اسلام،فقر اور سائنس Islam, Faqr aur Science

5/5 - (2 votes)

 اسلام،فقر اور سائنس Islam, Faqr aur Science

تحریر: عثمان صادق سروری قادری

اسلام وہ دین ہے جس نے دنیا کو علم، تہذیب، تحقیق، حکمت اور روحانیت کے انوار سے منور کیا۔ مسلمانوں کی تاریخ سنہری دور سے عبارت ہے جہاں وہ علم، سائنس، سیاست، عدل، اخلاق اور روحانی اقدار میں دنیا کے رہنما تھے۔ بغداد، قرطبہ، غرناطہ، سمرقند اور دہلی جیسے شہر علم و دانش کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ لیکن آج عالم ِاسلام ہر میدان میں پیچھے ہے۔۔۔ نہ صرف علمی و سائنسی میدان میں بلکہ اخلاقی، سیاسی اور روحانی طور پر بھی کمزور ہو چکا ہے۔

آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کیا اسباب ہیں جنہوں نے ہمیں زوال کی گہرائیوں میں گرا دیا؟ آئیے ان وجوہات کامختصراً جائزہ لیتے ہیں:

1 ۔ قرآن سے دوری

امتِ مسلمہ نے قرآن کو محض برکت کے لیے پڑھنے والی کتاب بنا دیا ہے۔ تدبر، فہم اور عمل کے بجائے صرف رسم و رواج کی حد تک قرآن سے تعلق رکھا گیا ہے۔ قرآن کو فطرت، انسانیت، علم، اخلاق، سیاست، معیشت اور معاشرت کے نظامِ زندگی کے طور پر پڑھنے کی بجائے صرف زبانی تلاوت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ یہی وہ سب سے بڑی غفلت ہے جس نے ہمیں ہدایت کے سرچشمے سے دور کر دیا ہے۔

2 ۔علمِ دین اور علمِ دنیا دونوں سے غفلت

اسلام کا پیغام علمِ دین (شریعت و معرفت) اور علمِ دنیا (سائنس، ریاضی، طب، فلسفہ وغیرہ) دونوں علوم کا حسین امتزاج ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے دونوں میدانوں سے منہ موڑ لیا۔ دینی علم کو رسموں تک محدود کر دیا اور دنیاوی علم کو مغرب کے حوالے کر دیا۔ علم کی روشنی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی خواہ وہ کتنی ہی عبادت گزار کیوں نہ ہو۔

3 ۔ تحقیق چھوڑ کر اندھی تقلید

قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد، تحقیق اور غور و فکر کی اہمیت واضح ہے مگر ہم نے سچ کو تلاش کرنے کے بجائے سنی سنائی اور بے بنیاد باتوں کو بنا سوچے سمجھے اور بلا تحقیق دہرانا شروع کر دیا۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ  ط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (سورۃ الحجرات۔6)
ترجمہ:اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بیشک اللہ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

لہٰذا اَندھی تقلید نے عقل کی کھڑکیاں بند کر دیں اور مسلمانوں کے ذہن جامد ہو گئے۔ نتیجتاً نہ ہم کچھ نیا سیکھ سکے اور نہ ہی کچھ نیا ایجاد کر سکے۔

4 ۔فرقہ واریت اور جہالت کا غلبہ

امتِ مسلمہ آج چھوٹے چھوٹے فرقوں اور گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ ہر گروہ خود کو حق پر سمجھتا ہے اور دوسروں کو گمراہ کہتا ہے۔ اس تفرقے نے ہمیں کمزور کیا، اتحاد کو پارہ پارہ کیا اور دشمنوں کو ہم پر غالب آنے کا موقع دیا۔ علم و فہم کی جگہ نفرت و تنگ نظری نے لے لی ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج  وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَاط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ۔  (سورۃ آلِ عمران۔103)
ترجمہ: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یونہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

لیکن ہم قرآن کی تعلیمات کے برخلاف گروہ در گروہ تقسیم ہوتے چلے گئے اور زوال کی گہرائیوں میں جا گرے۔ 

5۔ اولیا اللہ کی تعلیمات کو ترک کرنا

صوفیا کرام اور اولیا اللہ نے امت کو فقر، روحانیت، محبت، قربِ الٰہی اور خدمتِ خلق کی تعلیم دی۔ لیکن آج کے مسلمان نے ان تعلیمات کو یا تو بھلا دیا یا بدعت کہہ کر مسترد کر دیا حالانکہ یہی تعلیمات ہمارے دلوں کو زندہ کرتی تھیں اور انسان کو انسان بناتی تھیں۔ جب دلوں سے روحانیت نکل گئی تو صرف ظاہر باقی رہ گیا اور ظاہر کبھی روح کے بغیر مضبوط نہیں ہوتا۔

6۔ مادی ترقی کو اسلام سے جدا سمجھنا

بہت سے مسلمان آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس، تحقیق، ترقی اور دنیاوی کامیابی صرف مغرب کی چیزیں ہیں اور اسلام صرف عبادت و آخرت کی بات کرتا ہے۔ یہ نظریہ سراسر غلط ہے۔ اسلام دنیا اور دین دونوں کا متوازن راستہ دکھاتا ہے۔ حضرت عمرؓ، حضرت امام جعفر صادقؓ، حضرت سخی سلطان باھوؒ اور موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اپنی سیر ت و کردار سے ہمیشہ علم و عمل اور دین و دنیا کا امتزاج پیش کیا۔

زوال کی اصل وجہ اسلام نہیں بلکہ اسلام سے دوری ہے۔ ہم نے قرآن کو چھوڑا، علم کو فراموش کیا، روحانیت سے غفلت برتی، فرقہ واریت کو اپنایا اور تحقیق کا دروازہ بند کر دیا۔ جب تک ہم واپس قرآن، سیرت النبی ؐ، علم و تحقیق اور اولیا کرام کی تعلیمات کی طرف نہیں آئیں گے، بحیثیتِ امت کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم جاگیں، سمجھیں اور عمل کریں۔ ہمیں دوبارہ ایک ایسی قوم تیار کرنی ہوگی جو نماز بھی قائم کرے، تجربے بھی کرے، علم بھی حاصل کرے اور باطن بھی سنوارے۔ تب ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

اسلام اور سائنس 

اسلام ایک ایسا دین ہے جو صرف عبادات، نماز، روزے اور ظاہری اعمال تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کا پیغام صرف مسجد تک محدود نہیں بلکہ یہ کائنات، عقل، تحقیق، مشاہدہ اور علم کی روشنی کو زندگی کا اصل جوہر قرار دیتا ہے۔ آج جدید سائنس جس سچائی تک کئی صدیوں کی تحقیق کے بعد پہنچی ہے، وہ حقائق قرآنِ کریم نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان کر دیے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اور سائنس کبھی بھی ایک دوسرے کے مخالف نہیں رہے بلکہ کبھی جدا ہی نہ ہوئے۔ دونوں ہمیشہ سے ایک دوسرے کے معاون اور ہم آہنگ ہیں۔

 قرآن اور سائنس

قرآنِ مجید بار بار انسان کو غور و فکر، تدبر، عقل اور علم کی طرف دعوت دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ (سورۃ الانعام۔73)
ترجمہ: اور وہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی تدبیر) کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ 

ایک اور جگہ فرمایا گیا:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُ ولِی الْاَلْبَابِ ۔ (سورۃ آلِ عمران ۔190)
ترجمہ:بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔

یہ آیات ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم زمین و آسمان، کائنات، زندگی، وقت، اجسام اور فطرت کی تخلیق پر غور کریں۔ یہی غور و فکر سائنس کا پہلا قدم ہے۔

 قرآن کے سائنسی نکات

قرآن میں موجود کئی حقائق جدید سائنس کے عین مطابق ہیں، مثلاً:
انسان کی تخلیق (سورۃ المومنون ۔14-12)  Embryology
زمین و آسمان کا ایک وجود سے بننا (سورۃ الانبیائ۔30)  Big Bang Theory
دو سمندروں کا نہ ملنا (سورۃ الرحمن۔20-19)   Oceanography
شہد میں شفائ(سورۃ النحل ۔69)  Medicine  Natural
پودوں اور مخلوقات کا جوڑوں میں ہونا (سورۃ یٰسین ۔36) Genetics

مذکورہ بالا آیات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام تحقیق کا دین ہے اور سائنس کو قبول کرتا ہے۔

 رسول اللہؐ کی تعلیمات اور سائنس 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔(ابنِ ماجہ، 224)
آپؐ نے صفہ کا نظام قائم کیا جہاں علمِ دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی اور سماجی علوم بھی سکھائے جاتے تھے۔

دنیوی علم کی اہمیت کے لئے ایک مثال ہی کافی ہے اور وہ یہ کہ بدر کے غیر مسلم قیدیوں کی رہائی کے عوض فدیہ کی شرط رکھی گئی اور جو لوگ فدیہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے انہیں دس دس مسلمان بچوں کو پڑھانے کے بدلے آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اب ذرا ٹھہریں اور سوچیں کہ دین تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لے کر آئے، صراطِ مستقیم تو آپؐ کی ذات پاک ہے، حق کے علمبردار تو آپؐ اور آپؐ کے ساتھی ہیں تو یہ کون سی تعلیم اور کون سا علم ہے جو کافر اور مشرک قیدی اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو سکھاتے۔۔۔ یقینا وہ کوئی دین ِاسلام کا علم تو ہو گا نہیں۔ تو پھر وہ کیا تھا ؟ وہ تھا دنیاوی علم۔ ذرا اس بات کا سیاق و سباق سمجھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب اسلام حدودِمکہ مکرمہ سے نکل کر سرزمین مدینہ منورہ میں داخل ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کا جذبۂ ایمانی اپنی جگہ لیکن دشمنوں کو اُن پر نہ صرف عددی برتری حاصل تھی بلکہ ظاہری علم اور اسباب ِحرب میں بھی وہ بہت آگے تھے۔ ایسے میں ضرورت اس اَمر کی تھی کہ اہلِ ایمان کی باطنی تربیت کے ساتھ ساتھ ظاہری علم کے حصول پر بھی توجہ دی جائے تاکہ دین و دنیا کے ہر میدان میں مسلمانوں کا بول بالا ہو اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں تیزی لائی جا سکے۔ اب ظاہر ہے یہ سب کچھ دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علم سے ہی ممکن تھا۔

 اولیا کرام کی تعلیمات اور علم

اسلامی تاریخ میں ایسے اولیااور علما بھی گزرے جنہوں نے سائنس، طب، فلکیات، ریاضی، فلسفہ اور روحانیت ہر میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ جابر بن حیان مشہور کیمیا دان اور علمِ کیمیا یعنی کیمسٹری کے بانی تھے اور وہ حضرت امام جعفر صادقؓ کے شاگرد تھے۔ اُنہوں نے آپؓ کی بارگاہ سے صرف دینی علوم ہی نہیں بلکہ سائنس بھی سیکھی۔ تاریخِ اسلام میں ایسے بے شمار افراد گزرے ہیں جنہوں نے دین و دنیا دونوں میدانوں میں ایسی روشن مثالیں قائم کیں جن سے نہ صرف امتِ مسلمہ بلکہ پوری انسانیت نے روشنی حاصل کی۔ ان میں خاص طور پر مسلمان صوفیا اور سائنس دانوں نے ایسی عظیم خدمات سرانجام دیں جنہوں نے معاشرے کو روحانی اور سائنسی ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔

صوفیا کرام اسلام کی روحانی اقدار کے محافظ اور اخلاقی رہنما تھے۔ انہوں نے دنیا کو یہ بتایا کہ دین صرف ظاہری عبادات کا نام نہیں بلکہ دل کی پاکیزگی، خلوص، محبت اور خدمتِ خلق کا راستہ بھی ہے۔ انہوں نے تعصب، نفرت اور فرقہ واریت کے بجائے محبت، برداشت اور بھائی چارے کو فروغ دیا۔ جنگ و جدل کے بجائے حسنِ اخلاق، دعوت اور کردار سے لوگوں کے دل جیتے اور اسلام کی روشنی پھیلائی جن میںسیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ، حضرت علی ہجویریؒ (داتا گنج بخش)، حضرت معین الدین چشتیؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ اور خصوصاً سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ شامل ہیں جنہوں نے اپنے عمل و کردار سے لاکھوں انسانوں کو ہدایت کی طرف مائل کیا۔

نامور مسلمان سائنس دان اور اُن کے کارنامے 

اسلام نے علم کو انتہائی اہمیت دی ہے۔ قرآن کی پہلی وحی کا لفظ اِقْرَاْ (پڑھ!) اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علم انسان کی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے علمِ طب، کیمیا، ریاضی، فلکیات، طبیعات اور دیگر سائنسی میدانوں میں ایسے کارنامے سر انجام دیے جن پر آج کی جدید دنیا بھی ان کی معترف ہے۔

ابنِ سینا: طب کا بانی، جس کی کتاب ’’القانون فی الطب‘‘ یورپ کی یونیورسٹیوں میں صدیوں تک پڑھائی جاتی رہی۔
الخوارزمی: الجبرا کا بانی، جس نے ریاضی میں نئے نظریات پیش کیے۔
ابن الہیثم: بصریات اور روشنی کے اصول دریافت کرنے والا پہلا سائنس دان،جس کے نظریات اور تحقیقات کی بدولت کیمروں کی ایجاد ممکن ہوئی۔
الرازی: ایک ماہر طبیب و کیمیا دان، جس نے کئی دواؤں اور بیماریوں پر تحقیق کی۔

المختصر یہی وہ مسلمان سائنس دان تھے جن کی تحقیقات نے یورپ میں ’’علمی بیداری‘‘ (Renaissance) کی بنیاد رکھی۔ ان کی ایجادات اور تحریریں صدیوں تک مغربی دنیا میں علوم کا ذریعہ رہیں۔

دین و دنیا کا حسین امتزاج 

اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ دین اور دنیا ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ تکمیل کرنے والے ہیں۔ مسلمان صوفیا اور سائنس دانوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ:

روحانیت کے ساتھ عقل و شعور اور ظاہری علم بھی ضروری ہے۔ صرف عبادت کافی نہیں، علم و تحقیق، خدمتِ انسانیت اور سچائی بھی دین کا حصہ ہیں۔ ایک سچا مسلمان وہی ہے جو دنیا کو بہتر بنانے کے ساتھ آخرت کی بھی فکر رکھتا ہو۔

حاصلِ کلام :

مسلمان صوفیاکرام نے دلوں کو نور ِایمان سے روشن کیا جبکہ سائنس دانوں نے ذہنوں کو علم کی روشنی سے آراستہ کیا۔ جب تک مسلمان دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلتے رہے، وہ دنیا کی قیادت کرتے رہے۔ آج بھی اگر امتِ مسلمہ اپنے اس سنہری ماضی سے سبق لے، قرآن و سنت کو تھامے اور علم و تحقیق کا دامن پکڑے تو ایک نیا روحانی و سائنسی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ خود گواہی دے گی کہ  جب مسلمان دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلے تو وہ علم، اخلاق، تہذیب اور حکمت کا چراغ بنے۔ اگر آج بھی مسلمان اسی توازن کو اپنائیں تو ایک نیا انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔

دورِ حاضر میں اسی پیغام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحریک دعوتِ فقر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور اکتیسویں شیخِ کامل سلطان الفقر ہفتم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی قیادت میں امتِ مسلمہ کی اصلاح، روحانی بیداری اور علمی ارتقا کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ آپ نے نہ صرف تزکیۂ نفس، معرفتِ الٰہی اور فقرِ محمدی ؐ کے احیاکا علم بلند کیا بلکہ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کو اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کے ذریعے باطن کی طہارت، دل کی روشنی اور روح کی ترقی کی راہ دکھائی۔

تحریک دعوتِ فقر کے زیر ِاہتمام علمی و روحانی محافل، کتب، خطابات اور تربیتی نظام مسلمانوں کو دین و دنیا کے حسین امتزاج کی عملی مثال مہیا کر رہے ہیں۔ اسمِ اعظم (اسمِ اللہ ذات) کے ذریعے جو تزکیۂ نفس اور قربِ الٰہی کا راستہ صوفیا کرام نے صدیوں پہلے اپنایا، آج اسی کو مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین مد ظلہ الاقدس جدید پیرائے میں امتِ محمدیہ تک پہنچا رہے ہیں۔ یہی وہ روشنی ہے جو مسلمانوں کو دوبارہ علم، اخلاق، اتحاد اور روحانیت کی بلندیوں پر لے جا سکتی ہے۔ وہ وقت بعید نہیں کہ جب اِن شا اللہ العزیز دوبارہ فقر کا دور دورہ ہو گا۔ بقول اقبالؒ :

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہوگا
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

 

اپنا تبصرہ بھیجیں