خانقاہی نظام—Khanqahi Nizam

Spread the love

Rate this post

خانقاہی نظام

احسن علی سروری قادری

آج کے اس تیز رفتار سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں انسان اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردے اٹھا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنی ذات سے اس قدر غافل ہوتا جا رہا ہے کہ اپنی اصلاح، نفس کے تزکیہ، مقصدِ حیات اور اس کی تکمیل کی جانب دھیان کم ہی جاتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی خامیاں اور کجیاں تو باآسانی نظر آجاتی ہیں لیکن اپنی غلطیاں و کوتاہیاں نظر نہیں آتیں۔ ہم اپنے بچوں کو دنیاوی علوم سے آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں، دنیا کی مشکلات سے نبٹنے کے طریقے بھی بتاتے ہیں، لوگوں کو چکر دینا، مکر و فریب اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والے کو ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹ کی صفائی اور دھوکہ دہی انسان کی خاص خوبی بن چکی ہے کہ اگر اپنے مفاد کے لیے کسی سے جھوٹ بھی بولناپڑے تو کوئی مضائقہ نہیں، اپنی ترقی اور خوشیوں کے لیے کسی کی خوشیوں کو غارت کرنا پڑے تو بھی حرج نہیں۔ کیا یہی ترقی ہے؟ خود سے اور اخلاقیات سے غافل اور اپنے خالق سے بے خبر۔۔۔ دنیاوی اور ظاہری ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں لیکن روحانی و باطنی ترقی سے غافل۔ ہم اپنے لیے بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن اس بہترین کا معیار ہر کسی کے لیے مختلف ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہترین طلب‘ اللہ کی طلب کو قرار دیا ہے جبکہ ہمارے لیے بہترین مال و دولت کی زیادتی ہے۔ کیا اس ہنگامہ اور نفس پرستی کے دور میں اس امر کی ضرورت نہیں کہ ہم نوجوانوں کی تربیت ان خطوط پر کریں جن خطوط پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام کی تربیت کی۔ ان کو یہ نظریہ اور شعور دیں کہ قلبی سکون نعمتوں کی فراوانی میں نہیں بلکہ اللہ کی یاد میں ہے۔ ان کو احساس دلائیں کہ دوسروں کے عیبوں اور خامیوں کی تشہیر سے قبل ہم اپنی اصلاح اور محاسبہ نفس کی طرف توجہ دیں کیونکہ ہم اپنی زندگی اور اس کے اعمال کے جوابدہ ہیں نہ کہ دوسروں کی زندگی کے۔ اس کے لیے ضرورت ہے ایک ایسے ماحول کی جو ا نسان کو یہ سب چیزیں مہیا کر سکے کہ انسان واقعی ہی میں انسان بن جائے۔ جہاں محاسبہ نفس کے شعور کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس کی دولت بھی نصیب ہو۔ ظاہر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ باطن کی بھی درستگی ہو کیونکہ اگر روح و قلب پاکیزہ ہوں گے تو ہی ظاہر بھی اس کی متابعت میں نیک اور پاک اعمال و افعال سرانجام دے گا۔
ایسا پاکیزہ اور روحانی ماحول کسی ولیٔ کامل کی بارگاہ میں ہی میسر آسکتا ہے۔ ایک مرشد کامل اکمل ہی وہ ہستی ہے جو اپنی نگاہِ کامل سے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور طالبِ مولیٰ کی تربیت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کرتا ہے۔ جس کے لیے وہ ایسی تربیت گاہ کی بنیاد رکھتا ہے جو کہ خانقاہ کے نام سے جانی جاتی ہے‘ جہاں ظاہری کی پاکیزگی اور اصلاح سے پہلے نفس و باطن کی پاکیزگی اور اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں بھی ایک ایسی ہی درسگاہ صفہ کے چبوترے پر قائم تھی جہاں قیام کرنے والے اصحابِ صفہ کے نام سے معروف ہیں۔ جو اپنی دنیاوی فکروں اور الجھنوں کو بھلا کر اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دورِ حیات کے بعد بھی صوفیا کرام نے خانقاہوں کے قیام کی روایت کو برقرار رکھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نگاہ میں خانقاہوں کا تصور بدلتا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ عوامل تھے جن کے وقوع پذیر ہونے سے خانقاہوں کا معیار بدل گیا۔ خانقاہوں کے قیام کا مقصد لوگوں کو دعوت الی اللہ دینا تھا۔ دنیاوی علائقوں اور لذتوں سے ان کا منہ موڑ کر ان کا دھیان اللہ کی جانب لگانا تھا لیکن جب خانقاہوں کی بنیاد رکھنے والے اولیا کرام اور فقرا کاملین اس دنیا سے پردہ کر گئے تو ان کی گدیوں پر مفاد پرستوں نے قبضہ کر لیا جن کی غیر شرعی اور بے لگام حرکات کے باعث خانقاہوں کا مقام و مرتبہ اور عظمت لوگوں کی نگاہ میں ختم ہو گئی۔ بقول اقبال:

اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

ذیل میں کچھ ایسے عوامل بیان کیے جا رہے ہیں جو خانقاہ میں قیام پذیر مریدین اور طالبانِ مولیٰ کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

خانقاہ کا نظامِ تربیت

طالبانِ مولیٰ طلبِ حق اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت میں وقتاً فوقتاً حاضر ہوتے رہتے ہے جہاں مرشد کی نورانی صحبت اور پُرتاثیر گفتگو طالبانِ مولیٰ کے باطن کو منور کر کے پاکیزگی اور نور بخشتی ہے لیکن طالب کی دینی و دنیاوی لحاظ سے اصل تربیت خانقاہ میں قیام سے ہی ممکن ہے۔ جہاں بہت سے مریدین اور محبین اپنی تربیت کے لیے قیام پذیر ہوتے ہیں۔
جس طرح دنیاوی علوم کی تحصیل کے لیے کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا ضروری ہے اسی طرح طالبِ مولیٰ کے لیے بھی اپنی باطنی تربیت کے لیے خانقاہ میں قیام کرنا ضروری ہے اگرچہ یہ قیام مختصر وقت اور چند روز کے لیے ہی ہو۔
خانقاہ کا ماحول سب سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے جہاں طالبِ مولیٰ دنیا کی رنگینیوں اور لذتوں سے دور ایک ایسی جگہ قیام پذیر ہوتا ہے جہاں اس کا دھیان غیر اللہ سے موڑ کر اللہ کی طرف مبذول کیا جاتا ہے ۔
خانقاہ میں مختلف ماحول اور علاقوں کے پروردہ لوگ تربیت کے لیے قیام پذیر ہوتے ہیں جن کے مزاج اور رہن سہن میں فرق بھی دوسرے لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے جہاں مل جل کر رہتے ہوئے مزاج کی ترشی اور بول چال کی سختی کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف بھائی چارے کی مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایک دوسرے کی محبت و نفرت کو بھی برداشت کرتا پڑتا ہے۔جس سے طالبانِ مولیٰ کی اخلاقی تربیت بھی ہو تی ہے۔
مختلف تعلیمی معیار اور روحانی مراتب کے اعتبار سے طالبانِ مولیٰ راہِ فقر و معرفت کے مختلف موضوعات زیرِ بحث لاتے ہیں جس سے طالبانِ مولیٰ کے ذہن کو ایک نئی طرزِ فکر عطا ہوتی ہے۔ انسانی ذہن جو دنیا میں رہ کر مال و دولت کے حصول کے لیے ہی سوچ بچار کرتا رہتا ہے خانقاہ میں قیام کے دوران سوچ کا رُخ ہی بدل جاتا ہے۔
خانقاہ میں قیام کے دوران طالبانِ مولیٰ کے ذمہ مختلف قسم کے فرائض کی انجام دہی بھی ہوتی ہے جیسا کہ خانقاہ کی صفائی ستھرائی، لنگر پاک کی تیاری اور دیگر ترقیاتی امور جیسا کہ کتب و رسائل کی اشاعت اور دعوت و تبلیغ کی ادائیگی وغیرہ۔ ان امور کی صدقِ دل اور خلوصِ نیت سے ادائیگی سے طالبِ مولیٰ کے نفس کا تزکیہ بھی ہو جاتا ہے اور نفس پر جمی میل اور دنیاوی خواہشات اور ہوا و ہوس کے پردے بھی دور ہو جاتے ہیں۔
خانقاہ میں طالبانِ مولیٰ کے لیے ناچ گانا، موسیقی اور تمباکو نوشی وغیرہ کی ممانعت ہے جو صرف اور صرف انسان کی سوچ اور خیالات کو پراگندہ کرتے ہیں۔ قیام کے دوران طالبانِ مولیٰ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ خانقاہ میں ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے مواقع فرصت سے میسر آتے ہیں اور روحانی ماحول کی برکت سے دیگر عبادات میں بھی سرور حاصل ہوتا ہے۔ اسمِ اللہ ذات کا ذکر اور تصور طالبانِ مولیٰ کو نہ صرف روحانی امراض سے نجات عطا کرتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ صفاتِ الٰہیہ سے متصف کرتا ہے اور خُلقِ محمدی جیسا کہ صبر و تحمل، محاسبہ نفس، تواضع و حیا، غنایت و جمعیت، تقویٰ، خشیت الٰہی،محبتِ الٰہی، اطاعتِ الٰہی وغیرہ سے بھی نوازتا ہے۔
خانقاہ میں قیام کے دوران طالبانِ مولیٰ کو اپنے نفس کے محاسبہ کے لیے فرصت کے لمحات میسر آتے ہیں جس کے باعث وہ اپنی ظاہری و باطنی اصلاح اور درستگی کے لیے سوچ بچار کرتا ہے اور ایسے غیر اخلاقی امور کر ترک کر دیتا ہے جو اللہ پاک کے غصے اور ناراضگی کا باعث ہوتے ہیں۔
خانقاہ میں قیام کے دوران مرشد کامل اکمل سے ملاقات کے مواقع بھی میسر آتے ہیں اور مرشد کی نورانی صحبت سے طالبِ مولیٰ کے دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت عطا کی جاتی ہے۔ طالبِ مولیٰ اپنی طلب میں شدت اور عشق حاصل کرتے ہیں ان کے اندر اللہ اور اس کے رسول اور دینِ اسلام کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
خانقاہ میں دورانِ قیام بزرگوں اور اسلاف کی روایات سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ دینِ حق کے لیے ان کی جدوجہد اور قربِ حق کے لیے کی گئی محنت سے واقفیت کی بنا پر طالبانِ مولیٰ کے اندر بھی وہی جذبہ اور عشق پیدا ہوتا ہے اور اللہ کے قرب و وصال کے لیے ان کی تڑپ میں اضافہ ہوتا ہے۔
خانقاہ میں قیام کے دوران نفسانی و روحانی بیماریوں مثلاً بغض و کینہ، حسد و تکبر، جھوٹ و چغلی وغیرہ جیسے امراض سے بھی نجات حاصل ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے متعلق پیدا ہونے والے بُرے خیالات، وہمات اور وساوس سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے اور مثبت سوچ کی طرف رحجان پیدا ہوتا ہے۔
حاصل تحریر یہ کہ ان نام نہاد صوفیا کی بدنام حرکتوں کے باوجود ہر زمانہ میں مرشد کامل اکمل خانقاہ کے قیام کی بنیاد رکھتے رہے ہیں اور حق کے متلاشی ان خانقاہوں تک پہنچ ہی جاتے تھے۔آج بھی ایک ایسی ہی خانقاہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی زیرِ نگرانی اسی روح کے ساتھ رواں دواں ہے جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تھی اور جس طرح بعد میں آنے والے فقرا کاملین کے زمانے میں تھی۔آئیے آپ بھی اس خانقاہ میں قیام سے مرشد کامل اکمل کی صحبت سے مستفیض ہوں کیونکہ خانقاہ ہی وہ بابرکت اور وحانی جگہ ہے جہاں دلوں کی میل اور زنگ دور کر کے نورِ الٰہی بھرا جاتا ہے۔ خانقاہ میں قیام سے ہی انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی ممکن ہے۔ دنیاوی مال و متاع کے حصول اور کاروبار میں ملازمت کی غرض سے تو ہم دنیا کے دوسرے کونے میں بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن اپنی اصلاح او رتربیت کی غرض سے کسی مرشد کامل کی صحبت اختیار کرنا ہمارے لیے دشوار ہے۔ تو ہمت کریں اس مشکل کو آسان کرنے کی۔ اور مرشد کی صحبت میں رہ کر اپنے باطن کو منور کریں اور اللہ کی پہچان اور قرب حاصل کریں۔
حضور مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے طالبانِ مولیٰ کی تربیت کے لیے ایک نئی وسیع و عریض خانقاہ اور اس کے ساتھ جامع مسجد کی تعمیر کے مشن کا آغاز فرمایا ہے۔ مخیر حضرات اور طالبانِ مولیٰ اس تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ جب تک یہ مسجد و خانقاہ قائم رہے گی اس میں ظاہری و باطنی اصلاح پانے والے طالبانِ مولیٰ کی برکت سے حصہ ڈالنے کا اجر انہیں بھی ملتا رہے گا۔


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں