امیر الکونین
مترجم: احسن علی سروری قادری
جان لو کہ تمام بلا و آفات اور حوادثاتِ نفسانی و شیطانی ایک ہی گھر میں جمع کی جائیں تو اس گھر کی چابی دنیا ہے۔ پس اسی طرح معرفت، توحید، نور، قرب اور حضوری کے تمام خزانے انسان کے وجود کے اندر موجود ہیں۔ وجود کے تمام خزانوں کی کلید حضورِ حق ہے جو اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہوتی ہے۔ جو طالب اسمِ اللہ ذات کو اس کی کنہ سے پڑھتا ہے اور اس سے حضورِحق حاصل کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں بے نیاز اور لایحتاج ہو جاتا ہے۔ اَلْفَقْرُ لاَیُحْتَاجُ اِلَّا اِلَی اللّٰہِ ترجمہ: فقر اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں۔
بیت:
ہر کہ این راہ نداند لاف زن
ہر کہ داند حاضرات آن جانِ من
ترجمہ: جو حضورِ حق کی یہ راہ نہیں جانتا وہ جھوٹا ہے جبکہ جو جانتا ہے وہ میرا محبوب ہے۔
جب نفس حضورِ حق حاصل کر لیتا ہے تو وہ (مرشد کے) نفس سے ہم کلام ہوتا ہے اور جب قلب حضورِ حق حاصل کر لیتا ہے تو وہ (مرشد کے) قلب سے ہم کلام ہوتا ہے اور جب روح حضورِ حق حاصل کرتی ہے تو وہ (مرشد کی) روح سے ہم کلام ہوتی ہے اور جب طالب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حضورِ حق حاصل کرلیتا ہے تو وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم کلام ہوتا ہے اور جب طالب اللہ کے سامنے حضوری حاصل کرتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ بذریعہ الہام ہم کلام ہوتا ہے۔ حضورِ حق فقر کے انتہائی درجات و مقامات تک لے جاتا ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
حضورِ حق مراتبِ نعم البدل میں سے ہے اور مراتبِ نعم البدل اسمِ قادر کی قوت سے حاصل ہوتے ہیں جو خزائنِ الٰہی کی کیمیا گری ہے‘ جس سے طالب کا وجود طلسمات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ صاحبِ طلسمات مرشد ہی طالب کو حضورِ حق عطا کرتا ہے اور عین بعین حق کا مشاہدہ کراتا ہے۔ یہ حضورِ حق اللہ تعالیٰ کا تصور عطا کرتا ہے جس سے طالب شہسوارِ قبور بن جاتا ہے۔
جان لو کہ فقر کے تین مراتب ہیں۔ لاھُوت لامکان تک پہنچنا، معرفت اور دیدارِ الٰہی کے انوار سے مشرف ہونا اور دونوں جہان میں زندہ رہنے اور کبھی نہ مرنے کی قوت حاصل کرنا۔ جس کے بعد فقیر لب بستہ توحید میں ہمیشہ غرق رہتا ہے اور اسے کسی طالب اور مرید کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور اگر کوئی طالب مرید طلبِ مولیٰ رکھتا ہے تو اسے حضورِ حق میں پہنچا دیتا ہے جہاں سے طلبِ مولیٰ کا سوال کرنے والے کو محروم نہیں لوٹایا جاتا۔ جان لو کہ کلمہ طیبلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ سے حضورِ حق حاصل کرنے کا سبق پہلے ہی روز حاصل ہو جاتا ہے۔ مراتبِ فنا و بقا سے گزر کر فقیر نفس پر امیر اور روشن ضمیر ہو جاتا ہے۔ مرد وہ ہے جو سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرے۔ معرفت میں حضورِ حق اور دیدارِ الٰہی حاصل ہوتا ہے جس سے (طالب کو) تمام عمر مجاہدہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ط مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ بِالْفَنَآئِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ بِالْبَقَآئِ ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا تحقیق اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔ جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا تحقیق اس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا۔
نفس کی پہچان تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے فنا الفنا ہونے سے ہوتی ہے۔ اور اللہ کی پہچان روح کے ذریعے ہوتی ہے جس سے بقا کے بعد بقا حاصل ہوتی ہے۔ اے مردہ دل و بے حیا! یہ عارفین کے ابتدائی احوال ہیں۔ فقیر اہلِ روح کی کیا نشانی ہے؟ وہ جان و جسم سے ارواح سے ملاقات کرتا ہے۔یہی احوال مجھے بھی حاصل ہیں۔ اہلِ نفس جب باطن میں ارواح کا ہم مجلس ہوتا ہے جو ذکرِ الٰہی میں مشغول اور قرآن و حدیث سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اہلِ نفس بھی مکمل شعور کے ساتھ حضورِ حق کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یعنی باطن میں وہ توحید کے نور میں غرق ہوتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایک لمحہ کے لیے بھی جدا نہیں ہوتا اور دائمی حضوری میں رہتا ہے لیکن ظاہری طور پر عوام میں لوگوں سے ہم کلام رہتا ہے۔ اے احمق و خام! یہ عارفین کے مراتب ہیں۔ صاحبِ شریعت فقیر شیر کی مثل ہوتا ہے کیونکہ اسے شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شرف سے رحمن کا قرب حاصل ہوتا ہے جبکہ اہلِ بدعت فقیر شیطان کا مقرب اور مصاحب ہوتا ہے۔ صاحبِ شریعت فقیر حق تعالیٰ کے ساتھ یگانہ ہوتا ہے اور اہلِ بدعت فقیر کتے کی مانند دیوانہ ہوتا ہے۔
اہلِ بدعت اکثر فقر کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر وہ فقیر نہیں ہوتے۔ انہیں بھکاری کہنا چاہیے کیونکہ وہ خواہشاتِ نفس کا شکار اور باطن میں معرفتِ الٰہی سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ بے حیا اور داڑھی کٹوانے والے ہر در سے سوال کرتے ہیں۔ یہ بے بصیرت ساری عمر طریقت اور معرفت کی راہ نہیں جان پاتے اور رزق کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔ ایسے اہلِ بدعت کے لیے فقر چہرے کی سیاہی ہے۔ یہ لوگ دن رات گناہوں میں مشغول رہتے ہیں اور ارواح کے روحانی احوال سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ لقائے وحدانیت کے عرفان سے محروم رہتے ہیں اور باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے غافل ہوتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار سے مشرف ہونے والا اور آپ کی زیارت کرنے والا ایک ہی لمحہ میں ولی اللہ کے مراتب پر پہنچ کر محبوب اور صاحبِ عیاں عارف ہو جاتا ہے یا یکبارگی مراتبِ مجذوب پر پہنچ جاتا ہے یا یکبارگی مراتبِ محبوب پر پہنچ جاتا ہے یا یکبارگی مراتبِ حجاب اور مردود پر پہنچ جاتا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھنے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہشت کی مثل ہے جہاں ذکرِ الٰہی کے ساتھ آیاتِ قرآن اور حدیث کا بیان ہوتا ہے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں طالب کو دو مراتب حاصل ہو سکتے ہیں یا مرتبہ محبوب یا مرتبہ مردود‘ کیونکہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک کسوٹی ہے جہاں پہنچ کر ناقص طالب کے وجود کے اندر پوشیدہ کذب ظاہر ہو جاتا ہے اور صادق طالب کے وجود کے اندر پوشیدہ صدق مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ طالبِ صادق کا وجود نور ہو جاتا ہے اور اسے مجلسِ محمدی کی لازوال دائمی حضوری نصیب ہو جاتی ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ مجلسِ محمدی بہشت کی مانند ہے اور بہشت میں پاک لوگ ہی رہ سکتے ہیں۔ پلید، نجس، بدبودار مردار دنیا، شیطان اور کافر کو یہ قوت حاصل نہیں کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، بہشت، کعبہ اور مدینہ منورہ میں روضہ مبارک میں داخل ہو سکیں۔ شیطان کو ہرگز یہ قدرت حاصل نہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت، قرآن اور اس کے حروف کی صورت‘ سورج اور چاند کی صورت‘ کعبہ اور مدینہ کی صورت، بزرگ صحابہؓ کی صورت اور شاہ محی الدین پیر دستگیرؓ کی صورت اختیار کر سکے۔ غرق لی مع اللہ ہونے کے باعث یہ صورتیں ہدایت ہیں لیکن جن لوگوں کے دل حبِ دنیا جو کہ بدعت ہے‘ کے باعث سیاہ ہیں شیطان ان کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
جان لو کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک تمام انبیا، اصفیا، مرسلین اور پیغمبروں کے نیک اعمال کا ثواب جمع کر لیا جائے اور صاحبِ منصب و مراتب اور صاحبِ ولایت و ہدایت تمام اولیا اللہ غوث و قطب کے نیک اعمال کا ثواب جمع کر لیا جائے اور تمام فرشتوں، مومنین، مسلمین اور تمام جن و انس کے نیک اعمال کا ثواب جمع کر لیا جائے تو انہیں ثوابِ حسناتِ عظیم کہا جائے گا اور یہ تمام برگزیدہ ثواب اور حسناتِ عظیم‘ تصور اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہوتے ہیں جس کے ذریعے حضوری کے مراتب حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح فاسقوں، گناہگاروں، کافروں، مشرکوں، کاذبوں، ظالموں اور تمام زمین کے اہلِ گناہ کے تمام گناہ جمع کر لیے جائیں تو انہیں گناہِ کبیرہ کہا جائے گا۔ پس اللہ سے غفلت اور دوری گناہِ کبیرہ ہے جو سب کبیرہ گناہوں سے بڑھ کر ہے۔ پس اہلِ حضور اور اہلِ دور کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ قصہ خوانی اور افسانہ دانی کی راہ اللہ سے یگانہ ہو کر فنا فی اللہ ہونے کی راہ سے مختلف ہے۔ اہلِ یگانہ اور اہلِ بیگانہ کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ یہ تمام مراتب علمِ نور کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں اور علمِ نور وہ ہے جو عالم کو حضوری سے مشرف کرا دے۔
جان لو کہ حضوری دو قسم کی ہے جوحضوری تصور اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہے اور اس سے قرب اور وصالِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات کے بغیر محض ذکر، فکر، مراقبہ اور اعمالِ ظاہری سے حاصل ہونے والی حضوری ناقص کا وہم و خیال ہے جو سکر سے حاصل ہونے والی گرمئ احوال کی وجہ سے ہے اور یہ مرشدِ ناقص کی گمراہی کے سبب ہے۔ تصور بھی دو قسم کا ہے۔ ایک وہ تصور جس میں مشاہدہ سے قرب باتوفیق اور حضوری کی تحقیق حاصل ہوتی ہے اور دوسرا تصور وہ ہے جس میں حضوری نہیں ہوتی اور وہ محض شیطانی تاثیر اور ہوائے نفس کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے زندیق ہے۔جان لو کہ لذتِ ازل جس سے جمعیت حاصل ہوتی ہے‘ لذتِ ابد کی مثل ہے اور لذتِ دنیا لذتِ عقبیٰ جس میں حور و قصور اور بہشت کی نعمتیں ہیں‘ کی مثل ہے۔ جیسے ہی معرفتِ نورِ خدا کی پانچویں لذت وجود میں پیدا ہوتی ہے تو (مذکورہ بالا) چاروں لذتوں کو وجود سے باہر نکال دیتی ہے۔ ابیات:
لذت دیدار بہ دیدار دہ
لذت دیدار بر دل من بہ نہ
ترجمہ: میرے لیے لذتِ دیدار سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں لہٰذا یا ربّ مجھے لذتِ دیدار عطا کر۔
ہر کرا لذت نشد وحدت لقا
لعنتی بر زندگی آن بے حیا
ترجمہ: جس کسی نے لقا اور وحدتِ الٰہی کی لذت نہ چکھی اس بے حیا کی زندگی پر لعنت۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَفِی الْاٰخِرٰۃِ اَعْمٰی (بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: جو اس دنیا میں (دیدار سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی (دیدار سے) اندھا رہے گا۔
قطعہ:
ہر کہ این جای نہ بیند بی نصیب
بی خبر از معرفت اہل از رقیب
ترجمہ: جس کسی نے اس دنیا میں اللہ کا دیدار حاصل نہ کیا وہ بے نصیب ہے جو معرفت سے بے خبر اور اللہ کے دشمنوں میں سے ہے۔
روئے سیاہ بہ بود از دل سیاہ
دل سیاہ شد ز دنیا عزّ و جاہ
ترجمہ: دنیا کی عز و جاہ سے دل کی سیاہی پیدا ہوتی ہے اور دل کی سیاہی سے سیاہ چہرہ بہتر ہے۔
اگر تُو آئے تو تُو دیدار کر لے گا اور اگر نہ آئے تو تُو شیطان لعین کی قید میں ہے۔ بیت:
بہ بین قدرت بہ بین وحدت حضورش
بہ بین رحمت پُر از ہم ذات نورش
ترجمہ: آ اور اس کی حضوری میں اس کی قدرت اور وحدت دیکھ، رحمت اور نور سے پُر اس کی ذات کا مشاہدہ کر۔
اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ مثنوی:
اگر حجاب کنی از خدا فرشتہ شوی
چنانچہ میکنی از مردمان حجاب اینجا
ترجمہ: اگر تو خدا سے حجاب میں ہو تو تُو فرشتوں کی مثل ہوگا جو اس دنیا میں لوگوں سے حجاب میں ہوتے ہیں۔
بہ بین امروز چون گویند فردا
بعین از عین بینم نیست پردہ
ترجمہ: تو کل (روزِ قیامت) کی بات کیوں کرتا ہے تُو آج ہی (اس زندگی میں) دیدار کر۔ میں ذاتِ حق کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور میرے اور اس کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔
بہ بینم با چشم عین العیانی
چو زندہ قلب روح و نفس فانی
ترجمہ: میں کھلی آنکھوں سے اس کا بے حجاب دیدار کرتا ہوں کیونکہ جب قلب و روح زندہ اور نفس فنا ہو چکا ہو تو دیدار حاصل ہوتا ہے۔
مثل بستہ بصورت کی تواند
مشرف شد حضوری راز داند
ترجمہ: اس کی صورت (کے حسن) کی مثال کسی چیز سے نہیں دی جا سکتی۔ جو حضوری سے مشرف ہو جائے وہ یہ راز جان لیتا ہے۔
ز نَحْنُ اَقْرَب شود پیغام دائم
وجودِ واصلان زان گشت قائم
ترجمہ: حق تعالیٰ یہ دائمی پیغام دیتا ہے کہ وہ شہ رگ سے بھی قریب ہے اس پیغام کی وجہ سے واصلین کے وجود (حق تعالیٰ کی وحدت میں غرق ہونے کے باعث) ابدی ہوتے ہیں۔
فقر آنکس کہ آنجا من رسیدہ
ز غیر حق ہمہ از خود بریدہ
ترجمہ: فقر کا اصل مقام وہ ہے جہاں میں پہنچا ہوں اس کے لیے میں نے خود کو غیر حق سے مکمل طور پر الگ کیا۔
نماندہ احتیاج ذکر مذکور
حضوری باحضور است نور بانور
ترجمہ: اس مقام پر پہنچ کر ذکر کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ اس جگہ طالب حضورئ حق میں عین ذات اور نور کے ساتھ عین نور ہو جاتا ہے۔
نماندہ ہیچ پردہ چشم باز است
حقیقت حق رسیدہ عین راز است
ترجمہ: اس مقام پر طالب کی آنکھ پر کوئی حجاب باقی نہیں رہتا اور حقیقتِ حق تک پہنچ کر وہ عین ذات ہو جاتا ہے۔
زہی دولت بدیدہ حق لقا شد
قلب قالب ز وحدت حق بقا شد
ترجمہ: اس دولت کی کیا ہی بات ہے کہ آنکھوں کو حق کا دیدار اور قرب نصیب ہو اور جسم و روح کو وحدتِ حق سے بقا حاصل ہو۔
نہ آنجا علم نہ غوغای قال است
لاہوت و لامکان نہایت با جمال است
ترجمہ: اس مقام پر نہ علم کی گنجائش ہے نہ بحث و مباحثہ کا شور۔ لاھوت لامکان کے انتہائی مقام پر صرف حق تعالیٰ کا جمال ہے۔
نماندہ بر دلم افسوس مارا
بہ بینم سر پنہان آشکارا
ترجمہ: میرے دل میں کسی بھی بات کا افسوس نہ رہا کیونکہ میں رازِ پنہاں کو بے حجاب اور عیاں دیکھتا ہوں۔
دو دلی را نیست راہ یکدل طلب کن
کہ غیرے لاسوئے از دل سلب کن
ترجمہ: منافقت یعنی دو محبتوں کی اس راہ میں کوئی گنجائش نہیں لہٰذا ایک دل طلب کر (یعنی صرف اللہ سے محبت طلب کر) اور غیر اللہ ہر شے دل سے مٹا دے۔
بیا اے طالبا بے سر بیائی
سری از تن جدا کن راہنمائی
ترجمہ: اے طالب بے سر ہو کر ادھر آ۔ جب تو اپنے سر کو تن سے جدا کر دے گا تب تو رہنمائی حاصل کر سکے گا۔
باھُوؒ با ھُو فنا با ھُو بقا شد
کہ اوّل و آخر و از ھُو لقا شد
ترجمہ: باھُوؒ کو ھُو میں فنا ہو کر ھُو کے ساتھ بقا حاصل ہو گئی ہے اور ھُو کے ساتھ وصال کے بعد اس کی ابتدا اور انتہا بھی ھُو ہو گئی ہے۔
کہ ھُو عینک شدہ بہ چشم باھُوؒ
میان از ھُو بہ بیند یافت باھُو
ترجمہ: ھُو باھُوؒ کی آنکھ کے لیے چشمے کی مثل ہے۔ جو اس عینک یعنی ھُو سے دیکھتا ہی وہ باھُوؒ کی صورت کو ہی پاتا ہے۔
کسی منکر ز ھُو مردود گردد
بجز یاھُو با ھُو نیست گردد
ترجمہ: جو ھُو کا منکر ہو وہ مردود ہو جاتا ہے کیونکہ ذکرِ یاھُو کے بغیر ھُو کے ساتھ بقا حاصل نہیں ہو سکتی۔
مثل بستہ بمثل بیمثال است
ز خود رفتہ شود با حق وصال است
ترجمہ: اس بے مثل اور بے مثال ذات کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ جب طالب خود سے فنا حاصل کرتا ہے تب ہی حق سے وصال پاتا ہے۔ (جاری ہے)