے دروازہ پر آکر دستِ سوال دراز کیا۔ آپؓ نے وہ سب کھانا اسے دے دیا۔ آپؓ نے باقی بچے ہوئے جَو کو پیسا اور کھانا تیار کیا ۔ اتنے میں ایک مشرک قیدی نے اللہ کی راہ میں کھانا مانگا آپؓ نے وہ تمام کھانا اسے دے دیا اور اہلِ خانہ نے فاقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کو آپؓ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی:
ترجمہ:اور وہ اللہ کی راہ میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (سورۃ الدھر)
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کی زندگی کا ہر لمحہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مکمل اتباع میں گزارا۔ حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتیں ہیں ’’ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صاحبزادی سیّدہ فاطمہؓ سے بڑھ کر کسی کی عادات و اطوار، سیرت و کردار اور نشست و برخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا‘‘۔
غرض یہ کہ آپؓ کا عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ عالم تھا کہ آپؓ جب دنیا سے کنارہ کش رہیں، تنگ سے تنگ حالات گزارے فاقہ پر فاقہ برداشت کیا لیکن کبھی بھی اللہ سے اللہ کے سوا کچھ نہ مانگا۔ آپؓ کی پاکیزگی ، عشقِ الٰہی، صفائیٔ قلب اور عشق و اتباعِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس بات کی گواہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپؓ ہی فقر کی سلطان ہیں۔ اور آپؓ پر ہی فقر تمام ہوا۔ آپؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث اِذَاتَمَّ اْلفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کی عین مظہر ہیں۔

حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہٗ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے چار خلفا حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ، حضرت امام حسن بصریؓ اور حضرت امام کمیلؓ تھے۔ حضرت علیؓ سے اہلِ بیت کے بعد حضرت امام حسن بصریؓ کو امانتِ فقر منتقل ہوئی۔ آپؓ سلطان الفقر دوم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپؓ کے وسیلہ اور واسطے سے ہی اہلِ بیت کے فقر کو اُمتِ محمدیہ تک پہنچایا گیا۔ آپؓ 21ھ ؁ مدینہ منورہ میں حضرت عمر فاروقؓ کے عہدِ خلافت میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کی پرورش حضرت اُم سلمہؓ کے بابرکت ہاتھوں میں ہوئی اور انہوں نے آپؓ کی رضاعت بھی فرمائی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آپؓ کا اسم مبارک ’’حسن ‘‘ رکھا اور آپؓ کے لیے یہ دعا فرمائی’’ اے اللہ! اسے دین کے علم کا ماہر بنا اور لوگوں میں محبوب بنا۔‘‘ حضرت فاروقِ اعظمؓ کی دعا کی برکت سے ہی آپؓ کو دین اور فقر میں بلند مرتبہ حاصل ہوا۔ آپؓ کی پرورش و تربیت اکابرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت انس بن مالکؓ ، حضرت امام حسن مجتبیٰؓ اور حضرت محمد حنفیہؓ کے درمیان ہوئی اور آپؓ نے ان ہستیوں سے دین کا ظاہری و باطنی فیضِ کامل پایا۔ آپؓ کا قول ہے ’’ میں نے ایک سو تیرہ صحابہ کرامؓ کی زیارت کی ہے۔ جن میں سے ستر بدری اصحاب تھے۔‘‘ لہٰذا آپؓ کا مرتبہ تابعین میں بلند ہے۔ صحبتِ صحابہ کرامؓ کا ہی فیض تھا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق کی تڑپ، خشئتِ الٰہی، توکل، بہادری اور ذہانت و فطانت جیسے اعلیٰ اوصاف آپؓ کی زندگی کا امتیاز رہے۔ عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ عالم تھا کہ دل ہمیشہ خشۂتِ الٰہی میں مشغول رہتا۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپؓ نے اپنے خادم سے فرمایا افطاری کے لیے بازار سے روٹی اور مچھلی کے کباب لے آؤ۔ افطاری کے وقت جب کھانا پیش کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا اس مزے دار کھانے کا مجھ فقیر سے کیا تعلق؟ خادم نے عرض کی حضور آپ نے ہی تو فرمایا تھا ۔ آپؓ نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کی یاباری تعالیٰ! میں نے دنیا کی نعمتوں پر دھیان دیا مجھ سے بھول ہوگئی میرا نام کہیں درویشوں کی فہرست سے نہ مٹا دینا۔
آپؓ حضرت علیؓ کی بیعت سے مشرف ہوئے اور ان سے خرقۂ فقر پایا۔ حضرت علیؓ نے آپؓ کو وہ خرقۂ خاص مع کلاہ چہار ترکی عنایت فرمایا جو انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عطا ہوا تھا اور ساتھ ہی اپنی نگاہِ فقر سے ظاہری و باطنی علومِ اسرارِ الٰہیہ عطا کر کے خلافتِ کبریٰ سے نوازا اور ذکرِ کلمہ بطریق نفی اثبات جیسا کہ حضرت علیؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃو السلام سے حاصل ہوا تھا، وہ آپؓ کو سکھایا اور آپؓ کے ذریعہ سے وہ طریقہ تمام دنیا میں رائج ہوا۔ (سیر الاولیا، سیرالاقطاب)
جب حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر بنا اور اس نے ظلم و تشدد کی انتہا کر دی تو حضرت خواجہ حسن بصریؓ نے توحیدِ حق کی فضا بلند فرمائی۔ آپؓ کے درس کا موضوع اللہ کی خوشنودی و دیدار کی حصول، عشق و اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، بزرگانِ دین کی امداد و معاونت اور آخرت کی دولت یعنی قربِ الٰہی ہوتا تھا۔ حضرت شیخ حبیب عجمیؒ اور حضرت شیخ عبدالواحد بن زید ؒ کا شمار آپؓ کے مشہور خلفا میں ہوتا ہے۔ آپؓ نے امانتِ فقر حضرت حبیب عجمیؒ کو منتقل فرمائی۔ آپؓ کا وصال 4 محرم الحرام (8 اپریل 729 ء) بروز جمعتہ المبارک کو ہوا۔

سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ

سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سلطان الفقر سوئم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپؓ کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک 470 ھ (17 مارچ 1078ء) بروز جمعتہ المبارک ہوئی۔ آپؓ کے والد ماجد حضرت سیّدنا ابو صالح موسیٰ جنگی ؒ حسنی اور والدہ ماجدہ اُم الخیر سیّدہ فاطمہؒ حسینی سیّد ہیں گویا آپؓ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔ آپؓ مادرزاد ولی تھے اور آپؓ کے ظہور سے پہلے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عاشق صادق حضرت اویس قرنیؓ نے سب سے پہلے آپؓ کی آمد کی بشارت دی اور تمام اولیا کرامؒ میں آپؓ کے اعلیٰ ترین مرتبہ کا ذکر فرمایا۔ آپؓ نے ابتدائی تعلیم جیلان کے ایک مکتب سے حاصل فرمائی اور پھر بحکمِ الٰہی بغداد تشریف لے گئے۔ تحصیل علم کے زمانہ میں سبق سے فارغ ہو کر آپؓ جنگل بیابان کی طرف نکل جاتے تلاشِ حق کے لیے ذکرِ اللہ میں مشغول ہو جاتے۔ تلاشِ حق کے سفر میں آپؓ کو پُرصعوبت حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ خودآپؓ کا ارشاد مبارک ہے ’’ میں نے ایسی ہولناک سختیاں جھیلی ہیں کہ اگر وہ پہاڑ پر گزر تیں تو پہاڑ بھی پھٹ جاتا۔‘‘ آپؓ نے منشائے الٰہی حضرت شیخ حماد بن مسلم الدباسؒ اور حضرت قاضی ا بو سعید مبارک مخزومیؒ سے فقر و تصوف کی تعلیم حاصل فرمائی۔ آٹھ سال کی طویل مدت میں آپؓ نے ہر علوم میں یکتائی حاصل کر لی اور پچیس سال کی بے مثال ریاضت سے تزکےۂ نفس حاصل کرنے کے بعد آپؓ نے بحکمِ الٰہی حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومیؒ کے دستِ مبارک پر بیعت فرمائی۔ حضرت شیخ ابوسعید مبارک مخزومیؒ نے آپؓ کو خرقہ ولایت پہنایا اور فرمایا ’’اے عبدالقادر! یہ خرقہ جناب سرورِ کائنات رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علیؓ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے خواجہ حسن بصریؓ کو عطا فرمایا اورا ن سے دست بدست مجھ تک پہنچا۔‘‘ یہ خرقہ زیبِ تن کرنے کے بعد آپؓ پر بیش از بیش انوارِ الٰہی کا نزول ہوا۔ مسندِ تلقین وا رشاد سنبھالنے سے پہلے ہی آپؓ نے بحکمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قوم کو وعظ و نصیحت اور راہِ فقر کی تعلیمات کا آغاز فرمایا۔ آپؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نائب خاص، عارف کامل جامع نور الہدیٰ ہیں۔ ایک روز وعظ کے دوران بحکمِ الٰہی آپؓ نے ارشاد فرمایا:

قَدَمِیْ ھٰذہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ

ترجمہ: میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔
آپؓ کا یہ فرمان نہ صرف محفل میں موجود اولیا کرامؒ نے سنا بلکہ یہ فرمان کائنات میں موجود تمام اوّلین و آخرین اولیا نے سنا اور اپنی گردنیں جھکاتے ہوئے فرمایا نَعَمْ ےَا شَےْخُ وَ لِمَنْ قَالَ ( اے شیخ! آپؓ کا ارشاد سر آنکھوں پر)۔
آپؓ کا فرمان یہ بھی ہے کہ نہ صرف آپؓ کا مرتبہ تمام اولیا کرامؒ سے برتر ہے بلکہ آپؓ کا سلسلہ بھی تمام سلاسلِ طریقت سے بلند تر ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فقر کے مختارِ کُل ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد سیّدنا غوث الاعظمؓ کی اجازت و مہربانی سے ہی طالبِ مولیٰ ولایت اور فقر کی امانت پاتا ہے۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ کا فرمان

قَدَمِیْ ھٰذہٖ عَلیٰ رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ 

(یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے) آپؓکے مقامِ فقر کو ظاہر کرتا ہے یعنی آپؓ اس مقام پر فائز ہیں

اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ 

(جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اللہ ہے)‘‘ کیونکہ فقر کے برابر کسی کو قربِ الٰہی اور فنا فی اللہ کا مقام حاصل نہیں اور جس نے فقر کی انتہا کو پالیا وہی سلطان الفقر ہے۔
سیّدنا غوث الاعظمؓ نے فقر کی یہ امانت حضرت پیر عبدالرزاق جیلانیؒ کو بحکمِ الٰہی منتقل فرمائی۔ آپؓ کا ظاہری وصال مبارک 91 برس کی عمر میں 11 ربیع الثانی 561 ؁ھ (12 فروری 1166ء( بروز ہفتہ بعد از نماز عشا ہوا۔ آپؓ کا مزارِ پُرانوار بغداد (عراق) میں واقع ہے۔ (حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ)

حضرت پیر عبدالرزاق جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

سلطانِ انوار سرّ السرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزندِ حضرت پیر دستگیر (قدس سرہُ العزیز) سلطان الفقر چہارم کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہیں ۔ سیّد نا غوث الاعظمؓ نے امانتِ فقر منشائے الٰہی کے مطابق آپؒ کو منتقل فرمائی اور باطنی و روحانی دولت سے نوازا۔ حضرت شیخ سیّدنا عبدالرزاق جیلانی ؒ 528 ؁ھ بمطابق 1133ء کو بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد و مرشد سیّدنا غوث الاعظمؓ سے حاصل فرمائی۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ سے تکمیلِ علم فرما کر آپؒ نے دیگر جید علمائے کرامؒ سے بھی استفادہ فرمایا۔ علامہ ابنِ نجارؒ فرماتے ہیں ’’آپؒ نے لڑکپن ہی سے اپنے والد محترم سے حدیث کی سماعت فرمائی تھی اور ان کے علاوہ بھی ایک بڑی جماعت سے احادیث کی سماعت فرمائی تھی اور اپنی ذاتی صلاحیتوں سے بھی بہت کچھ حاصل فرمایا۔ آپؒ نہ صرف امام الوقت کے مرتبہ پر فائز تھے بلکہ زبردست محدث اور فقیہہ ہونے کی بنا پر ’’ تاج الدین‘‘ کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ عجزو انکساری، صبر و شکر، اخلاقِ حسنہ اور عفت شعاری آپؒ کی زندگی کا امتیاز رہا۔ آپؒ زیادہ تر تنہائی اختیار فرماتے اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے البتہ آپؒ طالبانِ مولیٰ کو درس و تدریس ضرور فرماتے۔ آپؒ کے درس وتدریس اور نگاہِ فیض کی برکت سے بہت لوگ عالم فاضل اور عارفِ کامل کے مراتب تک پہنچے ۔حافظ عماد الدین ابنِ کثیر لکھتے ہیں ’’ حضرت پیر عبدالرزاق ؒ زاہد، ثقہ اور متقی تھے۔ سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی اولاد میں سے آپؒ سے بہتر کوئی شخص نہ تھا، آپؒ نے مناصب و امارت کو قبول نہ کیا، آپؒ دنیا سے کم حصہ لینے والے اور آخرت کی طرف توجہ کرنے والے تھے۔ آپؒ نے بہت سے لوگوں سے سماع کیا اور آپؒ سے بھی اسی طرح (بہت سے لوگوں نے) سماع کیا۔‘‘ حضرت ابو زرعہؒ ’’بہجتہ الاسرار‘‘ میں سیّدنا پیر عبدالرزاقؒ کے عشقِ حقیقی و قربِ الٰہی کے مراتب کو ایک روایت میں یوں بیان فرماتے ہیں ’’ایک بار میں سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی مجلسِ وعظ میں حاضر تھا۔ وعظ کے دوران آپؓ نے فرمایا’’میری مجلس میں ایسے لوگ بھی حاضر ہیں جو جبل قاف قدس کے پار رہتے ہیں اور جن کے قدم اس وقت ہوا میں ہیں۔ شدتِ شوقِ الٰہی سے ان کے جبے اور ان کے سروں پر عشقِ الٰہی کے سلطانی تاج جل رہے ہیں۔‘‘ اس وقت آپؓ کے بڑے فرزند پیر عبدالرزاق قدس سرہُ العزیز اس مجلس میں حاضر تھے اور آپؓ کی کرسیِ وعظ کے بالکل پاس ہی آپؓ کے قدم مبارک کے قریب ہی بیٹھے تھے ۔ جونہی حضرت عبدالقادر جیلانیؓ نے یہ کلام فرمایا حضرت پیر عبدالرزاق ؒ نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور ایک لحظہ یونہی آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپؒ بیہوش ہوگئے اور آپؒ کے جبے اور دستار مبارک کو آگ لگ گئی حضرت پیر دستگیر قدس سرہُ العزیز نے کرسیِ وعظ سے نیچے اتر کر اپنے ہاتھوں سے آگ بجھا کر فرمایا ’’ اے عبدالرزاق ! تم بھی ان میں سے ہی ہو۔‘‘ ابوزرعہؒ فرماتے ہیں مجلسِ وعظ ختم ہونے کے بعد پیر عبدالرزاق ؒ سے اس معاملے کی حقیقت اور ان کی کیفیت کے متعلق پوچھا تو آپؒ نے فرمایا جب میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو میں فضا میں چند روحانی و نورانی لوگوں کو دیکھا کہ شوقِ الٰہی سے ان کے جُبے اور تاج شعلہ بار ہیں اور وہ ہوا میں ادھر ادھر چکر لگاتے تھے اور رقص کرتے تھے اور دردو محبتِ الٰہی سے بادلوں کی طرح گرجتے تھے ان کے دیکھنے سے میری بھی وہی حالت ہوگئی۔ آپؒ نے اپنے خلیفۂ اکبر اور پوتے حضرت سیّدنا شیخ عبدالجبار جیلانیؒ کو امانتِ الٰہیہ (امانتِ فقر) منتقل فرمائی۔ آپؒ کی تاریخِ و صال میں اختلاف ہے۔ آپؒ نے ’’ جلاء الخواطر‘‘ کے نام نے ایک کتاب تصنیف فرمائی۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ 

سلسلہ سروری قادری کے عالی مرتبہ بزرگ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ’’سلطان الفقر پنجم ‘‘کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔ سلطان العارفین یکم جمادی الثانی 1039ھ (17 جنوری 1630ء( بروز جمعرات بوقتِ فجر شاہجہان کے عہدِ حکومت میں قصبہ شور کوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ مادر زاد ولئ کامل تھے۔ آپؒ کی والدہ محترمہ نے بحکمِ الٰہی آپؒ کا نام ’’باھُو‘‘ رکھا۔ آپؒ فرماتے ہیں:
* ’’باھُو کی والدہ نے اس کا نام باھُو اس لیے رکھا کہ وہ ہر لمحہ ’’ھُو‘‘ کے ساتھ رہتا ہے۔( محک الفقر کلاں)
آپؒ نے کسی قسم کا کتابی اورظاہری علم حاصل نہیں کیا۔ آپؒ عین الفقر میں فرماتے ہیں:
* ’’ مجھے اور محمد عربی ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو ظاہری علم حاصل نہیں تھا لیکن وارداتِ غیبی کے سبب علمِ باطن کی فتوحات اس قدر تھیں کہ کئی دفتر درکار ہیں۔‘‘
آپؒ کی والدہ محترمہ حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہ عارفہ کاملہ تھیں۔ آپؒ نے باطنی علوم اپنی والدہ محترمہ سے حاصل کیے۔ آپؒ اس پائے کے ولئ کامل تھے جس پر بھی ایک بار نگاہ ڈالتے اسے واصل باللہ کر دیتے۔ اگر کسی کافر پر نظر ڈالتے تو وہ فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاتا اسی خوف سے کفار اور ہندو آپؒ کے سامنے نہیں آتے تھے ۔ آپؒ کی یہ کرامت آخری عمر تک جاری رہی ۔ آپؒ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باطنی فیض کا شرف حاصل فرمایا اپنی باطنی بیعت کے متعلق آپؒ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں:
دستِ بیعت کرد مارا مصطفیؐ
خواندہ است فرزند مارا مجتبیٰؐ
شُد اجازت باھُو را از مصطفیؐ
خلق را تلقین بکن بہر خدا
ترجمہ: مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دست بیعت فرمایا اور انھوں نے مجھے اپنا نوری حضوری فرزند قرار دیا مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اجازت دی کہ میں خلقِ خدا کو تلقین کروں۔
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
فرزند خود خواندہ است مارا فاطمہؓ
معرفت است برمن خاتمہ
ترجمہ: حضرت فاطمہ الزہراؓ نے مجھے اپنا فرزند بنایا ہے اس لیے معرفتِ فقر کی مجھ پر انتہا ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
ترجمہ: میں تیس سال تک مرشد کی تلاش میں سرگردان رہا لیکن مجھے اپنے پائے کا مرشد نہیں مل سکا۔
جس طرح سیّدنا غوث الاعظمؓ نے اپنے ایک وعظ کے دوران بمنشائے الٰہی
قَدَمِیْ ھٰذہٖ عَلیٰ رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ
(یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے) کا اعلان فرمایا اسی طرح سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے اپنے متعلق فرمایا ’’جب سے لطفِ ازلی کے باعث حقیقتِ حق کی عین نوازش سے سربلندی حاصل ہوئی ہے اور حضور فائض النور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تمام خلقت، کیا مسلم، کیا کافر ، کیا بانصیب ، کیا بے نصیب ، کیا زندہ اور کیا مردہ سب کو ہدایت کا حکم ملا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبانِ گوہر فشان سے مجھے مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخرزمانی فرمایا ہے۔‘‘ فقر میں ظاہری بیعت کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امانتِ الٰہیہ سینہ با سینہ ہر دور کے امام الوقت کو عطا کی جائے۔ آپؒ نے سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ کے دستِ مبارک پر ظاہری بیعت فرمائی۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* فقر میں بیعت ضروری ہے اگر آپؒ سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ کہ دستِ مبارک پر ظاہری بیعت نہ فرماتے تو سلسلہ سروری قادری کی کڑی جو سیّدنا غوث الاعظمؓ سے سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ تک پہنچتی تھی وہ ٹوٹ جاتی اور آپؒ مرشدِ اتصال نہ رہتے۔ آپؒ نے راہِ فقر اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ راہِ فقر میں مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی راہبری اور رہنمائی بہت ضروری ہے ۔
آپؒ ہمیشہ استغراق حق میں مستغرق رہتے ۔آپؒ نے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کے لیے تقریباً 140 کتب تحریر فرمائیں ان کتب کی خاص بات یہ ہے کہ جو طالب بھی خلوصِ نیت سے باادب ہو کر ان کتب کا مطالعہ کرے گا تو وہ مرشد کامل اکمل تک رہنمائی پا لے گا۔ آپؒ نے اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں کسی کو امانتِ الٰہیہ منتقل نہیں فرمائی۔ آپؒ فرماتے ہیں ’’میں تیس سال تک اسے طالب کی تلاش میں رہا جسے میں وہاں پہنچا سکوں جہاں میں خود ہوں لیکن مجھے ایسا طالبِ حق نہ مل سکا ‘‘۔
آپؒ کا ظاہری وصال یکم جمادی الثانی 1102 ھ (بمطابق یکم مارچ 1691 ھ) بروز جمعرات بوقتِ عصر ہوا۔آپؒ کے ظاہری وصال کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی ؒ کو منتخب کر کے آپؒ کی خدمت میں بھیجا جنہیں آپؒ نے امانتِ فقر منتقل فرمائی۔ اس طرح امانتِ الٰہیہ کا سلسلہ جہاں رُکا تھا وہیں سے تقریباً 139 سال بعد دوبارہ شروع ہوگیا۔( شمس الفقرا ، رسالہ روحی شریف)

سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ

سلطان الفقر(ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ؒ کی ولادت باسعادت 14 اگست 1947 ء (27 رمضان المبارک 1366ھ) بروز جمعتہ المبارک بوقتِ سحر قصبہ سمندری گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں ہوئی۔ آپؒ کے والد و مرشد سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ کا شجرہ نسب آٹھویں پشت پر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ سے جا ملتا ہے۔ سلطان محمد عبدالعزیز ؒ سلسلہ سروری قادری کے انتیسویں (29 ) شیخِ کامل اور سلطان الفقر ششمؒ کے والد محترم اور مرشد ہیں۔ آپؒ ازل سے ہی مرتبہ سلطان الفقر پر فائز تھے۔ آپؒ کا چہرہ مبارک ہمیشہ نورِ حق سے منور رہتا۔ جو بھی آپؒ کو دیکھا دیوانہ و ارآپؒ کی طرف کھنچا چلا آتا ۔آپؒ کے والد و مرشد آپؒ کو ہمیشہ ’’چن‘‘ کہہ کر مخاطب فرماتے۔ آپؒ نے پرائمری تک تعلیم گڑھ مہاراجہ میں حاصل کی پھر اسلامیہ سکول جھنگ سے مڈل کا امتحان پاس کیا نوشہرہ وادی سون ضلع خوشاب سے میڑک کا امتحان پاس کیا اور بعداز میٹرک آپؒ نے اپنے والد سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ کے دستِ مبارک پر بیعتِ تقویٰ کر کے راہِ فقر باقاعدہ طور پر اختیار کی۔ آپؒ نے روحانی و باطنی علوم اپنے والد مرشد سے حاصل کئے۔ آپؒ نے اپنی ساری زندگی اپنے مرشد کے لیے وقف فرمادی اور کبھی ان سے جدا نہ ہوئے ۔ آپؒ کے والد مرشد نے آپؒ مختلف قسم کی ظاہری و باطنی ڈیوٹیاں عطا فرمائی جسے آپؒ نے عشقِ مرشد میں سرشار منشائے مرشد کے مطابق ادا فرمایا۔
(اصل میں مرشد طالب کو مختلف ڈیوٹیاں عطا کر کے آزماتے ہے کہ مریدیہ ڈیوٹیاں رضائے الٰہی پانے کے لیے کررہا ہے یا پھر اس کا اپنا ذاتی مفاد پوشیدہ ہے) 12 اپریل 1981ء میں آپؒ کے والد مرشد نے قبل از وصال آپؒ کو امانتِ فقر منتقل فرمائی اور آپؒ نے مسندِ تلقین وارشاد 13 اپریل 1981 ء کو سنبھال لی تھی۔ سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ تھے۔ سلطان العارفین ؒ نے ’’سلطان الفقر‘‘ کی جو تعریف رسالہ روحی شریف میں بیان فرمائی ہے آپؒ اس کا عین مظہر تھے۔ سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں’’ ان کی نظر سراسر نورِ وحدت اور کیمیائے عزت ہے۔ جس طالب پر ان کی نگاہ پڑجاتی ہے وہ مشاہدۂ حق تعالیٰ ایسے کرنے لگتا ہے گویا اس کا پورا وجود نورِ مطلق بن گیا ہو۔ انہیں طالبوں کو ظاہری وردو وظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے۔‘‘ آپؒ انہی صفات کا مظہر تھے۔ آپؒ نے راہِ فقر کے راستے تمام خاص و عام طالبانِ حق کے لیے سہل فرمائے۔ آپؒ نے کئی لاکھ انسانوں کو اسمِ اللہ کا فیض بخشا اور اپنی نگاہِ کامل سے انہیں صراطِ مستقیم پر قائم رکھا تاکہ وہ اللہ کے قرب و دیدار کی نعمت پا سکیں۔ جس طرح طالبِ صادق کو مرشد کامل کی تلاش ہوتی ہے اسی طرح مرشد کو بھی طالبِ صادق کی تلاش ہوتی ہے۔ جو مرشد کا محرم راز اور امانتِ الٰہیہ کا وارث ہوتا ہے ۔ آپؒ کو بھی اپنے محرمِ راز اورطالبِ صادق کی تلاش تھی بالآخر آپؒ کو 12 اپریل 1998 میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صورت میں اپنا طالبِ صادق اور محرمِ راز مل گیا۔ آپؒ نے تقریباً تین سال سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو مختلف ظاہری و باطنی آزمائشوں سے گزار کر پرکھ لیا۔ پھر آپؒ نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اور چند دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ 2001 ء میں حج کا فریضہ انجام دیا اور مدینہ منورہ پہنچنے پر تمام ساتھیوں کو حضور نبی اکرم نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں پیش فرمایا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو فقر کی امانت سونپنے کے لیے چُن لیا۔ چنانچہ سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی امانتِ فقر منتقل فرمانے کے بعد مزید 2 سال تک آپ مدظلہ الاقدس کی ظاہری و باطنی تربیت فرمائی۔ 26 دسمبر 2003ء (2 ذیقعد 1424ھ) کو جمعتہ المبارک کے دن فقر کا یہ آفتاب کسی اور صورت میں جلوہ گر ہوکر اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما گیا۔(حیات و تعلیمات سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ )
سلطان الفقر ہستیوں کی یہ شان ہمارے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس میں جلوہ گر ہے۔ طالبانِ مولیٰ کے لیے دروازہ کھلا ہے۔ فھم من فھم


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں