تدبراورتفکر–Tadabbur aur Tafakkur

Spread the love

3.9/5 - (7 votes)

تدبر اور تفکر

تحریر: فائزہ گلزار سروری قادری۔ لاہور

تفکر اور تدبر عربی زبان کے الفاظ ہیں جن کے لغوی معنی سوچ بچار اور غوروفکر کے ہیں۔ انسان اپنے تمام تر خیالات اور وہمات کو جھٹک کر کسی ایک خیال،نکتہ یا کسی مشاہدے کی گہرائی میں سفر کرتا ہے اور اسی پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے۔ تفکرکی اہمیت کا اندازہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے اس فرمان مبارک سے بآسانی لگایاجاسکتا ہے:تَفَکَّرُ السَّاعَۃِ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْنِ ترجمہ: ’’گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہاں کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘

آخر گھڑی بھر تفکر کرنے میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے دو جہانوں کی عبادت سے افضل قرار دے رہے ہیں۔ عبادات کے ساتھ تفکر اس لیے ضروری ہے کہ تفکر کے بغیر صرف ظاہری زبان سے الفاظ ادا کرنے سے درجات، نیک نامی اور شہرت تو حاصل ہو جاتی ہے لیکن جس ربّ کی عبادت کی جارہی ہے اُس کی معرفت اور اُس کا راز نہیں ملتا اور بندہ اپنی تخلیق کے پیچھےُ چھپے محرک کو سمجھنے سے قاصر اور محروم رہتا ہے۔
سیّدالکونین، سلطان الاولیا، نورِ مطلق ، محبوبِ سبحانی سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* ’’حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا فرمان ہے کہ گھڑی بھر کا تفکرایک سال کی عبادت سے افضل ہے۔ نیز فرمایا کہ گھڑی بھر کا تفکرستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔ مزید فرمایاکہ گھڑی بھر کا تفکرہزار سال کی عبادت سے افضل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے فروعات کی تفصیل میں تفکر کیا تو اس کا گھڑی بھر کا تفکرایک سال کی عبادت سے افضل ہے، جس نے عبادت کے وجوب و فرائض میں تفکر کیا تو اس کا گھڑی بھر کا تفکرستر سال کی عبادت سے افضل ہے اور جس نے معرفتِ الٰہی میں تفکر کیا تو اس کا گھڑی بھر کا تفکرہزارسال کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘ (سرالاسرار۔فصل نمبر ۱)
حدیثِ مبارک میں ارشاد ہے:
*اَلذِّکْرُ بِلاَ فِکْرِ کَصَوْتِ الْکَلْبِ   ترجمہ: ’’فکر کے بغیر ذکر کرنا گویا کتے کا بھونکنا ہے۔‘‘

امیرالمومنین، امام المتقین، امیرالعارفین حضرت علی کرم اللہ وجہہ غوروفکر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* غور سے عقل کی روشنی بڑھتی ہے۔
* جس میں فکر کی عادت نہیں اُس کے لیے کوئی بصیرت نہیں۔
* غوروفکر کرنے سے بصیرت پیدا ہوتی ہے اور عبرت حاصل ہوتی ہے۔
* غورکا انجام کامیابی اور غفلت کا نتیجہ محرومی ہے۔
* نصیحت دوسروں کے حال پر غور کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
* پہلے سوچ پھر کلام کر ،تاکہ غلطی سے بچارہے۔
* جو شخص سلامتی چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ فکر اختیار کرے۔
* بصیرت حاصل کرنے کا سِرّ غوروفکر اور علم کا سِرّ حلم و بردباری ہے۔
* دیر تک غورو فکر کرنا انجام کو سنوارتا ہے۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗفرماتے ہیں:
* ’’جب تم کلام کرنا چاہو تو پہلے اس میں غوروفکر کر لیا کرو اور اس میں اچھی نیت قائم کرو اور اس کے بعد کلام کرو۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جاہل کی زبان اس کے دل کے آگے ہے اور عاقل اور عالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے۔‘‘ (الفتح الربانی۔مجلس 42)
* ’’ تو غورو فکر کر یہ ایسا امر ہے جو ظاہر و باطن دونوں کے استحکام کا محتاج ہے پھر ہر ایک سے فنا ہو جانے کا۔‘‘ (الفتح الربانی۔مجلس 59)
* ’’صحیح غوروفکر کرنے سے توکل درست ہوجاتا ہے اور دنیا دل سے غائب ہوجاتی ہے اور انسان جن، انسان، فرشتوں اور تمام مخلوق کو بھلا کر صرف یاد اور ذکرِاللہ میں مشغول رہتا ہے۔‘‘ (الفتح الربانی۔ مجلس 59)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’کسی علم یا چیز کو سمجھنے کے لیے جب ہم سوچ بچار کرتے ہیں تو اسے فکر، تفکر یا غوروفکر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔دنیا آج مادی اور سائنسی ترقی کے جس مقام پر کھڑی ہے اس کی بنیاد سائنسدانوں کا مادیت میں غورو فکر ہی ہے۔ہر ایجاد اور دریافت کے پیچھے غوروفکر اور تفکر پنہا ں ہے۔‘‘ (شمس الفقرا)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تفکر کی اہمیت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان فرماتے ہیں:
* ’’کسی علم کو سیکھنے کے لئے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اصلیت کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ اور کس لئے ہے؟ اگر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی تفکر کیا جائے تو اس چھوٹی سی بات کی بڑی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور اگر کسی بڑی سے بڑی بات پر غور وفکر نہ کیا جائے تو وہ بڑی بات غیر اہم اور فضول بن جاتی ہے۔ تفکر سے ہمیں کسی شے کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے اور پھر تفکر کے ذریعے اس علم میں جتنی گہرائی پیدا ہوتی ہے اسی مناسبت سے اس چیز کی صفات کے بارے میں ہم باخبر ہوجاتے ہیں۔دنیا آج مادی اور سائنسی ترقی کے جس مقام پر کھڑی ہے اس کی بنیاد غورو فکر ہی ہے۔ہر ایجاد اور دریافت کے پیچھے کسی سائنسدان، فلسفی یا مفکر کا غوروفکر اور تفکر موجودہے۔‘‘ (شمس الفقرا)
اگر ہم غور کریں تو ہر شخص ہر وقت کسی نہ کسی چیز کے بارے میں غوروفکر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی صلاحیت کو اُس کی رضا کے مطابق استعمال کر رہے ہیں۔کیا ہماری سوچوں کی درست سمت معلوم کرنے کا کوئی پیمانہ ہے؟ سورۃ الحجرات آیت نمبر12میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اخروی سزا واجب ہے)۔‘‘
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

ہر سینہ نشیمن نہیں جبریلِ امین کا
ہر فکر نہیں ظاہر فردوس کا صیاد
اُس قوم میں ہے شوخی اندیشۂ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
(بالِ جبریل)

ہم کس طرح جان سکتے ہیں کہ کن چیزوں میں غوروفکر اور تفکر کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے یا غوروفکر کی کونسی صورت اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَآ(سورۃ محمد ۔ 24)   ترجمہ: ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے یاان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے)ہیں۔‘‘

اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ(النسا۔82)    ترجمہ: ’’تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے۔‘‘

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن میں غوروفکر کرنے کو صرف یہ سمجھا کہ اس کو ترجمہ سے پڑھ لیا جائے اور اس کے مفاہیم کو سمجھنے کے لیے غوروفکر کریں،لفظوں کی ادائیگی کا طریقہ سیکھیں اور کائنات کی بیان شدہ حقیقتوں کا کھوج لگائیں۔اور اگر صرف لفظوں کی ادائیگی کا طریقہ سیکھ لیناہی کافی ہوتا تو حضور کی یہ حدیث مبارکہ یوں روایت نہ ہوتی:
یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ رَطَبًا لَا یُجَاوِزْ حَنَاجِرَ ھُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃ۔۔(بخاری: کتاب المغازی، رقم الکتاب:64،رقم الباب:61، رقم الحدیث: 4351)

ترجمہ: ’’(ایک قوم ایسی ہوگی) وہ اللہ کی کتاب کو بڑی خوبصورت آواز میں پڑھے گی لیکن وہ (قرآن) ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اُترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے۔‘‘
یہ بھی درست ہے کہ دنیا میں ترقی کے لیے کائنات کے مظاہر میں غوروفکر ضروری ہے لیکن یہ غوروفکر صرف اسی صورت میں فائدہ مند ہوتا ہے جب اس کے نتیجے میں بندے کو اپنی کم مائیگی اور اللہ تعالیٰ کے عظیم و برتر ہونے کا احساس حاصل ہو اور اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہو تو یقیناًایسا انسان خسارے میں ہے۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* ’’مصنوعاتِ الٰہیہ سے اس کے وجود پر دلیل پکڑ ۔اس کی صنعت و کاریگری میں تفکر کر۔بیشک تُو اس کے صانع (خالق) کی طرف پہنچ جائے گا۔‘‘ (الفتح الربانی۔مجلس 3)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’قرآن سے حقیقتاً مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک ذات ہے ، ان کا قرب حاصل کیے بغیر قرآن کی سمجھ نہیں آسکتی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں صحابہ کرامؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل تھا یہی وجہ تھی کہ قرآن مجید کے حقیقی معنی اُن کے دلوں پر نازل ہوتے تھے جن پر عمل کرکے انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی اور اسلام کا بول بالا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب پانے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کامل سے فیض یاب ہونے کا ذریعہ صرف اور صرف ذکروتصور اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے قرب کے طالب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں لے جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے اصحاب کا ساتھ نصیب کرتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’صرف قیل و قال یا ظاہری تقلید اور ظاہری اشغال سے نہ اللہ تعالیٰ کی پہچان ہوسکتی ہے اور نہ ظاہری کتابی علم سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت اور رسالت اور اس کی مخصوص روحانی قوت یا معجزات کا پتہ لگ سکتا ہے اور نہ ہی ’’وحی‘‘ کی حقیقت اور ’’معراج‘‘ کی کنہ اور حقیقت معلوم ہو سکتی ہے۔اسی لیے تو ظاہری علما نبی کے علمِ غیب، دنیا میں دیدارِ الٰہی، معراج کی حقیقت، معجزات وغیرہ اور دیگر مسائل کے بارے میں تمام عمر جھگڑتے رہتے ہیں۔ ان تمام حقائق اور باطنی رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے سب سے بہترین اور آسان راستہ ذکروتصور اسمِ اللہ ذات ہے۔اللہ تعالیٰ کے قرب، مشاہدہ، وصالِ الٰہی اور دیدار کا راستہ بغیر ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہرگز نہیں کھلتا جو دل کی زندگی کا باعث ہے۔‘‘ (شمس الفقرا)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’کیا انہوں نے اپنے اندر فکر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور جو کچھ ان میں ہے حق کے ساتھ اور مقررہ وقت تک۔بیشک اکثر لوگ لقائے الٰہی (دیدارِ الٰہی) کو جھٹلاتے ہیں۔‘‘ (روم۔8)
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دعوتِ فکر دی ہے کہ وہ اپنے اندر غوروفکر کرے اور لقائے الٰہی(دیدارِ الٰہی) کی جستجو کرے۔ ہر چیز کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے ہر چیز کو بہت حساب کے ساتھ ایک مقررہ وقت کے لیے بنایا ہے جب وہ وقت آجائے گا تو یہ زمین و آسمان اپنی تمام تر رنگینیوں اورعجائبات کے ساتھ ختم ہو جائیں گے پھر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہو گی اور کامیاب وہی لوگ ہونگے جنہوں نے دنیا میں لقائے الٰہی کو جھٹلایا نہیں ہوگا اور اس وقت بھی صرف وہی لوگ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے اندر فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے : اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ (ترجمہ ’’کیا وہ اپنے اندر فکر نہیں کرتے۔) انسان جب اپنے اندر فکر کرتا ہے تو اس راز تک پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں حدیثِ قدسی ہے اَلْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَ اَنَا سِرُّہٗ۔ (ترجمہ: ’’انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔)جب انسان اس راز سے آگاہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنا محرمِ راز بنا لیتا ہے۔اس لئے فقرا من میں ڈوبنے، تن کے حجرے میں جھانکنے اور اپنے اندر داخل ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* ’’تفکر کے چار حروف ہیں ، ت-ف-ک-ر۔ حرف ’’ت‘‘ سے ترکِ ہوا، حرف ’’ف‘‘ سے فنائے نفس، حرف ’’ک‘‘ سے کرامتِ روح اور حرف ’’ر‘‘ سے رازِ حق۔ جس تفکر سے ترکِ ہوا و فنائے نفس نہ ہو اور کرامتِ روح و رازِ حق واضح نہ ہوسکے اُسے تفکر نہیں کہاجاسکتا۔‘‘
مزید فرمایا:
’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر وقت تفکر میں غرق رہتے تھے اور شجرۃ النور مغفور کی صورت میں ہر وقت معراجِ حضور سے مشرف رہتے تھے۔ اُن کی یہ کیفیت خلقِ خداوندی میں مشہور ہے۔ عالمِ غیب کے ان عجائبات میں شک نہ کر کہ یہ راہِ محمدی کا نتیجہ ہیں۔ جو ان میں شک کرے وہ کافر ہے۔ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ جو آدمی ایمان اور صورتِ ایمان ، جونور اسمِ اللہ ذات ہے، پر یقین نہیں رکھتا وہ محض اپنے ایمان کو برباد کرتا ہے اور وہ منافق و بے ایمان ہے۔‘‘ (محک الفقر کلاں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف مبارکہ ’’ کلید التوحید کلاں‘‘ میں تفکر کی مختلف اقسام بیان فرماتے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا:
* ’’ایک تفکر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں کیا جاتا ہے اُس سے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ایک تفکر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احسان میں کیا جاتا ہے اُس سے دل میں حیا پیدا ہوتی ہے۔ایک تفکر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ وعید میں کیا جاتا ہے اُس سے دل میں خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ایک تفکر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کیا جاتا ہے اُس سے دل میں نورِ توحید پیدا ہوتا ہے۔ایک تفکر وہ ہے جو علمِ قرآن میں کیا جاتا ہے اُس سے دل میں اعمالِ صالحہ کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ ایک تفکر وہ ہے جو معاملاتِ دنیا میں کیا جاتا ہے اُس سے دل میں سیاہی اور شیطانی منصوبہ بندی پیدا ہوتی ہے۔جہان بھر میں دنیا اور اہلِ دنیا سے بدتر چیز اور کوئی نہیں ہے۔عجیب احمق لوگ ہیں وہ جو اس بدتر چیز کو اللہ کے نام پر، دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اور فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ترجیح دیتے ہیں۔‘‘
آپ ؒ کی تصانیف مبارکہ سے نہ صرف تفکر کی اقسام کا علم ہوتا ہے بلکہ صحیح تفکر کرنے والے کی پہچان بھی حاصل ہوتی ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
* ’’صاحبِ تفکر کی پہچان کیا ہے؟ یہ کہ وہ اپنے معبود کے اسمِ اللہ ذات میں تفکر کرتا ہے جس کی برکت سے اُس سے کسی قسم کا گناہ سرزد نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ راہِ راست پر قائم رہتا ہے۔ صاحبِ تفکر کی اور کیانشانی ہے؟ یہ کہ وہ ہر دم ذکر اسمِ اللہ ذات میں غرق رہتا ہے جس سے اُس کے دل میں کسی قسم کا نفاق باقی نہیں رہتا اور وہ باطن صفا ہوجاتا ہے۔ صاحبِ تفکر کی مزید پہچان کیا ہے؟ یہ کہ صاحبِ تفکر اسمِ اللہ ذات کے ذکر میں غرق ہوکر ماسویٰ اللہ کے نقوش پر خطِ تنسیخ کھینچ دیتا ہے۔‘‘ (محک الفقرکلاں)
آپؒ فرماتے ہیں تفکر اولیا کی تربیت کا نتیجہ ہے اور باطن کے راز صاحبِ باطن (مرشد کامل اکمل) کی مہربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ خود کسی مقام یا منزل پر پہنچ سکتا ہے تو وہ گمراہ اور بدباطن ہے یا دنیا کی سیاہی سے اُس کا دل سیاہ ہو چکا ہے۔ آپؒ کی تعلیمات کے مطابق مرشد کامل اکمل وہ ہوتا ہے جسے خود حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام باطن میں بیعت فرمائیں اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’دن رات انسان دنیا بنانے کے لیے سوچ و بچار (تفکر ) میں مصروف رہتا ہے۔ غفلت انسان کو عباداتِ شریعت کی طرف آنے نہیں دیتی اور جو عباداتِ شریعت (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تلاوتِ قرآن) تک پہنچ چکے ہیں وہ اسی میں مگن ہیں اس سے آگے بڑھنے کے بارے میں سوچتے ہی نہیں، ظاہری عبادات اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ ضرور ہیں لیکن منزل نہیں ہیں۔ جو جہاں پر ہے اسی مقام میں مگن اور غفلت کا شکار ہے۔ ہم اپنے بارے میں، اپنے بیوی بچوں، گھر بار، کاروبار، عزیز رشتہ داروں کے بارے میں ہر لمحہ سوچتے اور غوروفکر کرتے رہتے ہیں کیا ہم نے کبھی مقصدِ حیات کے بارے میں غوروفکر کیا ہے؟ چونکہ بندے کی زندگی کا مقصد اللہ کو پانا ہے اور جو اس مقصد سے غافل رہے گا وہ ناکام اور نا مراد ہوجائے گا۔‘‘
یہ جان لینے کے بعد کہ سوچوں اور غوروفکر کا کون سا رُخ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے بندہ اور خادم ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اپنی سوچوں کا رُخ اُس طرف موڑیں جو کہ ہمارے خالق و مالک کو پسند ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی خاندان، قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتا ہو خود باطن کی راہ پر نہیں چل سکتا اور نہ ہی اپنے باطن کی اصلاح کر سکتا ہے۔ جب تک وہ کسی ایسی ہستی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دے دے جو سلک سلوک کی تمام منازل کو طے کر کے اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ ’’جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہے ‘‘کے مقام تک نہ پہنچ گیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا کرم اور احسان ہے کہ اُس نے اِس نفسا نفسی کے دور میں بھی عوام الناس کی بھلائی اور باطنی اصلاح کے لیے سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو منتخب کر کے بھیجا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بیعت اور بغیر بیعت کے بھی ہزارہا طالبوں کو اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کے فیض سے نوازا ہے اور اپنی توجہ سے نواز کر دنیا کی طلب سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی طلب عطا فرمائی ہے۔ آپ مد ظلہ الاقدس کا یہ فیضِ فقر آج بھی جاری ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’فقر کا راستہ تفکر ہی کا راستہ ہے۔ تفکر سے ہی اس راہ کے راز کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے طالبِ مولیٰ ہر لمحہ تفکر میں گم رہتا ہے اور ہر لمحہ نئی منزل تفکر کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔ تفکر کے لیے خلوت کا ہونا یا آنکھیں بند کرنا ضروری نہیں ہے اس میں طالب ہر لمحہ ہر آن، تنہائی میں، ہجوم میں، دنیا کے معاملات کے وقت ایک ہی بات پر غوروفکر یا سوچ بچار کر رہا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس پر وہ راز عیاں کرتا چلا جاتا ہے جس کے بارے میں وہ تفکر کرتا رہتا ہے یعنی کھلی آنکھوں سے ہر شے کو دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رازوں سے آگاہ ہوتا ہے۔‘‘
آپ مدظلہ الاقدس فقر کے اس فیض کو تقسیم فرما نے کے لیے ہرسال پاکستان کے مختلف شہروں کے روحانی اور تبلیغی دورے فرماتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ کتب اور انٹرنیٹ کے ذریعے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک فقر کی تعلیمات پہنچانے کے لیے انتھک کوششیں فرما رہے ہیں۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کی کوششوں اور روحانی فیض کا اثر ہے کہ طالبانِ مولیٰ کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کی قائم کردہ خانقاہ سلسلہ سروری قادری میں فیض کی غرض سے آنے والے لوگوں کے قیام و طعام کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے۔ خانقاہ انتظامیہ نے متفقہ رائے سے ایک وسیع خانقاہ اور مسجد تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، لہٰذا تمام قارئین سے التماس ہے کہ وہ اِس کارِخیر میں اپنی استطاعت کے مطابق ضرور حصہ لیں۔ اس روحانی درسگاہ سے جب تک لوگ فقر کا فیض پاتے رہیں گے اس کا اجر آپ کوبھی ملتا رہے گا،جس وقت انسان اپنے دامن میں نیکیوں کو ٹٹول رہا ہوگا اُس وقت اس نیکی کا اجر یقیناًآپ کے کام آئے گا۔
اللہ پاک ہم سب کو اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں