ؓ سیّدنا حضرت بلال |Syedna Hazrat Bilal (R.A)


Rate this post

سیّدنا حضرت بلال ؓ

تحریر: نورین عبدالغفور سروری قادری۔ سیالکوٹ

چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

   (بانگ ِ درا)

اندھیرے میں ہر چیز سیاہ نظر آتی ہے۔ مگر روشنی کی یہ خوبی ہے کہ ہر چیز کو روشن کر دیتی ہے بلکہ اس میں روشنی کی بدولت ایک خاص اور انوکھی چمک پیدا ہو جاتی ہے جو اسے مزید خوبصورت اور پُرکشش بنا دیتی ہے خواہ وہ چیز سیاہ ہو یا سفید۔ یہ تو عام روشنی کی بات ہے لیکن اگر معاملہ نورِ ہدایت اور نورِ ایمان کا ہو تواس کی تاثیرہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف ظاہر بلکہ باطن بھی چمک اٹھتا ہے اور مقدر کا ستارہ جگمگا اُٹھتا ہے۔ یہ نورِ ایمان کا ہی اثرتھا کہ حبشہ کے حبشی النسل سیاہ رنگت والے غلام ابن ِ غلام بلالؓ بن رباح پر ایمان کی روشنی کی کرنیں پڑیں تو اس کے مقدر کا ستارہ جگمگا اٹھا اور وہ مقام و مرتبہ ملا کہ عرش والوں کو بھی یہ عظمت نہ مل سکی۔

جس کا امین ازل سے ہوا سینۂ بلالؓ
محکوم اس صدا کے ہیں شہنشاہ و فقیر
اقبالؔ کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے

(بانگ ِ درا)

نسب نامہ

حضرت بلالؓ کی کنیت عبد الکریم اور ابو عبد اللہ ہے۔ آپؓ کے والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ آپؓ کے آباؤ اجداد ابتدا میں حبشہ میں قیام پذیرتھے۔ بعد ازاں ہجرت کرکے سراۃ (عرب) آئے۔ پھر سراۃ سے مکہ آ کرقیام پذیر ہوئے۔ آپؓ پیدائشی غلام تھے۔ آپؓ نے اپنی زندگی کے اٹھائیس برس غلامی میں بسر کئے۔

حلیہ مبارک

آپؓ کا رنگ سیاہ، قد لمبا، جسم کمزور اور آنکھیں سرخی مائل تھیں۔ رخساروں پر گوشت کی مقدار کم، داڑھی ہلکی اور پنڈلیوں پرگوشت کم تھا۔ آپؓ کی آواز بلند اور بارعب تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلانِ نبوت سے پہلے عرب میں رنگ ونسل کا امتیاز برتا جاتا تھا لیکن اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے امیر و غریب اور گورے و کالے کے امتیاز کو ختم کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلالؓ کو بھی وہی حیثیت دی جو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کو حاصل تھی۔ (سیرت سیّدنا حضرت بلالؓ۔محمدحسیب القادری)

قبولِ اسلام

اعلانِ نبوت سے قبل حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کئی مرتبہ ملاقات کر چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق سے بے حدمتاثر تھے۔ چنانچہ صدائے توحید سنتے ہی بلال حبشی نے بلاتامل لبیک کہا اور اپنا دل و جان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نثار کر بیٹھے۔ حضرت بلالؓ اُمیہ بن خلف کے غلام تھے۔ اُمیہ بن خلف قریش کا ایک نامور سردار تھا جس کا شمار اسلام کے بدترین دشمنوں میں ہوتا تھا۔ حضرت بلالؓ نے اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا اقرار اس وقت کیاجب اسلام کا آغازتھا اور مشرکین ِمکہ اسلام قبول کرنے والوں پرعرصہ حیات تنگ کر دیتے تھے اور کسی غلام کا اسلام قبول کرنا تو انہیں کسی صورت گوارا نہ تھا۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کلمہ توحید بلند کیا اس وقت عمار بن یاسرؓ ابوسفیان کے غلام تھے۔ جب ابو سفیان کو معلوم ہوا کہ عمارؓ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے ہیں تو اس نے آپؓ پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ ایک دن ابو سفیان آپؓ کو روسائے قریش کی مجلس میں لے گیا جہاں ابوجہل، ابولہب، اُمیہ بن خلف ا ور دیگر رؤسا موجود تھے۔ ابو سفیان نے عمارؓ پر کوڑے برسانے شروع کر دیئے اورساتھ ہی پو چھنا شروع کر دیا کہ بتاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی تعلیمات کیا ہیں؟ آپؓ نے فرمایا کہ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اور اسی کی عبادت کرو اور تمام انسان برابر ہیں۔ یہ سنتے ہی اُمیہ بن خلف کو غصہ آیا اور اُس نے حضرت بلالؓ کو پکارااور حکم دیا کہ یہ کوڑا پکڑو اور اسے (عمارؓ) ایک غلام اور رؤسا قریش کا فرق بتاؤ لیکن دولت ِ ایمان سے قلب کے منور ہونے کی وجہ سے اور حضرت عمارؓ کا عزم اور استقلال دیکھ کر حضرت بلالؓ سکتے میں آ گئے اور کوڑا پھینک دیا اور یوں آپؓ کااسلام قبول کرنا سب پر ظاہر ہو گیا۔ اُمیہ بن خلف غلام (بلالؓ) کی نافرمانی دیکھتے ہوئے غصے سے کہنے لگا کہ اگر تمہیں اس بات پر فخر ہے کہ تمام انسان برابر ہیں تو یاد رکھو تمہارا خدا وہی ہے جو تمہارا مالک ہے۔ میرے غلام خانے میں کسی نئے خدا کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد امیہ بن خلف نے سیّدنا بلالؓ پر ظلم وستم کی انتہا کر دی اور آپؓ کو قید خانے میں ڈال دیا۔ روزانہ آپؓ کو نصف النہار قیدخانے سے نکالتا اور جلتی ہوئی ریت پر لیٹا کر سینے پر تپتی ہوئی چٹان رکھ دیتا اور اس حالت میں آپؓ پر کوڑے برسائے جاتے اور کہا جاتا کہ اُن کے خدا کو تسلیم کریں۔ کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے لیکن حضرت بلالؓ نے ہمت نہ ہاری۔ اُمیہ بن خلف کاظلم و ستم بڑھتا گیا لیکن آپؓ کی زبان پر صرف یہی الفاظ ہوتے ’’احد، احد‘‘۔ اُمیہ بن خلف آپؓ سے پوچھتا کہ بتا تیرا ربّ کون ہے؟آپؓ فرماتے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا خدا میرا خدا ہے۔ (سیرت سیّدنا حضرت بلالؓ۔ محمدحسیب القادری)
اُمیہ بن خلف کا ظلم یہاں ختم نہیں ہوا۔ اللہ کے اس بلند ہمت حبشی النسل بندے کو مکہ کے شریر لڑکوں کے حوالے کر دیا جاتا جو اُن کی گردن میں رسی ڈال کر سارا دن چکر دیتے رہتے لیکن حضرت بلالؓ ایک ہی صدا دیتے ’’ احد، احد‘‘۔ دن بھر آپ ؓ کو ستایا جاتا اور تپتی زمین پرلیٹا کر اوپر پتھر رکھے جاتے اور رات کے وقت زنجیروں سے باندھ کر کوڑے لگائے جاتے اور اگلے دن پھر سے عاشق ِ مولیٰ کے بدن کو اور زیادہ زخمی کیا جاتاتھا۔(تذکرہ سیّدنا حضرت بلالؓ اور حضرت عبداللہ ابن ِ اُمِ مکتومؓ۔ مولانا محمد عاشق الٰہی بلند شہریؒ)

  آزادی

 ہر شخص آپؓ کو اتنی تکلیف دیتا کہ اپنا زور ختم کر دیتا تھا۔ آپؓ کی یہ تکلیف دیکھی نہ جاتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ روزانہ آتے جاتے یہ تکلیف دہ مناظر دیکھتے اور اکثر سوچا کرتے کہ کس طرح بلالؓ کو ان ظالموں سے چھڑائیں۔ ایک دن حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اُمیہ بن خلف سے کہا کہ کب تک اس مظلوم پر ظلم کرتے رہو گے؟ اُمیہ بن خلف نے جواب دیا اگر تمہیں اس پر اتنا ہی ترس آرہا ہے تو تم اسے  خرید لو۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ فوراً تیار ہو گئے اور قیمت دریافت کی اور حضرت ابوبکرصدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو خرید کر آزاد کر دیا۔ یوں حضرت بلالؓ کی آزمائش کا دور بالآخر ختم ہوا۔

بارگاہ رسالت مآبؐ میں حاضری

دوسرے روز حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت بلالؓ کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس وقت حضرت علی المرتضیؓ کے گھر میں تشریف فرما تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلالؓ کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضرت علیؓ جو اس وقت کمسن تھے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسولؐ اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیوں روتے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: علیؓ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلالؓ کو گلے لگا لیا اور فرمایا کہ اے بلالؓ! جب تک یہ دنیا قائم ہے یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ راہِ اسلام میں اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کرنے والے تم پہلے شخص ہو۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ نے اپنی تمام زندگی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے وقف کر دی اور ہمیشہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے۔ آپؓ کوخادمِ رسولؐ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ (سیرت سیّدنا حضرت بلالؓ، محمدحسیب القادری)

 علم کا حصول

حضرت بلالؓ کا قیام حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مکان پر رہا۔ اس دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو لکھنا پڑھنا سکھانا شروع کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓ ہر روز تھوہر کا ایک قلم تراش کر حضرت بلالؓ کو دیتے اور حضرت بلالؓ اس قلم سے حضرت ابوبکرؓ کی معیت میں لکھنے کی کوشش کرتے۔ ایک دن حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کے سیاہی سے لتھڑے ہاتھ دیکھے تو ان کو چوم لیااور فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے ’’طالب ِعلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

شانِ بلالؓ نگاہِ باری تعالیٰ میں

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں رؤسائے قریش کی ایک جماعت آئی وہاں حضرت خبابؓ، حضرت صہیب رومیؓ، حضرت عمارؓ اور حضرت بلالؓ بیٹھے ہوئے تھے تو شرفا قریش نے کہا اے محمدؐ! کیا تم کو قوم کے یہ لوگ پسند ہیں۔ کیا یہی وہ لوگ ہیں کہ ہمیں چھوڑ کر اللہ نے ان پر احسان کیا ہے؟ ہم ان کے گروہ میں مل کر کیسے تمہارے تابع بن سکتے ہیں۔ تم انہیں پاس سے ہٹا دو تو پھر تمہاری پیروی کریں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت بلالؓ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رفقا کی شان و عظمت کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:
’’(اے نبیؐ)اور ان لوگوں کو مت دور کر اپنے سے جو صبح شام اپنے ربّ کوپکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار اُن پر نہیں اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘ (سورہ انعام۔52) (سیّدنابلالؓ۔ پروفیسر محمد طفیل چوہدری)

شانِ بلالؓ ارشاداتِ نبویؐ کے آئینے میں

حضرت بلالؓ رسولِ خدا کے سچے عاشق اور شیدائی تھے۔ دربارِ نبویؐ سے آپؓ کو مؤذنِ اسلام اور خازن و خادمِ سرکار کا شرف حاصل ہے۔ آپ ؓ کی قدر و منزلت کا اندازہ ان احادیث مبارکہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
ایک مرتبہ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بلالؓ جنت میں سب سے پہلے داخل ہو گا۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے پوچھا! یارسول اللہ! آپؐ سے بھی پہلے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرما یا! ہاں مجھ سے بھی پہلے۔ میں جس ناقہ پر سوار ہوں گا اس کی مہار بلالؓ نے تھام رکھی ہو گی۔ اسطرح وہ مجھ سے بھی پہلے جنت میں داخل ہو گا۔ ماشاء اللہ۔ کیا شان ہے عاشق صادق کی اور اس وقت ان کی عظمت کا کیا عالم ہو گا جب یہ عاشق نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قصوا کی مہار تھامے جنت کی معطر فضاؤں میں داخل ہو رہا ہو گا۔
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں (معراج کی رات) جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے قدموں کی چاپ (آہٹ) سنی۔ میں نے جبرائیل ؑ سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ بلالؓ ہیں۔ (مسلم شریف) (سیّدنابلالؓ۔ پروفیسر محمد طفیل چوہدری)

بلالؓ بحیثیت مؤذن

مدنی زندگی کے آغاز میں مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد جب ایک مؤذن کی ضرورت پیش آئی تو آپؓ کا انتخاب کیا گیا۔ اسلام کی یہ پہلی اذان تھی جو حضرت بلالؓ نے کہی اور آپؓ کو اسلام کے پہلے مؤذن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اذان کے مکمل ہونے کے بعد حضرت بلالؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’بلال! تم نے میری مسجد مکمل کر دی۔‘‘

اصحابِ صفہ اور حضرت بلالؓ

صفہ ا سلام کی اوّلین عظیم درس گاہ، صحابہ کی اقامت گاہ اور طالبانِ اسلام کا ہوسٹل جس کے نگہبان سرپرست اور ناظم اُمور تدریس خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے۔ حضرت بلالؓ نے اسی صفہ میں سکونت اختیار کئے رکھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کے فرائض بجا لاتے رہے۔

 پاسبانِ رسولؐ

پیکر ِمحبت و وفا حضرت بلالؓ غزوات و امن اورسفر و حضر میں ہر وقت ایک خادم، محافظ اور جاں نثار کے طور پر جناب سید الابرار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ رہتے تھے۔ آپؓ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سچے عاشق تھے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے قربت کا ایک اور مقصد یہ تھا کہ فرائض کی ذمہ داری اور ادائیگی کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دید بھی ہوتی رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رفاقت میں قلبی راحت و سکون بھی ملتا رہے۔ دربارِ نبوت میں جب بھی کوئی حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا توپہلے پاسبانِ رسولؐ حضرت بلالؓ سے ملنا پڑتا تھا۔ خادمِ رسول ؐ حضرت بلالؓ کے شب و روز حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اہل ِ بیتؓ کی خدمت و اطاعت میں گزرتے۔
حضرت بلالؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رفاقت میں طویل عرصہ گزارا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کے علاوہ کوئی سرگرمی انجام نہ دی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جدھر تشریف لے جاتے آپؓ بھی ساتھ ساتھ چلتے رہتے اور جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام گھر تشریف لے جاتے تو آپؓ باہر بیٹھ جاتے۔ انتظار کے لمحات طویل ہوتے یا مختصر حضرت بلالؓ وہیں تشریف رکھتے۔

غزوات 

سیّدنا حضرت بلال ؓ کو شروع سے ہی شمشیر زنی کا شوق نہ تھا۔ حضرت امیر حمزہ ؓ اور حضرت علی المر تضیٰ ؓ نے بہت کوشش کی کہ آپ ؓ تلوار چلانی سیکھ لیں مگر آپ ؓ تلوار چلانا نہ سیکھ سکے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم تھا کہ حضرت بلال ؓ شمشیر زنی نہیں کر سکیں گے اس لئے غزوہ بدر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجاہدین کے لشکر کا انتظام حضرت بلال ؓ کے سپرد کر دیا۔ غزوہ اُحد کے مو قع پرآپؓ صحابہ کرام ؓ کے اس گروہ میں شامل تھے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حفاظت کی۔
حضرت بلالؓ غزوہ بدر سے لے کر غزوہ تبوک تک ہر جنگ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ رہے۔جنگ کے دوران آپؓ کی ذمہ داری منتظم کی ہوتی تھی۔
خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر بھی آپؓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ تھے۔

حضرت بلالؓ کی معراج

فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت بلالؓ کو بیت اللہ شریف کی چھت پر چڑھ کراذان دینے کا حکم فرمایا۔ جب حضرت بلالؓ کعبہ کی چھت پر چڑھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا کہ جب زمین پر ہوتا ہوں تو کعبہ کی طرف منہ کر کے اذان دیتا ہوں اب کعبہ کی چھت پر ہوں تو منہ کس طرف کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے بلالؓ! میری طرف دیکھ کر اذان دو۔‘‘بیت اللہ شریف کی چھت پر اذان دینا حضرت بلالؓ کی معراج تھی۔ 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال

حضرت بلالؓ جو کہ خادمِ رسولؐ تھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ مبارک کے سامنے بیٹھے روتے رہتے تھے۔ آپؓ نے اذان دینا بھی چھوڑ دی تھی۔ جس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہوا اُس کے کچھ دیر بعد نماز کا وقت ہوا اور صحابہ کرامؓ نے آپؓ کو اذان دینے کا کہا تو آپؓ نے کہاکہ میں اب خود میں ہمت نہیں پاتا کہ جب اذان میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام لوں اور انہیں سامنے نہ پاؤں۔ حضرت بلالؓ کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ بائیس سال کا تعلق تھا۔ یہ تعلق اُخوت اور بھائی چارے کا تھا۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلالؓ نے اذان دینا ترک کر دی اور فرمایا کہ ا ذان میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت کی گواہی دینے لگتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سامنے نہ پا کرمیرا دل بیٹھ جاتا ہے اور آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد آپؓ غمگین رہنے لگے اور ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تلاش کرتے رہتے اور جب کہیں نظرنہ آتے تو بے اختیار رونے لگتے۔ 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت
اورآخری اذان 

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیف مبارکہ ’’حقیقت ِ محمدیہ‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
جب آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو سیّد نا بلال رضی اللہ عنہٗ نے شہر مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کرلیا۔ سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کو جب آپ رضی اللہ عنہٗ کے ارادے کا علم ہوا تو انہیں اس ارادے کو ترک کرنے کے لیے فرمایا اور کہا کہ پہلے کی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مسجد میں آپ رضی اللہ عنہٗ کو اذان دینی چاہیے۔ سیّدنا بلال رضی اللہ عنہٗ نے آپ رضی اللہ عنہٗ کی بات سنی تو عرض کرنے لگے’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بغیر مدینہ میں جی نہیں لگتا اور نہ ہی مجھ میں ان خالی و افسردہ مقامات کو دیکھنے کی قوت ہے جن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف فرما ہوتے تھے۔‘‘ چنانچہ یہ کہہ کرکہ ’’اب مدینہ میں میرا رہنا دشوار ہے‘‘ آپ رضی اللہ عنہٗ شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے بلالؓ! تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا، کیا ہماری ملاقات کو تیرا جی نہیں چاہتا؟‘‘ حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر ’’لبیک یا سیّدی یا رسولؐ اللہ‘‘ کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجد نبویؐ میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کیا اور کبھی حجروں میں۔ جب حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کردیا اور عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ۔ غلام حلب سے حاضر ہے‘‘ یہ کہہ کر بے ہوش ہوگئے اور مزار پُرانوار کے پاس گر پڑے۔ کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں اطلاع ہوگئی کہ مؤذن رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے ، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہوگئے اور عرض کی کہ ایک دفعہ وہ اذان سنا دیجئے جو محبوبِ خدا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا’’میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ  کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب کسے دیکھوں گا؟‘‘ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم سے عرض کیا جائے ۔ جب وہ بلال رضی اللہ عنہٗ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ ایک صاحب جاکر شہزادوں کو بلا لائے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’حضرت بلال (رضی اللہ عنہٗ)! ہم آپ سے وہی اذان سننے کے خواہش مند ہیں جو آپ ہمارے نانا جان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)کو مسجد نبوی میں سناتے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ کو انکار کا یارانہ رہا لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان شروع کی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی ظاہری حیات میں کہتے تھے۔ بعد کی کیفیات روایت میں اس طرح آتی ہیں کہ جب آپ رضی اللہ عنہٗ نے بلند آواز سے اذان کے ابتدائی الفاظ اللہ اکبر، اللہ اکبر، ادا کرنا شروع کئے تو اہل ِ مدینہ سسکیاں لے لے کر رونے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ جیسے جیسے آگے پڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جب  اشھد ان محمداً رسول اللّٰہکے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتیٰ کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں۔ سبھی یوں تصور کرنے لگے جیسے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوبارہ تشریف لے آئے ہیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد اہل ِ مدینہ پر اس دِن سے بڑھ کر رقت کبھی طاری نہیں ہوئی۔ (حقیقت ِ محمدیہ)

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا


وصال

شام کے زمانہ قیام میں آپؓ نے نکاح کیا تھا۔ آپؓ کی وفات 20ھ میں دمشق میں ہوئی۔ جب آپؓ پر نزع کا عالم طاری ہوا اور وصال کا وقت قریب آیا توآپؓ کی اہلیہ آپؓ کے سرہانے بیٹھی تھیں، فرمایا ہائے یہ کیسا غم ہے؟ آپؓ نے جواب میں فرمایا کہ نہیں یہ تو خوشی کی بات ہے کہ میں اپنے محبوب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دیگر صحابہ کرامؓ سے ملنے والا ہوں۔ جس وقت آپؓ کے وصال کی خبر حضرت عمرؓ کو ملی تو آپؓ نے فرمایا! ’’بلالؓ ہمارا سردار تھا اور آج ہمارا سردار فوت ہو گیا۔‘‘ (سیرت سیدنا حضرت بلالؓ، محمدحسیب القادری)
آپ کا مزار دمشق شہر میں باب الصغیر کے پاس ہے۔ حضرت بلالؓ کے وصال کے ساتھ ہی تاریخ ِاسلام کا ایک درخشاں باب ختم ہو گیا۔ (سیرت سیّدنا حضرت بلالؓ، محمدحسیب القادری)
حضرت بلالؓ کی حیاتِ مبارکہ طالبانِ مولیٰ کے لیے مشعل ِراہ ہے کہ کس طرح انہوں نے اسلام کی خاطر سختیاں اور مصیبتیں سہیں لیکن پھر بھی استقامت کے ساتھ اپنے مقصد پر ڈٹے رہے۔ مکہ میں جس جگہ انہیں تپتی دھوپ میں سزائیں دی جاتی تھیں اور جس کلمے کی بنا پر دی جاتی تھیں اُسی نے انہیں کعبہ کی چھت پر پہنچا دیا ۔ ان کی عظیم قربانیوں کی ہی بدولت انہیں دنیا میں جنت کی خوش خبری مل گئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت بلالؓ کی طرح دین ِاسلام اور نبی رحمتؐ سے سچی محبت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

میں فدا تجھ پہ بلالؓ کہ اذاں تیری کبھی
سماں گر نہ سنے دن نکلتا ہی نہ نہیں

استفادہ کتب:

۱۔ حقیقت ِ محمدیہ۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔سیرت سیّدنا حضرت بلالؓ۔محمدحسیب القادری   
۳۔سیّدنابلالؓ۔پروفیسر محمد طفیل چوہدری
۴۔ تذکرہ سیّدنا حضرت بلالؓاور حضرت عبداللہ ابن ِ اُمِ مکتومؓ۔ مولانا محمد عاشق الٰہی بلند شہریؒ
٭٭٭٭

 
  

اپنا تبصرہ بھیجیں