سلطان الفقر اوّل سیدۃ النساحضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا | Syeda Tul Nisa Hazrat Fatima tul Zahra


1/5 - (1 vote)

سلطان الفقر اوّل سیدۃ النساحضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا

مسز عنبرین مغیث سروری قادری ایم اے (ابلاغیات)

کائنات کی عظیم ترین ہستی‘ باعثِ فخرِ موجودات محبوبِ الٰہی آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب معراج حاصل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کے اٹھارہ ہزار عالم کو آراستہ و پیراستہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے پیش کیا اور پوچھا کہ اے محبوب! آپ کو ان سب میں کیا پسند آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ مجھے ’’فقر‘‘ یعنی خود تیری ذات ہی پسند آئی اور میں تجھ سے تجھ کو ہی مانگتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے صورتِ فقر اپنی ہی ذات کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے قرب و وصال کی انتہاانا انت و انت انا(تو میں ہے اور میں تو ہوں) سے نوازا۔ فقر سے مراد ماسویٰ اللہ ہر شے سے قطع تعلق کر کے اپنے ظاہر و باطن کو ذاتِ الٰہی میں یوں فنا کرنا ہے کہ سوائے اللہ کے انسانی وجود میں کچھ باقی نہ رہے۔ فقر کی انتہا تک رسائی آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سب سے عظیم سنت اور ان کے توسط سے امتِ محمدیہ کو ملنے والا ورثہ ہے۔ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس لازوال ورثہ اور ذاتِ حق تعالیٰ کی اس امانت کا وارث بننے کا لائق تمام امت میں سے صرف وہی ہوتا ہے جو ظاہر و باطن میں ہر طرح سے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل اتباع کرے۔ دنیا کی ہر شے کی طلب اور محبت دل سے نکال کر صرف اللہ کا ہو جائے اور اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کی انتہاؤں کو چھو لے۔

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عظیم اصحاب رضی اللہ عنہم امت ِمحمدیہ میں سب سے محترم و کامل ہستیاں ہیں۔ ان کے عشق ِ رسول اور محبتِ الٰہیہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ ان عظیم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین   میں سے اس ہستی کا انتخاب کرنا‘ جو اپنے عشق و ایمان اور ماسویٰ اللہ سے لاتعلقی میں کامل ترین اور فقر کی وارث بننے کے لائق ہو‘ آسان نہ تھا لیکن ہمارے پیارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جگر گوشہ‘ ان کے جسم و روح کی حصہ‘ سیدّۃ النسا خاتونِ جنت جناب فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی اپنی ذات کی اللہ تعالیٰ کو مکمل خود سپردگی، دنیا سے لاتعلقی، عشقِ رسولؐ اور ان کی کامل اتباع نے آپ رضی اللہ عنہا کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی نظر میں بجا طور پر فقر کی پہلی وارث اور سلطان بنا دیا۔ اگرچہ فقر کے تمام وارثین اور سلاطین کو یہ درجہ ازل سے ہی حاصل ہوتا ہے لیکن دنیا میں آکر اس تک رسائی حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ذاتِ حق تعالیٰ اور عشقِ رسولؐ میں خود کو فنا کر دینا موت و حیات اور فنا و بقا کے انتہائی کٹھن مراحل ہیں، نفس و دنیا و شیطان کسی انسان کو بہکانے اور ورغلانے سے باز نہیں آتے۔ قدم قدم پر ہر لمحہ زندگی ان سے مقابلہ جاری رہتا ہے۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت ہو کر‘ جسے عموماً کمزور سمجھا جاتا ہے‘ نفس و شیطان کی اس جنگ کو بفضلِ الٰہی اور اپنے عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی قوت سے جیتا اور فنا و بقا کے تمام مراحل کو رازداری اور خاموشی سے عبور کیا۔ بظاہر دنیا کی تمام ذمہ داریاں نبھائیں‘ بیٹی، بیوی، ماں، بہو ہونے کے تمام فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہوئیں۔ ہر رشتے کے تقاضوں کو بہترین طریقے سے پورا کیا لیکن باطن میں اپنا تعلق صرف اور صرف اپنے اللہ سے جوڑے رکھا۔ اقبال رحمتہ اللہ علیہ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مریمؑ از یک نسبت عیسیٰ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہراؓ عزیز

یعنی حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی عظمت و شان کی وجہ ان کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نسبت ہے۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی شان میں قرآن رطب اللسان ہے۔ لیکن جب حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی نسبت اور عظمت کا موازنہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے کیا جاتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہا حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے  ہفت افلاک کی بلندیوں پر نظر آتی ہیں۔ ان نسبتوں کو اقبالؒ یوں بیان کرتے ہیں:

نور چشمِ رحمۃ اللعالمین
آں امام اوّلین و آخرین

پہلی نسبت یہ کہ آپ رضی اللہ عنہا آقائے دو جہاں، نبیوں کے سردار اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آنے والے سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظیم دختر نیک اختر ہیں اور ان کو دنیا میں سب سے عزیز ہیں۔ دوسری نسبت یہ کہ بابِ فقر‘ شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پیاری وفادار زوجہ محترمہ ہیں‘ جن کی شان میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے  ’’جس کا علیؓ مولا اس کا میں مولا۔‘‘ تیسری نسبت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان کو چار چاند لگاتی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی گود اور تربیت میں ان شہزادوں نے پرورش پائی جو سالارِ کاروانِ عشق ہیں۔ یہ آپ رضی اللہ عنہا کی تربیت کا فیض تھا کہ ایک شہزادے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مسلمانوں کی بقا اور اتحاد کی خاطر تخت و تاج کو ٹھکرا دیا اور دوسرے صاحبزادے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے اور اپنے تمام خاندان کے خون کی قربانی دے کر دینِ اسلام کو نئی زندگی عطا کی اور امت کو باطل کے سامنے کبھی نہ جھکنے کا درس دیا۔

اگرچہ یہ تمام نسبتیں سیدۃ النسا کی چادر میں چاند تاروں کی طرح روشن ہیں اور آپ رضی اللہ عنہا کی شخصیت کو مزید پرنور اور شاندار بنا رہی ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہا کے سلطان الفقر اور فقر کی پہلی وارث ہونے کی وجہ یہ نسبتیں ہرگز نہیں بلکہ آپ رضی اللہ عنہا کا اپنے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے گہرا قلبی و باطنی تعلق ہے جس کی خاطر آپ رضی اللہ عنہا نے دنیا کی ہر آسائش‘ جو بآسانی آپ رضی اللہ عنہا کے قدموں پر ڈھیر ہو سکتی تھی‘ ٹھکرا دی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے قلب کی انتہائی پاکیزگی اور اس قلب میں ذاتِ الٰہی کے قرب کی شدید طلب نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور اس قلب کو ذاتِ الٰہی کے قیام کے لیے بہترین قرار دیا۔ 

نہ صرف یہ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا ہر لمحہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مکمل اتباع اور عشق میں گزرا بلکہ باطنی اعمال و قلبی احوال میں بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے اعلیٰ مقام تک پہنچ گئیں۔ باطنی اعمال میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شدید ترین محبت، طلب اور اس محبت کی تڑپ میں ہر لمحہ جلتے رہنا اور فنا ہوتے رہنا شامل ہے‘ جس کے نتیجے میں اللہ اپنے قرب اور اپنے ساتھ بقا سے اپنے طالب کو نوازتا جاتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اسی باطنی عمل میں سب پر سبقت لے گئیں اور چونکہ یہ طالب و مطلوب کی خلوت اور رازداری کی بات ہے اس لیے نہ اس کا چرچا عام ہوا نہ ہی کتابوں میں لکھا گیا، صرف اللہ اور اس کا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی آپ رضی اللہ عنہا کی اس قلبی حقیقت سے آگاہ تھے۔ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی لاڈلی صاحبزادی کے اس مقام کو احادیثِ مبارکہ میں آپ رضی اللہ عنہا سے خصوصی محبت کے اظہار کے ذریعے واضح کیا اور اس نعمتِ فقر کی بدولت، جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ  نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کو’’ انا انت و انت انا‘‘کا مقام عطا فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے اُسی نعمت ِ فقر کے باعث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا ’’فاطمہؓ مجھ سے ہے‘‘ اور فرمایا:
فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (متفق علیہ)

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’بے شک فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور مجھے ہرگز یہ پسند نہیں کہ کوئی شخص اسے تکلیف پہنچائے۔‘‘ (متفق علیہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ’’بے شک تمہاری ناراضگی پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور تمہاری رضا پر راضی ہوتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)

حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے عرصہ حیات کا جائزہ آپ رضی اللہ عنہا کی پاکیزگی، عشقِ الٰہی، صفائیِ قلب اور عشق و اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا گواہ ہے۔ 

آپ رضی اللہ عنہا آقائے دو جہاں اور ان کی غم گسار عزیز از جان زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سن 5 قبل از بعثت اس وقت پیدا ہوئیں جب آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا کی تنہائیوں میں غور و تفکر میں مصروف رہتے تھے۔ ان دنوں قریشِ مکہ کعبہ کی از سر نو تعمیر میں مصروف تھے۔ 

روایات کے مطابق سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فطری طور پر ہی نہایت متین اور تنہائی پسند طبیعت کی مالک تھیں۔ بچپن میں انہوں نے نہ کبھی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ گھر سے باہر قدم نکالا۔ چونکہ والدین کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ان سے غایت درجہ کی محبت تھی۔ ننھی سیدّہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی میں اپنے فخر موجودات پدر گرامی   کی عادات، اطوار، رفتار و گفتار کو غور سے دیکھتی رہتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عاداتِ مقدسہ کو اپنے آئینہ قلب پر نقش کرتی رہتی تھیں۔ 

ذہانت و فطانت

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا وقتاً فوقتاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ایسے ایسے سوالات پوچھتیں جن سے ان کی ذہانت اور فطانت اور عشقِ الٰہی کا اظہار ہوتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک دن سیدّہ رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ ماجدہ سے پوچھا کہ اماں جان‘ اللہ تعالیٰ جس نے دنیا اور دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے‘ کیا وہ ہمیں نظر بھی آسکتا ہے؟ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’بیٹی اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور نیکی کریں، اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے باز رہیں، کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائیں صرف اسی کی عبادت کریں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائیں تو قیامت کے دن ہم ضرور اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔‘‘ یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل میں ہوش سنبھالتے ہی اللہ کے دیدار اور قرب حاصل کرنے کی طلب پیدا ہو چکی تھی۔ اسی طلب کی وجہ سے وہ دنیا اور اس کی خواہشات سے بچپن میں ہی بیزار اور بے نیاز ہو چکی تھیں۔ اسی شوق اور طلب میں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کمسنی میں ہی علمِ معرفتِ الٰہی حاصل کرنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ان کی طلب کو دیکھتے ہوئے انہیں خداشناسی کی باتیں بتاتے رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہا کو کمال درجے کی ذہانت عطا کی تھی۔ جو بات ایک بار سن لیتیں ہمیشہ یاد رکھتیں۔

استغنا

سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دنیا کی نمودونمائش سے بچپن ہی میں سخت نفرت تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کسی عزیز کی شادی میں جانے کے لیے اپنی بچیوں کے لیے اچھے اچھے نئے کپڑے بنوائے۔ جب گھر سے چلنے کا وقت آیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کپڑوں کی بجائے سادہ کپڑے پہننے کو ترجیح دی اور سادہ کپڑوں میں ہی محفلِ شادی میں شریک ہوئیں۔ گویا بچپن سے ہی ان کی عادات و اطوار سے خدا دوستی اور استغنا کا اظہار ہوتا تھا۔

10؁ نبوی میں غمگسارِ رسولؐ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جان جانِ آفرین کے سپرد کی تو سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ایک تو پیاری والدہ کی جدائی کا غم اُس پر عزیز ازجان والدکی پریشانی کا دکھ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دکھ کو دوگنا کردیتا۔ دوسری طرف تبلیغِ حق کے ’’جرم‘‘ میں مشرکینِ مکہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بڑی تکلیفیں پہنچاتے‘ کبھی سرِ اقدس پر خاک ڈال دیتے، کبھی راستے پر کانٹے بچھا دیتے۔ جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  گھر تشریف لاتے تو باوجود کمسنی کے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا انہیں تسلی دیا  کرتیں۔ کبھی وہ خود بھی اپنے جلیل القدر والد کی مصیبتوں پر اشکبار ہو جاتیں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انہیں تسلی دیتے اور فرماتے ’’میری بچی‘ گھبراؤ نہیں خدا تمہارے باپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔‘‘ سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسے ہی نامساعد حالات میں پرورش پائی۔ آپ اپنے عظیم والد اور ان کے نام لیواؤں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے  دیکھتیں تو آزردہ تو بہت ہوتیں لیکن کبھی ان حالات سے خوفزدہ نہ ہوتیں‘ ہر مشکل موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  کی غم گساری اور خدمت کی لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے رو دھو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تبلیغِ حق سے منع کیا ہو۔

ایک روز خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حرمِ مکہ میں تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خانہ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ کفار کو اسی دوران ایک حماقت سوجھی اور انہوں نے ایک اونٹ کی اوجھڑی لاکر سجدے کی حالت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم   کی گردن مبارک پر لاد دی۔ اس بدبخت گروہ کا سرغنہ عقبہ بن ابی معیط تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ خبر دی تو آپ رضی اللہ عنہا بے چین ہو کر دوڑتی ہوئی کعبہ پہنچیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گردن مبارک سے اوجھڑی ہٹائی۔ کفار اردگرد کھڑے ہو کر ہنستے اور تالیاں پیٹتے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک خشم آلود نگاہ ان پر ڈالی اور فرمایا ’’شریرو! احکم الحاکمین تمہیں ان شرارتوں کی سزا ضرور دے گا۔‘‘

قناعت پسندی

حضرت فاطمۃ الزہراؓ رفتار و گفتار اور عادات و خصائل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بہترین نمونہ تھیں۔ وہ نہایت متقی، صابر، قانع اور دیندار خاتون تھیں۔ گھر کے تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دینے اور چولہا پھونکنے سے کپڑے میلے ہوجاتے تھے لیکن ان کی پیشانی پر بل نہیں آتا تھا۔ گھر کے کاموں کے علاوہ عبادت بھی کثرت سے کرتی تھیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تنگدست رہتے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فقر و فاقہ میں ان کا پورا پورا ساتھ دیا۔ جلیل القدر والد  شہنشاہِ دو جہان ہیں لیکن داماد اور بیٹی پر کئی کئی وقت کے فاقے گزر جاتے تھے۔ ایک دن دونوں میاں بیوی آٹھ پہر سے بھوکے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو کہیں سے مزدوری میں ایک درہم مل گیا۔ رات ہو چکی تھی۔ ایک درہم کے جَو خرید کر گھر پہنچے۔ سیدّہ فاطمہ بتولؓ نے ہنسی خوشی اپنے خاوند سے جَو لے کر چکی میں پیسے، روٹی پکائی اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے سامنے رکھ دی۔ جب وہ کھا چکے تو خود کھانے بیٹھیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت سید البشر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد یاد آیا ’’فاطمہؓ دنیا کی بہترین عورت ہے۔‘‘ 

ایک بار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  حضرت فاطمہؓ کے ہاں تشریف لے گئے، دیکھا کہ سیدّۃ النساؓ اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اس میں بھی تیرہ پیوند لگے ہیں۔ آٹا گوندھ رہی ہیں اور زبان پر کلامِ اللہ کا ورد جاری ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ منظر دیکھ کر آب دیدہ ہوگئے اور فرمایا ’’فاطمہؓ دنیا کی تکلیف کا صبر سے سامنا کر اور آخرت کی دائمی مسرت کا انتظار کر اللہ تمہیں نیک اجر دے گا۔‘‘ 

سخاوت

حضرت ابنِ عباسؓ راوی ہیں کہ ایک بار حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ساری رات ایک باغ سینچا اور اجرت میں تھوڑے سے جَو حاصل کیے۔ حضرت فاطمہؓ نے ان کا ایک حصہ لے کر آٹا پیسا اور کھانا پکایا۔ ابھی کھانا پک کر تیار ہی ہوا تھا کہ ایک مسکین نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا ’’میں بھوکا ہوں۔‘‘ سیدّۃؓ نے وہ سارا کھانا اسے دے دیا۔ پھر باقی اناج کا کچھ حصہ لے کر پیسا اور کھانا پکایا۔ عین کھانے کے وقت ایک یتیم نے دروازہ پر آکر دستِ سوال دراز کیا۔ وہ سب کھانا بھی اسے دے دیا۔ پھر باقی اناج پیسا اور کھانا تیار کیا اتنے میں ایک مشرک قیدی نے اللہ کی راہ میں کھانا مانگا۔ وہ سب کھانا اسے دے دیا۔ غرض سب اہلِ خانہ نے اس دن فاقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاسِیْرًا  (سورۃ الدھر۔8)
ترجمہ: اور وہ اللہ کی راہ میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

ایک بار کسی نے سیدّہؓ سے پوچھا۔ چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ کیا ہوگی۔ سیدّہؓ نے فرمایا ’’تمہارے لیے صرف ایک اونٹ اور اگر میرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو میں سارے ہی راہِ خدا میں دے دوں۔‘‘ 

عابدہ و زاہدہ

فاطمۃ الزہراؓ اس فقر و غنا کے ساتھ کمال درجہ کی عابدہ تھیں۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی ماں کو شام سے صبح تک عبادت کرتے اور خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے دیکھا لیکن انہوں نے اپنی دعاؤں میں اپنے لیے کبھی کوئی درخواست نہ کی۔‘‘ ایک دفعہ سیدّہؓ علیل تھیں لیکن علالت میں بھی رات بھر عبادت میں مصروف رہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ  نے واپس آکر ان کو چکی پیستے دیکھا تو فرمایا ’’اے رسولِ خدا کی بیٹی! اتنی مشقت نہ اٹھایا کرو۔ تھوڑی دیر آرام کر لیا کرو۔ کہیں زیادہ بیمار نہ ہو جاؤ۔‘‘ فرمانے لگیں ’’خدا کی عبادت اور آپ کی اطاعت مرض کا بہترین علاج ہے۔ اگر ان میں سے کوئی میری موت کا باعث بن جائے تو اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی کیا ہوگی۔‘‘ 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نہایت رقیق القلب تھیں۔ روزِ محشر کا ذکر سنتیں تو رونا شروع ہو جاتیں، جسم ِاطہر میں کپکپاہٹ اور لب پر استغفر اللہ کا ورد جاری ہوجاتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے ’’میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھتا تھا کہ کھانا بھی پکا رہی ہیں اور خدا کا ذکر بھی ساتھ ساتھ کرتی جا رہی ہیں۔ چکی بھی پیس رہی ہیں اور لبوں پر آیاتِ قرآنی کا ورد بھی جاری ہے۔‘‘ اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے کام کاج میں مشغولیت کے دوران قرآنِ کریم کی تلاوت میں مصروف رہتی تھیں۔ بقول اقبالؒ 

نوری و ہم آتشی فرمانبرش
گم رضایش در رضائے شوہرش
آن ادب پروردۂ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
اشک او برچید جبریل از زمین
ہمچو شبنم ریخت بر عرش برین

مفہوم: اقبالؒ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اتنے بلند درجات کی حامل اور عظمت و شوکت کی مالک تھیں کہ فرشتے اور جنات بھی آپ رضی اللہ عنہا کے تابع فرمان تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہا کی عاجزی و انکساری کا یہ عالم تھا کہ اتنے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھی اپنے شوہر کی رضا میں اپنی رضا کو گم کر چکی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش پائی جو صبر و رضا کے پیکر تھے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا بھی صبر و رضا کا پیکر بنیں۔ چکی پیستے پیستے آپ رضی اللہ عنہا کے مبارک ہاتھوں میں زخم ہوگئے تھے۔ بے حد تکلیف کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا کے نازک ہاتھ چکی پیستے رہتے اور زبان مبارک پر قرآنی آیات کا ورد جاری رہتا۔ دن بھر کام کاج سے تھک کر جب رات کو اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوتیں تو عشقِ الٰہی سے سرشار آنکھوں سے بے اختیار آنسوچھلک پڑتے یہ اشک اتنے پاکیزہ اور اللہ کے ہاں اتنے گرانقدر تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ انہیں زمین سے چن کر شبنم کے موتیوں کی طرح عرشِ بریں پر برساتے۔ (رموزِ بیخودی)

الغرض جس طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کی طرف سے فرض کی گئیں تمام دینی و دنیوی زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھایا کسی عام عورت یا مرد کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ ربّ کائنات کی رضا جوئی اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی پیروی ہی آپؓ کی حیات کا کل اثاثہ تھا۔ احکامِ الٰہی اور فرمانِ محبوبِ الٰہی   ہی آپؓ کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپؓ کو لقب ’’بتول‘‘ یعنی ’’اللہ کی راہ میں دنیا سے قطع تعلق کرلینے والی سچی اور بے لوث بندی‘‘ عطا کیا  گیا۔

بلاشبہ آپ رضی اللہ عنہا کی حیاتِ طیبہ تمام مومن خواتین کے لیے مثالی نمونہ ہے جس کی پیروی سے وہ اللہ کی رضا حاصل کر کے اس کی محبوب بن سکتی ہیں۔

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سیدّہؓ سے پوچھا: ’’جانِ پدر (مسلمان) عورت کے اوصاف کیا ہیں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’ابا جان عورت کو چاہیے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کرے، اولاد پر شفقت کرے، اپنی نگاہ نیچی رکھے، اپنی زینت کو چھپائے، نہ خود غیر کو دیکھے نہ غیر اس کو دیکھ پائے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد ان کی جدائی کا سب سے زیادہ صدمہ سیدّہ فاطمۃ الزہراؓ کو ہوا اور وہ ہر وقت غمگین و دل گرفتہ رہنے لگیں۔ تمام کتب سیر متفق ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد کسی نے سیدّہ فاطمہؓ کو ہنستے ہوئے نہیں  دیکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت کے چھ ماہ بعد ہی 3 رمضان المبارک 11 ہجری کو 29 سال کی عمر میں عازمِ فردوسِ بریں ہوئیں۔ وفات سے پہلے حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہاق کو بلا کر فرمایا ’’میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے خود اپنے اور میرے شوہر کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔ تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا۔‘‘ 

جنازہ میں بہت کم لوگوں کو شرکت کا موقع ملا کیونکہ سیدّہؓ کی وفات رات کے وقت ہوئی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وصیت کے مطابق رات ہی کو دفن کیا۔ نمازِ جنازہ حضرت عباسؓ نے پڑھائی۔ دارِ عقیل کے ایک گوشہ میں مدفون ہوئیں۔ سیدۃ النسا فاطمۃ الزہراؓ کی چھ اولادیں ہوئیں۔ حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ،  حضرت امام محسنؓ، حضرت اُمِ کلثومؓ،‘ حضرت رقیہؓ اور حضرت زینبؓ۔ محسنؓ اور رقیہؓ نے بچپن ہی میں انتقال کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسل سیدّہ فاطمۃ الزہراؓ ہی سے باقی  ہے۔

خاتونِ جنت سیدّۃ النسا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان بیان کرتے ہوئے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’میری بیٹی فاطمہؓ قیامت کے دن اس طرح اُٹھے گی کہ اُس پر عزت کا جوڑا ہوگا جسے آبِ حیات سے دھویا گیا ہے۔ ساری مخلوق اُسے دیکھ کر دنگ رہ جائے گی۔ پھر اُسے جنت کا لباس پہنایا جائے گا جس کا ہر حُلّہ ہزار حلوں پر مشتمل ہوگا۔ ہر ایک پر سبز خط سے لکھا ہوگا ’محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی کو احسن صورت، اکمل ہیبت، تمام تر کرامت اور وافر تر عزت کے ساتھ جنت میں لے جاؤ‘۔ پس آپؓ کو دلہن کی طرح سجا کر ستر ہزار حوروں کے جھرمٹ میں جنت کی طرف لایا جائے گا۔‘‘

حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے ’’روزِ محشر عرش کی گہرائیوں سے ایک ندا دینے والا آواز دے گا اے محشر والو! اپنے سروں کو جھکا لو اور اپنی نگاہیں نیچی کر لو تاکہ فاطمہؓ بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پل صراط سے گزر جائیں۔ پس آپؓ گزر جائیں گی اور آپؓ کے ساتھ حورعین میں سے چمکتی بجلیوں کی طرح ستر ہزار خادمائیں ہوں گی۔‘‘ 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مومن خواتین کو سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں عشقِ حقیقی کے پاکیزہ جذبے سے سرشار فرمائے۔ آمین

 
 

44 تبصرے “سلطان الفقر اوّل سیدۃ النساحضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا | Syeda Tul Nisa Hazrat Fatima tul Zahra

    1. سیّدۃ النسا خاتونِ جنتؓ کی عظمت پر لاکھوں سلام♥️

      1. ماشاء اللہ بے شک آپ نے سلطان الفقر الاول کا درجہ پایا

    1. بے شک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ فقر کی سلطان اور تمام امت محمدی میں سب سے بلند مرتبہ کی حامل ہیں

  1. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #ramzan2021 #ramdanmubarak #fatimazahra
    #ramzanspecial

    1. آپؓ کی حیاتِ طیبہ تمام مومن خواتین کے لیے مثالی نمونہ ہے جس کی پیروی سے وہ اللہ کی رضا حاصل کر کے اس کی محبوب بن سکتی ہیں۔

        1. سیدہ کائنات، خاتونِ جنت، سلطان الفقر اول، حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا 🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺 بے شک حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے عرصہ حیات کا جائزہ آپ رضی اللہ عنہا کی پاکیزگی، عشقِ الٰہی، صفائیِ قلب اور عشق و اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا گواہ ہے۔ اللہ پاک ہمیں بھی سیدہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق و ہمت دے۔ آمین

  2. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #ramzan2021 #ramdanmubarak #fatimazahra#ramzanspecial

  3. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #ramzan2021 #ramdanmubarak #fatimazahra
    #ramzanspecial

  4. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #ramzan2021 #ramdanmubarak #fatimazahra
    #ramzanspecial

  5. اللہ تعالٰی ہمیں بی بی فاطمہ علیہ سلام کے نقشِ قدم پے چلنے کی توفیق عطا فرمائے! ( آمین)

  6. اللہ تعالٰی ہمیں بی بی فاطمہ علیہ سلام کے نقشِ قدم پے چلنے کی توفیق عطا فرمائے! ( آمین)💕💞💞

  7. حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی عظمت و شان کی وجہ ان کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نسبت ہے۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی شان میں قرآن رطب اللسان ہے۔ لیکن جب حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی نسبت اور عظمت کا موازنہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے کیا جاتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہا حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے ہفت افلاک کی بلندیوں پر نظر آتی ہیں۔

  8. MashAllah behtereen article hai. Hazrat Fatima tuz Zahra Jannat ka phool hi nahi balke Ashiq e Rasool Pak S. A W. W bhi hain.

    1. سیدۃ النساء حضرت بی بی فاطمہؓ کی حیاتِ طیبہ تمام مومن خواتین کے لیے مثالی نمونہ ہے۔

  9. آپؓ فقر کی سلطان ہیں اور اعلیٰ روحانی و باطنی مرتبہ پرفائز ہے۔آپؓ کی حیاتِ مبارکہ تمام عالمِ اسلام کی خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے

  10. حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آقائے دو جہاں، نبیوں کے سردار اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آنے والے سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظیم دختر نیک اختر ہیں اور ان کو دنیا میں سب سے عزیز ہیں۔

  11. اللہ پاک ہم سب کو سلطان الفقر اوّل کے صدقے ہم سب کو فقر کی دولت نصیب فرما آمین

  12. سیدہ کائنات کی عظمت اور مرتبہ ادراک کی حدود سے بالاتر ہے

  13. حضرت فاطمۃ الزہراؓ رفتار و گفتار اور عادات و خصائل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بہترین نمونہ تھیں۔ وہ نہایت متقی، صابر، قانع اور دیندار خاتون تھیں

  14. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’اے فاطمہ(رضی اللہ عنہا)! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم مسلمان عورتوں کی سردار ہو یا میری اِس اُمت کی سب عورتوں کی سردار ہو۔‘‘ ( متفق علیہ )

    1. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’اے فاطمہ(رضی اللہ عنہا)! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم مسلمان عورتوں کی سردار ہو یا میری اِس اُمت کی سب عورتوں کی سردار ہو۔‘‘ ( متفق علیہ )
      آپؓ کی حیاتِ طیبہ تمام مومن خواتین کے لیے مثالی نمونہ ہے جس کی پیروی سے وہ اللہ کی رضا حاصل کر کے اس کی محبوب بن سکتی ہیں۔

  15. شکریہ حضرت فاطمۃ ؓ کے بارے میں اتنی تفصیل اور ان کی شان میں تحریر کرنے کے لیے دل خوش کردیا

  16. آپ فقر کی پہلی سلطان ہیں! ماشاللہ بہت بہترین لکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں