Sultan Bahoo

سکوت کی اہمیت|Sakoot ki Ahmiyat


Rate this post

سکوت کی اہمیت

تحریر: فائزہ سعید سروری قادری۔ سوئٹزر لینڈ۔

سکوت کے لغوی معنی ہیں ’’خاموشی‘‘ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِمُعْرِضُوْنَ۔ (سورۃ المومنون۔1-3)
ترجمہ: ان مؤمنین نے فلاح پائی جو اپنی نمازوں میں خشوع پیدا کرنے والے ہیں اور جو فضول باتوں سے پرہیز کرنے والے ہیں۔
احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی سکوت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے او راس کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد مبارکہ ہے:
ترجمہ:انسان کا خاموشی اختیار کرنا ساٹھ سال کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ (مشکوٰۃ شریف)
* عافیت کے دس حصے ہیں جن میں سے نو خاموشی میں ہیں۔ 
اَلسَّکُوْتُ تَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَرَضَآ ءِ الرَّبِّ ۔
ترجمہ: سکوت مؤمنین کا تاج اورربّ کی رضا ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:اے ابوذرؓ! کیا میں تمہیں دو ایسی عادتیں نہ بتا دوں جو پیٹھ پر ہلکی (یعنی کرنے میں آسان) اور میزان میں بھاری ہوں۔ آپؓ نے عرض کی ’’یارسول اللہؐ! فرمائیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ایک لمبی خاموشی دوسرا خوش اخلاقی‘‘۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں جان ہے مخلوق نے ان دوعادتوں سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں کیا۔ (جامع ترمذی)
بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ نصیحت بھی نقل کی گئی ہے ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ یا تو خیر کہے ورنہ خاموش رہے۔‘‘
دیگر تمام اولیا اللہ کی طرح سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے بھی سکوت کو پسند فرمایا ہے اور اپنی مختلف تصانیف میں سکوت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے فوائد اور نقصانات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ آپؒ اپنی تصنیف مبارکہ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:
* سکوت عبادت کی چابی ہے، سکوت مکانِ جنت ہے۔ سکوت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، سکوت شیطان سے حفاظت کا قلعہ ہے۔ سکوت خیر البشر ہے۔ سکوت سنتِ انبیا ؑ ہے، سکوت نارِ جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے، سکوت قربِ ربانی ہے اور سکوت استغراقِ نورِ توحید ہے۔ لائقِ سکوت و خاموشی وہ ہے جو ہر وقت مشاہدۂ حضور میں غرق رہے۔ ایسے صاحبِ سکوت کو ساکنِ لاہوت کہتے ہیں۔ اصل سکوت جسم و جان کی قید سے نکل کر لامکان میں غرق ہونے کا نام ہے۔ جو سکوت اس طرح کا نہیں وہ مکر ہے اور رجوعاتِ خلق کے لیے محض ایک تماشا ہے۔ ایسا سکوت مکرِ شیطانی او رفریبِ نفسِ امارہ ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
اپنی تصنیف قربِ دیدار میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں:
* خاموشی مومن کا تاج ہے۔ جو خاموش رہا وہ سلامت رہا اور نجات پا گیا۔ خاموشی قربِ الٰہی ہے۔ خاموشی انیس الرحمان ہے۔ خاموشی قلب کا اللہ سے گفتگو کرنا ہے۔ خاموشی علوم کو زندہ کرتی ہے۔ خاموشی خیر ہے، خاموشی جنت کی چابی ہے، خاموشی شیطان کے شر کے خلاف حصار ہے، خاموشی حکمت ہے، خاموشی قلب کی پاکیزگی ہے۔ خاموشی نفس کی موت ہے، خاموشی قلب کی حیات ہے، خاموشی روح کی سلامتی ہے، خاموشی ہدایت کا نور ہے، خاموشی ایمان کا ثمرہ ہے، خاموشی مخلوق سے نجات ہے۔ خاموشی توحید کی خلوت ہے۔ خاموشی جامع الجمعیت ہے۔ (قربِ دیدار)
اگر یہ کہا جائے کہ سکوت راہِ فقر میں ترقی کرنے کے لیے ایک بنیادی عمل ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔ ایک انسان جب تک ظاہری خاموشی اختیار نہیں کر لیتا اس وقت تک سانسوں کے ساتھ ذکراسمِ اللہ ذات (ذکرِ پاس انفاس) نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنی ذات کے اندر غور و فکر کر سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں معرفتِ الٰہی حاصل کرنے میں ناکام ہو جا تا ہے۔ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* اللہ کی ذات انسان میں بیج کی مانند ہے۔ یہ بیج اسمِ اللہ ذات کے پانی سے پھلتا پھولتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
پس جو یہ چاہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کا مشاہدہ اپنے باطن میں کرے اسے چاہیے کہ اسمِ اللہ ذات کا ذاکر بن جائے اور اس کے لیے خاموشی اختیار کرے۔ کیونکہ جتنا پانی دیں گے پودا اتنا ہی تناور ہوتا جائے گا۔
اسی بنا پر حضو رعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :
اَلسَّکُوْتُ رَأسَ الْاِ سْلَامِ ۔
ترجمہ: خاموشی اسلام (حقیقی دین) کی بنیاد ہے۔
جب انسان سکوت کو اختیار کرکے ذاتِ الٰہی میں غوروفکر کرتا ہے تو اس کے اندر معرفتِ الٰہی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ 
احادیث مبارکہ میں جس خاموشی کی تعریف کی گئی ہے وہ ایسی خاموشی ہے جو ذکر فکر کی خاطر اختیار کی جائے۔ دنیوی گفتگو، غیبت، چغلی، شکایت، گلہ گوئی، بحث و تکرار، جھوٹ اور لغو باتوں سے بچنے کے لیے اختیار کی جائے۔صرف ایسی خاموشی ہی عبادت ہے نہ کہ وہ خاموشی جو غرور یا مکر کے طور پر اختیار کی جائے۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ خاموشی کی اقسام کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
* جان لے کہ خاموشی کی چار قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کی خاموشی اہلِ دنیا، متکبر اور ظالم لوگوں کی ہے جو تکبر اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے غریب، عاجز، مظلوم، مسکین اور فقیروں سے ہمکلام نہیں ہوتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: 
*اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مَظْلُوْمًا وَّلَا تَجْعَلْنِیْ ظَالِمًا ۔
ترجمہ:اے اللہ تعالیٰ! تو مجھے مظلوم بنا اور ظالموں میں سے نہ بنا۔
اَللّٰھُمَّ اَحْیِیْنِیْ مِسْکِیْنًا وَّ اَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَّ احْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ۔
ترجمہ: اے پروردگار! تو مجھے مساکین جیسی زندگی دے، مساکین جیسی موت عطا کر اور حشرکے روز مساکین کے ساتھ اٹھا۔
غریب(غریب‘ فقر کی اصطلاح ہے۔ حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کے مطابق غریب کے معنی وہ فقیر (انسانِ کامل) ہے جس کے وجود سے غیر اللہ نکل گیا ہو اور اس کے اندر ھو (اللہ تعالیٰ) کے سوا کچھ بھی نہ ہو ) وہ ہے جس کے وجود میں غلطی، غیبت، غضب و غصہ کی غلاظت نہ ہو اور شکستہ اسے کہتے ہیں جس نے اپنی گردن پر اطاعتِ الٰہی کا طوق پہنا ہوا ہو۔ مسکین (حضرت سلطان باھُوؒ کی اصطلاحاتِ تصوف میں مسکین کے معنی ہیں ’’ساکن مع اللہ‘‘ یعنی ہر لمحہ اللہ کی معیت میں رہنا) کا خطاب سب اولیا اللہ کو ربّ الارباب کی طرف سے عطا ہوا ہے۔
خاموشی کی دوسری قسم وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا مقصد اپنے عیبوں کو چھپانا ہوتا ہے۔ وہ خاموشی کی آڑ میں خود فروشی اور دکانداری کرتے ہیں۔ ایسے دکاندار ظاہر میں جمعیت سے آراستہ نظر آتے ہیں لیکن ان کا باطن معرفت سے محروم اور پریشان حال ہوتا ہے۔ ان کی درویشی سراسر مکرو فریب ہوتی ہے۔ جان لو کہ ان کی خاموشی، حلیمی، سلیمی اور علم در حقیقت لوگوں کو پھانسنے کا جال ہے اور از روئے تکبر ہوتی ہے۔ 
* تیسری قسم کی خاموشی ان لوگوں کی ہے جن کا قلب تفکر، ذکر، فکر، مراقبہ اور اللہ کی جانب متوجہ رہنے سے زندہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ قلب ہے جو اللہ سے پیوست ہے۔ وہ اپنے قلب سے الہام اور روزِ الست کے کن فیکون کے پیغام حاصل کرتے ہیں۔ ان کی خاموشی اس وجہ سے ہے کہ ان کی آنکھیں عین العیان دیدار میں مست ہیں اور وہ قربِ رحمن میں جڑے ہوئے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی  (طٰہٰ۔5)
ترجمہ:وہ رحمن ہے جس کا استویٰ عرش پر ہے۔
بیت

عرش اکبر دل بود از دل بہ بین
نظر حق بر دل بود حق الیقین

ترجمہ: دل اللہ کا عرشِ اکبر ہے، اُسے دل میں دیکھ۔ یہ بات حق الیقین سے جان لے کہ نظرِ حق دل پر رہتی ہے۔
* چہارم خاموشی ان لوگوں کی ہے جن کی جان بے حجاب دیدار کی وجہ سے کباب ہو گئی ہے اور وہ خونِ جگر پیتے ہیں۔ یہ لوگ نفس، دنیا اور شیطان کو فراموش کر کے معرفتِ الٰہی میں محو رہتے ہیں۔ جو طالب توحیدِ الٰہی میں غرق اور نورِ ذات کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے اس کے لیے اس طرح کی خاموشی فرضِ عین ہے اور اس کی یہ خاموشی اللہ کے ساتھ خلوت ہوتی ہے۔ ایسے طالب باطن میں مست اور ظاہر میں شریعت میں ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ بدعت اور غیر شرعی کاموں سے ہزار بار استغفار کرتے ہیں۔ ان کے ذکر میں لازوال ذوق شامل ہوتا ہے اور اس طرح کے ذکر کو ذکرِ اللہ یگانہ کہتے ہیں۔ (قربِ دیدار)
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
خاموشی کی مزید چار قسمیں ہیں:
* خاموشی کی پہلی قسم اہلِ دنیا، متکبر اور ظالم لوگوں کی خاموشی ہے جو ریا اور کفر کی وجہ سے غریبوں اور مظلوں سے کلام نہیں کرتے ۔
حدیث:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مَظْلُوْمًا وَّلَا تَجْعَلْنِیْ ظَالِمًا ۔
ترجمہ: اے اللہ مجھے مظلوم بنا اور ظالموں میں سے نہ بنا۔
دوسری خاموشی بے باطن اہل دکان مشائخ کی ہے جو اپنی عیب پوشی اور مکرو فریب کے لیے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ 
حدیث شریف میں ہے:
نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ غَضَبِ الْحَلِیْمِ ۔ 
ترجمہ: میں حلیم کے غضب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
* تیسری قسم قلبی ذاکر مومنوں کی خاموشی ہے جو مراقبہ، ذکر اور فکر کے ذریعے اپنے دل کو کدورتوں اور ریا سے صیقل کرتے ہیں چہارم خاموشی صاحبِ تصور عین العیان کی ہے جو ہمیشہ معرفت اور قربِ الٰہی میں مستغرق رہتے ہیں۔ صاحبِ تصور عارف باللہ کو اللہ تعالیٰ اور سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جانب سے حکم و الہام ہوتا ہے، اس کا یہ حال اس کے قال سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ اللہ کا کلام سنتا اور بولتا ہے، اگر حکم ہوتا ہے تو دیکھتا ہے ورنہ دست بستہ رہ کر ہوش اور باطنی آنکھ سے معرفتِ الٰہی کی طرف متوجہ رہتا ہے۔(قربِ دیدار)
پہلی دو قسم کی خاموشی نہایت ہی خطرناک ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ اس میں صرف غرور و تکبر اور مکرو فریب نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ درویشوں کا سا حال بنا لیتے ہیں۔ چولا پہن کر تسبیح پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور مخلوقِ خدا کو بہکانے کے لیے فریب کاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ خود ظاہری خاموشی رکھتے ہیں اور اپنے چیلوں کے ذریعے مخلوق کو گمراہ کر دیتے ہیں لیکن اس خاموشی میں ذکرِ اللہ کہیں موجود نہیں ہوتا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:

ز بہر زر چرا تو دلق پوشی
ز بہر زر چرا تو دائم خموشی

ترجمہ:کیوں تو نے صرف مال و زر اکٹھا کرنے کی خاطر درویشانہ لباس پہنا ہے اور ہمیشہ خاموشی اختیار کیے بیٹھا رہتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
اور پھر تیسری خاموشی کی قسم جو کہ باطن کی طر ف پہلا قدم ہے، اس میں انسان خاموش رہ کر ذکرِ اللہ کرتا ہے تو اس پر مراقبہ کھلتا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے دل کو پاک و صاف کر لیتا ہے۔ جیسے ہی اس کا دل دنیاوی غلاظتوں سے پاک ہوتا ہے وہ باطن میں ذاتِ حق تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہے اور قربِ الٰہی میں غرق رہتا ہے۔ ایسے ذاکر کو صاحبِ تصور عارف باللہ کہا گیا ہے۔ وہ صرف اللہ سے کلام کرنا اور اللہ کا کلام سننا ہی پسند کرتا ہے اور جب تک حکمِ الٰہی نہ ہو مخلوق کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ ایسے عارف کے لیے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’ایسا صاحبِ ذکر ہمہ وقت اللہ کے ذکر میں محو رہتا ہے۔ وہ اللہ کے حکم سے اللہ کے ساتھ ذکر کے دور پر دور کرتا رہتا ہے۔ اسے آوازِ سرود اور مخلوق کی آواز نہیں بھاتی اگرچہ وہ خوش الحان آواز کسی داؤدی گلے کی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس کے کان حق کو سننے میں مشغول رہتے ہیں۔ اسے مخلوق کے خدوخال کا حسن پسند نہیں آتا خواہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کی مثل ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اس کی آنکھیں شوق و اشتیاق سے نورِ حضور کے دیدار میں مگن ہوتی ہیں۔ ایسا ذاکر لب بستہ ہو کر اللہ سے ہمکلام رہتا ہے، ا س کی زبان حق کے سوا اور کچھ نہیں بولتی اگرچہ اسے ہر کلام کے عوض ملکِ سلیمانی ؑ کی حکومت ہی کیوں نہ پیش کی جائے۔ (قربِ دیدار)
جب طالبِ مولیٰ اپنے مرشد کریم کی مہربانی اور عنایت سے عارف باللہ کے مقام پر پہنچتا ہے اوراسے اپنے باطن میں دیدارِ الٰہی اور کلامِ الٰہی نصیب ہو جا تا ہے تو پھر اسے صرف اللہ سے کلام کرنے میں ہی آسودگی نصیب ہوتی ہے لہٰذا وہ ظاہری خاموشی اختیار کرتا ہے۔ وصال و معرفتِ الٰہی کی وجہ سے اس کی ظاہر کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ حدیث پاک ہے ’’جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا اس کی زبان گونگی ہو گئی۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* عارف لب نہیں ہلاتے صرف دیدار میں مگن رہتے ہیں ان کی نظر ہمیشہ اللہ پر رہتی ہے۔ (قربِ دیدار)
جب طالب دیدار و کلامِ الٰہی سے لطف اندوز ہوتا ہے تو اللہ پاک اسے اپنی ذات اور کائنات کے کچھ رازوں سے آگاہی دیتا ہے جن سے عام انسان ناواقف ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کتاب میں ان کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ مرشد پاک کی مہربانی سے ہوتا ہے اور ایک طرح کی آزمائش بھی ہوتی ہے کہ طالب ان رازوں کو سنبھال پاتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ خاموش رہ کر ان رازوں کی حفاظت کرتا ہے تو اللہ اسے مزید راز عطا فرماتا ہے حتیٰ کہ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق حدیثِ قدسی میں فرمایا گیا:
* ’’انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔‘‘
لہٰذا صاحبِ راز کے مقام تک پہنچنے کے لیے خاموشی کی کلیدی اہمیت ہے۔ ا س کے برعکس اگر طالب خاموش رہ کر رازِ الٰہی کی حفاظت نہ کرے گا تو رجعت کا سامنا کر ے گا۔
فرمانِ باھُوؒ ہے ’’بہت زیادہ بولنا اور بے معنی کلام رجعت کا پیش خیمہ ہے۔ ناقص کے پاس نہ معرفت کی حکمت ہے اور نہ حکمِ حضوری اور قربِ الٰہی۔ (قربِ دیدار)
جو طالب بلاوجہ بولتا اور بحث کرتا ہے کثرتِ کلام کی وجہ سے بعض اوقات اس کے منہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو اس کو اللہ کے سامنے گنہگار اور مخلوق کے سامنے بے عزت کرواتی ہیں۔
ظاہری خاموشی کی ایک قسم اور بھی ہے جو کہ بظاہر تو اتنی خطرناک نہیں لیکن باطنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ طالب بظاہر خاموش ہے، باطن میں بھی نہ تو مرشد پاک کے خلاف ہے اور نہ ہی مغرور ہے لیکن باطن میں اس کی سوچوں کا رخ مسلسل دنیا اور دنیاوی معاملات کی طرف ہے۔ اگر باطن میں اللہ سے گفتگو کر بھی رہا ہے تو صرف دنیاوی معاملات کے متعلق اور دنیا کے گلے شکوے چل رہے ہیں یا پھر دنیاوی خواہشات کاذکر۔ 
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* جو شخص بھی مجلسِ محمدیؐ کے نو مقامات میں سے کسی ایک مقام پر پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے طلبِ دنیا کا سوال کر بیٹھے تو وہ اس مرتبۂ محمود سے گِر کر مردود ہو جاتا ہے۔(کلید التوحید کلاں)
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’اپنی سوچ کو پانی کے قطروں سے بھی زیادہ شفاف رکھو کیونکہ جس طرح قطروں سے دریا بنتا ہے اسی طرح سوچوں سے ایمان بنتا ہے۔‘‘
یعنی اپنی سوچ کو دنیاوی ذکر و خواہشات سے آلودہ کرنے کی بجائے ذکرِ اللہ سے پاک رکھنا چاہیے تاکہ کامل ایمان (فقر) پاسکے۔ اگر انسانی سوچ کو باطنی زبان کا نام دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ یہ باطنی زبان ذکرِ اللہ کے ذریعے جس قدر اللہ سے ہم کلام رہے گی اسی قدر انسانی سوچ پاکیزہ ہوتی جائے گی۔ اور جب مخاطب ذاتِ باری تعالیٰ ہو تو ادب کو ملحوظِ خاطر رکھے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں:
* ’’تمہاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے۔ باقی تو صرف ہڈیاں اور گوشت ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ تو قرآن میں کچھ یوں بیان فرماتا ہے:
وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً ۔ (المزمل۔8)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کے نام (اسم اللہ ) کا ذکر کرو اور سب سے الگ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ 
مزید حکم ہے:
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ ۔ (الکہف۔24)
ترجمہ: اپنے ربّ کا ذکر اتنی محویت سے کر کہ تجھے اپنی خبر نہ رہے۔
اب اللہ پاک تو یہ حکم دے رہا ہے کہ جب تم باطن میں اللہ کا ذکر کر رہے ہو یا اس کے ساتھ گفتگو میں مگن ہو تو اپنی ذات کو بھی بھول جاؤ۔ تو کیا یہ مناسب ہو گا کہ اس وقت دنیاوی مسائل میں الجھا جائے اور دنیاوی گفتگو کی جائے۔ یہاں بھی ضروری ہے کہ سکوت اختیار کیا جائے اور اللہ جس علمِ لدّنی سے نواز رہا ہے اس کو باادب ہو کر سنیں تا کہ زیادہ سے زیادہ قرب و معرفتِ الٰہی حاصل ہو سکے۔
فرمانِ باھُو رحمتہ اللہ علیہ ہے:

 ہر کہ گوید غیر او شد خر آواز
خاموشی خلوت خانہ شد حق براز

ترجمہ: جو شخص غیر اللہ کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اس کی آواز گدھے کی مثل ہے۔ تنہائی کے گوشے میں لب بستہ ہونا اللہ کے ساتھ راز داری ہے۔

 سر ز تن گردد جدا سخنش مگو
عارفان ہمسخن باحق گفتگو

ترجمہ :عارفوں کا سر تن سے جدا بھی کر دیا جائے تب بھی وہ غیر اللہ کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے ۔ وہ حق تعالیٰ کے ساتھ ہم سخن رہتے ہیں اور اس کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ (قربِ دیدار)
تو بہتر ہے کہ اگر ظاہر و باطن میں گفتگو ہو تو صرف اور صرف اللہ کے بارے میں ورنہ مکمل خاموشی اختیار کیے رکھو۔ 
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنی زبان کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔‘‘
پس بہتر ہے کہ ظاہری زبان کوبند کیا جائے اور خاموشی و خلوت اختیار کی جائے تا کہ اسم اللہ ذات کا ذکر کر کے اپنے باطن کو آباد کرے اور جیسے ہی باطن آباد ہو یعنی ذات باری تعالیٰ کا ظہور ہو اور باطن میں اللہ سے کلام کا آغاز ہو تو باطن میں بھی دنیاوی سوچوں سے پرہیز کرے اور مکمل سکوت اختیار کرے تا کہ اللہ کی بات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکے۔ اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو ہلاک ہو جائے گا۔
انسان کی زندگی میں کچھ مقام ایسے بھی آتے ہیں جہاں سکوت اختیار کرنا گناہِ عظیم بن جاتا ہے جیسے کہ کسی محفل میں حق بات نہ کی جارہی ہو یا شریعت کی خلاف ورزی ہو تو ایسے موقعوں پر حق بات نہ کہنا غلط ہو گا۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے ’’ترجمہ: جو حق بات کہنے سے رُکا وہ گونگا شیطان ہے۔‘‘
اس کے علاوہ جب عارف فنا فی اللہ بقا باللہ کے مقام پر پہنچتا ہے تو حکمِ خدا وندی کے تحت اس کو تلقین و ارشاد کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہاں اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ مخلوق کی حق تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرے اور جو کچھ بھی علمِ لدنیّ کے ذریعے اس کو سکھایا گیا اس کو طالبانِ مولیٰ تک پہنچائے۔ البتہ شریعت کا دامن نہ چھوڑے یعنی سرِّ الٰہی افشاں نہ کرے۔ یہاں پہنچ کر مخلوقِ خدا سے لاتعلقی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔
فقر کا تعلق اللہ اور انسان کے باطنی تعلق سے ہے۔ اس تعلق کو مضبوط کر نے کے لیے سکوت اختیار کرنا لازم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سکوت اختیار کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ انسان بے جا گفتگو کی وجہ سے جن اخلاقی و باطنی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے ان سے بچا جائے مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، گلہ گوئی اور بہتان وغیرہ۔ یہ تمام بیماریاں باطنی سفر میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں اور ظاہر میں مخلوق کی نظروں میں بھی گِرا دیتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے ’’جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ (بخاری شریف)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جب آدمی صبح بیدار ہوتا ہے تو اس کے تمام اعضا زبان کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے واسطے اللہ سے ڈرتی رہ۔ اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔‘‘ (ترمذی شریف)

زبان کی حفاظت کے بارے میں اقوالِ زریں

* زبان کو بے معنی باتوں سے محفوظ رکھو کہ فرزندِ آدم کی خطاؤں کا زیادہ حصہ زبان ہی سے متعلق ہے اور زبان سے زیادہ کسی عضو کے گناہ نہیں ہیں۔ 
* خاموشی حکمت کے ابواب میں سے ایک باب ہے۔
* بندہ مؤمن جب تک خاموش رہتا ہے اس کا شمار نیک کرداروں میں ہوتا ہے۔ 
* جو شخص دنیا و آخرت کی سلامتی چاہتا ہے اسے چاہیے کہ خاموش رہے۔
* انسان منہ کے بل جہنم میں صرف اپنی زبان کی وجہ سے پھینکا جاتا ہے۔
* پروردگار جب کسی بندے کو نیکی دینا چاہتا ہے تو ا س کی زبان محفوظ بنانے میں اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دوسروں کے عیوب کی بجائے اپنے جائزہ میں مصروف کر دیتا ہے۔
* انسان کا ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جب دل درست ہوتا ہے اور دل اسی وقت درست ہوتا ہے جب زبان درست ہوتی ہے۔
* مومن کی زبان کو دل کے پیچھے رہنا چاہیے کہ پہلے فکر کرے پھر مناسب ہوتو کلام کرے ورنہ خاموش رہے۔ منافق کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے وہ صرف بکتا رہتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔
* خاموشی سے شرمندگی نہیں ہوتی لیکن کلام بعض اوقات دنیا اور آخرت دونوں میں شرمندہ کروا دیتا ہے۔
* انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔
* پہلے تو لو پھر بولو۔ بات کو عقل و معرفت کے پیمانہ پر رکھو۔ برائے خدا ہو تو تکلم کرو ورنہ خاموش رہو۔ بالکل خاموش رہو بلکہ گونگے بن جاؤ۔
* انسان کے جسم کا ہر عضو زبان سے فریاد کرتا رہتا ہے کہ خدا کے لیے ہمیں جہنم میں نہ ڈال دینا۔
* تکلم اور خاموشی کا موازنہ کیا جائے تو تکلم چاندی ہے اور سکوت سونا۔
استفادہ کتب:
* کتب احادیث
* کلید التوحید از سلطان باھوؒ 
* قرب دیدار از سلطان باھُوؒ 
* شمس الفقرا از سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس


اپنا تبصرہ بھیجیں