تفکر | Tafakkur


Rate this post

تفکر

محترمہ نورین عبدالغفور سروری قادری (سیالکوٹ)

تفکر و تدبر عربی زبان کے الفاظ ہیں جن کے لغوی معنی سوچ و بچار اور غور و فکر کرنے کے ہیں۔ دراصل فکر انسان میں وہ قوتِ ادراک اور روشنی ہے جو کسی ظاہرکے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے اسی عمل کو تفکر کہتے ہیں۔ جب ہم تفکر کو جمع کے صیغے میں استعمال کرتے ہیں یعنی تفکرات تو اس کے معانی بدل جاتے ہیں۔یہ دنیا تفکرات کی دنیا ہے جسے تفکر سے ایک اچھی دنیا بنایا جا سکتا ہے۔ فکر کے کئی معنی ہیں، کچھ لو گ اسے صرف فکرمندی کے معنوں میں لیتے ہیں جیسے تم پریشان نہ ہو، فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے وغیرہ۔ جبکہ تفکر کرنا ایک مثبت عمل ہے اور یہی عمل عبادت ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں سینکڑوں مقامات پر کائنات اور اللہ کی آیات میں غور و فکر کرنے اور اس میں پوشیدہ اسرار و رموز سے آگہی کے نتیجے میں خدائے بزرگ وبرتر کی معرفت کے ساتھ ساتھ کائنات میں اپنی بے ثبات حیثیت کا تعین کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
قرآنِ مجیدکا بنیادی موضوع ـ’’انسان‘‘ ہے جسے سینکڑوں بار اس امر کی دعوت دی گئی ہے کہ و ہ اپنے گرد و پیش وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لیے غور و فکر اور تفکر و تدبر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اس پر آشکار ہو سکیں۔ خود انسان کا اپنا وجود قدرت کی بڑی نشانی ہے، اپنے وجود میں غور و فکر کرنے سے ہی انسان اپنے خالق اور معبود کی معرفت حاصل کر سکتا ہے جیسے کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
اور یقین والوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی، کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔ (سورۃ الذاریات۔ 20-21)

اللہ ربّ العزت کی اس وسیع و عریض کائنات میں انسان کے لیے ناقابل ِشمار نشانیاں ہیں کہ وہ ان میں  تفکر کرے اور کائنات کے خالق و مالک کو سمجھے۔ تفکر و تدبر حکم ِخداوندی ہے کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفل رہیں تو انسانی ترقی کا سفر گویا رک جاتا ہے اور ارتقائے نسل ِانسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے اس ارتقائی سفر کی ابتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذریعے سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اضافے کئے بلکہ انسان کو قرآنی احکامات کی روشنی میں تسخیر ِکائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اس دور میں بعض حیران کن ایجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو ایسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی۔
جس قوم نے بھی ترقی کی ہے تحقیق، غور وفکر، ریسرچ اور ایجادات کے ذریعے کی ہے اس لیے تفکر، غور وفکر اور ریسرچ قرآنی طرزِ فکر ہے۔
انسان کی فکر دو رخوں میں کام کرتی ہے، پہلا رخ کسی بھی شے کے ظاہر کو دیکھتا ہے لیکن جب تخیل کو کسی ایک نقطے پر مرکوز کر کے اس شے کی گہرائی یعنی باطن یا لاشعور میں جھانکا جائے تو تفکر، تجسس اور ریسرچ کی فکر اس شے کے باطن میں پہنچ کر اس شے کے اندر گہرائی سے خفیہ صلاحیتوں اور علوم کو شعور کی سطح پر کھینچ لاتی ہے اور نتیجہ میں کوئی نہ کوئی ایجاد معرضِ وجود میں آ جاتی ہے۔ اس لئے کہ دماغ انسان کی فکر، تخیل، تفکر یا ریسرچ نقطہ ذات کی گہرائی میں جا کر ان علوم اور صلاحیتوں تک رسائی کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جہاں ازل سے ابد تک کے تمام علوم موجود تھے، ہیں اور رہیں گے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کا علم آج سے کئی سال پہلے بھی موجود تھا لیکن محققین نے تفکر کیا تو یہ علم مزید عروج کرکے آج کے دور میں ہمارے سامنے آگیا اور اس کی وجہ سے آج پوری دنیا آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ قرآن جیسی عظیم کتاب کو خوبصورت ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر  اونچی جگہ پر رکھ دینا، صبح و شام چوم کر آنکھوں سے لگا لینا اور اس کی اصل تعلیمات ’’عمل و تفکر‘‘ سے روگردانی کرنا۔۔۔ کیا یہی اندازِ مسلمانی ہے؟؟ کیا ہم سے قرآن کا یہ مطالبہ نہیں ’’افلا تدبرون‘‘ تم تدبر کیوںنہیں کرتے؟ 

کائنات میں غوروفکرکی ترغیب قرآن کی روشنی میں

ارشادِباری تعالیٰ ہے:
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقل ِسلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپاادب بن کر) بیٹھے اور (ہجرمیں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر بھی اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (کارفرمااس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اس کی معرفت کی لذت سے آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں) اے ہمارے ربّ!تو نے (یہ سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ (سورۃ آلِ عمران 190-191)

اس آیت مبارکہ میں بندۂ مومن کو ہرحا ل میں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے اپنے مولیٰ کی یاد اور اس کے حضور حاضری کے تصور کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی بندۂ مومن کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں تفکر کی ترغیب دی گئی ہے۔
نزولِ قرآن کا ایک بے حد اہم مقصد لوگوں کو دعوتِ تفکر (غوروفکر) دینا ہے۔ حضرت مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی شہر ہ آفاق کتاب ’’تفسیر ترجمان القرآن‘‘ میں لکھاہے:
قرآنِ مجید کے طریق ِاستدلال کا اوّلین مبدا تعقل و تفکر کی دعوت ہے یعنی و ہ جابجا اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کے لیے حقیقت شناسی کی را ہ یہی ہے کہ خدا کی دی ہوئی عقل و بصیرت سے کام لے اور اپنے وجود کے اندر اور اپنے وجود کے باہر جو کچھ بھی محسوس کر سکتا ہے اس میں تفکر و تدبر کرے۔ چنانچہ قرآن کی کوئی سورۃ اور سورۃ کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو تفکر و تعقل کی دعوت سے خالی ہو۔

تفکر احادیث کی روشنی میں

سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ِ مبارک ہے:
ایک لمحہ کا تفکر ایک سا ل کی عبادت سے  افضل ہے۔
ایک لمحہ کا تفکر ستر سا ل کی عبادت سے افضل ہے۔
  ایک لمحہ کاتفکر ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے۔

پس اس توفیق کے لیے کہا جائے گا کہ جس نے فروعات (ایسے شرعی مسائل جن کا تعلق ظاہری اعمال سے ہو) میں ایک لمحہ کا تفکر کیا وہ ایک سال کی عبادت سے افضل ہے اور جس نے اس (اللہ) کی عبادت میں جو کچھ ہم پر واجب ہے، کی معرفت کے (حصول کے) لیے ایک لمحہ کا تفکر کیا پس وہ تفکر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے اور جس نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت میں ایک لمحہ بھی تفکر کیا وہ ایک لمحہ ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے۔ اور یہی تفکر علم ِعرفان ہے جو کہ عین توحید ہے۔ (سِرّ الاسرار)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک لمحہ کی فکر کو ایک سال کی عبادت سے بہتر فرمایا ہے آخر اس میں کوئی تو حکمت ہو گی لیکن پھر بھی ہم تفکر سے بے پرواہ ہو گئے ہیں، کیا یہ عقل کی ناقدری نہیں؟ کیا یہ کفرانِ نعمت نہیں؟ اللہ نے عقل کس لئے دی ہے؟ ہم اس سے کام کیوں نہیں لے رہے؟ تفکر کی عظیم نعمت سے ناآشنا کیوں ہو گئے ہیں؟ ذرا سوچیئے۔۔۔ذراسمجھیئے!

اللہ پاک کی اس عظیم الشان نعمت کا عملاً انکار کر کے ہم کیا حاصل کر رہے ہیں اور آئندہ ہمیں کیا ثمرات حاصل ہونگے؟ تفکر کا ایک عام طریقہ کار یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں غور کریں، اس کے نظام پر غور و فکر کریں، اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر سامنے آئیں گے، اسرار و رموز اور حقائق کے دروازے کھلیں گے۔ حکمتیں آشکار ہوں گی تو انسان پکا ر اٹھے گا ’’اے ہمارے ربّ!تو نے (یہ سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا‘‘۔ (سورۃ آلِ عمران۔191)

تفکر بزرگانِ دین کی تعلیمات  کی روشنی میں

حضرت علی کرم اللہ وجہہ غور وفکرکی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
غور سے عقل کی روشنی بڑھتی ہے۔
جس میں فکر کی عادت نہیں اس کے لیے کوئی بصیرت نہیں۔
دیر تک غور وفکر کرنا انجام کو سنوارتا ہے۔

اگر انسان عقل و بصیرت سے کام لے اور کائنات کی تخلیق میں تفکر کرے تو اس پر یہ حقیقت کھلے گی کہ کائنات اور اس کی ہر چیز کی بناوٹ کچھ اس طرح ہے کہ ہر چیز ضبط و ترتیب کے ساتھ ایک خاص نظام و قانون میں منسلک ہے اور کوئی بھی شے ایسی نہیں جو حکمت و مصلحت سے خالی ہو جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور بلاشبہ اس بات میں اربابِ ایمان کے لیے (معرفت حق کی) ایک بڑی نشانی ہے۔ (سورۃ العنکبوت۔44)

سیّدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
جب تم کچھ کلام کرنا چاہو تو پہلے اس میں غور و فکر کر لیا کرو اور اس میں اچھی نیت قائم کرو اوراس کے بعد کلام کرو۔اس لیے کہاجاتا ہے کہ جاہل کی زبان اس کے دل کے آگے اور عاقل وعالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے۔ (الفتح الربانی۔مجلس42)
تو غور وفکر کر۔ یہ ایسا امر ہے جو ظاہر و باطن دونوں کے استحکام کا محتاج ہے پھر ہر ایک سے فنا ہو جانے کا۔ (الفتح الربانی۔مجلس 59)

حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف ِ مبارکہ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں تفکر کے بارے میں فرماتے ہیں:
ایک تفکر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں کیا جاتا ہے اس سے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے ۔ایک تفکر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احسان میں کیا جاتا ہے اس سے دل میں حیا پیدا ہوتی ہے۔ایک تفکر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ وعید میں کیا جاتا ہے اس سے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ایک تفکر و ہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کیا جاتا ہے اس سے دل میں نورِ توحید پیدا ہوتا ہے۔ ایک تفکر وہ ہے جو علم ِقرآن میں کیا جاتا ہے اس سے دل میں اعمالِ صالحہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ ایک تفکر وہ ہے جو معاملاتِ دنیا میں کیا جاتا ہے اس سے دل میں سیاہی اور شیطانی منصوبہ بندی پیدا ہوتی ہے۔ جہان بھر میں دنیا اور اہل ِدنیا سے بدتر چیز اور کوئی نہیں ہے۔ عجیب احمق لوگ ہیں وہ جو اس بدتر چیز کو اللہ کے نام پر اور فقر ِمحمدیؐپر ترجیح دیتے ہیں۔

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں:
کسی علم یا چیز کو سمجھنے کے لیے جب ہم سوچ بچار کرتے ہیں تو اسے فکر، تفکریا غور و فکر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دنیا آج مادی اور سائنسی ترقی کے جس مقام پر کھڑی ہے اس کی بنیاد سائنسدانوں کا مادیت میں غور و فکر ہی ہے۔ ہر ایجاد اور دریافت کے پیچھے غور و فکر اور تفکر پنہاں ہے۔ (شمس الفقرا)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تفکر کے بارے میں فرماتے ہیں:
کسی علم کو سیکھنے کے لئے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اصلیت کیا ہے؟ یہ کیوں ہے اور کس لئے ہے؟ اگر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی تفکر کیا جائے تو اس سے چھوٹی سی بات کی بڑی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور اگر کسی بڑی سے بڑی بات پر غور و فکر نہ کیا جائے تو وہ بڑی بات بھی غیر اہم اور فضول بن جاتی ہے۔ تفکر سے ہمیں کسی شے کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے اور پھر تفکر کے ذریعے اس علم میں جتنی گہرائی پیدا ہوتی ہے اسی مناسبت سے اس چیز کی صفات کے بارے میں ہم باخبر ہو جاتے ہیں۔ دنیا آج مادی اور سائنسی ترقی کے جس مقام پر کھڑی ہے اس کی بنیاد غور و فکر ہی ہے۔ ہر ایجاد اور دریافت کے پیچھے کسی سائنسدان، فلسفی یا مفکر کا غور و فکر اور تفکر موجود ہے۔ (شمس الفقرا)

تفکر بھی دو طرح کا ہوتاہے ایک مثبت اور ایک منفی۔

حضرت علیؓ نے فرمایا ’’میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے خدا کو پہچانا۔‘‘ یہ تفکر مثبت انداز میں تھا جس میں انسان یہ جان جاتا ہے کہ میں کیا ہوں؟ میری پرواز کہاں تک ہے؟ میری اوقات کیا ہے؟ مثبت تفکر انسان کی ظاہری شخصیت کو نکھارتا ہے اور انسان کے اندر ایک بہترین شخصیت کی تعمیر کا بھی سامان کرتا ہے جو مشکل اور تلخ حالات میں بھی ثابت قدم رہتے ہیں۔
منفی تفکر انسان کے لیے اور اس کی اندرونی شخصیت کے لیے ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے جو اس کے جوان ہوتے شعور کو احساسِ محرومی کے زندان میں پھینک کر اس کی شخصیت کو منفی پن کا شکار کر دیتا ہے یہ انسان کے اندر ’’میں‘‘ کے پودے کو پروان چڑھاتا ہے اسے بغض، جھوٹ، تکبر، حسد اور اس جیسی دیگر کئی اندرونی بیماریوں کا شکار کرتا ہے۔ قصہ ٔآدم و ابلیس پر اگر غور کیا جائے تو ابلیس کے اندر بغض، جھوٹ، تکبر اور حسدجیسی بیماریوں نے گھر کر لیا اور اس کے آنگن میں تکبر نے پرورش پائی جس کی وجہ سے اس نے حکم ِخداوندی سے انکار کر دیا۔ ابلیس نے اس معاملہ کے منفی پہلوؤں پر غور و فکر کر کے اپنی انا کامسئلہ بنا لیا اور اس منفی رویہ نے اس کے اندر ایسی شخصیت کو پروان چڑھایا جو غلطی کر کے ہٹ دھرمی پہ قائم رہا اور بارگاہِ خداوندی سے نکالا گیا۔ آج ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ ہر شخص منفی پہلو پر تو غور کرتا ہے لیکن مثبت پہلو پر غور و فکر نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے غصہ، بغض، جھوٹ، تکبر اور حسدجیسی نفسانی بیماریوں نے جنم لے لیا ہے۔

تفکر کی اقسام

حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تفکر کے تین درجات ہیں:
۱۔ابتدائی درجے کا تفکر
  ۲۔درمیانے درجے کا تفکر
  ۳۔انتہائی درجے کا تفکر

۱۔ ابتدائی درجے کا تفکر:
ابتدائی درجے کا تفکرایک سال کی عبادت سے افضل ہے کہ اس میں صاحب ِتفکر جب ذکر فکر شروع کرتا ہے تو ابتدا ہی میں اس پر شدید خوفِ موت طاری ہو جاتا ہے اور وہ موت کے خیال سے کسی وقت بھی فارغ نہیں ہوتا۔ حیاتِ دنیا سے امید توڑ بیٹھتا ہے اور ہر دم، ہر گھڑی اور ہر روز خود کو مسافر گردانتا ہے۔

۲۔ درمیانے درجے کا تفکر :
درمیانے درجے کا تفکر وہ ہے کہ جس سے ذکر ِسلطانی پیدا ہوتا ہے جسے سیر سرّ مشاہدہ نور اللہ مطلق رحمانی کہتے ہیں۔ اس تفکر میں سب سے پہلے وہ ذکر کھلتا ہے جس سے سات ولائتوں کی بادشاہی ہاتھ آتی ہے۔ اس کے بعد ذکر ِسلطانی کھلتا ہے جس کا ذاکر سلطان العارفین، سلطان الواصلین، سلطان التارکین، سلطان الصابرین، سلطان العالمین، سلطان العاملین، سلطان العاشقین اور سلطان الذاکرین کہلاتا ہے۔ ذکرِ سلطانی چار اذکار کا مجموعہ ہے یعنی ذکرِ زبان، ذکرِ قلب، ذکرِ روح اور ذکرِ سِرّ۔ ذکرِ سلطانی میں گھڑی بھر کا تفکر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے اگرچہ اس تفکر میں کبھی غیرت، کبھی حیرت، کبھی جذبِ جلال اور کبھی وجد ِ جمالی کا غلبہ رہتا ہے۔ ان حالات میں صاحب ِ مشاہدۂ و صال کو خبردار رہنا چاہیے کہ اس مقام پر غلبات ِ ذکر اور انتہائے سکر کی وجہ سے کفر و شرک و انا کا غلبہ ہوجاتا ہے جس سے طالب انا کی مستی میں گرفتار ہو کر ابلیس کی طرح راندہِ درگاہ ہوجاتے ہیں اس راہ (فقر) میں ثابت قدم رہنے کے لیے لازم ہے کہ صاحب ِتفکر کی نظر اسم ِاللہ ذات اور حق الیقین کے مرتبے پر رہے۔

انتہائی درجے کا تفکر:
انتہائی درجے کا تفکر یہ ہے کہ جو فقیر چارافکار یعنی فکر ِازل، فکر ِابد، فکرِ دنیا، فکر ِعقبیٰ، چار اذکار یعنی ذکر ِزبانی جو محض عادت ہے، ذکرِ قلبی جو ارادت ہے، ذکرِروحی جو عبادت ہے اور ذکرِ سِرّی جو عین سعادت ہے، چار دموں یعنی دمِ ناسوت، دمِ ملکوت، دمِ جبروت اور دمِ لاھُوت، چار نفسوں یعنی نفس ِامارہ، نفس ِلوامہ، نفس ِملہمہ، نفس ِ مطمئنہ،چار مقامات یعنی مقامِ شریعت، مقامِ طریقت، مقامِ حقیقت اور مقامِ معرفت میں سے ہر مقام کو طے کر کے پس ِپشت نہیں ڈال دیتا، ہر ایک کو بھلا نہیں دیتا، اپنا رخ نورِ اللہ کی طرف کر کے غرق فنا فی اللہ، فنا فی فنا، بقا فی بقا اور مغفور فی مغفور نہیں ہو جاتا اور مراتب ِقرب و وصال حاصل کرکے عین بعین صاحب ِحضور نہیں ہو جاتا اسے فقیر نہیں کہا جا سکتا کہ ابھی تک اس میں ’’ ہم اور میں‘‘کی بُو سمائی ہوئی ہے۔ (محک الفقر کلاں)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ  فرماتے ہیں کہ:
انتہائے تفکر پر پہنچنا بہت ہی مشکل کام ہے اس لیے تفکر کی اس راہ میں ایسے صاحب ِتفکر مرشد کا ہاتھ پکڑ جو کامل فقیر ہو۔ (محک الفقر کلاں)

جان لے کہ جب کوئی ایسا صاحب ِتصرف کہ جسے تصور اسمِ اللہ ذات اور بالترتیب کلمہ طیب پڑھنے پر تصرف حاصل ہو اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری سے بھی مشرف ہو، اپنی آنکھیں بند کرتا ہے اور مراقبہ میں غرق ہو کر تصور اسم ِاللہ ذات کی تلوار ہاتھ میں پکڑتا ہے تو گویا وہ قتل کرتا ہے عمر بھر کے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو، نفس و شیطان کو، خناس، خرطوم اور جملہ خطرات کواور تہہِ تیغ کرتا ہے زمین بھر کے دار الحرب کو۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘ اس قسم کے ذکرِ مدام، تفکرِ تمام اور مراقبہ ِ حضوری مجلس ِمحمدیؐ کو مجموعۃ الحسنات کہتے ہیں اور یہ اس فرمانِ حق تعالیٰ کے عین مطابق ہے ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔‘‘ یہ تذکرہ ہے ذکر کرنے والوں کا۔ (کلید التوحید کلاں)

صاحب تفکر کی پہچان کیا ہے؟ یہ کہ وہ اپنے معبود کے اسم اللہ ذات میں تفکر کرتا ہے جس کی برکت سے اس سے کسی قسم کا گناہ سرزد نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ راہِ راست پر قائم رہتا ہے۔ صاحب ِتفکر کی اور کیا نشانی ہے؟ یہ کہ وہ ہر دم ذکر اسمِ اللہ ذات میں غرق رہتا ہے جس سے اس کے دل میں کسی قسم کا نفاق باقی نہیں رہتا اور وہ باطن صفا ہو جاتا ہے۔ صاحب ِتفکر کی مزید پہچان کیا ہے؟ یہ کہ صاحب ِ تفکر اسمِ اللہ ذات کے ذکر میں غرق ہو کر ماسویٰ اللہ کے نقوش پر خط ِتنسیخ کھینچ دیتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)

آپؒ فرماتے ہیں کہ تفکر اولیا کی تربیت کا نتیجہ ہے اور باطن کے راز صاحب ِباطن (مرشد کامل اکمل) کی مہربانی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ مرشد کامل اکمل بھی وہ جسے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام باطن میں بیعت فرمائیں اور ذکر و تصور اسم اللہ ذات عطا کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔

محرومی فکر

تفکر سے نورِ معرفت حاصل ہوتا ہے۔ تفکر انفرادی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی بھی۔ جب کوئی قوم غور و فکر اور تفکر کو خیرباد کہہ دیتی ہے تو تباہ ہو جاتی ہے۔ خدا کا عذاب جو گزشتہ قوموں اور امتوں پر نازل ہوتا رہا ہے کبھی زلزلہ تو کبھی پتھروں کی بارش کی صورت میں، کبھی طوفانِ باد و باراں تو کبھی سیلاب کی صورت میں، اس کے علاوہ گروہی اختلافات کے بعد آپس کی قتل و غارت گری وغیرہ یہ سب عذابِ الٰہی کی متعدد صورتیں ہیں لیکن خدا کا سب سے بڑا عذاب وہ ہے جو قوموں پر ’’محرومی ِفکر‘‘ کی صورت میں نازل ہوتا ہے اور پوری قوم محروم الفکر اور فاتر العقل ہو کر رہ جاتی ہے۔
تفکر کا ایک طریقہ خود احتسابی کاعمل بھی ہے یعنی اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا۔
عرصہ دراز سے مسلمانوں نے تفکر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ امت ِمسلمہ بے فکر ہو کر بے شعور ہوچکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی انہیں جس طرف چاہتا ہے ہانک کرلے جاتا ہے۔ سوچ سے محرومی کا ہی نتیجہ ہے کہ نادانی، علوم و فنون سے ناآشنائی، تاریخ سے ناواقفی، اقوام کی مزاج ناشناسی ان کی شناخت بن چکی ہے اور جذباتیت ہی ان کا مزاج بن چکا ہے۔ تفکر سے محرومی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم دین و مذہب سے بظاہر تو وابستہ ہیں لیکن روحِ محمدیؐ ہم سے نکل چکی ہے۔ آج ہمارے امام بے حضور ہیں اور نمازیں بے سرور،حج محض سیر و سیاحت جبکہ جہاد فی سبیل اللہ فساد کی مکمل تصویر بن چکا ہے۔ یہ سب محرومی ِفکر کے تلخ ثمرات ہیں حالانکہ ہم جس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں وہ پکار پکار کر دعوتِ تفکر دے رہی ہے۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل ہیں جو بیعت اور بغیر بیعت کے ذکر و تصور اسم ِاللہ ذات عطا فرماتے ہیں اور طالبانِ مولیٰ کی ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے تربیت فرما کر انہیں صاحب ِتفکر بناتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ:
فقر کا راستہ تفکر ہی کا راستہ ہے۔ تفکر سے ہی اس راہ کے راز کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے طالب ِمولیٰ ہر لمحہ تفکر میں گم رہتا ہے اور ہر لمحہ نئی منزل تفکر کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔ تفکر کے لیے خلوت کا ہونا یا آنکھیں بند کرنا ضروری نہیں ہے اس میں طالب ہر لمحہ ہر آن، تنہائی میں، ہجوم میں، دنیا کے معاملات کے وقت ایک ہی بات پر غور و فکریا سوچ بچار کر رہا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس پر وہ راز عیاں کرتا چلا جاتا ہے جس کے بارے میں وہ تفکر کرتا ہے یعنی کھلی آنکھوں سے ہر شے کو دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رازوں سے آگا ہ ہوجاتا ہے۔

 اللہ پاک ہم سب کو استقامت کے ساتھ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔سر الاسرار تصنیف سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔ الفتح الربانی  تصنیف  ایضاً
۳۔کلید التوحید کلاں تصنیف حضرت سخی سلطان باھُوؒ
۴۔محک الفقر کلاں  تصنیف   ایضاً
۵۔شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
۶۔حیات و تعلیمات سیدنا غوث الاعظم  ؓ  ایضاً
۷۔سلطان العاشقین  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۸۔اسلام اور جدید سائنس تصنیف مولانا محمد شہاب الدین ندوی
۸۔تخلیق و توسیع کائنات کا قرآنی نظریہ  تصنیف ڈاکٹر محمد طاہر القادری

 

23 تبصرے “تفکر | Tafakkur

    1. بےشک میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ اقدس ( سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور سلطان باھُوؒ کے حقیقی و روحانی وارث, انسان کامل اکمل نور الہدی ) کے عطا کردہ اسم اللہ ذات مشق مرقوم وجودیہ اور خفی ذکر یاھو سے اللہ پاک اور حضرت محمد ﷺ کا دیدار (ملاقات) اور پہچان ہوتی ہے
      اس طرح انسان کا مقصد حیات حاصل ہوتا ہے
      تحریک دعوت فقر پاکستان لاہور ذندہ باد

  1. سورہ روم میں اللہ پاک نے انسان کو اپنے اندر اور کائنات میں غوروفکر یا تفکر کا حکم دیا ہے

  2. ماشااللہ بہت اچھے سے بیان کیا گیا ہے

  3. بے شک تفکر کرنے سے ہی انسان کی عقل کے بند فقل کھلتے ہیں اور انسان راز ِ حقیقیت سے روشناس ہوتا ہے ۔

  4. تفکر و تدبر عربی زبان کے الفاظ ہیں جن کے لغوی معنی سوچ و بچار اور غور و فکر کرنے کے ہیں۔

  5. تفکر و تدبر عربی زبان کے الفاظ ہیں جن کے لغوی معنی سوچ و بچار اور غور و فکر کرنے کے ہیں۔ دراصل فکر انسان میں وہ قوتِ ادراک اور روشنی ہے جو کسی ظاہرکے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے اسی عمل کو تفکر کہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں