تعلیماتِ باھوؒ


4.7/5 - (886 votes)

تعلیماتِ باھوؒ (Taleemat-e-Bahoo)

تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ (Bahoo) یکم جمادی الثانی 1039ھ (17جنوری 1630) بروز جمعرات بوقتِ فجر شاہجہان کے عہد ِحکومت میں قصبہ شورکوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا چونکہ پیدا ہونے والے بچے کے مقام سے آگاہ تھیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہا کو نام بھی بتادیا گیا تھا اس لیے بحکم ِخداوندی آپؒ کا نام ’’باھوؒ‘‘ رکھا گیا۔ آپؒ خود فرماتے ہیں:

نام باھوؒ مادر باھوؒ نہاد
زانکہ باھوؒ دائمی با ھُو نہاد

 ترجمہ: باھوؒؒ  (Bahoo)کی ماں نے نام باھوؒ رکھا کیونکہ باھوؒ ہمیشہ ھوُ کے ساتھ رہا۔

آپؒ سے قبل تاریخ میں کسی بھی شخص کا نام باھو نہیں ہے۔سلطان باھوؒ   اسمِ ھوُ کے عین مظہر ہیں اور اپنی تمام کتب میں ہرجگہ اپنے آپ کو فقیرباھوؒ فنا فی ھوُ کہہ کر ذکر فرماتے ہیں اور جابجا اپنی فنا اور بقا اسمِ ھوُ میں بیان فرماتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:

اگر بائے بشریت حائل نبودے باھوؒ عین یا ھوُ است

ترجمہ: اگر بشریت کی با درمیان میں حائل نہ ہو تو باھو عین یا ھوُ ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ (Bahoo) کے والدِمحترم حضرت سلطان بازید محمدرحمتہ اللہ علیہ پیشہ ور سپاہی تھے اور شاہجہان کے لشکر میں ایک ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپؒ صالح، شریعت کے پابند اور حافظِ قرآن تھے۔ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے۔آپؒ  نے کسی قسم کا کتابی اور ظاہری علم حاصل نہیں کیا۔ آپؒ عین الفقر میں فرماتے ہیں:

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور میرے پاس علمِ ظاہر نہ تھا۔ ہمیں علمِ حضوری عطا کیا گیا ہے جس کی واردات و فتوحات سے ظاہر اور باطن میں اتنا وسیع علم نصیب ہوا جس کو لکھنے کے لیے کئی کتابیں درکار ہیں۔

ہمیں مکاشفات اور تجلیاتِ انوارِ ذاتی کے سبب علمِ ظاہری کے حصول کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی ہمیں ظاہری ورد و وظائف کی فرصت ملی ہے۔

اس قدر استغراق کے باوجود آپؒ شریعتِ محمدیؐ اور سنتِ نبویؐ پر اس قدر ثابت قدم رہے کہ زندگی بھر آپؒ  سے ایک مستحب بھی فوت نہیں ہوا۔ آپؒ فرماتے ہیں:

باھوؒ این مراتب از شریعت یافتہ
پیشوائے خود شریعت ساختہ

 ترجمہ: باھوؒ  (Bahoo)نے یہ مراتب شریعت کی پیروی سے پائے اور اس نے شریعت کو ہی اپنا پیشوا بنایا۔ (کلید التوحید کلاں)

آپ ؒ  مادرزاد ولی تھے اور پھر علومِ باطنی کے حصول کے لئے والدہ محترمہ کا سایہ ہی کافی تھا کیونکہ حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا عارفہ کا ملہ تھیں -آپؒ فرماتے ہیں ’’میں تیس(30)سال تک مرشد کی تلاش میں سرگرداں رہا لیکن مجھے اپنے پائے کا مرشد نہیں مل سکا۔‘‘

آقائے دو جہاں فقر کے مختارِ کل خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپؒ کو باطنی طور پر اپنے دستِ اقدس پربیعت فرمایا۔ آپؒ  خاتم النبیین حضرت محمدؐکی بارگاہِ عالیہ میں حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جو کچھ میں نے دیکھا ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا اور اس ظاہری بدن کے ساتھ دیکھا اور مشرف ہوا۔‘‘

رسالہ روحی شریف میں آپؒ فرماتے ہیں:

دست بیعت کرد مارا مصطفیؐ
خواندہ است فرزند مارا مجتبیٰؐ
شد اجازت باھوؒ را از مصطفیؐ
خلق را تلقین بکن بہر خدا

ترجمہ: مجھے مصطفیؐ نے دستِ بیعت فرمایا، حضرت مجتبیٰؐ نے مجھے اپنا فرزندبنایا ہے۔ فقیر باھوُ  (Bahoo)  کو مصطفیؐ  سے یہ اجازت ملی ہے کہ خلقتِ خدا کو محض اللہ کی خاطر تلقین کروں۔

اس کے بعد ظاہری بیعت دہلی میں سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلویؒ کے دستِ مبارک پر کی۔
آپؒ  مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ تھے اور مرشدِ کامل نورالہدیٰ سالک (طالبِ اللہ) کو تعلیم، توجہ اور تلقین کے ذریعے عین العیان کے مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے ذکر، فکر اور وردو وظائف کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ آپؒ کی ساری زندگی شہر شہر قریہ قریہ گھوم پھر کر طالبانِ مولیٰ کو تلاش کرنے اور انہیں واصل باللہ کرنے میں گزری۔ خلقِ خدا کو تلقین کی یہ ذمہ داری آپؒ کو بارگاہِ نبویؐ  سے عطا ہوئی تھی۔ تمام دنیاخصوصاً فقرااوراولیامیں حضرت سخی سلطان باھوؒ ’’سلطان العارفین‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں اور آپؒ مرتبہ ’’سلطان الفقر‘‘پر فائز ہیں۔

آپؒ کا سلسلہ فقر سروری قادری ہے اگر یوں کہا جائے کہ سلسلہ سروری قادری کے بانی آپؒ ہی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ سروری قادری طریقہ میں رنجِ ریاضت، چلہ کشی، حبسِ دم، ابتدائی سلوک اور ذکر فکر کی اُلجھنیں ہرگز نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ ظاہری درویشانہ لباس اور رنگ ڈھنگ سے پاک ہے اور ہر قسم کے مشائخانہ طور طریقوں مثلاً عصا، تسبیح، جبہ و دستار وغیرہ سے بیزار ہے۔ اس سلسلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مرشد پہلے ہی روز سلطان الاذکار ھوُ کا ذکر اور تصورِ اسم اللہ ذات اور مشقِ مرقومِ وجودیہ عطا کر کے طالب کو انتہا پر پہنچا دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے سلاسل میں یہ سب کچھ نہیں ہے۔ اس لیے حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ سلسلہ سروری قادری کے طالب (مرید) کی ابتدا دوسرے سلاسل کی انتہا کے برابر ہوتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ  (Bahoo) نے تریسٹھ بر س کی عمر پائی اور یکم جمادی الثانی 1102ھ (بمطابق یکم مارچ1691) بروز جمعرات بوقتِ عصر وصال فرمایا۔آپؒ کا مزار مبارک ضلع جھنگ میں شہر گڑھ مہاراجہ سے دو میل کے فا صلہ پر آپ ؒہی کے نام قصبہ سلطان باھوؒ میں مرجع خلائق ہے۔ہر سال جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو آپؒ کا عرس منایا جاتا ہے۔

تعلیماتِ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ

سلاطینِ دہلی اورمغلیہ خاندان کے زمانہ میں برصغیر کی حکومتی، سرکاری، درباری اور دفتری زبان فارسی تھی۔ اس بنا پر تمام علمی، ادبی، اسلامی ، تصوف اور تاریخی کتب فارسی زبان میں ہی تصنیف و تالیف ہوتی تھیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنی تصانیف فارسی میں تحریر فرمائیں سوائے ایک تصنیف کے جو پنجابی ، سرائیکی زبان میں ہے اور ابیاتِ باھوؒ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ (Bahoo)  کی تمام تر تعلیمات خواہ نثر کی شکل میں ہوں یا شاعری کی شکل میں، قرآن وحدیث کی خوبصورت شرح ہیں۔حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات اور طریقہ کونہ تصوف اور نہ ہی طریقت بلکہ’’ فقر‘‘ فرمایا ہے۔مضمون کی طوالت کے سبب آپؒ کی تعلیمات کا مختصر اً خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

فقر 

عرفِ عام میں فقر افلاس، غربت، تنگدستی اور عسر کی حالت کو کہتے ہیں۔ اس کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں لیکن عارفین کے نزدیک فقر سے مراد وہ منزلِ حیات ہے جس کے متعلق خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَاَفْتَخِرُّ عَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ 
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیاو مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقر کے بارے میں فرماتے ہیں:
 فقر ’’عین ذات ‘‘ ہے۔ (عین الفقر)
اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے قرب اور دیدار کی خواہش ہے تو وہ راہِ فقر اختیار کرے۔ (عین الفقر)
 فقر اللہ کا  سر (راز) ہے اور اللہ فقر کا سِرّ ہے۔ (عین الفقر)

جان لے کہ تمام پیغمبروں نے مرتبہ فقر پر پہنچنے کی التجا کی لیکن نہ پا سکے۔ وہ تمام فقر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے خود اپنی اُمت کے سپرد فرمایا۔ یہ فقرِ محمدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فخر ہے۔ فقر فیض ہے۔ (امیر الکونین)

تمام انبیا کرام نے مرتبۂ فقر کی خاطر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی ہونے کی التجا کی لیکن انہیں یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوا۔ جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پایا اس نے فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا رفیق بنایا۔ فقر سے بڑھ کر قابلِ فخر اور بلند تر مرتبہ کو ئی ہے نہ ہو سکتا ہے۔ فقر دائمی حیات ہے۔ (نور الہدیٰ کلا ں)

طالبِ مولیٰ

دنیا میں تین قسم کے انسان یا انسانوں کے گروہ پائے جاتے ہیں:
1۔ طالبانِ دنیا:جو انسان اپنے علوم وفنون، کمالات اور کوشش و کاوش دنیا کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اُسے ہی اپنی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ ان کا ذکر فکر، عبادات وریاضت، چلہ کشی، ورد و وظائف کا مقصد بھی دنیاوی مال ومتاع کا حصول یا اس میں اضافہ ہے۔ وہ دنیاوی آسائش کے حصول اور دنیاوی ترقی و عزّوجاہ کو ہی کامیابی گر دانتے ہیں۔ 

2۔ طالبانِ عقبیٰ: جن کا مقصود آخرت کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے۔ ان کے نزدیک نارِ جہنم سے بچنا اور بہشت، حورو قصور اور نعمت ہائے بہشت کا حصول زندگی کی کامیابی ہے۔ اس لیے یہ عبادت، ریاضت، زہد و تقویٰ، صوم و صلوٰۃ، حج، زکوٰۃ، نوافل، ذکر اذکار اور تسبیحات سے آخرت میں خوشگوار زندگی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی زندگی کا مقصد اور کامیابی ہے۔

 3۔ طالبانِ مولیٰ: جن کی عبادات اور جدو جہد کا مقصود دیدارِ حق تعالیٰ اور اُس کا قرب و وصال ہے۔ یہ نہ تو دنیا کے طالب ہوتے ہیں اور نہ بہشت، حورو قصور اور نعمت ہائے بہشت کے۔ ان کا مقصد ذاتِ حق تعالیٰ ہوتا ہے یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے طالب اور عاشق ہوتے ہیں۔ اس طلب کے لیے یہ دونوں جہانوں کو قربان کر دیتے ہیں اور دنیاوعقبیٰ کو ٹھکرا کر ذاتِ حق کے دیدار کے متمنّی رہتے ہیں۔عارفین ہمیشہ طالبِ مولیٰ بننے کی تلقین کرتے ہیں۔

ان تینوں گروہوں کو اس حدیثِ قدسی میں بھی بیان کیا گیا ہے:
طَالِبُ الدُّنْیَا مُخَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْمَوْلٰی مُذَکَّرٌ 
ترجمہ: دنیا کا طالب مخنث(ہیجڑہ)ہے، عقبیٰ کا طالب مؤنث (عورت) ہے اور طالبِ مولیٰ مذکر (مرد) ہے۔ 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Bahoo)  فرماتے ہیں:
مرد مذکر کسے کہتے ہیں ؟جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی طلب نہ ہو۔ نہ دنیا نہ زینتِ دنیا کی، نہ حوروں اور جنت کے محلات اور میووں کی، نہ براق اور نہ ہی جنت کی کسی اور لذّت کی۔ اہلِ دیدار کے نزدیک یہ سب کریہہ، بدصورت اور بے حیثیت ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے دل میں اسمِ اللہ کو بسا لیا ہے اور وہ ازل سے اس کی مستی میں غرق ہیں۔ جس نے اسمِ اللہ کو اپنا جسم اور جان بنا لیا وہ دونوں جہانوں کے غم سے آزاد ہو گیا۔ (عین الفقر)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طلبِ مولیٰ کے بارے میں فرما یا ہے:
مَنْ طَلَبَ شَیْئًا فَلَا تَجِدُہٗ خَیْرًا وَ مَنْ طَلَبَ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ 
ترجمہ: جو شخص کسی چیز کی طلب کرتا ہے وہ اس میں کبھی بھلائی نہیں پاتا اور جو شخص مولیٰ کی طلب کرتا ہے اُس کے لیے سب کچھ ہے۔
مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا فَلَہُ الدُّنْیَا وَ مَنْ طَلَبَ الْعُقْبٰی فَلَہُ الْعُقْبٰی وَ مَنْ طَلَبَ الْمَوْلٰی فَلَہُ اْلکُلُّ 
ترجمہ:جودنیا طلب کرتاہے اُسے دنیاملتی ہے، جو عقبیٰ (آخرت)کا طلبگار ہوتا ہے اُسے عقبیٰ ملتی ہے اور جو مولیٰ کی طلب کرتا ہے اُسے سب کچھ ملتا ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ ﷲ علیہ (Bahoo)  نے اپنی تصانیف میں تمام گفتگو طالبانِ دنیا، طالبانِ عقبیٰ اور طالبانِ مولیٰ کے معاملات پر کی ہے۔ آپؒ کی نگاہ میں عوام طالبانِ دنیا ہیں، خواص یعنی علمائے حق، عابد، زاہد اور متقی پرہیزگار طالبانِ عقبیٰ ہیں اور خاص الخاص لوگ یعنی انبیا، اولیا کرام، صدیقین اورصالحین طالبانِ مولیٰ ہیں۔ طالبِ مولیٰ کے بارے میں آپؒ  فرماتے ہیں:
حق کا طالب حق لے کر آتا ہے اور حق ہی لے کر جاتا ہے۔ اس کے قدم دنیا اور غیر ماسویٰ اللہ کی طرف نہیں بڑھتے۔ (کلید التوحید کلاں)

طالبِ مولیٰ کے کیامعنی ہیں؟ دِل کاطواف کرنے والا اہلِ ہدایت، دِل سے حضرت ابوبکر صدیق ؓکی طرح صدق اختیار کرنے والا، حضرت عمربن خطاب ؓکی طرح صاحبِ عدل، حضرت عثمانِ غنیؓ کی طرح صاحبِ حیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرح صاحبِ غزا و صاحبِ رضا اور تمام انبیا و اصفیا کے سرتاج خاتم النبیین امین رسول ربّ العالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح صاحب ِشریعت اور صاحبِ سرّ کہ یہ سب حقیقی طالبِ مولیٰ مذکرّ مرد ہیں۔  (عین الفقر)

عرفانِ نفس

 اللہ تعالیٰ نے حدیثِ قدسی میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان فرمایا ہے:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ
ترجمہ: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔

اس حدیثِ قدسی سے واضح ہو گیا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی پہچان کیسے حاصل ہو گی؟تو اللہ کی پہچان کا طریقہ اس حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو (یعنی خود کو) پہچان لیا بے شک اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
یعنی انسان کو اپنے نفس یا ذات کے عرفان سے اللہ تعالیٰ کی پہچان نصیب ہوتی ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی شناسائے حقیقت، رازِ پنہاں سے واقف ہستی یا کوئی مفکرپیدا ہواہے اس نے اس حقیقت کا پردہ ضرور فاش کیا ہے کہ عرفانِ نفس سے ہی اصل آگہی حاصل ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ اس قرآنی حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ نہ صرف اللہ اور اس کا تخلیق کردہ یہ عالم بلکہ پوری کائنات (یعنی تمام عالمین) انسانی قلب میں لطیف صورت میں موجود ہے۔ یہ محض کوئی فلسفیانہ اصول نہیں جو ذہنی لطف یا دماغی کسرت کی تشفی کے لیے گھڑا گیا ہو، یہ زندگی کی وہ حقیقت ہے جو قرآن و حدیث، انبیا کرام اور فقرائے کاملین کی تعلیمات اور تجربے کی مضبوط بنیاد پر کھڑی ہے۔

 آپؒ اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’اور ہم تو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘ (سورۃ ق۔16) کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ اس ہستی کی تلاش کے لئے پہلے اپنے اندر رسائی ضروری ہے۔ باطن میں ﷲ پاک کی موجودگی پرزور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے لئے لفظ ’قریب‘ کا استعمال بھی موزوں نہیں ہے کیونکہ یہ لفظ بھی علیحدگی اور دوئی کا مظہر ہے بلکہ وہی تو ہماری ہستی ہماری حقیقت ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:

قربِ حق نزدیک من حبل الورید
تو جمالش را نہ بینی بے نظیر

ترجمہ: ﷲ پاک کی ذات شہ رگ سے بھی قریب ہے مگر تو اندھا ہے کہ اس کے جمال کا دیدار نہیں کر سکتا۔ (دیوانِ باھوؒ)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ  (Bahoo)  ان انسانوں کی عقل پر ماتم کرتے ہیں جنہیں قریب رہنے والا بہت دور نظر آتاہے اور اسے ہمیشہ باہر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ آپؒ اس ساری بھاگ دوڑ کو بے معنی اور بے سود قرار دیتے ہیں اور اللہ کو اپنے اندر ہی تلاش کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے آپؒ سب سے پہلے حجابات کو دور کرنے اور آئینۂ دل سے زنگ اور نفسانی خواہشات کی سیاہی کو ختم کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کا نکتہ نظر یہ ہے کہ قلب و باطن میں معرفتِ الٰہی سے ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے دونوں جہان کی کل کیفیات قلب میں سما جاتی ہیں اور صاحبِ نظر قلبی آنکھوں سے اس کا صاف نظارہ کرتا ہے اور عاشقِ الٰہی تو ہمیشہ ہی اپنے قلب کی جانب متوجہ رہتا ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
طالبِ مولیٰ کا قلب جب ایک بار بیدار ہو جاتا ہے تو پھر دائمی طور پر اللہ کی جانب متوجہ رہتا ہے۔ (قربِ دیدار)

’’عقلِ بیدار‘‘ میں حضرت سلطان باھوؒ قلب یا دل کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں نے اپنے دل میں قبلہ دیکھا اور حق کا دیدار کیا اور پھر خدا کے سامنے سربسجود ہو گیا۔
دل وجود کے اندر ﷲ کا ایک خزانہ ہے۔ اہلِ دل محمود ہیں اور اس کی نمود بھی محمود سے ہی ہے۔ اپنی تعلیمات میں آپؒ اپنے من میں جھانکنے کی تلقین اور اپنی ذات پر غور کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

اسمِ اللہ ذات

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ (Bahoo)نے اپنی کتب میں علم تصور اسمِ اللہ ذات کے اسرار و رموز کو کھول کر بیان فرمایا ہے۔
اسم اللہ ’’اسمِ ذات‘‘ ہے اور ذاتِ سبحانی کے لیے خاص الخاص ہے۔ علمائے راسخین کا قول ہے کہ یہ اسمِ مبارک نہ تو مصدر ہے اور نہ مشتق یعنی یہ لفظ نہ تو کسی سے بنا ہے نہ ہی اس سے کوئی لفظ بنتا ہے اور نہ اس اسمِ پاک کامجازاً اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے اسما مبارک کا کسی دوسری جگہ مجازاً اطلاق کیا جاتا ہے۔ گویا یہ اسم ِ پاک کسی بھی قسم کے اشتراک اور اطلاق سے پاک، منزّہ ومبرّا ہے۔ اللہ پاک کی طرح اسمِ اللہ بھی احد، واحد اور لَمْ یَلِدْ لا ۵ وَ لَمْ یُوْلَدْ  ہے۔

 یہ اللہ کا ذاتی نام ہے جس کے وِرد سے بندے کا اپنے ربّ سے خصوصی تعلق قائم ہوتا ہے۔عارف باﷲ فقرا کے نزدیک یہی اسمِ اعظم ہے۔ یہ نام تمام جامع صفات کا مجموعہ ہے کہ بندہ جب اللہ کو اس نام سے پکارتا ہے تو اس میں تمام اسمائے صفات بھی آجاتے ہیں گویا وہ ایک نام لے کر اسے محض ایک نام سے نہیں معناً تمام اسمائے صفات کے ساتھ پکار لیتا ہے۔ یہی اس اسم کی خصوصیت ہے جو کسی اور اسم میں نہیں ہے۔ امام رازیؒ نے اس نکتہ کی وضاحت بہت خوبصورت الفاظ میں کی ہے:
بے شک جب توُ نے اﷲ تعالیٰ کو صفتِ رحمت کے ساتھ پکارا یعنی رحمن یارحیم کہا تو اس صورت میں توُنے صفتِ رحمت کا ذکر کیا صفتِ قہر کا نہیں، یونہی صفتِ علم کے ساتھ ’یا علیم‘ کہہ کر پکارا تو صرف صفتِ علم کا ذکر کیا صفتِ قدرت کا نہیں لیکن جب تونے اللہ کہا تو گو یا تمام صفات کے ساتھ اسے پکار لیا کیونکہ الٰہ  ہوتا ہی وہ ہے جو تمام صفات سے متصف ہو۔ (تفسیر کبیر۔ جلد1۔ ص85)

 اسمِ اللہ ذات اپنے مسمیّٰ ہی کی طرح یکتا، بے مثل اوراپنی حیرت انگیز معنویت وکمال کی وجہ سے ایک منفرد اسم ہے۔ اس اسم کی لفظی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کے حروف کو بتدریج علیحدہ کر دیا جائے تو پھر بھی اس کے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اورہر صورت میں اسمِ اللہ  ذات ہی رہتا ہے۔ اسم اللہ کا پہلا حرف ’ا‘ہٹا دیں تو  لِلّٰہ  رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’اللہ کے لئے‘‘ اور یہ بھی اسم ِ ذات ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ  (سورۃ البقرہ۔284)
ترجمہ: ﷲ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ 

اگر اس اسم پاک کا پہلا ’ل‘ ہٹا دیں تو    لَہٗ  رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’اس کے لئے‘‘ ا ور یہ بھی اسم ِ ذات ہے ۔ جیسے ارشادِ ربانی ہے:
لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ چ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (سورۃ التغابن۔1)
ترجمہ: اسی کے لیے بادشاہت اور حمد وستائش ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اور اگر دوسرا ’ل‘ بھی ہٹا دیں تو  ھُو رہ جاتا ہے جو اسمِ ضمیر ہے اور اس کے معنی ہیں ’’وہ‘‘۔ یہ بھی اسمِ ذات ہے جیسے کہ قرآنِ مجید میں ہے:
ھُوَ اللّٰہُ  الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ (سورۃالحشر۔22)
ترجمہ: وہی ﷲ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر ھُو(ذاتِ حق تعالیٰ)۔

مرشدِ کامل اکمل  

مرشدِ کامل اکمل کے بغیر ساری زندگی ظاہری عبادات تو بہت دور کی بات ہے ذکر اور تصورِ اسمِ اللہ ذات سے بھی باطن کا قفل نہیں کھلتا اور منزل حاصل نہیں ہوتی۔ راہ ِفقر میں مرشد کامل اکمل کی راہبری اور راہنمائی بہت ضروری ہے۔ مرشد کامل بھی ایسا جو امانتِ الٰہیہ کا حامل ہو اور خلافتِ الٰہیہ پر فائز ہو۔ جس طرح شریعت کا علم استاد کے بغیر ہاتھ نہیں آتا اسی طرح باطنی علم کا حصول مرشد کامل اکمل کی رفاقت کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ مرشد کی تلقین اور نگاہ ہی ایسا کیمیا ہے جو طالب کے وجود کی کثافت دور کر کے اسے روشن ضمیری کے قابل بناتی ہے۔ 

مرشدِ کامل کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوؒ (Bahoo)  فرماتے ہیں:
مرشد کامل کسے کہتے ہیں اور مرشد کن خواص اور صفات کا مالک ہوتا ہے؟ مرشد کس طرح طالبِ مولیٰ کو راہِ سلوک پر چلا کر توحید میں غرق کرتا ہے اور حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس کی حضوری سے مشرف کراتا ہے؟ مرشد سے کیا چیز حاصل ہوتی ہے اور وہ کس مقام،منزل اورمرتبہ کا حامل ہوتا ہے؟ مرشد صاحبِ تصرف فنافی اللہ بقاباللہ فقیر ہوتا ہے۔یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ لَا یُحْتَاجُ    ترجمہ: ’’(دلوں کو) زندہ کرنے والا اور (نفس کو) مارنے والا ہوتا ہے اور کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔ــ‘‘ مرشد پارس کے پتھر کی طرح ہوتا ہے۔ مرشدکسوٹی  کی طرح ہے۔ اسکی نظر سورج کی طرح (فیض بخش) ہے جو بدخصائل کو (نیک عادات سے) تبدیل کر دیتی ہے۔ مرشد رنگریز کی طرح ہے۔ مرشد تنبولی کی طرح باخبر ہوتا ہے جو پان کے پتوں (کی خصوصیات) سے آگاہ ہوتاہے (اسی طرح مرشد بھی اپنے مریدوں کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہوتا ہے)۔

مرشد حضرت محمدؐ رسول اللہ کی طرح صاحبِ خلق ہوتا ہے۔ مرشد اللہ کا دیدار بین اور طالب صادق الیقین ہونا چاہیے۔مرشد رفیق کو کہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کافرمان ہے:
اَلرَّفِیْقُ ثُمَّ الطَّرِیْقُ 
ترجمہ:پہلے رفیق تلاش کرو پھر راستہ پر چلو۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ مرشد کامل کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مرشد بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک صاحبِ نظر اور دوسرے صاحبِ زر۔ مرشد فصلی سالی (مرشد ناقص) اور مرشد وصلی لازوالی  (مرشد کامل اکمل)۔ (عین الفقر)

(مرشد کامل کی)  وسیلت (علم کی) فضیلت سے بہتر ہے کیونکہ گناہ کرتے وقت علمِ فضیلت (گناہ کرنے والے کو) روک نہیں سکتاجبکہ وسیلت بندے کو گناہ کرنے سے پہلے روک دیتی ہے۔  حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کافرمان ہے:
اَلشَّیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَنَبِیٍّ فِیْ اُمَّتِہٖ 
ترجمہ: مرشد اپنی قوم میں یوں ہوتا ہے جیسے نبی اپنی اُمت میں۔ (عین الفقر)

عارف (مرشد) تین قسم کے ہوتے ہیں۔عارفِ دنیا،عارفِ عقبیٰ اور عارفِ مولیٰ۔عارفِ دنیا مال و دولت اور رجوعاتِ خلق  کا طالب ہوتا ہے۔ وہ اپنے مریدوں کی ہڈیاں تک بیچ کھاتا ہے اور خانقاہیں تعمیر کرنے، کشف و کرامات دکھانے، زمین و آسمان کی سیر کرنے اور بادشاہِ وقت کے قرب اور ملاقات کا خواہشمند ہوتا ہے۔ یہ تمام مراتبِ مخنث ہیں۔ عارفِ  دنیا مرشدِ مخنث ہوتا ہے اور اس کے طالب بھی مخنث ہوتے ہیں۔ دوسرے عارفِ عقبیٰ ہیں۔ یہ زاہد، عابد، عالم، متقی اور پرہیزگار ہوتے ہیں جو دوزخ کے خوف سے سہمے رہتے ہیں اور جنت حاصل کرنے کے لیے عبادت کرتے ہیں۔ ان کا مرتبہ مؤنث ہے اور ان کے طالب بھی مؤنث ہیں۔تیسرے عارفِ مولیٰ، توحید میں غرق عارف باللہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر، دنیا اور عقبیٰ سے دور، اللہ تعالیٰ کی ذات میں مگن اور مسرور رہتے ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (عین الفقر)

پس مرشد کسے کہتے ہیں؟
یُحْیِی الْقَلْبَ وَ یُمِیْتُ النَّفْسِ
ترجمہ: قلب کو زندہ اور نفس کو مارنے والا۔

جب وہ طالب پر جذب اور غضب کرتا ہے تو قلب کو زندہ کر کے نفس کو مار دیتا ہے۔
مرشد کامل اکمل کی نشانی کیاہے؟ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو مرشد طالبِ صادق کو پہلے ہی روز دیدارِ الٰہی سے نہیں نوازتا وہ تلقین و ارشاد کے لائق نہیں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
مرشدِکامل پہلے دن ہی طالبِ مولیٰ کو اسمِ اللہ ذات تحریر کرکے دے دیتا ہے۔ (کلیدِ جنت)
جان لو کہ بندے اور اللہ کے درمیان کوئی پہاڑ، دیوار یا میلوں کی مسافت نہیں ہے بلکہ بندے اور خدا کے درمیان پیاز کے پردے جیسا باریک حجاب ہے۔ اس پیاز کے پردے کو تصور اسمِ اللہ ذات اور صاحبِ راز مرشد کامل کی نگاہ سے توڑنا بالکل مشکل نہیں۔ تو آئے تو دروازہ کھلا ہے اور اگر نہ آئے تو خدا بے نیاز ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

مرشد کامل تصور اسمِ  اللہ ذات اور علمِ حق سے طالب کو معرفت و دیدار کا سبق پڑھاتا ہے اور باطل دنیا جیفہ مردار سے بیزار کر دیتا ہے حتیٰ کہ طالب دنیا سے ہزار بار استغفار کرتا ہے۔ کامل مرشد وہ ہے جو تصور اسمِ  اللہ ذات سے معرفت و دیدار کو منکشف کرتا ہے اور پھر اسم  اللہ ذات میں ہی لوٹ آتا ہے کہ ابتدا و انتہا کا کوئی مرتبہ اسمِ  اللہ ذات سے باہر نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)

عشقِ حقیقی

قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (سورۃ البقرہ۔165)
ترجمہ: اور جو ایمان لائے اللہ کے لئے ان کی محبت بہت شدید ہے۔ 

انسان کو بہت سے رشتوں اور اشیا سے محبت ہوتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ سے محبت، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت، ماں، باپ، بیوی، بچے، بہن، بھائی، رشتہ دار، دوست، گھر، زمین، جائیداد، شہر، قبیلہ، برادری، خاندان، ملک اور کاروبار وغیرہ سے محبت۔ جس محبت میں شدت اور جنون پیدا ہو جائے اوروہ باقی تمام محبتوں پر غالب آجائے اسے عشق کہتے ہیں۔ عشق باقی تمام محبتوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے ا ور ہر محبت پر حاوی ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اِرشادِ مبارک ہے:
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (بخاری15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ اَھْلِہٖ وَ مَالِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان44)
ترجمہ: کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے اہل و عیال، مال اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

اللہ اور اس کے محبوب رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شدید محبت کو اللہ نے مومنین کی صفت قرار دیا ہے۔کائنات کی ابتدا عشق ہے اور انسان کی تخلیق بھی عشق کے لیے ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورِ مبارک سے جب ارواح کو پیدا کیا گیا تو عشقِ الٰہی کا جوہرِ خاص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے ارواحِ انسانی کے حصے میں آیا۔دیدارِ حق تعالیٰ کے لیے طالب کے دل میں جذبۂ عشق کا پیدا ہونالازم ہے۔ دراصل روح اور اﷲ کا رشتہ ہی عشق کا ہے۔ بغیر عشق نہ تو روح بیدار ہوتی ہے اور نہ ہی اللہ کا دیدار پا سکتی ہے۔ عشق ایک بیج کی صورت میں انسان کے اندر موجود ہے مگر سویا ہوا ہے۔ جیسے جیسے ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات، مشق مرقومِ وجودیہ اور مرشد کی توجہّ سے یہ روح کے اندر بیدار ہونا شروع ہوتا ہے ویسے ویسے روح کی ﷲ کے لیے تڑپ اور کشش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔فقرائے کاملین نے عشق کو دیدارِ حق کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ راہِ فقرمیں عشق کو سب سے اہم مقام قرار دیتے ہیں۔آپؒ فرماتے ہیں:
عشق ایک ایسا لطیفہ ہے جو غیب سے دل میں پیدا ہوتا ہے او رمعشوق (کے دیدار) کے سوا کسی بھی چیز سے قرار نہیں پاتا۔ (محکم الفقرا)
عاشق کا مرتبہ بیان کرتے ہوئے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لوکہ فقیر دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک سالک دوسرے عاشق۔ سالک صاحبِ ریاضت و مجاہدہ ہوتا ہے اور عاشق صاحبِ راز و مشاہدہ۔ سالک کی انتہا عاشق کی ابتدا ہے کیونکہ عاشق کا کھانا مجاہدہ اور خواب مشاہدہ ہوتا ہے۔ (محکم الفقرا)
اے زاہد! بہشت کے مزدور سن! عاشقوں کا کھانا سراسر نور،ان کا پیٹ مثلِ آتشِ تنور اور ان کی نیند وصالِ حضور ہے۔  (محکم الفقرا)

عشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتاہے۔ اس کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نور الہدیٰ میں فرماتے ہیں:
مرتبۂ فقر مرتبۂ معشوق ہے۔ معشوق جو بھی چاہتا ہے عاشق اسے عطا کر دیتا ہے بلکہ معشوق کے دل سے جو بھی خیال گزرتا ہے عاشق اس سے آگاہ ہو جاتا ہے اور اپنی نگاہ سے ہی اسے تمام مطالب سے بہرہ ور کر دیتا ہے۔ 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Bahoo)  بھی مرشد کے عشق کو عشقِ حقیقی تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ آپؒ کی تعلیمات کے مطابق عشق وہ روحانی جذبہ ہے جو مخلوق کو خالق سے ملا دیتا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جسکی بنا پر انسان اپنی نفسانی کدورتوں‘ شیطانی وہمات اور کبیرہ وصغیرہ گناہوں سے کنارہ کش ہوکر ﷲ کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے اور عشقِ حقیقی (ﷲ تعالیٰ سے عشق) کی ابتدا عشقِ مجازی (مرشد سے عشق) سے ہوتی ہے۔

مجلسِ محمدیؐ

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی شاید ہی کوئی تصنیف ایسی ہو جس میں’’ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ ’’راہِ حق‘‘ میں یہ ایک ایسا مقام ہے جس میں طالبِ مولیٰ باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضور ی سے مشرف ہو جاتا ہے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کی تربیت فرماتے ہیں اور باطن میں اسے معرفتِ الٰہیہ کے مراتب طے کراتے ہیں ۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ دائمی حیات النبیؐ کے سختی سے قائل ہیں اور جو اس کا منکر ہو اسے مردود اور منافق بتاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندوں کی طرح اس جہاں میں متصرف ہیں۔
پس ہر وہ شخص مومن، مسلمان یا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حیات ہی نہیں مانتا۔ وہ جو کوئی بھی ہے جھوٹا،بے دین، منافق اور کذاب ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْکَذَّابُ لَا اُمَّتِیْ 
 ترجمہ: کذاب میرا امتی نہیں ہو سکتا۔ (کلید التوحید کلاں)

جسے حیات النبیؐ پر اعتبار نہیں وہ دونوں جہان میں خوار ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہر وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو اور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ (کلید التوحید کلاں)

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اسمِ اللہ ذات اور اسمِ  محمدکے تصور سے حاصل ہوتی ہے۔

ہر کرا از دل کشاید چشم نور
شد حضوری مصطفیؐ رست از غرور

ترجمہ: جس کے دل کی نوری آنکھ کھل جاتی ہے وہ غرور سے نجات حاصل کر کے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ جاتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

 وردو وظائف او راعمالِ ظاہر سے طالبِ اللہ باطن میں کبھی بھی مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری تک نہیں پہنچ سکتاخواہ عمر بھر ریاضت کرتا رہے کہ راہِ باطن صرف صاحبِ باطن مرشدِ کامل سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس مبارک میں نفسِ امارہ اور شیطان لعین داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ اسمِ اللہ ذات اور اسم محمدکے حاضرات کی راہ ہے۔ اس سے ازل، ابد، دنیا، حشر،قیامت گاہ، حضوری، قربِ الٰہی، دوزخ، بہشت اور حوروقصور کا تماشا دکھائی دیتا ہے۔ (عقلِ بیدار)

دیدارِ الٰہی

فقر دیدارِ الٰہی کا علم ہے اور راہِ فقر کے راہی کا سب سے بڑا انعام دیدارِ حق تعالیٰ ہے۔ اس مقام تک پہنچنے والے کو عام اصطلاح میں عارف کہا جاتا ہے اور عارف اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر اس کی عبادت کرتا ہے یعنی وہ علم الیقین کا نہیں بلکہ حق الیقین کا حامل ہو تا ہے۔ 

دیدارِ الٰہی یا مشاہدۂ حق تعالیٰ کے لیے عربی میں دو الفاظ ’’لقائے الٰہی ‘‘ اور ’’روئیت حق تعالیٰ‘‘ استعمال ہوتے ہیں۔ لقاکے لغوی معنی دیدار، چہرہ، صورت، شکل اور ملاقات کے جبکہ روئیت کے لغوی معنی دیدار، نظارہ اور صورت کا نظر آنا کے ہیں۔ اب علما کرام اِن الفاظ کا ترجمہ کرتے وقت اپنی اپنی صوابدید کے مطابق معانی کا استعمال کرتے ہیں لیکن عارفین اور فقرا کے ہاں لقا سے مراد دیدار ہے۔

انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے۔ پہچان اور معرفت دیدار کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا دیدارِ الٰہی ہی اصل میں اللہ کی پہچان اور معرفت کی بنیاد ہے۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں :
جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کے بغیر اس کی عبادت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ریاکار ہے۔ (سرّ الاسرار)

ﷲ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق محض اس غرض سے کی ہے کہ اس کی پہچان ہو۔ اس کے حسنِ جلال و جمال کے جلوے آشکارہوں اور اس پر مر مٹنے والا کوئی عاشق ہو۔ روزِ الست عشق کی یہ بھاری امانت پوری کائنات میں صرف انسان نے ہی اٹھائی تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان پر اتنی مہربانی اور شفقت فرمائی کہ عالمِ خَلق میں جب بھی وہ اس ’’عہد‘‘ کو بھولنے لگا تو انبیا کرام کی صورت میں اُسے ہادی اور راہنما عطا فرما دیئے جو نہ صرف اس عہد کو یاد کراتے رہے بلکہ ’’عشق کے امتحان‘‘ میں کامیابی کی تیاری بھی کرواتے رہے۔ جب خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ جن کے لئے یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے، مبعوث ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لوگوں کو عشق کابھولاہواسبق یاد کرایا اور قرآنِ مجید اور سنت مبارکہ کی صورت میں ایک ضابطۂ حیات نوعِ انسانی کو دیا۔ 

قرآنِ مجید میں بار بار اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے: 
یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ (سورۃ الانشقاق ۔6)
 ترجمہ:  اے انسان! تو ﷲ کی طرف کوشش کرنے والا اور اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔ 

پھر اس کی ترغیب فرمائی:
فَفِرُّوْٓا اِلَی ِ  (سورۃ الذّٰریٰت۔50)   
ترجمہ: پس دوڑو  ﷲ کی طرف۔
پھر مزید مہربانی فرمائی کہ تمہارا ربّ بھی تمہارا منتظر ہے۔
اَتَصْبِرُوْنَ ج وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا(سورۃ الفرقان۔20)
ترجمہ: آیا تم صبر کئے بیٹھے ہو؟ (اور ﷲ کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہو؟) حالانکہ تمہارا ربّ تمہاری طرف دیکھ رہا ہے (تمہارا منتظر ہے)۔ 

اس کے بعد فرمایا کہ جو ہماری طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہماری طرف آنے کے راستے پالیتے ہیں۔
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا  (سورۃ العنکبوت۔69)
ترجمہ: اور جو لوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔
پھر لقائے الٰہی تک پہنچنے کا طریقہ بھی بتا دیا:
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا (سورۃ الکہف۔110)
ترجمہ: جو شخص اپنے ربّ کا لقاچاہتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اعمالِ صالحہ اختیار کرے۔ 

اور جو لوگ دیدارِ الٰہی کی خواہش اورکوشش نہیں کرتے ان کے بارے میں وعید فرمائی:
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِہَا وَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔ (سورۃ یونس۔7,8)
ترجمہ: بے شک جو لوگ لقائے الٰہی (دیدار) کی خواہش نہیں کرتے اور دنیا کی زندگی کو پسند کر کے اس پر مطمئن ہو گئے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو بیٹھے، انہیں ان کی کمائی سمیت جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔

دیدارِ الٰہی سے انکاری لوگوں کے انجام سے بھی آگاہی فرما دی:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا۔  (سورۃ الکہف۔105)
 ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے ربّ کی نشانیوں اور اس کے لقا (دیدارِ الٰہی) کا انکار کیا ان کے اعمال ضائع ہو گئے۔ ہم ان کے لئے قیامت کے دن کوئی تول قائم نہ کریں گےـ (یعنی بغیر حساب کے انہیں جہنم رسید کیا جائے گا)۔ 

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ  ِ (سورۃ الانعام۔ 31)
ترجمہ: بے شک وہ لوگ خسارے میں ہیں جنہوں نے لقائے الٰہی (دیدار) کو جھٹلایا۔
وَ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی    (سورۃ بنی اسرائیل۔ 72)
 ترجمہ: اور جو شخص اس دنیا میں (لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی (دیدارِ الٰہی کرنے سے) اندھا رہے گا۔ 

 اللہ نے اپنا ٹھکانہ بھی بتا دیا:
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ  (سورۃ الذّٰریٰت۔ 21)
ترجمہ :اور میں تمہارے اندر موجود ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔ 
وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ ِ     (سورۃ البقرہ۔115)
ترجمہ:اور مشرق و مغرب اﷲ کے لئے ہے لہٰذا تم جدھر بھی دیکھو گے تمہیں اﷲ تعالیٰ کا چہرہ نظر آئے گا۔ 

باطن میں دیدارِ الٰہی بڑا اعلیٰ و ارفع مقام ہے یہ وہ نعمت ہے جوعارفین کو عطا کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر عبادت کرنا عارف کا مقام ہے۔ لذتِ دیدار سے بہتر کوئی لذت نہیں ہے اللہ تعالی کا دیدار نورِ بصارت سے نہیں نورِ بصیرت سے ہوتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Bahoo)  کی تعلیماتِ فقر کا مرکز و محور ہی دیدارِ حق تعالیٰ ہے۔

دیدارِالٰہی کے تین طریقے

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Bahoo)  فرماتے ہیں:
قرآن و حدیث کی رو سے دیدارِ الٰہی کے مراتب کو پاناتین طریقوں سے روا ہے۔ اوّل، خواب میں اللہ کا دیدار کرنا۔ ایسے خوابوں کو نوری خواب کہا جاتا ہے جو اللہ کے بے حجاب دیدار کے لیے خلوت خانہ کی مثل ہوتے ہیں اور ان میں طالب مشاہدۂ دیدار وحضوریٔ پروردگار میں غرق ہوتا ہے۔ دوم مراقبے میں دیدارِ الٰہی کرنا، یہ مراقبہ موت کی مثل ہوتا ہے جو حق تعالیٰ کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔ تیسرا عین خدا کو اس طرح دیکھنا کہ طالب کا جسم اس جہان میں اور جان (روح) لاھوت لامکان میں ہوتی ہے۔یہ تینوں مراتبِ عظیم مرشد کامل کے فیض و فضل سے حاصل ہوتے ہیں۔  (نور الہدیٰ کلاں)

دیدارِ الٰہی کا منکر 

دیدارِ الٰہی کے منکر کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ہر کہ منکر از خدا دیدار شد
اُمتِ نبویؐ نباشد خوار شد

ترجمہ: جودیدارِ الٰہی کا انکار کرتا ہے وہ اُمتِ محمدی میں سے نہیں بلکہ اہلِ خوار میں سے ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)

دیدارِ الٰہی کہاں سے نصیب ہوتا ہے

اس سلسلہ میں آپؒ فرماتے ہیں:دیدارِ الٰہی کے منصب و مراتب کی تحقیق اور قوتِ دیدار کی توفیق صرف قادری (سروری قادری) طالب کو حاصل ہوتی ہے، دیگر کوئی سلسلہ اگر اس کا دعویٰ کرتاہے تو وہ لاف زن،جھوٹا اور اہلِ حجاب ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)

فقیرِ کامل(انسانِ کامل)

فقر کے انتہائی مراتب(وحدت، فنا فی اللہ بقاباللہ، وصال) تک جو جا پہنچے وہ انسانِ کامل یا فقیرِکامل ہے۔ارشاد ِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ 
ترجمہ: جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہی اللہ ہے۔

جب طالب فقر کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے تو جملہ صفاتِ الٰہی سے متصف ہو کر انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے۔ کائنات کے تمام مراتب میں سب سے اکمل ’’انسان‘‘ ہے اور جملہ افرادِ انسانی میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے اکمل و ارفع ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مظہرِ اُتم ّہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی انسانِ کامل ہیں اور آپ ہی حق تعالیٰ کے خلیفہ برحق ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ کے نائبین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے یہ مرتبہ حاصل ہوا۔ دنیا میں ہر وقت ایک شخص قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا باطنی نائب ہوتا ہے اور انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ وہ امانتِ الٰہیہ، خلافتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسے ہی مرشد کامل اکمل فرماتے ہیں۔

 انسانِ کامل پر فقر کی تکمیل ہوتی ہے اور اس مرتبہ پر اس صاحبِ فقر کی اپنی ہستی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ’میں اور تو‘ کا فرق مٹ جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے یکتائی کے اس مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے جہاں دوئی نہیں ہوتی۔ حدیثِ قدسی کے مطابق اس کا بولنا اللہ کا بولنا ہوتا ہے، اس کا دیکھنا اللہ کا دیکھنا، اس کا سننا اللہ کا سننا، اس کا چلنا اللہ کا چلنا اور اس کا پکڑنا اللہ کا پکڑنا ہوتا ہے۔ اس مقام کو مقامِ وحدت یا فقر فنا فی اللہ بقا باللہ وصالِ الٰہی بھی کہتے ہیں۔ہردور میں ایک ایسا انسانِ کامل مظہرِذات موجود ہوتاہے جو خلیفتہ اللہ اورنائبِ رسول ہوتاہے اور کائنات کا نظام اللہ تعالیٰ اس انسانِ کامل کے ذریعہ چلاتا ہے۔یہ عارفین کا سب سے اعلیٰ اور آخری مقام ہے جہاں پر وہ دوئی کی منزل سے بھی گزر جاتے ہیں۔ فقر کی اسی منزل پر جب حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پہنچے تو آپؒ نے فرمایا:
فقر کی منزل پر بارگاہِ کبریا (حق تعالیٰ) سے حکم ہوا ’’تو ہمارا عاشق ہے‘‘، اس فقیر نے عرض کی ’’عاجز کو حضرتِ کبریا کے عشق کی توفیق نہیں ہے۔‘‘ فرمایا ’’تو ہمارا معشوق ہے۔‘‘ یہ عاجز پھر خاموش ہو گیا توحضرتِ کبریا کے انوارِ تجلی کے فیض نے بندے کو ذرے کی طرح استغراق کے سمندر میں مستغرق کر دیا اور فرمایا ’’تو ہماری ذات کی عین ہے اور ہم تمہاری عین ہیں، حقیقت میں تو ہماری حقیقت ہے اور معرفت میں توہمارا یار ہے اور ’ھو‘ میں ’یاھو ‘ کا سرّہے۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)  

یہاں ’ھو‘ سے مراد ’ذاتِ حق تعالیٰ‘ ہے اور ’یاھوُ‘ سے مراد حقیقتِ محمدیہ ہے اور ’سِرّ‘ سے مراد تکمیلِ باطن اور وصالِ الٰہی ہے یعنی مقامِ فنا فی ھوُ (فنا فی اللہ بقاباللہ) ہے جہاں پر انسان کامل ہو کر تلقین و ارشاد کی مسند پر فائز ہوتا ہے۔

 انسانِ کامل کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
چونکہ اللہ تعالیٰ کے نور مبارک سے جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور مبارک ظاہر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے تمام مخلوق کا ظہور ہوا اس لئے انسان کی اصل نور ہے اور عمل کے مطابق جس کا نفس، قلب اور روح تینوں نور بن جاتے ہیں اسی کو انسانِ کامل کہتے ہیں۔ (عقلِ بیدار)

آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب نور الہدیٰ کلاں میں فرماتے ہیں:
 پس انسانِ کامل کا وجود ایک طلسمات اور اسم و مسمیّٰ کا گنج معمہّ ہوتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
یہاں آپؒ نے انسانِ کامل کے وجود کو طلسمات فرمایا ہے کیونکہ وہ مظہر عجائب الغرائب ہے اور اسم (اللہ) سے مسمیّٰ (ذاتِ الٰہی) کو پا لینے کا راز جانتا ہے۔ اس کا وجود اسرارِ الٰہیہ کا ایک خزانہ (گنج) ہے۔ جس طرح کسی خزانہ تک معمّہ حل کر کے پہنچا جاسکتا ہے اسی طرح انسانِ کامل کو پہچاننا بھی ایک معمّہ ہے اور جو اس معمہّ کو حل کر لیتا ہے وہی انسانِ کامل کی حقیقت تک پہنچتا ہے اور اسرارِ الٰہیہ کو پا لیتا ہے۔ انسانِ کامل کی حقیقت کی پہچان ادراکِ قلبی سے ہوتی ہے اور اس کی پہچان سے محروم انسان کو حدیثِ مبارکہ میں جاہل قرار دیا گیا ہے:
مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامِ زَمَانِہٖ مَاتَ مَیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً 
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو (ادراکِ قلبی سے) نہ پہچانا وہ جہالت کی موت مرا۔

انسانِ کامل کی پہچان کے لئے تصورِ اسمِ اللہ ذات ہی ایک ذریعہ ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے تصور کے بغیر انسانِ کامل کی پہچان ناممکن ہے کیونکہ انسانِ کامل کی منزل تک بھی اسمِ ذات ہی پہنچاتا ہے اگر یہ صاحبِ مسمیّٰ(انسانِ کامل) سے حاصل ہوا ہو۔

جب عارف واصل فنا فی اللہ اسمِ اللہ ذات کے برزخ کو تصور سے اپنے دل پرنقش کرتا اور اسے دیکھتا ہے تو اس کا جسم اسمِ اللہ ذات میں غائب ہو جاتا ہے ۔ اسے پتہ چل جاتا ہے کہ جسم اسمِ اللہ ذات میں فنا ہو کر غائب ہو گیا اور اسمِ اللہ ذات ظاہر ہو گیا ہے۔ پھر وہ ظاہر اور باطن میں مشاہدہ اسمِ اللہ ذات میں اس قدر مگن رہتا ہے کہ اس کے وجود میں ذکر کی لذت باقی نہیں رہتی۔ (عین الفقر)

وفا اور قربانی

راہِ فقر دراصل راہِ عشق ہے اور اس راہ میں کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک طالب اپنی ہر شے کو راہِ حق میں قربان نہیں کر دیتا۔ راہِ عشق میں ’’وفا اور قربانی‘‘ کا تقاضا ہے کہ وفا میں کبھی بھی لغزش نہ آئے اورجب قربانی کاوقت آئے تومنہ نہ موڑا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۃ آلِ عمران۔92)
ترجمہ: تم اس وقت تک بَرُّ (اللہ تعالیٰ) کو نہیں پاسکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کرو۔
سب سے بڑی سنت راہِ حق میں گھر بار لٹا دینا ہے۔ ﷲ پاک نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:
فَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ   (سورۃ النسا۔ 89)
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان میں سے کسی کو اپنا ولی (دوست) نہ بنائیں جب تک کہ وہ راہِ خدا میں اپنا گھر بار نہ چھوڑ دیں۔ 

حضورِ اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلانِ نبوت اور دعوتِ الی ﷲ کے جواب میں جن صحابہ کرامؓ نے لبیک کہا اور دل کی تصدیق کے ساتھ کلمہ طیب پڑھ کر ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے، ان پر مصائب اور تکالیف کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ جو مومن غریب و نادار اور غلام طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اُن پر پہلے روز سے تشدد کی چکی چلا دی گئی۔ انہیں اتنی شدت سے جسمانی، روحانی اور مالی اذیتیں دی گئیں کہ انسان اس کا تصور کر کے ہی کانپ اٹھتا ہے۔ مگر آفرین ہے صحابہ کرامؓ کی وفا اور قربانی پر کہ کسی قسم کا ظلم و ستم ان کو نہ تو راہِ حق سے ہٹا سکا اور نہ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان کی وفا میں کوئی کمی آئی۔ 

جو مومن معاشرہ میں ذی عزت اور صاحبِ حیثیت لوگ تھے ان کو تحریص و ترغیب کے ذریعے دینِ حق سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر اکسایا گیا۔ انہیں طرح طرح سے دنیاوی مال و جاہ کے لالچ دیئے گئے مگر جب ان کے پائے استقلال میں ذرا سی بھی لغزش نہ آئی تو انہیں مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا گیا۔ ان سے کاروباری اور معاشرتی میل جول بند کر دیا گیا حتیٰ کہ ایک دور ایسا آیا کہ سارے اہلِ مکہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور تمام صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کا سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ متواتر تین سال تک مومنین کی یہ جماعت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معیت میں ’’شعبِ ابی طالب‘‘ میں اہل ِمکہ کے سوشل بائیکاٹ کا شکار رہی۔ لیکن قربان جائیے ان کے جذبہ ٔایمانی پر کہ سخت سے سخت ترحالات میں بھی ان کا ایمان متزلزل نہ ہوا۔ اہل ِمکہ کے ظلم و ستم نے ان کی یہ حالت کر دی تھی کہ:
معاش کے ذرائع چھوٹ گئے۔
غربت، مفلسی اور فاقہ کشی نے ان کے گھروں میں ڈیرے ڈال لیے۔
عزیز و اقارب نے ساتھ چھوڑ دیا۔
جسمانی اذیتیں دی گئیں، گرم ریت اور کوئلوں پر لٹایا گیا، رسیوں اور زنجیروں میں جکڑا گیا۔
قبیلہ میں سرداریاں اور مراتب چھن گئے۔
مال و دولت جاتا رہا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ جیسے صحابہ کرامؓ نے اپنا تمام مال و متاع اﷲ کی راہ میں قربان کر دیا۔
پہلے حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میدانِ جہاد میں باپ اپنے بیٹے اور بیٹا اپنے باپ سے نبرد آزما تھا۔ 

یہ ساری تکالیف و مصائب صحابہ کرامؓ کے جذبۂ ایمان اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وفا کو متزلزل نہ کر سکے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی تربیت اس انداز میں فرمائی کہ ان کے دِلوں سے محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ہر محبت کو ختم کر ڈالا۔ ﷲ تعالیٰ کی محبت کی راہ میں جو بھی چیز حائل ہوئی صحابہ کرامؓ نے کمالِ بے نیازی سے اُسے ﷲ کی راہ میں قربان کر ڈالا اور جب بھی اسلام کو قربانی کی ضرورت پڑی صحابہ کرامؓ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’جب تک تواپنے بیٹوں کو یتیم اور اپنی بیویوں کو بیوہ نہیں کر دیتا، خود کو کتے کی طرح خاک میں نہیں ملا دیتا، لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ  (ترجمہ: تم اُس وقت تک برُّ (اللہ) کو نہیں پاسکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کر دو) کا ورد کرتے ہوئے اپنے گھر بار کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر دیتا اور یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٓٗ (ترجمہ: اللہ ان سے محبت کرتاہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں)کو ظاہر اور باطن میں اختیار کر کے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ  (ترجمہ: اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے) کا مقام و مرتبہ حاصل نہیں کر لیتا تب تک تیرا یار جانی تجھ سے کہاں راضی ہو گا؟ (عین الفقر)

یہ مضمون سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیفِ لطیف ’’ابیاتِ باھوؒ کامل‘‘ سے شکریہ اور اختصار کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔ 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کے مکمل اور تفصیلی مطالعہ کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی تصنیف’’ شمس الفقرا ‘‘ یا اس کے انگلش ترجمہ Sufism – The Soul of Islamکا مطالعہ فرمائیں۔

 

27 تبصرے “تعلیماتِ باھوؒ

  1. سلطان باھو سے قبل تاریخ میں کسی بھی شخص کا نام باھو نہیں ہے۔ آپ اپنی کتاب عین الفقر میں فرماتے ہیں
    حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور میرے پاس علمِ ظاہر نہ تھا۔ ہمیں علمِ حضوری عطا کیا گیا ہے جس کی واردات و فتوحات سے ظاہر اور باطن میں اتنا وسیع علم نصیب ہوا جس کو لکھنے کے لیے کئی کتابیں درکار ہیں۔

    ہمیں مکاشفات اور تجلیاتِ انوارِ ذاتی کے سبب علمِ ظاہری کے حصول کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی ہمیں ظاہری ورد و وظائف کی فرصت ملی ہے۔

    1. مرشدِ کامل اکمل کے بغیر ساری زندگی ظاہری عبادات تو بہت دور کی بات ہے ذکر اور تصورِ اسمِ اللہ ذات سے بھی باطن کا قفل نہیں کھلتا اور منزل حاصل نہیں ہوتی۔ راہ ِفقر میں مرشد کامل اکمل کی راہبری اور راہنمائی بہت ضروری ہے۔ مرشد کامل بھی ایسا جو امانتِ الٰہیہ کا حامل ہو اور خلافتِ الٰہیہ پر فائز ہو۔ جس طرح شریعت کا علم استاد کے بغیر ہاتھ نہیں آتا اسی طرح باطنی علم کا حصول مرشد کامل اکمل کی رفاقت کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ مرشد کی تلقین اور نگاہ ہی ایسا کیمیا ہے جو طالب کے وجود کی کثافت دور کر کے اسے روشن ضمیری کے قابل بناتی ہے۔

  2. ماشااللہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے نہایت خوبصورتی سے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کو قلم بند کیا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

  3. تمام دنیاخصوصاً فقرااوراولیامیں حضرت سخی سلطان باھوؒ ’’سلطان العارفین‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں اور آپؒ مرتبہ ’’سلطان الفقر‘‘پر فائز ہیں۔

  4. فقر و تصوف کی تعلیمات سے بھرپور 🌷

  5. اگر بائے بشریت حائل نبودے باھوؒ عین یا ھوُ است

  6. آپؒ سے قبل تاریخ میں کسی بھی شخص کا نام باھو نہیں ہے۔سلطان باھوؒ اسمِ ھوُ کے عین مظہر ہیں اور اپنی تمام کتب میں ہرجگہ اپنے آپ کو فقیرباھوؒ فنا فی ھوُ کہہ کر ذکر فرماتے ہیں اور جابجا اپنی فنا اور بقا اسمِ ھوُ میں بیان فرماتے ہیں۔

  7. سب سے بڑی سنت راہِ حق میں گھر بار لٹا دینا ہے۔

  8. سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات پر نہایت ہی جامع اور بہترین مضمون ہے ❣️

  9. حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’جب تک تواپنے بیٹوں کو یتیم اور اپنی بیویوں کو بیوہ نہیں کر دیتا، خود کو کتے کی طرح خاک میں نہیں ملا دیتا، لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (ترجمہ: تم اُس وقت تک برُّ (اللہ) کو نہیں پاسکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کر دو) کا ورد کرتے ہوئے اپنے گھر بار کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر دیتا اور یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٓٗ (ترجمہ: اللہ ان سے محبت کرتاہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں)کو ظاہر اور باطن میں اختیار کر کے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ (ترجمہ: اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے) کا مقام و مرتبہ حاصل نہیں کر لیتا تب تک تیرا یار جانی تجھ سے کہاں راضی ہو گا؟ (عین الفقر)

  10. جان لے کہ تمام پیغمبروں نے مرتبہ فقر پر پہنچنے کی التجا کی لیکن نہ پا سکے۔ وہ تمام فقر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے خود اپنی اُمت کے سپرد فرمایا۔ یہ فقرِ محمدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فخر ہے۔ فقر فیض ہے۔ (امیر الکونین)

  11. اگر بائے بشریت حائل نبودے باھوؒ عین یا ھوُ است
    ترجمہ: اگر بشریت کی با درمیان میں حائل نہ ہو تو باھو عین یا ھوُ ہے۔

  12. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی تربیت اس انداز میں فرمائی کہ ان کے دِلوں سے محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ہر محبت کو ختم کر ڈالا۔ ﷲ تعالیٰ کی محبت کی راہ میں جو بھی چیز حائل ہوئی صحابہ کرامؓ نے کمالِ بے نیازی سے اُسے ﷲ کی راہ میں قربان کر ڈالا اور جب بھی اسلام کو قربانی کی ضرورت پڑی صحابہ کرامؓ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا

اپنا تبصرہ بھیجیں