امیر الکونین | Ameer-ul-Konain


Rate this post

امیر الکونین

قسط نمبر11

جان لو کہ مرشد کامل صادق طالبِ مولیٰ کو چھ چلوں، چھ خلوتوں اور چھ مجاہدوں سے ایک دم میں اور ایک اثباتِ قدم اور ایک مراقبہ، ایک توجہ، ایک نظرِ عیاں، ایک استغراق، ایک تفکر، ایک تصور اور ایک تصرف سے یکتا بنا کر تمامیت تک پہنچا دیتا ہے اور وجود کے ساتوں اندام کو اس طرح پاک و پاکیزہ بنا دیتا ہے کہ اس کے بعد چلہ و ریاضت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اوّل چلۂ خلوت ازل کا نظارہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، دوم چلۂ خلوت شکمِ مادر کے احوال کے مشاہدہ کے لیے کیا جاتا ہے، سوم چلۂ خلوت دنیا میں زندگی گزارنے کے احوال دیکھنے کے لیے کیا جاتا ہے، چہارم چلۂ خلوت قبر کے احوال جاننے کے لیے کیا جاتا ہے، پنجم چلۂ خلوت حشر کے احوال جاننے کے لیے کیا جاتا ہے، ششم چلۂ خلوت ابد اور جنت کے احوال دیکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مرشد ان تمام چلوں سے طالب کو آزماتا ہے اور پھر باہر نکالتا ہے۔ اس کے بعد طالب کا وجود حیاتِ ابدی اور بقا حاصل کر کے لقائے الٰہی کے قابل ہو جاتا ہے اور طالبِ مولیٰ کے دل میں کوئی افسوس باقی نہیں رہتا۔ وصال ریاضت سے بہتر ہے۔ تمام عمر مطالعۂ علومِ قال سے وصال کی خاطر ایک چھوٹی سی تکلیف برداشت کرنا بہتر ہے اور لمحہ بھر کے لیے حضوری کے احوال کا لازوال مشاہدہ کرنا ہر شے سے بہتر ہے۔

ابیات:
آن علم غیب است بکشاید ز راز
نہ مطالعہ قال باشد نہ آواز

ترجمہ: اللہ کا علم غیب ہے جو اسرار سے منکشف ہوتا ہے جس کے لیے نہ مطالعہ و گفتگو کی ضرورت ہے نہ آواز کی۔

علم است علم از علم در غیب دان
معرفت توحید اینست باعیان

ترجمہ: ہر علم اس علم میں پوشیدہ ہے اور اسی سے حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا اس علمِ غیب کا جاننے والا بننا چاہیے یہی باعیان معرفتِ توحید کا علم ہے۔

جہل بر کفر است جاہل بر ہوا
عالمان را شد لقا قرب از خدا

ترجمہ: جہالت کفر کا باعث ہے اور جاہل خواہشاتِ نفسانی میں مبتلا ہوتا ہے لیکن علمائے حق کو قربِ حق اور لقا حاصل ہوتا ہے۔
طلبِ دنیا جہالت اور طالبِ دنیا جاہل ہیں اور طلبِ مولیٰ علم ہے اور طالبِ مولیٰ اس علم کا اظہار ہیں۔ یہ علم عین حق عطا کرتا اور حق دکھاتا ہے۔ مکمل پاکیزگی عطا کرتا ہے اور عین حق کاوصال عطا کرتا ہے جس سے وہ طالب ہمیشہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر رہتا ہے۔ اس کتاب میں موجود علمِ حق کے مطالعہ سے طالب باعیاں اور روشن ضمیر ہو جاتا ہے کہ مشرق تا مغرب تمام ممالک کو اپنی طاقتور توجہ سے اپنے تصرف میں لے آتا ہے۔ اس کتاب میں اللہ کے انوار کے دیدار وصال کے علم کو بیان کیا گیا ہے جس کے مطالعہ سے تلوار کی مانند طالب نفس کو قتل کرتا ہے۔ اس کتاب میں علمِ حضوری بیان کیا گیا ہے جس کے مطالعہ سے (طالب کے) ساتوں اندام نور بن جاتے ہیں اور طالب اللہ کی بارگاہ میں منظور ہو جاتا ہے۔ 
ابیات:

ہر کہ خواہد میشود عارف خدا
روز و شب حاضر بود بامصطفیؐ

ترجمہ: اگر کوئی عارفِ خدا بننا چاہتا ہے تو وہ روز و شب مجلسِ محمدی میں حاضر رہے۔

بے ذکر ذوق است فکر و فیض بر
در حضوری نور شد صاحبِ نظر

ترجمہ: حضوری میں غرق ہو کر طالب صاحبِ نظر اور سراپا نور بن جاتا ہے اور اسے بغیر ذکر و فکر کے ذوق اور فیض حاصل ہوتا ہے۔
جس کسی کا باطن توفیقِ الٰہی سے مجلسِ محمدی کی صحیح صحبت اختیار کرنے پر تحقیقاً طاقتور ہو جاتا ہے اسے وظائف پڑھنے اور ہاتھ میں تسبیح پکڑنے کی کیا ضرورت۔ جس کسی کے قلب کو بولنے کی طاقت حاصل ہو جائے اور حضوری اور انوارِ دیدار سے مشرف ہو جائے اس کا قلب حضوری میں اللہ کا نام پکارتا ہے اسے ہاتھ سے تسبیح کے دانے پھیرنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ مرشد صاحبِ قلب توجہ اور ایک نظر سے قرب و حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔ 
ابیات:

خوش بیا اے طالبا طالب لقا
آنچہ باشد مال و تن را کن جدا

ترجمہ: اے طالب اگر تو لقا کا طالب ہے تو خوش آمدید! لقا کے حصول کے لیے اپنے مال و دولت اور وجود (کی خواہشات) کو قربان کر دے۔

ہر کہ منکر از لقا محروم تر
کور مادر زاد باشد بے بصر

ترجمہ: جو کوئی لقا کا منکر ہے اس سے بڑھ کر محروم کوئی نہیں۔وہ مادرزاد اندھا اور بے بصیرت ہے۔
مرشد کامل اسے کہتے ہیں جو طالبِ نجس و نجاست اور خراب حال اہلِ نفس کو ایک نظر سے حرص، طمع، عجب، تکبر و خواہشاتِ نفس سے نجات دلا دے اور توجہ سے معرفت و لقائے الٰہی عطا فرما دے۔

بانظر ناظر کنند عارف خدا
باتوجہ میکنند باحق عطا

ترجمہ: عارفِ خدا اپنی نگاہ سے طالب کو صاحبِ نظر بناتے ہیں اور توجہ سے حقیقتِ حق عطا فرماتے ہیں۔

از فکر فتنہ شود فربہ بنفس
ذکر فکر خام تر اہل از ہوس

ترجمہ: ذکر فکر کرنے والے خام اور اہلِ ہوس ہیں۔ فکر سے فتنہ پیدا ہوتا ہے اور نفس طاقتور ہوتا ہے۔ 
طالبِ صادق کے لیے ضروری اور فرضِ عین ہے کہ مرشد کامل سے دو مراتب طلب کرے اوّل تصور میں غرق کا یقین جس سے وہ تصور میں باشعور اور ہوشیار رہے اور دوم لاھوت لامکان میں پہنچ کر مشرفِ دیدار ہو جائے۔ ان سے دو مراتب کھلتے ہیں اوّل توفیقِ الٰہی اور دوم تحقیق۔ ان دو مراتب سے مزید دو مراتب کھلتے ہیں اوّل باطن میں اللہ کی محبت، معرفت، مشاہدہ، قرب اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے کل مطالب، دوم جملہ تصرفات کو اپنے تصرف میں لے آنا اور ان سے غنایت حاصل کرنا۔ لایحتاج فقیر عاجز نہیں بلکہ عارف ہوتا ہے۔ فقیر مفلس نہیں ہوتا بلکہ قربِ حق تعالیٰ کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوتا ہے۔ فقیر زشت نہیں بلکہ اہلِ بہشت ہوتا ہے۔ فقیر حقیر نہیں بلکہ کونین پر امیر ہوتا ہے۔ ایسے عارف فقیر کا باطن آباد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قوت و جمعیتِ باطن عطا کی ہوتی ہے۔ وہ اعمالِ ظاہر، ورد وظائف، ذکر، فکر، مراقبہ سے آزاد ہو کر خلاصی پا چکے ہوتے ہیں۔ یہ فقر کے خاص الخاص مراتب ہیں۔ 
ابیات:

چہار بودم سہ شدم دو ساختم
از دوئی بگذشت یکتا یافتم

ترجمہ: پہلے میں چار تھا (یعنی میں، میرا مرشد، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اللہ پاک) پھر تین ہوا (یعنی میں مرشد کی ذات میں فنا ہو گیا) اور پھر دو رہ گئے اور جب دوئی سے بھی نکل گئے (یعنی فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ہو گئے) تو یکتا کو پا لیا۔

این بود توحید رحمت حق عطا
این بود فی اللہ فنا رویت بقا

ترجمہ: یہ توحید کا مقام ہے جو رحمتِ حق سے عطا ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کی ذات میں فنا ہونا اور پھر اس کے ساتھ بقا پانا۔
تمام مراتب شریعتِ محمدی کی برکت اور علمِ عین سے حاصل ہوتے ہیں جو عین حقیقتِ حق سے نوازتے اور عین حقیقت د کھاتے ہیں اور باطن کی صفائی کرتے ہیں۔ 

شرح علم

علمِ زبان کے حصول سے طالب عالمِ زبان بنتا ہے اسی طرح علمِ قلب کے حصول سے عالمِ قلب، علمِ روح کے حصول سے عالمِ روح، علمِ سرّکے حصول سے عالمِ سرّ اور علمِ نفس کے حصول سے طالب عالمِ نفس بنتا ہے۔ یہ سب علم اور اس کے عالم معرفتِ توحیدِ مطلق کے علم سے دور بلکہ اہلِ حجاب اور اہلِ تقلید ہیں۔ فقیر علمِ معرفتِ توحید اور علمِ الہام کا سبق اللہ سے حاصل کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 
*وَ عَلَمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ۔ (الکہف۔65)
ترجمہ: اسے علمِ لدنیّ سکھایا۔
وَ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔ (العلق۔5)
ترجمہ: اور انسان کو وہ سب علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اور وہ ایسی جگہ علم حاصل کرتا ہے جس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ فقیر اللہ سے جو سبق پڑھتا ہے اسے یاد رکھتا ہے اور اس علم کی تکرار کر کے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دہراتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ علمِ محبت، علمِ معرفت، علمِ مشاہدہ، علمِ قرب، علمِ حضور، علمِ جمعیت، علمِ فنا، علمِ لقا، علمِ یقین، علمِ اعتبار، علمِ انوار اور علمِ دیدار سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ یہ صراطِ مستقیم ہے جو قلبِ سلیم والے کو نصیب ہوتا ہے جس سے طالب حق تسلیم کرنے والا ہوتا ہے۔ علم جوہرِ ایمان ہے اور علم سے ہی طالب نفس، شیطان اور دنیا پر غالب آ سکتاہے۔ یہ مراتب عالم کو نصیب ہوتے ہیں۔ جاہل دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ ایسا عالم غیب جاننے والا اور ہر شے کو عیاں دیکھنے والا ہوتا ہے جو باطن کی ہر منزل و مقام اور خزائنِ الٰہی سے آگاہ ہوتا ہے اور رحمن کے علم کے شاگردوں کو بتاتا ہے جو اویسی قادری طریق کی پیروی کرتے ہیں۔ عارف باللہ اور عالم باللہ کو حقیقی حق شناس کہتے ہیں۔ بیت:

موسیٰؑ ہم چون مو می بیند گناہ
خضرؑ باطنی احوال بودند حق نگاہ

ترجمہ: موسیٰ ؑ کی نظر بال کی مثل گناہ پر تھی جبکہ خضر ؑ کی نگاہ باطنی احوال اور حق پر تھی۔
جو طالب مرشد سے ان مراتب کی تحقیق حاصل نہیں کرتا وہ احمق اور بے نصیب طالب ہے۔ جو مرشد طالب کو دیدارِ پروردگار کے انوار سے مشرف نہیں کرتا وہ مرشد بخیل، بے توفیق اور مریدوں کا دشمن ہے۔ ربّ العالمین کے لقا سے مشرف ہونا (باطنی) علم سے ممکن ہے۔ علم (باطنی) سے باہر اور بعید کوئی مرتبہ نہیں اور نہ ہوگا۔ طالبِ لقا علمِ لقا پڑھتا ہے اور علمِ لقا کے سوا کوئی دوسرا علم نہیں جانتا۔ بیت:

طاقتی باید لقا طالبِ لقا
بس گرانی بار بردارد خدا

ترجمہ: طالبِ لقا میں لقا کی طاقت ہونی چاہیے اسی سے ہی لقائے الٰہی کے گراں بار کو اٹھایا جا سکتا ہے۔
علمِ لقا توفیقِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے اور یہ حق کی تحقیق کرتا ہے دیگر تمام علوم علمِ لقا سے ہیں۔ جو علمِ لقا کا منکر ہے وہ مردہ دل، شرمندہ اور بے حیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْحَیَآءُ مِنَ الْاِیْمَانِ ۔
ترجمہ: حیا ایمان سے ہے۔
جس میں حیا نہیں اسے ایمان کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ مرشد جو عالمِ لقا ہو توجہ سے علمِ لقا تک پہنچاتا ہے اور طالب اس درس میں گم ہو کر علمِ لقا پڑھتا ہے۔ 
ابیات:

صد بار با تو گفتہ شد اے طالبا!
بے نصیب ہرگز نیارد رو لقا

ترجمہ: اے طالب! سو بار تجھے کہا جا چکا ہے کہ بے نصیب لقا کی جانب ہرگز نہیں آتا۔ 

ہر کہ دعوےٰ کرد من طالب لقا
مال و تن را کن فدا بہر از خدا

ترجمہ: جو دعویٰ کرتا ہے کہ میں طالبِ لقا ہوں تو وہ خدا کی راہ میں مال و جان قربان کرے۔

طالب لقا بایک دم و یک قدم
لائق لقا طالب بود اہل از کرم

ترجمہ: طالب ایک دم اور ایک قدم میں لقا حاصل کر سکتا ہے کیونکہ لائقِ لقا طالب

وہی ہوتا ہے جو اہلِ کرم ہو۔
دیدار در انوار بیند عارفان

در لاہوت لامکان صاحب عیان

ترجمہ: عارفین لاھوت لامکان میں انوارِ الٰہی کا دیدار کرتے ہیں اور صاحبِ عیاں بن جاتے ہیں۔

آنچہ بینی از تصور شد لقا
اسم اللہ می برد حاضر خدا

ترجمہ: اسم اللہ ذات سے تو جو کچھ دیکھے گا وہ لقائے الٰہی ہے کیونکہ اسمِ اللہ حضورئ حق میں لے جاتا ہے۔

دیدار در دیدہ بود دیدہ بدل
دیدار در دل خوش ببین ای رو خجل

ترجمہ: دیدار کرنے والی آنکھ دل کی آنکھ ہے۔ اے شرمندہ چہرے والے! اپنے دل کی آنکھوں سے دیدار کی خوشی حاصل کر۔ 
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
رَاَیْتُ رَبِّیْ فِیْ قَلْبِیْ ۔ 
ترجمہ: میں نے اپنے قلب میں اپنے ربّ کو دیکھا۔
بیت:

باھوؒ در دل من یافتہ تحقیق تر
دل از دل شد پیشوا صاحب نظر

ترجمہ: اے باھُوؒ ! تحقیق میں نے اسے (اللہ کو) اپنے دل میں پایا ہے کیونکہ صاحبِ نظر اپنے دل سے ہی راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
ہر عالم جسے معرفتِ الٰہی کا علم حاصل نہیں وہ بے معرفت اور نفس کا غلام ہے۔ وہ عالم جسے علمِ لقا حاصل نہیں وہ بھی بے معرفت اور نفس کا غلام ہے۔ وہ عالم جسے علمِ بقا حاصل نہیں وہ عالم بے حیا اور نفس کا غلام ہے۔ جس عالم کے پاس علمِ حضوری نہیں وہ عالم بے شعور اور نفس کی قید میں ہے۔ وہ عالم جسے قربِ الٰہی کا علم نہیں وہ نفس کا غلام اور اس کے قہر کا شکار ہے۔ جس عالم کو علمِ وصال حاصل نہیں وہ بھی نفس کا غلام اور زوال پذیر ہے۔ بیت: 

نفس را بگذار طلب از روح گیر
تا شوی عارف خدا فی اللہ فقیر

ترجمہ: نفس (کی فکر) کو چھوڑ اور روح کی (حیات) طلب کر تاکہ تو عارف اور اللہ کا فقیر بن جائے۔
قلب گوشت کے لقمے اور دل کے لوتھڑے کا نام نہیں ہے۔ قلب معرفت کا محور اور اللہ کی محبت اور مشاہدۂ انوار کے دیدار کا نام ہے جو روزِ الست سے دیدارِ الٰہی میں مست ہے۔ ابیات:

مرشد شدی طالب شدی بی معرفت
گر مردہ را زندہ کنی عیسیٰؑ صفت
تا نگردد غرق فی التوحید نور
کی شوی عارف خدا اہل حضور

ترجمہ: تو چاہے مرشد ہو یا طالب یا عیسیٰ علیہ السلام کی مثل مردوں کو زندہ کرنے والا ہو لیکن اگر تو بے معرفت ہے تو سب لاحاصل ہے۔ جب تک تو نورِ توحید میں غرق نہیں ہو جاتا تو اہلِ حضورعارفِ خدا کیسے ہو سکتا ہے۔

راہِ فقرش دیگر است فیض و فضل
نظر بر توحید کن زان کن ازل

ترجمہ: راہِ فقر دیگر راستوں سے مختلف ہے۔ یہ اللہ کے فیض اور فضل کی راہ ہے جس میں طالب اپنی نظر ازل سے توحید پر رکھتا ہے۔ 

کس نیابم طالبے لائق لقا
در طلب اثبات جان دہ راہ خدا

ترجمہ: میں کوئی بھی ایسا طالب نہ پا سکا جو لقائے الٰہی کے لائق اور اپنی طلب میں ثابت قدم ہو اور اپنی جان راہِ حق میں قربان کر دے۔

پیش مرشد دم مزن ای لاف زن
بر زبان اللہ در دل طلب زن

ترجمہ: اے جھوٹے! تو مرشد کے سامنے سر نہ اٹھا (وہ تیری سوچ سے بھی آگاہ ہے) کہ تیری زبان پر اللہ کا نام جبکہ دل میں عورت (دنیاو عقبیٰ) کی طلب ہے۔
انوارِ دیدار، حضوری اور لقا سے مشرف ہوئے بغیر محض ذکر، فکر، مراقبہ اور ورد وظائف سے باطن صاف نہیں ہوتا اور نہ ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ مرشد عارفِ لقا طالبِ مولیٰ کو پہلے ہی روز لقائے الٰہی سے مشرف کر کے اس پر علمِ فنا و بقا واضح کر دیتا ہے اور اسے علمِ روحانی، علمِ غیب دانی، علمِ قربِ ربانی اور علمِ عین العیانی کا عالم بنا دیتا ہے جس کے بعد اس کا قلب زندہ اور نفس فنا ہو جاتا ہے۔ یہ مراتب صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات کے ہیں جسے توفیقِ الٰہی حاصل ہو جو کہ خاص الخاص تحقیق کی راہ ہے۔ جان لو کہ جب نفس وجود پر غالب ہوتا ہے تو طالب مراتبِ نفس پر ہوتا ہے اور جس کا قلب اس کے وجود پر غالب ہوتا ہے تو وہ مراتبِ قلب پر ہوتا ہے اور جب روح وجود پر غالب ہو تو طالب مراتبِ روح پر ہوتا ہے اور جب سرّ وجود پر غالب ہو تو طالب مراتبِ دیدار پر ہوتا ہے اور جس کا یقین اس کے وجود پر غالب ہو تو وہ طالب مراتبِ وصال پر ہوتا ہے اور جب اعتقاد وجود پر غالب ہو تو طالب مراتبِ توحید پر ہوتا ہے۔ بیت:

گر بگویم شرح ہر یک ہر مقام
از ازل تا ابد کی گردد تمام

ترجمہ: اگر میں ہر ایک مقام کی شرح بیان کرنے لگوں تو ازل سے ابد تک بھی اسے مکمل نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔(جاری ہے)


اپنا تبصرہ بھیجیں