تسلیم ورضا |Tasleem o Raza


Rate this post

تسلیم ورضا

تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس

فقر کا مرکز اور محور تسلیم ورضائے الٰہی ہے۔ رضا کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سالک (طالب) اس امر پر یقین ِ کامل رکھے کہ ہر چیز کی عطا یا مناہی اللہ کی مشیت اور ارادہ ہے۔ دنیا اور راہِ سلوک میں اس کی بہتری اسی بات میں ہے کہ ہر بات میں خوف اور امید میں رہے۔ اطاعت کے وقت اس کے ہاں فخر نہ کرے اور مصیبت کے وقت اس کے در سے مایوس نہ ہو جائے۔ ہیبت وپریشانی، دکھ اور سکھ، سکون اور اضطراب، آسانی اور تنگی، بیماری اور صحت، بھوک اور سیری الغرض ہر حالت میں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنا اور سر ِتسلیم خم کر دینا ہی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہے۔ مقامِ رضا فقر کی منازل میں سے بہت بڑی منزل ہے اور مقامِ رضا کے بعد ہی باطن کے دو اہم اور آخری مقامات مشاہدہِ حق تعالیٰ اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ ان دو مقامات سے پہلے تسلیم و رضا کا مقام آخری مقامات میں سے ہے اور یہی نفس ِ مطمئنہ کا مقام بھی ہے۔
 ا رشادِ باری تعالیٰ ہے ۔
’’ اے نفس ِ مطمئنہ! لوٹ اپنے ربّ کی طرف، اس حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہو گیا اور تو اس سے راضی ہو گیا۔ (سورۃ الفجر 27تا 30)
قرآنِ مجید میں بھی ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ دیدارِ حق تعالیٰ ان لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے جو اللہ کی رضا کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دیتے ہیں ۔
وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ (النسا۔125)
ترجمہ: اور اس شخص سے بہتر کون ہوسکتا ہے جس نے اپنا سر اللہ کی رضا کے سامنے جھکا دیا وہ محسن ( اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے والا ) ہے۔
بَلٰی ژ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ ٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ص  وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ   (البقرۃ112)
ترجمہ : ہاں جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دیا وہ محسن ( مرتبہ احسان تک پہنچنے والا یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے والا ) ہے اور اس کیلئے اپنے ربّ کی طرف سے اجر ہے اور اس کیلئے نہ کچھ خوف ہے اور نہ کوئی غم۔
ان آیاتِ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ اور مقبول طرزِ عمل یہ ہے کہ ہر دم اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سر ِتسلیم خم رکھا جائے، نعمت پر شکر اور مصیبت میں صبر کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایمان صرف اس شخص کا مقبول اور منظور ہوتا ہے جو خلوصِ نیت سے اس کی رضا کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دیتا ہے اور اس کی خوشنودی اور رضا کی خاطر اپنی مرضی، منشاء اور اختیار سے دستبردار ہو جاتا ہے اس ضمن میں جو تکالیف اور مصائب اس پر وارد ہوتے ہیں انہیں خوش دلی سے قبول کرتا ہے اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر قربان کر کے تسلیم و رضا کی راہ اختیار کرتا ہے۔ 
    حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ِمبارک ہے:  
’ ’لَا تَتَحَرَّکُ ذَرَّۃٌاِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ۔  ترجمہ: اللہ کی رضا کے بغیر ذرہ بھی نہیں ہلتا۔‘‘
عارفانِ حق پر رضائے حق کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ انہیں شدید سے شدید تر حالات میں بھی کوئی غم، دکھ اور تکلیف محسوس نہیں ہوتی یعنی ’’سر ِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے‘‘، اس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خاص نور یعنی لقائے الٰہی سے سرفراز کرتا ہے اور ان کو ایک نئی زندگی ہر لمحہ غیب سے عطا ہوتی ہے۔ 

کشتگانِ خنجر ِ تسلیم را
ہر زمان از غیب مان دیگر است

ترجمہ: جو لوگ محبوب کی رضا کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دیتے ہیں انہیں ہر لمحہ غیب سے ایک نئی زندگی عطا کی جاتی ہے۔
جن عارفین یا عاشقوں کی زندگی کا مقصد ہی رضائے الٰہی ہوتا ہے وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔ شیخ فرید الدین عطار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ کے لبوں پر تیس سال تک تبسم نہ آیا لیکن جب ان کا بیٹا فوت ہو گیا تو لوگوں نے خلاف ِ معمول ان کو متبّسم دیکھا۔ پوچھا کہ اے شیخ! یہ تبّسم کرنے کا کون سا موقع ہے؟ فرمایا! مجھے یقین ہے کہ حق تعالیٰ میرے فرزند کی موت میں راضی تھا اس لئے میں نے بھی رضائے الٰہی کی خاطر تبّسم کیا، جو اس کی خوشی وہی میری خوشی۔ 
پیرانِ پیر غوث الاعظم حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
’’نزولِ تقدیر کے وقت حق تعالیٰ پر اعتراض کرنا (یعنی اس کی رضا کے خلاف دل میں خیال لانا) دین، توحید، توکل اور اخلاص کی موت ہے۔ ایمان والا قلب کیوں، کس طرح کو نہیں جانتا ا س کا کام تو ’’ہاں ‘‘ ہے ( یعنی حکم ِ تقدیر کی موافقت کرتا ہے اور چوں چراں کے ساتھ رائے زنی نہیں کرتا) نفس کی یہی عادت ہے کہ نزاع کرے ۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس 1)
جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی قدر اور قضا پر راضی ہو کر صبر اختیار کرتا ہے اس کیلئے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار مدد ہے اور آخرت میں بے شمار نعمت۔ (الفتح الربانی)
حضرت با یزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’میں تسلیم کے معاملے میں اس منزل پر پہنچ گیا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو (میری جگہ) اعلیٰ علییّن (فردوس بریں) میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جگہ دے دے اور مجھے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسفل السافلین یعنی جہنم کے انتہائی نچلے درجے میں پھینک دے تو میں اس شخص سے بھی بڑھ کر خدا سے راضی ہوں گا۔‘‘
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رضا کے معنی اختیار کو اٹھا دینے کے ہیں اور رضا یہ ہے کہ بلاکو نعمت سمجھ۔
حضرت یحییٰ معاذ رازی رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ کس طرح معلوم ہو کہ اللہ راضی ہے کہ نہیں، فرمایا تمہارا راضی ہونا اس کے راضی ہونے کی علامت ہے۔
حضرت منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رضا یہ ہے کہ ہاتھ پاؤں کاٹ کر تختہ دار پر لٹکا یا جائے تو وہ آہ نہ کرے۔
تفسیر اسرار الفاتحہ میں ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ حسن بصریؒ، حضرت مالک بن دینارؒ، حضرت شفیق بلخی ؒ اور حضرت رابعہ بصریؒ ایک محفل میں اکٹھے ہوئے اور بات اللہ تعالیٰ کی رضا میں صدق پر چل نکلی۔ حضرت خواجہ حسن بصری ؒ بولے ’’وہ شخص طلب ِ ِمولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی طرف سے دی گئی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔‘‘ حضرت رابعہ بصری ؒ نے فرمایا ’’ اس قول سے خود نمائی کی بو آتی ہے۔ بات اس سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ حضرت شفیق بلخی ؒ بولے ’’وہ شخص طلب ِمولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی دی ہوئی تکلیف سے لطف اندوز نہیں ہوتا۔‘‘ حضرت رابعہ بصری نے فرمایا ’’اس بات سے بھی خود نمائی کی بوآتی ہے‘‘۔ حضرت مالک بن دینارؒ بولے ’’وہ شخص طلب ِمولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی طرف سے دی گئی تکلیف پر شکر نہیں کرتا‘‘۔ حضرت رابعہ بصری ؒ بولیں ’’وہ شخص طلب ِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مشاہدۂ مطلوب میں غرق ہو کر مولیٰ کی طرف سے دی گئی تکلیف کو بھول نہیں جاتا۔‘‘ (عین الفقر)
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم این متاعِ مصطفیؐ است

ترجمہ: فقر تو ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کی راہ ہے اور حقیقت میں یہی متاعِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے جس کے ہم وارث ہیں۔
سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں ’’ہم نے اللہ تعالیٰ سے کبھی اس کے دیدار اور رضا کے سوا کچھ نہیں مانگا‘‘۔
فقر کا مرکز اور محور تسلیم ورضائے الٰہی ہے۔ مصیبت و پریشانی، دکھ اور سکھ، سکون اور اضطراب، آسانی اور تنگی، بیماری اور صحت، بھوک اور سیری، عزت اور ذلت، امیری اورغریبی، غرض ہر حال میں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنا اور سر ِتسلیم خم رکھنا ہی اس کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہے۔ جو خلوصِ نیت سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سر ِتسلیم خم کرتا ہے اور اس کی خوشنودی کی خاطر اپنی مرضی اور منشاء سے دست بردار ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے جو تکالیف اور مصائب اس پر وارد ہوتے ہیں انہیں خوش دلی سے قبول کرتا ہے وہی دیدارِ الٰہی کا حق دار بنتا ہے۔
طالب ِ مولیٰ جب مقامِ رضا کی انتہا پر پہنچ جاتاہے تو قضا (تقدیر) اس کے حوالے کر دی جاتی ہے۔
تو اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا کہ ہر کام تیری مرضی اور منشاء کے مطابق ہو۔
تسلیم ورضا کی منزل سے گزر کر ہی دیدار کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔
مرشد کامل اکمل کی اسم ِ اللہ ذات کے ذریعہ طالب کی تربیت اس میں تسلیم و رضا کی عادت کو اتنا پختہ کر دیتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور فعل پر پیار آتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’راہِ توکل اختیار کر اور رضائے الٰہی پر راضی ہو جا۔‘‘ (عین الفقر)
رزق دو قسم کا ہے ایک رزقِ مملوک ہے اور دوسرا رزقِ مرزوق۔ زیادہ مال وزر جمع کرنا جمعیت ِ نفس اور اعتبارِ خلق کی خاطر ہوتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک عنایت پہلے ہے اور ہدایت بعد میں ہے لیکن تو سب سے پہلے دل کو سلیم بنا اور تسلیم ورضا اختیار کر تاکہ تجھے کنہ کن سے قربِ الٰہی کے مراتب حاصل ہوں۔ عقل والوں کیلئے تو یہی ایک بات کافی ہے کہ تسلیم و رضا سے انسان کے وجود میں نہ چوں باقی رہتی ہے اور نہ چراں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ساری عمر شہر شہر، نگر نگر گھوم پھر کر فقر کا خزانہ لٹاتے رہے اس کیلئے آپ ؒ کو در در جانا پڑا۔ آپؒ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

نفس را رُسوا کُنم بہر از گدا
بر ہر دری قدمی زند بہر از خدا

ترجمہ: فقیر رضائے الٰہی کی خاطر گدائی کر کے اپنے نفس کو رُسوا کرتا ہے اور در در پر محض خدا کی خاطر جاتا ہے۔ (نو ر الہدیٰ اور کلید التوحید کلاں)

 گر بینی حال احوال از قبر
میشود مکشوف زیر و با زبر
بعد ازاں عبرت خوری باغم تمام
دل سلیم و گشت واضح ہر مقام 

ترجمہ: اگر تو قبر کے احوال کو دیکھ لے تو زیر وزبر کی سب کیفیت تجھ پر منکشف ہو جائے۔ پھر تجھے انتہائی غم میں بھی عبرت حاصل ہو گی اور تیرا دل تسلیم ورضا اختیار کر لے گا اور جملہ مقامات کی حقیقت تجھ پر واضح ہو جائے گی۔ (نور الہدیٰ کلاں)

 گر ترا بر سرزند سر پیش نہ
خدمتے بہر از خدا درویش بہ

ترجمہ :درویش (مرشد کامل اکمل) اگر تجھے سرزنش بھی کرے تو اس کے سامنے سر جھکائے رکھ کہ رضائے الٰہی کی خاطر کسی درویش (مرشد کامل) کی خدمت کرنا عمل ِ صالح ہے۔ ( نور الہدیٰ کلاں)
خُلق ِ عظیم، قلب ِسلیم کا مرتبہ تسلیم ورضا ہے اور یہی وہ مرتبہ صراطِ مستقیم ہے جس پر انعام یافتہ لوگ گامزن رہے ہیں۔ ( نور الہدیٰ کلاں)

  خود پرستاں را نہ حاصل شُد خدا
خود پرستان راہ خدا وند شُد ہوا
ہر کہ کردہ جان و از جاں تن جدا
باز دارد نفس را بہر از خدا

ترجمہ: خود پرستوں کو کبھی خدا نہیں ملتا کہ ان کا خدا تو ہوائے نفس ہوتا ہے خدا انہیں ملتا ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر اپنی جان پر کھیل کر نفس کو قابو میں رکھتے ہیں۔  (نور الہدیٰ کلاں)
یاد رہے کہ بہت زیادہ علم حاصل کرنا فرضِ عین نہیں ہے مگر اسلام کے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنا، گناہوں سے باز رہنا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا بہت ضروری ہے لیکن نفس وہوا سے خلاصی پانا، محبت ِ الٰہی میں غرق ہونا اور معرفت ِاللہ توحید حاصل کرنا فرضِ عین ہے اور اس کیلئے قدیم وعظیم صراطِ مستقیم پر گامزن ہونا، قلب ِ سلیم حاصل کرنا اور تسلیم ورضا اختیار کرنا ضروری ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)

ز باھوؒ! بہر از خدا وحدت نما
می برد حاضر ترا بامصطفیؐ

ترجمہ: باھوؒ محض رضائے الٰہی کی خاطر وحدتِ حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے اس لیے تجھے بھی مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا سکتا ہے۔ (کلید التوحیدکلاں)

 باھوؒ بردار تسلیم و رضا
دل سلیمی گشت حاضر مصطفیؐ

ترجمہ : اے باھو !ؒ تسلیم ورضا اختیار کر۔ جس سے دل سلامتی حاصل کر کے مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل کرتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

  صبر کن صبر کہ جُز صبر دوا نیست
چہ کند گر تسلیم و رضـا ندارد درپیش

ترجمہ :صبر کرو کہ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر تسلیم و رضا پر قائم نہیں رہو گے تو اس کے علاوہ کیا کرو گے۔ (کلید التوحیدکلاں)

 باھوؒ! رضا بر قضا غالب چو گردد
ز کردہ از خدا ہرگز نہ لرزد
چرا لرزد کہ قرب اُو تمام است
پر آں لرزد قضا کہ ناقص عام خام است
رضا قاضی قضا در حکم بہ اُو
بجز حکمش نہ گیرد جان از مو 

ترجمہ: اے باھو !ؒ جب قضا پر رضا غالب آتی ہے تو وہ (طالب ِ مولیٰ) خدا کے امور سے ہرگز نہیں کانپتا۔ جسے اللہ کا کامل قرب حاصل ہو وہ کیوں (اس کے ڈر سے) کانپے بلکہ ناقص، عام اور خام اس (کے خوف) سے کانپتے ہیں۔ رضا قاضی (کی مثل) ہے اور قضا اس کے حکم کے ماتحت ہے اس لیے اس کے حکم کے بغیر قضا ایک بال کی بھی جان نہیں لے سکتی۔ (کلید التوحید کلاں)
حکم ِ قضا سے سامنا کرتے وقت چہرے کو شکن آلو د نہ کر اور نہ ہی حکم ِقضا سے خود کو چھپا ۔ ( کلید التوحید کلاں) 
جان لو کہ بندہ اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا کہ اس کا ہر کام اور خواہش اس کی مرضی کے موافق ہو۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے امور کو خدا کے سپرد کر دیا جائے اور خود کو درمیان سے نکال لیا جائے۔ (کلید التوحید کلاں)
آپؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں :

 بُوہتی میں اوگن ہاری، لاج پئی گل اس دے ھُو
پڑھ پڑھ علم کرن تکبر، شیطان جیہے اوتھے مُسدے ھُو
لکھاں نوں ہے بھَو دوزخ دا، ہک نت بہشتوں رُسدے ھُو
عاشقاں دے گل چھری ہمیشہ باھوؒ، اگے محبوب دے کسدے ھُو 

میں بہت ہی بد نصیب، گناہ گار اور خطاکار ہوں لیکن مجھے فخر ہے کہ میرے گلے میں مرشد کی غلامی کی زنجیر ہے جو مجھے خوش بخت لوگوں کے گروہ میں شامل کروا دے گا۔ بہت سے لوگ شیطان کی طرح اپنے علم پر تکبر کی وجہ سے وصالِ حق تعالیٰ سے محروم ہیں او رلاکھوں لوگوں کو دوزخ کے عذاب کا خوف لاحق ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو بہشت کی نعمتوں کو ٹھکرا کر دیدارِ حق تعالیٰ کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ عاشق ِ حقیقی تو ہمیشہ اپنے محبوب کی رضا کے سامنے سر ِتسلیم خم کیے رہتے ہیں۔ 

 جیوندیاں مر رہناں ہووے، تاں ویس فقیراں بَہیے ھُو
جے کوئی سٹے گودڑ کوڑا، وانگ اروڑی سہئیے ھُو
جے کوئی کڈھے گاہلاں مہنے، اس نوں جی جی کہئیے ھُو
گِلا اُلاہماں بھنڈی خواری، یار دے پاروں سہئیے ھُو
قادر دے ہتھ ڈور اساڈی باھوؒ، جیوں رکھے تیوں رہئیے ھُو

اگر ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْتَمُوْتُوْا‘‘ ( مرنے سے پہلے مر جاؤ) کا مقام حاصل کرنا ہے تو دنیا میں گدا بن کررہنا چاہیے اگر کوئی کوڑا کرکٹ بھی اوپر پھینکے تو اسے اسی طرح برداشت کرنا چاہیے جس طرح کوڑے کا ڈھیر اپنے اوپر مزید گندگی کو سہارتا رہتا ہے، اگر کوئی گالیاں نکالے اور بر ا بھلا کہے تو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بجائے بڑی محبت اور پیار سے جی جی کہتے رہنا چاہیے۔ گلے، طعنے، بدنامی اور خواری اپنے یارِ حقیقی (مرشد کامل) کی خاطر برداشت کرنا ہی پڑتے ہیں۔ ہم نے تو اپنی زندگی کی ڈور اپنے مرشد کے ہاتھ میں دے دی ہے جیسے اس کی رضا ہو اس پر راضی رہنا چاہیے۔

 صفت ثنائیں مول نہ پڑھدے، جو جا پہنتے وچ ذاتی ھُو
علم وعمل انہاں وچ ہووے، جیہڑے اصلی تے اثباتی ھُو
نال محبت نفس کٹھونین، گِھن رضا دی کاتی ھُو
چوداں طبق دلے دے اندر باھوؒ، پا اندر وچ جھاتی  ھُو

جو طالب وحدت کے دریا میں غرق ہوچکے ہیں ان کو حمد وثنا ء پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ورد و وظائف کا مدعا دیدار ِحق تعالیٰ ہے جو انہیں پہلے ہی حاصل ہے۔ حقیقی علم وعمل بھی انہی کا ورثہ ہے جو ازلی طالبانِ مولیٰ ہیں۔ یہ لوگ تسلیم و رضا کی چھری سے اپنے نفس کو ذبح کرکے رازِ حقیقی کو پا چکے ہیں۔ اے طالب ِ مولیٰ! اپنے اندر دھیان کر پوری کائنات (ارض و سما) تیرے دل کے اندر سمائی ہوئی ہے۔ 

 عاشق ہونویں تے عشق کمانویں، دل رکھیں وانگ پہاڑاں ھُو
لکھ لکھ بدیاں ہزار اُلاہمے، کر جانیں باغ بہاراں ھُو
منصور جیہے چُک سولی دتے، جیہڑے واقف کل اسراراں ھُو
سجدیوں سر نہ چائیے باھوؒ، توڑے کافر کہن ہزاراں ھُو

اگر تو عاشق ہے اور عشق کی راہ میں کامیابی وکامرانی چاہتا ہے تو اپنے آپ کو قوی اور مضبوط رکھ۔ راہِ عشق میں تو لاکھوں دشمنیاں اور ہزاروں طعنے برداشت کرنا پڑتے ہیں یہ کوئی آسان راہ نہیں ہے منصورحلا ج ؒ کو رازِ حقیقی سے واقف ہونے پر ہی سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اگر ایک دفعہ مرشد کامل کی غلامی نصیب ہوجائے تو پھر سر کو اس در سے ہٹانا نہیں چاہیے خواہ دنیا کافر ہی کیوں نہ کہتی رہے۔
مرشد کامل کی اسم اللہ ذات کے تصور کے ذریعہ تربیت طالب ِ مولیٰ میں تسلیم و رضا کی عادت کو اتنا پختہ کر دیتی ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور فعل پر پیار آتا ہے۔

(نوٹ: یہ مضمون سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی تصنیف مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ سے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔)

 ا

اپنا تبصرہ بھیجیں