قصہ چھ چوروں کا | Story (Waqia) of Six Thieves


Rate this post

قصہ چھ چوروں کا  (Story of Six Thieves)

مراسلہ: عثمان صادق سروری قادری

سلطان (Sultan) محمود غزنوی اکثر رات کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کے حال احوال سے باخبر رہتا اور ان کی تکالیف دور کرتا۔ ایک رات حسبِ عادت رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے بادشاہ سلامت بھیس بدل کر محل سے نکلے اور گشت کرتے ہوئے ایک ویرانے سے گزرے۔ وہاں چند آدمی بیٹھے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔ سلطان (Sultan) بھی ان کے قریب جا بیٹھا۔ دعا سلام کے بعد پوچھاکہ تم لوگ کون ہو اور رات گئے یہاں کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہم چور (Thief) ہیں اور اب تم بتاؤ کہ تم کون ہو؟ سلطان (Sultan) نے کہا میں بھی تمہی میں سے ہوں۔ یہ سن کر وہ خوش ہوئے اور خوش آمدید کہا۔ وہ آپس میں اپنے اپنے ہنر اور کمال کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ پہلے نے کہا ’’میرے کانوں کو یہ کمال حاصل ہے کہ رات کو جب کتا بھونکتا ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ سب نے سن کر کہا بھئی واہ یہ تو بڑے کمال کی بات ہے۔ دوسرا کہنے لگا ’’اے مال و زر کے پجاریو! میری آنکھوں میں یہ خوبی ہے کہ رات کو کیسا ہی گھپ اندھیرا کیوں نہ ہو میں جس کو ایک مرتبہ اندھیرے میں دیکھ لوں دن کی روشنی میں دیکھتے ہی پہچان لیتا ہوں۔‘‘ تیسرے نے کہا ’’میرے بازوؤں میں اتنی قوت ہے کہ مضبوط سے مضبوط دیوار میں نقب لگا لیتا ہوں۔‘‘ چوتھے نے کہا ’’میں سونگھ کر بتا دیتا ہوں کہ خزانہ کس جگہ دبا ہوا ہے۔جیسے مجنوں کو خبر نہیں تھی کہ لیلیٰ کی قبر کہاں ہے۔ قبرستان جا کر ہر قبر کو سونگھا، جب لیلیٰ کی قبر کی مٹی سونگھی تو بتا دیا کہ لیلیٰ یہاں ہے۔ ‘‘

ہمچو مجنوں بو کنم ہر خاک را
خاکِ لیلی را بیابم بے خطا

مولانا فرماتے ہیں کہ جو مولیٰ کے عاشق ہیں وہ بھی مثل مجنوں کے ہر مٹی کو سونگھتے ہیں اورجس قلب میں مولیٰ ہوتا ہے وہ سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس کے قلب میں مولیٰ ہے۔ اللہ (Allah) کے عاشقین اللہ والوں کے چہرہ سے، ان کی آنکھوں سے، ان کی گفتگو سے پتہ پا جاتے ہیں کہ یہ دل صاحبِ نسبت ہے۔ 

پانچواں کہنے لگا ’’میرے پنجے میں وہ زور ہے کہ اونچی سے اونچی جگہ پر کمند پھینک سکتا ہوں۔‘‘چھٹے نے کہا ’’میں ماہرِحساب ہوں، کتنا ہی بڑا خزانہ کیوں نہ ہو، چند سیکنڈ میں حساب لگا کر تقسیم کر دیتا ہوں۔‘‘
اب سب چورو ں (Thieves) نے بادشاہ سے پوچھا کہ اے چور بھائی! تمہا رے اندر کیا خاص بات ہے؟ شاہ محمود نے کہا کہ بھئی میری داڑھی میں ایک خاصیت ہے:

مجرماں را چوں بہ جلاداں دہند
چوں بجنبد ریش من ایشان رہند

یعنی جب مجرمین کو پھانسی کے لئے جلادوں کے حوالہ کر دیاجاتا ہے اس وقت اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی کے پھندے سے چھوٹ جاتے ہیں۔
یہ سن کر چور (Thief) مارے خوشی کے کہنے لگے: 

قوم گفتندش کہ قطب ما توئی
روز محنت ہا خلاص ما توئی

آپ تو چوروں (Thieves) کے قطب ہیں۔ جب ہم کسی مصیبت میں پھنس جائیں گے تو آپ ہی کے ذریعہ ہم کو خلاصی ملے گی۔

لہٰذا فیصلہ ہوا کہ آج بادشاہ کے یہاں چوری کی جائے کیونکہ آج سب اراکین نہایت پاور فل ہیں اور مصیبت سے چھڑانے والا داڑھی والا بھی ساتھ ہے۔ سب بادشاہ (Sultan) کے محل کی طرف چل پڑے۔ راستہ میں کتا بھونکا تو کتے کی آواز پہچاننے والا ہراساں ہو کر بولا کہ کتا کہہ رہا ہے کہ بادشاہ (Sultan) تمہارے دائیں بائیں ہی موجود ہے۔ یہ سن کر دوسرے چور ہنس پڑے اور بولے تجھے کیا ہو گیا ہے۔ بادشاہ کا یہاں کیا کام! وہ تو اس وقت محل میں اپنے آرام دہ بستر پر خراٹے لے رہا ہوگا۔ وہ چور پھر بھی چوری کے ارادے سے کیوں نہ باز آئے؟ بوجہ لالچ اور طمع کے، کیونکہ لالچ آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور عقل و ہوش کو اڑا دیتا ہے جس سے ہنر پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں:

صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شد
چوں غرض آمد ہنر پوشید ہ شد

ہر گناہ اسی طرح ہوتا ہے کہ شہوت اور لالچ آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے،پھر برے بھلے کی تمیز نہیں رہتی۔ جانتا ہے کہ یہ آنکھوں کا زنا ہے لیکن مغلوب ہو کر گناہ کرتا ہے، اسی لئے اللہ نے اسباب گناہ سے دوری کا حکم فرمایا۔
اتنے میں دوسرا چور بولا دوستو! شاہی خزانہ قریب آگیا ہے، بس اب تم سب اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرو ۔ کمند پھینکنے والے نے محل کی چھت پر کمند پھینکی اور پھر وہ سب کمند کے ذریعے محل کی چھت پر جا پہنچے۔ نقب زن نے نقب لگائی اور اس کمرے میں ساتھیوں کو لے گیا جہاں شاہی خزانہ موجود تھا۔ لہٰذا بادشاہ کے یہاں چوری ہوئی۔ چوروں (Thieves) نے خزانہ لوٹ لیا اور جنگل میں بیٹھ کر ماہرحساب نے سب کا حصہ لگا کر چند منٹ میں مال تقسیم کردیا۔ بادشاہ نے کہا: سب لوگ اپنا اپنا پتہ لکھوادیں تاکہ آئندہ جب چوری کرنا ہو تو ہم لوگ آسانی سے جمع ہو جائیں۔ اس طرح بادشاہ نے سب کا پتہ نوٹ کر لیا۔

اگلے دن سلطان (Sultan) نے عدالت لگائی اور پولیس والوں کو حکم دیا کہ سب کو پکڑ لاؤ۔ جب سب چور ہتھکڑیاں ڈال کر حاضر کئے گئے تو موت کے خوف سے چہرے زرد اور بدن خشک تنکے کی طرح کانپ رہے تھے۔ سلطان (Sultan) نے سب کو پھانسی کا حکم دے دیا اور کہا کہ اس مقدمہ میں کسی گواہ کی ضرورت نہیں کیونکہ سلطان (Sultan) خود وہاں موجود تھا۔ اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالی کو کسی گواہ کی ضرورت نہیں کیونکہ

وَ ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ (سورۃ الحدید۔4)
جب تم بد کاریاں کررہے تھے تومیں تو تمہارے ساتھ موجود تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ کو کسی گواہ کی حاجت نہیں۔ پھر قیامت کے دن جو اعضا کی گواہی، زمین کی گواہی ،فرشتوں کی گواہی،اور صحیفہ اعمال کی جو گواہی پیش کی جائی گی وہ بندوں پر حجت تمام کرنے کے لئے کافی ہوگی۔

جب چھ کے چھ چور پھانسی کے تختہ پر کھڑے ہو گئے تو وہ چور جس نے بادشاہ کو دیکھا تھا، اس نے پہچان لیا کہ یہ وہی ہے جو رات کو ہمارے ساتھ تھا۔ وہ تختہ دار سے چلاّیا کہ حضور (Sultan) کچھ دیر کو ہماری جانوں کو امان دی جائے،میں آپ سے تنہائی میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے کہا: ٹھیک ہے،تھوڑی دیر کے لئے پھانسی کو موقوف کر دو اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔ چور نے حاضر ہو کر عرض کیا:

ہر یکے خاصیتے خود را نمود
ایں ہنر ہا جملہ بدبختی فزود

اے بادشاہ(Sultan)! ہم میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا ہنر دکھا دیا لیکن ہمارے سب کے سب ہنر جن پر ہم کو ناز تھا انہوں نے ہماری بدبختی کو اور بڑھادیا کہ آج ہم تختہ دار پر ہیں۔ اے بادشاہ!میں نے آپ کو پہچان لیا ہے، آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ جب مجرموں کو تختہ دار پر چڑھایا جاتا ہے اس وقت غایتِ کرم سے اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی سے نجات پا جاتے ہیں۔ لہٰذا اپنے ہنر کا ظہور فرمایئے تاکہ ہماری جان خلاصی پا جائے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ سلطان (Sultan) محمود نے کہا تمہارے کمالاتِ ہنر نے تو تمہاری گردنوں کو مبتلائے قہر کردیا تھا لیکن یہ شخص جو سلطان کا عارف تھا اس کی چشمِ سلطان شناس کے صدقے میں تم سب کو رہا کرتا ہوں۔

اس قصہ کو بیان فرما کر مولانا رومی فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص اپنے ہنر پر ناز کررہا ہے،بڑے بڑے اہلِ ہنر اپنی بدمستیوں میں مست اور خدا سے غافل ہیں لیکن قیامت کے دن ان کے یہ ہنر کچھ کام نہ آ ئیں گے اور ان کو مبتلائے قہر و عذاب کردیں گے لیکن 

جز مگر خاصیت آں خوش حواس
کہ بشب بود چشم او سلطاں شناس

جن لوگوں نے اس دنیا کے اندھیرے میں اللہ کو پہچان لیا، نگاہِ معرفت پیدا کر لی قیامت کے دن یہ خود بھی نجات پائیں گے اور ان کی سفارش گنہگاروں کے حق میں قبول کی جائے گی۔ 

(Story of Six Thieves)

(حکایاتِ رومیؒ سے انتخاب) 

 
 

34 تبصرے “قصہ چھ چوروں کا | Story (Waqia) of Six Thieves

    1. رومی کا خوبصورت انداز اس حکایت میں واضح نظر آتا ہے

  1. مولانا روم کی مثنوی کو کوئی نہیں پہنچ سکتا

  2. اللہ (Allah) کے عاشقین اللہ والوں کے چہرہ سے، ان کی آنکھوں سے، ان کی گفتگو سے پتہ پا جاتے ہیں کہ یہ دل صاحبِ نسبت ہے۔

  3. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے 💯❤👍

  4. ہمچو مجنوں بو کنم ہر خاک را
    خاکِ لیلی را بیابم بے خطا

  5. مولانا رومی فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص اپنے ہنر پر ناز کررہا ہے،بڑے بڑے اہلِ ہنر اپنی بدمستیوں میں مست اور خدا سے غافل ہیں لیکن قیامت کے دن ان کے یہ ہنر کچھ کام نہ آ ئیں گے اور ان کو مبتلائے قہر و عذاب کردیں گے

  6. مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی حکایات میں بہت اچھا سبق ہوتا ہے

  7.  جن لوگوں نے اس دنیا کے اندھیرے میں اللہ کو پہچان لیا، نگاہِ معرفت پیدا کر لی، قیامت کے دن یہ خود بھی نجات پائیں گے اور ان کی سفارش گنہگاروں کے حق میں قبول کی جائے گی۔ 

  8. بہت سبق آموز تحریر ہے۔ اللہ پاک ہمیں محفوظ رکھے تمام گناہوں سے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں