لامکاں کا پتہ


4.7/5 - (303 votes)

لامکاں کا پتہ (La-makan)

تحریر:  وقار احمد ارشاد سروری قادری

خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے:
اِنَّمَاالْا َعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ  (بخاری 6953)
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

کسی بھی کام کے وہی نتائج مرتب ہوتے ہیں جیسا اس کا ارادہ یا نیت کر کے کام کا آغاز کیا جاتا ہے۔خواہ وہ کام دنیاوی ہو یا دینی ۔ نیت یا ارادہ درحقیقت انسان کی سوچ ہی ہے ۔ انسان کسی شے کے بارے میں جیسی سوچ ، جیسا گمان رکھتا ہے وہ شے اُسی گمان کے مطابق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کے متعلق بھی مختلف مکاتبِ فکر موجود ہیں۔ جولوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ اس ذاتِ کبریائی کو نہ تو پایا جا سکتا ہے ،نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس دنیاوی زندگی میں اُس تک رسائی ممکن ہے تو وہ لوگ اپنی سوچ کے عین مطابق اللہ کی ذات سے محروم رہتے ہیں۔

سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ کَانَ فَیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی    (سورہ بنی اسرائیل – 72)
ترجمہ:  اورجو شخص اس دنیامیں (لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی (دیدارِ الٰہی کرنے سے) اندھا رہے گا۔
قَدْخَسِرَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ اللّٰہِط  (سورۃانعام 31-)
ترجمہ: بے شک وہ لوگ خسارے میں ہیں جنہوں نے لقائے الٰہی (دیدار) کو جھٹلایا۔ 

ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ گمان کیے بیٹھا ہے کہ محض ظاہری شریعت کے فرائض اور حقوق العباد ادا کرنا کافی ہے۔ تو یہ طبقہ تمام زندگی نماز ‘ روزہ‘ حج ‘ زکوٰۃ غرض ظاہری عبادات کے سمندر سے باہر نہیں نکل پاتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْنَ لِقَآء نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَنُّوْا بِھَاوَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَاغٰفِلُوْنَ۔  اُولٰٓئِکَ مَاْ وٰھُمُ النَّارُ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔  (سورۃ یونس  7-8)
ترجمہ: بے شک جو لوگ لقائے الٰہی (دیدار) کی خواہش نہیں کرتے اور دنیا کی زندگی کو پسند کر کے اس پر مطمئن ہو گئے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو بیٹھے،انہیں ان کی کمائی سمیت جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔

 سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
اگر کسی کو طاعت ،ریاضت اور پارسائی سے حق حاصل ہوتا تو ابلیس کو ہوتا کہ ابلیس زاہد، عابد اورصاحبِ طاعت تھامگر اس میں کبر و اَنا پیدا ہو گئی جس سے وہ مردود ہو گیا۔ اگر کسی کو علم اور فضیلت سے حق حاصل ہوتا تو بلعم باعور کو ہوتا کہ اس کے مدرسے میں ہر وقت بارہ ہزار دواتیں اور قلم قاف سے قاف تک( تمام علوم )کی زیر و زبرکی حقیقت لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ اگر کسی کو مال و دولت سے حق حاصل ہوتا توقارون کوحاصل ہوتا کہ اس کے خزانے تحت الثریٰ (زمین کا سب سے نیچے کا طبقہ، پاتال)سے بھی نیچے تک دفن تھے۔ اگر کسی کو خدائی کادعویٰ کرنے سے حق حاصل ہوتا تو فرعون کو ہوتا کہ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیااوردریائے نیل میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ اگر کسی کو جہالت سے حق حاصل ہوتا تو ابو جہل کو ہوتا۔ حق تعالیٰ کا قرب پانا صرف اللہ تعالیٰ کی خالص محبت اور خلوص سے ممکن ہے۔ چنانچہ اسی محبت اورخلوص نے اصحابِ کہف کے کتے کو کتوں کی نسل  سے نکال کر آدمیوں کی صف میں شامل کردیا۔ جس کے متعلق قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’چھٹا اُن کا کتا ہے۔ یہ ان کا غائبانہ قیاس ہے۔‘‘ اگر تو اولادِ آدم ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت میں کتے سے توکمتر نہ ہو۔ (عین الفقر، باب چہارم)

آپؒ اپنے پنجابی بیت میں اسی بات کا خلاصہ کرتے ہیں:

جے ربّ ناتیاں دھوتیاں ملدا، تاں ملدا ڈڈواں مچھیاں ھوُ
جے ربّ لمیاں والاں ملدا، تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھوُ
جے ربّ راتیں جاگیاں ملدا، تاں ملدا کال کڑچھیاں ھوُ
جے ربّ جتیاں ستیاں ملدا، تاں ملدا دانداں خصیاں ھوُ
اِنہاں گلاّں ربّ حاصل ناہیں باھوؒ، ربّ ملدا دِلاں ہچھیاں ھوُ

مفہوم: اگردیدارِ حق تعالیٰ پاک و صاف رہنے سے حاصل ہوتا تو مینڈکوں اور مچھلیوں کو حاصل ہوتا جو ہر وقت پانی میں رہتے ہیں، اگر بال بڑھانے سے حاصل ہوتا تو بھیڑ بکریوں کو حاصل ہوتا، اگر شب بیداری سے حاصل ہوتا تو کال کڑچھیوں (ایک پرندہ جو رات کو جاگتا ہے) کو حاصل ہوتا اور اگر مجرد رہنے سے یا نکاح نہ کرنے سے حاصل ہوتا تو خصی شدہ بیلوں کو حاصل ہوتا۔ لیکن ان تمام باتوں سے دیدارِ حق تعالیٰ حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ نعمت توانہیں حاصل ہوتی ہے جن کی نیت صاف اور دل اخلاص سے معمور ہوتے ہیں۔

ان مکاتبِ فکر کے علاوہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنے ذہنوں میں یہ سوچ رکھتا ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات تک کیسے رسائی ہو سکتی ہے ؟ کیا اُس ربِ ذوالجلال کو دیکھا جاسکتاہے ؟ کاش میں اپنے ربّ کو دیکھ پاتا۔ کاش میں اپنے خالقِ حقیقی کے رُوبرو پیش ہوکر اپنے دل کی کیفیات بیان کر پاتا۔ کاش۔۔۔

یہی وہ سوچ ہے جو انسان کو حق تعالیٰ کی طرف لے جانے اور اس کے قرب و وصال کی بنیاد بنتی ہے۔ جب انسان اس بات پر مطمئن ہو بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ کو پایا ہی نہیں جا سکتا تو پھر اللہ کی ذات تو بے نیاز ہے لیکن جہاں کہیں اپنے ربّ سے ملنے کی ہلکی سی چنگاری بھی سلگتی ہے تو اللہ ربُّ العزت اُس چنگاری کو آہستہ آہستہ اپنے عشق کی آگ میں تبدیل کر دیتا ہے اور انسان کی طلب ِحق میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ حق کی طلب ایسی طلب ہے جو جتنی پوری ہواُتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے اور طالبِ حق  ھَلْ مِنْ مَّزِیْد  کا مصداق بن جاتا ہے۔

دل میں ہو سوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے رازِ حقیقت کی خبر
(بانگ ِ درا) 

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لامکاں ذات کو کہاں تلاش کیا جائے؟

عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکہ اس پر
کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانۂ دل
(بانگِ درا)

اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے :
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا  (سورۃ العنکبوت29-)
ترجمہ: اور جو لوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہماری طرف آنے کی جدوجہد اور کوشش جبکہ اللہ تعالیٰ تو کون و مکاں کی قید سے آزاد ہے تو پھر اس بات کا کیا مطلب ہوا؟
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
لَایَسْعُنِیْ فِی الْاَرْضِ وَلَافِی السَّمَآئِ وَلٰکِنْ یَسْعُنِیْ فِیْ قَلْبُ عَبْدُ الْمُؤْمِنْ۔ 
ترجمہ: نہ میں زمین میں سماتا ہوں اورنہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے قلب میں سما جاتا ہوں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَفِیْ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَاتُبْصِرُوْنَ ۔   (سورۃ الذّٰریٰت21-)
ترجمہ:  اور میں تمہارے اندرموجود ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔

ایک حدیث ِ مبارکہ میں آیا ہے :
قَلْبُ الْمُؤْ مِن عَرْشُ اللّٰہِ تَعَالٰی۔ 
ترجمہ: مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔
مندرجہ بالا احادیث اور قرآنی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حق کو تلاش کرنے کے لیے انسان کو اپنے ہی اندر جھانکنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی حق تک پہنچنا چاہتا ہے تو اُسے اپنے باطن کا سفر طے کرنا ہوگا۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

ناں ربّ عرش معلی اُتیّ، ناں ربّ خانے کعبے ھوُ
ناں ربّ علم کتابیں لبھا، ناں ربّ وِچ محرابے ھوُ
گنگا تیر تھیں مول نہِ ملیا، مارے پینڈے  بے حسابے ھوُ
جد دا مرشد پھڑیا باھوؒ، چھٹے کلُ عذابے ھوُ

مفہوم: میں نے اللہ تعالیٰ کو تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ اللہ پاک کا ٹھکا نہ نہ ہی عرشِ معلی پر اور خانہ کعبہ میں ہے اور نہ ہی مساجد و محراب اور عبادت گاہوں میں ہے۔ نہ ہی کتابوں کے مطالعہ اور علم حاصل کرنے سے ربّ ملتا ہے اور نہ ہی جنگلو ں میں جا کر زہد و ریاضت کرنے سے۔ دراصل اللہ تعالیٰ کا ٹھکانہ مر شد کامل (صاحبِ راز) کے سینے میں ہے۔ میں نے جب سے مرشد کا دامن پکڑا ہے تلاشِ حق تعالیٰ کیلئے میری ساری مشقتیں اور پریشانیاں ختم ہو گئی ہیں۔

ڈاکٹرعلامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں:

تو اے اسیرِ مکاں! لامکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ گاہ تیرے خاک داں سے دور نہیں
(بالِ جبریل )

مذکورہ بالا سورۃ الذّٰریٰت کی آیت ’’اورمیں تمہارے اندر ہوں کیاتم غور سے نہیں دیکھتے‘‘ کے تحت اگر خدائے بزرگ و برتر انسان کے اندر موجود ہے تو ہم اُسے محسوس کیوں نہیں کر پاتے، اسے اپنے اندردیکھ کیوں نہیں پاتے؟دراصل اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیان ’نفس‘ کا حجاب لاحق ہے۔ اگر یہ حجاب ہٹ جائے تو انسان اپنے ربّ تعالیٰ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اوراللہ تعالیٰ سے قرب و وصال کے اعلیٰ ترین مقام یعنی دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوتا ہے لیکن نفس کے حجاب کو ہٹانا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ نفس شیطان کا آلۂ کار ہے جس کی بدولت شیطان انسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکاتا ہے۔ لہٰذا شیطان انسان کا ازلی دشمن ہونے کے ناطے یہ بات ہر گز برداشت نہیں کرتا کہ نفس کے حجاب کو ہٹا کر شیطان کا راستہ بند کر دیا جائے۔ جونہی انسان لامکاں کے سراغ کے لیے کمر بستہ ہوتا ہے ، شیطان دل میں مختلف وسوسے ڈال کر نفس کی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا کر کے راہِ حق سے گمراہ کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الناس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔  مَلِکِ النَّاسِ ۔ اِلٰہِ النَّاسِ۔  مِنْ شَرِّالْوَاسِ لا الْخَنَّاسِ ۔ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِالنَّاسِ ۔ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔
ترجمہ: آپ عرض کیجیے کہ میں (سب) انسانوں کے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں۔ جو(سب) لوگوں کا بادشاہ ہے۔ جو (ساری) نسلِ انسانی کا معبود ہے۔ وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اللہ کے ذکرکے اثرسے) پیچھے ہٹ جانے والاہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

لہٰذا نفس کے حجاب کو ہٹا کر حق تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے ماہر امراضِ باطن کی صحبت اختیار کی جائے جو شیطان اور نفس کی مکاری سے مکمل طور پر واقف ہو اور انسان کو نفس کی بیماریوں سے آزاد کر کے اسے نفس کے اعلیٰ ترین درجہ یعنی ’نفسِ مطمئنہ‘  پر فائز کر سکے۔ راہِ تصوف میں نفس کو بیماریوں سے پاک کرکے اس قابل بنانا کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان حجاب کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا تابع ہو جائے، تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔یوں تو اولیا اللہ کے نزدیک تزکیۂ نفس کے کئی طریقے روا ہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طریقہ کار سب سے بہترین اور مئوثر ہے جس کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی صحبت، بے پناہ روحانی طاقت اور نگاہِ کاملہ کے ذریعے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کا تزکیۂ نفس فرماتے تھے۔

اگر ہم حق تعالیٰ تک رسائی چاہتے ہیں تو ہمیں ایک ایسے مرشد کامل اکمل کی ضرورت ہے جو عین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریقہ کار کے مطابق نفس کا تزکیہ کرے ۔ ایسا مرشد کامل جو طالب کو اسمِ اللہ ذات کا تصور، سلطان الاذکارھوُ کا ذکراورمشق مرقومِ وجودیہ عطا کر کے دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسے باطن کے اعلیٰ ترین مقامات تک پہنچائے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے مرشد کامل کو طبیب کہا ہے۔

مرشد طبیب (ڈاکٹر) کی مثل ہوتا ہے اور طالب مریض کی مثل۔ (عین الفقر)

جس طرح انسان ظاہری امراض کے علاج کے لیے مرض کی نوعیت کے مطابق ڈاکٹر (طبیب) تلاش کرتا ہے اسی طرح باطنی بیماریوں کے علاج کے لیے بھی مرشد کامل اکمل کی تلاش اور پھر اس کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل پیرا ہونا لازم ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ یہی مدعا بڑی خوبصورتی سے پنجابی بیت میں بیان فرمارہے ہیں:

کامل مرُشد ایسا ہووے، جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھوُ
نال نگاہ دے پاک کریندا، وِچ سجی صبون نہ گھتے ھوُ
میلیاں نوں کر دیندا چٹا، وِچ ذَرّہ میل نہ رَکھے ھوُ
ایسا مرشد ہووے باھوؒ، جیہڑا لوُں لوُں دے وِچ وَسیّ ھوُ

مفہوم: مرشد کامل کو دھوبی کی طرح ہونا چاہیے۔ جس طرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتا اور میلے کپڑوں کو صاف کردیتا ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل طالب کو ورد و وظائف، چلہ کشی اور رنج ِریاضت کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اسمِ اللہ ذات کی راہ دکھا کر اور اپنی نگاہِ کامل سے تز کیۂ نفس کر کے اس کے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے۔ اسے خواہشاتِ دنیا و نفس سے نجات دلاکر اور غیر اللہ کی محبت اس کے دل سے نکال کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں غرق کردیتا ہے۔ مرشد تو ایسا ہونا چاہیے جو طالب کے لوُں لوُں میں بستا ہو۔

 سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس آج کے اس پرُفتن دور میں شمعِ معرفت روشن کیے ہوئے ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام ہیں۔بے شمارمرد و خواتین اُس ہستیٔ لامکاں کا پتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بلاواسطہ یا بلواسطہ آپ مدظلہ الاقدس کے دَر تک پہنچے ہیں جن میں کثیر تعداد غیر مسلم افراد کی بھی ہے۔ جیسا کہ اللہ ربّ العزت نے قرآن پاک میں وعدہ فرمایا ہے کہ’’ جو اللہ کی طرف آنے کی کوشش کرتا ہے اسے اللہ پاک راستہ دکھلا دیتا ہے‘‘ لہٰذا متلاشیانِ حق کی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی طرف راہنمائی اس بات پر مہر ثبت کرتی ہے کہ بلاشبہ آپ مدظلہ الاقدس ہی دورِ حاضر کے مرشد کامل ہیں جو لامکان کا پتہ جانتے ہیں اوراپنے دَر پر آنے والے طالبوں کو بھی اس قابل بنانے کا تصرف رکھتے ہیں کہ وہ بھی حق تک رسائی حاصل کر سکیں۔تاحال بے شمار طالبانِ حق آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ سے واصلِ حق ہو چکے ہیں اور اپنا مقصدِحیات یعنی معرفتِ الٰہی پا چکے ہیں۔ ہر اُس طالب کو دعوتِ عام ہے جو تلاشِ حق کے لیے کوشاں ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اپنی تلاش کو منزل تک پہنچائے۔ مگر یہاں ایک مرتبہ پھر اِسی بات کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا کہ یہ راہ خلوص اور صدق کی راہ ہے۔ جو طالب اپنی طلب میں جس قدر مخلص اور کھرا ہو گا اتنا ہی اس کے لیے منزل تک پہنچنا آسان ہو گا۔ 

حضرت بابا بلھے شاہؒ کے مطابق جس نے رازِحق پایا ، راہِ باطن تلاش کر کے ہی پایا اور جس نے یہ راز پا لیا وہ آخر سکونِ حقیقی کا حقدار بن گیا اور خوشی و غم، گناہ و ثواب، حیات و موت اور ہر طرح کے امتیاز سے آزاد ہو گیا۔

جس پایا بھیت قلندر دا
راہ کھوجیا اپنے اندر دا
اوہ واسی ہے سکھ مندر دا
جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
ایہہ تلکن بازی ویہڑا اے
تھم تھم کے ٹرو اندھیرا اے
وڑ اندر ویکھو کیہڑا اے
کیوں خلقت باہر ڈھونڈیندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے

 اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ تمام متلاشیانِ حق کو نفس ، دنیا اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے اور تلاشِ حق کے سفر میں ثابت قدمی اور استقامت عطا فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
شمس الفقرا
فقرِ اقبال


36 تبصرے “لامکاں کا پتہ

  1. جس طرح انسان ظاہری امراض کے علاج کے لیے مرض کی نوعیت کے مطابق ڈاکٹر (طبیب) تلاش کرتا ہے اسی طرح باطنی بیماریوں کے علاج کے لیے بھی مرشد کامل اکمل کی تلاش اور پھر اس کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل پیرا ہونا لازم ہے۔

  2. اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ تمام متلاشیانِ حق کو نفس ، دنیا اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے

    1. اگر ہم حق تعالیٰ تک رسائی چاہتے ہیں تو ہمیں ایک ایسے مرشد کامل اکمل کی ضرورت ہے جو عین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریقہ کار کے مطابق نفس کا تزکیہ کرے ۔ ایسا مرشد کامل جو طالب کو اسمِ اللہ ذات کا تصور، سلطان الاذکارھوُ کا ذکراورمشق مرقومِ وجودیہ عطا کر کے دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسے باطن کے اعلیٰ ترین مقامات تک پہنچائے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے مرشد کامل کو طبیب کہا ہے۔

  3. ہر اُس طالب کو دعوتِ عام ہے جو تلاشِ حق کے لیے کوشاں ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اپنی تلاش کو منزل تک پہنچائے۔

  4. وَمَنْ کَانَ فَیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سورہ بنی اسرائیل – 72)
    ترجمہ: اورجو شخص اس دنیامیں (لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی (دیدارِ الٰہی کرنے سے) اندھا رہے گا۔

  5. جونہی انسان لامکاں کے سراغ کے لیے کمر بستہ ہوتا ہے ، شیطان دل میں مختلف وسوسے ڈال کر نفس کی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا کر کے راہِ حق سے گمراہ کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔

  6. عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکہ اس پر
    کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانۂ دل

  7. دل میں ہو سوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
    نور سے جس کے ملے رازِ حقیقت کی خبر
    (بانگ ِ درا)

  8. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس آج کے اس پرُفتن دور میں شمعِ معرفت روشن کیے ہوئے ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام ہیں۔بے شمارمرد و خواتین اُس ہستیٔ لامکاں کا پتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بلاواسطہ یا بلواسطہ آپ مدظلہ الاقدس کے دَر تک پہنچے ہیں جن میں کثیر تعداد غیر مسلم افراد کی بھی ہے۔ جیسا کہ اللہ ربّ العزت نے قرآن پاک میں وعدہ فرمایا ہے کہ’’ جو اللہ کی طرف آنے کی کوشش کرتا ہے اسے اللہ پاک راستہ دکھلا دیتا ہے‘‘ لہٰذا متلاشیانِ حق کی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی طرف راہنمائی اس بات پر مہر ثبت کرتی ہے کہ بلاشبہ آپ مدظلہ الاقدس ہی دورِ حاضر کے مرشد کامل ہیں جو لامکان کا پتہ جانتے ہیں اوراپنے دَر پر آنے والے طالبوں کو بھی اس قابل بنانے کا تصرف رکھتے ہیں کہ وہ بھی حق تک رسائی حاصل کر سکیں۔تاحال بے شمار طالبانِ حق آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ سے واصلِ حق ہو چکے ہیں اور اپنا مقصدِحیات یعنی معرفتِ الٰہی پا چکے ہیں۔ ہر اُس طالب کو دعوتِ عام ہے جو تلاشِ حق کے لیے کوشاں ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اپنی تلاش کو منزل تک پہنچائے۔ مگر یہاں ایک مرتبہ پھر اِسی بات کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا کہ یہ راہ خلوص اور صدق کی راہ ہے۔ جو طالب اپنی طلب میں جس قدر مخلص اور کھرا ہو گا اتنا ہی اس کے لیے منزل تک پہنچنا آسان ہو گا۔

    1. عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکہ اس پر
      کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانۂ دل

  9. تو اے اسیرِ مکاں! لامکاں سے دور نہیں
    وہ جلوہ گاہ تیرے خاک داں سے دور نہیں
    (بالِ جبریل )

  10. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس آج کے اس پرُفتن دور میں شمعِ معرفت روشن کیے ہوئے ہیں۔

  11. جس طرح انسان ظاہری امراض کے علاج کے لیے مرض کی نوعیت کے مطابق ڈاکٹر (طبیب) تلاش کرتا ہے اسی طرح باطنی بیماریوں کے علاج کے لیے بھی مرشد کامل اکمل کی تلاش اور پھر اس کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل پیرا ہونا لازم ہے۔

  12. راہنمائی کے لیے بہت معلوماتی مضمون ہے
    نفس کے حجاب کو ہٹا کر حق تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے ماہر امراضِ باطن کی صحبت اختیار کی جائے جو شیطان اور نفس کی مکاری سے مکمل طور پر واقف ہو اور انسان کو نفس کی بیماریوں سے آزاد کر کے اسے نفس کے اعلیٰ ترین درجہ یعنی ’نفسِ مطمئنہ‘ پر فائز کر سکے۔ راہِ تصوف میں نفس کو بیماریوں سے پاک کرکے اس قابل بنانا کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان حجاب کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا تابع ہو جائے، تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔وہ انسان کامل سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب رحمن مدظلہ اقدس ہیں۔

  13. ارشادِ ربانی ہے:
    ’’تم کو پیغمبرِخدا کی پیروی کرنی بہتر ہے یعنی اس شخص کو جسے خدا سے ملنے (دیدار الٰہی) اور روزِ قیامت کے آنے کی اُمید ہو اور وہ کثرت سے ذکرِاللہ (ذکر و تصور اسم اللہ ذات) کرتا ہو۔‘‘ (الاحزاب۔21)

اپنا تبصرہ بھیجیں