گذشتہ اقوام پر آنے والے عذاب |Ghuzista Aqwam Per Any Waly Azab


2.5/5 - (2 votes)

گذشتہ اقوام پر آنے والے عذاب 

تحریر: احسن علی سروری قادری

تمام حمد و ثناء اللہ ہی کے لیے ہے جو مالک و خالق ہے اور تمام کائنات پر اس کی کمال عنایت و شفقت ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے وعظ و نصیحت، درس و تدریس اور محبت اور شفقت کا بہترین طریقہ اختیار کیا اور انبیا کرام ؑ کے ذریعے انہیں ہدایت بخشی اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی کامل رہنمائی کے لیے آسمانی کتابیں اور صحائف بھی نازل فرمائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سلسلہ نبوت کے آخری نبی اور قرآن تمام احکاماتِ الٰہی کا مجموعہ ہے۔ فرمانِ ربّ العالمین ہے:
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ  (القمر۔17)
ترجمہ: اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے بہت آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والاہے؟
قرآنِ کریم میں انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں احکامات نازل فرمائے۔ کہیں اس کائنات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی تو کہیں جنت کی نعمتوں کے حصول کا شوق پیدا کیا، کہیں نارِ جہنم کا خوف دلایا تو کہیں اپنے قرب و وِصال اور اپنے راضی ہونے کے ذریعے انسان کو اُمید دلائی، کہیں موت کے بعد آنے والی زندگی سے خبردار فرمایا تو کہیں گزشتہ اقوام کے اطوار اور روایات بیان فرمائیں، کہیں گزشتہ اقوام پر آنے والے عذابوں سے ڈرایا تو کہیں انبیا کرام علیہم السلام کے قصے بیان فرمائے ان سب کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ کسی بھی طرح سے انسان ہدایت کے راستے پر گامزن ہو جائے، وہ اللہ کی طرف متوجہ رہے
 کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس و شیطان کے چنگل میں پھنس کر اللہ کی ذات سے غافل ہو جائے، کہیں شیطان کا ساتھی بن کر راندئہ درگاہِ الٰہی نہ ہو جائے۔ پس جو قرآن میں بیان کردہ احکامات و روایات سے ہدایت پانا چاہتا ہے اور گزشتہ اقوام کے واقعات سے اور قصص الانبیا سے عبرت حاصل کرتے ہوئے نافرمانی سے ڈرتا ہے اور یہی کوشش کرتا ہے کہ اس کا کوئی بھی عمل اللہ کی ناراضگی کا باعث نہ بن جائے پس وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے انبیا کرام بالخصوص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے پس وہی کامیاب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 لَقَدْ کَانَ فِیْقَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِاُّوْلِی الْاَلْبَابِ (سورہ یوسف ۔111)
ترجمہ: بیشک ان قصوں میں سمجھداروں کے لیے عبرت ہے۔
مطلب اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو دیگر انبیا اور ان کی امتوں کے قصے بیان فرمائے ہیں ان میں عقل و شعور رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم ہے اس لیے وہ ہر لمحہ اپنی مخلوق پر اپنا فضل و کرم فرماتا ہے حتیٰ کہ اگر انسان اللہ کی ذات سے غافل بھی ہو تو اللہ کے لطف و کرم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اللہ پاک تو ہر لمحہ اپنے بندے کا منتظر رہتا ہے کہ شاید یہ اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ ہو جائے۔ لیکن بسا اوقات اپنے بندے کی اصلاح کے لیے غصے و جلال کو بھی اختیار کرتا ہے جس طرح والدین اپنی اولاد کی اصلاح اور تربیت کے لیے اس کو وعظ و نصیحت کے ذریعے سمجھاتے ہیں مگر جب معاملہ حد سے گزر جائے تو ڈانٹ اور بالآخر مار تک نوبت آ پہنچتی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اصلاح ہے۔ ایسا ہی معاملہ اللہ پاک بھی اپنے بندوں کے ساتھ فرماتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ پاک نے جابجا ایسے واقعات بیان فرمائے ہیں کہ جب انبیا کرام اپنی امتوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گئے اور لوگ پھر بھی سرکشی سے باز نہ آئے تو اللہ پاک نے ان پر عذاب نازل فرمایا۔ اللہ پاک انسان کو سنبھلنے اور اصلاح کے مواقع فراہم کرتا رہتا ہے لیکن جب انسانیت میں بگاڑ پیدا ہونے لگے تو انسان اللہ کے غصے اور جلال کو آواز دیتا ہے۔ اللہ پاک تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے لیکن انسان نفس پرستی اور شیطان کی پیروی میں حد سے گزر جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے اب بات پیار سے نہیں بنے گی تب اللہ مخلوق پر اپنا جلال نازل فرماتا ہے۔ قرآن میں مختلف انبیا کرام اور ان کی امتوں پر آنے والے عذابوں کے بیشمار واقعات بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک قارئین کے لیے تحریر کیے جا رہے ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام تقریباً ساڑے نو سو سال اپنی امت کو وعظ و نصیحت کرتے رہے تاکہ وہ خدائے یکتا کی طرف مائل ہوں اور سرکشی سے باز آ جائیں لیکن جب امت پھر بھی وحدانیت کے اقرار کی طرف مائل نہ ہوئی تو ایک عظیم طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔نہ صرف آسمان سے طوفانی بارش ہوئی بلکہ زمین سے بھی پانی پھوٹ پڑا جس میں تمام دنیا غرق ہو گئی اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور اس میں سوار انسانوں اور جانوروں کے علاوہ کوئی زندہ نہ بچا۔ اس لیے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے جن سے نئے سرے سے دنیا آباد ہوئی۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بعد قومِ عاد وہ قوم تھی جو کفر و بت پرستی میں مبتلا ہوئی اور انہوں نے پتھروں کے بت تراش کر ان کی پرستش شروع کر دی۔ پس جب بے حیائی، فاسد خیالات اور بت پرستی حد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ھود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جنہوں نے انہیں اللہ کے دردناک عذاب سے ڈراتے ہوئے شرک و بت پرستی سے منع کیا لیکن جب وہ پھر بھی باز نہ آئے تو اللہ پاک نے اپنا عذاب نازل فرمایا۔ آسمان نے بارش برسانا بند کر دی۔ زمین سے پھوٹنے والے چشمے خشک ہو گئے اور کچھ ہی عرصہ میں کھیت کھلیان خشک ہو کر سوکھ گئے اور لوگ پینے کے لیے پانی کو بھی ترسنے لگے۔ حضرت ھود علیہ السلام نے انہیں توبہ و استغفار کی بھی تلقین کی لیکن وہ پھر بھی حضرت ھود علیہ السلام کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ قرآن میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
وہ بولے اے ھُود ؑ ! تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لے کر نہیں آئے اور نہ ہی ہم تمہارے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ ہی ہم تم پر ایمان لانے والے ہیں۔ (ھود۔53)
پس حضرت ھود علیہ السلام نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو اپنی رحمت سے دور کر دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور یہ قومِ عاد ہے جنہوں نے اپنے ربّ کی آیتوں کا انکار کیا اپنے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر جابر دشمن ِ حق کے حکم کی پیروی کی۔ اور دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی۔ یاد رکھو قومِ عاد نے اپنے ربّ کے ساتھ کفر کیا۔ خبردار ھود کی قومِ عاد کے لیے (اللہ کی رحمت سے) دوری ہے۔ (ھود۔59-60)
اور پھر تیز آندھی کی صورت میں منکرین کو عذابِ الٰہی نے گھیر لیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
پھر جب انہوں (یعنی قومِ عاد) نے اس (عذاب) کو بادلوں کی طرح اپنی وادیوں میں آتے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے (لیکن ایسا نہیں ہے) وہ تو وہ (عذاب) ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی (یہ) آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ (الاحقاف۔24)
اسی طرح قومِ عاد کے بعد قومِ ثمود بھی اللہ کی نافرمانی کی مرتکب ہوئی۔ اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو ایک اونٹنی عطا فرمائی تھی جس کے متعلق اللہ پاک نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا:
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا) انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بیشک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک روشن دلیل آ گئی ہے ۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اللہ کی زمین میں چرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آ پکڑے گا۔ (الاعراف۔73)
لیکن انسان کی فطرت ہے وہ نفس سے مغلوب ہو کر سرکشی پر اتر آتا ہے۔ قومِ ثمود نے بھی وہی حرکت کی جس سے اللہ پاک نے منع فرمایا تھا۔ انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے انہیں درد ناک عذاب میں مبتلا کر دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
پس انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے اے صالح ! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے ہو اگر تم واقعی رسولوں میں سے ہو۔ سو انہیں زلزلہ (کے عذاب) نے آ پکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف۔76-77)
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی میں ملوث ہو چکی تھی اور مرد اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے عورتوں کی بجائے مردوں کے پاس جاتے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام بارہا انہیں اس قبیح عمل سے منع کر چکے تھے لیکن کوئی بھی حضرت لوط علیہ السلام کی بات سننے پر تیار نہ تھا اور بالآخر ان کو بھی دردناک عذاب نے آن پکڑا۔ قرآن میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا گیا ہے:
لوط ؑ کو (ہم نے بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کیا تم (ایسی) بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جسے تم سے پہلے اہل ِ جہان میں سے کسی نے نہیں کیا۔ بیشک تم نفسانی خواہش کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو بلکہ تم حد سے گزر جانے والے ہو۔ اور ان کی قوم کا سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ وہ کہنے لگے ان کو بستی سے نکال دو بیشک یہ لوگ بڑے پاکیزگی کے طلبگار ہیں۔ پس ہم نے ان کو اور ان کے اہل ِ خانہ کو نجات دی سوائے ان کی بیوی کے، وہ عذاب میں پڑے رہنے والوں میں سے تھی۔ اور ہم نے ان پر (پتھروں) کی بارش کر دی سو آپ دیکھئے کہ مجرموں کا کیسا انجام ہوا۔ (الاعراف۔80-84)
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور حضرت شعیب علیہ السلام کے بار بار منع کرنے کا بھی ان پر کوئی اثر نہ ہو رہا تھا اور بالآخر جبرائیل علیہ السلام کی ایک کرخت چیخ سے زمین زلزلے کی مانند لرز اٹھی اور ان کے دل ان کے حلق میں آ گئے اور انجام کار مر گئے۔ قرآن میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ؑ کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ بیشک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے روشن دلیل آ چکی ہے سو تم ماپ اور تول پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم ماننے والے ہو۔ (الاعراف۔ 85)
(شعیب ؑ نے) کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اور یومِ آخرت کی امید رکھو اور زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو۔ تو انہوں نے شعیب ؑ کو جھٹلا دیا پس انہیں زلزلہ (کے عذاب) نے آ پکڑا سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ (مردہ) پڑے تھے۔ (العنکبوت۔ 36-37)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بھی سرکشی میں پیچھے نہ رہی اور انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی کی۔ چونکہ وہ سمندر کے کنارے رہتے تھے اور سمندر سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے لیکن ہفتہ کے روز مچھلیاں پکڑنے سے اللہ پاک نے منع فرمایا تھا۔ تاہم ہفتہ کے روز مچھلیاں معمول سے زیادہ تعداد میں نظر آتیں اور یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ ؑ کی قوم اللہ کی سرکشی کیے بغیر نہ رہ سکی اور انہوں نے ہفتہ کے دن مچھلیوں کا شکار کیا پس اللہ کے عذاب نے انہیں آ پکڑا۔ ان کی شکلیں مسخ کر دی گئیں اور انہیں بندر بنا دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
پھر جب انہوں نے اس چیز سے سرکشی کی جس سے وہ روکے گئے تھے (تو) ہم نے انہیں حکم دیا کہ تم ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔  (الاعراف۔166)
مندرجہ بالا واقعات کے علاوہ بھی قرآنِ پاک میں کثیر واقعات بیان کیے گئے ہیں جن میں عقل و شعور رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ تاہم ان عذابوں میں بھی اللہ کی رحمت پوشیدہ ہوتی ہے تاکہ سرکشی و نافرمانی کا سلسلہ جاری نہ رہے اور نئی آنے والے نسلیں اپنے آباؤ اجداد کی غلطیوں سے اور ان پر آنے والے عذابوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اللہ کے احکامات کی تعمیل کریں۔ اللہ پاک خود ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْعَلٰی غَضَبِیْ
ترجمہ: میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔
پس جس طرح ماں باپ کی ڈانٹ اور مار میں بھی ان کا پیار پوشیدہ ہوتا ہے اسی طرح اللہ کی رحمت اس کے غضب و جلال سے زیادہ وسیع ہے۔ وہ خود سے معافی اور بخشش طلب کرنے والوں کی مغفرت بھی فرماتا ہے اور ہدایت کے طلبگاروں کو ہدایت سے سرفراز بھی فرماتا ہے۔
پس ان عذابوں کے نزول میں زندہ بچ جانے والے لوگوں اور آئندہ آنے والی امتوں اور نسلوں کے لیے سبق ہوتا ہے تاکہ وہ ان عذابوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ان تمام امور سے کنارہ کشی اختیار کریں جو اللہ کے عذاب اور جلال کو دعوت دیتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام محبوبِ خدا ہیں اور آپؐ زندگی بھر اپنی امت کے لیے پریشان رہے اور ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتے رہے۔ اللہ پاک نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعاؤں کو ردّ نہیں فرمایا اور یہ وعدہ کیا کہ دیگر امتوں کی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت پر سخت اور کڑے عذاب نہیں آئیں گے جیسے دیگر امتوں پر طوفانی بارشوں، آگ یا پتھروں کی بارش، زلزلوں یا کرخت چیخ کے عذاب آتے رہے امت ِ محمدیہ ان سب سے مامون رہے گی۔ تاہم امت ِ محمدیہ کی رہنمائی کے لیے اللہ پاک نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظاہری طور پر پردہ کر جانے پر فقرا کاملین کی صورت میں ہدایت کا سلسلہ جاری و قائم رکھا تاکہ امت ِ محمدیہ کے لوگوں کو صراطِ مستقیم کی جانب مبذول رکھا جائے تاکہ وہ اللہ سے غافل ہو کر ان حرکات و سرکشیوں میں مشغول نہ ہو جائیں جو دیگر امتیں کرتی رہیں اور بالآخر اللہ کے شدید اور درد ناک عذاب نے انہیں گھیر لیا۔ 

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو وہ تمام برائیاں بکثرت نظر آتی ہیں جو مضمون کی ابتدا میں گزشتہ اقوام میں بیان کی گئی ہیں۔ ذرا سوچئے! ان اقوام میں تو محض ایک یا دو برائیاں پائی جاتی تھیں اس کے باوجود اللہ پاک کے عتاب سے نہ بچ پائے جبکہ ہمارے درمیان تو گزشتہ تمام اقوام کی برائیاں اجتماعی طور پر موجود ہیں اور ہم انتہائی ڈھٹائی اور سرکشی سے ان گناہوں کے ارتکاب میں ملوث ہیں۔
یقینا یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے جو ہم اس قدر نافرمانیوں اور سرکشیوں کے باوجود گزشتہ اقوام کے مقابلے میں کسی بڑے عذاب میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یاد رکھیں! اللہ ربّ العزت غفور الرحیم ہے تو جبار و قہار بھی اسی کی صفات ہیں۔ اگر وہ عزت دینے پر قادر ہے تو ذلت دینے پر بھی قادر ہے۔ اگر وہ بڑے سے بڑے گناہوں پر پردہ ڈالنے والا ہے تو ایک معمولی سی سرکشی اور گناہ پر سخت پکڑ کرنے والا بھی ہے۔
چونکہ امت ِ محمدیہ کے لوگ اللہ سے غافل ہو رہے ہیں اس لیے اللہ پاک بھی وقتاً فوقتاً انہیں جھنجھوڑنے کے لیے مختلف بلائیں اور مصیبتیں نازل فرماتا رہتا ہے جیسے آج کل کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نہ صرف لاکھوں لوگ اس وبا کے باعث لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں بلکہ مزید بیشمار لوگ اس وبا کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لوگ اسے عذابِ الٰہی سے بھی تشبیہ دے رہے ہیں اور یہ بات کسی حد تک درست بھی نظر آتی ہے۔ تاہم اللہ پاک کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت اور مصلحت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔ اور انسان کی ہدایت و اصلاح ہی اللہ کا مقصود ہے۔ معاشرہ میں مال و دولت کی بڑھتی ہوس اور بے راہ روی کے رجحانات کے باعث ایک عجیب نفسا نفسی کا عالم پیدا ہو چکا تھا اور اللہ تعالیٰ اس وبا کے ذریعے انہیں خبردار کر رہا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ، لوٹ آؤ میری طرف، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ یہ دنیا فانی ہے۔ سب کچھ اسی دنیا میں رہ جائے گا۔ مال و دولت کی ہوس چھوڑو اور اللہ کے راستے پر گامزن ہو جاؤ۔ جو اس مشکل گھڑی میں اللہ کی طرف متوجہ ہوگا اور اپنے گناہوں اور خطاؤں پر نادم و شرمسار ہوتے ہوئے اللہ سے رجوع کرے گا  اور انسان اللہ کی رضا اور چاہت کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی گزارے گاتو یقینا اللہ تعالیٰ بھی اسے مایوس اور نااُمید نہیں ٹھہرائے گا بلکہ پہلے سے بڑھ کر نوازے گا اور اپنی رحمتیں اور برکتیں بھی نازل فرمائے گا کیونکہ یہ انسان کے اعمال ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور قہر کو دعوت دیتے ہیں ورنہ اللہ پاک کی ذات تو نہایت ہی شفیق و مہربان ہے۔
پس ہم سب کے لیے لازم ہے کہ مشکل کے اس وقت کو ہمت و حوصلے سے گزاریں۔ گھر پر رہیں، احتیاط کریں اور اس فارغ وقت کو فضولیات میں مشغول رہ کر ضائع نہ کریں بلکہ غور و فکر کریں اور اپنے مقصد ِ حیات کو سمجھنے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ انسان کا مقصد ِ حیات اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے۔ بلاشبہ اللہ کی پہچان سے ہی اس کا حق ِ بندگی ادا ہوگا۔
انشاء اللہ جب یہ وبا ختم ہوگی تو اس کے نہایت منفعت بخش نتائج سامنے آئیں گے جو یقینا مخلوقِ خدا کی بہتری کے لیے سودمند ثابت ہوں گے۔ لہٰذا ہم اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں اور عہد کریں کہ اپنی آئندہ آنے والی زندگی اللہ کی رضا کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں گے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد اس مہلک وبا سے نجات عطا فرمائے۔ آمین

 

اپنا تبصرہ بھیجیں