Kaleed-ul-Tauheed Kalan

کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

Rate this post

کلید التوحید (کلاں)۔ قسط نمبر 8

مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

جان لو کہ باطن میں ہمیشہ حضوری میں رہنے والا کوئی شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کسی دینی و دنیوی کام کے سلسلے میں درخواست کرتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے اس کا حکم جاری ہو جاتا ہے اور اُس وقت مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اصحابِ کبار کے ہمراہ دعائے خیر بھی فرما دیتے ہیں تب بھی وہ کام ظاہری طور پر انجام نہ پائے تو اس میں کیا حکمت ہے؟ جاننا چاہیے کہ وہ طالبِ مولیٰ ابھی کاملیت کے درجے پر نہیں پہنچا اور اس کا مرتبہ ابھی ترقی پذیر ہے اور وہ طالب کسی مشکل (چیز یا مقام) کی طلب میں ہے۔ اسے باطن میں اس کی درخواست اور حال کے موافق نعم البدل عطا کر دیا جاتا ہے جس سے وہ خوش ہو جاتا ہے۔ اس مرتبہ اور قرب میں ترقی پر اسے مبارکباد۔ اگر طالب جاہل ہو یا مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مرُدار شے کی طلب کرے تو اس نالائق کو وہاں سے نکال دیا جاتا ہے یا اس کا اعلیٰ مرتبہ سلب کر لیا جاتا ہے۔ جس کا ظاہر و باطن ایک ہو جاتا ہے اس کا قدم اور مقام مرتبۂ ترقی سے بالاتر ہے۔ جو توحید تک پہنچ جاتا ہے اور صاحبِ توحید بن جاتا ہے تو اس پر توحیدِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کھل جاتی ہے۔

مصنف کہتا ہے کہ تصرف و تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے حضوری تک پہنچنا یا توجہ باطنی اور ذکر فکر سے ذاتِ حق تک پہنچنا یا اولیا اللہ کی قبور پر دعوت پڑھنے سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہونا کچھ مشکل نہیں بلکہ آسان کام ہے لیکن علم، حلم، خلق، ملک، رضا، باطن صفا، جود و کرم، شریعت اور تمام سنتِ رسولؐ پر استقامت کا شرف حاصل کرنا نہایت مشکل اور دشوار کام ہے۔ عارف باللہ وہ ہوتا ہے جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کو جان و دل سے اختیار کرے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان سے بال برابر بھی قدم نہ بڑھائے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کسوٹی کی مثل ہے۔ جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا اور درست اعتقاد سے دیکھا اور حضور پرُنور کے دیدار سے مشرف ہونے پر شکر بجا لایا اس کا نفس پاک اور قلب زندہ ہو جاتا ہے اور اس کی روح ذکرِ محمود کرتی ہے لیکن جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا لیکن درست اعتقاد نہ رکھا وہ مرتد اور مردود ہو جاتا ہے۔ جان لو کہ سات طرح کے لوگ دیدار اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے محروم ہوتے ہیں اوّل تارکِ نماز، دوم تارکِ جماعت، سوم شرابی، چہارم بدعتی، پنجم دشمنِ علمائے عامل، ششم دشمنِ فقیر ِ کامل، ہفتم اہلِ سرود اور غیر مرد و عورت کا حسن پرست۔ جو بھی صاحبِ شریعت اور صاحبِ باطن فقیرِ کامل کو خالی، بے برکت اور بے حکمت سمجھتا ہے وہ احمق اور نادان ہوتا ہے کہ مشرق تا مغرب تمام زمین کی حکومت حکمِ خدا اور اجازتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان درویشوں کے حوالے کی گئی ہے جن کے باطن معمور اور باصفا ہیں۔ فقرا کے منہ سے جو بھی الفاظ ادا ہوتے ہیں وہ حکمت سے خالی نہیں ہوتے کہ فقیر بھی حق تعالیٰ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے۔

لِسَانُ الْفُقَرَآئِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ
ترجمہ: فقرا کی زبان رحمن کی تلوار ہے۔

اس فقیر کی زبان رحمن کی تلوار ہے جو ہمیشہ ذکر، فکر اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتا ہے۔ فقیر حق تعالیٰ کی معرفت اور وصال کی بدولت لایحتاج ہوتا ہے وہ کسی سے کچھ طلب نہیں کرتا۔ جو چیز بھی کسی سے لیتا ہے اللہ تعالیٰ سے دس گنا واپس دلواتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْفَقِیْرُ لَا طَامِعَ وَ لَا جَامِعَ وَ لَا مَانِعَ
 ترجمہ: فقیر طمع نہیں کرتا اور نہ وہ جمع کرتا ہے اور نہ ہی منع کرتا ہے۔

وہ فقیر ِ کامل جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہم صحبت ہو‘ اسے کس چیز سے پہچانا جا سکتا ہے؟ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی علامت یہ ہے کہ جو لفظ بھی اس فقیر کے منہ سے نکلتا ہے وہ معرفتِ توحیدِ الٰہی سے متعلق اور فقہ، قرآن، حدیث اور تفسیر کے موافق ہوتا ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ اسے کیا ضرورت کہ نقش پرُ کرے اور خط ودائرے کھینچے اور اسے کیا ضرورت کہ دعوت پڑھے! یہ مراتب اس طالب کے ہیں جو فنا فی الشیخ کے ابتدائی احوال میں سے گزر رہا ہو۔ دوم مراتب فنا فی اللہ کی حضوری کے ہیں جو اسمِ اللہ ذات کے تصور و تصرف سے حاصل ہوتے ہیں جس سے نور کی تجلیات اور مشاہدہ کھلتا ہے۔ گرمیٔ نور اور آتشِ اسمِ اللہ ذات سر سے قدم تک قلب و قالب کو رات دن اس طرح جلاتی ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو جلاتی ہے اور وہ قیامت تک سرد نہیں ہوتی جب تک طالب بہشت میں داخل نہ ہو جائے۔ جس کے بعد وہ لقائے ربّ العالمین سے مشرف ہوتا ہے۔ حدیثِ قدسی:
فَتَنْسَوْنَ النَّعِیْمَ اِذَا رَاٰیَھَا    
ترجمہ: جب وہ (اللہ کا) دیدار کریں گے تو جنت کی نعمتوں کو بھول جائیں گے۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ج وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ (8:17)
ترجمہ: اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!یہ کنکریاں) جو آپ نے پھینکی ہیں وہ آپ نے نہیں پھینکیں بلکہ اللہ نے پھینکیں ہیں تاکہ وہ مومنین پر اپنا انعام فرما دے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الْعَبْدَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِکَثْرَۃِ الصَّوْمِ وَ بِکَثْرَۃِ الصَّلٰوۃِ اِلَّا بِاَرْبَعِ خِصَالٍ اَوَّلُھَا سَخَآئُ الْیَدَیْنِ وَالثَّانِیْھَا بِاِصْلَاحِ الْقَلْبِ وَالثَّالِثُ بِتَعْظِیْمِ الْاَمْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ الرَّابِعُ بِشَفْقَۃٍ عَلٰی خَلْقِ اللّٰہِ تَعَالٰی 
ترجمہ: بے شک کوئی شخص کثرتِ صوم اور کثرتِ نماز کی بدولت جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک اس میں یہ چار خصوصیات نہ ہوں اوّل ہاتھ کی سخاوت، دوم اصلاحِ قلب، سوم امورِ الٰہی کی تعظیم، چہارم مخلوقِ الٰہی پر شفقت۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ طاِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ (49:12)
ترجمہ: کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس وہ اس سے کراہت کرے گا۔ اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ج فَمِنْھُمْ شَقِیٌّ وَّسَعِیْدٌ  (11:105)
ترجمہ: کوئی بھی اللہ کے اذن کے بغیر کلام نہ کر سکے گا۔ ان میں سے بعض شقی ہوں گے اور بعض سعید۔

جو مومن و مسلمان کی غیبت کرتا ہے وہ زانی و فاسق ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْغِیْبَۃُ اَشَدُّ مِنَ الزَّنَآئِ
ترجمہ: غیبت زنا سے بھی بدتر ہے۔

اور زانی گویا اپنے حقیقی بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔ وہ دائمی ریاضت جو تصور اسمِ اللہ ذات سے وجود کو سر سے قدم تک پاک کر دے اس سے سخت تر اور بہتر کوئی ریاضت نہیں۔ اور آتشِ دوزخ گویا اس آتش کے ایک ذرّے سے جلائی گئی ہے جو وجود میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر ایسی آتش رکھنے والا فنا فی اللہ فقیر قہر و جلال کی نظر ڈالے تو مشرق سے مغرب تک ہر شے جلاد ے۔ لیکن اس وجود پر آفرین ہے کہ جس میں یہ آتش (بھڑک رہی) ہے لیکن پھر بھی وہ مخلوق کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ وہ شخص جو چالیس سال تک دینی و دنیوی کاموں کے لیے چالیس روزہ چلہ کرتا رہے تو اس سے بہتر ہے کہ دم بھر کے لیے تصور اسمِ  اللہ  ذات میں غرق رہے کیونکہ اہلِ تصور اسمِ اللہ ذات کا ہر مشکل کام توجہ سے ایک گھڑی میں ہی پورا ہو جاتا ہے اور وہ صاحبِ تصور جو گھڑی بھر میں باطن میں ارواح سے ملاقات کر سکتا ہو اور خاص طور پر سرورِ کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ سکتا ہو اسے کیا ضرورت کہ نمازِ استخارہ ادا کرے۔ وہ تو دونوں جہان کا نظارہ ناخن کی پشت پر دیکھ سکتا ہے۔ صاحبِ نظر اس نظارے اور چشمِ دل سے جو کچھ دیکھتا ہے وہ دوسروں کو بھی واضح طور پر دکھا سکتا ہے۔ یہ مراتب فقیر کے لیے ابتدائی سبق اور اوّل قاعدہ ہیں جیسے بچوں کو الف ب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو فقیر سے اللہ کی خاطر اخلاص نہیں رکھتے بلکہ منافقت کے باعث پتھر مارتے ہیں۔ ابیات:

از مکافات جہان غافل مشو
گندم از گندم بروید جو از جو

ترجمہ: اس جہان میں مکافاتِ عمل سے غافل نہ ہو کیونکہ گندم سے گندم اور جوَ سے جوَ پیدا ہوتے ہیں (یعنی انسان جو کرتا ہے وہی پاتا ہے)۔

باھواؒ حق راست گو فقرش چہ چیز
فقر بیرون از عقل فکرش تمیز

 ترجمہ: اے باھوؒ! سچ بتا کہ فقر کیا چیز ہے؟ فقر عقل و فکر سے بالاتر ہے۔

وہ اس لیے کہ فقر کے سر پر اللہ کا نام ہے اور فقر اسرارِ الٰہی میں سے ایک سرّ ہے۔ جو کوئی راہِ فقر پر قدم رکھتا ہے وہ اللہ کے سوا ہر شے ترک کر دیتا ہے۔ فقر مقامِ فردوس ہے کیونکہ مقامِ فردوس پر دیدار سے جمعیت حاصل ہوتی ہے اور اس مقام پر دنیا اور اہلِ دنیا کی بو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ فقر میں معرفتِ الٰہی کی بہار ہے کہ فقر کی نگاہ میں دنیا کی زینت محض خواری ہے اور فقیر اس خواری سے ہوشیار رہتا ہے اور اس کی نظر میں اہلِ دنیا اور غافل خوار ہیں۔ نہ نہ میں غلط نہیں کہتا فقرا اللہ کے نام پر جان فدا کرنے والے اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنے والے ہوتے ہیں جو اپنے دل کی آنکھوں کو ازل سے ابد تک بیدار رکھتے ہیں۔ مراتبِ فقر کے حامل صاحبِ حق الیقین اور باعتبار ہوتے ہیں۔ فقیر کی زبان ذوالفقار کی مثل ہوتی ہے جو منہ کی نیام میں رہے تو بہتر ہے اور اگر باہر نکلے تو فقرا کا قہر اللہ کے قہر کی مثل تمام عالم کو قتل کر دے کیونکہ:
لِسَانُ الْفُقَرَآئِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ 
ترجمہ: فقرا کی زبان رحمن کی تلوار ہے۔

اس لیے کہ ازل کی سیاہی ان کی زبان پر لگی ہوئی ہے۔ جو ان فقرا کا منکر ہو وہ دونوں جہان میں خوار اور پریشان رہتا ہے۔  بیت:

اصل یقین است بود با اصل
ہر کہ رسد با اصل حق وصل

ترجمہ: اصل یقین یہ ہے کہ اصل حقیقت تک پہنچا جائے اور جو اصل حقیقت تک پہنچ جائے وہ حق سے وصال پا لیتا ہے۔

وصل واصل بھی دوری کا مرتبہ ہے۔ جو توحید میں غرق ہو کر یکتا ہو جائے وہ ریا سے پاک ہو کر شوق کے ساتھ مست اور مسرور رہتا ہے۔ یہ مردانِ خدا کے مراتب ہیں۔ آرائش نہ کر کہ آرائش عورتوں کا کام ہے۔ مرد کو آرائش، سونا اور زیور سے کیا سروکار؟  بیت

زن نہ مردی بکن دست کرم بکشا کہ زر
مرد را بہر کرم زن را برائے زیور است

ترجمہ: عورت نہیں بلکہ مرد بن اور سخاوت کر کیونکہ مرد سونے کو سخاوت کے لیے اور عورت زیور کے لیے استعمال کرتی ہے۔

سن اے طالبِ مولیٰ، اہلِ محبت اور دوست! یہ مراتب اس ذکر سے حاصل ہوتے ہیں جو مغز و پوست میں جاری ہو۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (18:24)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کریں کہ خود کو بھی فراموش کر دیں۔ 

اہلِ حضور کے ہر عمل، فعل اور قول سے اللہ کے قرب، معرفت، وصال اور حضوری کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ وہ مشاہدۂ نور اور قربِ حضور میں رہنے والے صاحبِ استغراق ہوتے ہیں جن کا باطن معمور اور وجود مغفور ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں منظور ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ فنا فی اللہ کے مراتب کا حامل اس ذکر کی بدولت ہمیشہ حضوری میں رہتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
ذِکْرُ اللّٰہِ فِی الْغَدٰوۃِ وَالْعَشِّیِ اَفْضَلُ مِنْ ضَرْبِ سَیْفِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ 
ترجمہ: صبح و شام ذکرِ  اللہ میں مشغول رہنا اللہ کی راہ میں تلوار چلانے سے افضل ہے۔
لَا یَشْغُلُھُمْ شَیْئٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی طُرْفَۃُ الْعَیْنِ 
ترجمہ:  اہلِ ذکر کوئی بھی شے پل بھر کے لیے اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی۔

اللہ کے نام یعنی اسمِ اللہ ذات کے ذکر کی حقیقت اللہ کے حکم سے جس کسی پر نازل ہوتی ہے وہ اسمِ  اللہ ذات کی تاثیر سے ظاہر و باطن کے تمام علوم کا عالم فاضل بن جاتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اسمِ اللہ ذات کا ذکر حضوری ہے۔ جس کسی کے وجود میں اسمِ اللہ ذات کا ذکر تاثیر کرتا ہے تو وہ ذکر ذاکر کو معرفتِ   اِلَّا اللّٰہُ  عطا کر کے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں لے جاتا ہے اور اسمِ اللہ کا ذکر خطرات، وہمات، نجاست اور باطل کو (وجود سے) باہر نکال دیتا ہے۔ ذکر وہ ہے جو مشاہدۂ حضوری میں کیا جائے۔ مشاہدۂ حضوری کے بغیر ذکر کو ذکر نہیں کہا جا سکتا۔ اہلِ تقلید رجعت خوردہ ہوتے ہیں جو انانیت اور غرور کے مراتب پر ہوتے ہیں۔ ذکر غرق ہونے کا نام ہے اور غرق لوحِ ضمیر کو روشن کرنے والا ہوتا ہے۔ جس سے وحدانیت کے دفاتر کے اوراق کا مطالعہ حاصل ہوتا ہے یعنی وارداتِ غیبی اور فتوحات کا علم اسمِ اللہ  ذات سے کھلتا ہے اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے دکھائی دیتا ہے۔ ایسا ذاکر عیسیٰ علیہ السلام جیسے دم کا حامل اور خضر علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے۔ وہ غرق فنا فی اللہ ہوتا ہے اور دنیا و عقبیٰ سے بے غم ہوتا ہے۔ مجھے ان احمق لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو اہلِ تقلید ہیں اور سرود کی آواز پر ذکر کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہوئے اللہ کا نام زبان پر لاتے ہیں وہ مکمل طور پر کافر ہو چکے ہوتے ہیں۔ پس ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ کمینی دنیا کے مراتب کے لیے ریاضت کرتے اور پریشان رہتے ہیں۔ مقولہ ہے کہ

از دست نارسا است کہ مکارہ پارسا است

ترجمہ: مکار اگر پارسا ہے تو صرف اس لیے کہ اس کا ہاتھ گناہ تک نہیں پہنچا۔

اہلِ تقلید کا ذکر کرنا پاگل پن ہے۔ ان پر لاحول پڑھنا چاہیے۔ ان کی مستیٔ حال خام خیالی ہے اور سردی و گرمی جیسے احوال کے متعلق باتیں کرنا نامردی و مخنثی کے مراتب ہیں اور سرود سن کر ان کا رونا اور لرزناشیطانی احوال اور مراتبِ دجال ہیں۔ شعور سے بیگانہ ہو جانا اہلِ جنونیت کا مرتبہ ہے جو معرفتِ الٰہی اور باطنی حضوری سے محروم ہوتے ہیں۔ اہلِ توحید مرشد حق پر ہوتا ہے اور وہی حق تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔ لہٰذا حق کی طلب کرنی چاہیے۔ راہِ تقلید اور باطل کو چھوڑو اور اپنا رُخ توحید کی طرف کرو، قرب و معرفتِ اِلَّا اللّٰہ  حاصل کر کے شریعت کی پیروی کے لیے کمربستہ اور ہوشیار رہو۔ ذکر کا یہ سلک سلوک توحید تک پہنچاتا ہے۔ جان لو کہ معرفتِ توحید، تجرید و تفرید اور مجاہدہ کی بنیاد مشاہدئہ حق میں غرق ہونا ہے۔ ذکر فکر، استغراق اور مکاشفہ کی بنیاد زندگیٔ قلب ہے۔ کشف القلوب کے مراتب کا حامل جذب خوردہ، احمق، دیوانہ اور مجذوب ہوتا ہے۔ محاسبۂ نفس کی بنیاد مراقبہ ہے۔ کشف القبور کے مراتب خام اور نامنظور ہوتے ہیں۔ قبض و بسط، الہام و وھم اور خیال کی بنیاد ہجر و فراق سے وصال کی طرف جانا ہے۔ تمام علوم اور مراتبِ حیّ و قیوم کی بنیاد معرفت ہے۔ مراتبِ غوث و قطب کا تعلق طبقات کی سیر سے ہے جو کہ خواہشاتِ نفس سے تعلق رکھتے ہیں اور غرق فنا فی اللہ اور لامکان سے بے خبر ہیں۔

مطلب یہ کہ علمِ تصوف اور توحید کسے کہتے ہیں؟ تصوف دل کی صفائی کو کہتے ہیں۔ وہ شخص جس کا دل باصفا ہو وہی معرفت، دیدار اور وصال کے لائق ہے اور وہ ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں منظور اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر رہتا ہے اور مراتبِ غوث و قطب جو کہ طبقات کی سیر اور خواہشاتِ نفس سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان کو ترک کر دیتا ہے۔ یہ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ
اللّٰہ
  کے حامل فقیر کے مراتب کہلاتے ہیں۔ اور فقیر علمِ تصوف کا عالم اور باطن صفا ہوتا ہے جو اہلِ تصوف فقیر کے سامنے دم مارتا ہے وہ دونوں جہان میں خوار ہوتا ہے کیونکہ فقیر بارگاہِ حق میں برگزیدہ ہوتا ہے۔ وہ حق کی راہ پر چلنے والا اور ہر حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے۔ جو فقیر کے سامنے دم مارتا ہے وہ بیماری اور رجعت کا شکار ہو جاتا ہے اور فقیر کے سامنے وہی دم مارتا ہے جو بے پیر ہونے کی وجہ سے سخت سنگدل ہو یا وہ بے مرشد ہونے کی بنا پر شرمندہ چہرے والا ہو۔ فقرا کا دشمن‘ اللہ سے غافل اور شفاعتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محروم ہوتا ہے۔ فقیر نہ خدا ہوتا ہے نہ ہی خدا سے جدا ہوتا ہے۔ توُ جو کچھ چاہتا ہے فقیر سے طلب کر۔ اے طالب! فقیر ہر مطلب کی چابی ہے۔ فقیر کا دشمن کتوں کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا۔
رباعی:

با کس نمی شود رام طبع رمیدہ ما
منت کشی طلب نیست دست کشیدہ ما

ترجمہ: ہماری آزاد طبیعت کسی کی بھی غلامی میں نہیں آ سکتی اور نہ ہی تنگی میں ہم کسی کا احسان لیتے ہیں۔

ہر چند کہ خاکساریم اندازِ ما بلند است
بر شاخِ گل نشیند مرغ پریدہ ما

ترجمہ: اگر ہم عاجز ہوں پھر بھی ہماری رسائی بہت دور تک ہے۔ ہماری پرواز کا پرندہ شاخِ گُل پر بیٹھتا ہے۔

(جاری ہے)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں