شان سلطان العاشقین Shan Sultan-ul-Ashiqeen


2.7/5 - (27 votes)

شان سلطان العاشقین۔ حصہ دوم(Shan Sultan-ul-Ashiqeen)

تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

بطور مجدد

بمطابق حدیث مجدد ہر صدی کے شروع میں ظاہر ہوتا ہے اور دین محمدی کو موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ مجدد کی کاوشیں مخلوق کے ماننے پر موقوف نہیں جیسے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی حقیقی پہچان بطور فنا فی اللہ بقاباللہ فقیر ولی اللہ زمانے کو تب ہوئی جب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو امانتِ الٰہیہ منتقل ہوئی وگرنہ اس سے قبل انہیں صرف ایک صوفی شاعر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا قول کہ میرے مزار سے نور کے فوارے پھوٹیں گے اور دنیا بھر میں پھیل جائیں گے دراصل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے مجدد ہونے کی دلیل ہے۔ حدیث ہے کہ اللہ نے اہلِ حق کی پیشانیوں پر ہاتھ پھیرا اسلئے ان کو صرف اہلِ محبت پہچان سکتے ہیں۔یہی وجہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی پہچان کے لئے شرط ہے۔ اہلِ محبت خواہ سات سمندر پار سے بھی چل کر آئے وہ ایک لمحے میں ہی نورِ الٰہی آپ مدظلہ الاقدس کی پیشانی میں پہچان لیتا ہے کہ اس پیشانی میں بھی وہی نور ہے۔ جس کی پیشانی نور سے محروم ہے وہ کیسے اس نور کو پہچان سکتا ہے جب تک کہ اللہ اس کی پیشانی بھی وسیلۂ سلطان العاشقین سے اس نور سے بھر دے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔ (سورۃ المائدہ۔)

نورِ الٰہی کی پہچان ادراکِ قلبی سے ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’میں نے اپنے ربّ کو ادراک قلبی سے پہچانا۔‘‘ 

اولیا کاملین کی ذات و صفات انوارِ الٰہی کا اظہار ہیں۔ مجدد ِدوراں کی خدماتِ دین دراصل اظہارِ صفاتِ الٰہیہ ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مجدد کی پہچان اس دور کے وہ سالک کر پاتے ہیں جن کے دل ادراکِ قلبی سے منور ہوں۔ بنا بریں ولی کامل و مجددِ دین اپنے دور میں غیر معروف ہوتا ہے۔ جب وصال کے بعد وہ ہر قید و بند سے آزاد ہو جاتا ہے تو خاص مقررہ وقت پر معروف ہو جاتا ہے جیسے آج سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ معروف ہیں۔ الغرض فیض الٰہی کے حق دار وہ ہیں جو اپنے زمانے کے مجدد کو پہچان لیں۔ 

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے جس نہج پر دینِ محمدی کی اصل روح کو عام کیا وہاں عقل کے قافلے نہیں پہنچ پاتے۔ وہاں صرف عشق کی سواری ہے۔ لطف کی بات ہے کہ پیاسا تشنہ لب نہیں رہا اور جس کی طلب نہیں اس کو اس جام کا ادراک تک نہیں کہ مئے خانہ بھی موجود ہے!
حدیث قدسی ہے کہ ’’زمانہ میں خود ہوں‘‘۔ مجدد ،دین کی تجدید زمانے کے نئے اصولوں کے مطابق کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارا دین مکمل کر دیا گیا۔  اس لئے مجدد ہر دور میں قدمِ محمدؐ پر ہوتے ہوئے نئے زمانے کی ترقی کے مطابق دین کو حیات بخشتا ہے۔ اسی اصول کے مطابق سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے بطور مجدد دینِ محمدی کو حیاتِ نو بخش کر امت مسلمہ کے لیے آسانی پیدا کر دی۔ 

مجدد کی ہر دور میں نشانی یہ ہے کہ اس کا ہر لمحہ دین کی سر بلندی کے لئے صرف ہوتا ہے کہ جیسے میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ کے مریدین نے آپ کو آج تک ایک لمحہ کے لئے بھی فراغت کی حالت میں نہ پایا۔ 

اگر کسی زمانہ میں فتنے سر اٹھانے لگیں تو اس دور کے مجدد کو ضرورت کے مطابق اللہ معروف کر دیتا ہے جیسے سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کو معروف کیا کہ آپؓ اپنی حیات میں ہی ایک حد تک مقبول ہو گئے تھے۔ چونکہ موجودہ زمانہ میں بھی فتنے جنم لے رہے ہیں تو اللہ پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو بھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ معروف کرتا جا رہا ہے۔ 

گو کہ جو مجددِ دین اپنی حیاتِ ظاہری میں معروف ہوتے ہیں وہ خاص جہت سے ہوتے ہیں اسی لئے جو لوگ اس خاص جہت سے جڑے ہوتے ہیں صرف وہی ان پاکیزہ ہستیوں کو پہچان پاتے ہیں۔ اِن ہستیوں کا مقام لمحہ بہ لمحہ بلندی پر ہوتا ہے اور بلندی کی تاویل میں کچھ صورتوں میں معروف ہونا بھی شامل ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی ہے ’’میرے چند اولیا ایسے ہیں جو میری قبا کے نیچے ہیں، ان کو میرے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘

مجدد کی سادہ سی پہچان یہ ہے کہ اس کے مریدین دینِ حق سے آشنا ہوتے ہیں کیونکہ ان پر وہ نظر پڑی ہوتی ہے جو بذاتِ خود سراسر دین ہے۔ یہی بات شہادت ہے کہ میرے مرشد میرے ہادی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس مجددِ دین ہیں۔

دعوتِ حق

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے عوام الناس کو ہمیشہ دعوتِ حق دی حتیٰ کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس دعوت کی ذمہ داری سے غفلت نہ برتی بلکہ اس ذمہ داری کا پورا پورا حق ادا فرما دیا۔ سراپا حق ہی دعوتِ حق کا فریضہ انجام دے پاتا ہے اور انسان اسی چیز کی دعوت دیتا ہے جو اس کے پاس ہو۔ اہلِ حق کی دعوت ازل سے یہی ہے کہ حق کی طرف مخلوق کو بلایا جائے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے زندگی میں جو کچھ بھی کیا اس کا مقصد مخلوق کو حق کی طرف بلانا تھا۔ حق کی طرف لوگ تبھی آتے ہیں جب وہ علم سے حق کو جان کر مشاہدہ بھی کر لیں اور پھر خود واصلِ حق ہو جائیں۔ یہی طریقہ کار میرے مرشد پاک نے اپنایاکہ آپ مدظلہ الاقدس کی دعوتِ حق علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے مراتب کی جامع ہے۔ 

علم الیقین کے لئے آپ کی کتب ہیں، عین الیقین کے لئے آپ کی صحبت اور حق الیقین کے لئے آپ مدظلہ الاقدس کا نورِ الٰہی سے منور چہرۂ مبارک۔ جس کی جتنی استطاعت ہے وہ اتنا فیضیاب ہے۔ جس کا جتنا پیمانہ ہے وہ اتنا ہی حاصل کر پاتا ہے گو کہ جام لامحدود ہے۔ اس دعوت کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دعوت صاحبِ نظر اپنی نظر اور توجہ سے دیتا ہے اور قبول کرنے والا دل سے قبول کرتا ہے۔ تاہم دینے والا صاحبِ نظر ہو جیسے میرے مرشد اور قبول وہی کر پاتا ہے جس کے پاس عشقِ حقیقی سے معمور دل ہو یا ادراکِ قلبی کی نعمت۔ اگر کوئی طالبِ مولیٰ میرے مرشد کی بارگاہ میں آ جائے تو وہ پہلے روز ہی مالامال ہو جاتا ہے۔ اسے وہ دولت نصیب ہو جاتی ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فخر فرمایا ہے۔ ایسے مرید کی نشانی ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر آتا ہے یا گردن کٹوا کر آتا ہے۔ ایسا طالب اپنا سب کچھ چاہے وہ خواہشات ہوں یا دنیاوی مال، مرشد کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ پھر جب مرشد اسے اندر باہر سے خواہشاتِ نفسانی سے خالی پاتا ہے تو اس کے ظاہر باطن کو نواز دیتا ہے۔ ایسا طالب سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ سے کبھی مایوس نہیں لوٹا۔ آپ مدظلہ الاقدس بھی ایسے طالبوں کی تلاش میں رہتے ہیں تاہم ایسے طالب نہ ہونے کے برابر ہیں جن کی نظر ہر حال میں اپنے مرشد پر رہے۔ 

مزید برآں اس دعوتِ حق میں سونا قربان کرنے والے کو سونا ملتا ہے، چاندی والے کو چاندی اور مٹی والے کو مٹی۔ اب طالب پر ہے کہ وہ قربان کیاکرتاہے اور جو اتنی ہمت رکھتا ہو کہ سب کچھ قربان کردے تو اللہ کے فضل سے اسے سب کچھ مل جاتا ہے۔ سب کچھ سے مراد اللہ پاک کی ذات ہے کیونکہ سب اُسی کا ہے اوراُسی سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم ہمت کو کم ملتا ہے اور زیادہ ہمت والے کو بقدر ہمت ملتا ہے۔ اسی لئے سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’طالب کو صاحبِ ہمت ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ بلند ہمت طالب ہی اس راستے کی بلندیوں کو پہنچ پاتا ہے۔

صحبتِ سلطان العاشقین

صحبت کے فیض کو جاننے کے لئے ولی کامل کی صحبت میں رہنا ضروری قرار پایا ہے۔ جاننے کی جہت میں علم کی پرواز محدود ہے۔ کسی شئے کی حقیقت کو صرف تبھی جاناجا سکتا ہے جب اسے دیکھا ہو، اس سے گزر ہوا ہو یا اس کا تجربہ ہوا ہو۔ اس لیے جو ولیٔ کامل کی صحبت کے فیض کو پانا چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک بار سچی نیت کے ساتھ میرے مرشد کی بارگاہ میں آئیں۔ 

صحبت کی اہمیت اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ آج تک کوئی بھی صحبتِ مرشد کے بغیر ولیٔ کامل کے مرتبے پر فائز نہیں ہوا۔ صحبت سے پہلے قیل و قال کی حاجت ہے جبکہ صحبتِ مرشد اس مصیبت سے نجات دلا دیتی ہے کیونکہ جب انسان خود دیکھ لے، حالت سے گزر جائے تو قیل و قال کی حاجت نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ میرے مرشد کی صحبت سے دین کے لئے سینہ کشادہ ہو جاتا ہے۔ انسان حقیقت سے بیگانہ ہے اور صرف صحبتِ مرشد سے یگانگت حاصل ہوتی ہے کہ مرشد کامل ہی انسان کا سچا دوست ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
’’انسان کا دین اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔‘‘ (ابوداؤد 4833)
طالبِ مولیٰ کے لیے لازم ہے کہ ایسی دوستی ہی اپنائے۔ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے:
دوستی صرف مومن کے ساتھ کرو ، اور تمہارا کھانا کسی پرہیزگار کے پیٹ میں جانا چاہیے۔ (مستدرک حاکم 7169)

یعنی طالبِ مولیٰ کے مال و دولت کا حقدار بھی مرشد کامل اکمل ہے اور اسی کے لئے سب کچھ قربان کرنا چاہیے۔ ایمان کی کاملیت صحبتِ ولی کامل کے بغیر نا ممکن ہے۔ مرشد کامل اکمل کی صحبت سے حق اور باطل واضح ہو جاتے ہیں کیونکہ مرشدکسوٹی ہے اور مثلِ آئینہ ہے جس میں نیک نیت اپنے آپ کو سنوار لیتے ہیں جبکہ بدنیت کی بدبختی واضح ہو جاتی ہے کیونکہ ہر چیز اپنی اصل کو لوٹتی ہے۔ صحبت وہی فیض بخش ہے جو دیدارِ الٰہی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسی صحبت عبادت ہے جس میں عبد اپنے معبود سے واصل ہو جاتا ہے جس کی زندہ مثال میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ صحبت ہے جس کی بدولت مردہ دل زندہ ہوتاہے اور حیاتِ جاودانی پاتاہے۔ اس نورانی صحبت میں اپنے اصلی وطن عالمِ لاھوت کی یاد ستانے لگتی ہے جو بے قراری کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اس کا قرار بھی صرف آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت ہے یعنی درد ہی دوا ہے۔ صحبتِ یار ہی دیدار کا واحد ذریعہ ہے۔ ذریعہ بذاتِ خود دیدار بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحبت کے بغیر دیدار مفقود ہے۔ صحبت اختیار کرنے والوں اور اس کے منکروں میں اختلاف کی وجہ یہی ہے کہ اختیار کرنے والے دیدار کر چکے ہوتے ہیں، اس لئے وہ انکار نہیں کر سکتے جبکہ صحبت اختیار نہ کرنے والے کبھی آشنائے راز نہیں ہوپاتے کیونکہ جو حالات و علم صاحبِ دیدار بیان کرتا ہے وہ ان کی فہم سے بالا تر ہے۔ اس علم کا تعلق حال سے ہے جس میں سے گزرنا لازم ہے اور وہ اسی حال سے گزرنے سے انکاری ہیں۔ جو اس اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صحبت کو خالص نیت سے اپنا لیتے ہیں وہ صاحبِ راز ہو کر خود راز بن جاتے ہیں۔ بہت سے متلاشیانِ حق سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں آئے اور صحبتِ یار سے یار تک جا پہنچے کیونکہ طوافِ یار ہی طوافِ ذات کی حقیقت ہے۔ دراصل ہر کوئی اپنے حال کی ہی تصدیق کرتا ہے، چونکہ منکر کو کبھی دیدار ہوا ہی نہیں اس لیے وہ منکر ہے اور آشنائے راز دیدار کر رہا ہوتا ہے اس لیے وہ کیسے انکار کر سکتا ہے۔ جس نے شبانی سے کلیمی تک کا سفر صحبت سے طے کیا ہو وہ نہ صرف اس حقیقت کو جانتا ہے بلکہ خود حقیقت بن جاتا ہے۔ اگر پیروں کے پیر کو فیضِ صحبت کے حصول کی ضرورت در پیش آئی تو غلام ابنِ غلام در غلام کا یہ خیال کہ صحبت کی ضرورت نہیں جہالت کی انتہا کے سوا کچھ نہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا فرمان مبارک ہے:
’’انکار شیطان کا خاصہ ہے۔‘‘

قربانی

راہِ فقر و تصوف میں پہلا قدم رکھنے سے قبل قربانی درکار ہے۔ قربانی اس راہ کا دروازہ ہے جس کے ذریعے سالک جتنا چاہے راستہ بنا لے۔ چونکہ ذاتِ حقیقی لامحدود ہے اس لیے یہ سفر بھی لامحدود ہے۔ بنا بریں راستہ بھی لامحدود ہے۔ پس قربانی کی کوئی حد نہیں اور اس کی عملی صورت سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ذات مبارکہ ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اللہ کی لامحدود نعمتوں کو لامحدود ذات کے لیے خالص جذبے اورذوق و شوق سے ایک لمحے میں قربان کر کے اُسی لمحے ذاتِ یزداں کو اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ سے پا لیا، یہاں تک کہ کوئی حاجت باقی نہ رہی۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنا سب کچھ اپنے یارِ حقیقی کو دے دیا اور یار نے اپنا سب کچھ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو دے دیا۔ اس طرح دونوں یوں یکجا ہو گئے کہ آج سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا ظاہری وجود بھی صورتِ مرشد اختیار کر چکا ہے جو کہ وحدت کی انتہا کی مضبوط دلیل ہے۔ اس لیے متلاشیانِ حق پر لازم ہے کہ اس حقیقت کا کھوج لگائیں کیونکہ یہی حقیقت ان کو صاحبِ راز تک لے جانے کے لئے کافی ہے۔ 

قربانی ضروری ہے، ذاتِ باری تعالیٰ خالی دل میں ڈیرہ لگاتی ہے کیونکہ اس کو شریک پسند نہیں۔ اس لیے سب کچھ قربان کرنا ضروری ہے۔ انسان خالی ہاتھ اور خالی دل ہو تاکہ ذات جلوہ گر ہو۔ جو قربانی کو گلے نہیں لگاتا حقیقت اسے گلے نہیں لگاتی۔ اس طرح انسان پوری زندگی اللہ سے دوری میں گزار دیتا ہے۔ دل میں بت رکھ کر کیسے ایک اللہ کی گواہی دی جا سکتی ہے!! 

قربانی نہ صرف راہ ہے بلکہ کلیدِ راہ بھی ہے۔اسی سے راستے کھلتے ہیں اور ادراکِ حقیقی وارد ہوتا ہے۔ اس ادراک کی پہنچ رازِ حقیقی تک ہے اور اس راز تک پہنچنے سے پہلے ہر طرف خطرات ہیں جن سے حفاظت قربانی سے ممکن ہے۔ چنانچہ جو جتنی قربانی دیتا ہے اس کے لیے اتنے ہی قفل کھلتے ہیں جس سے راستہ آسان ہوتا ہے اور اتنا ادراکِ قلبی حاصل ہوتا ہے کہ جس سے حق واضح اور عیاں ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سالک اپنا فیصلہ ساز خود ہے کہ اس کا سفر لمبا ہو گا یا مختصر۔ جتنی دیر دل اور ہاتھ خالی ہونے میں لگتی ہے اتنی دیر اللہ تک پہنچنے میں لگتی ہے۔ اب فیصلہ سالک کا ہے کہ وہ گلا کٹوا کر مرشد کی بارگاہ میں آتا ہے یا حیلے بہانے سے کام لیتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان میں سے کسی کو اپنا ولی نہ بنائیں جب تک وہ اللہ کی راہ میں گھر بار نہ چھوڑ دے۔ (سورۃ النسا۔ 89)

وہ طالب کیسا طالب ہے کہ حقیقتِ حال سے واقف ہوتے ہوئے بھی قربانی سے دریغ کرے اور دعویٰ طلبِ مولیٰ کا کرے۔ قربانی ایک طرزِ زندگی ہے یعنی ہر لمحہ اللہ کے لیے قربانی کرنا۔ یہ بات اس وقت تک سمجھ نہیں آتی جب تک کسی عاشق ِ حقیقی کی بارگاہ میں نہ جایا جائے۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ یہ بات حقیقت بن کر اس کے وجود کا حصہ بن جائے تو پھر اسے کم از کم ایک بار عاشقوں کے سلطان، سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں عاجزی اور سچی نیت سے آنا ہو گا۔

وفا سلطان العاشقین

سالک جب تک دوئی سے اکائی میں داخل نہیں ہوتا، اس کی وفا کا امتحان ہر لمحہ ہوتا رہتا ہے۔ آزمائش سے مستثنیٰ صرف اللہ پاک کی ذات ہے۔ وفا کو ہر حالت میں کامیابی سے نبھانا مشکل ہے کیونکہ یہ پوری زندگی پر محیط ہے۔ صبر صرف مشکل میں آزمایا جاتا ہے خوشی میں نہیں جبکہ وفا غمی اور خوشی دونوں حالتوں میں آزمائی جاتی ہے۔ وفا کی پرکھ استقامت سے ہے۔ چونکہ وفا ہر لمحہ لازم ہے اس لیے ہر لمحہ استقامت بھی درکار ہوتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا فرمان ہے:
’’وفا مومن کا شعار ہے۔‘‘

وفا شعار مومنوں کے قدم کسی بھی حال میں نہیں ڈگمگاتے کیونکہ ایک بار کا ڈگمگانا بھی بسا اوقات گر جانے کا باعث بن جاتا ہے۔وفا اور استقامت کے متعلق سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا فرمان ہے:
’’نور مکمل ہونے تک اس راہ پر چلتے رہنا استقامت ہے۔‘‘

وفا اور استقامت دراصل توفیق ِمرشد کا ثمر ہے، نگاہ ِمرشد کا فیض ہے جس کے متحمل چنندہ سالکین ہوتے ہیں۔ وفا کی سب سے اعلیٰ مثال میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ہے۔ جس لمحہ آپ مدظلہ الاقدس کی نظر اپنے یارِ ازل اپنے مرشد کی نگاہ سے ٹکرائی اس لمحہ سے آپ وفا کا پیکر بن گئے۔ دنیا اِدھر سے اُدھر ہو گئی لیکن آپ مدظلہ الاقدس کی وفا میں کمی آنا تو درکنار روزافزوں ترقی ہوتی رہی اور اس انتہا کو پہنچی کہ آپ مدظلہ الاقدس مرکزِ فقر قرار پائے۔ 

آپ مدظلہ الاقدس کی وفا میں کاملیت کا یہ حال ہے کہ جس پر آپ مدظلہ الاقدس نگاہ فرما دیں وہ صاحبِ وفا بن جاتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے جن و انس میں اپنے بیشمار مریدین کو اس نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی وفاکا دائرہ کار صرف آپ کے مرشد تک محدود نہیں بلکہ آپ مدظلہ الاقدس نے تمام سروری قادری مشائخ کے ساتھ وفا کا تعلق قائم رکھا اور نبھایا۔ جس کا ثبوت گزرے ہوئے مشائخ سروری قادری کے مزارات تعمیر کروانااور ان کی خدمات اور ان کا مقام دنیا کے سامنے لانا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ان کی تعلیمات کو دوبارہ سے زندہ کر دیاہے۔ سلسلہ سروری قادری کے تسلسل کو دنیا پر ثابت کرکے قیامت تک آنے والے طالبانِ مولیٰ کو اس راہ کی اصل سے روشناس کروایا، ان کے لیے تعلیماتِ فقر کو ہر ذریعہ ابلاغ میں محفوظ فرما کر ان کے ساتھ بھی وفا کی اعلیٰ مثال قائم کر دی۔

’’شانِ سلطان العاشقین‘‘ بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے  کلک کریں

(جاری ہے)

 
 

33 تبصرے “شان سلطان العاشقین Shan Sultan-ul-Ashiqeen

    1. آپ مدظلہ الاقدس کا مبارک وجود اس حدیثِ قدسی کے مصداق ہے۔
      * میرا بندہ جب زائد نوافل کے ذریعے میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس میں اس کے کان بن جاتا ہوں وہ ان سے سنتا ہے ، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔(بخاری شریف۔963)

    2. نورِ الٰہی کی پہچان ادراک ِقلبی سے ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’میں نے اپنے ربّ کو ادراک قلبی سے پہچانا۔‘‘

  1. سلطان العاشقین کی حیات پر مضامین کی قسط وار اچھی سیریل ہے

  2. مجدد کی ہر دور میں نشانی یہ ہے کہ اس کا ہر لمحہ دین کی سر بلندی کے لئے صرف ہوتا ہے کہ جیسے میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ کے مریدین نے آپ کو آج تک ایک لمحہ کے لئے بھی فراغت کی حالت میں نہ پایا۔

  3. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے بطور مجدد دینِ محمدی کو حیاتِ نو بخش کر امت مسلمہ کے لیے آسانی پیدا کر دی۔

    1. بےشک سلطان العاشقین اس دور کے انسانِ کامل ہیں

  4. علم الیقین کے لئے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی کتب ہیں، عین الیقین کے لئے آپ کی صحبت اور حق الیقین کے لئے آپ مدظلہ الاقدس کا نورِ الٰہی سے منور چہرۂ مبارک۔ جس کی جتنی استطاعت ہے وہ اتنا فیضیاب ہے۔ جس کا جتنا پیمانہ ہے وہ اتنا ہی حاصل کر پاتا ہے گو کہ جام لامحدود ہے۔

  5. ماشاء الله کیا شان ہے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی۔

  6. اللہ تعالیٰ نے انسان کامل کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں وہ ہو بہو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ اقدس میں من و عن موجود ہیں۔
    بے شک آپ ہی عصر حاضر کے مجدد اور انسان کامل ہیں۔
    ھو نجیب یا نجیب
    حق نجیب یا نجیب

  7. بہت اچھی معلومات اس آرٹیکل سے حاصل ہوئی ہیں

  8. آپ مدظلہ الاقدس کی وفا میں کاملیت کا یہ حال ہے کہ جس پر آپ مدظلہ الاقدس نگاہ فرما دیں وہ صاحبِ وفا بن جاتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے جن و انس میں اپنے بیشمار مریدین کو اس نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہے۔

  9. مجدد کی ہر دور میں نشانی یہ ہے کہ اس کا ہر لمحہ دین کی سر بلندی کے لئے صرف ہوتا ہے کہ جیسے میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ کے مریدین نے آپ کو آج تک ایک لمحہ کے لئے بھی فراغت کی حالت میں نہ پایا

  10. بیشک آپ مدظلہ الاقدس کی شان بیان کرنا ہمارے بس میں نہیں آپ کا تصرف ہر جہان میں ہے یہ آپ کی ہی شان ہے کہ پہلے دِن ہی آپ طالبِ مولا کو اللہ پاک سے مِلا دیتے ہیں اور اگر کوئی طالبِ مولا نا ہو اور آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے آپ اُسے بھی پہلے دِن ہی اللہ پاک سے مِلا دیتے ہیں اور آپنی نگاہ ِِِِِِِکاملاسے اُسے طالبِ مولا بنا دیتے ہیں آپ مدظلہ الاقدس کا کرم سب پر یکساں ہے آپ نیک گنہگار اچھا بُرا غریب عمیر سب کو نوازتیں ہیں سب پر یکساں کرم کرتے ہیں آگے کرم لینے والے پر ہے جتنا اُس کا پیالا ہو گا وہ اُتنا ہی آپنے اندر جزب کرتا ہے آپ جیسا کریم لجپال ہر وقت آپنے طالب کے ساتھ رہنے والا مرشد مینے نہیں دیکھا

  11. مجدد کی ہر دور میں نشانی یہ ہے کہ اس کا ہر لمحہ دین کی سر بلندی کے لئے صرف ہوتا ہے کہ جیسے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ کے مریدین نے آپ کو آج تک ایک لمحہ کے لئے بھی فراغت کی حالت میں نہ پایا۔

  12. اولیا کاملین کی ذات و صفات انوارِ الٰہی کا اظہار ہیں۔

  13. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے بطور مجدد دینِ محمدی کو حیاتِ نو بخش کر امت مسلمہ کے لیے آسانی پیدا کر دی۔

  14. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 💯❤❤❤❤

  15. دوستی صرف مومن کے ساتھ کرو ، اور تمہارا کھانا کسی پرہیزگار کے پیٹ میں جانا چاہیے۔ (مستدرک حاکم 7169)

  16. MashaAllah..
    Beshaq Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman madzillah ul aqdas mojoda dor kay Insan-e-kamil hain

اپنا تبصرہ بھیجیں