الف
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ کائنات اور اس کی ہر شے اپنے اظہار اور اپنی پہچان کے لیے تخلیق فرمائی جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اللہ فرماتا ہے:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ
ترجمہ:میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو تخلیق کیا۔
اللہ کی پہچان انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اور اس دنیا میں اس کی آزمائش ہے۔ یہ پہچان اللہ کا دیدار اور قرب حاصل کیے بغیر ناممکن ہے۔ پہچان، دیدار اور قربِ الٰہی کی راہ ہی صراطِ مستقیم ہے جس سے بھٹکانے کے لیے شیطان انسانوں کے اندر اور باہر سے ان پر حملے کرتا رہتا ہے اور یہی وہ راہ ہے جس پر رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ ابتدائے آفرینش سے اپنے نبی اور برگزیدہ چنے ہوئے بندے بھیج رہا ہے تاکہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کی رہنمائی کا بندوبست ہو سکے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے قبل یہ برگزیدہ رہنما انبیا کی صورت میں تشریف لاتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نبوت کی انتہا اور اختتام کے بعد یہ رہنما اولیا اللہ کی صورت میں تشریف لاتے رہے اور تاقیامت آتے رہیں گے۔ جب تک اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ’انسان‘ کو بھیجتا رہے گا تب تک ان کی رہنمائی کے لیے اس ’انسانِ کامل‘ کو بھی بھیجتا رہے گا جو اللہ کے نور کا کامل مظہر، اس کی پہچان کا ذریعہ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روحانی ورثۂفقر کا وارث اور ان کے طریقہ کا حامل ہو اور اللہ کے طالبوں کی اس طرح تربیت کر سکتا ہو جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی کی اور انہیں معراج و صراطِ مستقیم کی راہ دکھائی۔ یہ ممکن نہیں کہ اللہ انسانوں کو تو اس دنیا میں آزمائش اور اپنی پہچان کے مقصد کے لیے بھیجتا رہے لیکن اس آزمائش میں کامیابی کی راہ دکھانے والا رہنما نہ بھیجے۔ اسی نظریے کو صوفیا کرام نے حقیقتِ محمدیہ سے موسوم کیا ہے۔ سیّد عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف’’ انسانِ کامل‘‘ میں فرماتے ہیں :
* حقیقتِ محمدیہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے اکمل کی صورت میں اس زمانہ کی شان کے مطابق ظاہر ہوتی ہے یہ انسانِ کامل اپنے زمانہ میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خلیفہ ہوتا ہے۔
یہی انسانِ کامل امانتِ الٰہیہ کا حامل ہے جس کے متعلق اللہ نے قرآن میں فرمایا:
ترجمہ: ہم نے بارِ امانت کو آسمانوں، زمین اورپہاڑوں پر پیش کیا۔ سب نے اس کے اٹھانے سے عاجزی ظاہر کی لیکن انسان نے اسے اٹھالیا ۔ بے شک وہ (اپنے نفس کے لیے) ظالم اور (اپنی شان و قدر سے) نادان ہے۔ (الاحزاب۔72)
امانتِ الٰہیہ کا حامل انسانِ کامل‘ جسے صاحبِ مسمّٰی مرشد کہا جاتاہے‘ ہی مرشدِ کامل اکمل نور الہدیٰ ہوتا ہے۔ اگر اللہ کے طالب کو ایسا مرشد مل جائے تو فقر کی انتہا پر پہنچنا کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے۔ یہی انسانِ کامل صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ ‘ حاملِ امانتِ الٰہیہ اور خزانۂ فقر کا مالک‘ امامِ زمانہ اور نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہوتا ہے۔ اس کی تلاش اور اس کے ذریعے اللہ کی معرفت حاصل کرنا فقرا نے فرض قرار دیا ہے۔ طالبِ مولیٰ پر اس کی تلاش فرض ہے۔
اس دور کے طالبانِ مولیٰ نے اس زمانہ کے انسانِ کامل اور امام الوقت کو جس بابرکت ہستی کی صورت میں پہچانا وہ عظیم ذات سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ہے جو سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے سلسلہ قادری‘ جسے حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے سلسلہ سروری قادری کے نام سے عروج عطا فرمایا‘ کے موجودہ شیخِ کامل ہیں اور طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی اور تزکیہ نفس کا فریضہ مکمل تندہی سے انجام دے رہے ہیں اور اسم اللہ ذات اور اسم محمدکے فیض کو دنیا بھر میں عام فرما رہے ہیں۔ طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ اسم اللہ ذات کا فیض حاصل کر کے مقصدِ حیات میں کامیابی حاصل کریں۔(سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی متعلق مزید جاننے کے لیے کتاب ’’سلطان العاشقین‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔)
(ماخوذ از کتاب ’’سلطان العاشقین‘‘۔ مطبوعہ سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور)