اہلِ حق سے محبت و عقیدت | Ahle Haq se Mohabbat or Aqeedat


Rate this post

 اہلِ حق سے محبت و عقیدت (Ahle Haq se Mohabbat or Aqeedat)

تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری

محبت (Mohabbat) کا خمیر ازل سے ہی حضرتِ انسان کے وجود کا حصہ رہا ہے اور یہ محبت ہی ہے جو بندے کو اللہ پاک سے جوڑتی ہے۔ اللہ پاک بھی اپنی مخلوق سے محبت (Mohabbat) کرتا ہے۔ یہ اللہ جل جلالہٗ کی اپنی مخلوق سے محبت  (Mohabbat) ہی ہے جو اس نے انسان کے لیے ہر عالم کو اپنے بے بہا خزانوں سے سنوارا۔ یہ اللہ پاک کی انسان سے محبت  (Mohabbat)ہی ہے کہ انسان سراپا گناہ بھی ہو تو جب وہ اپنے حقیقی معبود کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے تو اللہ پاک اس کے گناہوں کو نہیں دیکھتا بس اپنے جوارِ رحمت میں پناہ دے دیتا ہے۔ الغرض اُس شان، عظمت و کبریائی والے اللہ کی اپنی مخلوق سے محبت کی کوئی حد ہی نہیں، اس محبت (Mohabbat) کو ماپنے کا کوئی پیمانہ ہی نہیں۔ اُن نعمتوں کا تو شمار ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے محبت (Mohabbat) کرتے ہوئے انہیں نوازیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اے گروہِ جن و انس!) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ (سورۃ الرحمن)
پس انسان کی محبت کا اوّلین حق دار صرف اللہ ہی ہے اور بندے کا اللہ سے محبت کرنا ہی اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور اہلِ ایمان اللہ سے بہت زیادہ محبت (Mohabbat) کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ۔ 165)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ  (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra)فرماتے ہیں: 
خشخاش کے دانہ کے برابر محبتِ الٰہی تمام مسائلِ فقہ کے علم کی فضیلت، ستر سال کی پارسائی اور عبادت سے بہتر ہے کیونکہ محبت (Mohabbat) سے بندہ ربوبیت اور توحید کے رازِ الٰہی کا محرم ہو جاتا ہے جبکہ عبادات اور علم سے تکبر پیدا ہوتا ہے اور بندہ محبتِ الٰہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ (عین الفقر)

آقائے دوجہاں رحمتِ عالم 
 حضرت محمدؐ سے محبت و عقیدت

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بندہ اپنے اللہ سے کیسے شدید محبت کرسکتا ہے؟ اسے ایسا کونسا عمل یا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے بندہ اپنے اللہ سے شدید محبت (Mohabbat) کرے؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
(اے حبیب  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!(prophet mohammad pbuh)) آپ فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، تب اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (سورۃ آلِ عمران۔31)
حدیثِ نبویؐ ہے ’’تم میں سے کوئی شخص (اُس وقت تک) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کی اولاد، اس کے والد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحیح مسلم 44)
ارشادِ نبویؐ ہے ’’میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوقات میرے نور سے ہیں۔‘‘ (حقیقتِ محمدیہ)
نورِ محمدی ہی انسان کی اصل بنیاد ہے ۔ یہ نور ہی ہے جو انسان میں پیارے آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام (prophet mohammad pbuh) سے شدید محبت (Mohabbat) کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور یہی محبت کامل ایمان کی ضمانت ہے۔ اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کی بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (سورۃ النسا۔ 80)

میرے ہادی میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) فرماتے ہیں: 
ایمانِ کامل تو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ عشق کی تعریف یہ ہے کہ جو محبت تمام محبتوں پر غالب آجائے وہ عشق ہے اور عشقِ مصطفیؐ ہی ایمانِ کامل ہے۔ (حقیقتِ محمدیہ) 

بنی نوع انسانوں میں محبتِ رسولؐ میں سبقت لے جانے والے پاک نفوس اہلِ بیتؓ اور اصحابِؓ کبار ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (prophet mohammad pbuh) سے آپؓ کی محبت (Mohabbat) کیسی ہے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) میری نظر میں ہمارے مال، اولاد، ماں باپ، جان حتیٰ کہ پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ (سیرت ابنِ ہشام)

کلمہ توحید پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والاہر انسان اپنے قلب میں جو اوّلین محبت شدت سے محسوس کرتا ہے وہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (prophet mohammad pbuh) کی ہی محبت (Mohabbat) ہوتی ہے اور یہ محبت (Mohabbat) کیونکر نہ ہو جبکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اُمت کے لیے دار الشفاعت، حاجت روا اور رحمتِ خدا ہیں۔  

ہمیں وہ اپنا کہتے ہیں، محبت ہو تو ایسی ہو
ہمیں رکھتے ہیں نظروں میں عنایت ہو تو ایسی ہو

 

اہلِ بیتؓ سے محبت و عقیدت

اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (prophet mohammad pbuh) سے محبت و عقیدت کے بعد ہر اہلِ ایمان کی محبت و عقیدت کے سب سے زیادہ حقدار اہلِ بیتؓ ہیں۔ اہلِ بیتؓ کے متعلق ذرا سی بھی بدگمانی انسان کی ساری عمر کی عبادت و ریاضت کو ضائع کر دیتی ہے۔ ایسا انسان بے ایمان زندہ لاش (جس کا سرمایۂ ایمان شیطان نے لوٹ لیا ہو) کی مثل بن جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فرمادیجئے اے لوگو! میں تم سے اس (ہدایت و تبلیغ) پر کوئی اُجرت نہیں مانگتا سوائے قرابت کی محبت (Mohabbat) کے۔ (سورۃ الشوریٰ۔23)

اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (prophet mohammad pbuh) ان کے ہاں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو قریب کیا اوراپنے سامنے بٹھایا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو ایک ران پر بٹھایا پھر ان پر چادر مبارک لپیٹی اور قرآنِ مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔  (سورۃ الاحزاب۔33)
ترجمہ: اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ’’رِجس‘‘ کو دور رکھے اور تمہیں پاک و طاہر کر دے۔  

حضرت اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں میں نے چادر اُٹھا کر سر داخل کیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ! میں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں۔ فرمایا ’’تم خیر پر ہو، تم خیر پر ہو۔‘‘ (مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (prophet mohammad pbuh) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے اللہ تعالیٰ کی محبت (Mohabbat) کے سبب محبت کرو اور میرے اہلِ بیت سے میری محبت (Mohabbat) کی خاطر محبت کرو۔‘‘ (ترمذی، حاکم)

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اہلِ بیتؓ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت (Mohabbat) میں فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘ (امام دیلمی) 

ایک مرتبہ ایک اعرابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ’’یا رسول اللہؐ! میں جتنی بھی کوشش کر لوں اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ جتنی نیکیاں نہیں کما سکتا جبکہ میں آپؐ سے، اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ سے بے تحاشا محبت (Mohabbat) کرتا ہوں تو کیا میں آخرت میں ان سب سے جدا کر دیا جاؤں گا (یعنی آپ سب جنت کے اعلیٰ درجے پر ہوں گے اور میرے پاس اتنے اچھے اعمال نہیں)‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’انسان قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ دنیا میں محبت رکھے گا۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم) 

 اہلِ بیتؓ کی محبت و عقیدت ایمانِ کامل کی نشانی اور آخرت کا سرمایہ ہے اور ان پاک نفوس کی بے ادبی دونوں جہانوں کی ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ ہم اہلِ بیتؓ سے کوئی آدمی نفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال دیتا ہے۔‘‘ (ابنِ حبان، حاکم)

حضرت حسن بن علیؓ روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے فرمایا ’’اے معاویہ بن خدیج! ہمارے ساتھ بغض سے بچوکیونکہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ہم سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوضِ کوثر سے دھتکار دیا جائے گا۔‘‘ (طبرانی)

حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (prophet mohammad pbuh) نے فرمایا ’’تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں؛ علیؓ سے بغض رکھنا، میرے اہلِ بیت ؓ سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام (یعنی اقرار باللسان) کا نام ہے۔‘‘ (امام دیلمی)

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور میں قدمِ محمدؐ پر فائض امانتِ الٰہیہ کے وارث، نائبِ رسولؐ اور صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’اہلِ بیتؓ کے بارے میں ہلکی سی ’قلبی بدگمانی‘ بڑے بڑوں کو اعلیٰ ترین روحانی درجات سے گرا دیتی ہے۔ ‘‘

ا صحابِ کبارؓ سے محبت و عقیدت (Mohabbat o Aqeedat)

جب وفا، جانثاری اورمحبت و عقیدت (Mohabbat o Aqeedat) کا ذکر ہو تو سب سے اعلیٰ و افضل مقام و مرتبہ صرف اور صرف اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے۔ ان پاک نفوس کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اہلِ بیتؓ سے محبت و عقیدت (Mohabbat o  Aqeedat) کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ میرے ہادی میرے مرشد پاک، آفتابِ فقرسلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں: ’’صحابی کے معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں اورصحابی کی جمع ہے صحابہ۔ صحابی کا لفظ صحبت سے نکلا ہے خواہ صحبت کا مطلب کچھ بھی ہو۔ اور اصطلاحاً یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) کی رفاقت اور صحبت اختیار کی اور دینِ اسلام کو نہ صرف خود قبول کیا بلکہ اسے دنیا میں قائم و نافذ کرنے میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ صحابہ کرامؓ وہ ہستیاں ہیں جو جمالِ محبوبؐ میں اس قدر فنا ہو گئے تھے کہ وہ صبغۃ اللّٰہ  یعنی اللہ کے رنگ میں رنگ گئے تھے۔ ‘‘ (فضائل اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ)

اصحابِ کبارؓ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) سے شدید محبت و عقیدت کے باعث اللہ پاک نے ان پاکیزہ نفوس سے محبت فرمائی اور قرآنِ مجیدمیں فرمایا:
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے۔ (سورۃ المائدہ۔119)
حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے فرمایا: ’’میرے صحابہ کو برُا مت کہو۔ پس قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابربھی سونا خرچ کر دے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (مسلم، نسائی)
حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے فرمایا ’’میرے صحابہؓ کے بارے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری اُمت کے بہترین لوگ ہیں۔‘‘ (امام ابو نعیم)

ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (prophet mohammad pbuh) نے زید بن دثنہ ؓاور صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو قبیلہ عضل وقارہ (جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے) کی تعلیم کے لیے بھیجا لیکن قبیلہ عضل وقارہ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ دھوکہ کیا اور حضرت زیدؓ کو صفوان بن امیہ نے خرید لیا تاکہ انہیں اپنے باپ امیہ بن خلف کے بدلے میں قتل کردے اور ان کو قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر مقام تنعیم لایا گیا۔ جب ان کے قتل کی تیاری مکمل کر لی گئی تو اس موقع پر ابو سفیان نے اللہ کی قسم دلا کر ان سے پوچھا کہ اے زید! کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ آج اس موقع پر تمہاری جگہ محمدؐ ہوں اور ہم ان کی گردن ماریں اور تم اپنے اہل میں رہو، آپ نے جواب دیا ’’اللہ کی قسم! میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمدؐ جس جگہ تشریف فرما ہیں انہیں کانٹاچبھے اور تکلیف پہنچے اور میں اپنے اہل میں رہوں۔‘‘ ابو سفیان نے کہا ’’میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی سے اس طرح محبت کرتا ہو جس طرح محمدؐ کے ساتھی محمدؐ سے محبت کرتے ہیں۔ ‘‘ (سیرت ابنِ ہشام)

پس صحابہ کرامؓ سے عقیدت و محبت ہر مسلمان کے ایمان کی سلامتی کی ضامن ہے اور ان کے بارے میں غلط سوچ سراسر بربادی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے فرمایا ’’بے شک لوگ کثیر تعداد میں ہیں اور میرے صحابہؓ قلیل تعداد میں۔ پس میرے صحابہ کو برُا بھلا مت کہو اور جس نے انہیں برُا بھلا کہاتو اُس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔‘‘ (طبرانی۔ ابویعلیٰ)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) فرماتے ہیں ’’جو اہلِ بیتؓ اورصحابہ کرامؓ کا دشمن ہے وہ بیشک اللہ کا دشمن ہے۔‘‘  (سلطان العاشقین)

فقرائے کاملین سے محبت و عقیدت (Mohabbat o Aqeedat)

اب تک قرآن و حدیث جو اپنی اصل حالت میں قائم و دائم ہیں یہ صرف اور صرف فقرائے کاملین کے فیض و برکت کی وجہ سے ہے۔ جس طرح اللہ پاک کی محبت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے توسط سے ممکن ہے اسی طرح نبی مکرمؐ کی محبت کا حصول صرف اور صرف فقرائے کاملین کے توسط سے ہی ممکن ہے۔فقرائے کاملین ہی وہ معزز جماعت ہیں جنہوں نے اتباعِ رسولؐ اور محبتِ رسولؐ میں تمام مسلمانوں سے سبقت اور کامیابی حاصل کی۔

اللہ تعالیٰ کی اپنے اولیا کرام سے محبت کے بارے میں احادیثِ نبویؐ ہیں:
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Saww) نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرائیلؑ کو آواز دیتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، پس حضرت جبرائیلؑ بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبرائیلؑ آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ ‘‘  (بخاری، مسلم) 

جس نے فقیر کی طرف (محبت و عقیدت (Mohabbat or Aqeedat) سے) دیکھا اور اس کا کلام سنا تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب انبیا اور رسولوں کے ساتھ فرمائے گا۔ (محکم الفقرا)

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ  (Ghous-al-Azam Sayyiduna Hazrat Abdul Qadir Jilani) فرماتے ہیں:
تمہارے درمیان صورتاً کوئی نبی موجود نہیں ہے تا کہ تم اس کی اتباع کرو۔ پس جب تم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متبعین کی اتباع کرو گے جو کہ حضور نبی کریمؐ کی حقیقی اتباع کرنے والے اور اتباع میں ثابت قدم تھے گویا تم نے نبی کریم ؐ کی اتباع کی۔ جب تم ان کی زیارت کرو گے تو گویا تم نے نبی کریم ؐ کی زیارت کی۔(الفتح الربانی۔ مجلس14)
بے شک مومنین پر فقرا کی محبت لازم ہے اور ان سے بغض رکھنے سے بچنا چاہیے۔
حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں ’’جس نے مالدار کی عزت کی اور فقیر کی توہین کی وہ ملعون ہے۔‘‘ (مکاشفۃ القلوب)

حضرت سخی سلطان باھوؒ  (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں ’’فقرا کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔‘‘ (محبت الاسرار)
اولیا کرام کا وجودِ مسعود حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے۔ جس مردہ دل پر ان کی نظر پڑ جاتی ہے وہ زندہ ہو جاتا ہے۔ وہ مردہ لوگ جو صحبتِ اولیا سے فیضیاب ہو کر زندہ ہو جاتے ہیں ان کے قلوب اور ارواح حیاتِ نو سے مستفید ہو جاتی ہیں۔ اس کی تصدیق قرآنِ مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کی ملاقات کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب ایک مقام ’’مجمع البحرین‘‘ پر…جو حضرت خضرؑ کی قیام گاہ تھی…حضرت موسیٰؑ کے ناشتہ دان میں سے مردہ مچھلی زندہ ہو کر پانی میں کود جاتی ہے ۔ یہ واقعہ اس امر کا مظہر ہے کہ وہ مقام جو حضرت خضرؑ کا مسکن تھا، کہ اُس کی آب و ہوا میں یہ تاثیر تھی کہ مرُدہ اجسام کو اُس سے حیاتِ نو ملتی تھی۔ (شانِ اولیا)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں جہاں ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے وہاں محبت و قربِ الٰہی کے حصول کے لیے حقیقی فقیرِکامل (مرشد کامل اکمل) کی پہچان کیسے کی جائے؟

حضرت سخی سلطان باھوؒ ( Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں’’ مرشد کامل وہ ہوتا ہے جو طالب کو اسمِ اللہ ذات (Ism-e-Allah Zaat/ Ism-e-Azam) کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کاتصور بھی عطا کرے۔‘‘

 آپؒ فرماتے ہیں: 
  جو مرشد طالب کو تصورِ اسمِ اللہ ذات (Ism-e-Allah Zaat/ Ism-e-Azam) عطا نہیں کرتا وہ مرشد لائق ِارشاد مرشد نہیں۔‘‘ (نور الہدیٰ کلاں) موجودہ دور کے وارثِ فقر صاحبِ مسمیّ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا مبارک وجو د اس حدیثِ قدسی کے مصداق ہے:
میرا بندہ (فرض ادا کرنے کے بعد) نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ (بخاری 6502)  

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے ہی روز طالب کو سلطان الاذکار ھوُ اور تصور اسمِ اللہ ذات (Ism-e-Allah Zaat/ Ism-e-Azam) عطا فرماتے ہیں ۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہِ فیض کا اثر ہی ہے کہ صدقِ دل سے ذکر و تصورا سمِ اللہ ذات (Ism-e-Allah Zaat/ Ism-e-Azam) کرنے والا عام سے عام طالب باطن میں قربِ الٰہی و مجلسِ محمدیؐ سے بہرہ مند ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہر انسان پر قربِ الٰہی کے حصول کے لیے صرف مرشد کامل اکمل کی تلاش کرنا اور ان سے محبت و عقیدت رکھنا ازحد ضروری اورا یمانِ کامل کا ذریعہ ہے۔ 

(سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman) کے فیضِ فقر اور کامل حیاتِ طیبہ کے بارے میں جاننے کے لیے کتاب ’’سلطان العاشقین‘‘ کا مطالعہ ضرور کریں) 

سلطان باھوؒ:

عرش زیرش فرش بروی خوش نشین
معرفت توحید کلی این بہ بین 

ترجمہ: عرش مرشد کامل کے قدموں تلے ہے۔ اگر توُ خوشی سے اس کے قدموں میں بیٹھا رہے گا تو تجھ پر توحید کی مکمل معرفت ظاہر ہو جائے گی۔ (قربِ دیدار)

مرشد کامل اکمل کے اہلِ خانہ سے محبت و عقیدت (Mohabbat or Aqeedat)

ہر محبت و عقیدت صرف اللہ کے لیے ہی ہے اور اللہ پاک سے محبت و عقیدت بھی وہی کامل ہوتی ہے جب بندہ اس سے محبت کرے جس کا علم، عمل، اطاعت الغرض زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف محبتِ الٰہی میں صرف ہوتا ہے۔ صادق مرید پر اپنے مرشد کامل کی اولاد کی عقیدت و محبت لازم و ملزوم ہے کیونکہ یہ پاکیزہ نفوس براہِ راست مرشد کامل اکمل سے فیوض و برکات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ صحبتِ مرشد سے مستفید ہوئے ہوتے ہیں۔ 

لیکن یہاں پر ایک اہم بات جاننا لازم ہے وہ یہ کہ ہر مرشد کی اولاد عقیدت و محبت کی حقدار نہیں ہوتی کیونکہ اس نفسانیت کے دور کا افسوس ناک المیہ یہ بھی ہے کہ کامل مرشد کے وصال کے بعدان کے اہلِ خانہ کے ایسے افراد جو کہ فقر و تصوف کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے، اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال اور اپنا آرام و سکون قربان کرنے کا ان میں حوصلہ نہیں ہوتا، خواہشاتِ نفس کی پیروی چھوڑ نہیں سکتے، ایسے لوگ اپنے باپ دادا کے علم و نام کو پیری مریدی کا کاروبار بنا لیتے ہیں اور معصوم انسانوں کو لوٹتے ہیں۔ ایسی اولاد کی پیروی کرنا ہرگز جائز نہیں۔  

حضرت سخی سلطان باھوؒ  ( Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra)فرماتے ہیں:
جو شخص حضرت محمدؐ کی اتباع کیے بغیر صرف شیخ زادہ (مرشد کی نسبی اولاد) ہونے کی وجہ سے خود کو راہبر و پیشوا بنا لیتا ہے وہ خود بھی ضلالت (گمراہی) میں ہے اور دوسروں کے لیے بھی مضل (گمراہ کرنے والا) ہے۔ (کشف الاسرار)

لہٰذا صرف وہی اہلِ خانہ محبت و عقیدت (Mohabbat or Aqeedat) کے حقدار ہیں جنہوں نے ظاہر و باطن میں محبتِ الٰہی کی خاطر اپنی جان و مال اور آرام و سکون قربان کر دئیے اور دنیاوی لایعنی خواہشات سے خود کو آلودہ نہیں ہونے دیا۔ محض انہی کی اطاعت فرض ہے اور انہی کی بے ادبی و گستاخی سے بچنا چاہیے۔

اللہ پاک سے محبت رکھنے والا ہی اہل ِحق سے محبت رکھتا ہے اور جو اہلِ حق میں سے کسی ایک کی بھی نفی کرتا ہے حقیقت میں وہ محبت کے دعویٰ میں جھوٹا، کذاب اور لعین ہے۔ ایسا انسان اللہ سے محبت نہیں کرتا بلکہ اپنی خواہشاتِ نفس سے محبت کرتا ہے کیونکہ اس کا نفس جسے پسند کرتا ہے وہ اسے قبول کر لیتا ہے اور جہاں اس کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے اس راہ سے منہ موڑ لیتا ہے۔ 

 مولانا رومؒ:

ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیا

ترجمہ: جو کوئی اللہ تعالیٰ کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔ 

استفاوہ کتب:
۱۔محکم الفقرا؛ تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra)
۲۔حقیقتِ محمدیہ؛ تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)
۳۔مکاشفۃ القلوب
۴۔ شانِ اولیا

(Ahle Haq se Mohabbat or Aqeedat)

’’اہلِ حق سے محبت و عقیدت‘‘ بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒ پر کلک کریں


41 تبصرے “اہلِ حق سے محبت و عقیدت | Ahle Haq se Mohabbat or Aqeedat

  1. مومنین پر فقرا کی محبت لازم ہے اور ان سے بغض رکھنے سے بچنا چاہیے۔

    1. انسان کی محبت کا اوّلین حق دار صرف اللہ ہی ہے اور بندے کا اللہ سے محبت کرنا ہی اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔

    1. حضرت حسن بن علیؓ روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے فرمایا ’’اے معاویہ بن خدیج! ہمارے ساتھ بغض سے بچوکیونکہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ہم سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوضِ کوثر سے دھتکار دیا جائے گا۔‘‘ (طبرانی)

    1. ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
      اُو نشیند صحبتے با اولیا

      ترجمہ: جو کوئی اللہ تعالیٰ کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔ 

  2. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    اور اہلِ ایمان اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ۔ 165)

  3. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین🤲❤❤❤❤🌹

  4. بہت پیارا مضمون ہے ماشاءاللہ❤❤

  5. سیدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادرجیلانی فرماتے ہیں
    تمہارے درمیان صورتاً کوئی نبی موجود نہیں ہے تا کہ تم اس کی اتباع کرو۔ پس جب تم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متبعین کی اتباع کرو گے جو کہ حضور نبی کریمؐ کی حقیقی اتباع کرنے والے اور اتباع میں ثابت قدم تھے گویا تم نے نبی کریم ؐ کی اتباع کی۔ جب تم ان کی زیارت کرو گے تو گویا تم نے نبی کریم ؐ کی زیارت کی۔(الفتح الربانی۔ مجلس14)

  6. جس نے فقیر کی طرف (محبت و عقیدت سے) دیکھا اور اس کا کلام سنا تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب انبیا اور رسولوں کے ساتھ فرمائے گا۔ (محکم الفقرا)

  7. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں
    ایمانِ کامل تو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ عشق کی تعریف یہ ہے کہ جو محبت تمام محبتوں پر غالب آجائے وہ عشق ہے اور عشقِ مصطفیؐ ہی ایمانِ کامل ہے۔ (حقیقتِ محمدیہ)

    0

  8. انسان کی محبت کا اوّلین حق دار صرف اللہ ہی ہے اور بندے کا اللہ سے محبت کرنا ہی اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔

  9. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے ہی روز طالب کو سلطان الاذکار ھوُ اور تصور اسمِ اللہ ذات) عطا فرماتے ہیں

  10. اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے ساتھ ساتھ ان کے محبوبین یعنی فقرا اور اولیا سے محبت رکھنا ایمان کا حصہ ہے

  11. حضرت سخی سلطان باھوؒ ( Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں’’ مرشد کامل وہ ہوتا ہے جو طالب کو اسمِ اللہ ذات (Ism-e-Allah Zaat/ Ism-e-Azam) کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کاتصور بھی عطا کرے۔‘‘

  12. حضرت سخی سلطان باھوؒ ( Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں’’ مرشد کامل وہ ہوتا ہے جو طالب کو اسمِ اللہ ذات (Ism-e-Allah Zaat/ Ism-e-Azam) کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کاتصور بھی عطا کرے۔‘‘

  13. ہمیں وہ اپنا کہتے ہیں، محبت ہو تو ایسی ہو
    ہمیں رکھتے ہیں نظروں میں عنایت ہو تو ایسی ہو

  14. انسان کی محبت کا اوّلین حق دار صرف اللہ ہی ہے اور بندے کا اللہ سے محبت کرنا ہی اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔

  15. سلطان باھوؒ:

    عرش زیرش فرش بروی خوش نشین
    معرفت توحید کلی این بہ بین
    ترجمہ: عرش مرشد کامل کے قدموں تلے ہے۔ اگر توُ خوشی سے اس کے قدموں میں بیٹھا رہے گا تو تجھ پر توحید کی مکمل معرفت ظاہر ہو جائے گی۔ (قربِ دیدار)

  16. بندے کا اللہ سے محبت کرنا ہی اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔

  17. اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے

  18. اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے

  19. انسان کی محبت کا اوّلین حق دار صرف اللہ ہی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں