اقوالِ باھُوؒ | Aqwal e Bahoo


Rate this post

اقوالِ باھُوؒ

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ برصغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف اولیا اللہ میں سے ہیں جنہوں نے طالبانِ مولیٰ کی باطنی رہنمائی کے لیے 140 کتب تصنیف فرمائیں۔ 

یہ تمام کتب طالبانِ مولیٰ کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرب و وِصال پانے کی خاطر مشعل ِ راہ ہیں۔ ہر ولی کامل کی تصانیف الہامی کلام ہی ہوتا ہے اسی طرح سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتب کے بارے میں فرمایا:

ہیچ تالیفے نہ در تصنیف ِ ما
ہر سخن تصنیف ِ ما را از خدا
علم از قرآن گرفتم از حدیث
ہر کہ منکر میشود اہل از خبیث

ترجمہ: میری تصنیف میں کسی قسم کی کوئی تالیف نہیں اور میری تصنیف کا ایک ایک لفظ خدا کی طرف سے ہے اور قرآن و حدیث کی گرفت میں لکھا گیا ہے۔ جو ان کتب کا انکار کرتا ہے وہ قرآن و حدیث کا انکار کرتا ہے اس لیے پکا خبیث ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبولِ عام کتاب عین الفقر ہے۔ راہِ سلوک کے مسافروں کے لیے نایاب تحفہ ہے جس میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے فقر سے متعلق اور فقر کی راہ پر چل کر مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور معرفت ِ الٰہی حاصل کرنے کے تمام پہلوؤں کو بیان فرمایا ہے۔ اسی کتاب سے لیے گئے اقوال پیش ِ خدمت ہیں جو امید ہے مشعل ِ راہ ثابت ہوں گے۔

اسم اللہ ذات

اسم ِ اللہ ذات اور ذکر ِاللہ سے منع کرنے والا شخص دو حکمتوں سے خالی نہیں ہوتا۔ یا تو وہ منافق ہوتا ہے یا حاسد ہوتا ہے۔
اسم ِ اللہ دونوں جہان کی چابی ہے۔
جن لوگوں نے اسم ِ اللہ کو اپنا جسم و جان بنا لیا وہ دونوں جہان میں غم و الم سے آزاد ہو گئے۔
اسم ِ اللہ ذات کے ذکر میں تفاوت و تجاوزِ استدراج ہرگز نہیں ہے۔
اسم ِ اللہ عین ذات پاک ہے۔
بندے او رمولیٰ (اللہ) کے درمیان رابطے کا وسیلہ یہ اسم ِ اللہ ہی تو ہے۔
نفس و زبان مخلوق ہیں اور قلب و جسم و روح بھی مخلوق ہیں جبکہ اسم ِ اللہ غیر مخلوق ہے ۔لہٰذا غیر مخلوق کو غیر مخلوق سے ہی یاد کرنا چاہیے۔
جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے اسی طرح ذکرِ اللہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
نماز میں پہلے ذکر ِاللہ  ہے اور بعد میں نماز ہے جس میں سب سے پہلے بھی ذکر ِ  اللہ ہے، پھر تکبیرِ تحریمہ بھی ذکر اللہ ہے اور آخر میں تمام نماز ہی ذکر ِ اللہ  ہے۔
قرآنِ مجید کے نزول کا آغاز بھی اسم ِ اللہ  سے ہوا جو ذکرِ اللہ  ہے۔
جس اعمال نامے پر سرِفہرست اللہ کا نام ہوگا وہی اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
جب اعمال نامے کو ترازومیں تولہ جائے گا تو جس پلڑے میں اسم ِ اللہ ہوگا وہی پلڑا بھاری ہو گا۔
جو آدمی ذکرِ اللہ کا مذاق اڑاتا ہے ،یا غصہ کرتا ہے، یا ذکرِ اللہ  سے دشمنی کرتا ہے، وہ لعین ہے اور وہ تین حکمتوں سے خالی نہ ہوگا، یا تو وہ کافر ہو گا یا منافق ہوگا یا فاسق ہوگا اور یہ تینوں گروہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں بھی موجود تھے۔
اسم ِ اللہ ذات پاک ہے اور پاک وجود میں ہی قرار پکڑتا ہے۔
سن! توریت، زبور، انجیل اور اُم الکتاب یعنی فرقان یہ چاروں کتب محض اسم ِ ’’اللہ‘‘ کی شرح ہیں۔
ایک نکتہ ہزار کتابوں میں نہیں سماتا مگر ہزار کتاب ایک نکتہ میں سما جاتی ہے اور وہ نکتہ ’’اسم ِ اللہ  ذات‘‘ ہے جو بظاہر صرف ایک ہے مگر دونوں جہان اس کے صدقے ایک طرف ہیں اور وہ ایک طرف ہے۔

معرفت

پہلے علم ِ (معرفت) حاصل کر پھر میدانِ معرفت میں قدم رکھ کہ حضورِ حق میں جاہلوں کی گنجائش نہیں۔
اسرارِ معرفت اہل ِ مدرسہ سے مت پوچھ کہ اگر کیڑا کتاب کو کھا لے تو نکتہ دان نہیں بن جاتا۔
خدائے عزوّجل کی معرفت و پہچان دل کے نور سے ہوتی ہے۔

مرشد کامل اکمل

مرشد کامل طالب ِ اللہ کو پل بھر میں ہر جہان سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
مرشد کامل جہاز کے دیدہ بان جہاز ران کی مثل ہوتا ہے جو جہاز رانی کے ہر علم و آفت سے واقف ہوتا ہے۔
دانا بن اور یاد رکھ کہ اللہ تعالیٰ کا بھید صرف صاحب ِ راز کے سینے میں پنہاں ہے۔
مرشد کامل طالب ِ اللہ کا ہاتھ پکڑتے ہی اسے امن الامان کے مقام پر پہنچا دیتا ہے۔
اے عالم ِ جاہل! مرشد کامل کی ایک نظر ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
شیطان اہل ِ ہدایت (مرشد کامل) کی صورت ہرگز اختیار نہیں کر سکتا۔
مرشد کامل کی پہچان کیاہے؟ مرشد کامل کی ایک ہی نظر عبادتِ جاودانی سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔
مرشد کامل مکمل واصل اُسے کہتے ہیں جو طالب ِ اللہ کو غیر ماسویٰ اللہ سے پاک کر کے اُس کی پریشانیوں کو ختم کر دے۔
مرشد ازل سے ابد تک کسی بھی مقام و منزل اور راہ و رسم سے ناواقف نہیں ہوتا۔ ازل و ابد کا تما م نظارہ اس کی ایک ہی نگاہ کی پہنچ میں ہوتا ہے۔
مرشد کامل وہ ہے جو اسم ِ اللہ اور اسم ِ محمدؐ کی راہ جانتا ہے۔
مرشد کامل کی راہنمائی کے بغیر کبھی کوئی اللہ تک نہیں پہنچا اور نہ ہی پہنچ سکتا ہے۔
وجودِ مرشد آئینے کی مثل ہے۔
مرشد صاحب ِ تصرف فنا فی اللہ بقاباللہ فقیر ہوتا ہے جو مردہ قلب کو زندہ کرتا ہے اور زندہ نفس کو مارتا ہے۔
مرشد لایحتاج ہوتا ہے۔
مرشد صاحب ِ خُلق ِ عظیم ہوتا ہے۔
وسیلت (مرشد) بہتر ہے فضیلت (علم) سے۔
مرشد طبیب کی مثل ہوتا ہے اور طالب مریض کی مثل۔
مرشد صاحب ِ خُلق ہوتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسے خلق کامالک ہوتا ہے۔
مرشد اُس سنگ ِ پارس کی مثل ہے جو اگر لوہے کو چھو جائے تو لوہا سونا بن جاتا ہے۔
مرشد رفیق ِ راہ کو کہتے ہیں۔
مرشد سمندر کی مثل ہے اور طالب موج کی مثل ہے۔
مرشد اسے کہتے ہیں جو ایک ہی نظر سے علم کو بھلا دے اور دونوں جہان کی آشنائی بخش دے۔
جو مرشد اہل ِ فقر، اہل ِ اللہ فنا فی اللہ بقا باللہ فقیر ہو وہ ہر وقت اللہ کی پناہ میں رہتا ہے۔
مرشد اسباب کی بجائے مسبب کی راہ پر چلاتا ہے۔
مراتب ِمرشدی باپ دادا کی میراث نہیں بلکہ سر قربان کر کے راہِ حق کی صرافی ہے۔
مرشد اگر کامل نہ ہو تو طالب کا یقین کس کام کا؟ یقین تو نام ہے چشم ِ بصیرت کی دید کا، نہ کہ کولہو کے چشم بند بیل جیسے اندھے مرشد کا۔
مرشد کامل اکمل کعبہ کی مثل ہے جس کے حرم میں داخل ہونے والا اگر نیک ہے تو نیک ہی رہتا ہے اور اگر بد ہے تو بد ہی رہتا ہے۔
جب صاحب ِ نظر مرشد طالب ِ اللہ پر توجہ کرتا ہے تو طالب کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور خودبخود ذکرِاللہ میں محو ہو جاتا ہے۔
اگر تُو بے وسیلت ہے تو شیطان مردود کی راہ پر چل رہا ہے۔
مرشد درخت کی مثل ہوتا ہے جو موسم کی سردی گرمی خود برداشت کرتا ہے لیکن اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کو آرام و آسائش مہیا کرتا ہے۔

طالب ِ مولیٰ

جس نے (اللہ کے سوا) کسی چیز کی جستجو کی اُسے اس چیز سے فائدہ نہ ہوا اور جس نے اللہ کی جستجو کی اسے ہر چیز میسر آگئی۔
طالب ِ اللہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر دم، ہر گھڑی اور ہر وقت نفس کی مخالفت کرتا رہے۔
طالب ِ اللہ کے لیے صدق ضروری ہے۔
طالب ِ مولیٰ وہ مرد مذکر ہے جو دنیا سے وضو اور آخرت سے غسل کر لیتا ہے۔
طالب ِ ذات کی شان ہی نرالی ہے کہ وہ شش جہات کی کسی بھی چیز کو دیکھنا گوارا نہیں کرتا، بھلا وہ آنکھ ہی کیا جو یار کے علاوہ کسی اور طرف اُٹھے۔
طالب ِ اللہ جب مراقبہ میں اسم ِ اللہ ذات کو دیکھتا ہے تو اسم ِ اللہ ذات اسے مقامِ عین پر پہنچا دیتا ہے جہاں وہ اپنے مطلوب کو دیکھتا ہے۔
بندہ جب لاھوت میں پہنچتا ہے تو تب طالب ِ مولیٰ مذکر بنتا ہے۔
طالب ِ اللہ فقیر کامل (مرشد) سے صرف ’’اللہ‘‘ مانگتا ہے۔

فقیر ِ کامل

فقیر وہ ہے جو آنکھیں بند کرے تو کونین کے اٹھارہ ہزار عالم کا مشاہدہ کرے۔
جو شخص صبح شام کسی فقیر کی زیارت کرتا ہے اُس پر آتش ِ دوزخ حرام ہو جاتی ہے۔
ہر کوئی اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے حقیقت ِ احوال کو جانتا ہے لیکن فقیر فنا فی اللہ ہر مرتبے کی حضوری کے احوال جانتا اور پہچانتا ہے۔
فقرا سے ڈرو کہ وہ حالت ِ شہوت میں باشعور، فنا فی اللہ حضور اور مد ِ نظر ِاللہ منظور ہوتے ہیں۔
فقیر اپنے دل میں دنیا و اہل ِ دنیا سے رغبت اور غیر ماسویٰ اللہ سے طمع نہیں رکھتا۔
علما صاحب ِ شعور و صاحب ِ فہم ہیں اور فقرا اہل ِ حضور و صاحب ِ وَھم ۔
فقیر دنیا و اہل ِ دنیا سے بیزار رہتا ہے۔
فقیر کی زبان اللہ کی تلوار ہے ۔
فقیر وہ ہے جو صاحب ِ تسلیم و رضا ہو بلکہ خارج از قدر و قضا ہو۔
فقیر وہ ہے جو ان دونوں کو ہی نہیں چاہتا یعنی نہ دنیا کو نہ آخرت کو۔ وہ ان دونوں کو ہی مسترد کرتا ہے۔
فقرا اس وقت تک نماز نہیں پڑھتے جب تک کہ عرش ان کی نگاہ کے سامنے نہ ہو۔
فقیر اس طرح نماز پڑھتا ہے کہ خود امام اور خود ہی مقتدی بن کر اللہ کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہتا ہے۔
علمائے عامل اور فقیر ِ کامل کے پیٹ میں حرام کا لقمہ ہرگز نہیں جاتا خواہ ظاہر و باطن میں زمین و آسمان کی ہر چیز حرام ہو جائے۔
جس طرح نبی کا حق امت پر ہوتا ہے اسی طرح علمائے عامل اور فقیر ِ کامل کا حق مخلوق پر ہوتا ہے۔
فقیر صاحب ِ تحصیل ہوتا ہے اور عالم صاحب ِ تفصیل ہوتا ہے۔
وہ آدمی ہرگز فقیر نہیں ہو سکتا جو اپنے نام و ناموس کے شور و غوغا سے خلل پذیر ہے۔
مجلس ِ فقرا میں ذکر ِ خدا یا ذکر ِ انبیا یا ذکر ِ اولیا ہوتا ہے۔
فقرا کا جذب خدا کا قہر ہے، میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
فقرا کا وہم خدا کی رحمت ہے جو ابدالآباد تک قائم ہے۔
فقیر وہ ہے جو طمع نہ کرے، اگر کوئی اسے کچھ دے تو منع نہ کرے اور اگر اُسے کچھ ملے تو جمع نہ کرے۔
فقیر وہ ہے کہ جس کے دل میں اسرارِ دو جہان آشکارہ ہوں۔
سن فقرا کا وجود قدرتِ الٰہی کا نمونہ ہوتا ہے وہ جو کچھ کہتے ہیں، ہوجاتاہے۔
فقیر ِ منفرد مذکر مرد ہوتا ہے۔ منفرد فقیر کا نام ہی نورالہدیٰ ہے۔
صرف فقرا ہی ہیں جو ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔
تارک و فارغ فقیر وہ ہے جو دنیا و اہل ِ دنیا کو چھوڑ دے اور اُسے جو کچھ نذر نیاز ملے راہِ خدا میں خرچ کر دے۔ جس میں یہ وصف ہے وہ سلطان التارکین فقیر ہے۔
فقرا کا کھانا بھی ایسے ہے جیسے کہ لکڑیاں تنور میں، کہ جو کچھ اُن کے شکم میں جاتا ہے آتش ِ عشق کے شعلے سے جل کر نور بن جاتا ہے۔
فقیر چاہے مقامِ جمالی پر ہو یا مقامِ جلالی پر، اُس کا کوئی دم بھی ذکر ِاللہ سے خالی نہیں ہوتا۔
اہل ِ اللہ فقرا اللہ تعالیٰ سے ایسا اخلاص رکھتے ہیں کہ جیسا اہل ِ دنیا شیطان سے۔

علم

جو علم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاطر پڑھا جائے وہ مرتبہ ٔمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پہنچاتا ہے۔
جو علم روز گارِ دنیا کے حصول کے لیے پڑھا جائے وہ ابوجہل کے مرتبہ پر پہنچاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرما ن ہے ’’اگر علمامیں حسد نہ ہوتا تو وہ مرتبہ ٔ انبیا پر فائز ہوتے۔‘‘
عالم فقیر کا محتاج ہے جبکہ فقیر عالم کا محتاج نہیں کہ اس کے پاس علم ِ فیض ہے۔
عالم وہ ہے جو انبیا و آثارِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وارث اور امین ِ خدا ہو۔
جو عالم علم پر عمل نہیں کرتا علم اُس کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔
انبیا کا ورثہ وہ عالم ہیں جو قدم بقدم انبیا کی پیروی کرتے ہیں۔
صاحب ِ فقر عالم ہے اور عالم اللہ کا دوست ہے اور جو اللہ کا دوست ہے وہ پیوستہ خدا ہے۔
علم ِ دانش کو چھوڑ اور علم ِ باطن حاصل کر کہ اس کے ایک ہی لفظ سے جملہ علومِ دانش آ جاتے ہیں۔
عالم اُسے کہتے ہیں جو عین طالب ِ حق ہے۔
علم پر عمل کرنا اور گناہوں سے بچنا فرض ہے۔
جو عالم علم سے دنیا کا فائدہ اٹھاتا ہے اس (علم) سے دین کا فائدہ اٹھ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حریص و طالب ِ دنیا عالم سے پناہ دے۔
خدا پناہ دے بے عمل عالم سے اور بے صبر و بے توکل فقیر سے۔
علما طالب ِ علم ہیں اور فقرا طالب ِ مولیٰ ہیں۔
بے معرفت علم ایسے ہے جیسے کہ نمک بے طعام۔

نفس

جان لے کہ خوشنودیِ خدا نفس کے خلاف چلنے میں ہے۔ نفس سانپ کی مثل ہے اور اس کے خصائل کفار جیسے ہیں۔
نفس طلب ِ غیر کو کہتے ہیں۔
نفس کسے کہتے ہیں؟ جو راہِ خدا سے روکے۔
نفس کیا چیز ہے؟ نفس فربہ خنزیر کی مثل ہے جو کفار سے دوستی رکھتا ہے اور خودی و خود پرستی میں مبتلا رہتا ہے۔
نفس بادشاہ ہے، شیطان اس کا وزیر ہے اور دنیا اُن دونوں کی ماں ہے جو اُن دونوں کی پرورش کرتی ہے۔
نفس کافر و یہود سے خبردار ہو جا کہ وہ تجھے ہر حیلے، بہانے مصیبت میں ڈالتا ہے۔
صاحب ِ نفس ِ مطمئنہ اہل ِ معرفت ہوتا ہے۔
جس آدمی کا نفس کمزور ہے اس کا دین مضبوط ہے۔
جن لوگوں نے اپنے نفس کو آباد کر رکھا ہے وہ شیطان کے پیروکار ہیں۔
نفس چور کی مثل ہے اور طالب ِ اللہ چوکیدار کی مثل ہے جو خطراتِ چور سے خبردار کرتا ہے۔
مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو دوسروں کا محاسبہ کرتے ہیں اور انہیں عذابِ قید میں مبتلا کرتے ہیں لیکن اپنا محاسبہ نہیں کرتے۔
مناسب ہے کہ نفس کو کھانے کے لیے دائمی ذکر  اللہ کی خوراک دی جائے۔
نفس پر فولادی تلوار چلانا اہل ِ دین، اہل ِ اللہ کا کام ہے۔ 

 دنیا

جس دل میں حبّ ِ دنیا بس جائے وہ شیطان کا گھر ہے۔
دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں۔
وہ شخص صدقِ دل سے خالی ہے جس کے دل میں حبّ ِ دنیا ہے۔
دنیا دو قسم کی ہے، ایک حلال اور ایک حرام۔ اور یہ دونوں بُری ہیں کہ حلال پر حساب ہے اور حرام پر عذاب۔
دنیا باطل ہے اور ذکرِ  اللہ حق ہے۔
حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’دنیا مکر و فریب ہے اور مکرو فریب سے ہی ہاتھ آتی ہے۔‘‘
لوگ کثرتِ دنیا ہی کی وجہ سے کافر یا مشرک بنتے ہیں۔ کبھی کسی مفلس نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا، جب بھی کیا اہل ِ دنیا نے ہی کیا۔
جس قدر کوئی دنیا سے دوستی رکھتا ہے اسی قدر قربِ حق تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے کہ بندے اور مولیٰ کے درمیان حجاب ہی دنیا ہے۔
جو کوئی دنیا سے محبت کرتا ہے دنیا اس کو اپنا دیوانہ بنا کر اس قدر الجھا دیتی ہے کہ پھر وہ اس سے نجات پا ہی نہیں سکتا۔
دنیا ایک فتنہ ہے اور یہ فتنہ بندے اور اللہ کے درمیان حجاب ہے۔
ہر وہ چیز دنیا ہے جو بندے کو خدا سے غافل کر دے۔
دنیا کو ہر کوئی بُرا سمجھتا ہے مگر اس برائی کو اختیار کرنا پسند کرتا ہے۔
حرصِ دنیا سراسر عذاب ہے اور اہل ِ خراب ہے۔
دنیا اور زر دونوں باعث ِ ذلت ہیں کہ ان کا کوئی دین و مذہب نہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’ترکِ دنیا تمام عبادات کی جڑ ہے اور حبّ ِ دنیا تمام برائیوں کی جڑ ہے۔‘‘
دنیا آگ کی مثل ہے اور حرص دوزخ کی مثل ہے۔
دنیا دریا کی مثل ہے اور اہل ِ دنیا مچھلی و مگرمچھ کی مثل ہیں۔
حضرت امام حسن ؓ اور امام حسین ؓ کو بھی قتل (شہید) کیا تو درمِ دنیا نے کیا۔ پس اہل ِ دنیا ابوجہل و یزید ہے نہ کہ رابعہ ؒو بایزیدؒ۔
جو شخص روپے پیسے سے دوستی رکھتا ہے وہ یقینااللہ عزوّجل سے دوستی نہیں رکھتا۔
دنیا ہی قاتل ِ اصحابؓ اور قاتل ِ امام ؑ ہے۔
دنیا ہرجائی عورت کی مثل ہے جو دونوں جہان میں روسیاہ و خوار و ناقابل ِ اعتبار ہے۔
جان لے کہ درمِ دنیا کو جان سے زیادہ عزیز وہ شخص رکھتا ہے جو بے دین و بے عقل و بے تمیز ہو۔
طمع جال کی مثل ہے اور دنیا دانے کی مثل ہے جس پر اہل ِ حرص طالب ِ دنیا دیوانہ ہو جاتا ہے۔

قلب (دل)

سن اے صاحب ِ دل! تیرا دل کعبہ ٔ اعظم ہے، اسے بتوں (خیالِ غیر) سے پاک کر، تیرا دل بیت المقدس ہے اسے بت گروں کی دکان مت بنا۔
قلب ِ منیب وہ ہے جو ہر چیز سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے۔
جس دل میں محبت ِ الٰہی نہیں وہ آتش ِ دوزخ میں جلے گا۔
جس شخص کو تصدیق ِ دل حاصل نہیں اس کے زبانی اقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہر چیز کا دارومدار تصدیق ِ دل سے ہے۔ تصدیق ِ دل کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ ذکرِ قلب سے۔ ذکرِ قلب کہاں سے حاصل ہوتا ہے؟ شیخ مرشد کامل سے۔
جو شخص دل کا محرم ہو جاتا ہے وہ نعمت ِ حق تعالیٰ سے ہرگز محروم نہیں رہتا۔
جس آدمی کے دل کا میلان نفس کی طرف ہو جاتا ہے اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اس میں غفلت پیدا ہو جاتی ہے۔
خدائے عزوّجل کی معرفت و پہچان دل کے نور سے ہوتی ہے نہ کہ دل کی ظلمت سے۔
جس دل پر رحمت ِ خداوندی کی نظر ہے وہ نفس و شیطان سے جدا ہے۔

متفرق

جان لے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ شریعت ہیں، حضرت عمر فاروقؓ طریقت ہیں، حضرت عثمان غنیؓ حقیقت ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ معرفت ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سرّ ہیں۔
خدا کو ہر کوئی بزرگ و برتر اور اپنا خالق مانتا ہے مگر لوگ اس کے قریب جانے سے گریز کرتے ہیں۔
جو آدمی اللہ کا نام بلند کرتا ہے لوگ اس سے لڑتے ہیں لیکن جو آدمی دنیا و شیطان کا نام بلند کرتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔
جو شخص اللہ کا نام لینے پر ناراض ہوتا ہے وہ اہل ِ دنیا ہے یا اہل ِ شیطان ہے یا متکبر اہل ِ نفس ہے۔
فقر و درویشی نام ہے بزرگی کا، جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیا و اولیا اور اہل ِ صدق و اہل ِ یقین بزرگانِ دین کے علاوہ کسی کو عطا نہیں کرتا۔
علم رستگاری ہے، جہالت معصیت و خواری ہے اور فقر دریائے جاری ہے۔
اگر علم و عامل و فقرائے کامل نہ ہوتے تو بچے کھیل کود میں، نوجوان تکبر و مستی و ہوا میں اور بوڑھے غیبت و بسیار گوئی میں مشغول رہتے اور بازی گری و مستی و ہوا اور غیبت سے ہرگز باز نہ آتے۔
جب تک طالب ِ اللہ غرقِ وحدت نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ ہر مقام پر غمزدہ رہتا ہے۔
حاصلیت ِ حق کا راز اُس اخلاص و محبت میں پایا جاتا ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو۔
اہل ِ ذکر صابر و شاکر ہوتا ہے۔
جس ذاکر کو حضوری حاصل نہیں وہ خطرات میں گھرا رہتا ہے۔
دانشمند وہ ہے جو عشق میں کامل ہو۔
جسے اللہ پاک کے قرب و دیدار کی طلب ہے وہ فقر اختیار کرے۔

٭٭٭٭٭

 

اپنا تبصرہ بھیجیں