آپ کے خطوط
شگفتہ اعجاز۔ اسلام آباد
سوال:شریعت اور فقر میں کیا فرق ہے؟
جواب: شریعت کی مثال ایسے ہی ہے جیسے سمندر کی سطح اور فقر سمندر کی انتہا اور گہرائی۔ یعنی اگر سمندر کی تہہ یا انتہا تک پہنچنا ہے تو ہم سطح سمندر کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سطۂسمندر یعنی شریعت سے گزر کر ہی ہم فقر کی انتہا تک پہنچ سکتے ہیں۔ شریعت ظاہری عبادات، اصول و ضوابط اور قوانین کا نام ہے لیکن فقر قلبی و باطنی طور پر ہر وقت ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بغیر کسی لالچ و غرض کے محض رضائے الٰہی کی خاطر عاجزی سے سر جھکادینے کا نام ہے۔
یہ ہمیشہ واضح رہے کہ باطن، روحانیت اور فقر کا کوئی ایسا مقام نہیں جہاں شریعت سے روگردانی کی جا سکتی ہو چاہے وہ ابتدائی مقام ہو، متوسط یا انتہائی مقام۔ فقرا کاملین بھی شریعت کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
’’ہم نے جو مرتبہ بھی حاصل کیا شریعت پر چل کر حاصل کیا۔‘‘
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں۔
فقر کی ابتدا بھی شریعت اور انتہا بھی شریعت ہے۔ اور تارکِ شریعت فقر کی خوشبو تک نہیں پہنچ سکتا۔(شمس الفقرا)
خدیجہ سعید۔لاہور
سوال: بیعت سے کیا مراد ہے اور یہ کیوں ضروری ہے؟
جواب: بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی معاملہ طے کرتے وقت اسے انجام دینے کیلئے کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے۔دنیا و آخرت کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسکی خاطر کوئی انسان اپنے آپ کو بیچ دے کیونکہ ان چیزوں کو انسان کسب و محنت، مشقت و ریاضت سے باآسانی پا سکتا ہے۔ فقط اللہ تعالیٰ کا قرب اور فقراللہ تعالیٰ کی ایسی عنایت ہے جو اللہ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے انسان اللہ تعالیٰ کے اس فضل تک پہنچنے کیلئے واسطہ اختیار کرتا ہے جس سے مراد مرشد کامل اکمل ہے جو مظہرِ ذات ہوتا ہے۔مرشد کامل کچھ شرائط پر جو شریعت کے احکام ہوتے ہیں‘ کے تحت طالب کو بیعت کرتا ہے اور قلبی کلمہ پڑھا کر ایک ہی لمحہ میں مسلمان سے مومن کے سفر پر گامزن کر دیتا ہے۔
یاد رہے کہ بیعت کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی معرفت، قرب اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کا حصول ہونا چاہیے نہ کہ دنیاوی پریشانیوں کے حل اور دیگر دنیاوی معاملات کی بہتری۔
پلوشہ خان۔ پشاور
سوال: میرا سوال ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود اس دنیا کو بنایااور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی اسی دنیا میں بھیجا تو اولیا کرامؒ دنیا کو چھوڑنے کا درس کیوں دیتے ہیں؟
جواب: ہر انسان کے نیک و بد ہونے کا فیصلہ تو اسی دن ہوگیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کی کسوٹی پر تمام ارواح (انسانوں) کو پرکھ لیا تھا کہ کون اللہ تعالیٰ کو چاہتا ہے اور کون دنیا یا آخرت کو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے بندوں کے لیے وسیع ہے اس لیے تمام ارواح کو ایک موقعہ دیا گیا اور آزمائش اور امتحان کی غرض سے اس دنیا کو بنایا گیا اور صفاتی طور پر ہر چیز میں اس کی جلوہ گری ہے تاکہ انسان بہک نہ سکے۔ اللہ اور اس کے محبوب نے دنیا میں رہنے سے منع نہیں کیا بلکہ اس کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
فقرا کاملین اور اولیا کرام پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ترکِ دنیا کا درس دیتے ہیں لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ ان کے ترکِ دنیا کے فرمان سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد یہ ہے اپنے قلب سے دنیا کی نعمتوں ،لذتوں،آسائشوں کی محبت اور خواہشات کو نکال دیا جائے تاکہ کسی مرد مرشد کے وسیلہ سے اپنے قلب میں ذاتِ حق کا جلوہ دکھائی دے کیونکہ ذاتِ باری تعالیٰ کا انسان کے ظاہری شکل و صورت سے کوئی تعلق نہیں یہ تمام چیزیں تو اس دنیا میں رہ کر اس دنیا کے معاملات چلانے کے لیے ہیں۔ فقرا اس دنیا میں رہتے ہوئے اس دنیا کے معاملات خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں اور صرف قلب سے اس دنیا کی محبت کو ختم کرنے کا درس دیتے ہیں جو کہ مرشدِ کامل اکمل کے بغیر نا ممکن ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں :
’’ میں یہ نہیں کہتا کہ جہان بھر سے علیحدگی اختیار کر لو ہاں البتہ جو کام بھی کرو اس میں یادِ خداہو اور قلب اللہ کی طرف متوجہ اور ہاتھ دنیا کے کام کی طرف ہو۔‘‘ (شمس الفقرا)
شہزاد راؤ۔ ساہیوال
سوال: کیا پیری فقیری ہر پیر، فقیر یا سیّد کے بیٹے کا حق ہوتا ہے اس کے علاوہ کوئی حقدار نہیں ہے؟
جواب: یہ بالکل غلط اور نا مناسب طریقہ کار ہے جو آجکل کے ناقص و جعلی پیروں اور فقیری کے جھوٹے دعویداروں کی وجہ سے رواج پاگیا حالانکہ اس میں کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہے۔ اگر فقراور قربِ الٰہی صرف حسب و نسب پر ہی موقوف ہوتا تو حضرت امام حسینؓ کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ آپؓ فرزندِ رسولؐ ہیں لیکن اس مقام کے حصول کے پیچھے بے انتہا قربانیاں اور صبرو آزمائش ہے۔ اس بات سے تو کسی کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خودفرمایا ہے کہ جو چلا میری راہ (فقر) پر وہی میری آل ہے۔
خاص طور پر سلسلہ سروری قادری میں ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ اس سلسلہ کے پہلے شیخِ کامل خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور سیّدنا غوث الاعظمؓ اس کے نگران ہیں۔ فقر اور امانتِ فقر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے بغیر منتقل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود اس صادق طالب کو دستِ بیعت فرماتے ہیں اور مرتبہ فقر عطا فرماتے ہیں۔
پتہ نہیں یہ کونسی فقیری یا پیری ہے جو معاذاللہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے بغیر ہی ایک دوسرے کو دیتے پھرتے ہیں ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اولاد تو فقرا کاملین کی ہیں لیکن ساری عمر ان کی مخالفت میں رہتے ہیں جیسے ہی ان فقرا کا وصال ہوتا ہے ازخود ولی بن کر فقیری کا دعویٰ کردیتے ہیں حالانکہ وہ اس چیز سے واقف نہیں ہوتے کہ محض فقیر کی نشست پر بیٹھنے سے کوئی فقیر نہیں بن جاتا بلکہ اس کیلئے زبردست روحانی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو بچوں کاکھیل نہیں ہوتا۔
اس بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں۔
* فقر سات پشتی میراث نہیں کہ کسی کو وراثت میں مل جائے۔ (عین الفقر)